Tag: ضمیر جعفری

  • مشہور مزاح گو شاعر اور سگریٹ کی ڈبیا

    مشہور مزاح گو شاعر اور سگریٹ کی ڈبیا

    "باتیں کچھ ادبی’ کچھ بے ادبی کی” جمیل یوسف کے تنقیدی مضامین اور شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے ممتاز مزاح گو شاعر سید ضمیر جعفری کا خاکہ تحریر کرتے ہوئے ایک دل چسپ واقعہ بھی لکھا ہے۔

    جمیل یوسف لکھتے ہیں کہ وہ (ضمیر جعفری) کسی کی دل آزاری کے کبھی مرتکب نہ ہوئے، تحریر نہ تقریر سے۔ وہ کوئی بات ایسی کبھی نہ کرتے جس سے کسی کو کوئی دکھ پہنچے۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب ان کے بیٹے جنرل احتشام ضمیر کالج میں پڑھتے تھے تو ان کو سگریٹ نوشی کی لت پڑ گئی۔ گھر میں سگریٹ سلگانے کا تو خیر سوال ہی نہ تھا مگر ضمیر جعفری کو کسی طرح پتا چل گیا۔ ایک صبح کالج جانے کے لیے جب احتشام گھر سے نکلنے لگے تو جعفری صاحب نے گولڈ لیف کی ایک ڈبیا جو وہ غالباً ایوان صدر سے لائے ہوں گے کہ اس پر پریزیڈنٹ ہاؤس لکھا ہوا تھا، ان کی طرف بڑھا دی کہ یہ لو۔

    صاحبزادے نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ابو! سگریٹ کی ڈبیا کا میں کیا کروں گا؟ ضمیر جعفری صاحب مسکراتے ہوئے کہنے لگے، پرنسپل کو دے دینا۔”

  • ‘میجر حسرت’ جنھیں سنگا پور میں احمد علی کی تلاش تھی!

    ‘میجر حسرت’ جنھیں سنگا پور میں احمد علی کی تلاش تھی!

    دوسری عالم گیر جنگ کے خاتمے پر جب اتحادی قابض فوجیں ملایا کے ساحل پر اتریں تو مولانا چراغ حسن حسرتؔ اس کے ہراول دستوں میں شامل تھے۔ آپ دو سال سے کچھ اوپر سنگاپور میں مقیم رہے۔

    حسرت اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور صحافی تھے جن کی وجہِ شہرت ان کے طنز و مزاح پر مبنی مضامین ہیں۔ ادھر دوسری جنگ عظیم میں ضمیر جعفری بھی برطانوی فوج میں بھرتی ہوکر بیرونِ ہندوستان فرائض کی انجام دہی کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں سنگا پور میں‌ حسرت سے ملاقات ہوئی۔ ضمیر جعفری بھی طنز و مزاح کی دنیا میں ممتاز ہوئے اور انھیں مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے بے حد پذیرائی ملی۔

    پیشِ نظر تحریر ضمیر جعفری کی یادوں سے مقتبس ہے جس میں انھوں نے چراغ حسن حسرت کو اپنا مرشد کہہ کر ان سے متعلق ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرشد کے دوست مشہور ادیب پروفیسر احمد علی ہندوستان سے چین جا رہے تھے۔ ان کا جہاز شب کے چند گھنٹوں کے لیے سنگا پور میں رک رہا تھا۔ مرشد ایک مدت سے ان کی راہ تک رہے تھے اور ان کے چند گھنٹوں کے قیام کو پُرلطف بنانے کے لیے کوئی پورے تین شب و روز کی مصروفیت طے کر چھوڑی تھی۔

    لیکن اتفاق دیکھیے کہ جس شام احمد علی وہاں پہنچے ہیں، مرشد کو سوکر جاگنے، جاگ کر اٹھنے، اٹھ کر تیار ہونے اور پھر دو تین ساغر برائے ملاقات پینے میں اتنی دیر ہوگئی کہ جب ہم لوگ جہاز پر پہنچے تو پروفیسر صاحب شہر کی گشت پر نکل چکے تھے۔ اب انھیں ڈھونڈھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جاوید نے کہا کہ اتنے بڑے اجنبی، پُراسرار شہر میں اندھا دھند تلاش سے کون مل سکتا ہے۔ لیکن مرشد بہت پُرامید تھے۔

    فرمایا۔ ‘‘کیوں نہیں ملے گا۔ مجھے معلوم ہے احمد علی کو کہاں ہونا چاہیے۔ میرے بھائی میں احمد علی کو جانتا ہوں۔’’ تلاش شروع ہوئی تو احمد علی کو جہاں جہاں ہونا چاہیے تھا، ایک ایک مقام پر چھان مارا مگر وہ خدا معلوم کہاں غائب ہوگئے تھے۔

    کوئی بارہ بجے کے قریب مرشد یہ کہہ کر کہ ذرا تازہ دم ہوکر ابھی پھر نکلتے ہیں، ایک چینی ریسٹورنٹ میں گھس گئے اور وہاں جام و مینا سے نہ معلوم کیا سرگوشیاں ہوئی کہ خیالات کا دھارا احمد علی کو پا سکنے کی رجائیت کی طرف سے یک بارگی احمد علی کو نہ پا سکنے کی قنوطیت کی طرف مڑ گیا۔ بولے:

    ‘‘مولانا یہ احمد علی تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔’’

    ‘‘کیوں؟’’ہم نے پوچھا۔

    ‘‘مولانا چینیوں کے اس شہر میں احمد علی کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ سامنے کے رخ سے احمد علی بھی ساٹھ فی صدی چینی معلوم ہوتا ہے اور چینیوں کے انبوہ میں کسی چینی سے آپ خط کتابت تو کرسکتے ہیں، اسے شناخت نہیں کرسکتے۔ اب اس کو جہاز پر ہی پکڑیں گے۔’’

    پھر وہیں بیٹھے بیٹھے مرشد نے جو احمد علی کی باتیں شرع کی ہیں کہ وہ کتنا پیارا آدمی ہے، کتنا نڈر ادیب ہے، کتنا قیمتی دوست ہے تو درمیان میں ہماری وقفہ بہ وقفہ یاد دہانیوں کے بعد جب ریستواراں سے اٹھ کر آخر جہاز پر پہنچے تو جہاز ہانگ کانگ کو روانہ ہوچکا تھا۔

    بعد میں خط کتابت سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب نے بھی اس شب اپنے آپ کو سنگاپور پر چھوڑ رکھا تھا۔

  • چنیوٹ کا اچار اور سرسوں چُننے والیاں

    چنیوٹ کا اچار اور سرسوں چُننے والیاں

    جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے اور میرا حافظہ بہت دور تک کام کرتا ہے۔ صرف قریب کی باتوں اور واقعات کو یاد رکھنے سے انکاری ہے۔ تو جہاں تک یاد پڑتا ہے ضمیر بھائی سے میرا تعارف 1951ء کے اواخر میں نہایت عزیز دوست میاں فضل حسن مرحوم کے توسل سے ہوا۔ فضل صاحب شعر و ادب، شکار اور موسیقی کے رسیا تھے۔ جامع الحیثیات شخصیت، کئی ہزار کتابوں اور ایک مل کے مالک تھے۔

    شاعروں اور ادیبوں کو اس طرح جمع کرتے تھے جیسے بچّے ڈاک کے استعمال شدہ ٹکٹ یا خارج المیعاد یعنی پرانے سکّے جمع کرتے ہیں۔ وہ ہر اتوار کو سات آٹھ شاعروں کو گھیر گھار کر گارڈن ایسٹ میں اپنے دولت کدے پر لاتے جہاں ایک بجے تک گپ اور لنچ کے بعد مشاعرے کا رنگ جمتا۔

    لنچ کا ذکر اس لیے بھی کرنا پڑا کہ من جملہ دیگر لذائذ کے دستر خوان پر چنیوٹ کا اچار بھی ہوتا تھا جس میں مجھ سے فرق ناشناس کو بس اتنا ہی فرق معلوم ہوتا تھا کہ زیادہ کھٹا ہوتا ہے اور سرسوں کے تیل میں اٹھایا جاتا ہے جس کی بُو مجھے اچھی نہیں لگتی۔

    فضل صاحب کہتے تھے جس کیری پہ چنیوٹ کا طوطا بیٹھ جائے وہ بڑی جلدی پکتی اور گدر ہوتی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ طوطا اگر انڈسٹری پہ بیٹھ جائے تو وہ بھی خوب پھل دیتی ہے۔ ہمارے ناپسندیدہ تیل کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس میں الہڑ مٹیاروں کے ہاتھوں کی مست مہک آتی ہے جو سنہرے کھیتوں میں سرسوں چنتی ہیں!

    ہمیں آج بھی اس تیل کا اچار کھانا پڑا تو یہ سمجھ کے کھاتے ہیں گویا سنہرے کھیتوں میں مذکورہ بالا ہاتھوں سے مصافحہ کر رہے ہیں۔

    (نام ور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر "ضمیر واحد متبسم” سے اقتباس)

  • السلام علیکم کہا، نہ آداب، مزاج پوچھا نہ احوال!

    السلام علیکم کہا، نہ آداب، مزاج پوچھا نہ احوال!

    ضمیر جعفری جس انداز سے اپنے چاہنے والوں سے ملتے تھے، اسے خلوص یا تپاک کہنا کسر بیانی (Under-statement) ہو گا۔ ان کی چھلکتی ہمکتی گرم جوشی اس سے آگے کی چیز تھی۔

    ٹیلی فون پر بھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ’’جچھی‘‘ ڈال دی ہے اور اپنے 50 انچ چوڑے سینے سے علیٰحدہ نہیں ہونے دیں گے۔

    جیسے ہی وہ فون اٹھاتے اور میں کہتا، "میں یوسفی بول رہا ہوں” تو وہ نہ السلام علیکم کہتے، نہ آداب۔ مزاج پوچھتے نہ حال احوال۔ بلکہ مجھے بھی اتنا موقع نہ دیتے کہ یہ مراسم ادا کر سکوں۔

    فون پر بس ایک لفظی نعرۂ مستانہ سا سنائی دیتا: ’’جناب۔‘‘

    نہ میں نے کسی اور کو اس طرح لفظ ’’جناب‘‘ میں اپنی ساری شخصیت اور پیار کو سموتے سنا، نہ میں ان کے ’’جناب‘‘ کی نقل کرسکتا ہوں۔

    ممکن ہے ان کے چھوٹے صاحب زادے جو اپنے ابا کے دلآویز اور گونجیلے ترنم کی بڑی اچھی نقل کرتے ہیں، ان کے ’’جناب‘‘ کی گونج اور گمک بھی سنا سکیں۔

    وہ ’’جناب‘‘ کے ’’نا‘‘کو اپنی مخصوص لے میں اتنا کھینچتے کہ راگ دلار کا الاپ معلوم ہوتا۔

    کیسے بتاؤں کہ وہ اس سمپورن الاپ میں کیا کیا سمو دیتے تھے۔

    (مشہور مزاح نگار سید ضمیر جعفری سے متعلق مشتاق احمد یوسفی کی تحریر سے انتخاب)

  • بابائے ظرافت کو خلد آشیاں ہوئے بیس برس بیت گئے

    بابائے ظرافت کو خلد آشیاں ہوئے بیس برس بیت گئے

    اردو زبان کے مزاح گو شعرا میں‌ سید ضمیر جعفری اپنے تخلیقی جوہر کے ساتھ ساتھ بامقصد شاعری کے قائل ہونے کی وجہ سے ممتاز اور قابلِ ذکر ہیں۔ 1999 میں آج ہی کے دن فرشتہ اجل نے انھیں ابدی نیند کا پیام دیا تھا۔ آج ہم نام ور شاعر، ادیب اور مترجم سید ضمیر جعفری کی برسی منا رہے ہیں۔

    یکم جنوری 1914 کو ضلع جہلم میں پیدا ہونے والے سید ضمیر نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافت کے شعبے میں قدم رکھا۔ بعد میں فوج میں شمولیت اختیار کرلی اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    ان کے شعری مجموعوں میں کار زار، لہو ترنگ، مافی الضمیر، مسدس بے حالی، کھلیان، ضمیریات، قریۂ جان، ضمیرِ ظرافت شامل ہیں۔ انھوں نے مختلف مضامین تحریر کرنے کے ساتھ کالم نویسی بھی کی جن میں ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ سماجی مسائل اور تلخ حقیقتوں کو اجاگر کیا جاتا تھا۔

    سید ضمیر جعفری کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، تمغہ قائد اعظم سے نوازا گیا۔ وہ راولپنڈی میں سید محمد شاہ بخاری کے پہلو میں آسودۂ خاک ہیں۔