Tag: طبی سائنس

  • کیا آنتوں کے جرثومے نوزائیدہ بچوں کی علمی نشوونما میں کردار ادا کرتے ہیں؟ محققین کا انکشاف

    کیا آنتوں کے جرثومے نوزائیدہ بچوں کی علمی نشوونما میں کردار ادا کرتے ہیں؟ محققین کا انکشاف

    کینیڈا: برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے محققین نے بچوں کی آنتوں میں پائے جانے والے مخصوص جرثوموں اور ابتدائی علمی نشوونما کی کارکردگی کے درمیان اہم تعلق دریافت کر لیا ہے۔

    طبی سائنس میں محققین نے ایک اور اہم کارنامہ انجام دیا ہے، اور اس اہم سوال کو جواب فراہم کیا ہے کہ کیا آنتوں کے جرثومے نوزائیدہ بچوں کی علمی نشوونما میں کردار ادا کرتے ہیں؟ محققین کا کہنا ہے کہ بچوں کے گٹ مائیکروبس (آنتوں کے جرثومے) اور علمی مہارت کے درمیان تعلق پایا گیا ہے۔

    یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا، کینیڈا کے سباسٹین ہنٹر اور ان کے ساتھیوں کا ایک مقالہ 9 اگست 2023 کو سائنسی جریدے PLOS ONE میں شائع ہوا ہے۔ اس تحقیقی مطالعے میں 56 شیر خوار بچوں کا جائزہ لیا گیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ کچھ مائیکرو بایوم کمپوزیشن کا ’’پوائنٹ اینڈ گیز‘‘جیسے علمی ٹیسٹوں میں کامیابی کے ساتھ ایک تعلق موجود ہے۔

    واضح رہے کہ انسانی جسم میں گٹ مائیکروبس سے مراد وہ کھربوں جرثومے ہیں جیسا کہ بیکٹیریا، جو انسانی آنتوں میں رہتے ہیں اور مائیکرو بایوم وہ ماحول ہے جس میں وہ رہتے ہیں۔ جسم میں زیادہ تر جرثومے مفید ہوتے ہیں، لیکن اگر ان کا توازن بگڑ جائے تو یہ نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

    ماضی کے کئی مطالعات میں بھی ان جرثوموں کا دماغی نشوونما میں کردار کے حوالے سے شواہد سامنے آئے تھے، اب پہلی بار نوزائیدہ بچوں میں مخصوص مائیکروبس کا ان کی ابھرتی ہوئی علمی صلاحیتوں کے درمیان تعلق کو نوٹ کیا گیا ہے۔

    ڈیٹا تجزیے کے دوران شیر خوار بچوں میں سے ہر ایک نے مختلف علمی صلاحیتوں کی تین میں سے کم از کم ایک مشق کو مکمل کیا تھا، اور محققین نے آنتوں کے نمونوں کا استعمال کرتے ہوئے ان کے گٹ مائکرو بایوم کا جائزہ لیا، انھوں نے پایا کہ جو شیرخوار سماجی توجہ کے امتحان (پوائنٹ اینڈ گیز) میں کامیاب ہوئے، ان میں مخصوص جرثوموں کی تعداد زیادہ پائی گئی۔ ان بچوں کی آنتوں میں ایکٹینو بیکٹیریا فائلم کے مختلف جرثومے زیادہ تعداد میں موجود تھے، جب کہ فرمیکٹس فائلم کے جرثومے کم تعداد میں تھے۔

    تحقیق کے نتائج یوں تھے:

    بعض گٹ جرثوموں والے شیر خوار بچوں نے سماجی توجہ کے امتحان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

    ایک متوازن دھڑکن کو سننے کے دوران دماغی سرگرمی کے مخصوص نمونوں کو خاص قسم کے جرثوموں اور میٹابولک کیمیائی رد عمل سے منسلک پایا گیا۔

    محقین کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • آدھا بندر آدھا انسان، سائنس دانوں نے تہلکہ خیز تجربہ کر لیا

    آدھا بندر آدھا انسان، سائنس دانوں نے تہلکہ خیز تجربہ کر لیا

    بیجنگ: زندہ رہنے کی جدوجہد میں سائنس دان آئے دن عجیب و غریب اور متنازع تجربات میں مگن رہتے ہیں، ایسا ہی ایک نیا تجربہ سامنے آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چینی اور امریکی سائنس دانوں نے مشترکہ تجربات میں انسان اور بندر کے انتہائی بنیادی خلیوں پر مشتمل زندہ جنین (ایمبریو) تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

    ایک طرف سائنسی لحاظ سے یہ ایک اہم کامیابی ہے لیکن دوسری طرف انتہائی متنازع بھی ہے، کیوں کہ اس تحقیق کو مزید آگے بڑھا کر ’آدھا بندر آدھا انسان‘ جیسے عجیب الخلقت جانور تیار کیے جا سکیں گے۔

    انسان اور بندر کے انتہائی بنیادی خلیوں پر مشتمل زندہ جنین (ایمبریو) تیار

    سائنس دانوں کا یہ تجربہ طبی نقطہ نگاہ سے زینو ٹرانسپلانٹیشن (Xeno transplantation) کا حصہ ہے، سائنس دان گزشتہ 20 برسوں سے کوششیں کر رہے ہیں کہ کسی جانور کے جسم میں انسانی اعضا ’اُگا کر‘ دوبارہ اسی شخص کے جسم میں کامیابی سے پیوند کیا جائے، اس کے لیے سائنس دان انسانوں اور حیوانوں کے خلیات میں ملاپ کی کوششیں کر رہے ہیں، اس سے قبل سؤر اور بھیڑ کے خلیوں کو انسانی خلیات سے ملا کر دیکھا جا چکا ہے۔

    سائنس دانوں کو اگر زینو ٹرانسپلانٹیشن میں پوری طرح کامیابی ملتی ہے تو آنے والے وقتوں میں انسانی اعضا ناکارہ ہونے کے سبب ہونے والی اموات میں بڑی کمی آ جائے گی، ایسے کیسز میں بیمار شخص کے خلیات کسی جانور میں داخل کر کے مطلوبہ عضو کی ہو بہو زندہ نقل تیار کی جا سکے گی، جسے بعد ازاں اس شخص میں ٹرانسپلانٹ کر دیا جائے گا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طبی انقلاب کی بدولت متاثرہ افراد کے لیے عطیہ کردہ اعضا اور ان سے وابستہ دیگر مسائل بھی ختم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔

    واضح رہے کہ بھیڑ اور سؤر کے مقابلے میں انسان اور بندر میں مماثلت خاصی زیادہ ہے، اسی وجہ سے سائنس دانوں کے سامنے یہ سوال تھا کہ اگر انسان اور بندر کے انتہائی بنیادی خلیے آپس میں ملا دیے جائیں تو کیا وہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے نشوونما حاصل کر پائیں گے؟

  • سوڈیم کا "خیال” رکھیے

    سوڈیم کا "خیال” رکھیے

    طبی محققین کے مطابق دماغ انسان کو بتاتا ہے کہ اس کے جسم کو پانی پینے کی ضرورت ہے۔

    اسی طرح دماغ میں ایک ہارمون ہمارے گردوں کو بھی پیغام دیتا ہے کہ اب وہ اپنے مخصوص کام کے لیے پانی بچائے۔

    ہمارے جسم کے کل وزن کا دو تہائی حصہ پانی ہی ہوتا ہے۔ پانی جسم سے فاضل اور خراب عناصر کو باہر نکالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    طبی سائنس کے مطابق انسانی جسم کے اندر ہونے والی کیمیائی تبدیلیاں بھی پانی کے بغیر ممکن نہیں۔

    انسان پسینے، پیشاب اور سانس کے ذریعے پانی خارج کرتے ہیں اور پیاس لگنے پر جسم میں پانی کی کمی دور کرتے ہیں، لیکن اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ ایک صحت مند انسان کو دن بھر میں کتنے گلاس پانی پینا چاہیے؟

    ہم نے سنا ہے کہ روزانہ آٹھ گلاس پانی پینا ضروری ہے، اور اسی طرح بعض لوگ زیادہ سے زیادہ پانی پینے پر زور دیتے ہیں، مگر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں ہے۔

    طبی محققین کے مطابق روزانہ آٹھ گلاس پانی پینے سے جسم کو نقصان تو نہیں پہنچتا، لیکن طلب سے زیادہ پانی پینا چند نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جسم کی طلب اور ضرورت کو نظرانداز کرکے زیادہ پانی پینے سے ہم سوڈیم کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    سوڈیم ہمارے جسم کے لیے بہت ضروری ہے اور اس کی کمی سے دماغ اور پھیپھڑوں میں سوجن کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔

    طبی سائنس اور مستند تحقیقی اداروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہوا کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہیے۔ پانی اسی وقت پینا چاہیے جب پیاس محسوس کریں۔

    اسی طرح جلد کی شادابی اور خوب صورتی برقرار رکھنے کے لیے زیادہ پانی پینے کو بھی بعض سائنس دانوں نے تحقیق کے بعد مفروضہ قرار دیا ہے۔