Tag: طارق بن زیاد

  • الحاجب المنصور: عالمِ اسلام اور اندلس کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش کردار

    الحاجب المنصور: عالمِ اسلام اور اندلس کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش کردار

    محمد بن ابی عامر نے اندلس کی حکم رانی کا خواب اُس عمر میں دیکھا تھا جس میں ان کے ساتھی گپ شپ اور تفریحی مشاغل میں مصروف رہتے تھے۔ ماہ و سال کی گردش نے جب ان کے خواب کو حقیقت میں بدلا تو وہ محمد بن ابی عامر الحاجب المنصور کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ اندلس کے بہترین منتظم جب کہ عالمِ اسلام کے بہادر اور فاتح سپاہ سالار بنے۔

    اندلس کی تاریخ کے اس فرماں روا کے بارے میں کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے، لیکن کئی معتبر مؤرخین اور تذکرہ نویسوں کے علاوہ مشہور سیاحوں نے ان کے عہد کا مختصر احوال رقم کیا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ محمد بن ابی عامر المنصور کے حالاتِ زندگی اور تخت سے فتوحات تک تفصیل میں جائیں تو ہمیں کئی روایات اور ان سے منسوب قصائص پڑھنے کو ملیں گے جن سے ان کی سیرت و کردار اور عہدِ حکم رانی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ آئیے حالاتِ زندگی سے انھیں جاننے کا آغاز کرتے ہیں۔

    ان کا آبائی وطن جنوبی اسپین بتایا جاتا ہے جہاں انھوں نے ایک ساحلی شہر الخضرا کے متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ مؤرخین کی اکثریت متفق ہے کہ ان کا سنِ پیدائش 937ء رہا ہوگا۔ ابن ابی عامر کے جدامجد کا نام عبدالمالک المعفری تھا جو اندلس کی پہلی فتح کے زمانے میں طارق بن زیاد کے سپاہیوں میں سے ایک تھا اور یہاں الخضرا کے قریب آباد ہوا تھا۔ اسی سپاہی کی آٹھویں نسل میں محمد بن ابی عامر پیدا ہوئے۔

    ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں اس دور کے دستور کے مطابق مکمل کرکے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے قرطبہ آنے والے محمد بن ابی عامر کو دورانِ تعلیم بڑا آدمی بننے کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے حاجبُ السّلطنت (وزیر اعظم) بننے کا خواب دیکھنا شروع کردیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ سنجیدگی سے اس کے لیے منصوبہ بندی کرنے لگے کہ اس منصب پر فائز ہوکر کیسے ملکی معاملات کو سدھار سکتے ہیں۔ جب وہ یہ باتیں اپنے دوستوں سے کرتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے اور انھیں بے وقوف اور دیوانہ کہتے، لیکن ان کی یہ خواہش اور جستجو ختم نہ ہوئی۔ اس حوالے سے ایک روایت مختلف انداز سے بیان کی جاتی ہے جس میں سے ایک کچھ یوں ہے: قرطبہ کی مسجد میں محمد بن ابی عامر اور ان کے ساتھی اپنے اپنے مستقبل کے بارے میں‌ بات کررہے تھے۔ ابن ابی عامر نے خود کو مستقبل میں سلطنت کا وزیرِاعظم بتایا تو دوست بے ساختہ ہنسنے لگے۔ ایک شوخ لڑکے نے طنزیہ شعر بھی چُست کر دیا۔ محمد بن ابی عامر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ انھوں نے کہا: ’’یہ تو ہو کر ہی رہے گا۔ ابھی وقت ہے، اپنے لیے جو مانگنا ہے، مانگ لو‘‘۔ یہ سن کر ایک دوست نے استہزائیہ انداز میں کہا: ’’اے ابن ابی عامر! مجھے قاضی بننے کا شوق ہے، تم مجھے میرے آبائی شہر مالقہ کا قاضی بنا دینا۔‘‘ دوسرے نے پولیس کا اعلیٰ کا عہدہ مانگا۔ تیسرے نے کہا کہ مجھے شہر کے تمام باغات کا نگران بنا دینا۔ جس لڑکے نے طنزیہ شعر پڑھا تھا، اس نے حقارت سے کہا: ’’تمہاری اگلی سات نسلوں میں بھی کوئی وزیرِ اعظم بن گیا تو میرا منہ کالا کر کے گدھے پر شہر میں گشت کرانا۔‘‘ اور پھر لڑکا پچھتایا۔

    ابن عامر نے قرطبہ سے قانون اور ادب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی شہر کی کچہری میں بطور عرضی نویس کام شروع کر دیا۔ اپنی سنجیدگی، دل جمعی، قابلیت اور نکتہ سنجی کے باعث وہ شاہی حکام کی نظروں میں آئے اور ان کے توسط سے شاہی خاندان کے ساتھ تعلق قائم ہو گیا۔ بعض تذکروں میں‌‌ آیا ہے کہ خلیفۂ وقت کو اپنے دونوں شہزادوں کے لیے اتالیق اور جائیداد کا حساب رکھنے کے لیے محرّر چاہیے تھا اور محمد بن ابی عامر اس کے لیے منتخب ہوگئے۔ قسمت ان کے خواب اور عزم و ارادے کے ساتھ تھی اور وقت نے کچھ اس تیزی سے کروٹ بدلی کہ ابنِ عامر وہ شخص بن گئے جس کے تعاون اور مدد سے خلیفہ ہشام اوّل کے انتقال کے بعد بارہ سالہ ولی عہد ہشام دوم مسندِ خلافت تک پہنچے۔ اور پھر اسی نو عمر خلیفہ نے اپنے محسن کو حاجب جیسے اہم ترین عہدے پر فائز کیا۔ ابنِ عامر کا یہ عہد چھتیس سال تک رہا جس میں انھوں نے عیسائی لشکروں سے باون جنگیں لڑیں اور ہر بار میدان سے فاتح بن کر لوٹے۔ وہ المنصور کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اس سے قبل وہ قاضی کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے

    مشہور برطانوی مؤرخ اور ماہرِ آثارِ قدیمہ اسٹینلے لین پول نے المنصور کے بارے میں لکھا: ’’عبدالرحمٰن سوئم نے جس عظیم اندلس کا خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر المنصور کے عہد میں ہوئی‘‘۔ ابنِ ابی عامر المنصور نے اندلس میں اعلیٰ پائے کا انتظام رائج کیا اور ہر شعبے میں‌ قاعدہ مقرر کیا۔ اس عہد میں رشوت اور بدعنوانی کی سختی سے بیخ کنی کی گئی جب کہ اہلِ علم و ادب کی بڑی قدر افزائی اور ان کے لیے وظیفے مقرر کیے۔

    مشہور ہے کہ ابنِ ابی عامر نے اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل اپنے وزرا کو بتایا: ’’میں زمانۂ طالبِ علمی سے سوچتا تھا کہ اگر تقدیر مجھے اندلس کا طاقتور ترین شخص بنا دے تو میں اس سلطنت کو عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچا دوں گا کہ یہاں کے شہری ہونے پر سب فخر کریں گے۔‘‘ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ان کے عہد میں عوام خود کو بہت محفوظ خیال کرتے تھے۔ دوسری طرف وہ اسلام کے ایک بہادر سپاہی اور اپنے دین کے محافظ بھی تھے جس نے میدانِ جنگ میں عیسائیوں کو بدترین شکست دی تھی جس کی بنا پر وہ المنصور سے سخت نفرت کرتے تھے، لیکن بعد کے ادوار میں عیسائی مؤرخین نے بھی لکھا کہ اس مسلمان منتظم کے دور میں‌ اندلس کو جو عروج نصیب ہوا، وہ دوبارہ نہ مل سکا۔ انھوں نے کئی علاقوں کو فتح کے بعد مرکز کے صوبے کے طور پر اپنی سلطنت سے جوڑا اور خراج وصول کرکے اسے مالی طور پر مستحکم کیا۔

    ابنِ ابی عامر اندلس اور مسلم تاریخ کا ایک ایسا جگمگاتا کردار ہے، جس کی آب و تاب کئی سو سال گزرنے جانے کے بعد بھی ماند نہیں پڑی۔ تاریخ کی کتب میں آیا ہے کہ وہ الحاجب المنصور کے نام سے یاد کیے جاتے تھے جس میں‌ حاجب ان کا عہدہ اور المنصور ان کی غیرمعمولی فتوحات کے لیے دیا گیا نام تھا۔ 10 اگست 1002ء کو وفات پانے والے اس مشہور مسلمان منتظم اور جرنیل کی یادگار کے طور پر وسطی اسپین میں ایک پہاڑ کی سب سے بلند چوٹی کو ان سے موسوم ہے۔ اسپین میں کئی مقامات پر ان کے مجسمے نصب ہیں اور آج بھی دسویں صدی کے اس نام ور مسلمان جرنیل کی بہادری اور شان دار عہد کی یاد دلاتے ہیں۔

  • الحمرا، جس نے غرناطہ کے مسلمانوں کا گریۂ بے اختیار دیکھا

    الحمرا، جس نے غرناطہ کے مسلمانوں کا گریۂ بے اختیار دیکھا

    اسپین پر مسلمانوں نے صدیوں راج کیا اور اس خطے کو طارق بن جیسے عظیم سپہ سالار اور اس کے بعد آنے والے مسلم حکم رانوں کی وجہ سے وہ عظمت اور رفعت نصیب ہوئی کہ تاریخ میں‌ اس کی مثال نہیں‌ ملتی، لیکن ہر عروج کو زوال ہوتا ہے اور اسپین نے بھی اپنوں کی سازشوں، حکم رانوں کی کوتاہیوں اور کم زوریوں کے بعد مسلمانوں‌ کے سات سو سالہ اقتدار کو ڈوبتے دیکھا ہے۔

    اسپین کے جنوب میں آباد غرناطہ وہ تاریخی شہر ہے جس میں مسلمانوں کے دورِ حکم رانی کی عظیم اور شان دار یادگاریں موجود ہیں‌ جو دنیا بھر سے یہاں آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    غرناطہ، اسپین میں اسلامی ریاست کا آخری مرکز تھا جس کے سلطان نے عیسائی سپاہ کے سامنے ہتھیار ڈالے اور اس کے ساتھ ہی خطے سے مسلم امارت کا مکمل خاتمہ ہوگیا تھا۔

    غرناطہ شہر کی کنجیاں تو مسلمانوں کے پاس نہ رہیں، لیکن ان کے دور کی کئی عمارتیں، پُرشکوہ قلعے آج بھی عظمتِ رفتہ کی یادگار کے طور پر دیکھی جاسکتی ہیں جن میں سے ایک "الحمرا” بھی ہے۔

    مسلمانوں کے دور کا یہ محل اور قلعہ 889 عیسوی میں بنایا گیا تھا جو اپنے طرزِ تعمیر اور مضبوطی کے حوالے سے اسپین کے مسلمانوں کی ہنرمندی اور کاری گری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    13 ویں صدی کے وسط میں الحمرا کی از سرِ نو تعمیر اور تزئین کا کام کیا گیا اور 1333 عیسوی میں مسلمانوں کے دورِ اقتدار میں اس قلعے کو شاہی محل کا درجہ دیا گیا تھا۔

    یہ 1492 کی بات ہے جب مسلمانوں‌ کو غرناطہ کی کنجیاں عیسائی حکم رانوں کے حوالے کرنا پڑیں۔ اس دن کو تاریخ میں‌ سقوطِ غرناطہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    غرناطہ کی‌ نئی عیسائی سلطنت کے فرماں روا فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے الحمرا کی شاہی محل کی حیثیت برقرار رکھی جسے جدید دنیا نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا اور یہاں آج بھی سیاحوں کی آمدورفت رہتی ہے جو ماضی کے مسلمانوں‌ کی شان و شوکت اور بعد کے حکم رانوں کی اس یادگار میں گہری دل چسپی لیتے اور اپنے اشتیاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

  • پرتگال میں‌ پانچ سو سال بعد مسجد کی بنیاد رکھی گئی!

    پرتگال میں‌ پانچ سو سال بعد مسجد کی بنیاد رکھی گئی!

    تاریخ بتاتی ہے کہ پرتگال کا علاقہ مسلم اسپین کا حصہ تھا جسے فتح کرنے کا سہرا موسٰی بن نصیر کے سَر ہے۔

    مسلمانوں نے بڑی شان و شوکت سے اس خطے پر حکم رانی کی، لیکن بعد میں یہ علاقہ عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا اور بڑا ظلم ڈھایا گیا۔ مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور مساجد کو کلیسا میں تبدیل کر دیا گیا۔

    آج پرتگال میں مسلمان اقلیت میں‌ ہیں۔ یہ 1968 کی بات ہے جب وہاں ایک قانون سازی کے بعد مسلمانوں نے خود کو مستحکم کرنے اور اپنا وجود منوانے کی کوششیں شروع کیں۔

    اس زمانے میں 17 مسلمانوں نے مل کر وہاں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ بعد میں اسی تنظیم کے تحت مسلمانوں کی مدد کرنے اور ان کے لیے فلاحی و تعلیمی مراکز کھولنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہاں آباد مسلمانوں نے قرآن مجید کا مقامی زبان میں ترجمہ کروایا اور اس کی اشاعت ممکن بنائی۔

    29 مارچ 1985 کی ایک صبح، جمعے کے مبارک دن پرتگال میں ایک بڑی تقریب کے دوران مسجد کی بنیاد رکھی گئی جو پرتگال کی سرزمین پر پانچ صدی بعد مسلمانوں کی پہلی عبادت گاہ تھی۔

  • لبِ ساحل جلائیں آپ اپنی کشتیاں ہم نے

    لبِ ساحل جلائیں آپ اپنی کشتیاں ہم نے

    جبلِ الطارق جسے آج جبرالٹر کے نام سے پہچانا جاتا ہے ، درحقیقت ایک جزیرہ نما سمندری علاقہ ہےجس کے کنارے کبھی مسلمانوں کے عظیم فاتح طارق بن زیاد نے اپنی فوجی کشتیوں کو جلا دیا تھا، آج یہ ایک اہم سیاحتی مرکز بن چکا ہے۔

    تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ 30 اپریل 711ء کو طارق بن زیاد کی افواج جبل الطارق کے ساحل پر اتریں۔ واضح رہے کہ جبرالٹر اس علاقے کے عربی نام جبل الطارق کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اسپین کی سرزمین پر اترنے کے بعد طارق نے تمام کشتیوں کو جلادینے کا حکم دیا، تاکہ فوج فرار کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔

    انہوں نے 7 ہزار کے مختصر لشکر کے ساتھ پیش قدمی شروع کی اور 19 جولائی کو جنگ وادی لکہ میں وزیگوتھ حکمران روڈرک کے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا اور معرکے میں ایک ہی دن میں بدترین شکست دی،جنگ میں روڈرک مارا گیا اور طارق فتح یاب رہے۔

    طارق بن زیاد کے اس حملے سے یورپ میں مسلم اقتدار کا راستہ کھلا اور بعد میں اسی دور میں پروان چڑھنے والے حالات نے یورپ کے سنہری دور کا آغاز کیا۔ اس جگہ کا ماضی میں طویل عرصے تک نام جبل الطارق رہا تھا۔ جو بعد میں یورپی’ افریقی اور عربی زبان کے مکسچر کی وجہ سے جبرالٹر بن گیا۔آئیے آج آپ کو اس کی موجودہ حالت کے بارے کچھ معلومات فراہم کرتے ہیں۔

    شہر اور اس کے ساحلوں کا ایک منظر

    جبرالٹر براعظم افریقہ اور براعظم یورپ کے عین درمیان واقع ہے، مراکش افریقہ کا ملک ہے اور جبرالٹر یورپ کا پہلا ملک ہے، مراکش کا شہر طنجہ جبرالٹر سے صرف 14 کلو میٹر دور ہے، یہ سفر فیری پر آدھ گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے، جبرالٹر کے پہاڑ سے طنجہ کی روشنیاں نظر آتی ہیں، دنیا کے ستر فیصد بحری جہاز بحیرہ اوقیانوس سے آتے ہیں اور آبنائے جبرالٹر سے گزرکر بحیرہ روم جاتے ہیں اور وہاں سے اسی راستے واپس آتے ہیں، یہ تین اطراف سے پانی میں گھرا ہوا ہے۔

    شہر کے دو حصے ہیں، پہاڑ اور زمین۔ پہاڑبھی دو ہیں، ایک زیادہ بلند ہے اور دوسرا نسبتاً کم بلند، دونوں پہاڑوں کے درمیان اونچے درخت اور جھاڑیاں ہیں، یہ جھاڑیاں اور درخت پہاڑوں کو آپس میں ملاتی ہیں، آپ اگر دور سے جبرالٹر کے پہاڑ دیکھیں تو یہ آپ کو بحری جہاز محسوس ہوں گے، زمینی علاقے گرم ساحلوں پر مشتمل ہیں، زمین کا نصف سے زائد حصہ سمندر میں مٹی او رپتھر ڈال کر مصنوعی طور پر بنایا گیا ہے، شہر کی زیادہ تر رہائشی عمارات، دفاتر اور شاپنگ سینٹر اسی مصنوعی زمین پر قائم ہیں، شہر یا ملک کا کل رقبہ چھ کلو میٹر ہے، آپ 45 منٹ میں پورا ملک پیدل گھوم سکتے ہیں۔

    طارق بن زیاد کے تعمیر کردہ قلعے کی بنیادوں تعمیر ہونے والا مورش قلعہ

    ملک پر برطانیہ کا قبضہ ہے، زبان انگریزی اور کرنسی پاؤنڈ اسٹرلنگ ہے، سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر یونین جیک لہراتا ہے، جبرالٹر میں داخلے کے لیے برطانیہ کا ویزہ ضروری ہے تاہم آپ اگر یورپی شہریت رکھتے ہیں یا آپ کے پاس اسپین سمیت یورپ کے کسی ملک کا پاسپورٹ موجود ہے تو آپ کو بارڈر پر’’انٹری‘‘ مل سکتی ہے، اسپین کے آخری شہر لالینا میں جبرالٹر میں داخلے کے لیے قطار لگ جاتی ہے، آپ اپنی گاڑی پر بھی ملک میں داخل ہو سکتے ہیں اورگاڑی اسپین میں کھڑی کر کے پیدل بھی اندر جا سکتے ہیں، کل آبادی صرف 32 ہزار ہے جب کہ روزانہ 18 ہزار سیاح ملک میں آتے ہیں، مسلمان سات فیصد اور یہودی تین فیصد ہیں،

    جبرالٹر ’’کرائم فری‘‘ ہے، لوگ دروازے اور گاڑیاں کھلی چھوڑ جاتے ہیں، ملک میں کسی کا پرس گر جائے تو وہ گھوم گھام کر اس تک پہنچ جاتا ہے، جبرالٹر کی تاریخ میں آج تک برطانیہ کی حکومت میں صرف دو قتل ہوئے، چوری کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں، گورنر ملک کا سربراہ ہے، اس کی تعیناتی ملکہ برطانیہ کرتی ہے، گورنر ہاؤس مین اسٹریٹ میں واقع ہے اور گورنر عام لوگوں کی طرح باہر نکل کر چلتا پھرتا رہتا ہے، جبرالٹر کا ائیر پورٹ دنیا کا حیران کن ہوائی اڈہ ہے۔ جس کے متعلق دلچسپ معلومات پیج پر پوسٹ ہوچکی ہے۔ائیرپورٹ کی آدھی لینڈنگ اسٹرپ پانی کے اندر ہے، یہ حصہ سمندر میں پتھر اور مٹی ڈال کر تعمیر کیا گیا، باقی حصہ خشکی پر قائم ہے لیکن ان دونوں کے درمیان ملک کی مرکزی سڑک ہے، یہ سڑک ائیر اسٹرپ کو کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، سڑک پر ہر وقت ٹریفک رواں دواں رہتی ہے، جہاز کی لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران یہ سڑک بند کر دی جاتی ہے، جہاز اترتا یا ٹیک آف کرتا ہے اور پھر سڑک دوبارہ ٹریفک کے لیے کھول دی جاتی ہے، جہاز کی لینڈنگ کے لیے خصوصی مہارت درکار ہوتی ہے کیونکہ ایک سیکنڈ کی غلطی سے جہاز سیدھا پانی میں جا سکتا ہے۔

    دنیا کی خطرناک ہوائی پٹیوں میں سے ایک یہاں ہے

    جبرالٹر کے لوگ صلح جو اور مہذب ہیں، یہ رک کر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہیں، کوئی بیمار ہو جائے یا کسی کی شادی ہو تو پورے ملک کو معلوم ہوتا ہے، ملک کے دو بڑے سورس آف انکم ہیں، سیاحت اور آن لائن جواء۔ ملک کی نصف آبادی سے زیادہ سیاح روزانہ یہاں آتے ہیں، یہ سیاح ملک کی معیشت چلا رہے ہیں، تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ فری ہے، بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیے جاتے ہیں، بچے ان وظائف کے ذریعے برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں، حکومت ان طالب علموں کو رہائش اور ہوائی ٹکٹ تک دیتی ہے،عوام کے لیے علاج مفت ہے۔

    ملک کے اندر ٹرانسپورٹ بھی فری ہے، آپ کسی بھی جگہ بس میں سوار ہو جائیں اور جہاں چاہیں اتر جائیں۔ جہاں طارق بن زیاد اترا تھا اور اس نے اپنی کشتیاں جلائی تھیں، اب یہ ایک چھوٹا سا ساحلی علاقہ ہے، آج کل وہاں رہائشی ایریا ہے، اسلام کے اس عظیم مجاہد نے اپنی کشتیاں بھی یہیں جلائیں تھیں، طارق بن زیاد نے وہاں ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنائی تھی لیکن وہ مسجد ختم ہو چکی ہے تاہم سعودی عرب نے وہاں سفید رنگ کی ایک خوبصورت سی مسجد تعمیر کر دی ہے، یہ مسجد ساحل اور جبرالٹر کی سبز پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے اور یہ ماحول کو خوبصورت بھی بناتی ہے اور وہاں تقدس کے سگنل بھی پھیلاتی ہے،

    روایت کے مطابق اس مقام ہر طارق بن زیاد نے کشتیاں جلائی تھیں

    جبرالٹر کی اصل اٹریکشن اس کی دونوں پہاڑیاں ہیں، یہ چونے کے پتھر کی پہاڑیاں ہیں، پہاڑیوں پر دیکھنے کی چار چیزیں ہیں، پہلی چیز اس کے غار ہیں، پہاڑ کے اندر 52 کلو میٹر لمبے 140 غار ہیں، یہ غار جبرالٹر کی چھاؤنیاں ہیں، غار میں گولہ بارود بھی ہے اور فوجی جوانوں کی رہائش گاہیں بھی۔ غاروں کا فوجی استعمال 1779ء سے 1783ء کے درمیان شروع ہوا، اس دور میں یورپ کے بڑے ملکوں نے جبرالٹر پر قبضے کے لیے اس کا محاصرہ کر لیا، دشمنوں کی 33 ہزاز فوج نے جزیرے کو گھیر لیا، ملک کی آبادی سات ہزار تھی، یہ لوگ پہاڑوں پر چڑھ گئے، پہاڑوں کے اندر پہلے سے غار موجود تھے۔

    جنگِ عظیم میں استعمال ہونے والی ایک توپ

    جبرالٹر کے لوگوں نے ان پہاڑوں کو وسیع کیا، ان کے دھانوں پر توپیں لگائیں اور وہاں سے دشمنوں پر گولہ بار ی شروع کر دی، یہ ایک حیران کن تکنیک تھی، دشمن نے چار سال محاصرہ کیے رکھا لیکن وہ کوشش کے باوجود جبرالٹر پر قبضہ نہ کر سکا، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے یہ غار جبرالٹر کا پینٹا گان ہیں، پہاڑوں میں دیکھنے والی دوسری چیز اس کی سو سو ٹن کی دوبڑی توپیں ہیں، یہ توپیں دونوں پہاڑوں پر نصب ہیں، ایک توپ کا رخ مراکش کی طرف ہے اور دوسری اسپین کو فوکس کیے ہوئے ہے، یہ توپیں دس کلو میٹر تک مار کر سکتی ہیں اور یہ ملک کا سب سے بڑا دفاع ہیں۔

    طارق بن زیاد نے اپنے زمانے میں سمندر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پہاڑ کی اترائی پر چھوٹا سا قلعہ بنایا تھا، وہ قلعہ وقت کے ہاتھوں ختم ہوگیا، چودہویں صدی عیسوی کے مراکشی حکمرانوں نے بعد ازاں انھی بنیادوں پر نیا قلعہ تعمیر کیا، یہ قلعہ آج تک قائم ہے اور یہ مورش قلعہ کہلاتا ہے، اسپین کے لوگ مسلمانوں کو مراکش کی نسبت سے موریا یا مورش کہتے تھے، پہاڑ کے شروع میں یونانی خدا ہرکولیس کا ایک ستون بھی ایستادہ ہے۔

    ہرکولیس کے ستونوں کا یادگاری پھتر

    جبرالٹر میں پورے یورپ کے مقابلے میں پٹرول سستا ہے، حکومت نے حکمت عملی کے تحت پٹرول سستا کیا، پٹرول سستا ہونے کی وجہ سے بحری جہاز جبرالٹر سے روزانہ لاکھوں ٹن پٹرول خریدتے ہیں، حکومت پٹرول سے کوئی منافع نہیں کماتی لیکن یہ جہازوں کی پارکنگ فیس اور محصول کی مد میں اربوں روپے سالانہ کما لیتے ہیں اور یہ رقم بعد ازاں عوام کی بہبود پر خرچ ہوتی ہے۔


    اس مضمون کے لیے معروف ماہر آثارِ قدیمہ ’علی حیدر‘ کی وال پر شیئر کی گئی پوسٹ سے استفادہ کیا گیا ہے۔