Tag: طبی ماہرین

  • اونٹ کو مرغوب پھل ہمارے کس کام کا؟

    اونٹ کو مرغوب پھل ہمارے کس کام کا؟

    برصغیر میں اونٹ کٹارا بکثرت پائی جاتی ہے۔ یہ کانٹوں دار جھاڑی ہے جس کا پھل صحرائی جہاز یعنی اونٹ بہت رغبت سے کھاتا ہے اور اسی نسبت سے ہمارے ہاں اسے اونٹ کٹارا کہتے ہیں۔

    انگریزی زبان میں‌ یہ متعدد ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ تاہم Milk Thistle سے زیادہ مشہور ہے۔

    اونٹ کٹارا قدیم بُوٹی یا جھاڑی ہے جسے جگر اور پتہ کی مختلف بیماریوں کے علاج میں مفید بتایا جاتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق اس کے بیجوں سے سیلی میرین حاصل کیا جاتا ہے جو اس کا مؤثر ترین جُز ہے۔ اس سے دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔

    ایک زمانے سے اسے طبیب اور ماہر حکیم علاج اور مختلف جسمانی تکالیف سے نجات دلانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔

    ماہر اطبا نے اس کے مختف امراض میں نافع اور دافع تکالیف ہونے سے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات بتائے ہیں۔ صحت اور علاج معالجے سے متعلق مختلف کتب میں لکھا ہے کہ یہ بُوٹی جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ اس کے علاوہ جگر کے لیے صحت بخش ہے۔

    ماہرین کے مطابق اونٹ کٹارا بلغم کو ختم کرتی ہے، ہاضم ہے، اور اس کا استعمال بدن کو قوت بخشتا ہے۔ تاہم جس طرح کسی بھی جڑی بُوٹی کو ماہر معالج کی ہدایت کے بغیر استعمال نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اونٹ کٹارا کو بھی مخصوص طبی طریقے سے ہدایات کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے۔

  • کرونا سے نمٹنے کےلیے چین کا پاکستان میں طبی ماہرین بھیجنے کا اعلان

    کرونا سے نمٹنے کےلیے چین کا پاکستان میں طبی ماہرین بھیجنے کا اعلان

    اسلام آباد: کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے چین نے پاکستان میں طبی ماہرین کی ٹیم بھیجنے کا اعلان کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چینی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ چین کرونا وائرس سے لڑنے میں مدد کے لیے طبی ماہرین پاکستان بھیجے گا۔ چینی نائب وزیر صحت نے کہا کہ پاکستان میں وبا کی روک تھام سے متعلق معلومات شیئر کیں، چین نے ویڈیو کانفرنس سے پاکستان کو تجربے سے متعلق بتایا۔

    وائس چیئرمین چائنہ ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا کہنا تھا کہ چین پاکستان کے لیے طبی سامان کی تیاری کر رہا ہے، چین عارضی اسپتال میں بھی مدد کرے گا۔

    دوسری جانب چینی نائب وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیاں وبا کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کر رہی ہیں۔

    چین کا خصوصی کارگو طیارہ این 95 ماسک کی کھیپ لے کر کراچی پہنچ گیا

    کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے گزشتہ روز چین سے خصوصی کارگو طیارہ ماسک اور حفاظتی سامان لے کر کراچی پہنچا تھا، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے چین سے آئے این 95 ماسک کی کھیپ وصول کی تھی۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور متاثر افراد کی تعداد 1106 تک جا پہنچی ہے، سب سے زیادہ کیسز صوبہ سندھ میں رپورٹ ہوئے جبکہ وائرس سے اب تک 8 افراد جاں بحق اور 21 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔

  • کان بجنا: طبی سائنس اسے بیماری تصور نہیں‌ کرتی!

    کان بجنا: طبی سائنس اسے بیماری تصور نہیں‌ کرتی!

    انسان کو لاحق ہونے والی بعض جسمانی پیچیدگیاں ایسی ہوتی ہیں جو بجائے خود کوئی بیماری نہیں بلکہ کسی مرض کی ابتدائی علامات ہوسکتی ہیں۔ مستند معالج سے رجوع کیا جائے تو وہ مختلف طبی طریقوں اور لیبارٹری ٹیسٹ کی مدد سے اس کی اصل وجہ یعنی کسی مرض کی تشخیص کرسکتا ہے۔

    ہمارے جسم کے حساس ترین عضو یعنی کان سے متعلق ایسا ہی ایک طبی مسئلہ Tinnitus کہلاتا ہے جسے میڈیکل سائنس بیماری تصور نہیں کرتی بلکہ ماہرین کے نزدیک یہ ایک عام شکایت ہے۔ یہ شکایت مختصر دورانیے کی بھی ہوسکتی ہے اور بعض صورتوں میں کئی دنوں تک اس سے نجات نہیں مل پاتی۔

    اس طبی پیچیدگی سے متأثرہ فرد کو اپنے کان میں مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اسے بھنبھناہٹ، کسی قسم کا شور یا جھنکار سنائی دیتی ہے اور یہ آوازیں تیز یا دھیمی بھی ہوسکتی ہیں۔ یہ شور مسلسل اور کبھی وقفے وقفے سے ہوسکتا ہے۔ ہم اسے عام طور پر کان بجنا کہتے ہیں۔

    طبی محققین نے اس کیفیت کو دو طرح بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق بعض اوقات کان میں پیدا ہونے والی آوازوں کو صرف اس کا شکار ہونے والا ہی سُن سکتا ہے۔ یہ مسئلہ زیادہ تر عارضی ثابت ہوتا ہے اور اس کا سبب کان کے بیرونی، اندرونی یا درمیانی حصّے کا کسی وجہ سے متأثر ہونا ہے۔ اس کا ایک سبب ان دماغی اعصاب کا متأثر ہونا ہے، جو ہمیں سماعت میں مدد دیتے ہیں۔

    اس طبی پیچیدگی کی دوسری حالت میں متأثرہ فرد کے علاوہ اس کے کان میں ہونے والا شور یا مختلف آوازیں قریب موجود انسان بھی سنتا ہے۔ تاہم ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ محققین کے مطابق اس کا سبب خون کی رگوں اور کان کے اندرونی پٹھوں کا کھنچاؤ ہوسکتا ہے۔

    طبی محققین کےنزدیک یہ مسئلہ اسی وقت سامنے آتا ہے جب کان کا عصبی نظام درست طریقے سے اپنا کام انجام نہیں دے پاتا۔ اس کی دیگر عام وجوہات میں کان پر ضرب یا کوئی ایسی بیماری بھی ہوسکتی ہے، جس کا تعلق دماغ کے اس حصّے سے ہوتا ہے جو کانوں اور سماعت سے متعلق اعصاب کو کنٹرول کرتا ہے۔

    مختلف تحقیقی رپورٹوں کے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین کہتے ہیں کہ کانوں میں سیٹی کی آواز یا کسی قسم کا شور محسوس کرنے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو مسلسل کئی گھنٹے ایسی جگہ گزارتے ہیں جہاں بہت زیادہ شور اور مختلف آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں بھاری اور آواز کرنے والی مشینوں پر کام کرنے والے یا سڑکوں پر گاڑیوں کے ہارن اور ان کے انجن وغیرہ کا شور سننے والے شامل ہیں۔

  • ویلی فیور: ریت میں پایا جانے والا خرد بینی کیڑا موت بانٹنے لگا

    ویلی فیور: ریت میں پایا جانے والا خرد بینی کیڑا موت بانٹنے لگا

    ویلی فیور کے سبب امریکا اور دیگر ممالک میں اموات کے بعد طبی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ ریت میں پائے جانے والے جراثیم میں سے ایک ہے جو ہوا کے ذریعے پھیلتا اور انسانی جسم میں داخل ہو کر اسے بخار میں مبتلا کر دیتا ہے۔

    اس بخار کی ابتدائی علامات میں سینے میں درد اور کھانسی شامل ہے۔ یہ بخار جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق بر وقت تشخیص اور علاج سے اس بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہ زیادہ تر صحرائی علاقوں میں پائی جانے والی بیماری ہے۔

    اس مرض کی دیگر عام علامات میں سردی لگنا، نیند کے دوران پسینے آنا، جسمانی تھکن اور جسم پر سرخ دھبے ظاہر ہونا ہیں۔ مرض بگڑنے کی صورت میں بخار کے ساتھ وزن میں کمی، کھانسی اور بلغم کے ساتھ خون آنے لگتا ہے۔

    یونیورسٹی آف ایریزونا کے ماہرین کی تحقیق کہتی ہے کہ ویلی فیور کی وجہ دراصل ایک قسم کی پھپھوندی ہے جو ریت میں موجود ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق تعمیراتی شعبے، زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ افراد کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ امریکا میں ہر سال اموات کی ایک وجہ ویلی فیور بھی ہے۔ امریکا میں 1995 میں ویلی فیور میں مبتلا افراد کی تعداد پانچ ہزار تھی، جب کہ 2011 میں یہ تعداد بیس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ طبی محققین کے مطابق ویلی فیور کوئی نئی بیماری نہیں ہے بلکہ اس کے ابتدائی کیسز 50 کی دہائی میں سامنے آئے تھے۔

  • سرخ پشت والا حیوان آسٹریلیا میں‌ دہشت کی علامت بن گیا

    سرخ پشت والا حیوان آسٹریلیا میں‌ دہشت کی علامت بن گیا

    مکڑی بظاہر ایک چھوٹا اور حقیر سا حیوان ہے جس سے شاید ہم میں سے اکثر لوگ خوف زدہ بھی نہیں ہوتے، مگر اس کی بعض اقسام نہایت زہریلی اور خطرناک ہیں۔

    بغیر جبڑے والی یہ مخلوق اپنی آٹھ ٹانگوں اور دو قطعات میں بٹے ہوئے جسم کے ساتھ حرکت کرتے ہوئے چیونٹیاں اور اسی قسم کے دیگر حشرات کا شکار کرکے اپنا پیٹ بھرتی ہے۔ دنیا بھر میں اس کی بے شمار قسمیں پائی جاتی ہیں جو رنگ، وزن، جسامت کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ یہ آبی مقامات کے علاوہ صحراؤں میں بھی پائی جاتی ہے اور ان کی غذائی عادات موسم اور جگہ کے اعتبار سے بھی مختلف ہوسکتی ہیں۔

    مکڑیوں کا گھر ان کے لعابِ دہن سے تیار ہوتا ہے۔ اسے ہم جالا کہتے ہیں جسے بننے کی صلاحیت قدرتی طور پر ان مکڑیوں میں موجود ہوتی ہے۔ یہی جالا انھیں شکار بھی پھنسا کر دیتا ہے جیسے چیوٹنیاں، مکھی وغیرہ۔ اس جالے میں آجانے والے چھوٹے کیڑے مکوڑے آسانی سے مکڑی کی خوراک بن جاتے ہیں۔

    ریڈ بیک اسپائڈر یا سرخ پشت والی مکڑی کو آسٹریلیا کی زہریلی ترین مکڑی کہا جاتا ہے جو کسی بھی دوسرے کیڑے سے زیادہ خطرناک مانی جاتی ہے۔ اگر یہ مکڑی کسی انسان کو کاٹ لے اور اس کے جسم میں زہر پھیل جائے تو شدید درد محسوس ہونے کے ساتھ متاثرہ فرد کے پٹھے اکڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق اس مکڑی کا زہر اگر نظامِ تنفس کو نقصان پہنچانا شروع کر دے تو انسان تیزی سے موت کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ طبی ماہرین کے ریکارڈ کے مطابق یہ مکڑی گزشتہ برسوں کے دوران کئی اموات کا سبب بن چکی ہے۔ دنیا کے دیگر خطوں میں پائی جانے والی مکڑیوں کے مقابلے میں انسانی زندگی کو اس مکڑی کے کاٹنے سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اسے جوکی اسپائڈر اور چند دوسرے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔

  • جتنے کھاؤ اتنے سال محفوظ رہو، جڑی بوٹی کا پھول کس بیماری سے محفوظ رکھتا ہے؟

    جتنے کھاؤ اتنے سال محفوظ رہو، جڑی بوٹی کا پھول کس بیماری سے محفوظ رکھتا ہے؟

    مختلف نباتات اور جڑی بوٹیاں نہ صرف انسان کی غذائی ضروریات پوری کرتی ہیں بلکہ صدیوں سے مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے بھی استعمال ہورہی ہیں۔ گل منڈی بھی ایک مشہور جڑی بوٹی ہے جس کے بارے میں اطبا کی تحقیق اور تجربات کے ساتھ اس کے بارے میں ایک نہایت دل چسپ اور ناقابلِ یقین بات بھی ہم آپ کو بتا رہے ہیں۔

    سب سے پہلے تو گل منڈی کے بارے میں جان لیں۔ اس کا پودا زمین پر پھیلا ہوا ہوتا ہے جب کہ پتّے چھوٹے ہوتے ہیں جن پر رواں ہوتا ہے۔ دیکھنے میں یہ پودینے کے پتّوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اس کا پھول سبز گلابی مائل اور گول ہوتا ہے۔ اکثر علاقوں میں اسے گھنڈی بھی کہتے ہیں۔

    گل منڈی کے پھول خون صاف کرنے والی ادویہ میں استعمال ہوتے ہیں۔ اطبا کے مطابق خون صاف کرنے میں اس جڑی بوٹی کا کوئی ثانی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے دل، دماغ اور حافظے کو فائدہ ہوتا ہے۔ یہ جڑی بوٹی بینائی کے لیے بھی مفید بتائی جاتی ہے۔

    اس جڑی بوٹی سے متعلق مشہور ہے کہ اس کا ایک پھول صبح نہار منہ نگل لیا جائے تو آشوبِ چشم سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ بات آپ کے لیے تعجب کا باعث ضرور ہو گی کہ اس کا ایک پھول صرف ایک سال تک ہی اس مرض سے بچا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جتنی تعداد میں کوئی شخص یہ پھول نگلے گا، اتنے ہی وہ برس آشوب چشم سے محفوظ رہے گا۔ یعنی دس پھول نگلنے کی صورت میں 10 سال تک آشوبِ چشم سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر سالم پھول نہ نگلنا چاہیں، تو اس کے پھولوں کو سایہ دار جگہ پر رکھ کر خشک کر لیا جائے اور اس کے ہم وزن سونف ملا کر کُوٹ لیں۔ پھر اس میں اسی توازن سے شکر ملا کر سفوف کو کسی شیشی میں محفوظ کر لیں۔ اس سفوف کا ایک چمچ روزانہ صُبح دودھ کے ساتھ استعمال کریں جو بصارت کے لیے مفید ہے۔
    ماہرینِ طب بتاتے ہیں کہ گل منڈی کا استعمال پھوڑے پھنسیوں، خارش، داد، چنبل اور فسادِ خون کے نتیجے میں لاحق ہونے والے عوارض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ اس جڑی بوٹی کے حوالے سے ایک جدید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس میں ایک ایسا کیمیائی جزو پایا جاتا ہے، جو وَرم میں فائدہ دیتا ہے۔

  • بلند فشارِ خون کو خاموش قاتل کیوں کہتے ہیں؟

    بلند فشارِ خون کو خاموش قاتل کیوں کہتے ہیں؟

    بلند فشارِ خون یا ہائی بلڈ پریشر ایسا مرض ہے جو جسم کے مختلف اعضا کی خرابی کا باعث بنتا ہے اور زندگی کو خطرے سے دوچار کر دیتا ہے۔ اسے ماہرین خاموش قاتل بھی کہتے ہیں کیوں کہ دیگر بیماریوں کی طرح اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    ہمارا جسم مسلسل حرکت میں رہتا ہے جس سے خون کا جو دباؤ بنتا ہے وہ عام طور پر 80 تا 120 کے درمیان ہوتا ہے۔ تاہم اس سطح میں فرق آجائے تو یہ ہائی بلڈ پریشر کہلاتا ہے۔ خون کے اس زیادہ دباؤ سے لاحق ہونے والے مرض کو ہائپر ٹینشن کہتے ہیں۔

    بُلند فشارِ خون کا سامنا موماً بڑی عُمر کے لوگ کرتے ہیں، تاہم ذہنی تنائو، مٹاپا، کھانے پینے میں نمک کی زائد مقدار کا استعمال، سگریٹ اور شراب نوشی وغیرہ بھی اس کی وجہ بنتے ہیں۔ بعض امراض جیسے کولیسٹرول اور ذیابیطس بھی ہائی بلڈ پریشر کے اس مسئلے کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق 95 فی صد افراد میں بلڈ پریشر بڑھنے کی وجوہ کی تشخیص نہیں ہوپاتی اور اکثریت کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ بلند فشارِ خون کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ کسی دوسری بیماری اور مرض کی صورت میں معالج سے رابطہ کرنے پر لیبارٹری ٹیسٹ اور دوسرے طبی طریقوں سے جانچ کے دوران معلوم ہوتا ہے کہ مریض کو ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ بھی لاحق ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق بہت زیادہ سگریٹ پینے والے اور چالیس سال سے زائد عمر کے لوگ خاص طور پر اپنا بلڈ پریشر لیول چیک کروائیں۔ اس کے لیے سادہ اور عام مشین سے خود ہی گھر پر بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ بلڈ پریشر چیک کرنے سے نہ صرف کئی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے بلکہ زندگی کو زیادہ محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

    ماہرینِ طب کے مطابق بلڈ پریشر کو کنٹرول رکھنے کی کوششوں کے ساتھ باقاعدہ طبی معائنہ اور معالج کی تجویز کردہ دوا بھی باقاعدگی سے استعمال کی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر دوا میں تبدیلی اور ناغہ صحت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

    مسلسل اور زیادہ کام، ذہنی دباؤ اور پریشانیاں بھی ہائی بلڈ پریشر کا سبب بنتی ہیں جب کہ غذا اور خوراک بھی اس مسئلے کی ایک وجہ ہے۔ نمک کازیادہ استعمال اور مرغن غذائوں کے علاوہ سگریٹ نوشی ترک کرکے ہم ایک بہتر اور صحت مند زندگی بسر کرسکتے ہیں۔

  • ماں کا دودھ بچوں میں متعددی امراض کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ہے، طبی ماہرین

    ماں کا دودھ بچوں میں متعددی امراض کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ہے، طبی ماہرین

    غذائی اعتبار سے ماں کے دودھ کا نعم البدل آج تک دریافت نہیں ہوسکا نہ ہی کوئی اس کا امکان ہے، نومولود بچوں کو مائیں ایک گھنٹے کے اندر اپنا دودھ پلائیں، پانی، گھٹی، شہید، چائے اور اوپر کا دودھ پلانے سے گریز کیا جائے۔

    حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ بچے جنہیں مائیں اپنا دودھ پلاتی ہیں، ان کی ذہانت اور آئی کیو دوسرے بچوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    گزشتہ دنوں پاکستان پیڈیا ٹرک ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک تقریب میں مقررین نے کہا کہ ماں کا دودھ صرف بچے ہی کیلئے نہیں بلکہ خود ماں کی بھی ذہنی و جسمانی صحت کیلئے فائدہ مند ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ غذائی اعتبار سے ماں کے دودھ کا نعم البدل آج تک دریافت نہیں ہوسکا نہ ہی مستقبل میں ایسا ممکن ہے۔

    پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات دُنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ ماں کا اپنے بچوں کو دودھ نہ پلانا ہے۔

    مقررین نے کہا کہ ماں کا دودھ ایک سفید خون کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ بچوں میں مختلف امراض کے بچاﺅکا قدرتی ذریعہ ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ملک میں بچوں کو ماﺅں کا دودھ پلانے کی شرح دن بدن کم ہوتی جارہی ہے جس سے بچوں میں شرح اموات بڑھ رہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ماﺅں کو بچوں کو اپنا دودھ پیدائش کے ایک گھنٹے کے اندر پلانا چاہیے اور چھ ماہ تک صرف دودھ ہی پلانا چاہیے اس کے بعد ماں کے دودھ کے ساتھ نرم غذائیں بھی شروع کرنی چاہیے۔

     پیدائش کے فوراً بعد کا گاڑھا دودھ بچوں کیلئے انتہائی فائدہ مند ہوتا ہے جس میں مختلف قسم کے اینٹی بائیوٹک اور پروٹین پائے جاتے ہیں لیکن مائیں اس کو پیلا اور گندہ دودھ سمجھ کر بچوں کو نہیں پلاتیں۔

    مقررین نے کہا کہ اﷲپاک نے قرآن پاک میں ماں کے دودھ کی افادیت کو چودہ سو سال پہلے سورہ بقرہ اور سورہ احقاف کی آیات میں بیان فرمادیا تھا کہ ترجمہ : اور مائیں اپنے بچوں کو دو سال تک اپنا دودھ پلائیں ۔۔ جو کہ آج جدید تحقیق کے ذریعے ثابت ہورہی ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ نومولود بچوں کو دودھ کے علاوہ پانی، گُھٹی، شہد، چائے اور اوپر کا دودھ دینے سے قطعاً گریز کیا جائے۔

  • کراچی میں 15 جون تک موسم گرم اورمرطوب رہے گا

    کراچی میں 15 جون تک موسم گرم اورمرطوب رہے گا

    کراچی: محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں 15 جون کے بعد سے موسم میں بہتری آئے گی۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں عید کے بعد تک موسم گرم اور مرطوب رہے گا۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق 15 جون کے بعد سے موسم میں بہتری آئے گی، جولائی سے مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی کا موجودہ درجہ حرارت 32 ڈگری سینٹی گریڈ ہے، ہوا میں نمی کا تناسب بڑھنے سے دن میں حبس میں اضافے کا امکان ہے۔

    دوسری جانب محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں موسم زیادہ ترگرم اور خشک رہے گا جبکہ مشرقی بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے میدانی علاقوں میں موسم انتہائی گرم رہے گا۔

    طبی ماہرین نے شہریوں کو دھوپ میں باہر نکلنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرباہرجانا بھی پڑے تو چھتری استعمال کریں اور سر پر گیلا کپڑا رکھیں۔

  • ڈپریشن کی بڑی وجہ سامنے آگئی

    ڈپریشن کی بڑی وجہ سامنے آگئی

    ڈبلن: آئرلینڈ کے ماہرین نے کہا ہے کہ عمر رسیدہ افراد ’وٹامن ڈی‘ کی کمی کے باعث ذہنی تناؤ (ڈپریشن) کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آئرلینڈ کے ماہرین نے ذہنی تناؤ کے حوالے سے تحقیق کی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بالخصوص عمر رسیدہ افراد میں ڈپریشن کی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے دوران 75 فیصد ڈپریشن کے مریضوں میں وٹامن ڈی کی کمی پائی گئی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وٹامنز کی کمی ہی ذہنی تناؤ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    چار سالہ تحقیق اور سروے ی رپورٹ میں ماہرین نے یہ بھی مشورہ دیا کہ عمر رسیدہ افراد معمولی اختیاط کر کے ذہنی تناؤ سے محفوظ رہ سکتے ہیں، اسی طرح نوجوان بھی وٹامنز کی مقدار کو یقینی بنائیں تو مستقبل میں بھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔

    مزید پڑھیں: وٹامن ڈی بریسٹ کینسر کی شدت میں کمی کے لیے معاون

    ماہرین کے مطابق درمیانی عمر یا پچاس سال کی عمر کے بعد ڈپریشن کی وجہ سے معیار زندگی اس قدر دشوار بنادیتا ہے کہ قبل از وقت انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

    وٹامن ڈی کیا ہے؟

    ہمارے جسم میں موجود کروڑوں خلیات کو چوبیس گھنٹے غذائیت سے بھرپور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، ان ہی سے وٹامنز پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو توانائی اور جسم کو فعال رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کی کمی انسانی جسم کو نڈھال اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    وٹامنز کیمیائی مرکبات ور اہم غذائی ضرورت ہیں جو کسی بھی خلیے کی بنیادی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے انسان کو متحرک رکھتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہونے والی بیماریاں

    قدرتی طور پر انسانی جسم میں کئی اقسام کے وٹامنز پائے جاتے ہیں جن میں وٹامن اے، بی، بی 6 ، بی 12، وٹامن سی، ڈی، ای اور سمیت دیگر شامل ہیں، تمام وٹامنز اہم خدمات انجام دیتے ہیں۔

    وٹامن ڈی کی اہمیت

    جسم کو درکار وٹامنز میں وٹامن ڈی سب سے اہم وٹامن ہے جو جسم کے عضلات، پٹھوں ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط بناتا ہے اور جسم کے اہم اعضاء جیسے دل، گردے، پھیپھڑے اور جگر کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    انسانی جسم جذبات خوشی، غمی، عزم، حوصلے کو کنٹرول کرنے والے نیورو ٹرانسمیٹرز ڈوپامن، سیروٹونن اور ایڈرینانن کے تناسب میں کمی سے انسان خودکشی کی طرف راغب ہوتا ہے، نیورو ٹرانسمیٹرز کی خرابی وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔