Tag: ضیاالحق

  • جب صدر ضیاء الحق نے کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا، ’’ہم آئیں گے!‘‘

    جب صدر ضیاء الحق نے کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا، ’’ہم آئیں گے!‘‘

    5 اپریل 1982ء کو ہماری شادی تھی۔ ہم نے سوچ سمجھ کر یہ تاریخ رکھی تھی۔ تب اسلام آباد میں خوش گوار موسم ہوا کرتا ہے۔ نہ گرمی نہ سردی بلکہ بہار کا سا موسم۔ بارش کا بھی کوئی امکان نہیں ہوتا لیکن جناب اللہ نے بھی تو اپنی شان دکھانی تھی۔ حیرت انگیز اور دھماکا خیز آمد صدر ضیاءُ الحق کی تھی جن کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ شرکت کریں گے۔

    قصّہ یہ ہے کہ ہر 23 مارچ کو ضیا صاحب سے ملاقات ہوتی۔ راولپنڈی کے ریس کورس گراؤنڈ میں سالانہ فوجی پریڈ انجام پاتی جس کی سلامی صدر ضیا لیتے۔ اور ہماری ذمے داری اس پر براہِ راست رواں تبصرہ کرنا تھا۔ پہلے سال ہی انھوں نے شاباش دینے کے لیے ہماری پوری ٹیم کو اپنے گھر پر بلایا۔ اس کے بعد یہ معمول بن گیا۔

    1982ء میں ملنے گئے تو میں نے انھیں دعوت نامہ پیش کیا۔ انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کارڈ اپنے اے ڈی سی کو دیا اور کہا ’’ہم آئیں گے۔‘‘ بات آئی گئی ہو گئی۔ ہم نے سوچا کہ انھوں نے دل رکھنے کو کہہ دیا۔ ان کو آنے کا کہاں وقت ملے گا۔ ادھر سے کوئی اطلاع نہیں آئی، اس لئے، بھول گئے اور شادی کے ہنگاموں میں گم ہو گئے۔

    ولیمے کے دن صبح کے وقت میں مونا کے ساتھ اپنے نانا اور رشتے کی ایک بزرگ خاتون کو سلام کرنے نکل گیا۔ وہ شادی میں نہیں آسکے تھے۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ ایک پیغامبر بھاگتا ہوا آیا کہ جلدی واپس آئیں، صدر صاحب آرہے ہیں۔ میں نے پوچھا، کون سے صدر صاحب؟اْس نے کہا ’’ضیا صاحب‘‘۔ میں نے کہا کہ غلط فہمی ہوئی ہو گی، کسی انجمن کے صدر آرہے ہوں گے۔ جب اس نے اصرار کیا تو ہم واپس گھر پہنچے۔ وہاں دیکھا کہ سیکورٹی کے سربراہ اور ان کا عملہ بیٹھا ہوا تھا۔ انھوں نے سارے انتظامات دیکھے اور ہر طرح اطمینان حاصل کرنے کے بعد اپنا خصوصی عملہ وہاں تعینات کرنے کی اجازت حاصل کی۔ اس کے بعد ہمارے گھر کے چاروں طرف اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی۔ خصوصی کمانڈوز نے جگہیں سنبھال لیں۔ یہاں تک کہ گھر کے اندر بھی فوجی گھوم رہے تھے۔ لگا کہ مارشل لا آج لگا ہے۔ مہمانوں کی فہرستیں بھی انھوں نے قبضے میں لے لیں اور کہا کہ بغیر اجازت کے کوئی اندر نہیں آئے گا۔

    اِس بھاگ دوڑ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ شہر کے دوسرے محکمے بھی حرکت میں آگئے۔ گھر کے چاروں اطراف صفائی شروع ہوگئی اور خصوصی لائٹیں لگا دی گئیں، جس سے سارا علاقہ روشن ہو گیا۔ ان کے لیے میں کئی روز سے کوشش کر رہا تھا۔ مگرکوئی ہِل جل نہیں تھی۔ اب ایک دم دوڑ شروع ہو گئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ولیمے کی دعوت شام کو تھی جس کا انتظام باہر لان میں کیا گیا تھا۔ لیکن حکم یہ ملا کہ صدر صاحب کھانے میں شرکت نہیں کر یں گے۔ شام کو جلدی آکے کچھ دیر ٹھہر کر چلے جائیں گے۔ چناں چہ کھانے کے سارے انتظامات روک کر چائے اور دوسرے لوازمات کا بندوبست کیا گیا۔

    اس دوران صدر کے ملٹری سیکرٹری، کرنل ظہیر ملک بھی رابطہ کرتے رہے۔ میں نے جب اِس افراتفری کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ ان کا عملہ دعوت نامہ کہیں رکھ کر بھول گیا۔ ہماری طرح انھوں نے بھی یہ سوچا کہ کون سا صدر نے وہاں جانا ہے! مگر اخباروں نے شرارت کر ڈالی۔ صبح اخباروں میں شادی کی بڑی بڑی تصویروں کے ساتھ جب خبر چھپی تو صدر صاحب کی اس پر نظر پڑی۔ فوراً انھوں نے استفسار کیا کہ اِس شادی میں تو ہمیں شرکت کرنی تھی۔ اب وہاں دعوت نامے کی ڈھونڈ پڑ گئی اور جب کارڈ ملا تو وہ ولیمے کی دعوت تھی۔ اسٹاف کی جان میں جان آئی۔ فوراً بتایا گیا ’’ سر! آپ کا بلاوا آج ولیمے میں ہے۔‘‘ لیکن اس دن انھیں پشاور کسی ضروری میٹنگ میں جانا تھا اور واپسی میں ڈنر میں شرکت کرنا تھی۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ میں تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، مبارکباد دینے جاؤں گا ضرور۔

    ہمیں ان کی آمد کا وقت شام پانچ بجے بتایا گیا۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا لڑکی کی تلاش سے لے کر شادی تک کوئی کام ہمارا آسان نہ تھا۔ لہٰذا جناب، شام ہوتے ہی آندھی آگئی۔ آندھی کیا تھی طوفان تھا جو پورے اسلام آباد، پنڈی اور پشاور تک کے علاقوں میں آیا اور جس نے سب کچھ تہ و بالا کر ڈالا۔ صدر صاحب کا ہیلی کاپٹر پشاور سے واپسی میں راستے میں کہیں اتارنا پڑا، جہاں انھوں نے مغرب کی نماز ادا کی۔

    ایک بار پھر ان کی آمد کے امکانات معدوم ہونے لگے۔ ہم شش وپنج میں مبتلا ہو گئے۔ سیکورٹی کے باعث ولیمے کے دوسرے انتظامات بھی نہیں کیے جاسکتے تھے اور اوپر سے آندھی طوفان نے سب کچھ اکھاڑ پھینکا۔ لیکن شاید ان کا ارادہ مصمم تھا یا ہماری دعائیں تھیں کہ شام سات بجے کے قریب اطلاع ملی، مہمانِ گرامی پہنچنے والے ہیں۔

    تھوڑی دیر بعد موٹروں کا قافلہ گھر کے سامنے آکر رکا اور صدر صاحب، سفید شیروانی میں ملبوس مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ تشریف لائے۔ میری والدہ مرحومہ نے بڑے خوبصورت الفاظ کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ عین صدر صاحب کی آمد سے چند لمحے پہلے مووی بنانے والے کا کیمرہ گھبراہٹ میں ایسا گرا کہ اس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ لہٰذا ولیمے کی ہمارے پاس کوئی ویڈیو نہیں۔ شادی اور مہندی کی ویڈیو ہم نے امریکا آنے سے پہلے کسی کو دی کہ اسے امریکی سسٹم کے مطابق تبدیل کر دیں۔ وہ ان سے ایسی ضائع ہوئی کہ اب وہ ریکارڈ بھی نہیں۔ بس کچھ تصویریں رہ گئی ہیں جن میں سے ایک آپ دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اصل تصویریں اور لمحے ذہن پر نقش ہیں۔

    کیسے کیسے محبت کرنے والے لوگ اِس میں اپنا خلوص نچھاور کرنے آئے اور ان میں سے بہت سے اب دنیا میں نہیں رہے۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں، عبیداللہ بیگ مرحوم کو جنہوں نے نکاح کے بعد میرا سہرا پڑھا اور مونا کے گواہ بنے۔ پھر میری والدہ کیسے سایہ کیے ہوئی تھیں۔مونا کے والد مصطفیٰ راہی، جو بیٹی کے گھر سے جانے پر کتنے غم زدہ تھے۔ بھائیوں سے بڑھ کر محمد عارف مرحوم، جن کی ترجمہ کی ہوئی خبریں کئی برس ہم نے پڑھیں۔ غرض کس کس کو یاد کیجیے، کسے بھول جائیے!

    میں سمجھتا ہوں، ہم دونوں کے والدین کی دعاؤں کے باعث شادی کو چار چاند لگے۔ ہماری کسی نیکی کا صلہ یا ہمارے گھر میں مونا کے بھاگوان قدم کہ شادی کے آغاز پر ہی ایک صوفی گھرانے کے بزرگ صاحبزادہ نصیر الدین نصیر گولڑویؒ نے خود آکر دعا فرمائی اور شادی کا سہرا بھی لکھا۔ لاتعداد لوگوں نے اپنی محبت کے پھول نچھاور کیے۔ اور پھر سربراہِ مملکت نے باوجود اتنی رکاوٹوں اور وقت کی قلّت کے، ایک ادنیٰ سے فن کار کا مان اور عزت بڑھانے کی خاطر بنفسِ نفیس شرکت کر کے ان لمحات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیا۔

    (پی ٹی وی کے معروف نیوز کاسٹر خالد حمید کی آپ بیتی سے اقتباس)

  • 10 اپریل: ملکی سیاست کی تاریخ کا ایک نہایت اہم اور یادگار دن

    10 اپریل: ملکی سیاست کی تاریخ کا ایک نہایت اہم اور یادگار دن

    مارشل لاء 31 دسمبر 1985 کو اٹھا لیا گیا تھا اور اس کے اگلے ہی سال اپریل میں بے نظیر بھٹو بھی وطن واپس آگئیں جسے ملکی سیاست کی تاریخ میں نہایت اہم اور یادگار دن قرار دیا جاتا ہے۔

    لاہور میں سیاسی کارکنوں اور عوام نے بے نظیر بھٹو کا فقیدُ المثال استقبال کیا۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں، طلبہ اور مختلف شہری تنظیموں کی قیادت اور کارکنوں کے ساتھ ملک بھر میں صحافیوں اور دانشوروں کے لیے ضیاءُ‌ الحق کا دورِ آمریت پھانسی کے پھندوں، کوڑوں کی سزاؤں، احتجاجی مظاہروں‌ کے دوران بدترین تشدد سہتے ہوئے اور جیل یا پھر عدالتوں میں‌ اپنے خلاف مختلف جھوٹے مقدمات لڑتے ہوئے گزرا تھا اور 1986ء میں انھیں نوجوان سیاسی لیڈر نے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ 10 اپریل کو پیپلز پارٹی کی شریک چیئر پرسن بے نظیر بھٹو تین سالہ جلا وطنی ختم کرکے پاکستان واپس آ رہی ہیں۔

    بے نظیر بھٹو اس جلاوطنی سے قبل کئی سال اپنے وطن میں نظر بند رہی تھیں۔ اس روز صبح کے وقت وہ بذریعہ ہوائی جہاز لاہور پہنچیں جہاں سیاسی جماعت کی اس قائد اور عوامی راہ نما کو مینارِ پاکستان پر جلسۂ عام سے خطاب کرنا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی آمد پر ان کا استقبال ملک کی تاریخ کا ایک اہم اور نہایت منفرد و شان دار واقعہ ثابت ہوا۔ اس روز لاکھوں لوگ لاہور کی سڑکوں پر موجود تھے۔ محترمہ مینارِ پاکستان پہنچیں، لیکن عوام کے جلوس کی وجہ سے صرف 9 میل کا فاصلہ لگ بھگ دس گھنٹے میں طے ہوا۔ اس موقع پر کئی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے اور جیالے اپنی قائد کی آمد کی خوشی کے ساتھ بھٹو خاندان کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ لاہور کے بعد بے نظیر بھٹو نے گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا، جہلم اور راولپنڈی کے بھی دورے کیے اور ہر جگہ عوام کا سمندر تھا اور لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔

    محترمہ بے نظیر بھٹو 3 مئی 1986ء کو کراچی پہنچیں جہاں شاہراہِ قائدین پر پارٹی کی جانب سے ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ خطاب کے لیے جلسہ گاہ پہنچنے کے لیے بھی انھیں کئی گھنٹے سفر کرنا پڑا تھا۔

  • کے پی میں سرکاری اسکولوں کی طالبات کے لیے برقع پہننا لازمی قرار

    کے پی میں سرکاری اسکولوں کی طالبات کے لیے برقع پہننا لازمی قرار

    پشاور: خیبر پختون خوا کے سرکاری اسکولوں میں طالبات کے لیے برقع، عبایا پہننا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کے پی کے میں طالبات کو ہراساں ہونے سے بچانے کے لیے محکمہ تعلیم نے نیا اقدام اٹھا لیا، سرکاری اسکولوں میں طالبات کے لیے حجاب لازمی قرار دے دیا گیا۔

    یہ اقدام مشیر تعلیم کے پی ضیا اللہ خان بنگش کی ہدایت پر اٹھایا گیا ہے، اس سے قبل ہری پور میں بھی اس پر عمل کیا جا چکا ہے، محکمہ تعلیم کی جانب سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

    نوٹیفکیشن میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی جانب سے مڈل، ہائی اور ہائیر سیکنڈری اسکولوں کو عمل درآمد کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے۔

    بتایا گیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد غیر اخلاقی حرکتوں سے طالبات کو محفوظ رکھنا ہے، طالبات سے کہا جائے گا کہ وہ گاؤن، عبایا یا چادر پہن کر اسکول آئیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  اسلامیات میں مال غنیمت کو لوٹ کا مال لکھنے سے متعلق کیس، پشاور عدالت کا تصحیح کا حکم

    معلوم ہوا ہے کہ مشیر تعلیم کے قبائلی اضلاع کے دورے کے موقع پر والدین نے مطالبہ کیا تھا اسکولوں میں طالبات کے لیے پردہ لازمی قرار دیا جائے تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ اپنی بچیاں اسکول بھیج سکیں۔

    یاد رہے گزشتہ برس پشاور کے نجی اسکول کے پرنسپل عطا اللہ کو طالبات، اساتذہ اور دیگر خواتین کی اسکول میں لگے کیمروں سے ویڈیوز بنا کر انھیں ہراساں کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

    دارالحکومت کی سیشن کورٹ نے خواتین اور طالبات کو ہراساں کرنے کا الزام ثابت ہونے پر ملزم پرنسپل کو 105 سال قید اور 10 لاکھ چالیس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

    پرنسپل پر الزام تھا کہ وہ اسکول کی طالبات اور طالب علموں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور اُن کی قابل اعتراض ویڈیوز بنا کر بعد میں انھیں اپنی ہوس کا نشانہ بھی بناتا ہے۔

  • 5 جولائی ۔ منتخب حکومت پر شب خون کو 40 سال مکمل

    5 جولائی ۔ منتخب حکومت پر شب خون کو 40 سال مکمل

    پاکستان کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹے آج 40 سال بیت گئے ہیں۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو برطرف کر کے ملک میں تیسرا مارشل لا نافذ کیا تھا۔

    سنہ 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد جنرل ضیا الحق نے 5 جولائی کو ملک میں مارشل لا نافذ کیا، پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جیل میں قید کیا اور بعد ازاں انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

    آئین کی معطلی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے ملک کی سیاسی بنیادیں ہل گئیں اور 11 سال تک عوام پہ طویل آمرانہ قیادت مسلط کردی گئی جس کے دورِ حکومت میں جمہوریت پسندوں پر جیلوں میں کوڑے برسائے گے۔

    جنرل ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کرتے ہوئے ملک میں 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا جو کہ آٹھ سال کے طویل انتظار کے بعد وفا ہوا۔

    سنہ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گئے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بھی جنرل ضیا نے گھر بھیج دیا۔

    جنرل ضیا کا آمرانہ دور حکومت 17 اگست 1988 کو بہاولپور کے نزدیک ایک فضائی حادثے کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچا۔


    جنرل ضیا الحق کے دورکے اہم واقعات

    برطرف وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 17 اپریل 1979 میں عوامی اور عالمی مخالفت کے باوجود پھانسی کی سزا دے دی گئی۔

    دسمبر 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا جس کے خلاف جنرل ضیا الحق نے افغان جہاد کی شروعات کی اور ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی بھرتی کرنا شروع کیے۔

    سنہ 1981 میں جنرل ضیا الحق نے پارلیمنٹ پر پابندی عائد کرتے ہوئے مجلس شوریٰ تشکیل دی اوراسے ملک کے تمام امور کا نگہبان قرار دیا۔

    سنہ 1984 میں جنرل ضیا نے ریفرینڈم کے ذریعے صدر مملکت کا عہدہ حاصل کیا۔

    سنہ 1985 میں 8 سال پرانا وعدہ وفا کرتے ہوئے غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے۔

    29 مئی 1988 کو محمد خان جونیجو کی حکومت کو بھی برطرف کردیا گیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔