Tag: طبی تحقیق

  • جسم کیلیے وٹامن ڈی کیوں ضروری ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    جسم کیلیے وٹامن ڈی کیوں ضروری ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    سورج کی روشنی سے مفت حاصل ہونے والا وٹامن ڈی ہمارے جسم کے لیے بالخصوص ہڈیوں کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے لیکن اس کی کمی سے ہڈیاں ہی نہیں بلکہ دل کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں ایسے جینیاتی شواہد کو شناخت کیا گیا جو دل کی شریانوں کے امراض اور وٹامن ڈی کی کمی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    درحقیقت ایسے افراد میں وٹامن ڈی کی مناسب مقدار والے افراد کے مقابلے میں امراض قلب کا خطرہ دگنا سے زیادہ ہوتا ہے، عالمی سطح پر دل کی شریانوں سے جڑے امراض یا سی وی ڈی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔

    اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی دل کی صحت پر منفی کردار ادا کرتی ہے اور اس پر توجہ دے کر دل کی شریانوں کے امراض کے عالمی بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ وٹامن ڈی کی بہت زیادہ کمی کا مسئلہ بہت کم افراد کو ہوتا ہے مگر معتدل کمی کی روک تھام کرکے دل کو منفی اثرات سے بچانا بہت ضروری ہے، بالخصوص ایسے افراد جو چار دیواری سے باہر سورج کی روشنی میں زیادہ گھومتے نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہم وٹامن ڈی کو غذا بشمول مچھلی، انڈوں اور فورٹیفائیڈ غذاؤں اور مشروبات سے حاصل کرسکتے ہیں، مگر غذا وٹامن ڈی کے حصول کا زیادہ اچھا ذریعہ نہیں اور صحت بخش غذا سے بھی عموماً وٹامن ڈی کی کمی دور نہیں کی جاسکتی۔

    ان کا کہنا تھا کہ سورج کے ذریعے وٹامن ڈی کا حصول مفت اور آسان ہے اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر روزانہ سپلیمنٹ کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

  • نوجوانوں میں دل کی بیماریاں، پاکستانی تاریخ کی پہلی طویل مدتی ریسرچ اسٹڈی

    نوجوانوں میں دل کی بیماریاں، پاکستانی تاریخ کی پہلی طویل مدتی ریسرچ اسٹڈی

    کراچی: پاکستان کی تاریخ کی پہلی طویل مدتی ریسرچ اسٹڈی کے حوالے سے طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں میں امراض قبل (دل کی بیماریاں) قومی صحت کے بڑے بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق پاکستانی نوجوانوں میں دل کے امراض میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، جہاں 70 فی صد نوجوان مرد اور خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ بیش تر افراد کی شریانوں میں چکنائی جمنے کا عمل ابتدائی عمر میں شروع ہو جاتا ہے جو قبل از وقت ہارٹ اٹیک کا باعث بن رہا ہے۔

    پاکستان کی تاریخ کی پہلی مرتبہ طویل مدتی تحقیقی ریسرچ ’پاک صحت‘ کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 80 فی صد خواتین اور 70 فی صد مرد موٹاپے کا شکار ہیں، 70 فی صد سے زائد افراد کا خراب کولیسٹرول خطرناک حد تک بلند ہے۔ پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کی کانفرنس میں پروفیسر بشیر حنیف کے مطابق یہ شرح دنیا بھر میں کسی بھی نوجوان آبادی میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔


    پاکستان میں چین کے تعاون سے جینیاتی تحقیق کے سلسلے میں اہم پیش رفت


    رپورٹ کے مطابق 2 ہزار سے زائد بظاہر صحت مند مرد خواتین کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں، جن کی عمریں 35 سے 65 سال کے درمیان تھی، ان افراد کی مکمل میڈیکل اسکریننگ، خون کے تجزیے، کیمیاتی ٹیسٹ اور شریانوں کی انجیو گرافی بھی کی گئی۔


    ہارٹ اٹیک سے بچنے کیلیے ان 5 ہدایات پر عمل کریں


    ماہرین صحت کہتے ہیں کہ فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کے نوجوانوں میں امراض قلب ایک بڑے قومی صحت کے بحران کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

  • ماں کا دودھ پینے والے بچوں سے متعلق اہم انکشاف، تحقیق

    ماں کا دودھ پینے والے بچوں سے متعلق اہم انکشاف، تحقیق

    ڈبلن : آئرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے بچے دیگر دودھ پینے والوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔

    آئرلینڈ کے وفاقی دارالحکومت میں واقع ڈبل کالج یونیورسٹی کے محققین نے بچے کو ماں کا دودھ پلانے سے متعلق تحقیق کی، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے بچے جنہیں ماں کا دودھ میسر ہوتا ہے اُن کی ذہنی نشو نما الگ ہوتی ہے۔

    تحقیق کے دوران سات ہزار سے زیادہ بچوں کی ذہانت جانچنے کے لیے اُن سے مختلف سوالات کیے گئے اور 9 ماہ سے پانچ سال تک کی عمروں کے بچوں کی جسمانی صحت کا جائزہ بھی لیا گیا۔

    محقیقین اس نتیجے پر پہنچنے کہ اپنی والدہ کا دودھ پینے والے بچوں میں 3 سال کی عمر سے مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ جلد بھولنے یا ہائپر ایکٹیویٹی جیسی بیماریوں کو بچے رہتے ہیں۔

    اس طرح تحقیق میں ایسے شواہد نہیں ملے کہ ماں کے دودھ پر پلنے والے بچوں کی زبان دانی اور دیگر صلاحیتیں دیگر کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ ماؤں کی تعلیم، غلط عادات کی وجہ سے بچوں کی نشونما پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، تاہم پانچ سال کی عمر کے تمام بچوں کی ذہنی صلاحیتیں ایک جیسی پائی گئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ نہ ملنے اور ان میں بڑھتی شرح اموات میں تعلق دیکھا گیا ہے، جن بچوں کو پیدائش کے بعد ماں کا دودھ میسر آتا ہے ان میں شرح اموات واضح طور پر کم دیکھی گئی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں چوالیس فی صد بچوں میں نشوونما سے متعلق مسائل کی وجہ ماؤں کی بریسٹ فیڈنگ نہ کرنا ہے، جس کے اسباب میں غربت، کمزور صحت، اور تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔

  • خراٹے لینے والے ہوشیار!

    خراٹے لینے والے ہوشیار!

    رات کی نیند کے دوران خراٹے لینا پریشان کن عمل ہوسکتا ہے، تاہم اب ایسے افراد کو ماہرین نے بری خبر بھی سنا دی ہے۔

    یورپین ریسپائریٹری سوسائٹی کی حالیہ کانفرنس کے دوران اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ خراٹے لینے والے افراد میں کینسر جیسے جان لیوا مرض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    یہ انتباہ سوئیڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں جاری کیا گیا ہے کہ رات کو سوتے میں سانس رکنے کے عمل کے شکار افراد جو اس کے باعث خراٹے لیتے ہیں ان میں کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اس کے علاوہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے۔

    اوبسٹریکٹو سلیپ اپنیا کے شکار افراد کا سانس نیند کے دوران بار بار رکتا ہے جس سے خراٹوں کے ساتھ ساتھ متعدد طبی پیچیدگیوں کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق تمباکو نوشی یا الکوحل کا استعمال کرنے والے، موٹاپے یا ذیابیطس کے شکار افراد میں او ایس اے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    مذکورہ تحقیق کے دوران تقریباً 62 ہزار سے زائد او ایس اے کے مریضوں پر مشتمل 2 گروپس بنائے گئے تھے جن میں سے 1 او ایس اے کے مریضوں کا تھا جن میں کینسر کی تشخیص ہوچکی تھی جبکہ دوسرا گروپ کینسر سے محفوظ او ایس اے کے مریضوں کا تھا۔

    مریضوں کی معلومات کا تجزیہ کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ کینسر کے شکار افراد کی نیند بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ ان میں او ایس اے کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگر کوئی شخص رات کے اوقات میں مسلسل آکسیجن کی کمی کا شکار رہتا ہے تو ایسے افراد میں کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    او ایس اے کے شکار افراد رات کے اوقات میں آکسیجن کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ اس دوران خون کی شریانوں میں کلاٹس کا خطرہ بھی خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین ابھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ او ایس اے کی بیماری کینسر کا خطرہ بڑھا دیتی ہے، تاہم ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ کیا او ایس اے براہ راست کینسر کا سبب ہے؟ اس کے لیے مزید تحقیق کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

  • پارکنسنز اور مرگی کے سلسلے میں طبی تحقیق کے لیے مقامی سطح پر بڑا قدم

    پارکنسنز اور مرگی کے سلسلے میں طبی تحقیق کے لیے مقامی سطح پر بڑا قدم

    کراچی: پارکنسنز اور مرگی کے سلسلے میں طبی تحقیق کے لیے مقامی سطح پر بڑا قدم اٹھایا گیا ہے، کراچی میں ڈاؤ یونیورسٹی، پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی اور مقامی دواساز ادارے گیٹس فارما کے مابین سہ فریقی معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں اعصابی بیماریوں پر تحقیق کے سلسلے میں منعقدہ ایک دستخطی تقریب میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں نیورو سائنسز کا شعبہ نظر انداز ہوا ہے، اور اب اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

    پروفیسر سعید قریشی کے مطابق پاکستان میں مرگی کے مریضوں کی شرح کا تخمینہ ایک ہزار افراد میں سے9 اعشاریہ 99 لگایا گیا ہے، اور ایک مطالعے میں معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں پارکنسنز سے متاثر افراد کی تعداد لگ بھگ ایک ملین (دس لاکھ) ہے، خدشہ ہے کہ یہ تعداد اگلے دس برس یعنی 2030 تک بڑھ کر 12 لاکھ سے زائد ہو سکتی ہے۔

    انھوں نے کہا ان دو امراض کی روک تھام کے لیے ریسرچ اہم ہے، دنیا بھر میں تعلیمی و تحقیقی اداروں کی معاونت سے عالمگیر نظامِ صحت میں حیرت انگیز طور پر بہتری لائی جا چکی ہے، پاکستان میں بھی اس جانب توجہ دی جا رہی ہے، جس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

    پاکستان نیورولوجی سوسائٹی کے صدر پروفیسر سلیم بڑیچ نے کہا پاکستان میں نیورولوجی کے شعبے میں مصدقہ اعداد و شمار اور مستند ریسرچ کا بہت بڑا خلا ہے، یہ شعبہ ہماری پہلی ترجیح ہے، نیورو سائنسز میں ریسرچ کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

    گیٹس فارما کے چیف ایگزیکٹو اور ایم ڈی خالد محمود نے کہا تحقیق اور منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان میں بیماریوں کے علاج کے جس سطح کی تحقیق کی ضرورت ہے، ہم اس عروج کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، تاکہ ایک دن ہم عالمگیر سطح پر پاکستان کی پہچان بنا سکیں۔

    قبل ازیں گیٹس فارما کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر جہانزیب کمال نے پروجیکٹ کی تفصیلی بریفنگ میں بتایا کہ نیورولوجی (صرف پارکنسنز اور مرگی ) میں نوجوان محققین کے لیے سالانہ 25 لاکھ روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے، جس سے میڈیکل سائنس کے اس نظر انداز شدہ شعبے یعنی نیورو سائنسز میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھی جا سکے گی۔

    انھوں نے کہا یہ رقم مجوزہ ریسرچ کے لیے کوالٹی کی بنیاد پر تقسیم کی جائے گی، اس طریقہ کار کو شفاف بنانے کے لیے نیورو سائنسز کے ماہرین کی اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کی جا رہی ہے، جو تمام تجاویز کا آن لائن جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی۔

  • خطرناک بیکٹیریا گھر اور اسپتال کی کن دو جگہوں پر زندہ رہ کر بیماریاں پھیلاتے ہیں؟

    خطرناک بیکٹیریا گھر اور اسپتال کی کن دو جگہوں پر زندہ رہ کر بیماریاں پھیلاتے ہیں؟

    ناروِچ: برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خطرناک بیکٹیریا کچن یا اسپتال کاؤنٹرز پر زندہ رہ کر بیماریاں پھیلا سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک تحقیقی جریدے PLOS بائیولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خطرناک قسم کے بیکٹریا انسانوں کی تیار کردہ کسی جگہ کی سطح جیسے کچن یا اسپتال کے کاؤنٹرز وغیرہ پر اپنے وجود کو برقرار رکھ بیماریاں پھیلا سکتے ہیں۔

    پودوں اور جرثوموں کی سائنس کے ایک آزاد تحقیقی ادارے جان انیز سینٹر (John Innes Centre) کے محققین نے ان وجوہ کا پتا لگایا جس کے نتیجے میں یہ خطرناک بیکٹیریا نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ بیماریاں پھیلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

    ریسرچ کے دوران اُن میکینزمز پر توجہ مرکوز کی گئی جو موقع پرست انسانی پیتھوجین (سوڈومونس ایروگینوسا) کو مختلف مقامات کی سطح پر زندہ رہنے کے قابل بناتے ہیں، اور نقصان دہ بیکیٹریا کو ہدف بنانے کے لیے نئے طریقوں کا باعث بن سکتے ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ پیتھوجینک بیکٹیریا مختلف ماحول میں ہر قسم کا دباؤ برداشت کرتے ہیں، اس میں ایک میکینزم شوگر مالیکیول (ٹری ہیلوس) کا ہوتا ہے جو مختلف قسم کے بیرونی دباؤ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، بالخصوص اوسموٹک شاک (یعنی خلیوں کے آس پاس نمک کی مقدار میں اچانک تبدیلیاں)۔

    محققین نے اس تحقیق کے دوران یہ جاننے کی کوشش کہ بیکٹیریا کس طرح بیرونی دباؤ کو برداشت کرتا ہے، اس کے لیے انھوں نے یہ تجزیہ کیا کہ پی ایروگینوسا کس طرح شوگر مالیکیول (یعنی ٹری ہیلوس) میں میٹابولک تعامل کرتا ہے۔

    تجربات سے پتا چلا کہ ٹری ہیلوس یا گلائکوجن راستوں میں سے اگر رکاوٹ آئے تو پی ایروگینوسا کی انسان کی بنائی سطحات پر زندہ رہنے کی صلاحیت نمایاں طور پر کم ہو جاتی ہے۔

  • کیا چار دیواری کے اندر 60 فٹ کی دوری بھی ناکافی ہے؟ نئی تحقیق میں انکشاف

    کیا چار دیواری کے اندر 60 فٹ کی دوری بھی ناکافی ہے؟ نئی تحقیق میں انکشاف

    میساچوسٹس: امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق نے سماجی دوری (سوشل ڈسٹنسنگ) کی پالیسیوں کو چیلنج کر دیا ہے، محققین نے کہا ہے کہ چار دیواری کے اندر 60 فٹ کی دوری بھی آپ کو کرونا وائرس سے نہیں بچا سکتی۔

    یہ تحقیق میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں کی گئی، جس کے نتائج طبی جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چار دیواری کے اندر کرونا کے شکار ہونے کا خطرہ 60 فٹ کی دوری سے بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جتنا 6 فٹ کی دوری سے، چاہے فیس ماسک ہی کیوں نہ پہن رکھا ہو۔

    ریسرچ میں یہ دیکھا گیا تھا کہ چار دیواری کے اندر سماجی دوری کو وِڈ 19 سے بچاؤ کے لیے کس حد تک مؤثر ہے، اس کے لیے ایم آئی ٹی کے کیمیکل انجنیئرنگ اور اپلائیڈ میتھ میٹکس کے پروفیسرز مارٹن بازنٹ اور جان ایم ڈبلیو بش نے خطرے کو ماپنے کا ایک میتھڈ تیار کیا۔

    اس میتھڈ میں ایسے عناصر کی نشان دہی کی گئی جو وائرس کے پھیلاؤ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، ان میں چار دیواری کے اندر گزارے جانے والے وقت، ایئر فلٹریشن اور بہاؤ، امیونائزیشن، وائرس کی اقسام، ماسک کا استعمال اور حتیٰ کہ سانس لینے، کھانا کھانے اور باتیں کرنے جیسے عناصر کو مد نظر رکھا گیا۔

    تحقیق میں شامل ماہرین نے سی ڈی سی اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کو وِڈ 19 گائیڈ لائنز پر بھی سوالات اٹھائے، ان کا کہنا تھا ہم اس پر بحث کر سکتے ہیں کہ 6 فٹ کی دوری کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں، جب کہ لوگوں نے فیس ماسک بھی پہنے ہوئے ہوں، کیوں کہ ماسک پہنے ہوئے بھی سانس لینے سے ہوا اوپر کی جانب نکل کر کمرے میں نیچے چلی جاتی ہے جس کے نتیجے میں دور بیٹھے فرد میں بھی وائرس کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ جتنا کوئی فرد کسی چار دیواری میں متاثرہ شخص کے ساتھ وقت گزارے گا، وائرس کے پھیلاؤ کا امکان اتنا زیادہ ہوگا، کمرے میں کھڑکی کھولنا یا ہوا کے بہاؤ کے لیے نئے پنکھے لگانا بھی کسی نئے فلٹریشن سسٹم پر بہت زیادہ خرچے جتنا ہی مؤثر ہو سکتا ہے، اس لیے سی ڈی سی اور عالمی ادارہ صحت کو چار دیواری کے اندر گزارے ہوئے وقت کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔

    محققین نے کہا کہ کسی کمرے میں 20 افراد کا ایک منٹ تک رہنا تو ممکنہ طور پر خطرناک نہیں مگر کئی گھنٹوں تک ان کو وہاں نہیں رہنا چاہیے، انھوں نے کہا ہوا کے اخراج کے مناسب نظام کے ساتھ بیماری کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے، اور اس طرح بند دفاتر اور اسکولوں کو بھی کھولا جا سکتا ہے۔

    تحقیق میں اس بات کی نشان دہی کی گئی کہ وبا کے آغاز پر دوری پر زور دینے کے عمل سے غلط رہنمائی کی گئی، سی ڈی سی یا عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے کبھی کوئی جواز پیش نہیں کیا، اس کی بنیاد بس کھانسی اور چھینکوں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس ہیں، لوگوں سے دوری سے زیادہ مدد نہیں ملتی بلکہ تحفظ کا ایک غلط احساس پیدا ہوتا ہے کہ آپ 6 فٹ دوری پر محفوظ ہیں، حالاں کہ 60 فٹ دوری پر بھی بیماری آپ تک پہنچ سکتی ہے۔

  • درمیانی عمر میں کی جانے والی غلطی جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے

    درمیانی عمر میں کی جانے والی غلطی جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے

    لندن: برطانیہ میں کی جانے والی ایک لمبے عرصے پر مبنی نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اگر روزانہ 6 گھنٹے یا اس سے کم کی نیند لی جائے تو اس سے دماغی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق طبی جریدے نیچر کمیونیکشنز میں منگل کو شائع ہوئی ہے، اس تحقیق سے یہ بات پھر سامنے آئی ہے کہ نیند ہماری صحت کے لیے کتنی زیادہ اہم ہوتی ہے اور اس کی کمی متعدد امراض کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

    نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ درمیانی عمر میں روزانہ 6 گھنٹے سے کم کی نیند دماغی خلل (dementia) کی طرف لے جا سکتی ہے، جس میں دماغ اپنی صلاحیت کھو دیتا ہے، اہم نکتہ یہ ہے کہ اس تحقیق میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ 6 گھنٹے کی نیند بھی کم نیند کے زمرے میں آتی ہے، اور کم سے کم نیند 7 گھنٹے کی ہونی چاہیے۔

    اس طبی تحقیق کا دورانیہ 25 سال پر محیط رہا، اور اس دوران تقریباً 8 ہزار افراد کے معمولات کا جائزہ لیا گیا، نتائج نے دکھایا کہ 50 سے 60 سال کی عمر میں نیند کا دورانیہ 6 گھنٹے سے کم ہو تو ڈیمنشیا (دماغی تنزلی کا مرض) کا خطرہ ہر رات 7 گھنٹے سونے والے افراد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیقی رپورٹ کے مطابق سماجی آبادیاتی، نفسی طرز عمل، امراض قلب، دماغی صحت اور ڈپریشن جیسے اہم عوامل سے ہٹ کر یہ معلوم کیا گیا کہ 50، 60 اور 70 سال کی عمر کے افراد میں نیند کی مسلسل کمی سے ڈیمنشیا کا خطرہ 30 فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔

    اس طبی تحقیق کے حوالے سے برطانیہ میں ناٹنگھم یونی ورسٹی کے مینٹل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ٹام ڈیننگ نے بتایا کہ اگرچہ یہ طبی مطالعہ علت و معلول (یعنی سبب اور اس کے اثر) کا تعین نہیں کرتا، تاہم یہ ڈیمنشیا کی بالکل ابتدائی علامت ہو سکتی ہے، اور اس کا تو کافی امکان ہے کہ ناقص نیند دماغی صحت کے اچھی نہیں، اور یہ الزائمر جیسے امراض کی طرف لے جا سکتی ہے۔

    اس تحقیق کے دوران محققین نے 1985 سے 2016 کے درمیان 7959 رضاکاروں کے معمولات کا جائزہ لیا، تحقیق کے اختتام پر 521 افراد میں ڈیمنشیا کی تشخیص ہوئی جن کی اوسط عمر 77 سال تھی، یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں اور خواتین دونوں پر ان نتائج کا اطلاق مساوی طور پر ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی کے نتیجے میں دماغ اپنے افعال درست طریقے سے جاری نہیں رکھ پاتا، جیسا کہ توجہ مرکوز کرنا، سوچنا اور یادداشت کا تجزیہ مشکل ہوتا ہے۔

  • بلڈ پریشر کے مرض سے کیسے بچیں؟ محققین نے آسان طریقہ دریافت کر لیا

    بلڈ پریشر کے مرض سے کیسے بچیں؟ محققین نے آسان طریقہ دریافت کر لیا

    کیلی فورنیا: عام طور سے درمیانی عمر میں لوگوں کو بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر کے مسئلے سے سامنا ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی زندگی پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن یہ جتنا خطرناک ہے اتنا ہی اس سے بچنا آسان بھی ہے۔

    اس حوالے سے امریکی ریاست کیلی فورنیا کی یونی ورسٹی میں ایک تحقیق کی گئی ہے، جس کے نتائج بتاتے ہیں کہ ہر ہفتے اگر 5 گھنٹے ورزش کی جائے تو درمیانی عمر میں بلند فشار خون کے مسئلے سے تحفظ مل سکتا ہے۔

    یعنی جوانی میں اگر جسمانی سرگرمیوں اور ورزش کو معمول بنایا جائے تو درمیانی عمر میں ہائپرٹینشن جیسے خاموش قاتل مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے، یہ یاد رکھیں کہ ہائی بلڈ پریشر سے فالج اور دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اور دماغی تنزلی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔

    یہ ایک وسیع سطح کا طبی مطالعہ تھا جس میں 30 برس تک 3 سے 18 سال کی عمر کے 5 ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا، اور اس تحقیقی مطالعے کے نتائج طبی جریدے امریکن جرنل آف پریوینٹو میڈیسن میں شایع کیے گئے۔

    تحقیق کے دوران ان افراد کی ورزش کی عادات، لاحق ہونے والی بیماریوں، تمباکو نوشی اور الکحل کے استعمال، بلڈ پریشر اور جسمانی وزن پر نظر رکھی گئی، بلوغت کے آغاز سے ہر ہفتے کم از کم 5 گھنٹے ورزش کرنے والے 17.9 فی صد رضاکاروں کے ڈیٹا کے جائزے سے معلوم ہوا کہ ان میں ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہونے کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 18 فی صد تک کم تھا، جب کہ یہ شرح درمیانی عمر میں جسمانی سرگرمیاں معمول بنانے والوں میں زیادہ تھی۔

    کیا کرونا کو شکست دینے والے افراد کے لیے ویکسین کی ایک خوراک کافی ہے؟

    محققین نے اس دوران یہ اہم نکتہ معلوم کیا کہ جسمانی سرگرمیوں کے دورانیے کو 5 گھنٹے تک بڑھانا ضروری ہوتا ہے، بالخصوص کالج میں زیر تعلیم رہنے کے دوران، بہ صورت دیگر ان میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ یاد رہے کہ مارچ 2020 میں ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ دن میں کچھ وقت چہل قدمی کرنا ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا خطرہ کم کر سکتا ہے۔

    اوسطاً 9 سال تک درمیانی عمر کے افراد کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوا کہ زیادہ چہل قدمی کرنے والوں میں ذیابیطس کا خطرہ 43 فی صد اور ہائپرٹینشن کا امکان 31 فی صد تک کم ہوجاتا ہے۔

    تحقیق کے دوران 2 ہزار خواتین کے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ درمیانی عمر میں جتنا زیادہ پیدل چلنا عادت بنائی جائے، اتنا ہی ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ کم ہو جائے گا، چہل قدمی سے خواتین میں نہ صرف ذیابیطس اور ہائپرٹینشن کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ موٹاپے کا امکان بھی 61 فی صد تک کم ہو جاتا ہے، دوسری طرف اس تحقیق میں مردوں میں چہل قدمی اور موٹاپے کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق معلوم نہیں ہو سکا۔

    محققین کا کہنا تھا چہل قدمی آسان اور مفت جسمانی سرگرمی ہے، روزانہ اپنے قدموں کو گننا ایسا آسان طریقہ ہے جس سے لوگ مختلف امراض سے خود کو بچا سکتے ہیں، جو لوگ روزانہ ورزش کے خیال سے گھبراتے ہیں، وہ بس اپنی توجہ چلتے پھرتے وقت اپنے قدموں پر مرکوز کر لیں، اس سے وہ خود جسمانی طور پر زیادہ متحرک محسوس کرنے لگیں گے، اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ معمول کی جسمانی سرگرمیاں دل کی صحت کے لیے کتنی ضروری ہے، بالخصوص درمیانی عمر میں۔

  • کیا کرونا کو شکست دینے والے افراد کے لیے ویکسین کی ایک خوراک کافی ہے؟

    کیا کرونا کو شکست دینے والے افراد کے لیے ویکسین کی ایک خوراک کافی ہے؟

    پنسلوانیا: امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو افراد کرونا وائرس کو شکست دے دیتے ہیں، انھیں دوبارہ اس کے حملے سے محفوظ رکھنے کے لیے ویکسین کی ایک خوراک کافی ہوتی ہے۔

    یونی ورسٹی آف پنسلوانیا اسکول آف میڈیسن کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کو وِڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں وائرس کو ناکارہ بنانے والے مؤثر اینٹی باڈی ردِ عمل کے لیے کرونا ویکسین کی ایک خوراک ہی کافی ہوتی ہے، جب کہ دوسری خوراک سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہوتا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ جو لوگ کبھی کرونا وائرس سے متاثر نہیں ہوئے، ان میں مدافعتی رد عمل ویکسین کی 2 خوراکوں کے استعمال کے بعد ہی متحرک ہوتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کرونا کے شکار اور شکار نہ ہونے والے افراد میں ویکسی نیشن کے بعد میموری بی سیل ردِ عمل (یعنی مدافعتی رد عمل) ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔

    خیال رہے کہ طبی جریدے سائنس امیونولوجی میں شایع شدہ اس ریسرچ میں ایم آر این اے ویکسینز استعمال کرنے والے افراد کو شامل کیا گیا تھا، جب کہ ماضی میں mRNA ویکسین پر تحقیق میں میموری بی سیل کے مقابلے میں اینٹی باڈیز پر زیادہ توجہ دی گئی، حالاں کہ میموری بی سیلز مستقبل میں اینٹی باڈی رد عمل کی پیش گوئی کا ایک ٹھوس عنصر ہے۔

    کرونا کو شکست دینے والے جوان افراد سے متعلق نیا انکشاف

    محققین کے مطابق کرونا سے متاثرہ افراد میں ویکسین کی ایک خوراک کافی ہونے کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ ان افراد کا وائرس کے خلاف بنیادی مدافعتی رد عمل بیماری کے باعث پہلے ہی مضبوط ہو چکا ہوتا ہے، جب کہ کونا سے محفوظ افراد میں اتنا ٹھوس مدافعتی رد عمل ویکسین کی 2 خوراکوں کے بعد ہی دیکھنے میں آیا۔

    اس ریسرچ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کرونا وائرس کی جنوبی افریقی قسم اور ڈی 614 جی میوٹیشن کا سامنا کرنے والے افراد میں بھی ٹھوس مدافعتی رد عمل کے لیے ویکسین کی ایک خوراک مؤثر ہوتی ہے۔

    تحقیق میں 32 افراد پر ویکسین کے مضر اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا، ویکسین کی ایک خوراک کے بعد لوگوں کو بخار، کپکپی، سر درد اور تھکاوٹ جیسی علامات نمودار ہوئیں۔

    یہ ابتدائی تحقیق تھی اور اب ویکسین کی ایک یا دو ڈوزز کی ضرورت کے باقاعدہ تعین کے لیے سائنس دان بڑے پیمانے پر تحقیق کریں گے۔ اس تحقیق کے لیے 44 صحت مند افراد کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، جن کو بائیو این ٹیک/فائزر یا موڈرنا ویکسین استعمال کرائی گئی تھی، ان میں سے 11 پہلے کرونا کا شکار رہ چکے تھے، ان افراد کے خون کے نمونے لے کر ویکسین کی خوراکوں کے استعمال سے پہلے اور بعد میں مدافعتی ردعمل کا تجزیہ کیا گیا۔