Tag: ضمنی الیکشن

  • پیپلزپارٹی کو این اے 148 ملتان پر ضمنی الیکشن میں شکست کا خوف، بڑا فیصلہ کرلیا

    پیپلزپارٹی کو این اے 148 ملتان پر ضمنی الیکشن میں شکست کا خوف، بڑا فیصلہ کرلیا

    لاہور : پیپلزپارٹی نے این اے 148 میں ضمنی الیکشن پر ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ کرلیا، این اے 148 پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہونے پر پی پی کی جیت یقینی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کو این اے 148 ملتان پر ضمنی الیکشن میں شکست کا خوف ہے ، پیپلزپارٹی نے یوسف رضا گیلانی کی سیٹ بچانے کیلئے ن لیگ سے مدد لینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    پیپلزپارٹی نے این اے 148 میں ضمنی الیکشن پر ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ کرلیا، پی پی قیادت نے این اے 148 پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی منظوری دے دی ہے۔

    پی پی زرائع کا کہنا ہے کہ این اے 148 پر ایڈجسٹمنٹ کیلئے ن لیگ سے جلد رابطہ کیا جائے گا، جس میں ن لیگ سے این اے 148 پر امیدوار کھڑا نہ کرنے کی اپیل کی جائے گی،این اے 148 پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہونے پر پی پی کی جیت یقینی ہے۔

    زرائع کے مطابق یوسف رضا گیلانی این اے 148 پر 104 ووٹوں کی لیڈ سے کامیاب ہوئے تھے تاہم یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہونے پر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوں گے، یوسف رضا گیلانی کی نشست پر قاسم گیلانی امیدوار ہونگے۔

    این اے 148 سے ن لیگی امیدوار 57 ہزار ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر تھے جبکہ یوسف رضا گیلانی پیپلزپارٹی کے چیئرمین سینیٹ کے امیدوار ہوں گے۔

  • عدالت نے کراچی میں 16 مارچ کا ضمنی الیکشن روکنے کی درخواست مسترد کر دی

    عدالت نے کراچی میں 16 مارچ کا ضمنی الیکشن روکنے کی درخواست مسترد کر دی

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے کراچی میں 16 مارچ کو ہونے والے ضمنی الیکشن روکنے کی درخواست مسترد کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق آج منگل کو پاکستان تحریک انصاف کراچی کے مستعفی ایم این ایز کے استعفوں کی منظوری کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست کی سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے استعفوں کی منظوری کے حوالے سے سپریم کورٹ کی سماعت سے متعلق استفسار کیا، تو وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ میں تو یہ معاملہ پیش ہوا ہے لیکن لاہور ہائی کورٹ کا آرڈر موجود ہے۔

    وکیل نے کہا کہ اگر استعفیٰ منظور کرنے سے پہلے کہہ دیا جائے تو اسپیکر کے پاس اختیار نہیں ہے کہ استعفیٰ منظور کرے، انھیں غلط طور پر ڈی نوٹیفائی کیا گیا ہے، قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔

    شہاب امام ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے استعفوں کی منظوری کا پروسیس قانون کے مطابق پورا نہیں کیا، استعفیٰ دینے والے ارکان سے ان کے استعفوں کی تصدیق نہیں کی گئی۔

    وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بھی اس فیصلے کی روشنی میں ایم این ایز کو ڈی نوٹیفائی کر دیا، اس لیے عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ استعفوں کی منظوری کے الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے۔

    واضح رہے کہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں ایم این اے علی زیدی، آفتاب جہانگیر، فہیم خان، عطاء اللہ ایڈووکیٹ، سید الرحمان محسود، آفتاب صدیقی، اسلم خان، نجیب ہارون اور عالمگیر خان شامل تھے۔

    عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے، اور سولہ مارچ کو ضمنی الیکشن روکنے کی پی ٹی آئی اراکین کی درخواست مسترد کر دی۔

  • پی ڈی ایم اور حکمراں اتحاد کی جماعتیں  کراچی ضمنی الیکشن سے دستبردار، کاغذات نامزدگی  واپس لے لیے

    پی ڈی ایم اور حکمراں اتحاد کی جماعتیں کراچی ضمنی الیکشن سے دستبردار، کاغذات نامزدگی واپس لے لیے

    کراچی : پی ڈی ایم اور حکمراں اتحاد کی جماعتوں کے امیدواروں نے کراچی ضمنی الیکشن سے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی سے قومی اسمبلی کی 9نشستوں پر ضمنی الیکشن سے پی ڈی ایم اور حکمراں اتحاد کی جماعتیں دستبردار ہوگئیں۔

    ایم کیوایم، پی پی، ن لیگ اور جے یوآئی امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔

    9نشستوں پر پی ٹی آئی امیدواوں نے ٹکٹ جمع کرادیے، پی ڈی ایم اور حکمراں اتحاد کی جانب سے کاغذات نامزدگی واپس لینے کے بعد بیشترکی بلامقابلہ کامیابی کاامکان ہے۔

    علی زیدی این اے 241،عالمگیر خان این اے 243سے امیدوار ہوں گے، کل انتخابی نشانات الاٹ کیےجائیں گے اور 9 حلقوں پر 16 مارچ کو پولنگ ہوگی۔

    پی پی کی مرکزی قیادت کی ہدایات پیپلزپارٹی امیدواروں کو موصول ہوئی تھی ، جس کے بعد پیپلزپارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا ضمنی الیکشن سے دستبردارہوگئے۔

  • قومی اسمبلی کی 33 نشستوں پر  ضمنی انتخاب : کاغذات نامزدگی جمع  کرانےکا آج آخری دن

    قومی اسمبلی کی 33 نشستوں پر ضمنی انتخاب : کاغذات نامزدگی جمع کرانےکا آج آخری دن

    اسلام آباد : قومی اسمبلی کی  33نشستوں پر ضمنی انتخاب کیلئے کاغذات نامزدگی جمع ہونے کا آج آخری دن ہے، اب تک 26 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کراچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 33نشستوں پر ضمنی الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا آج آخری دن ہے۔

    کل 9 فروری کو امیدواروں کی لسٹ جاری کی جائے گی، کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل 13 فروری کومکمل ہوگا ، جس کے بعد 22 فروری کوامیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی جائے گی۔

    کراچی میں قومی اسمبلی کی9نشستوں پر ضمنی الیکشن شیڈول ہیں ، 2 روز کے دوران ابھی تک 26 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

    کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سے ہے، پی ٹی آئی کےسابق ارکان قومی اسمبلی اپنےہی حلقوں سے الیکشن لڑیں گے۔

    ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار ،مصطفی کمال و دیگر آج کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے۔

    خیال رہے ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 33 نشستوں پر ضمنی انتخابات 16 مارچ کو ہوں گے۔

  • ایم کیو ایم پاکستان کا ضمنی الیکشن میں حصہ لینے فیصلہ

    کراچی: ایم کیو ایم پاکستان نے ضمنی الیکشن میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سابق میئر کراچی وسیم اختر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ استعفے منظور ہونے کے بعد کراچی کی خالی نشستوں پر الیکشن لڑیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پی ڈی ایم کی اتحادی ہے لیکن فیصلے ہمارے اپنے ہوں گے اگر جماعت اسلامی یا پی ٹی آئی کا میئر آیا تو پیپلزپارٹی کام کرنے نہیں دے گی۔

    ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ چیف جسٹس بلدیاتی الیکشن پر سوموٹو ایکشن لیں ہم اداروں سے بھی امید کرتے ہیں کہ مطالبات کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔

    وسیم اختر کا کہنا تھا کہ کراچی کے مسائل کے لیے پی ٹی آئی سے اتحاد کیا تھا پھر مسائل کے حل کے لیے پی ٹی آئی کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی سے اتحاد کیا۔

    انہوں نے کہا کہ نئے میئر کے پاس نہ انتظامی اور نہ مالی اختیارات ہوں گے نیا آنے والا میئر میری طرح چار سال چیختا رہے گا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کو کیا دوسرا بنگلہ دیش بنانے کی تیاری ہے کراچی کو دو ڈویژن میں تقسیم کرنے کی بات سنی لیکن کراچی ایک ڈویژن ہونا چاہیے شہر کو سات اضلاع میں تقسیم کردیا گیا ہے۔

  • ضمنی الیکشن میں ناقص سیکیورٹی انتظامات پر ایس ایچ او ملیر، ہیڈ محرر معطل

    ضمنی الیکشن میں ناقص سیکیورٹی انتظامات پر ایس ایچ او ملیر، ہیڈ محرر معطل

    کراچی: شہر قائد میں ضمنی الیکشن میں ناقص سیکیورٹی انتظامات پر ایس ایچ او ملیر سٹی، اور ہیڈ محرر کو معطل کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے انتخابی حلقے این اے 237 میں ضمنی انتخاب کے دوران ناقص سیکیورٹی انتظامات پر اعلیٰ پولیس حکام نے ایکشن لیتے ہوئے ایس ایچ او ملیر سٹی اور ہیڈ محرر کو معطل کر دیا۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخاب کے دوران رونما ہونے والے ناخوش گوار واقعات سے متعلق ایس ایچ او سے جواب طلب کیا گیا ہے۔

    ضمنی الیکشن کے روز پی ٹی آئی رہنما بلال غفار حملے میں زخمی ہوئے تھے، جب کہ حلقے میں زبردستی ووٹنگ کی شکایات اور ڈی وی آر بھی چوری ہوا تھا۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واقعے کے حوالے سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔

  • ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    وزارتِ داخلہ کی ضمنی الیکشن اور سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست الیکشن کمیشن نے مسترد کر دی ہے اور اب قومی اسمبلی کی 8 اور پنجاب اسمبلی کی 3 نشستوں پر ضمنی الیکشن اتوار 16 اکتوبر اور کراچی کے بلدیاتی الیکشن اتوار 23 اکتوبر کو مقررہ شیڈول کے تحت ہی منعقد ہوں گے۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کے ساتھ ہی ایک سوال نے بھی جنم لے لیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان جو قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہیں وہ یہ تمام نشستیں جیت کر اپنا ہی ایک ریکارڈ توڑ دیں گے اور نئی تاریخ رقم کرکے اپنے مخالفین کو بھی سرپرائز دے سکیں گے؟ یہ تاریخ رقم کرنا اس لیے ہو گا کہ اب تک کسی بھی سیاسی رہنما نے اب تک 7 نشستوں پر بیک وقت انتخاب نہیں لڑا ہے، اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور پھر عمران خان بیک وقت 5 حلقوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 4 نشستوں کے فاتح اور ایک پر شکست کھائی تھی جب کہ عمران خان نے 2018 میں سیاست کے بڑے بڑے برج گراتے ہوئے تمام 5 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Imran Khan (@imrankhan.pti)

    ان انتخابات میں عمران خان نے این اے 53 اسلام آباد سے ن لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، بنّوں 35 جے یو آئی ف کے اکرم درانی، این اے 243 سے ایم کیو ایم پاکستان کے علی رضا عابدی، ن لیگ کے مضبوط ترین گڑھ لاہور کی نشست این اے 131 سے موجودہ وفاقی وزیر سعد رفیق کو شکست دینے کے ساتھ میانوالی سے بھی قومی اسمبلی کی نشست جیتی تھی۔

    ملک میں بیک وقت اتنی تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر غالباً پہلی بار ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات کا ڈھول اس وقت بجا جب موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین قومی اسمبلی میں سے منتخب کردہ 11 ممبران کے استعفے منظور کیے تھے جن میں دو مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین کے استعفے بھی شامل تھے۔ استعفوں کی منظوری کے بعد 9 خالی نشستوں پر ستمبر میں ضمنی الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ تاہم ملک میں سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے 16 اکتوبر کو کرانے کا اعلان کیا گیا۔

    جن اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں این اے-22 مردان 3 سے علی محمد خان، این اے- 24 چارسدہ 2 سے فضل محمد خان، این اے- 31 پشاور 5 سے شوکت علی، این اے- 45 کرم ون سے فخر زمان خان، این اے-108 فیصل آباد 8 سے فرخ حبیب، این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے اعجاز احمد شاہ، این اے-237 ملیر 2 سے جمیل احمد خان، این اے-239 کورنگی کراچی ون سے محمد اکرم چیمہ، این اے-246 کراچی جنوبی ون سے عبدالشکور شاد شامل تھے۔ ان کے علاوہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار کے استعفے بھی منظور کیے گئے تھے۔

    9 حلقوں پر ضمنی الیکشن کا اعلان ہوتے ہی پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے تمام حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی کرائے، کچھ حلقوں میں اعتراضات کے بعد تمام حلقوں سے ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے تاہم ان 9 انتخابی حلقوں میں سے دو حلقوں کراچی لیاری سے این اے 246 اور این اے 45 کرم ون کی نشستوں پر ضمنی الیکشن نہیں ہو رہے کیونکہ این اے 246 لیاری کراچی سے منتخب عبدالشکور شاد کی جانب سے اپنے استعفے کی منظوری کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے این اے 246 لیاری کراچی کی نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا جب کہ این اے 45 کرم میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کے باعث وہاں بھی پولنگ نہیں ہو رہی جس کے باعث اب ان سات حلقوں میں پولنگ ہوگی جہاں عمران خان کا براہ راست اپنے مخالفین سے ٹکراؤ ہو گا۔

    اس کے علاوہ حلقہ این اے 157 ملتان فور وہ حلقہ ہے جہاں شاہ محمود کے بیٹے شاہ زین نے پنجاب کے حالیہ ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔ یہاں سے پی ٹی آئی کی امیدوار اور شاہ محمود کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کا پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ پیپلز پارٹی کے امیدوار علی موسی گیلانی کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے جب کہ پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں پی پی 139 شیخوپورہ فائیو، پی پی 209 خانیوال سیون اور پی پی 241 بہاولنگر فائیو میں بھی اسی روز پولنگ ہوگی۔
    تاہم اتوار کو مجموعی طور پر ان 11 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں سب کی توجہ قومی اسمبلی کی ان سات نشستوں پر ہے جہاں عمران خان نے خود میدان میں اتر کر مخالفین کو بڑا چیلنج دیا ہے۔ خان صاحب اس فیصلے سے قوم سمیت اپنے تمام حریفوں کو یہ تاثر دینے میں تو کامیاب رہے ہیں کہ وہ کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کے عادی ہیں اور وکٹ گنوانے کی پروا نہیں کرتے اس کے ساتھ ہی قوم کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ عمران خان اکیلے تمام مخالف سیاسی جماعتوں کے مدمقابل ہیں۔ لیکن کیا وہ یہ معرکہ سر کر سکیں گے؟ کہیں یہ فیصلہ ان کے لیے سیاسی جوا تو ثابت نہیں ہوگا؟ یہ سوالات اس لیے کہ یہ الیکشن ایسے موقع پر ہونے جا رہے ہیں کہ جب عمران خان کو تواتر کے ساتھ اپنی متنازع اور مبینہ آڈیو لیکس منظر عام پر آنے کے بعد مخالفین کے تابڑ توڑ حملوں کے ساتھ کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

    گو کہ اس وقت عمران خان پی ڈی ایم حکومت کے نشانے پر ہیں، کئی مقدمات قائم جب کہ مزید بننے جا رہے ہیں، عدالتوں کے چکر بھی لگ رہے ہیں، خاص طور پر مبینہ آڈیو لیکس کے بعد مخالفین کے زبانی حملوں اور عملی اقدامات میں بھی تیزی آچکی ہے لیکن زمینی حقائق اور حالات کو دیکھا جائے تو ہر گزرتا دن یہ باور کراتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی ان کے مخالفین کی سب سے بڑی پریشانی ہے کہ جہاں حکمراں اتحاد بالخصوص ن لیگ کی قیادت اور رہنماؤں کو عوامی غیظ وغضب کا سامنا ہے، وہ جہاں جاتے ہیں چور، چور کی صدائیں ان کا پیچھا کرتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر ن لیگی رہنما عوامی مقامات پر جانے سے گریز کررہے ہیں جب کہ دوسری جانب مخالفین کے الزامات، مقدمات در مقدمات اور مبینہ آڈیو لیکس کے باوجود عمران خان کے جلسے اسی زور وشور سے بدستور جاری ہیں اور وہاں عوام پہلے کی طرح پرجوش انداز میں بڑی تعداد میں پہنچ رہی ہے، ایسے میں ایک جانب پی ٹی آئی کا مجوزہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اس سے قبل ضمنی الیکشن حکمرانوں کی نیندیں حرام کرچکا ہے۔ تاہم ایسے موقع پر پی ٹی آئی کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اس کے مدمقابل وہ سیاسی قوتیں ہیں جو کئی دہائیوں سے سیاسی افق پر چھائی رہی ہیں اور انہیں سیاست کے تمام گُر آتے ہیں۔

    یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی کے 123 اراکین اسمبلی نے 11 اپریل کو استعفے دیے تھے تو ان 11 حلقوں میں وہ کیا خاص بات تھی کہ پہلے مرحلے میں ان کے استعفے منظور کرنے کا انتخاب کیا گیا؟ اگر 2018 کے انتخابی نتائج سامنے رکھے جائیں تو سب پر واضح ہوجائے گا کہ پی ڈی ایم حکومت نے ان حلقوں سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو باقاعدہ ہوم ورک کر کے ڈی سیٹ کیا ہے۔

    2018 کے عام انتخابات کے نتائج پر نظر دوڑائی جائے تو ضمنی الیکشن کا معرکہ لڑنے والے مذکورہ سات حلقوں میں سے 5 حلقے ایسے ہیں جہاں ہار جیت کا مارجن صرف چند سو سے زیادہ سے زیادہ ہزار دو ہزار کے لگ بھگ رہا۔ اگر ان نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو عمران خان کیلیے 7 نشستیں جیتنا تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا بلکہ ان پر کانٹے کا مقابلہ ہوگا کیونکہ 2018 میں ان کے مخالفین کے ووٹ منقسم تھے لیکن اس الیکشن میں تمام مخالف 12 یا 13 جماعتوں کا ووٹ اکٹھا ہے اور ہر حلقے میں عمران خان کا مقابلہ بھی پی ڈی ایم کے ایک ہی مشترکہ امیدوار سے ہوگا۔

    اگر عمران خان ان میں سے کچھ حلقے ہار جاتے ہیں تو حکومت اسے اپنی جیت قرار دے گی کیونکہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد حکومتی اتحاد اس موقع کی تلاش میں ہے کہ کسی طرح عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا تاثر ختم کیا جائے اور اگر ان کے من پسند نتائج آئے تو حکومتی اتحاد کیلیے کو عوام کو متوجہ کرنے کے لیے ایک خوش کُن اور حوصلہ افزا بیانیہ مل سکتا ہے۔

    اگر عمران خان نے سات نشستیں جیت لیں تو پھر حکومتی اتحاد جس میں پہلے ہی دراڑیں‌ پڑی ہوئی ہیں، مزید دفاعی پوزیشن پر چلا جائے گا۔ اگر بھرپور جیت کے ساتھ ہی عمران خان نے اسلام آباد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا تو پھر ایک نیا سیاسی میدان سجے گا۔

    ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جہاں ضمنی الیکشن عمران خان اور حکومتی اتحاد کے لیے بڑا معرکہ ثابت ہوں گے وہیں ان کے نتائج کی بنیاد پر مستقبل کا منظر نامہ بھی تشکیل دیا جائے گا جس کے لیے سیاسی صف بندیاں کہیں دور شروع بھی ہوچکی ہیں۔

  • ضمنی الیکشن سے قبل ہی عمران خان کو بڑی کامیابی مل گئی

    ضمنی الیکشن سے قبل ہی عمران خان کو بڑی کامیابی مل گئی

    پشاور : صافی قبیلے نے ضمنی الیکشن میں عمران خان کی حمایت کا اعلان کردیا اور کہا عمران خان جیسا بہادر لیڈر ہی ہماری نمائندگی کا حقدار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور صافی قوم اتحاد کے مابین جرگہ کامیاب ہوگیا۔

    پی ٹی آئی کے جرگہ کی قیادت صوبائی وزیرکامران بنگش نےکی جبکہ صافی قوم اتحاد کی مرکزی شوریٰ کی قیادت شرف الدین صافی کررہے تھے۔

    صافی قبیلے نے ضمنی الیکشن میں عمران خان کی حمایت کا اعلان کردیا۔

    اس موقع پر شرف الدین صافی نے کہا کہ عمران خان پورےپاکستان میں امن لےکرآئے، عمران خان نےاقوام متحدہ سمیت ہرفورم پرعالم اسلام کامقدمہ لڑا۔

    ان کا کہنا تھا کہ عمران خان جیسابہادرلیڈرہی ہماری نمائندگی کاحقدارہے، صافی قبیلے کے افراد متفقہ طور پر عمران خان کو ووٹ دیں گے۔

    صوبائی وزیرکامران بنگش نے کہا کہ صافی قوم اتحادنےعمران خان کی حمایت کرکے پشاور کی سیاست کاپانسہ پلٹ دیا، سامراج کی تابعداری کےبت پاش پاش کردیں گے۔

  • ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    وزارتِ داخلہ کی ضمنی الیکشن اور سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست الیکشن کمیشن نے مسترد کر دی ہے اور اب قومی اسمبلی کی 8 اور پنجاب اسمبلی کی 3 نشستوں پر ضمنی الیکشن اتوار 16 اکتوبر اور کراچی کے بلدیاتی الیکشن اتوار 23 اکتوبر کو مقررہ شیڈول کے تحت ہی منعقد ہوں گے۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کے ساتھ ہی ایک سوال نے بھی جنم لے لیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان جو قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہیں وہ یہ تمام نشستیں جیت کر اپنا ہی ایک ریکارڈ توڑ دیں گے اور نئی تاریخ رقم کرکے اپنے مخالفین کو بھی سرپرائز دے سکیں گے؟ یہ تاریخ رقم کرنا اس لیے ہو گا کہ اب تک کسی بھی سیاسی رہنما نے اب تک 7 نشستوں پر بیک وقت انتخاب نہیں لڑا ہے، اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور پھر عمران خان بیک وقت 5 حلقوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 4 نشستوں کے فاتح اور ایک پر شکست کھائی تھی جب کہ عمران خان نے 2018 میں سیاست کے بڑے بڑے برج گراتے ہوئے تمام 5 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔

    ان انتخابات میں عمران خان نے این اے 53 اسلام آباد سے ن لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، بنّوں 35 جے یو آئی ف کے اکرم درانی، این اے 243 سے ایم کیو ایم پاکستان کے علی رضا عابدی، ن لیگ کے مضبوط ترین گڑھ لاہور کی نشست این اے 131 سے موجودہ وفاقی وزیر سعد رفیق کو شکست دینے کے ساتھ میانوالی سے بھی قومی اسمبلی کی نشست جیتی تھی۔

    ملک میں بیک وقت اتنی تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر غالباً پہلی بار ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات کا ڈھول اس وقت بجا جب موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین قومی اسمبلی میں سے منتخب کردہ 11 ممبران کے استعفے منظور کیے تھے جن میں دو مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین کے استعفے بھی شامل تھے۔ استعفوں کی منظوری کے بعد 9 خالی نشستوں پر ستمبر میں ضمنی الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ تاہم ملک میں سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے 16 اکتوبر کو کرانے کا اعلان کیا گیا۔

    جن اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں این اے-22 مردان 3 سے علی محمد خان، این اے- 24 چارسدہ 2 سے فضل محمد خان، این اے- 31 پشاور 5 سے شوکت علی، این اے- 45 کرم ون سے فخر زمان خان، این اے-108 فیصل آباد 8 سے فرخ حبیب، این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے اعجاز احمد شاہ، این اے-237 ملیر 2 سے جمیل احمد خان، این اے-239 کورنگی کراچی ون سے محمد اکرم چیمہ، این اے-246 کراچی جنوبی ون سے عبدالشکور شاد شامل تھے۔ ان کے علاوہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار کے استعفے بھی منظور کیے گئے تھے۔

    9 حلقوں پر ضمنی الیکشن کا اعلان ہوتے ہی پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے تمام حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی کرائے، کچھ حلقوں میں اعتراضات کے بعد تمام حلقوں سے ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے تاہم ان 9 انتخابی حلقوں میں سے دو حلقوں کراچی لیاری سے این اے 246 اور این اے 45 کرم ون کی نشستوں پر ضمنی الیکشن نہیں ہو رہے کیونکہ این اے 246 لیاری کراچی سے منتخب عبدالشکور شاد کی جانب سے اپنے استعفے کی منظوری کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے این اے 246 لیاری کراچی کی نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا جب کہ این اے 45 کرم میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کے باعث وہاں بھی پولنگ نہیں ہو رہی جس کے باعث اب ان سات حلقوں میں پولنگ ہوگی جہاں عمران خان کا براہ راست اپنے مخالفین سے ٹکراؤ ہو گا۔

    اس کے علاوہ حلقہ این اے 157 ملتان فور وہ حلقہ ہے جہاں شاہ محمود کے بیٹے شاہ زین نے پنجاب کے حالیہ ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔ یہاں سے پی ٹی آئی کی امیدوار اور شاہ محمود کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کا پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ پیپلز پارٹی کے امیدوار علی موسی گیلانی کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے جب کہ پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں پی پی 139 شیخوپورہ فائیو، پی پی 209 خانیوال سیون اور پی پی 241 بہاولنگر فائیو میں بھی اسی روز پولنگ ہوگی۔

    تاہم اتوار کو مجموعی طور پر ان 11 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں سب کی توجہ قومی اسمبلی کی ان سات نشستوں پر ہے جہاں عمران خان نے خود میدان میں اتر کر مخالفین کو بڑا چیلنج دیا ہے۔ خان صاحب اس فیصلے سے قوم سمیت اپنے تمام حریفوں کو یہ تاثر دینے میں تو کامیاب رہے ہیں کہ وہ کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کے عادی ہیں اور وکٹ گنوانے کی پروا نہیں کرتے اس کے ساتھ ہی قوم کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ عمران خان اکیلے تمام مخالف سیاسی جماعتوں کے مدمقابل ہیں۔ لیکن کیا وہ یہ معرکہ سر کر سکیں گے؟ کہیں یہ فیصلہ ان کے لیے سیاسی جوا تو ثابت نہیں ہوگا؟ یہ سوالات اس لیے کہ یہ الیکشن ایسے موقع پر ہونے جا رہے ہیں کہ جب عمران خان کو تواتر کے ساتھ اپنی متنازع اور مبینہ آڈیو لیکس منظر عام پر آنے کے بعد مخالفین کے تابڑ توڑ حملوں کے ساتھ کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

    گو کہ اس وقت عمران خان پی ڈی ایم حکومت کے نشانے پر ہیں، کئی مقدمات قائم جب کہ مزید بننے جا رہے ہیں، عدالتوں کے چکر بھی لگ رہے ہیں، خاص طور پر مبینہ آڈیو لیکس کے بعد مخالفین کے زبانی حملوں اور عملی اقدامات میں بھی تیزی آچکی ہے لیکن زمینی حقائق اور حالات کو دیکھا جائے تو ہر گزرتا دن یہ باور کراتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی ان کے مخالفین کی سب سے بڑی پریشانی ہے کہ جہاں حکمراں اتحاد بالخصوص ن لیگ کی قیادت اور رہنماؤں کو عوامی غیظ وغضب کا سامنا ہے، وہ جہاں جاتے ہیں چور، چور کی صدائیں ان کا پیچھا کرتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر ن لیگی رہنما عوامی مقامات پر جانے سے گریز کررہے ہیں جب کہ دوسری جانب مخالفین کے الزامات، مقدمات در مقدمات اور مبینہ آڈیو لیکس کے باوجود عمران خان کے جلسے اسی زور وشور سے بدستور جاری ہیں اور وہاں عوام پہلے کی طرح پرجوش انداز میں بڑی تعداد میں پہنچ رہی ہے، ایسے میں ایک جانب پی ٹی آئی کا مجوزہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اس سے قبل ضمنی الیکشن حکمرانوں کی نیندیں حرام کرچکا ہے۔ تاہم ایسے موقع پر پی ٹی آئی کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اس کے مدمقابل وہ سیاسی قوتیں ہیں جو کئی دہائیوں سے سیاسی افق پر چھائی رہی ہیں اور انہیں سیاست کے تمام گُر آتے ہیں۔

    یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی کے 123 اراکین اسمبلی نے 11 اپریل کو استعفے دیے تھے تو ان 11 حلقوں میں وہ کیا خاص بات تھی کہ پہلے مرحلے میں ان کے استعفے منظور کرنے کا انتخاب کیا گیا؟ اگر 2018 کے انتخابی نتائج سامنے رکھے جائیں تو سب پر واضح ہوجائے گا کہ پی ڈی ایم حکومت نے ان حلقوں سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو باقاعدہ ہوم ورک کر کے ڈی سیٹ کیا ہے۔

    2018 کے عام انتخابات کے نتائج پر نظر دوڑائی جائے تو ضمنی الیکشن کے لیے مذکورہ سات حلقوں میں سے 5 حلقے ایسے تھے جہاں ہار جیت کا مارجن صرف چند سو سے زیادہ سے زیادہ ہزار دو ہزار کے لگ بھگ رہا۔ اگر ان نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو عمران خان کیلیے 7 نشستیں جیتنا تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا بلکہ ان پر کانٹے کا مقابلہ ہوگا کیونکہ 2018 میں ان کے مخالفین کے ووٹ منقسم تھے لیکن اس الیکشن میں تمام مخالف 12 یا 13 جماعتوں کا ووٹ اکٹھا ہے اور ہر حلقے میں عمران خان کا مقابلہ بھی پی ڈی ایم کے ایک ہی مشترکہ امیدوار سے ہوگا۔

    اگر عمران خان ان میں سے کچھ حلقے ہار جاتے ہیں تو حکومت اسے اپنی جیت قرار دے گی کیونکہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد حکومتی اتحاد اس موقع کی تلاش میں ہے کہ کسی طرح عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا تاثر ختم کیا جائے اور اگر ان کے من پسند نتائج آئے تو حکومتی اتحاد کیلیے کو عوام کو متوجہ کرنے کے لیے ایک خوش کُن اور حوصلہ افزا بیانیہ مل سکتا ہے۔

    اگر عمران خان نے سات نشستیں جیت لیں تو پھر حکومتی اتحاد جس میں پہلے ہی دراڑیں‌ پڑی ہوئی ہیں، مزید دفاعی پوزیشن پر چلا جائے گا۔ اگر بھرپور جیت کے ساتھ ہی عمران خان نے اسلام آباد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا تو پھر ایک نیا سیاسی میدان سجے گا۔

    ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جہاں ضمنی الیکشن عمران خان اور حکومتی اتحاد کے لیے بڑا معرکہ ثابت ہوں گے وہیں ان کے نتائج کی بنیاد پر مستقبل کا منظر نامہ بھی تشکیل دیا جائے گا جس کے لیے سیاسی صف بندیاں کہیں دور شروع بھی ہوچکی ہیں۔

  • ‘تخت بھائی  ضمنی الیکشن کے ساتھ اسلام آباد مارچ کیلئے بھی تیار ہے’

    ‘تخت بھائی ضمنی الیکشن کے ساتھ اسلام آباد مارچ کیلئے بھی تیار ہے’

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ تخت بائی اتوار کے ضمنی انتخاب اور ہمارے اسلام آباد مارچ کیلئےتیار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر تخت بھائی جلسے کی ویڈیو شیئر کی۔

    عمران خان نے پیغام میں لکھا ‘ تخت بائی اتوار کے ضمنی الیکشن کے ساتھ ساتھ ہمارے اسلام آباد مارچ کیلئے بھی تیارہے، ہمارا ملک کبھی کسی مقصد کیلئے اتنا متحرک نہیں ہوا جتنا حقیقی آزادی کیلئے ہے۔

    گذشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ضمنی انتخابات کے حوالے سے قوم کے نام پیغام میں کہا تھا کہ 16 اکتوبر بروز اتوار آپ کےحلقوں میں ضمنی انتخاب ہونے والا ہے، یہ ضمنی انتخاب اس ملک کی تاریخ کاسب سےاہم انتخاب ہے، جس میں فیصلہ ہوگا کیا ملک حقیقی آزادہوگایامسلط ٹولےکی غلامی میں رہے گا۔

    عمران خان نے عوام سے اپیل کی اپنےملک اوربچوں کےمستقبل کےلئےنکلیں، یہ انتخاب ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کے لئے جہاد ہے۔