Tag: طاعون کی وبا

  • جمّوں میں پلیگ

    جمّوں میں پلیگ

    گرمیوں کا موسم تھا اور جموں شہر میں طاعون کی وبا بڑی شدت سے پھوٹی ہوئی تھی۔

    اکبر اسلامیہ ہائی اسکول میں چوتھی جماعت کے کلاس روم کی صفائی کا کام میرے ذمہ تھا۔ ایک روز چُھٹی کے وقت جب میں اکیلا کمرے کی صفائی کر رہا تھا، تو ایک ڈیسک کے نیچے ایک مرا ہوا چُوہا پڑا ملا۔ میں نے اُسے دُم سے پکڑ کر اُٹھایا، باہر لا کر اُسے زور سے ہوا میں گُھمایا اور سڑک کے کنارے جھاڑیوں میں پھینک دیا۔

    یہ دیکھ کر لال دین زور سے پُھنکارا، اور اپنی لنگڑی ٹانگ گھسیٹتا ہوا دُور کھڑا ہو کر زور زور سے چلّانے لگا۔ لال دین ہمارے اسکول کا واحد چپڑاسی تھا۔ وہ گھنٹہ بھی بجاتا تھا، لڑکوں کو پانی بھی پلاتا تھا اور چھابڑی لگا کر بسکٹ اور باسی پکوڑیاں بھی بیچا کرتا تھا۔

    ارے بد بخت! لال دین چلا رہا تھا، “ یہ تو پلیگ کا چوہا تھا۔ اِسے کیوں ہاتھ لگایا؟ اب خود بھی مرو گے ، ہمیں بھی مارو گے۔“

    اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہی کھڑے لال دین نے پلیگ کے مرض پر ایک مفصل تقریر کر ڈالی۔ پہلے تیز بخار چڑھے گا۔ پھر طاعون کی گلٹی نمودار ہوگی، رفتہ رفتہ وہ مکئی کے بھٹے جتنی بڑی ہو جائے گی ۔ جسم سوج کر کُپّا ہو جائے گا۔ ناک ، کان اور منہ سے خون ٹپکے گا ۔ گلٹی سے پیپ بہے گی اور چار پانچ دن مین اللہ اللہ خیر صلا ہو جائے گی۔

    چند روز بعد میں ریذیڈنسی روڈ پر گھوم رہا تھا کہ اچانک ایک چُوہا تیز تیز بھاگتا ہوا سڑک پر آیا۔ کچھ دیر رُک کر وہ شرابیوں کی طرح لڑکھڑایا۔ دو چار بار زمین پر لوٹ لگائی اور پھر دھپ سے اوندھے منہ لیٹ گیا۔ میں نے پاس جا کر اُسے پاؤں سے ہلایا تو وہ مر چُکا تھا۔ بے خیالی میں مَیں نے اُسے دُم سے پکڑا اور اُٹھا کر سڑک کے کنارے ڈال دیا۔ چند راہ گیر جو دور کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے، پکار پکار کر کہنے لگے، “پلیگ کا چوہا ، پلیگ کا چوہا۔ گھر جا کر جلدی نہاؤ، ورنہ گلٹی نکل آئے گی۔“

    ان لوگوں نے بھی پلیگ کی جملہ علامات پر حسبِ توفیق روشنی ڈالی اور میرے عِلم میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔

    ان دِنوں جموں شہر میں ہر روز دس دس پندرہ پندرہ لوگ طاعون سے مرتے تھے ۔ گلی کوچوں میں چاروں طرف خوف ہی خوف چھایا ہوا نظر آتا تھا۔ گاہک دکانوں کا کن انکھیوں سے جائزہ لیتے تھے کہ کہیں بوریوں اور ڈبوں اور کنستروں کے آس پاس چوہے تو نہیں گھوم رہے۔ دکان دار گاہکوں کو شک و شبہ سے گھورتے تھے کہ ان کے ہاں پلیگ کا کیس تو نہیں ہوا۔ لوگوں نے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا اور ملنا جلنا ترک کر دیا تھا۔ سڑک پر راہگیر ایک دوسرے سے دامن بچا بچا کر چلتے تھے۔ شہر کا ہر مکان دوسروں سے کٹ کٹا کر الگ تھلگ ایک قلعہ سا بنا ہوا تھا، جس میں پھٹی پھٹی سہمی آنکھوں والے محصور لوگ چپ چاپ اپنی اپنی گِلٹی کا انتظار کر رہے تھے۔

    میونسپل کمیٹی والے در و دیوار سونگھ سونگھ کر پلیگ کے مریضوں کا سراغ لگاتے تھے۔ جہاں اُن کا چھاپہ کام یاب رہتا تھا، وہاں وہ علی بابا چالیس چور کی مرجینا کی طرح دروازے پر سفید چونے کا نشان بنا دیتے تھے۔ تھوڑی بہت رشوت دے کر یہ نشان اپنے مکان سے مٹوایا اور اغیار کے دروازوں پر بھی لگوایا جا سکتا تھا۔ پلیگ کے عذاب میں مبتلا ہو کر مریض تو اکثر موت کی سزا پاتا تھا۔ باقی گھر والے مفرور مجرموں کی طرح منہ چُھپائے پھرتے تھے۔ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کا رواج بھی بہت کم ہو گیا تھا۔ لوگ دور ہی دور سے سلام دعا کر کے رسمِ مروت پوری کر لیتے تھے۔

    یکے بعد دیگرے دو طاعون زدہ چوہوں کو ہاتھ لگانے کے باوجود جب میرے تن بدن میں کوئی گلٹی نمودار نہ ہوئی تو میرا دل شیر ہوگیا۔ اپنے اِردگرد سہمے ہوئے ہراساں چہرے دیکھ کر ہنسی آنے لگی۔

    (شہاب نامہ سے اقتباس)

  • چوہے کی دل چسپ کہانی پڑھیے

    چوہے کی دل چسپ کہانی پڑھیے

    اردو کا مشہور محاورہ ہے پیٹ میں‌ چوہے دوڑنا جو بھوک سے بے حال ہونے پر ان لوگوں کی زبان پر بھی نکل جاتا ہے جو عام حالات میں اس چھوٹی سی مخلوق کا نام لیتے ہوئے بھی کراہت محسوس کرتے ہیں۔

    چوہے دنیا بھر میں‌ دندناتے پھرتے ہیں اور صرف جنگل یا ویرانے ہی اس مخلوق کا مسکن نہیں‌ ہیں‌ بلکہ یہ پُر رونق شہر، بازار اور انسانی آبادیوں میں‌ بھی آزادی سے گھومتے پھرتے نظر آجائیں گے۔ اکثر لوگ چوہے سے کراہت ہی نہیں بلکہ خوف بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اسی مخلوق کو مقدس بھی مانا جاتا ہے۔ ہندو اساطیر کی بات کریں‌ تو چوہے سے متعلق کئی داستانیں پڑھنے کو ملیں‌ گی۔ اسی طرح‌ ہم نے ایک شکاری کے جال میں‌ پھنس جانے والے شیر کی کہانی بھی پڑھی ہے جسے ایک چوہا اپنے دانتوں سے جلدی جلدی کتر دیتا ہے اور جنگل کا بادشاہ آزاد ہوجاتا ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ کہ چوہا، جس سے اکثر لوگ ڈرتے ہیں کس ملک کے باسیوں‌ کے لیے بہت خاص ہے اور وہ اسے‌ اہم تصور کرتے ہیں؟

    چین وہ ملک ہے جہاں‌ کے لوگ چوہے کی موجودگی کو تجسس اور وسائل کی بھرمار سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہی نہیں‌ بلکہ چینی کیلنڈر کا پہلا اور نمایاں جانور بھی چوہا ہی ہے۔‌ یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ چین میں رواں سال اس تناظر میں خاص تقریبات کا انعقاد بھی کیا جانا تھا۔ تاہم دنیا بھر میں‌ کرونا کی وبا کے باعث کئی تہوار اور بڑی تقریبات کا انعقاد ممکن نہیں‌ ہو سکا۔

    چین کے علاوہ دنیا کے کسی اور خطّے یا ملک میں‌ بسنے والے چوہے میں‌ کوئی دل چسپی نہیں‌ رکھتے اور اسے بدصورت یا کریہہ سمجتے ہیں جس کے تصور ہی سے بدن میں جھرجھری دوڑ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چوہے کو یورپ اور ایشیا میں وبائی امراض پھیلانے اور لاکھوں‌ انسانوں‌ کی ہلاکت کا ذمہ دار بھی سمجھا جاتا ہے۔ طاعون کے علاوہ کوڑھ کی بیماری یا بعض دوسرے امراض کے حوالے سے عام خیال ہے کہ یہ وبائیں یا امراض‌ چوہے کی مختلف اقسام سے انسانوں‌ کو منتقل ہوئے۔

  • وبا اور کوارنٹین

    وبا اور کوارنٹین

    کرونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتیں، قرنطینہ اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے حکومتی اقدامات، صحتِ‌ عامّہ کی تنظیموں کی جانب سے آگاہی مہمات جاری ہیں۔ پاکستان میں‌ لاک ڈاؤن اور اس حوالے سے پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں، مگر خوف کی فضا برقرار ہے، کیوں‌ کہ ابھی یہ وبا پوری طرح‌ ختم نہیں‌ ہوئی ہے۔

    چند ماہ کے دوران آپ نے متعدد ناولوں اور فلموں‌ کا ذکر سنا یا پڑھا ہو گا جو اسی قسم کی فرضی اور حقیقی وباؤں اور ہلاکتوں‌ کی افسانوی اور فلمی شکل ہیں، لیکن طاعون کی وبا وہ حقیقت ہے جسے برصغیر کے معروف افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے نہایت خوبی سے اپنے افسانے میں سمیٹا ہے۔

    راجندر سنگھ بیدی کا یہ افسانہ ‘کوارنٹین‘ کے نام سے ان کے مجموعے میں‌ شامل ہے جس میں طاعون کے مرض‌ سے اموات، خوف کی فضا، اور قرنطینہ میں‌ ڈالے جانے والوں کے جذبات اور ان کی کیفیات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس افسانے سے چند اقتباسات پیش ہیں‌ جو کرونا کی وبا میں‌ ہمارے طرزِ عمل اور ماحول سے گہری مطابقت رکھتے ہیں۔

    اس افسانے کا آغاز یوں‌ ہوتا ہے:

    "ہمالہ کے پاؤں میں لیٹے ہوئے میدانوں پر پھیل کر ہر ایک چیز کو دھندلا بنا دینے والی کہرے کے مانند پلیگ کے خوف نے چاروں طرف اپنا تسلط جما لیا تھا۔ شہر کا بچہ بچہ اس کا نام سن کر کانپ جاتا تھا۔”

    "پلیگ تو خوف ناک تھی ہی، مگر کوارنٹین اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی۔ لوگ پلیگ سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے، اور یہی وجہ تھی کہ محکمۂ حفظانِ صحت نے شہریوں کو چوہوں سے بچنے کی تلقین کرنے کے لیے جو قد آدم اشتہار چھپوا کر دروازوں، گزر گاہوں اور شاہراہوں پر لگایا تھا، اس پر ’’نہ چوہا نہ پلیگ‘‘ کے عنوان میں اضافہ کرتے ہوئے ’’نہ چوہا نہ پلیگ، نہ کوارنٹین‘‘ لکھا تھا۔ ”

    "کوارنٹین کے متعلق لوگوں کا خوف بجا تھا۔ بحیثیت ایک ڈاکٹر کے میری رائے نہایت مستند ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جتنی اموات شہر میں کوارنٹین سے ہوئیں، اتنی پلیگ سے نہ ہوئیں، حالاں کہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں، بلکہ وہ اس وسیع رقبہ کا نام ہے جس میں متعدی وبا کے ایّام میں بیمار لوگوں کو تن درست انسانوں سے ازروئے قانون علاحدہ کر کے لا ڈالتے ہیں تاکہ بیماری بڑھنے نہ پائے۔ ”

    "اگرچہ کوارنٹین میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا کافی انتظام تھا، پھر بھی مریضوں کی کثرت سے وہاں آ جانے پر ان کی طرف فرداً فرداً توجہ نہ دی جا سکتی تھی۔ خویش و اقارب کے قریب نہ ہونے سے میں نے بہت سے مریضوں کو بے حوصلہ ہوتے دیکھا۔ کئی تو اپنے نواح میں لوگوں کو پے در پے مرتے دیکھ کر مرنے سے پہلے ہی مرگئے۔”

    طاعون سے ایک ہی روز میں‌ کئی ہلاکتوں‌ کے بعد ان کی لاشوں‌ کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا وہ شاید جیتے جاگتے انسانوں‌ کی مجبوری تھا، لیکن لواحقین پر کیا گزرتی ہو گی جب وہ اپنے پیارے کی تدفین سے بھی محروم کر دیے جاتے تھے، اس پر مصنف لکھتے ہیں:

    "بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ کوئی معمولی طور پر بیمار آدمی وہاں کی وبائی فضا ہی کے جراثیم سے ہلاک ہو گیا اور کثرتِ اموات کی وجہ سے آخری رسوم بھی کوارنٹین کے مخصوص طریقہ پر ادا ہوتیں، یعنی سیکڑوں لاشوں کو مردہ کتوں کی نعشوں کی طرح گھسیٹ کر ایک بڑے ڈھیر کی صورت میں جمع کیا جاتا اور بغیر کسی کے مذہبی رسوم کا احترام کیے، پٹرول ڈال کر سب کو نذرِ آتش کر دیا جاتا اور شام کے وقت جب ڈوبتے ہوئے سورج کی آتشیں شفق کے ساتھ بڑے بڑے شعلے یک رنگ و ہم آہنگ ہوتے تو دوسرے مریض یہی سمجھتے کہ تمام دنیا کو آگ لگ رہی ہے۔”

    "کوارنٹین اس لیے بھی زیادہ اموات کا باعث ہوئی کہ بیماری کے آثار نمودار ہوتے تو بیمار کے متعلقین اسے چھپانے لگتے، تاکہ کہیں مریض کو جبراً کوارنٹین میں نہ لے جائیں۔ چوں کہ ہر ایک ڈاکٹر کو تنبیہ کی گئی تھی کہ مریض کی خبر پاتے ہی فوراً مطلع کرے، اس لیے لوگ ڈاکٹروں سے علاج بھی نہ کراتے اور کسی گھر کے وبائی ہونے کا صرف اسی وقت پتہ چلتا، جب کہ جگر دوز آہ و بکا کے درمیان ایک لاش اس گھر سے نکلتی۔”

    "ان دنوں میں کوارنٹین میں بطور ایک ڈاکٹر کے کام کر رہا تھا۔ پلیگ کا خوف میرے دل و دماغ پر بھی مسلّط تھا۔ شام کو گھر آنے پر میں ایک عرصہ تک کار بالک صابن سے ہاتھ دھوتا رہتا اور جراثیم کش مرکب سے غرارے کرتا، یا پیٹ کو جلا دینے والی گرم کافی یا برانڈی پی لیتا۔”

    گلے میں ذرا بھی خراش محسوس ہوتی تو میں سمجھتا کہ پلیگ کے نشانات نمودار ہونے والے ہیں۔۔۔ اُف! میں بھی اس موذی بیماری کا شکار ہو جاؤں گا۔۔۔ پلیگ! اور پھر۔۔۔ کوارنٹین!

    اس افسانے کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے وبا کے خاتمے یا اس کی شدّت میں‌ کمی کا ذکر یوں‌ ملتا ہے۔

    اب فضا بیماری کے جراثیم سے بالکل پاک ہو چکی تھی۔ شہر کو بالکل دھو ڈالا گیا تھا۔ چوہوں کا کہیں نام و نشان دکھائی نہ دیتا تھا۔ سارے شہر میں صرف ایک آدھ کیس ہوتا جس کی طرف فوری توجہ دیے جانے پر بیماری کے بڑھنے کا احتمال باقی نہ رہا۔

    شہر میں کاروبار نے اپنی طبعی حالت اختیار کر لی، اسکول، کالج اور دفاتر کھلنے لگے۔

  • کیا ڈبلیو ایچ او نے طاعون کی خطرناک وبا کی وارننگ جاری کی؟

    کیا ڈبلیو ایچ او نے طاعون کی خطرناک وبا کی وارننگ جاری کی؟

    ایسی متعدد پوسٹس سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر ہزاروں مرتبہ شیئر ہوئیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے کہا ہے کہ چین میں جولائی 2020 کے آغاز میں گلٹی دار طاعون (bubonic plague) کا ایک کیس سامنے آیا ہے جس سے وبا پھیل سکتی ہے۔

    ان پوسٹس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ امریکی ادارے سی ڈی سی نے کہا ہے کہ گلٹی دار طاعون کھانسنے سے پھیل سکتا ہے۔ تاہم یہ دعوے درست نہیں ہیں، عالمی ادارہ صحت کہہ چکا ہے کہ گلٹی دار طاعون کا مذکورہ کیس کسی بڑے خطرے کی نشانی نہیں ہے اور معاملہ اچھی طرح سے نمٹایا جا چکا ہے۔ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن نے بھی کہا ہے کہ گلٹی دار طاعون عموماً پسو کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔

    مذکورہ دعوے فیس بک پر 7 جولائی 2020 کو ایک پوسٹ میں سامنے آئے تھے، جسے 1700 سے زائد بار شیئر کیا گیا، پوسٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ جو معلومات دی جا رہی ہیں وہ بالکل درست ہیں اور ڈبلیو ایچ او اور سی ڈی سی کی جانب سے ہیں، پوسٹ میں جو تصویر شامل کی گئی وہ ایک مومی مجسمے کی ہے جس میں ایک گلٹی دار طاعون کے مریض کو دکھایا گیا ہے۔

    یہ گمراہ کن دعویٰ چین کے خود مختار اندرونی علاقے منگولیا میں گلٹی دار طاعون کا ایک کیس سامنے آنے کے ایک دن بعد پھیلا۔

    اس پوسٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ کیا گلٹی دار طاعون واپس آ گیا ہے، جو ایک نہایت ہی خطرناک اور مہلک بیماری اور چین میں اس کا ایک مصدقہ کیس سامنے آ گیا ہے۔ اگر اس کے لیے جدید اینٹی بایوٹکس دی جائیں تو اس سے پیچیدگیاں اور موت بھی ہو سکتی ہے۔

    منگولیا میں طاعون کا مصدقہ کیس، حکام نے الرٹ جاری کردیا

    واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او نے کہا تھا کہ گلٹی دار طاعون ایک بہت عام طاعون ہے اور یہ متاثرہ پسو کے کاٹنے سے ہوتا ہے، اس میں جسم پر گلٹیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ 7 جولائی کو عالمی ادارہ صحت کی ترجمان مارگریٹ ہیرس نے بیان دیا کہ ہم چین میں گلٹی دار طاعون کے کیسز کی تعداد پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں، فی الوقت وبا کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگرچہ تاریخ میں اس طاعون نے بڑی وبائیں برپا کیں، جن میں بلیک ڈیتھ بھی شامل ہے جس نے چودھویں صدی کے دوران 50 ملین افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، تاہم آج اس کا علاج اینٹی بایوٹکس اور دیگر حفاظتی تدابیر سے آسانی سے ہو سکتا ہے۔

    کھانسی کے ذریعے گلٹی دار طاعون کے پھیلاؤ کا دعویٰ بھی بالکل گمراہ کن ہے، پوسٹ میں دعویٰ تھا کہ یہ ایک ایئر بورن وبا ہے اور متاثرہ آدمی کھانستا ہے تو اس سے پھیل سکتا ہے، تاہم سچ یہ ہے کہ سی ڈی سی کے مطابق گلٹی دار طاعون عام طور سے پسو کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔

    نمونیا کا طاعون ایک اور قسم ہے اس بیماری کی، جو گلٹی دار طاعون کا علاج نہ ہونے سے ہو سکتا ہے، سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ یہ واحد طاعون ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔