Tag: طبی مسائل

  • اونچی ہیل کینسر کا سبب بھی بن سکتی ہے؟

    اونچی ہیل کینسر کا سبب بھی بن سکتی ہے؟

    خواتین کے اونچی ہیل کے جوتے بظاہر تو ہر دور کے فیشن کا عکس ہیں، لیکن یہ خواتین کو بے شمار طبی پیچیدگیوں میں مبتلا کرسکتے ہیں، اور مستقل اونچی ہیل استعمال کرنے والی خواتین بے شمار امراض کا شکار ہوسکتی ہیں۔

    گزشتہ ہفتے برطانیہ کی ایک کمیونی کیشن کوچ ہیلن سیویل نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا کہ اونچی ایڑیوں کی وجہ سے برطانوی تجارتی اداروں کو سالانہ 26کروڑ پاؤنڈ کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ان اونچی ایڑی والی سینڈلز کے استعمال سے وہ تکالیف کا سامنا کرتی ہیں اور بیماری کی رخصت پر چلی جاتی ہیں۔

    برطانوی دارالعوام کی ایک کمیٹی، جو کام کی جگہوں پر لباس سے متعلق ضابطوں پر عملدر آمد کا جائزہ لے رہی تھی، انہوں نے بتایا کہ اونچی ایڑی والی سینڈلز اور جوتیاں پہننے سے مناسب طور پر آپ کے سوچنے، سانس لینے اور اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فرائض کی بجا آوری پر سنگین اثرات پڑتے ہیں۔

    ایسے بہت سے طبی جائزے کیے جا چکے ہیں جن سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر طویل عرصے تک اونچی ایڑیوں والی جوتیاں استعمال کی جائیں تو ان سے صحت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    امریکا کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کی ماہرین نفسیات نے یہ رپورٹ دی تھی کہ خواتین اگر اونچی ایڑیوں والی سینڈلز پہنیں تو ابتدا میں تو اس سے ان کے ٹخنے کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں لیکن ان کا استعمال اگر طویل عرصے تک جاری رہے تو پھر وہی پٹھے کمزور ہونے لگتے ہیں اور یہ عضلات زخمی ہوجاتے ہیں۔

    سابقہ جائزوں میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اونچی ہیلز سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان میں ہیمر ٹوز کا مسئلہ بھی شامل ہے۔

    اس میں پاؤں کے انگوٹھے مستقل طور پر مڑ جاتے ہیں، علاوہ ازیں ان اونچی ایڑیوں سے پٹھے جلد تھک جاتے ہیں اور ٹانگوں میں اوسٹیو آرتھرائٹس کی شکایت پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے جوڑوں میں ٹوٹ پھوٹ ہونے لگتی ہے۔

    اونچی ایڑیوں کے حوالے سے اب ایک اور نیا انکشاف سامنے آیا ہے، یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا میں میڈیسن کے پروفیسر اور کینسر کے ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ آگس کے مطابق ایسی جوتیاں اور سینڈلز جن کو پہن کر سر چکرائے یا لڑکھڑاہٹ محسوس ہو ان میں اور کینسر میں تعلق ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے یہ دلیل دی ہے کہ روزانہ غیر آرام دہ جوتیاں پہننے سے نہ صرف یہ کہ غیر ضروری درد محسوس ہوتا ہے اور جوڑوں کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس سے کم تر سطح کی سوزش کو بھی اس وقت تحریک ملتی ہے جب اس قسم کی جوتیاں پہننے والی خواتین اپنی غیر فطری جسمانی پوسچر یا ہیئت کو زبردستی جبر کر کے مناسب رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

    بعض اقسام کی سوزشیں ہم میں کمزور اور ناتواں کرنے والی بیماریوں کا سبب بنتی ہیں جن میں امراض قلب، الزائمر، جسمانی مدافعت کی خرابی سے متعلق بیماریاں اور ذیابیطس شامل ہیں اور یہی سوزش کینسر کا خطرہ بھی بڑھا دیتی ہے۔

    روزانہ تمام دن اونچی ایڑی والی جوتیاں پہننے سے انگوٹھوں میں، انگوٹھے سے نیچے کی گولائی میں اور رگڑ کھانے والی ایڑیوں میں سوزش پیدا ہوتی ہے۔

    پروفیسر آگس کا کہنا ہے کہ اونچی ایڑیاں شاید براہ راست کینسر کا سبب نہیں بنتی ہیں لیکن ہمہ وقت آنہیں پہننے سے قدرت نے آپ کے جسم میں کینسر کا مقابلہ کرنے والی جو صلاحیتیں ودیعت کی ہیں، انہیں آپ کام کرنے کا موقع نہیں ملتا یا سوزش کے ذریعے ان کے کام کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کہنا ممکن نہیں کہ کتنی اونچی ایڑی بہت خطرناک ہوسکتی ہے یا کتنی دیر تک انہیں پہننا نقصان دہ ہے لیکن اگر آپ کی اونچی ایڑیوں سے آپ کو تکلیف پہنچے یا آپ کی نقل و حرکت محدود ہوجائے، پاؤں میں درد ہو یا دن کے اختتام پر دکھن محسوس ہو تو پھر آپ کو چاہیئے کہ ایسی جوتیاں پہننا ترک کر دیں۔

  • اسمارٹ فون آپ کو کن کن بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے؟

    اسمارٹ فون آپ کو کن کن بیماریوں میں مبتلا کر سکتا ہے؟

    آج کل کے دور میں اسکرین زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہے، ہر عمر کے افراد اپنی زندگی کے اکثر کام اسکرینز کے بغیر انجام نہیں دے سکتے۔

    دوسری جانب دنیا بھر میں ڈپریشن اور اعصابی تناؤ بڑھتا جا رہا ہے جس کی بڑی وجہ اسکرینز کا بے تحاشہ استعمال ہے، اسکرین کے بہت زیادہ استعمال سے جسم میں کئی طرح کی تبدیلیاں جنم لینے لگتی ہیں، آئیں جانتے ہیں وہ تبدیلیاں کیا ہیں۔

    ہاضمے کے مسائل

    ضرورت سے زیادہ اسکرین دیکھنا ہاضمے کے مسائل کو جنم دیتا ہے، اسکرینز کے استعمال سے جسمانی سرگرمی کم ہوتی ہے جس سے ہاضمے کا عمل متاثر ہوتا ہے اور پیٹ کا درد اور قبض کی شکایت ہوتی ہے۔

    دانتوں کی صحت

    آپ جتنا زیادہ وقت اسکرین کو دیکھ کر گزارتے ہیں، اتنے ہی دانتوں کے مسائل جنم لینے لگتے ہیں، یہ بات سننے میں کچھ عجیب سی لگتی ہے مگر حقیقت یہی ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر وقت اسکرین پر چپکے رہنے کے نتیجے میں اسنیکنگ میں اضافہ ہوتا ہے، اور غیر صحت بخش کھانوں جیسے سوڈا، میٹھے اسنیکس اور چپس کا استعمال بڑھ جاتا ہے جو دانتوں کی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

    کمزور جذباتی فیصلے

    زیادہ اسکرین دیکھنا آپ کو کم سماجی بناتا ہے، کیونکہ اس طرح آپ لوگوں کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں کر پاتے اور ساتھ ہی یہ تنہائی آپ کے جذباتی فیصلے کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔

    خاص طور پر ان بچوں کے ساتھ جو حقیقی زندگی کی بات چیت سے محروم ہیں۔

    ایک بڑی تشویش یہ ہے کہ اسکرین کا کثرت سے استعمال بچوں کو پرتشدد بنا کر غیر حساس بنا سکتا ہے، زیادہ اسکرین ٹائم سے جذباتی فیصلہ سازی مستقل طور پر بدل جاتی ہے۔

    خود اعتمادی کی کمی

    یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جب آپ آن لائن بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں تو آپ کی خود اعتمادی متاثر ہوسکتی ہے۔

    دوسرے لوگوں کے ساتھ میل جول کی کمی ایک شخص کے اعتماد کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہے، اور جب آپ سوشل میڈیا سائٹس پر اپنی آن لائن موجودگی کے بارے میں فکر مند ہوتے ہوئے اتنا وقت گزارتے ہیں تو آپ خود پر توجہ نہیں دے پاتے جس سے آپ کا اعتماد کم ہونے لگتا ہے۔

    موٹاپے کی بنیادی وجہ

    اسکرین کا زیادہ استعمال موٹاپے کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے، اس کی ایک وجہ جسمانی سرگرمی کا نہ ہونا جبکہ دوسری جانب غیر صحت بخش غذاؤں کا استعمال ہے۔

    کمر اور گردن میں درد

    بیٹھنے کا غلط انداز زیادہ اسکرین ٹائم کے بدترین اثرات میں سے ایک ہے، کیونکہ ہم اس کا ادراک کیے بغیر طویل دوانیہ تک ان آلات پر مسلسل جھکے رہتے ہیں جس سے گردن اور کمر میں شدید درد ہو سکتا ہے۔

    ایسا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم نیچے دیکھتے ہیں تو ہماری گردن پر غیر فطری دباؤ پڑتا ہے اور ریڑھ کی ہڈی غیر فطری حالت میں آجاتی ہے۔ یہ تناؤ کا باعث بھی بن سکتا ہے جسے ٹیکسٹ نیک کہتے ہیں۔

    کوشش کریں کہ اسکرین پر وقت صرف کرنے کے بجائے صحت مند جسمانی سرگرمیوں کو اپنائیں تاکہ صحت مند رہ سکیں۔

  • "ہینگ” بہت کام کی چیز ہے!

    "ہینگ” بہت کام کی چیز ہے!

    آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہو گا جس پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ایک ہی وقت میں، ایک ہی معاملے پر دو افراد کی رائے کیسے مختلف ہوسکتی ہے۔ محاورہ ہے، "ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ چوکھا آئے”۔

    جب ایک فرد کسی موقع یا کسی چیز کا بھرپور فائدہ سمیٹنا چاہتا ہو تو اس کے اظہار کے لیے یہ محاورہ استعمال کرسکتا ہے جب کہ دوسرا شخص اس موقع پر اسے چالاک، عیار یا ذہین اور سمجھ دار بھی تصور کرسکتا ہے۔

    اس محاورے اور بحث کو یہیں چھوڑتے ہیں اور "ہینگ” کی طرف چلتے ہیں جسے سائنسی میدان میں Ferula assa-foetida کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے۔ یہ خوش بو دار پودے سے حاصل ہونے والی جنس ہے۔

    ہینگ پاکستان کے علاوہ افغانستان، ایران، بھارت میں کاشت ہوتی ہے جہاں اسے پکوان اور کچن میں مسالے کے طور پر، طبی مسائل اور عام تکالیف میں فوری نجات کے لیے اور بعض ٹوٹکوں میں‌ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    ہينگ کے پودے کی لمبائی 3 ميٹر تک ہوسکتی ہے جس پر پیلے رنگ کا پھول کھلتا ہے۔

    طب و حکمت میں اسے مزاج کے اعتبار سے گرم اور خشک بتایا گیا ہے۔ اسے پودے سے ٹھوس حالت میں نکال کر پیس لیا جاتا ہے۔ پیٹ کی خرابی دور کرنے، درد سے نجات دلانے خاص طور پر بچوں میں پیٹ، دانت اور کان کے درد کو دور کرنے کے لیے اس کی مناسب اور ضروری مقدار دی جاتی ہے۔ ماہر معالج ہینگ کو مختلف دوسری اجناس اور روغن وغیرہ کے ساتھ ملا کر بھی استعمال کرواتے ہیں۔

    یہ بالوں کو جھڑنے سے روکتی ہے، سوجن کو دور کرتی ہے جب کہ ہینگ کی ایک‌ خاصیت اس کا اینٹی بائیوٹک طرزِ عمل ہے جو کھانسی اور بلغم سے نجات دلانے میں مؤثر بتایا جاتا ہے۔

  • اپنی جیب سے والٹ نکال کر رکھ دیں!

    اپنی جیب سے والٹ نکال کر رکھ دیں!

    ہمارا طرزِ زندگی، رہن سہن کا طریقہ اور بعض مخصوص عادات یا اطوار ہماری جسمانی حالت اور صحت پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    اگر عام جسمانی تکالیف، درد وغیرہ کی بات کریں تو اس کی وجہ ہمارے اٹھنے بیٹھے، لیٹنے، چلنے یا بھاگنے دوڑنے کے دوران چند معمولی باتوں کا خیال نہ رکھنا ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح ہماری کچھ مخصوص عادات اور رہن سہن کا طریقہ بھی ہمیں جسمانی طور پر تکلیف اور اذیت میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    کیا آپ مختلف وزیٹنگ کارڈز، اپنے شناختی اور اے ٹی ایم کارڈ کے علاوہ کرنسی نوٹوں اور کچھ کاغذات سے بھرا ہوا والٹ اپنی پچھلی جیب میں رکھنے کے عادی ہیں؟

    ہمارا جسم ایک حد تک غیر متوازن حالت اور مختلف بے قاعدگیاں برداشت کرسکتا ہے، مگر ایک خاص وقت کے بعد کمر اور اس سے نچلے حصے کی باریک نسوں میں کھنچاؤ کی وجہ سے درد رہنے لگتا ہے جو شدید بے چینی اور مسلسل تکلیف کا باعث بنتا ہے۔

    ہم اس جسمانی کیفیت کو عام طور پر wallet sciatica کہتے ہیں۔

    یہ طویل عرصے تک بھاری یا موٹا والٹ جیب میں ٹھونس کر گھنٹوں سیٹ پر بیٹھے رہنے یا گاڑی چلانے کی وجہ سے پیدا ہونے والا مسئلہ ہے جس میں کمر کی نسوں پر زور پڑتا ہے۔

    یہ تکلیف کمر کے ساتھ آپ کے پیر کے نچلے حصوں تک پھیل سکتی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے والٹ کو کام کے دوران اور گاڑی چلاتے وقت جیب سے نکال لیں اور پُرسکون انداز سے اپنا کام کریں۔

  • بنگلہ دیشی طالبات کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے متحرک

    بنگلہ دیشی طالبات کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے متحرک

    ڈھاکہ: کم عمری کی شادیاں ترقی پذیر ممالک کا ایک عام رواج ہے تاہم یہ لڑکیوں اور ان کی آئندہ نسل پر نہایت خطرناک طبی اثرات مرتب کرتی ہے اسی لیے دنیا بھر میں اس عمل کی مذمت کی جاتی ہے۔

    بنگلہ دیش میں بھی نو عمر طالبات کا ایک گروہ اس سماجی برائی کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    گو کہ بنگلہ دیش میں شادی کی قانونی عمر 18 سال ہے تاہم ملک بھر میں 65 فیصد لڑکیاں اس عمر سے پہلے ہی بیاہ دی جاتی ہیں جبکہ 29 فیصد لڑکیاں 15 سال کی عمر میں شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    ان میں سے ایک تہائی لڑکیاں جن کی عمریں 15 سے 19 برس کے درمیان ہے، حاملہ ہوجاتی ہیں اور یہیں سے ماں اور بچے کے لیے تشویش ناک طبی خطرات سامنے آتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کم عمری کی شادیاں خواتین کے 70 فیصد طبی مسائل کی جڑ ہیں۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے لڑکیوں میں خون کی کمی اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔

    کم عمری میں شادی ہوجانے والی 42 فیصد لڑکیاں 20 سال کی عمر سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں جس کے بعد انہیں بچوں کی قبل از وقت پیدائش اور پیدائش کے وقت بچوں کے وزن میں غیر معمولی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    انہی خطرات سے آگاہی کے لیے بنگلہ دیش میں اسکول کی کچھ کم عمر طالبات نے شورنوکشوری (سنہری لڑکیاں ۔ بنگلہ زبان کا لفظ) نامی ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی۔

    یہ تنظیم انفرادی طور پر نہ صرف کم عمری کی شادیوں کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں بلکہ وہ مختلف اسکولوں میں طالبات کو طبی معلومات و رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔

    مزید پڑھیں: نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    اس تنظیم کی بانی لڑکیوں انیکا اور اویشکا کا کہنا ہے کہ ہماری کتابیں صحت سے متعلق آگاہی تو دیتی ہیں لیکن یہ زیادہ تر لڑکوں کے بارے میں ہوتی ہیں۔ ’ہماری کتابوں میں کم عمری کی شادی اور اس سے ہونے والے خطرات کے بارے میں نہیں بتایا جاتا‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ کم عمر لڑکیوں کو ان کی صحت کے بارے میں آگاہی دینا ضروری ہے تاکہ شادی کے بعد وہ اپنا اور اپنے بچے کا خیال رکھ سکیں۔

    یہ تنظیم اب خاصی منظم ہوچکی ہے اور یہ ملک بھر کے 64 اسکولوں میں بچیوں کو ان کی صحت کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔