Tag: ضرب المثال

  • دال میں کچھ کالا ہے!

    دال میں کچھ کالا ہے!

    کسی پوشیدہ بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ مثل بولتے ہیں، یعنی جس معاملے میں‌ ظاہراً تو کچھ نہ ہو، لیکن باطن میں کوئی نہ کوئی عیب یا خرابی ضرور ہو۔ اس مثل کو سمجھنے کے لیے یہ کہانی پڑھیے۔

    کہتے ہیں ایک نوعمر تجارت کی غرض سے کسی شہر میں گیا۔ جاتے وقت اس کے محلّے داروں اور خیر خواہوں نے اسے خبردار کردیا تھا کہ جہاں جا رہے ہو وہاں کے لوگ انتہائی جھگڑالو اور شرپسند ہیں۔ ان سے ہوشیار رہنا۔

    یہ نوعمر تاجر اپنا سامان لیے شہر پہنچا تو وہاں ایک سرائے میں قیام کے ساتھ چند دنوں کے لیے ایک مقامی شخص کو اپنے کام نمٹانے کے لیے اجرت پر رکھ لیا۔ ایک دن ہی گزرا تھا کہ کوئی کانا آدمی اس نوعمر سوداگر کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ غالباً آپ کے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے آپ خود یہاں تشریف لائے ہیں؟ وہ بیچارے جب بھی یہاں تشریف لاتے تو اسی سرائے میں قیام کرتے تھے۔ وہ لڑکا اس کانے شخص کی باتوں سے سمجھ گیا کہ یہ کوئی چالاک اور دغا باز قسم کا انسان ہے، اس لیے وہ ہوشیار ہو گیا۔

    تھوڑی دیر کے بعد کانے نے کہا۔ آپ کے والد آنکھوں کی تجارت کرتے تھے۔ ان کے پاس میں نے اپنی ایک آنکھ گروی رکھ کر کچھ روپے لیے تھے، اب آپ وہ روپے لے کر میری آنکھ واپس کر دیجے۔ نوعمر سوداگر یہ سن کر بہت گھبرایا اور اس کانے کو کل کا وعدہ کر کے اس وقت تو ٹال دیا۔ اگلے دن جب وہ آیا تو سوداگر خود کو اس کے جواب کے لیے تیار کر چکا تھا۔ اس نے کانے سے کہا کہ میرے پاس والد مرحوم کی گروی رکھی ہوئی سیکڑوں آنکھیں ہیں۔ میں رات بھر تمہاری آنکھ تلاش کرتا رہا لیکن نہ مل سکی۔ اب صرف یہی طریقہ ہے کہ تم دوسری آنکھ بھی مجھے دے دو تاکہ میں اس کے ساتھ ملا کر تلاش کر لوں اور تمہیں دے سکوں۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیں کسی دوسرے کی آنکھ بدل نہ جائے۔ کانے نے جب یہ سنا تو سمجھ گیا کہ یہاں دال گلنا دشوار ہے۔ وہ سوداگر بچّے سے اپنی جان چھڑوا کر وہاں سے نکل گیا۔

    جب یہ نوعمر سوداگر منافقوں کے اُس شہر کو چھوڑنے لگا تو اس نے ملازم کو تنخواہ دینا چاہی۔ ملازم نے کہا کہ حضور نے ملازمت دیتے وقت کہا تھا کہ کچھ دیں گے، روپوں کا معاہدہ نہیں ہوا تھا، اس لیے مجھے روپے نہیں بلکہ کچھ چاہیے۔ سوداگر سوچنے لگا کہ اس سے کیسے چھٹکارا حاصل کروں۔ اس نے ملازم کو بازار بھیج دیا اور اس روز کی پکی ہوئی مسور کی دال ایک کوزے میں بھری۔ پھر تھوڑی سی کالی مرچیں ڈال کر کوزے کو الماری میں رکھ دیا۔

    ملازم جب واپس آیا تو سوداگر بچے نے کہا کہ دیکھو تو الماری میں کیا رکھا ہے؟ حضور اس میں دال ہے۔ نوعمر تاجر نے کہا! اور کیا ہے؟ ملازم بولا۔ کالا کالا معلوم ہوتا ہے۔ سوداگر بولا! کالا کالا کیا ہے؟ ملازم نے کہا، حضور کچھ ہے۔ اسی وقت اس نوعمر سوداگر نے کہا! میں نے جو ‘کچھ’ دینے کا وعدہ تم سے کیا تھا، وہ یہی ہے۔ تم اسے اٹھا لو اور اپنے گھر کا راستہ لو۔ اس وقت سے یہ مثل مشہور ہو گئی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

  • "گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل….”

    "گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل….”

    اردو، خاص طور پر ادب میں فارسی زبان کے مصرعے، فقرے اور محاورے اس لیے بھی اجنبی یا نامانوس نہیں رہے کہ کبھی یہی ہندوستان کے شاہی دربار سے دفاتر تک رائج رہنے والی زبان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اردو زبان میں‌ عام بول چال سے ادب تک فارسی کے بہت سے مصرع یا محاورے ضرب الامثال کے طور پر برتے جاتے ہیں۔

    یہ حقیقت ہے کہ زبان کا طور اور الفاظ کا یہ مشترکہ ذخیرہ باعثِ ترقیٔ اردو بنا اور ایک عظیم تہذیب اور خوب صورت ثقافت کا امین ہے۔ ہندوستان میں‌ جب فارسی کی جگہ اردو نے لی تو اردو ادب میں فارسی کے موضوعات، تشبیہ و استعارہ، صنائع و بدائع بھی داخل ہوئے اور اس طرح اردو میں گھل مل گئے کہ لگتا ہے کہ یہ اردو ہی کے ہیں۔ آج بھی اردو بولنے والے ان محاورات کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا بَرمحل استعمال بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔

    یہاں ہم مرزا غالب کے دو اشعار نقل کررہے ہیں جس کا ایک مصرع اردو میں ضربُ المثل کے طور پر اہلِ زبان اور ادبی تخلیق کار خوب استعمال کرتے ہیں۔

    مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
    سن سن کے اسے سخنورانِ کامل
    آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمایش
    گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل

    اسی رباعی کا یہ فارسی مصرع آپ نے سنا ہو گا، "گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل…” جس کا مطلب ہے اگر بولوں تو مشکل اور نہ بولوں تو بھی مشکل۔

    کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی معاملے میں‌ انسان خاموش رہے تو بھی مشکل اور مصیبت میں گرفتار ہوتا اور بولنے پر بھی۔ اس موقع پر یہ مصرع استعمال کیا جاتا ہے۔ مشہور یہ ہے کہ مرزا غالب نے جب شاعری شروع کی تو بہت مشکل زبان اور فارسی اشعار کہا کرتے تھے، اور بیشتر لوگوں کی سمجھ میں‌ نہیں‌ آتے تھے۔ عام لوگوں اور شعرا میں بھی اس مشکل پر پسندی پر غالب مذاق اور طنز کا نشانہ بنے۔ ایک مشہور شاعر آغا جان عیشؔ نے اس پر یہ قطعہ موزوں کیا۔

    اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
    مزا کہنے کا جب ہے، اک کہے اور دوسرا سمجھے
    کلامِ میر سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
    مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

    آغا جان عیش کے اس قطعہ کے جواب میں اسد اللہ خاں غالب نے وہ رباعی کہی جو ہم نے اوپر نقل کی ہے اور اسی رباعی کا آخری مصرع ضربُ المثل کے طور پر مشہور ہے۔