Tag: طبیب

  • طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    میاں مصطفیٰ باقر کے مرنے کے بعد ان کے اسکول کا رزلٹ آیا۔

    آٹھویں کلاس میں فرسٹ پاس ہوئے تھے۔ ہیضے کی وبا میں ابھی کمی نہیں آئی تھی۔

    بھتیجے ممتاز حیدر تو اللہ کے فضل سے اچھے ہوگئے، لیکن اب بھانجے عثمان حیدر کو کالرا ہوگیا۔ ماموں ممانی نے متوحش ہوکر بار بار اُن کے ناخن دیکھنا شروع کیے۔ فوراً گاڑی بھیج کر جھوائی ٹولے کے نامی طبیب حکیم عبدالوالی کو بلوایا۔

    حکیم صاحب نے کہا حالت تشویش ناک نہیں۔ ان کا نسخہ بندھوایا گیا۔ دوا ماموں ممانی وقت پر خود کھلاتے رہے۔

    اسی ہفتے علامہ اقبال مصطفیٰ باقر کی تعزیت کے لیے لاہور سے تشریف لائے۔ رات کو اس ہوا دار برآمدے میں ان کا پلنگ بچھتا جہاں عثمان حیدر سوتے تھے۔ دن میں دو چار بار عثمان حیدر کے کمرے میں جاکر علامہ ان کی مزاج پرسی کرتے۔

    ڈاکٹر اقبال کو لکھنؤ آئے دو تین روز ہوئے تھے کہ علی محمد خاں راجا محمود آباد نے اُن کی زبردست دعوت کی۔

    وہاں خوب ڈٹ کر شاعرِ مشرق نے لکھنؤ کا مرغّن نوابی ماحضر تناول فرمایا۔ رات کے گیارہ بجے ہلٹن لین واپس آئے۔ کپڑے تبدیل کیے۔ برآمدے میں جاکر اپنے پلنگ پر سو رہے۔

    رات کے ڈھائی بجے جو اُن کے نالہ ہائے نیم شبی کا وقت تھا، افلاک سے جواب آنے کے بجائے پیٹ میں اٹھا زور کا درد۔ شدت کی مروڑ۔ سوئیٹ نے گھبرا کر رونا شروع کردیا۔

    سارا گھر سورہا تھا۔ میزبانوں کو زحمت نہ دینے کے خیال سے چپکے لیٹے رہے۔ نزدیک پلنگ پر نو عمر عثمان حیدر بے خبر سورہے تھے۔ اقبال نے آہستہ سے اٹھ کر غسل خانے کا رخ کیا، وہاں سے تیسری بار لوٹ کر آئے۔

    برآمدے کی لائٹ جلائی۔ عثمان حیدر کے سرہانے میز پر حکیم عبدالوالی کی دوا کا قدّح رکھا تھا۔ آپ اس کی چوگنی خوراک پی گئے۔ پھر لیٹ رہے۔ پھر غسل خانے گئے۔ واپس آکر مزید دو خوراکیں نوشِ جان کیں۔

    کھٹر پٹر سے عثمان حیدر کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے بستر کے کنارے بیٹھے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری اور اپنے ناخنوں کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔

    مصطفیٰ باقر مرحوم کے ناخن نیلے پڑنے کا قصہ انھیں بتایا جا چکا تھا۔

    عثمان حیدر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ادب سے دریافت کیا۔ ”ڈاکٹر صاحب خیریت؟“
    بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

    ”مجھے بھی کالرا ہوگیا۔ جاکر سجّاد کو جگا دو۔“

    اس وقت پو پھٹ رہی تھی۔ باغ میں چڑیوں نے گنجارنا شروع کردیا تھا۔ بڑی خوش گوار ہوا چل رہی تھی اور بارش کی آمد آمد تھی۔ عثمان حیدر نے تیر کی طرح جاکر دوسرے برآمدے میں ماموں جان کو جگایا۔ اس وقت ڈاکٹر اقبال نیم جاں سے اپنے پلنگ پر لیٹ چکے تھے۔

    ماموں نے فوراً آکر منفردِ روزگار مہمان کی یہ حالت دیکھی۔ حواس باختہ سرپٹ پھاٹک کی طرف بھاگے۔

    لکھنؤ کا انگریز کرنل سول سرجن نزدیک ہی ایبٹ روڈ پر رہتا تھا۔ اس کو جاکر جگایا۔ کرنل بھاگم بھاگ ہلٹن لین پہنچا۔ انجکشن لگایا۔ مریض کی تسلی تشفی کی۔

    آدھ گھنٹے بعد علاّمہ پر غنودگی طاری ہوئی۔ کرنل نے نسخہ لکھا۔ مشتاق بیرہ حضرت گنج سے دوا بنوا کر لایا۔ دو گھنٹے بعد علامہ کو پھر اسہال شروع ہوگیا۔ اس وقت تک ڈرائیور آچکا تھا۔ وہ حکیم عبدالوالی کو لینے جھوائی ٹولہ گیا۔

    حکیم صاحب بوکھلائے ہوئے ہلٹن لین پہنچے۔ کرنل کی شیشی دیکھی۔ پھر نسخہ لکھنے بیٹھے۔

    علامہ نے تکیہ سے سَر اٹھا کر نسخہ ملاحظہ فرمایا۔ بولے، ”حکیم صاحب یہ دوائی تو میں پہلے ہی آدھی بوتل پی چکا ہوں۔“

    حکیم صاحب ہکّا بکّا اقبال کو دیکھنے لگے۔ عثمان حیدر والی بوتل اٹھائی۔ اس میں پوری چھے خوراکیں کم تھیں۔

    شاعر مشرق نے بھولپن سے فرمایا، ”حکیم صاحب بات یہ ہوئی کہ میں نے سوچا یہ لڑکا کم عمر ہے۔ اس کی خوراک سے چار گنا زیادہ مجھے کھانی چاہیے، جبھی فائدہ ہوگا۔“

    حکیم عبدالوالی نے زور دار قہقہہ لگایا۔ ”ڈاکٹر صاحب آپ واقعی فلسفی ہیں۔ خدا نے بڑی خیریت کی۔ اگر دو ایک خوراکیں اور پی ہوتیں، لینے کے دینے پڑجاتے۔“

    شام تک علّامہ کی حالت سنبھل گئی، لیکن ان کی علالت کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ہلٹن لین میں لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ راجہ صاحب محمود آباد، مشیر حسین قدوائی، جسٹس سمیع اللہ بیگ، سید وزیر حسن صبح شام آکر مزاج پرسی کرتے۔ حکیم عبدالوالی اور کرنل روزانہ آیا کرتے۔

    پانچویں دن راجہ محمود آباد نے فرسٹ کلاس کا درجہ ریزور کروا کے دو ملازموں کے ساتھ علامہ اقبال کو لاہور روانہ کیا۔

    (قرۃ العین حیدر کی کتاب ”کارِ جہاں دراز ہے“ سے انتخاب)

  • بخشش اور انعامات کو ٹھکرانے والے کفایتُ اللہ

    بخشش اور انعامات کو ٹھکرانے والے کفایتُ اللہ

    حکیم کفایت اللہ خاں بے حد غیور طبیعت کے حامل تھے۔ نوابین اور راجے مہاراجے خطیر معاوضے کی پیش کش کرتے تھے، مگر حکیم صاحب کو یہ سب گوارا نہ تھا۔

    نواب رام پور کی سفارش پر ایک مرتبہ نواب صاحب ٹونک کی مدقوق ہم شیر کے علاج کے لیے آمادہ ہوئے۔

    وہ کسی بھی علاج سے تن درست نہ ہوسکی تھیں۔ حکیم صاحب نے ان کا علاج کیا اور کچھ عرصے بعد مریضہ کی صحت رفتہ رفتہ عود کر آئی۔

    نواب ٹونک نے بہ اظہارِ مسرت نوابی انعامات سے نوازا، ساتھ ہی یہ اشارہ بھی کردیا کہ مصاحبین بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔

    پھر کیا تھا، لاکھوں کے انعامات جمع ہوگئے، لیکن حکیم صاحب کو یہ پسند نہیں آیا۔

    اپنے ملازمین اور مصاحبین کو واپسی کے لیے رختِ سفر کی تیاری کا حکم دیا۔

    نواب ٹونک کے ذاتی انعامات قبول کرلیے۔ دیگر عطیات و انعامات یہ کہہ کر یوں ہی چھوڑدیے کہ میں چندے کے لیے نہیں آیا تھا۔

    اس کے بعد اصرار کے باوجود کبھی ٹونک نہیں گئے۔

    ( حکیم عبد الناصر فاروقی کی مرتب کردہ کتاب ”اطبا کے حیرت انگیز کارنامے“ سے انتخاب)

  • ہڑتال سے جوئیں ختم اور گنج پن دور کیا جاسکتا ہے

    ہڑتال سے جوئیں ختم اور گنج پن دور کیا جاسکتا ہے

    ہمارے یہاں ہڑتال کا لفظ انگریزی زبان کے اسٹرائک کا مفہوم ادا کرنے کے لیے مستعمل ہے۔

    ملک بھر میں سیاسی جماعتوں اور ایک زمانے میں مزدو یونینوں کی حکومت اور مختلف اداروں کے خلاف ہڑتالیں ہم دیکھتے اور اس کا حصّہ بھی رہے ہیں۔

    کراچی کے وہ شہری جو اب زندگی کی چار دہائیاں یا اس سے زائد دیکھ چکے ہیں وہ تو اس سے خوب ہی واقف ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں کسی بھی قسم کی ہڑتال کو کام یاب بنانے کے لیے ہلڑ بازی بھی ضروری سمجھی جاتی رہی ہے، مگر ہم کسی شٹر بند یا قلم چھوڑ ہڑتال کی بات نہیں کررہے بلکہ یہ ایک معدنی جنس ہے جسے زربیخ بھی کہتے ہیں۔ طبی اور کیمیائی اعتبار سے اسے مختلف ناموں سے شناخت کیا جاتا ہے اور اس کی اقسام کے لحاظ سے ادویہ تیار کی جاتی ہیں.

    ماہرین کے مطابق اس کی پانچ اقسام ہیں جو مختلف امراض سے نجات کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ طبیب اس کی مخصوص مقدار سے دوا تیار کرتے ہیں۔

    یہ زرد، سرخ، سفیدی مائل، سبز اور خاکی ہوتی ہے۔ ہڑتال یا زربیخ پیاس لگاتی ہے۔ اس کی مدد سے گوشت اور مسے کو کاٹا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ خارش سے جلد پر پڑ جانے والے نشانات کے علاوہ داغوں کو دور کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔ اگر سَر میں جوئیں پڑ جائیں تو اس کا مخصوص طریقے سے استعمال ان سے نجات دلا سکتا ہے۔

    ہڑتال گنج پن کو دور کرتی ہے۔ اسے عام طریقے سے کھانے سے گریز کرنا چاہیے کہ آنتوں میں خراش پیدا کرتی ہے۔ بعض ماہرین نے لکھا ہے کہ یہ زہریلی ہوتی ہے اور اس کی مدد سے ہر قسم کا کیڑا مر جاتا ہے۔ مختلف حشرات کو بھگانے کے لیے اس کی دھونی بھی دی جاتی ہے۔

  • چالیس روز میں‌ مٹاپے سے نجات کا انوکھا مگر آزمودہ طریقہ کیا ہے؟

    چالیس روز میں‌ مٹاپے سے نجات کا انوکھا مگر آزمودہ طریقہ کیا ہے؟

    ہم نے صدیوں پرانے کئی واقعات اور ایسی حکایات پڑھی ہوں گی جن میں ہمارے لیے کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ تھا۔ یہ بھی ایک ایسا ہی قصہ ہے۔

    زمانۂ قدیم میں علاج معالجے کی غرض سے جہاں اطبا جڑی بوٹیاں اور مختلف اجناس سے مدد لیتے تھے وہیں ایسے طریقے بھی اپناتے تھے جس سے ان کے ذہین، دانا اور باشعور ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ قصہ ایک کتاب اطبا کے حیرت انگیز کارنامے میں حکیم عبدالناصر فاروقی نے نقل کیا ہے۔ آپ بھی پڑھیے۔

    خلیفہ ہارون الرشید کا ایک عزیز عیسیٰ بن جعفر بن منصور بے حد لحیم شحیم تھا۔ اس کی وجہ سے اس کا جسم بے ڈول اور بدنما معلوم ہوتا تھا۔ اس کی یہ فربہی خطرناک صورت اختیار کر گئی تھی۔ ہارون الرشید سے اپنے عزیز کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی تھی۔ بہت سے طبیب اس کا علاج کرچکے تھے۔

    چنانچہ عیسیٰ ابن قریش کو بھی علاج کے لیے بلایا گیا۔ اس نے اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد کہاکہ مریض کا معدہ بہت قوی ہے، یہ بے فکری سے کھاتا پیتا اور ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے، اس لیے اس کے جسم پر چربی چڑھتی جارہی ہے۔ عیسیٰ نے ہارون الرشید سے کہا کہ میں اس کا علاج کرسکتا ہوں، بشرطے کہ آپ میری جان کی حفاظت کی ذمے داری لیں۔ خلیفہ نے اسے اطمینان دلایا اور کہاکہ تم بے خوف ہو کر علاج کرو۔

    عیسیٰ ابن قریش مریض کے پاس گیا اور نبض وغیرہ دیکھ کر کہنے لگا کہ ابھی میں آپ کی صحت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ دو چار روز غور کرنے کے بعد کوئی رائے قائم کروں گا۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا آیا اور دو دن کے بعد نہایت مغموم و متفکر انداز میں عیسیٰ بن جعفر کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ مجھے بہت افسوس ہے، شہزادے! زیادہ سے زیادہ آپ کی زندگی کے صرف چالیس دن اور باقی رہ گئے ہیں، اس لیے اب علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کی کوئی آخری خواہش ہو تو پوری کر لیجیے اور کوئی وصیت کرنی ہو تو اس کا اظہار بھی فرما دیجیے۔

    طبیب کی زبان سے یہ مایوسانہ گفت گو سن کر عیسیٰ بن جعفر بہت دل شکستہ ہوا۔ اسے اپنی نظروں کے سامنے موت دکھائی دینے لگی اور اس فکر میں کہ چند دن بعد میں مرجاؤں گا، اپنی جان گھلانے لگا اور بے فکری و آرام طلبی چھوڑ کر مستقل اداس رہنے لگا۔ اس غم میں بدن کی چربی گھلنے لگی اور وہ روز بہ روز دبلا ہوتا گیا۔

    چالیس دن پورے ہوگئے تو عیسیٰ ابن قریش خلیفہ کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا کہ آپ کا عزیز اب بالکل ٹھیک ہوگیا ہے۔ خلیفہ نے عیسیٰ بن جعفر کو دیکھا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ مریض کا جسم اب پہلے سے آدھا رہ گیا ہے۔ خلیفہ بہت خوش ہوئے اور اس نے خاصی رقم بہ طور انعام طبیب کو دی۔ اس طرح عیسیٰ بن جعفر نے موٹاپے جیسے مہلک اور اذیت ناک مرض سے نجات پائی۔

    (نوٹ: اس قصّے کے ماخذ یا اس کے راوی کا کچھ علم نہیں جب کہ یہ قصّہ بہ اندازِ دگر اور مختلف دوسرے کرداروں کے ساتھ بھی پڑھنے کو ملتا ہے)

  • جب جڑی بوٹی نے مسلمان ماہرَ نباتات کو زندگی سے محروم کر دیا!

    جب جڑی بوٹی نے مسلمان ماہرَ نباتات کو زندگی سے محروم کر دیا!

    صدیوں پہلے علم و فنون کے مختلف شعبوں میں تحقیق اور اس کے ذریعے کائنات اور حیات کے بھید پانے کی کوشش اور اپنے علمی و تحقیقی کام سے متعلق مشاہدات اور تجربات کو رقم کرنے والوں میں مسلمان شخصیات بھی شامل ہیں۔

    نباتات یعنی زمین پر پودوں، جڑی بوٹیوں پر تحقیق اور مشاہدات کے ذریعے ان کے خواص، اثرات، فوائد اور امراض میں نافع ہونے کی معلومات رقم کرنے والا ایک نام ضیاء الدّین ابنِ بیطار ہے۔ وہ طبی سائنس میں ایک ماہرِ نباتات کے طور پر مشہور ہیں۔ اسپین ان کا وطن تھا، مگر علم و طب کے شعبے میں دل چسپی ان سے دور دراز کا سفر کرواتی رہی۔ ان کی عمر کا بڑا حصہ گھوم پھر کر پودوں اور جڑی بوٹیوں پر تحقیق میں گزرا۔ انھوں نے اپنے سفر میں جن جڑی بوٹیوں کے خواص اور ان کے فوائد جانے وہ ایک کتاب میں جمع کر دیے۔ دنیا اس کتاب کو ‘‘جامع المفردات’’ کے نام سے جانتی ہے جس میں 14 سو جڑی بوٹیوں پر ان کی تحقیق اور مشاہدات موجود ہیں۔ اس کتاب کی شعبۂ طب میں اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کی گئی۔

    ابنِ بیطار 1197 میں پیدا ہوئے۔ حیوانات اور نباتات میں دل چسپی اور طب کا شوق یوں پروان چڑھا کہ ان کے والد جانوروں کے امراض کا علم رکھتے اور ان کے علاج کے لیے مشہور تھے۔ یہ لفظ بیطار اسی طرف نسبت کرتا ہے۔ یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنی حیوانات کا طبیب ہیں۔

    ابنِ بیطار نے اس زمانے کے رواج کے مطابق ابتدائی اور عربی کی تعلیم مکمل کرکے حکمت پڑھی اور اپنی لگن اور دل چسپی سے وہ قابلیت اپنے اندر پیدا کی کہ اس زمانے میں انھیں امام اور شیخ کہا جانے لگا۔ ان کے علم اور دانش نے عوام ہی نہیں خواص کو بھی ان کا معتقد بنا دیا تھا۔ کہتے ہیں یہ ماہرِ نباتیات دس برس تک شاہ دمشق کے دربار سے وابستہ رہا۔ تاہم بادشاہ کے انتقال کے بعد مصر ہجرت کر گئے تھے اور وہاں بھی طبیب خاص کے طور پر کام کیا۔

    پیڑ پودوں اور جڑی بوٹیوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کا شوق انھیں بیس برس کی عمر میں مصر، یونان، اور ایشیائے کوچک کے جنگلوں اور پہاڑوں تک لے گیا۔ اس زمانے میں ابو العباس ایک مشہور ماہرِ نباتات تھے جن سے ابنِ بیطار نے استفادہ کیا۔ والد سے بھی انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا تھا۔

    اسی طرح دیگر یونانی طبیب اور حکما کی کتب نے بھی ان کے نباتات سے متعلق علم میں اضافہ اور شوق و جستجو کو مہمیز دی۔ ان کی دو کتب جڑی بوٹیوں اور دواؤں سے متعلق ہیں جو بہت مشہور ہیں۔ ابنِ بیطار کی موت کی وجہ ایک ایسی جڑی بوٹی بنی جسے انھوں نے ایک تجربے کی غرض سے آزمایا تھا۔ تاہم وہ زہریلی ثابت ہوئی اور 1248 میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ دمشق میں انتقال کے بعد وہیں ان کی تدفین کردی گئی۔ اسپین اور دنیا کے مختلف شہروں‌ میں‌ یادگار کے طور پر ان کے مجسمے نصب کیے گئے ہیں.