Tag: طاعون

  • امریکا میں طاعون کی بیماری سے ایک شخص ہلاک

    امریکا میں طاعون کی بیماری سے ایک شخص ہلاک

    ایریزونا (15 جولائی 2025) امریکی ریاست ایریزونا کے شمالی علاقے کوکونینو کاؤنٹی میں ایک شہری طاعون (پلیگ) کے باعث ہلاک ہوگیا۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق حکام کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ امریکی ریاست ایریزونا کا متاثرہ شخص نیو مونک پلیگ (Pneumonic Plague) کا شکار ہوا تھا جو اس بیماری کی مہلک ترین اور آسانی سے پھیلنے والی قسم سمجھی جاتی ہے۔

    رپورٹس کے مطابق یہ 2007 کے بعد امریکا میں نیو مونک پلیگ سے ہونے والی پہلی ہلاکت ہے۔

    امریکا میں ہر سال طاعون کے اوسطاً 7 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر مغربی ریاستوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

    منگولیا میں خطرناک طاعون، انسان کی 24 گھنٹے میں موت ہو سکتی ہے!

    واضح رہے کہ پلیگ کو عام طور پر ’بلیک ڈیتھ‘ (Black Death) کے نام سے جانا جاتا ہے جس نے 14ویں صدی میں یورپ میں کروڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، صرف 1346 سے 1353 کے درمیان یہ بیماری یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقا کی 60 فیصد آبادی کو نگل گئی تھی تاہم آج یہ مرض قابل علاج ہے۔

    طاعون نے امریکا میں آخری مرتبہ 1924 سے 1925 کے دوران لاس اینجلس میں وبائی صورت اختیار کرلی تھی، وبا کے باعث بہت سی جانیں ضائع ہوگئی تھیں۔

  • صدیوں قبل وبا سے بچانے والا جین خطرناک بن گیا

    صدیوں قبل وبا سے بچانے والا جین خطرناک بن گیا

    صدیوں قبل وبا سے بچانے والا ایک جِین تبدیلیوں کے باعث اب خطرناک بن گیا ہے۔

    یہ انکشاف طبی سائنس دانوں نے ای آر اے پی 2 نامی جین پر ریسرچ کے بعد کیا ہے، جس نے 700 سال قبل انسانوں کو طاعون کے تباہ کن اور ہول ناک وبا سے بچایا تھا۔

    طبی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق جینیاتی ماہرین نے یہ حیرت انگیز بات دریافت کی ہے کہ جس ’جِین‘ نے انسان کو 13 ویں صدی میں ہلاکت خیز وبا سے بچانے میں کردار ادا کیا تھا، آج وہی جِین (ERAP2) انسان کو بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    ماہرین نے اس سلسلے میں سیاہ طاعون (بلیک ڈیتھ) یا پھر ’بیوبونک طاعون‘ میں مرنے والے انسانوں کے ڈھانچوں کا ڈین این اے ٹیسٹ کیا، معلوم ہوا کہ اس میں ایک خاص ’جینوم‘ موجود ہے، جس نے اُس وقت انسانوں کو وبا سے بچانے میں کردار ادا کیا، 200 سے زائد یہ ڈھانچے برطانیہ اور ڈنمارک سے ملے تھے۔

    طبی ماہرین نے اس ’جِین‘ کو موجودہ انسانوں کے ’جِین‘ سے ملا کر دیکھا، تو یہ نتیجہ نکلا کہ سات صدیاں قبل پایا جانے والا ’جِین‘ متعدد تبدیلیوں کے باوجود اب بھی انسانوں میں پایا جاتا ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق طاعون وبا کے وقت وہ لوگ بچ گئے تھے جن میں ERAP2 نامی جین موجود تھا، مگر آج جس انسان میں یہ ’جِین‘ موجود ہے، وہ مدافعتی کمزوریوں یا بیماریوں کا شکار ہے۔

    ماہرین نے اس دریافت کو انسانی تاریخ کی سب سے اہم ترین دریافت قرار دیا۔

    انھوں نے کہا کہ اس جِین میں نمایاں تبدیلیاں نوٹ کی گئی ہیں، اور اب یہ بیماریوں سے بچانے کے بجائے بیماریوں کا شکار بنا رہا ہے۔

  • قدیم ڈی این اے سے صدیوں‌ قبل کی وبا کا راز حل

    قدیم ڈی این اے سے صدیوں‌ قبل کی وبا کا راز حل

    قدیم ڈی این اے کے تجزیے سے ماہرین نے 600 سال قبل آنے والی دنیا کی سب سے بھیانک اور خطرناک وبا ’طاعون‘ کے ماخذ کا مسئلہ حل کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وسطی ایشیا میں پرانے سلک روڈ تجارتی راستے پر قبرستانوں میں دفن بیوبونک طاعون کے متاثرین کے قدیم ڈی این اے نے ایک دیرینہ معمے کو حل کرنے میں مدد کی ہے، اس تحقیق نے شمالی کرغزستان کے ایک علاقے کو ’بلیک ڈیتھ‘ کے نقطہ آغاز کے طور پر نشان زد کر دیا ہے۔

    یورپ سمیت دیگر خطوں کے ماہرین نے طویل تحقیق کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے کم از کم 600 سال قبل دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی وبا ’طاعون‘ کے ماخذ کا راز حل کر دیا ہے، جس کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مذکورہ بیماری وسطی ایشیا سے دنیا میں پھیلی۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جرمنی اور سوئٹزرلینڈ سمیت دیگر ممالک کے ماہرین نے وسطی ایشیائی ملک کرغزستان کے قدیم قبرستانوں میں سے ملنے والی 14 ویں صدی کی 7 لاشوں سے باقیات حاصل کی تھیں، جن کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔

    ماہرین نے جن 7 لاشوں کی باقیات حاصل کی تھیں، ان میں سے تین لاشیں خواتین کی تھیں اور ان کے دانتوں کے ڈین این اے سے معلوم ہوا کہ وہ اس وقت پھیلنے والی ’بلیک ڈیتھ‘ کے نام سے مشہور وبا ’بیوبونک طاعون‘ کا شکار ہوکر چل بسی تھیں۔

    اس تحقیق کا مطالعہ سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع کیا گیا، ماہرین کے مطابق اس سے قبل یہ قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں ہیں کہ ممکنہ طور پر ’بلیک ڈیتھ‘ کے نام سے مشہور وبا کا آغاز چین یا پھر قدیم ہندوستان سے ہوا ہوگا، تاہم نئی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ بیماری وسطی ایشیا سے دنیا میں پھیلی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ممکنہ طور پر بیوبونک طاعون وسطی ایشیائی ممالک سے یورپ، افریقا اور جنوبی ایشیا تک تجارتی راستوں کے ذریعے پھیلی ہوگی، تاہم سائنس دانوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس کی ابتدا کرغزستان سے ہوئی یا کسی اور ملک سے؟ لیکن جن لاشوں سے باقیات حاصل کی گئیں، انھیں کرغزستان کے قدیم قبرستانوں سے نکالا گیا تھا اور مذکورہ قبرستانوں پر پہلی بار 1930 میں تحقیق شروع ہوئی تھی۔

    خیال رہے کہ بلیک ڈیتھ کے نام سے مشہور وبا بیوبونک طاعون کو اب تک کی دنیا کی سب سے بھیانک اور بڑی وبا مانا جاتا ہے، جس سے اس وقت یورپ کی تقریبا نصف آبادی جب کہ ایشیا کی 40 فیصد آبادی ہلاک ہوئی تھی، مذکورہ بیماری سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ 13 ویں صدی کے وسط یا اختتام پر شروع ہوئی اور 17 ویں صدی تک مختلف تبدیلیوں کے ساتھ یورپ، ایشیا اور افریقہ میں تواتر کے ساتھ موجود رہی اور اس سے اندازاً مجموعی طور پر 8 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔

  • آسٹریلوی جیل میں ایک اور وبا پھیلنے کا خطرہ

    آسٹریلوی جیل میں ایک اور وبا پھیلنے کا خطرہ

    کینبرا: آسٹریلوی جیل میں چوہوں کی بہتات کی وجہ سے طاعون پھیلنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا کے کھیتوں میں چوہوں کی بہتات کی وجہ سے طاعون کی بیماری پھیلنے کے خطرہ ہے، جس کی وجہ سے حکام ایک دیہی علاقے کی جیل سے سیکڑوں قیدیوں کو نکالنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق منگل کو نیو ساؤتھ ویلز کے قید خانے میں چوہے داخل ہو گئے تھے، چوہوں نے تاریں کتر ڈالیں، جس کی وجہ سے حکام کو دوبارہ مرمت کا کام کروانا پڑے گا، حکام کا کہنا تھا کہ عملے اور قیدیوں کی صحت اور حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے۔

    حکام کے مطابق جیل میں 420 قیدیوں اور عملے کے 200 اراکین کو رواں ماہ کے آخر میں دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے گا۔

    مقامی اسسٹنٹ کمشنر کیوین کورکورن نے میڈیا کو بتایا کہ جیل کا اچھی طرح سے معائنہ کر کے مناسب طریقے سے مرمت کا کام کیا جائے گا، یعنی مستقبل میں طاعون کے اثرات کو کم کرنے والے طریقوں کو مدنظر رکھا جائے گا۔

    واضح رہے کہ مشرقی آسٹریلیا میں چوہوں کی بہتات ہے، چوہوں کی افزائش بھی بڑھتی جا رہی ہے، جو کئی مہینوں سے کھیتوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

  • کرونا وائرس کے بعد طاعون پھیلنے کا خدشہ

    کرونا وائرس کے بعد طاعون پھیلنے کا خدشہ

    کینبرا: دنیا بھر میں کرونا وائرس نے بری طرح پنجے گاڑ رکھے ہیں ایسے میں آسٹریلیا میں طاعون پھیلنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے، مشرقی آسٹریلیا میں ہزاروں چوہوں نے مقامی افراد کو پریشان کر دیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مشرقی آسٹریلیا میں طاعون پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، مقامی آبادی گھروں میں گھستے اور فصلوں کو تباہ کرتے ہزاروں چوہوں سے پریشان ہے۔

    ماحول میں ہر طرف پھیلی چوہوں کی بدبو نے جینا مشکل کردیا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق اسپتالوں میں مریض بھی چوہوں کے کاٹنے سے محفوظ نہیں، یہاں بھی چوہوں کی خوب افزائش ہو رہی ہے۔

    شہری متوقع طوفانی بارشوں کو چوہوں کی آفت سے نجات کا ذریعہ قرار دے رہے ہیں۔ آسٹریلیا کی بڑی آبادی پہلے ہی سیلاب سے متاثر ہے اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔

  • امریکا میں طاعون کا ایک اور کیس سامنے آگیا

    امریکا میں طاعون کا ایک اور کیس سامنے آگیا

    واشنگٹن: امریکی ریاست کیلی فورنیا میں طاعون کا مصدقہ کیس سامنے آگیا، مذکورہ شخص زیر علاج ہے اور صحتیابی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکی ریاست کیلی فورنیا کے صحت حکام نے تصدیق کی ہے کہ ساؤتھ لیک شہر کے رہائشی ایک شخص میں طاعون کی تصدیق ہوئی ہے۔

    حکام کے مطابق مذکورہ شخص کو ایک کیڑے نے کاٹا جو انفیکٹڈ تھا، مریض کا علاج جاری ہے اور وہ صحت یابی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    ریاست کیلی فورنیا میں اس سے قبل طاعون کا آخری کیس سنہ 2015 میں دیکھا گیا تھا۔

    ایل ڈوراڈو کاؤنٹی پبلک ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر نینسی ولیمز کا کہنا ہے کہ کیلی فورنیا میں طاعون ہمیشہ سے موجود رہا ہے، ضروری ہے کہ لوگ باہر نکلتے ہوئے خود کو اور اپنے پالتو جانوروں کو اس سے بچائیں اور احتیاطی تدابیر اپنائیں۔

    ڈاکٹر نینسی کے مطابق جنگلات میں گلہریوں، مارموٹ اور چوہوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے ہائیکنگ اور ٹریکنگ پر جانے والے افراد کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہ جانور طاعون پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    کیلی فورنیا میں متعدد مقامات پر پہلے ہی وارننگ سائنز نصب ہیں جن میں لوگوں کو طاعون سے خبردار رہنے، جنگلی جانوروں سے دور رہنے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا کہا گیا ہے۔

    اس سے قبل ریاست کولوراڈو میں بھی ایک گلہری میں طاعون پایا گیا تھا جبکہ ایک شخص بھی اس کا شکار ہوا تھا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال بروقت احتیاطی تدابیر اور حکمت عملی سے ببونک طاعون کنٹرول میں ہے۔

    طاعون کا خطرناک مرض بیکٹیریا کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کا علاج اینٹی بائیوٹک دواؤں سے کیا جاتا ہے۔

    ببونک طاعون میں مریض کے جسم پر گلٹی ہوتی ہے اور لمف نوڈز میں سوزش ہوتی ہے۔ ابتدائی طور پر بیماری کا پتہ لگانا مشکل ہے کیونکہ اس کی علامات 3 سے 7 دنوں کے بعد ظاہر ہوتی ہیں اور کسی بھی دوسرے فلو کی طرح ہوتی ہیں۔

    چوہے اور مارموٹ اس بیکٹیریا کی منتقلی کا آسان ترین ذریعہ ہوتے ہیں۔

  • کیا ڈبلیو ایچ او نے طاعون کی خطرناک وبا کی وارننگ جاری کی؟

    کیا ڈبلیو ایچ او نے طاعون کی خطرناک وبا کی وارننگ جاری کی؟

    ایسی متعدد پوسٹس سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر ہزاروں مرتبہ شیئر ہوئیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے کہا ہے کہ چین میں جولائی 2020 کے آغاز میں گلٹی دار طاعون (bubonic plague) کا ایک کیس سامنے آیا ہے جس سے وبا پھیل سکتی ہے۔

    ان پوسٹس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ امریکی ادارے سی ڈی سی نے کہا ہے کہ گلٹی دار طاعون کھانسنے سے پھیل سکتا ہے۔ تاہم یہ دعوے درست نہیں ہیں، عالمی ادارہ صحت کہہ چکا ہے کہ گلٹی دار طاعون کا مذکورہ کیس کسی بڑے خطرے کی نشانی نہیں ہے اور معاملہ اچھی طرح سے نمٹایا جا چکا ہے۔ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن نے بھی کہا ہے کہ گلٹی دار طاعون عموماً پسو کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔

    مذکورہ دعوے فیس بک پر 7 جولائی 2020 کو ایک پوسٹ میں سامنے آئے تھے، جسے 1700 سے زائد بار شیئر کیا گیا، پوسٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ جو معلومات دی جا رہی ہیں وہ بالکل درست ہیں اور ڈبلیو ایچ او اور سی ڈی سی کی جانب سے ہیں، پوسٹ میں جو تصویر شامل کی گئی وہ ایک مومی مجسمے کی ہے جس میں ایک گلٹی دار طاعون کے مریض کو دکھایا گیا ہے۔

    یہ گمراہ کن دعویٰ چین کے خود مختار اندرونی علاقے منگولیا میں گلٹی دار طاعون کا ایک کیس سامنے آنے کے ایک دن بعد پھیلا۔

    اس پوسٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ کیا گلٹی دار طاعون واپس آ گیا ہے، جو ایک نہایت ہی خطرناک اور مہلک بیماری اور چین میں اس کا ایک مصدقہ کیس سامنے آ گیا ہے۔ اگر اس کے لیے جدید اینٹی بایوٹکس دی جائیں تو اس سے پیچیدگیاں اور موت بھی ہو سکتی ہے۔

    منگولیا میں طاعون کا مصدقہ کیس، حکام نے الرٹ جاری کردیا

    واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او نے کہا تھا کہ گلٹی دار طاعون ایک بہت عام طاعون ہے اور یہ متاثرہ پسو کے کاٹنے سے ہوتا ہے، اس میں جسم پر گلٹیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ 7 جولائی کو عالمی ادارہ صحت کی ترجمان مارگریٹ ہیرس نے بیان دیا کہ ہم چین میں گلٹی دار طاعون کے کیسز کی تعداد پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں، فی الوقت وبا کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگرچہ تاریخ میں اس طاعون نے بڑی وبائیں برپا کیں، جن میں بلیک ڈیتھ بھی شامل ہے جس نے چودھویں صدی کے دوران 50 ملین افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، تاہم آج اس کا علاج اینٹی بایوٹکس اور دیگر حفاظتی تدابیر سے آسانی سے ہو سکتا ہے۔

    کھانسی کے ذریعے گلٹی دار طاعون کے پھیلاؤ کا دعویٰ بھی بالکل گمراہ کن ہے، پوسٹ میں دعویٰ تھا کہ یہ ایک ایئر بورن وبا ہے اور متاثرہ آدمی کھانستا ہے تو اس سے پھیل سکتا ہے، تاہم سچ یہ ہے کہ سی ڈی سی کے مطابق گلٹی دار طاعون عام طور سے پسو کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔

    نمونیا کا طاعون ایک اور قسم ہے اس بیماری کی، جو گلٹی دار طاعون کا علاج نہ ہونے سے ہو سکتا ہے، سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ یہ واحد طاعون ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔

  • منگولیا میں طاعون کا مصدقہ کیس، حکام نے الرٹ جاری کردیا

    منگولیا میں طاعون کا مصدقہ کیس، حکام نے الرٹ جاری کردیا

    چین کے خود مختار علاقے منگولیا میں طاعون کے کیس کی تصدیق ہونے کے بعد ہر طرف تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، حکام نے اس حوالے سے الرٹ جاری کردیا ہے۔

    سنہ 1346 سے 1353 تک یورپ کی ایک تہائی (5 کروڑ سے زائد افراد) آبادی کا صفایا کردینے والا گلٹی دار طاعون جسے سیاہ موت کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک بار پھر ظاہر ہوگیا ہے۔

    منگولیا میں اس کے ایک کیس کی تصدیق ہوگئی، بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بیانور شہر میں طاعون کی زد میں آنے والا مریض ایک چرواہا ہے جسے قرنطینہ میں رکھا گیا ہے تاہم مریض کی حالت مستحکم بتائی جاتی ہے۔

    ابھی تک علم نہیں ہوسکا کہ وہ اس مرض کا شکار کیسے ہوا۔

    مذکورہ کیس سامنے آنے کے بعد حکام نے لیول 3 کا الرٹ جاری کردیا ہے، اس الرٹ کے تحت ان جانوروں کے شکار اور کھانے پر پابندی ہے جن سے طاعون پھیلنے کا خطرہ ہو۔

    یہ خطرناک مرض بیکٹیریا کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کا علاج اینٹی بائیوٹک دواؤں سے کیا جاتا ہے۔

    ببونک طاعون میں مریض کے جسم پر گلٹی ہوتی ہے اور لمف نوڈز میں سوزش ہوتی ہے۔ ابتدائی طور پر بیماری کا پتہ لگانا مشکل ہے کیونکہ اس کی علامات 3 سے 7 دنوں کے بعد ظاہر ہوتی ہیں اور کسی بھی دوسرے فلو کی طرح ہوتی ہیں۔

    چوہے اور مارموٹ اس بیکٹیریا کی منتقلی کا آسان ترین ذریعہ ہوتے ہیں۔

    ببونک طاعون کے کیسز اس سے قبل بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ سنہ 2017 میں مڈغاسکر میں طاعون کے 300 کیس سامنے آئے تھے۔

    گزشتہ سال مئی میں منگولیا میں ہی مارموٹ نامی جانور کھانے کے بعد 2 افراد اس مرض کا شکار ہو کر ہلاک ہوگئے۔

    اس سے قبل سنہ 1665 میں طاعون نے لندن کو اپنا نشانہ بنایا جس میں شہر کا ہر 5 میں سے ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا۔ سنہ 1900 سے 1904 کے دوران چین اور ہندوستان میں طاعون کی وبا سے 1 کروڑ 20 لاکھ افراد ہلاک ہوگئے۔

    ادھر عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ادارہ اس کیس کو مانیٹر کر رہا ہے تاہم اس کے وبائی صورت اختیار کرنے کا امکان نہیں۔

    ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کے مطابق چودہویں صدی کی صورتحال کے برعکس اب ہم جانتے ہیں کہ یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے۔ ہم اسے روکنا اور اس سے متاثر لوگوں کا علاج کرنا جانتے ہیں۔