Tag: طبی تحقیق

  • کرونا کو شکست دینے والے جوان افراد سے متعلق نیا انکشاف

    کرونا کو شکست دینے والے جوان افراد سے متعلق نیا انکشاف

    نیویارک: امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں یہ بات واضح طور پر سامنے آ گئی ہے کہ کرونا وائرس کو شکست دینے والے جوان افراد ایک بار پھر اس وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک نئی طبی تحقیق میں معلوم ہوا کہ اگرچہ کرونا وائرس کے مریضوں میں اینٹی باڈیز بن جاتے ہیں جو آئندہ بیماری سے تحفظ فراہم کرتے ہیں، تاہم اس کے باوجود جوان افراد کو اس سے مکمل تحفظ نہیں ملتا، محققین کا کہنا ہے کہ جوان افراد کرونا وائرس سے دوبارہ بیمار ہو سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق نیویارک سٹی کے اسپتال ماؤنٹ سِنائی میں 3 ہزار سے زیادہ صحت مند جوان میرین اہل کاروں پر کی گئی، اور اس کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شایع کیے گئے، نتائج سے معلوم ہوا کہ کو وِڈ ری انفیکشن جوان افراد میں عام ہے، یعنی ایک بار کرونا سے صحت یاب ہونے کے باوجود انھیں دوبارہ انفیکشن ہو سکتا ہے۔

    محققین نے ان نتائج کے تناظر میں جوان افراد کی ویکسی نیشن کو بہت ضروری قرار دیا، کیوں کہ اس سے مدافعتی رد عمل زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور وائرس کی آگے منتقلی کی شرح کم ہو جاتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ کرونا سے محفوظ لوگوں میں اس سے متاثر ہونے کا خطرہ ایک بار کرونا سے متاثرہ لوگوں کے مقابلے 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے 3 ہزار 249 مردوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 18 سے 20 سال کے درمیان تھیں، تحقیق کے دورانیے میں 1 ہزار 98 افراد (یعنی 45 فی صد) میں پہلی بار کو وِڈ کی تشخیص ہوئی جب کہ 10 فی صد میں دوسری بار بیماری کی تشخیص ہوئی۔

    تحقیق میں معلوم ہوا کہ جن افراد کو دوبارہ بیماری لاحق ہوئی، ان میں کرونا وائرس کے خلاف متحرک ہونے والی اینٹی باڈیز کی سطح کم تھی، تاہم پہلی بار بیمار ہونے والوں کے برعکس ان میں وائرل لوڈ اوسطاً 10 گنا کم تھا، اور زیادہ تر ایسے افراد میں کرونا کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔

  • نوجوانوں کے لیے بری خبر، کرونا کی علامات کتنے ہفتوں تک رہتی ہیں؟

    نوجوانوں کے لیے بری خبر، کرونا کی علامات کتنے ہفتوں تک رہتی ہیں؟

    واشنگٹن: امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہر 4 میں سے ایک نوجوان میں کو وِڈ 19 کی علامات کئی ہفتوں تک برقرار رہتی ہیں۔

    امریکی ادارے سی ڈی سی کی رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ایک چوتھائی نوجوانوں کی صحت ہفتوں تک بحال نہیں ہو پاتی، پہلے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ کرونا معمر لوگوں کو لمبے عرصے کے لیے بیمار کر سکتا ہے تاہم اب یہ معلوم ہوا ہے کہ نوجوانوں پر بھی کئی ہفتوں تک اس کے اثرات برقرار رہ سکتے ہیں۔

    طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک چوتھائی نوجوانوں میں، خواہ وہ پہلے سے کسی بیماری کا شکار نہ ہوں یا انھیں اسپتال بھی نہ جانا پڑا ہو، کرونا وائرس لاحق ہونے کے بعد اس کی علامات کئی ہفتوں تک برقرار رہتی ہیں، ان میں صحت یابی کا عمل طویل ہو سکتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ وہ مریض جن میں کرونا انفیکشن کی بیماری کی شدت معمولی ہو اور اسپتال جانے کی ضرورت نہ پڑی ہو، انھیں بھی بیماری سے پہلے جیسی صحت بحال کرنے کے لیے کافی وقت لگ سکتا ہے۔

    یہ تحقیق 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 300 نوجوانوں پر کی گئی، جن میں کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آ گیا تھا، یہ وہ مثبت کیسز تھے جنھیں علاج کے لیے اسپتال منتقل نہیں ہونے کی ضرورت نہیں پڑی تھی، تاہم ٹیسٹ کے وقت ان میں کم از کم ایک علامت نمودار ہو گئی تھی۔

    ٹیسٹ کے 2 یا 3 ہفتے بعد تحقیق میں شامل نوجوانوں کی صحت جاننے کے لیے ان کا انٹرویو کیا گیا، 2 تہائی افراد نے بتایا کہ ان کی معمول کی صحت ٹیسٹ کے ایک ہفتے بعد بحال ہو گئی تھی مگر 35 فی صد کا کہنا تھا کہ 14 سے 21 دن بعد بھی ان کی صحت پہلے کی طرح بحال نہیں ہو سکی ہے۔

    معلوم ہوا کہ 2 سے 3 ہفتوں کے بعد بھی 18 سے 34 سال کے درمیان ہر 4 میں سے ایک نوجوان صحت یابی کے عمل سے گزر رہا تھا۔ جب کہ 35 سے 49 سال کے افراد میں ہر 3 میں سے ایک، اور 50 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں لگ بھگ ہر 2 میں سے ایک بدستور صحت یابی کے عمل سے گزر رہا تھا۔

    تحقیق کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ ایسے صحت مند نوجوان جو پہلے سے کسی بیماری کے شکار نہیں تھے، ان میں بھی ہر 5 میں سے ایک کی علامات 2 یا 3 ہفتے بعد بھی موجود تھیں۔ محققین کا کہنا تھا کہ جو افراد کئی ہفتوں تک کرونا علامات سے متاثر ہوتے ہیں ان میں کھانسی اور تھکاوٹ وہ علامات ہیں جو دیر تک رہتی ہیں۔

  • پھل کھانا ضروری ہے، طبی تحقیق

    پھل کھانا ضروری ہے، طبی تحقیق

    طبی سائنس اور غذائی ماہرین کے مطابق پھل کھانے سے نہ صرف ہم توانا اور مضبوط رہتے ہیں بلکہ یہ کئی جسمانی تکالیف میں بھی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر خطے اور علاقے کا رہنے والا وہاں کے موسمی پھلوں کو استعمال کرے تو کئی طبی مسائل سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پھلوں کے استعمال سے وہ ریشے جسم میں پہنچتے ہیں جو نظامِ ہضم کو فعال بنانے کے علاوہ خون اور جسم کی دیگر ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور ہمیں توانا رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

    غذائی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر کوئی اپنے ناشتے میں کیلے، آڑو یا خوبانی شامل کرلے تو خوراک قوت بخش ثٓابت ہو گی۔

    طبی محققین کا کہنا ہے کہ دوپہر اور رات کے کھانے میں بھی فروٹ کا مناسب استعمال صحت کے لیے مفید ہوسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پھلوں کی چٹنیاں اور اچار بھی معدے میں گرانی اور گیس کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ہاضمے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

    غذائی ماہرین کے نزدیک تازہ پھلوں کے ساتھ سبزیاں کئی بیماریوں سے انسانی جسم کا دفاع کرتی ہیں اور پھل کئی اقسام کے وٹامنز اور ریشوں کے ذریعے جسم کو توانا کرتے ہیں۔

  • ناک کی جھلی میں سوزش

    ناک کی جھلی میں سوزش

    موسمی تبدیلیاں، فضائی آلودگی یا گردوغبار کی وجہ سے لاحق ہونے والی نزلے کی شکایت سے عموماً چند روز میں نجات مل جاتی ہے، لیکن بعض لوگ نزلے کے دائمی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں جسے عام طور پر ‘‘کیرا’’ کہتے ہیں۔

    یہ اصل میں ناک کی جھلی کی سوزش کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے متاثرہ فرد کو مختلف تکالیف اور الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ کیرا میں مبتلا کوئی بھی شخص اکثر  جسم  میں ہلکے درد، سستی اور  غنودگی کی شکایت کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سر کا بھاری پن بھی اسے بے چین  رکھتا ہے۔ موسم یا کسی وجہ سے اگر اس طبی کیفیت میں شدت آجائے تو آنکھوں میں سرخی ظاہر ہونے لگتی ہے اور ناک سے رطوبت خارج ہوتی ہے۔

    طبی تحقیق بتاتی ہے کہ  سردی  ہی نہیں تیز دھوپ اور آب و ہوا کی تبدیلی سے بھی نزلے کی شکایت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد گرد و غبار اور فضا میں موجود مختلف کثافتیں بھی ہمارے نظامِ تنفس کو متاثر کرتی ہیں اور اس کا آغاز نزلے کی صورت میں ہوتا ہے۔ ماہرین کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ناک کو متأثر کرنے  والا وائرس  اصل میں  سرد ماحول میں پھلتا پھولتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگی کو ہم زکام کہتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سرد ماحول میں انسان کا مدافعتی نظامکم  زور  پڑ جاتا ہے اور ناک میں داخل ہونے والے وائرس کو پھلنے پھولنے کا موقع مل جاتا ہے۔ تاہم موسمی اثرات کے علاوہ مختلف اشیا کی وجہ سے الرجی کی شکایت بھی نزلے کا باعث بنتی ہے اور یہ دائمی مسئلہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

    دائمی نزلے میں مبتلا افراد کی آواز بھرائی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور انھیں بار بار ناک سے رطوبت صاف کرنا پڑتی ہے۔ اس نزلے کو طبی سائنس نے Chronic Rhinitis کا نام دیا ہے جسے ہم سادہ زبان میں ناک کی جھلی میں سوزش کہہ سکتے ہیں۔

    اس طبی مسئلے کے شکار افراد کو  اکثر بلغم رہتا  ہے اور  چھینکیں آتی ہیں جس کے ساتھ مریض کو ناک میں سرسراہٹ یا خارش محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسے مریض بے چینی سے ناک مسلتے نظر آتے ہیں۔ دائمی نزلے کی وجہ سے متاثرہ  فرد کے بال بھی جھڑنے لگتے ہیں اور کم عمری میں سفید بھی ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس نزلے کا اثر بینائی اور  یادداشت پر بھی پڑسکتا ہے۔ ایسے مریضوں کو کسی ماہر اور مستند معالج سے سال میں کم از کم دو بار اپنا طبی معائنہ ضرور کروانا چاہیے۔

  • مچھلی اور مرغی کا گوشت فالج کے خلاف ڈھال ہوتا ہے

    مچھلی اور مرغی کا گوشت فالج کے خلاف ڈھال ہوتا ہے

    طبی تحقیق کے مطابق مرغی اور مچھلی سمیت ایسی تمام غذائیں جن میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہو،  فالج کے خلاف ڈھال ثابت ہوسکتی ہیں۔

    مچھلی اور مرغی کا گوشت فالج کے خلاف ڈھال ہو تا ہے، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پروٹین سے بھرپور غذائیں فالج سے بچاؤ کیلئے موثر ثابت ہوتی ہیں، روزانہ مرغی یا مچھلی کے استعمال سے فالج کے مرض میں بیس فیصد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

    اس کے علاوہ پروٹین کے استعمال سے بلڈ پریشر بھی نارمل رہتا ہے۔