Tag: ضمیر جعفری کی شاعری

  • ‘میجر حسرت’ جنھیں سنگا پور میں احمد علی کی تلاش تھی!

    ‘میجر حسرت’ جنھیں سنگا پور میں احمد علی کی تلاش تھی!

    دوسری عالم گیر جنگ کے خاتمے پر جب اتحادی قابض فوجیں ملایا کے ساحل پر اتریں تو مولانا چراغ حسن حسرتؔ اس کے ہراول دستوں میں شامل تھے۔ آپ دو سال سے کچھ اوپر سنگاپور میں مقیم رہے۔

    حسرت اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور صحافی تھے جن کی وجہِ شہرت ان کے طنز و مزاح پر مبنی مضامین ہیں۔ ادھر دوسری جنگ عظیم میں ضمیر جعفری بھی برطانوی فوج میں بھرتی ہوکر بیرونِ ہندوستان فرائض کی انجام دہی کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں سنگا پور میں‌ حسرت سے ملاقات ہوئی۔ ضمیر جعفری بھی طنز و مزاح کی دنیا میں ممتاز ہوئے اور انھیں مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے بے حد پذیرائی ملی۔

    پیشِ نظر تحریر ضمیر جعفری کی یادوں سے مقتبس ہے جس میں انھوں نے چراغ حسن حسرت کو اپنا مرشد کہہ کر ان سے متعلق ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرشد کے دوست مشہور ادیب پروفیسر احمد علی ہندوستان سے چین جا رہے تھے۔ ان کا جہاز شب کے چند گھنٹوں کے لیے سنگا پور میں رک رہا تھا۔ مرشد ایک مدت سے ان کی راہ تک رہے تھے اور ان کے چند گھنٹوں کے قیام کو پُرلطف بنانے کے لیے کوئی پورے تین شب و روز کی مصروفیت طے کر چھوڑی تھی۔

    لیکن اتفاق دیکھیے کہ جس شام احمد علی وہاں پہنچے ہیں، مرشد کو سوکر جاگنے، جاگ کر اٹھنے، اٹھ کر تیار ہونے اور پھر دو تین ساغر برائے ملاقات پینے میں اتنی دیر ہوگئی کہ جب ہم لوگ جہاز پر پہنچے تو پروفیسر صاحب شہر کی گشت پر نکل چکے تھے۔ اب انھیں ڈھونڈھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جاوید نے کہا کہ اتنے بڑے اجنبی، پُراسرار شہر میں اندھا دھند تلاش سے کون مل سکتا ہے۔ لیکن مرشد بہت پُرامید تھے۔

    فرمایا۔ ‘‘کیوں نہیں ملے گا۔ مجھے معلوم ہے احمد علی کو کہاں ہونا چاہیے۔ میرے بھائی میں احمد علی کو جانتا ہوں۔’’ تلاش شروع ہوئی تو احمد علی کو جہاں جہاں ہونا چاہیے تھا، ایک ایک مقام پر چھان مارا مگر وہ خدا معلوم کہاں غائب ہوگئے تھے۔

    کوئی بارہ بجے کے قریب مرشد یہ کہہ کر کہ ذرا تازہ دم ہوکر ابھی پھر نکلتے ہیں، ایک چینی ریسٹورنٹ میں گھس گئے اور وہاں جام و مینا سے نہ معلوم کیا سرگوشیاں ہوئی کہ خیالات کا دھارا احمد علی کو پا سکنے کی رجائیت کی طرف سے یک بارگی احمد علی کو نہ پا سکنے کی قنوطیت کی طرف مڑ گیا۔ بولے:

    ‘‘مولانا یہ احمد علی تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔’’

    ‘‘کیوں؟’’ہم نے پوچھا۔

    ‘‘مولانا چینیوں کے اس شہر میں احمد علی کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ سامنے کے رخ سے احمد علی بھی ساٹھ فی صدی چینی معلوم ہوتا ہے اور چینیوں کے انبوہ میں کسی چینی سے آپ خط کتابت تو کرسکتے ہیں، اسے شناخت نہیں کرسکتے۔ اب اس کو جہاز پر ہی پکڑیں گے۔’’

    پھر وہیں بیٹھے بیٹھے مرشد نے جو احمد علی کی باتیں شرع کی ہیں کہ وہ کتنا پیارا آدمی ہے، کتنا نڈر ادیب ہے، کتنا قیمتی دوست ہے تو درمیان میں ہماری وقفہ بہ وقفہ یاد دہانیوں کے بعد جب ریستواراں سے اٹھ کر آخر جہاز پر پہنچے تو جہاز ہانگ کانگ کو روانہ ہوچکا تھا۔

    بعد میں خط کتابت سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب نے بھی اس شب اپنے آپ کو سنگاپور پر چھوڑ رکھا تھا۔

  • بینگن کے بھرتے پر چخ چخ اور بے جی کی یاد

    بینگن کے بھرتے پر چخ چخ اور بے جی کی یاد

    ہماری آنکھ آیائوں کی گود میں نہیں کھلی، ماں کی گود اور ماں کی کمک پر محبت میں امڈی ہوئی ماسیوں، چاچیوں، پھوپھیوں اور رشتے کی بڑی بہنوں کی گود میں کھلی۔

    یوں بھی بے جی (والدہ مکرمہ) کے پاس عورتوں کا گزری میلہ سا لگا رہتا تھا۔ کچھ تو برادری کی معاصر خواتین ہوتیں جو ایک دوسرے کے گھروں میں باقاعدہ آتی جاتی رہتی تھیں کہ اپنی گائے بھینس کے تذکرے میں اپنی بہو کی بات ملا کر چلم کا تمباکو اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکیں، لیکن بڑی تعداد آس پاس کے دیہات کی چرواہوں کی ہوتی جو اپنے ڈھورڈنگروں کو ہانکتی پھراتی ہمارے گائوں کے رقبوں میں لے آتیں اور پھر کچھ سستانے، لسی پانی پینے یا یونہی گپ شپ لڑانے کے لیے بستی میں اپنی اپنی ’’سیدھ‘‘ (جان پہچان) کے گھروں میں پھیل جاتیں۔

    ہمارا مکان ایک تو گائوں سے باہر اس طور واقع تھا کہ اگر بیرونی دیواریں مضبوط نہ ہوتیں تو کھیتوں کی فصلیں ہمارے صحن میں آ کر لہلہانے لگتیں۔ پھر اس کے ساتھ کنواں بھی، پھر ملحق ایک کھلا میدان جس کو ہم ’’کھلا کہتے ہیں (شاید کھلیان سے)۔ بہرحال ہمارے گھر میں ان سادہ روزگار اور سخت معاش چرواہوں کی ریل پیل کچھ زیادہ ہی لگی رہتی۔

    ہمارے کنبے کی آمدنی اگر آج بھی وہی ہوتی تو ہمیں دو وقت کی روٹی مشکل ہوجاتی، لیکن اس زمانے میں ہمارا گھر بستی کے خوش حال گھروں میں شمار ہوتا اور ہماری حویلی اپنے چبارے کی وجہ سے، جو مدت تک گائوں کا اکلوتا چبارہ رہا، کسی قدر منفرد حیثیت رکھتی تھی، لیکن ہمارے گھر کی جانب اطراف و اکناف کی عورتوں کا رخ ہماری ’’آسودہ حالی‘‘ سے زیادہ دراصل بے جی کی دریا دلی کی وجہ سے تھا۔

    پیسے تو ان کے پاس ہوتے نہ تھے، البتہ حویلی کی تاریک ترین کوٹھڑی میں رکھی ہوئی لکڑی کی بنی ہوئی ایک اونچی مخروطی ’’گہی‘‘ (اجناس کی ذخیرہ دانی) سے گیہوں، باجرے، جوار کے ’’ٹوپے‘‘ اور پڑوپیاں‘‘ (اجناس مانپنے کے پیمانے) بھر بھر کر حاجت مندوں میں تقسیم کرتی رہتیں۔ بے جی کا نام سردار بیگم تھا اور وہ اپنی سخاوت سے تھیں بھی ایک سردار خاتون۔

    بے جی اتنے تڑکے اٹھتیں کہ ہم دونوں بھائی ان کے ساتھ اٹھ کر پھر سوجاتے، پھر اٹھتے پھر سو جاتے، لیکن جب بھی اٹھے، مطلع عالم پر تاریکی کا پہرہ مسلط ہوتا۔ گھر کے کام کاج ان کو دن بھر سر اٹھانے کی مہلت نہ دیتے۔ آئے گئے والا گھر تھا، ایک گیا دو آگئے۔

    تنور ہر وقت گرم رہتا۔ بارہ بارہ کوس میں وعظ کی مجلس خواہ کسی گائوں میں جمتی، واعظین کا پڑائو ہمارے گھر پر ہوتا۔ ہزاروں لاکھوں مریدوں کے پیرصاحبان اس علاقے میں قدم رنجا فرماتے تو ارادت مندوں کے جلو میں ایک وقت کی ضیافت ہمارے گھر پر بھی تناول فرماتے۔

    خاندان کے متعدد بزرگوں کی سالانہ برسیاں جو اب مہینے میں دو دو مرتبہ ہو رہی تھیں، مزید براں تھیں، چنانچہ صحن میں چاول کے ’’دیگ برے‘‘ (بڑے دیگچے) اور آلو گوشت کے ’’کٹوے‘‘ (مٹی کی بڑی بڑی ہانڈیاں) چولہوں پر چڑھے رہتے۔

    بے جی گھر بار کے کسی کام کو اپنے ہاتھوں کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتیں۔ سمے کی معاشرت ہی ایسی تھی۔ بھینسیں دوہنا تو عورتوں کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی، ہم نے انہیں ایک دو مرتبہ راج مستریوں سے کرنڈی چھین کر چھت کی لپائی کرتے بھی دیکھا۔

    اس کو کہتے ہیں عالم آرائی

    ہانڈی پکانے سے چھت کی لپائی تک کسی دوسرے کا کیا ہوا کام انہیں مشکل ہی سے کبھی پسند آتا۔ آج تک ہم دونوں بھائیوں کی جتنی چخ چخ اپنی بیویوں کے ساتھ بینگن کے بھرتے پر ہوئی ہے، اس نے زندگی کا بھرتی کر رکھا ہے۔

    (بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کے اپنی والدہ سے متعلق ایک مضمون سے اقتباس)