ڈسکہ: پنجاب کے شہر ڈسکہ میں بے رحم پولیس اہلکاروں نے مرغوں کی لڑائی دیکھنے والے طالب علم کی زندگی کا چراغ گُل کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق ڈسکہ کے نواحی گاؤں کوٹلی بھاگو کے مسجد کے امام کا 17 سالہ بیٹا عبدالرحمان موترہ پولیس کی مبینہ فائرنگ سے جاں بحق ہو گیا۔
انسانیت سوز واقعے کے بعد موترہ پولیس خود ہی اپنے قتل کی مدعی بن گئی، اور مقتول کے دوست رضوان پر قتل کا الزام اپنے سر لینے پر تشدد کیا، موترہ پولیس اور پولیس ترجمان کے مؤقف میں تضاد سامنے آنے کے بعد بھانڈہ پھوٹ گیا، ترجمان نے مقتول طالب علم کو ڈاکو قرار دے دیا تھا۔
مقتول طالب علم کے والد نے بتایا کہ ان کا بیٹا عبدالرحمان اپنے دوستوں کے ساتھ زمیندار کے ڈیرے پر مرغوں کی لڑائی دیکھنے گیا تھا، جہاں پولیس پہنچ گئی تو لڑکوں نے دوڑیں لگا دیں، جس پر پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کر دی، اور ایک گولی عبدالرحمان کے گلے کے آر پار ہو گئی، جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔
مقتول کے دوست رضوان نے کہا کہ قتل کا الزام اپنے سر لینے کے لیے پولیس اہلکاروں نے اس پر تشدد کیا، تاہم اہل دیہہ نے اس ناحق قتل پر گھوئینکی کے مقام پر روڈ بلاک کر کے سخت احتجاج کیا اور پولیس کے خلاف سخت نعرے بازی کی، تو پولیس نے خود ہی مدعی بن کر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا، جسے ورثا نے من گھڑت قرار دے کر مسترد کر دیا۔
ورثا کے سخت رد عمل کے بعد ترجمان پولیس نے مقتول طالب علم کو ڈاکو قرار دے کر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے قتل کا مؤقف اپنا لیا، اس طرح موترہ پولیس اور ترجمان پولیس کے مؤقف میں تضاد سامنے آیا۔
موترہ پولیس کے مقدمے اور ترجمان پولیس کے تضاد پر حکام نے نوٹس لے لیا ہے، اور واقعے پر تھانے دار سمیت 7 اہل کاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، دوسری طرف واقعے کو 21 گھنٹے گزر چکے ہیں اور تاحال پوسٹ مارٹم نہیں ہوا، جس پر مقتول طالب علم کے اہل خانہ نے بھی مقدمے کی درخواست دے دی ہے، اور پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کیا ہے۔
لواحقین کا مطالبہ ہے کہ وراثوں کی مدعیت میں الگ سے مقدمہ درج کیا جائے، جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ وارثوں کی درخواست پر پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں کراس ورژن شامل کر لیا گیا ہے اور تھانیدار سمیت سات اہلکار پولیس حراست میں ہیں، میرٹ پر تفتیش کر کے ورثا کو انصاف دیا جائے گا۔
پولیس اور طالب علم کے لواحقین کے درمیان مذاکرات بھی ہو گئے ہیں جس میں ایس ڈی پی او سعادت علی نے لواحقین کو انصاف کی یقین دہانی کرائی ہے، اور کہا ہے کہ جو بھی قاتل ہے وہ مجرم ہے، اس کے خلاف میرٹ پر تفتیش ہوگی اور اسے کوئی رعایت نہیں ملے گی، مذاکرات کے بعد طالب علم کی میت پوسٹ مارٹم کے لیےڈی ایچ کیو علامہ اقبال اسپتال روانہ کی گئی۔