Tag: ضیا الحق

  • بونیر سیلاب: اے آر وائی کی ٹیم کس طرح مشکل حالات میں متأثرین کی آواز بنی

    بونیر سیلاب: اے آر وائی کی ٹیم کس طرح مشکل حالات میں متأثرین کی آواز بنی

    یہ جمعہ پندرہ اگست دو ہزار پچیس کی دوپہر کا وقت تھا۔ میں اپنے اے آر وائے نیوز پشاور بیورو میں موجود تھا اور صبح سے خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات کے اضلاع، شانگلہ، سوات، دیر، باجوڑ، بٹ گرام، مانسہرہ، چترال اور بونیر میں شدید بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کی لمحہ بہ لمحہ تفصیلات آرہی تھیں اور جب کوئی ایسی غیر معمولی صورتحال جنم لیتی ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ابتدائی ویڈیو یا تصاویر موبائل سے بنا کر واٹس ایپ سے شیئر کر دی جائیں اور جہاں ممکن ہو وہاں فوراً لائیو کوریج کے لئے سیٹیلائٹ لنک سے جوڑنے والی گاڑی جس پر ڈش لگی ہوتی ہے اسے روانہ کیا جائے عرف عام میں ہم اس کو ڈائرکٹ سٹیلائیٹ نیوز گیدرنگ ( ڈی ایس این جی ) گاڑی پکارتے ہیں اور اس گاڑی میں بیٹھے ڈرائیور کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو ایمبولینس کا ہوٹر لگا کر پہنچائے کیونکہ فوراً سے پیشتر پہنچ کر لائیو کوریج شروع کرنے کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔

    یقیناً یہ ایک خطرناک عمل ہوتا ہے لیکن ہر چینل چاہتا ہے کہ وہ اپنے ناظرین تک کیمرے کی آنکھ سے تازہ صورتحال سب سے پہلے بتائے۔ خیر یہ تو لائیو کوریج کی بات ہوگئی تو اسی تناظر میں ہم نے اپنے بیورو میں میٹنگ کی اور حالات کا جائزہ لیا۔ پہلا خیال تھا کہ باجوڑ جایا جائے لیکن ہمارے ساتھی ظفر اللہ نے بتایا وہاں اب سیلابی صورتحال کنٹرول میں ہے اور دوسرا سیکیورٹی نقطۂ نظر سے یہاں حالات بہتر نہیں کیونکہ سیلاب سے قبل شرپسند عناصر کے خلاف آپریشن چل رہا تھا اور ماموند تحصیل میں کچھ گاؤں سے نقل مکانی بھی ہوئی تھی۔ پھر پتہ چلا کہ بونیر اور سوات میں سیلابی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے تو فیصلہ ہوا کہ اسلام آباد بیورو سے رابطہ کرکے وہاں کی ایک ڈی ایس این جی سوات جہاں ہمارے ساتھی شہزاد عالم اور کیمرہ میں کامران کوریج کررہے تھے انکو بھیجی جائے جبکہ پشاور کی دو ڈی ایس این جیز میں ایک بونیر لے جانا کا فیصلہ ہوا۔ جہاں ہمارے ساتھی شوکت علی بھر پور کوریج کر کے پل پل کی خبر دے رہے تھے۔

    بونیر روانگی

    بونیر جانے والی ڈی ایس این جی میں راقمِ حروف اپنے کیمرہ مین ارشد خان، ڈی ایس این جی آپریٹر لئیق اور ڈرائیور رؤف کے ساتھ روانہ ہوا۔ چونکہ ہنگامی صورتحال تھی تو بیورو میں موجود، اسائنمٹ ایڈیٹر وقار احمد، رپورٹر ظفر اقبال، عدنان طارق، نواب شیر، عثمان علی، شازیہ نثار اور مدیحہ سنبل کو پشاور میں سیلاب کی صورتحال اور حکومتی اقدامات پر نظر رکھنے کی ہدایت دی جبکہ عدنان طارق کو ریسکیو کے ہیڈ کوارٹر بھیج دیا جہاں وزیر اعلیٰ کے پی علی امین کی ہدایت پر آپریشن روم بن چکا تھا۔ ہم نے پشاور میں جو انتطامات کئے تھے اس حوالے سے کراچی ہیڈ آفس میں صدر اے آر وائی نیوز عماد یوسف اور سینئر اسائنمنٹ ایڈیٹر فیاض منگی کو بھی آگاہ کیا۔ اس دوران ہم دن دو بجے پشاور سے نکلے تو کراچی سنٹرل ڈیسک سے فون موصول ہوا کہ چھ بجے آپکا بونیر سے لائیو بیپر ہوگا۔ کیونکہ میں نے انکو بتایا تھا کہ ہم چار گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔ جب ہم پشاور سے نکلے تو موسم ابر آلود تھا اور ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ پتہ چلا خیبر پختونخواحکومت نے امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لئے زمینی اور فضائی ٹیمیں روانہ کردی ہیں اور فضائی ریسکیو کے لئے دو ہیلی کاپٹر استعمال میں لائے جا رہے ہیں لیکن ان میں ایک ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا ہے اب یہ خبر جب ملی تو مصدقہ نہیں تھی اور میری کوشش تھی کہ اسکی تصدیق ہوسکے جس کے لئے جہاں نے میں پشاور کی ٹیم کو متحرک کیا وہیں باجوڑ میں ظفر اللہ اور مہمند میں اپنے ساتھی فوزی خان سے رابطہ کیا ۔ فوزی خان نے واقعہ کے رونما ہونے کے بارے میں بتایا لیکن تصدیق نہیں کرسکا۔ میرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو میں بونیر کے راستے میں تھا اور موسم خراب ہونے کی وجہ سے موبائیل سگنل بھی نہیں مل رہے تھے اس دوران میرا رابطہ کچھ ذمہ دار حکام سے ہوگیا جنہوں نے پہلے لاپتہ ہونے کی تصدیق کردی تو میں نے فیاض منگی کو بتایا اور انہوں نے خبر اے ار وائے نیوز پر بریک کروا کے میرا بیپر لے لیا اور اس دوران وزیراعلیٰ علی امین کا بیان بھی آگیا کہ ہیلی کاپٹر کریش ہوگیا ہے جس میں پائلٹ سمیت پانچ افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس خبر کو کور کرتے کرتے ہم سوات موٹر وے کے راستے کاٹلنگ مردان سے ہوتے ہوئے بونیر پہنچ گئے۔

    بونیر کا ماحول اور ڈگر ہسپتال کی صورتحال

    جب بونیر میں داخل ہوئے تو پہلا گاؤں کنگر گلی تھا لیکن وہاں زندگی معمول پر تھی حالانکہ اس وقت تک صرف بونیر میں سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ادھر سے ہم تیزی سے بونیر کے صدر مقام ڈگر کو روانہ ہوئے جہاں ضلعی ہسپتال تھا۔ وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ اے آر وائے نیوز پہلا چینل ہے جس کی ڈی ایس این جی پہنچی ہے۔ یہاں ایک افراتفری والا ماحول تھا، ایمرجنسی ہوٹر والی گاڑیوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا ۔ وہیں ہم نے ہسپتال کے باہر ڈی ایس این جی سے سٹیلائیٹ رابطہ کرکے ہسپتال کے اندر اور باہر کی فوٹیجز بھیجیں اور ساتھ لائیو تبصرہ بھی دیا ۔ میرے ساتھ ہمارے ساتھی شوکت علی بھی لائیو تھے جنہوں نے بتایا کہ بونیر کے اہم علاقے جو سیلاب سے متاثر ہوئے ان میں پیر بابا بازار، بیشنوئی،قدر نگر اور حصار تنگی ہیں ۔ ابھی ہم لائیو تبصرہ دے رہے تھے کہ اس دوران پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر جو بونیر سے ممبر قومی اسمبلی بھی ہیں پہنچ گئے اور ہمارے ساتھ گفتگو کی جو آن ائیر تھی ۔

    پیر بابا کا سفر اور سیلاب سے متاثرہ خاندان سے ملاقات
    یہاں سے ہم پیر بابا بازار کے لئے روانہ ہوئے تو مجھے ساتھی نے بتایا کہ سیلاب نے بجلی کے نظام کو شدید متاثر کیا ہے ۔ کھمبے زمین سے اکھڑ چکے ہیں ،تاریں سڑکوں پر گری ہوئی ہیں اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے موبائیل فون بھی کام نہیں کررہے ۔ ہم اپنے ساتھ احتیاطاً سٹیلائیٹ فون لے کر گئے تھے لیکن اس کے ذریعے بھی رابطہ مشکل سے ہو رہا تھا اس لئے ہم نے ہیڈ آفس سے ڈی ایس این جی کے لئے فکس پیرامیٹر لئے کہ اگر رابطہ نہ ہو تو ہم چینل کو فوٹیجز اور ریکارڈڈ تبصرہ یا انٹرویو بھیجتے رہیں جو کہ کامیاب تجربہ رہا ۔ کیونکہ جب ڈگر سے پیر بابا کے لئے روانہ ہوئے تو سلطان وس تک موبائل سگنل تھے اس وقت تک رات کی تاریکی شروع ہوچکی تھی اور یہیں میں نے گاڑی روکی تو سیلاب سے تباہ حال ایک غریب مزدور کا مکان نظر آیا جو پہلے ہی کچا تھا میں نے میری وہاں گھر کے چند مرد حضرات سے ملاقات کی جو کیچڑ سے لت پت تھے اور پاوں میں جوتے بھی نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا سیلابی پانی اچانک آیا اور بس انکو اتنا موقع ملا کہ خواتین کو گھر سے نکال سکیں باقی زیادہ تر جمع پونجی پانی کی نذر ہوگئی اور وہ یہاں اس لئے موجود ہیں جو بچ گیا ہے اسکی حفاطت کرسکیں۔

    اس موقع پر میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ صبح سے بھوکے پیاسے ہیں کیونکہ سیلاب نے کنویں اور ہینڈ پمپ کے پانی کو بھی متاثر کیا ہے ۔یہ گھر پیر بابا بازار کے راستے میں آتا تھا اور اس وقت ریسکیو اہلکار ایمبولینس کے ذریعے مردہ و زخمی افراد کو ہسپتال پہنچا رہے تھے ۔ جب میں نے اس شخص کے ساتھ لائیو تبصرہ شروع کیا تو چند مقامی رہنما کیمرے کو دیکھ کر رک گئے تاکہ انٹرویو دے سکیں لیکن میں انکو آن ایئر شرم دلائی کہ آپکے علاقے کا یہ شخص اپنی مدد آپ کے تحت گھر سے سامان نکال رہاہے کم از کم اس کی مدد نہیں کرسکتے تو کھانے یا پانی کا بندوبست کر دیں تو انکا جواب تھا پیر بابا بازار میں بہت تباہی ہوئی ہے آپ وہاں جائیں ۔ اس دوران لائیو شو میں ہمارے چینل نے وزیر اعلیٰ کے ترجمان فراز مغل سے بھی رابطہ کیا اور انکو بتایا کہ ابھی تک حکومتی امداد نہیں پہنچ سکی جبکہ انہوں نے وضاحت دی کہ ریسکیو ۱۱۲۲کے اہلکار اور ایمبولینس پہنچ چکی ہے بلکہ آرمی اور صوبائی حکومت کا ایک ہیلی کاپٹر بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے ۔

    پیر بابا بازار کی رات کا منظر

    خیر ہم وہاں سے جب پیر بابا بازار کی طرف روانہ ہوئے تو آسمان پر اندھیرا چھا چکا تھا اور زمین کی بھی یہی صورتحال تھی کیونکہ ہم نے راستہ میں دیکھا جہاں کھڑی فصلیں ، جنگل تباہی کا منظر پیش کررہے تھے وہیں بڑی تعداد میں درخت، بجلی کی تاریں اور کھمبے گرے ہوئے تھے جسکی وجہ سے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے نہ صرف بونیر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں بلکہ سواتاور شانگلہ میں بھی بجلی منقطع کردی تھی ۔ بہرحال ہم آگے بڑھے تو پیر بازار جہاں جنرل سٹور، کھانے پینے ، مٹھائی ، کپڑے ، الیکٹرانکس، ورکشاپس۔ پیربابا مزار سے متصل سوغات سے بھری سو سے زائد دکانیں تھیں وہ سامان سمیت تباہی کا منظر پیش کررہی تھیں ۔ راستے بند تھے ہر طرف کیچڑ نظر آرہا تھا ، گھر، دکانیں، گیراج، کاروباری عمارتیں سیلابی پانی اور اس میں آنے والی ریت سے بھر چکی تھیں ۔ جو گاڑی سیلاب سے پہلے زمین پر کھڑی تھی وہ یا تو سیلابی پانی کی نذر ہو گئی یا عمارتوں کی چھتوں پر پہنچ گئی تھیں جو افراد سیلاب سے بچ گئے تھے وہ بے بسی اور صدمے میں ڈوبے ہوئے تھے کیونکہ کسی کا گھر تباہ تھا تو کسی کے پیارے سیلابی پانی کی وجہ سے لاپتہ یا جاں بحق ہوگئے تھے ۔ جس سے بھی ملتا وہ یہی کہتا کہ سیلاب کی توقع نہیں تھی اور وہ بھی اتنا شدید جسکی ماضی میں کم ہی مثال ملتی ہے ۔ سب کچھ آناً فاناً ہوااور ہر طرف ایک افراتفری کا عالم تھا۔ ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ اپنے آپ اور پیاروں کو بچائے ۔ مقامی افراد کے مطابق چونکہ یہ سب کچھ اچانک ہوا اس لئے امدادی ادارے موجود نہیں تھے اور امدادی سرگرمیاں بھی سیلاب کے کچھ گھنٹوں بعد شروع ہوئیں ۔ چونکہ رات گہری ہوگئی تھی تو ہم نے کوریج کو روکا اور صبح کا انتظار کرنے لگے اور نزدیک درگاہ شلبانڈی شریف تھی تو وہاں قیام کیا وہاں ہماری بہترین مہان نوازی کی گئی ۔

    پیر بابا بازار کا سیلاب کے دوسرے دن صبح کا منظر

    سیلاب کے دوسرے دن صبح ہم ڈگر سے متصل دیہات گئے جہاں ہم نے سیلاب سے منہدم اور بہہ جانے رابطہ پل دیکھے اور جب پیر بابا پہنچے تو سڑک سے کیچڑ ہٹانے کے لئے ضلعی انتظامیہ کی گاڑیاں پہنچ چکی تھیں لیکن بڑی تعداد میں عوام پیدل ، موٹر سائیکل اور گاڑیوں پر جائے وقوعہ کی طرف رواں دواں تھے ان میں اجتماعی نمازہ جنازہ میں شرکت کرنیوالے ،رضاکار ، سرکاری حکومتی ،منتخب ممبران پارلیمنٹ ، سیاسی شخصیات میڈیا سے وابستہ افراد اور عام شہری شامل تھے ۔ کچھ تو ایسے تھے جو تماش بین تھے جس کے باعث روڈ پر جہاں صفائی کا کام جاری تھا گاڑیوں کی آمد سے بلاک ہورہا تھا اور امدادی کاموں اور ایمبولینس کی آمدورفت میں خلل پڑ رہا تھا ۔پیر بابا بازار ہر قدم پر ایک نئی کہانی تھی راستے دریا برد ہوچکے تھے ہم کیچڑ اور سیلابی پانی سے پیدل گزر کر کوریج کررہے تھے اور اس دوران ایک پرائیویٹ سکول پہنچے جہاں اساتذہ نے جب اچانک سیلاب آیا تو مختلف کلاس روم میں موجود پرائمری تا مڈل کے ڈھائی سو بچوں کو بچایا ۔ اسکی ہم نے کوریج کی جو اے آر وائے نیوز پر ایکسلوسیو چلی ہے

    قدر نگر اور بیشنوئی کا منظر

    پیر بابا سے آگے ہم قدر نگر اور بیشنوئی گئے جہاں سب زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا جو اے آر وائے نیوز نے مختلف زاویوں سے کور کیا اور اپنے ناظرین کو بھی اس سے آگاہ کیا، یہ سر سبز جاذب نظر پہاڑی علاقے ہیں اور الم کا پہاڑی علاقہ بھی اس کے قریب ہے جہاں اکثر سیکیورٹی فورسز کلئیرنس آپریشن بھی کرتی رہتی ہیں۔ یہاں تو پورے کے پورے گاوں زمین بوس ہوچکے تھے ، رابطہ پل ٹوٹ چکے تھے لیکن حکومت نے فوری ایکشن لیتے ہوئے عارضی راستہ بنایا۔ یہاں نقصان کی وجہ یہ بتائی جارہی تھی کہ پہاڑوں پر شراٹے دار بارش کا پانی گرا تو اس نے پہاڑوں کی نرم زمین کو چیرنا شروع کیا تو اس میں سے مٹی ،ریت بھی آبادی کی طرف بہنا شروع ہوگئی جسکی وجہ سے بڑے دیو ہیکل پتھر وہ بھی تیزی سے نیچے لڑکھتے ہوئے آبادی پر گرنا شروع ہوگئے اور چونکہ سر سبز ہونے کے باوجود یہاں درختوں کی انتہائی محدود تعداد تھی تو پانی ریت پتھر اور مٹی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکے۔ اس علاقے کی آبادی کا رہن سہن کا اپنا طریقہ ہے ۔ چونکہ یہاں وسائل کم ہوتے ہیں گزر بسر مقامی کھیتی باڑی ،جنگل سے لکڑی کاٹ کر اسکا ایندھن کے طور پر استعمال ہے اور گھر کشادہ اور منزل بہ منزل ہوتے ہیں تو ایک ایک گھر میں پچیس تا تیس افراد رہائش پذیر ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب تیز سیلابی پانی جو اپنے ساتھ پانی ،بجری، ریت اور پتھر لایا وہ اس آبادی سے ٹکرایا تو جہاں بڑی تعداد میں مکانات زمین بوس ہوئے اور ملبہ کا ڈھیر بن گئے وہیں ان میں موجود آبادی کی بھی بڑی تعداد میں اموات ہوئیں اور پھر ہر گھر کی اپنی کہانی تھی ۔ ان میں کچھ تو ایسے بھی تھے جنکے خاندان کا کوئی فرد نہیں بچا اور وہ ملبے کے ڈھیر تلے دب گئے اور کچھ کو سیلابی پانی بہا کر لے گیا پھر ان میں سے جن کی لاشیں ملیں وہ اکثر مسخ شدہ تھیں کہ شناخت بھی مشکل تھی اور جب امدادی سرگرمیاں شروع ہوئی تو وہ سست تھیں کیونکہ حکام کا بتانا تھا کہ وہ ملبے کو فورا ًبھاری مشینری سے ہٹانے سے گریزاں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کوئی زندہ ہو تو بھاری مشین سے اس کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے ۔ تاہم جب یقین ہوگیا کہ یہاں کوئی زندہ نہیں بچا تو پھر بھاری مشین استعمال کی گئی ۔

    عوام کے تاثرات

    ان علاقوں میں جن افراد سے ملاقات ہوئی ان کا ایک لفظ تھا کہ بس قدرتی آفت تھی تاہم زیادہ تر امدادی کاموں سے خوش تھے اور کچھ کی یہ شکایت تھی کہ رضاکار ،خیراتی ادارے و امدادی ادارے بڑی تعداد میں ان علاقوں کی طرف جارہے ہیں جہاں تباہی زیادہ ہوئی ہے اور کم تباہی والوں کو امداد کے حوالے سے کم توجہ مل رہی ہے حالانکہ نقصان انکا بھی ہوا ہے ۔وہ اپنے برباد گھروں کے دوباری اباد کاری پر پریشان نظر ارہے تھے کیونکہ انکی جمع پونجی سب سیلاب کی نظر ہوچکی تھی ۔کچھ ایسے بھی ملے جنکی بچیوں کی شادی ہونے تھی تو زیور اور دیگر سامان بھی نہیں رہا ۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا ایک طرف اتنی زیادہ خوراک تھی کہ ضائع ہورہی تھی اور دوسری طرف لوگ خوراک کے لئے بھاگ رہے ہوتے تھے ۔ جب کبھی ایسی صورتحال ہوتی تو تماش بین بھی بڑی تعداد میں پہنچ جاتے ہیں جسکی وجہ سے روڈ بلاک ہو جاتے ہیں اور امدادی سرگرمیوں میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں ۔ اس واقعے کو سات روز ہوچکے ہیں لیکن اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھی ملبہ ہٹایا جارہا ہے ۔ آخری موصولہ اطلاع کے مطابق صوبہ بھر میں 393 افراد جاں بحق، 423 مکان اور 50 سکول مکمل تباہ، 1288 گھر اور 216 سکول جزوی تباہ ہوئے ہیں۔

    خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ریسکیو کاررائیوں کے بعد اب متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے کام کا آغاز ہوچکا ہے اور متاثرہ افراد کو امدادی چیکس بھی حوالے کر دیے گئے ہیں۔

    اس المناک سانحے اور قدرتی آفت کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کرنیوالے سٹاف کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے دن رات ایک کرکے ناظرین تک اصل حقائق پہنچائے میں بطور بیوروچیف خیبرپختونخوا تمام سٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن میں رپورٹرز ظفر اقبال، شازیہ نثار، نواب شیر،عدنان طارق،مدیہہ سنبل نمائندہ بونیر سید شوکت علی، نمائندہ بونیر ریاض خان، نمائندہ سوات شہزادعالم و کامران ، نمائندہ شانگلہ سرفراز خان، نمائندہ باجوڑ ظفر اللہ بنوری، نمائندہ مانسہرہ طاہر شہزاد، نمائندہ اپردیر جمیل روغانی، نمائندہ لوئر دیر حنیف اللہ، نمائندہ بٹگرام نورالحق ہاشمی، کیمرہ مین ، ارشد خان، حیات خان، ارسلان جنید، واحد خان۔ عدیل اور محمد شکیل، ڈی ایس این جی انجینئرز طائفل نوید ۔روح اللہ ،لئیق علی شاہ، شکور، سجاد۔ ڈرائیورز محمد رؤف، عرفان، عظمت ۔آصف اور ہیلپر ہارون شامل ہیں۔

  • سابق صدر جنرل ضیا الحق کو گزرے 31 برس بیت گئے

    سابق صدر جنرل ضیا الحق کو گزرے 31 برس بیت گئے

    آج پاکستان کے چھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق کی 31 ویں برسی ہے،وہ 17 اگست 1988 میں طیارہ حادثے میں انتقال کرگئے تھے، ان کے دور میں افغان جہاد کا آغاز ہوا تھا جو آج تک خطے کے امن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

    جنرل ضیا الحق نے سنہ 1977 میں فوج کے سربراہ کی حیثیت سے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کرمارشل لاء لگایا اور بعد ازاں صدر مملکت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں ، وہیں 1988ء میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کے لیے ایک معمہ ہے۔ وہ تادمِ مرگ، سپہ سالار اورصدارت، دونوں عہدوں پر فائزرہے ہیں۔

    سابق صدرمملکت اورسابق چیف آف آرمی سٹاف، اگست 1924ء میں جالندھر کے ایک کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1945ء میں فوج میں کمیشن ملا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں اور آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹرمقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولری رجمنٹ کی قیادت کی۔

    انہوں نے اردن کی شاہی افواج میں بھی خدمات انجام دیں، مئی 1969ء میں انہیں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اورپھربریگیڈیر بنادیا گیا۔ 1973 میں میجرجنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پرترقی دے کرکورکمانڈر بنا دیا گیا اور یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پرترقی پاکرپاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔

    سنہ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اورذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیراحتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے باعث ملک میں سیاسی حالت ابترہوگئی۔ پیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اوربالاخر4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اورپیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہوا،تاہم ضیاالحق جوکہ 1975 سے پس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اورمارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے5 جولائی 1977 کو منتخب حکومت پر’آپریشن فیئر پلے‘کے نام سے شب خون مارکراقتدارپرقبضہ کرلیا۔

    انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف اور صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔ سابقہ فوجی حکمرانوں کی طرح یہ 90 دن بھی طوالت پا کر11سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے شدید مزاحمت کی جس کے نتیجے میں ان کو گرفتارکرلیاگیا اوران پرنواب احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، ہائی کورٹ نے ان کو سزائے موت سنائی اورسپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

    آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا ،ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھاجائے اوراس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا اورباربارالیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں انہوں نے اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔

    فروری 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیاگیا۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا لیکن بے اعتمادی کی بنیاد پرآٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو وزیراعظم جونیجو کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ ان پرنااہلی اوربدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ ان کے سبب اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضیاالحق کی تمام کوششوں پرپانی پھرگیا ہے۔

    جنرل ضیا کے دورمیں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے‘ جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیاسی نمائندوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاِسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کی فکر کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا دور کی جس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ ان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہے جس کے تحت ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی تیارکرکے افغانستان بھیجے گئے ان کی اس پالیسی کے نتائج ان کی موت کے 31 سال بعد بھی پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اورمنشیات کے عام استعمال کی صورت میں بھگتنا پڑرہے ہیں۔

    جنرل ضیا کا غیر قانونی اقتدار 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق اپنے قریبی رفقاء اور امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور جنرل ہربرٹ (امریکہ کی پاکستان کے لئے ملٹری امداد مشن کے سربراہ) کےہمراہ 17 اگست کو بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے اور ان کی گیارہ سالہ آمریت کا باب بند ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے طیاروں میں آم کی پیٹی میں بم رکھا گیا تھا۔

  • ذوالفقارعلی بھٹوکو کس جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی

    ذوالفقارعلی بھٹوکو کس جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی

    آج سے 40 سال قبل ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی ۔ یہ سزا کیوں دی گئی؟ یہ بات آج بھی بہت سارے لوگوں کے علم میں درست طور پر نہیں ہے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز اُنیس سو اٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائض رہے، ستمبر 1965ءمیں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد اُنیس سو ستتر کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اُنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی اور یہ قتل کا مقدمہ اس وقت کے رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا تھا۔

    گیارہ نومبر 1974ء کو رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری لاہور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گاڑی میں جارہے تھے کہ اچانک گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس سے ان کے والد نواب محمد احمد خان جاں بحق ہوگئے۔

    احمد رضا قصوری نے موقف اختیار کیا کہ ان پر فائرنگ بھٹو کے کہنے پر کی گئی، بھٹو نے ایک بار قومی اسمبلی میں مجھے دھمکیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب خاموش ہوجاؤ تمہیں بہت برداشت کرلیا اب تمہیں مزید برداشت نہیں کریں گے۔

    قصوری نے ایف آئی آر درج کرائی، وہ مارشل لا کے نفاذ تک چپ رہے لیکن مارشل لا لگتے ہی انہوں نے یہ معاملہ دوبارہ اٹھادیا۔بالآخر 24 اکتوبر 1977ء کو لاہور ہائی کورٹ میں یہ معاملہ جاپہنچا جہاں مولوی مشتاق حسین چیف جسٹس ہائی کورٹ تھے۔

    مولوی مشتاق حسین سنہ 1965 میں ذوالفقار علی بھٹو کے فارن سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرچکے تھے اور ان کے اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اختلافات سب کے سامنے تھے۔ دوسری جانب جنرل ضیا سے ان کی قربت بھی مشہور تھی، دونوں ایک ہی علاقے کے رہنے والے بھی تھے۔

    مقدمے میں تحقیقات کے دوران چار شریک ملزمان کو بھی شامل کیا گیا جنہوں نے اقبالِ جرم کیا تھا تاہم ان میں سے ایک عدالت میں آکر اپنے بیان سے پھر گیا کہ اس سے یہ بیان تشدد کے ذور پر لیا گیا تھا۔

    18 مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی جس کے بعد بھٹو کے وکلا نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کی۔سپریم کورٹ کے سات ججز تھے جس میں سے چار نے سزا برقرار رکھی اور تین نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

    اس دوران کئی عالمی سربراہان مملکت نے جنرل ضیا الحق سے درخواست کی کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے تاہم انہوں نے اسے منظور نہیں کیا۔ لیبیا کے صدر قذافی نے اپنے وزیر اعظم کو خصوصی طیارے کے ہمراہ اسلام آباد بھیجا جہاں انہوں نے اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کیں اور درخواست کی کہ بھٹو کو ملک بدر کردیا جائے اور لیبیا انہیں اپنے پاس رکھ لے گا، لیبیا کے وزیر اعظم جالود ایک ہفتے تک اسلام آباد ایئر پورٹ پر اپنے طیارے کے ہمراہ موجود رہے تاہم انہیں بھی انکار کردیا گیا۔

    ذوالفقار علی بھٹو قانون کے مطابق اس وقت کے صدر ضیا الحق سے رحم کی اپیل کرسکتے تھے لیکن ان کے ارادے دیکھتے ہوئے انہوں نے اپیل دائر نہیں کی اور انکار کردیا جس کے بعد چار اپریل کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

  • سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق طیارہ حادثے کو 30 برس بیت گئے

    سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق طیارہ حادثے کو 30 برس بیت گئے

    آج پاکستان کے سابق فوجی آمراورچھٹے صدرجنرل محمد ضیاء الحق کی 30 ویں برسی ہے،وہ 17 اگست 1988 میں طیارہ حادثے میں انتقال کرگئے تھے، انہوں نے  فوج کے سربراہ کی حیثیت سے 1977ء میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کرمارشل لاء لگایا اور بعد ازاں صدر مملکت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں ، وہیں 1988ء میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کے لیے ایک معمہ ہے۔ وہ تادمِ مرگ، سپاہ سالار اورصدارت، دونوں عہدوں پر فائزرہے ہیں۔

    سابق صدرمملکت اورسابق چیف آف آرمی سٹاف، اگست 1924ء میں جالندھر کے ایک کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سن 1945ء میں فوج میں کمیشن ملا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں اور آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹرمقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولری رجمنٹ کی قیادت کی۔

    انہوں نے اردن کی شاہی افواج میں بھی خدمات انجام دیں، مئی 1969ء میں انہیں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اورپھربریگیڈیر بنادیا گیا۔ 1973 میں میجرجنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پرترقی دے کرکورکمانڈر بنا دیا گیا اور یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پرترقی پاکرپاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔

    سنہ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اورذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیراحتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے باعث ملک میں سیاسی حالت ابترہوگئی۔ پیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اوربالاخر4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اورپیپلزپارٹی اورقومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہوا،تاہم ضیاالحق جوکہ 1975 سے پس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اورمارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے5 جولائی 1977 کو منتخب حکومت پر’آپریشن فیئر پلے‘کے نام سے شب خون مارکراقتدارپرقبضہ کرلیا۔

    انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف اور صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔ سابقہ فوجی حکمرانوں کی طرح یہ 90 دن بھی طوالت پا کر11سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے شدید مزاحمت کی جس کے نتیجے میں ان کو گرفتارکرلیاگیا اوران پرنواب احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، ہائیکورٹ نے ان کو سزائے موت سنائی اورسپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

    آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا ،ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھاجائے اوراس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا اورباربارالیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں انہوں نے اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔

    فروری 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیاگیا۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا لیکن بے اعتمادی کی بنیاد پرآٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو وزیراعظم جونیجو کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ ان پرنااہلی اوربدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ ان کے سبب اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضیاالحق کی تمام کوششوں پرپانی پھرگیا ہے۔

    جنرل ضیا کے دورمیں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے‘ جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیاسی نمائندوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاِسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کی فکر کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا دور کی جس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ ان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہے جس کے تحت ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی تیارکرکے افغانستان بھیجے گئے ان کی اس پالیسی کے نتائج ان کی موت کے ستائیس سال بعد بھی پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اورمنشیات کے عام استعمال کی صورت میں بھگتنا پڑرہے ہیں۔

    جنرل ضیا کا غیر قانونی اقتدار 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق اپنے قریبی رفقاء اورامریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور جنرل ہربرٹ (امریکہ کی پاکستان کے لئے ملٹری امداد مشن کے سربراہ) کےہمراہ 17 اگست کو بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے اور ان کی گیارہ سالہ آمریت کا باب بند ہوگیا۔

  • بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی کا یوم سیاہ

    بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی کا یوم سیاہ

    پاکستان کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹے آج 39 برس بیت گئے۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بر طرف کر کے ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کیا تھا۔

    ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی آج یوم سیاہ منائے گی۔

    جنرل ضیاء الحق
    اخباری شہ سرخی
    جنرل ضیاء الحق کے حکم نامے کا عکس

    سنہ 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی کو ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو جیل میں قید کردیا اور بعد ازاں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

    سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو

    آئین کی معطلی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے ملک کی سیاسی بنیادیں ہل گئیں اور 11 سال تک عوام پہ طویل آمرانہ قیادت مسلط کردی گئی جس کے دور حکومت میں جمہوریت پسندوں پر جیلوں میں کوڑے برسائے گے۔

    جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے ملک میں 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا جو 8 سال کے طویل انتظار کے بعد وفا ہوا۔

    سنہ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گئے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بھی جنرل ضیاء نے گھر بھیج دیا۔

    جنرل ضیاء کا آمرانہ دور حکومت 17 اگست 1988 کو بہاولپور کے نزدیک ایک فضائی حادثے کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچا۔

    حادثے کا منظر

    جنرل ضیاء الحق کے دور کے اہم واقعات

    برطرف وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو 7 اپریل 1979 میں عوامی اور عالمی مخالفت کے باوجود پھانسی کی سزا دے دی گئی۔

    دسمبر 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا جس کے خلاف جنرل ضیاء الحق نے افغان جہاد کی شروعات کی اور ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی بھرتی کرنا شروع کیے۔

    سنن 1981 میں جنرل ضیاء الحق نے پارلیمنٹ پر پابندی عائد کرتے ہوئے مجلس شوریٰ تشکیل دی اور اسے ملک کے تمام امور کا نگہبان قرار دیا۔

    سنہ 1984 میں جنرل ضیاء نے ریفرنڈم کے ذریعے صدر مملکت کا عہدہ حاصل کیا۔

    سنہ 1985 میں 8 سال پرانا وعدہ وفا کرتے ہوئے غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے۔

    محمد خان جونیجو

    سنہ 1988 میں 29 مئی کو محمد خان جونیجو کی حکومت کو بھی برطرف کردیا گیا۔


     ٹوئٹر پر ’یوم سیاہ‘ مقبول

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی یوم سیاہ کا ٹرینڈ مقبول رہا اور مختلف شخصیات نے اس دن کو مختلف انداز سے یاد کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جنرل ضیا نے نواز شریف کے ذریعے لوگوں کو خریدا، عمران خان

    جنرل ضیا نے نواز شریف کے ذریعے لوگوں کو خریدا، عمران خان

    تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ جنرل ضیا الحق کو ایک شخص ملا جو لوگوں کو خریدنے میں مہارت رکھتا تھا اور وہ نواز شریف ہے، اس نے ججوں اور صحافیوں اور سیاست دانوں کو خریدا۔


    Imran Khan comes down hard on MQM chief Altaf… by arynews

    جہلم میں کھیوڑہ کے مقام پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرپشن سن 85ء سے آئی، کرپشن نے ادارے ختم کردیے، پامانا لیکس ہم نے نہیں غیر ملکیوں نے کیں، اداروں کو آزاد کیا جائے اگر ادارے آزاد ہوگئے تو کرپشن ختم ہوجائے گی، شریف خاندان نے پنجاب پولیس کو ختم کرکے رکھ دیا۔

    انہوں نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا اگر انہوں نے تقدیر اپنے ہاتھ میں لے لی تو ملک عظیم بن جائے گا۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ہمارے صدر کا ایئرپورٹ پر استقبال کرتا تھا افسوس کہ اب ہمارا وزیراعظم اب پرچیاں لکھ لکھ کر بات کرتاہے

    انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا احتساب کیا جائے تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی، پانچ ماہ ہوگئے نواز شریف نے جواب نہ دیا۔

    عمران خان نے کہا کہ نواز شریف جواب دیں کہ انہوں نے مودی کے بیانات کی مخالفت میں بیان جاری کیوں نہ کیا،مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑ دیے گئے لیکن وزیراعظم کچھ نہ بولے،

    چیئرمین پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم قائد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قائد ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑے ہونے والے پاکستان کے ساتھ سیاست کیسے کرسکتے ہیں، پارٹی سربراہ ایسی بات کرے تو اسے نہیں چھوڑا جاتا، قائد متحدہ کے خلاف برطانوی حکومت کو باضابطہ درخواست دی جائے۔

  • آج سابق فوجی آمر ضیا الحق کی برسی ہے

    آج سابق فوجی آمر ضیا الحق کی برسی ہے

    آج پاکستان کے سابق فوجی آمر اور چھٹے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی برسی ہے وہ پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ تھے جنہوں نے 1977ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا اور بعد ازاں ملک کی صدارت کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ جہاں ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے مشہور ہیں وہیں 1988ء میں ان کی پراسرار موت بھی تاریخ دانوں کیلیے ایک معمہ ہے۔ وہ تا دم مرگ، سپاہ سالار اور صدارت، دونوں عہدوں پر فائز رہے۔

    سابق صدر مملکت و سابق چیف آف آرمی سٹاف۔ اگست 1924ء میں جالندھر میں ایک کسان محمد اکبر کے ہاں پیدا ہوئے۔ جالندھر اور دہلی میں تعلیم حاصل کی۔ سن 1945ء میں فوج میں کمشن ملادوسری جنگ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں خدمات انجام دیں۔ آزادی کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ 1964ء میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی اور سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوئے۔ 1960 تا 1968 ایک کیولر رجمنٹ کی قیادت کی۔ اردن کی شاہی افواج میں خدمات انجام دیں، مئی 1969ء میں آرمرڈ ڈویژن کا کرنل سٹاف اور پھر بریگیڈیر بنا دیا گیا۔ 1973 میں میجر جنرل اور اپریل 1975ء میں لیفٹنٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر کور کمانڈر بنا دیا گیا اور یکم مارچ 1976ء کو جنرل کے عہدے پر ترقی پا کر پاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔

    1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں عام دھاندلی کا الزام لگایا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے باعث ملک میں سیاسی حالت ابتر ہو گئی۔ پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات ہوئے اوربالاخر 4 جولائی 1977 کی شام مذاکرات کامیاب ہوئے اور پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان 17 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا معاہدہ ہوا تاہم ضیاالحق جوکہ 1975 سے پس پردہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے اور مارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے منتخب حکومت پر’’آپریشن فیئر پلے‘‘ کے نام سے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

    انہوں نے آئین معطل نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ آپریشن فیئر پلے کا مقصد صرف ملک میں 90 دن کے اندر انتخابات کروانا ہے سابقہ فوجی حکمرانوں کی طرح یہ نوے دن بھی طوالت پا کرگیارہ سال پر محیط ہو گئے۔ مارشل لاء کے نفاذ میں ذوالفقار علی بھٹو نے شدید مذاحمت کی جس کے نتیجہ میں ان کو گرفتار کرلیاگیا اوران پرایک قتل کا مقدمہ چلایا گیا، ہائیکورٹ نے ان کو سزائے موت سنائی اور سپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کر دی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ آج بھی ان کی پھانسی کو ایک عدالتی قتل قرار دیا جاتا ہے۔

    اس طرح ایک عوامی لیڈر کی موت کے بعد مارشل لاء کو دوام حاصل ہوا ضیاء الحق کی یہ کوشش رہی کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھاجائے اوراس مقصد کے لیے انہوں نے منصفانہ عام انتخابات سے گریز کیا اور بار بار الیکشن کے وعدے ملتوی ہوتے رہے۔ دسمبر 1984 میں اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا

    فروری 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرانے کااعلان کیاگیا ۔ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ یوں محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کی راہ نکل آئی۔ باہمی اعتماد کی بنیاد پر 30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھالیاگیا لیکن بے اعتمادی کی بنیاد پر آٹھویں ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو وزیر اعظم جونیجو کی حکومت کوبرطرف کردیا۔ ان پر نااہلی اور بدعنوانی کے علاوہ بڑا الزام یہ تھا کہ ان کے سبب اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضیاالحق کی تمام کوششوں پر پانی پھر گیا ہے۔

    جنرل ضیا کے دور میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کو کوڑے مارے گئے جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیاسی نمائندوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو پابند سلاسل کرکے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاعروں اور ادیبوں کی فکر کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا دور کی جس پالیسی پر سب سے زیادہ تنقید ہوتی ہے وہ ان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہے جس کے تحت ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی تیار کر کے افغانستان بھیجے گئے ان کی اس پالیسی کے نتائج انکی موت کے چھبیس سال بعد بھی پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور منشیات کے عام استعمال کی صورت میں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

    جنرل ضیا کا غیر قانونی اقتدار 1988 تک پورے شدومد کے ساتھ جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاالحق اپنے قریبی رفقاء اورامریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور جنرل ہربرٹ (امریکہ کی پاکستان کے لئے ملٹری امداد مشن کے سربراہ) کےہمراہ 17 اگست کو بہاول پور کے قریب ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے۔