Tag: طب و صحت

  • ادرک: ہنری ہشتم اور الزبتھ اول کے دربار میں

    ادرک: ہنری ہشتم اور الزبتھ اول کے دربار میں

    قدرت کی عطا کردہ نعمت ادرک باورچی خانے سے مطب تک اپنے فوائد اور تاثیر کے لیے الگ ہی پہچان رکھتی ہے۔ اس جڑی بوٹی کو انسان صدیوں سے خوش ذائقہ پکوان اور علاج کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

    ادرک کے فوائد اور عام جسمانی بیماریاں دور کرنے کے لیے اس کے استعمال سے متعلق تو آپ نے بہت کچھ پڑھا اور سنا ہوگا، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اس جڑی بوٹی کا ذکر یورپ کے کلاسیکی ادب میں بھی ملتا ہے اور انگلستان کے بادشاہ اور ملکہ نے بھی اس کی افادیت کو تسلیم کیا ہے؟ اس کے علاوہ عربی اور فارسی ادب بھی ادرک کے تذکرے سے خالی نہیں ہے۔

    ہمارے کھانوں کو اشتہا انگیز بنانے کے علاوہ مختلف عام امراض میں‌ استعمال کی جانے والی ادرک کو انگلستان کے بادشاہ ہنری ہشتم نے طاعون کے علاج میں مددگار کہا ہے۔

    ہنری ہشتم کا زمانہ 1509 سے 1547 تک تھا اور اس زمانے میں طاعون سے مختلف خطوں میں بڑی تعداد میں‌ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اسی بادشاہ کی بیٹی الزبتھ اول نے بعد میں انگلستان کی ملکہ کی حیثیت سے تخت سنبھالا۔ انگلستان کی اس ملکہ نے بھی اس جڑی بوٹی کی افادیت تسلیم کی ہے۔ الزبتھ اول کے مطابق ادرک، سونف اور دار چینی کا سفوف ہاضم ہوتا ہے۔

  • چادر گھاٹ کے نابینا حکیم

    چادر گھاٹ کے نابینا حکیم

    حیدرآباد(دکن) کا قدیم یونانی دوا خانہ، عثمانیہ دوا خانہ اور ان کی خدمات کا دنیا بھر میں شہرہ تھا۔ دور دراز سے مریض یہاں آتے تھے۔

    معالجین ان دنوں جس تحمل اور دل جمعی کا مظاہرہ کرتے تھے وہ مریض کے حق میں دوا سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا تھا۔

    ایک حکیم آشفتہ ہوا کرتے تھے، ان کا مطب چادر گھاٹ کے آس پاس تھا۔ حکیم نابینا ہمارے بچپن میں نامی گرامی حکیم تھے، انہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔ صرف نبض دیکھ کر نسخہ تجویز کرتے تھے۔ شاید حسینی علم میں ان کی رہائش گاہ تھی۔ انہیں اپنے وقت کا حاذق سمجھا جاتا تھا۔

    پرانے شہر کے ایک اور ڈاکٹر سکسینہ کا ذکر بھی ناگزیر معلوم ہوتا ہے جو علی الصبح سے رات دیر گئے تک خدمات کے لیے دست یاب رہتے تھے۔ یہ اُس زمانے کی باتیں ہیں جب شہر میں ڈاکٹروں کا فقدان تھا اور مذکورہ ڈاکٹروں اور حکما نے مفت خدمات انجام دیں۔

    ( اپنے وقت کے نہایت قابل اور ماہر حکما اور طبیبوں سے متعلق یہ سطور ’حیدر آباد(دکن) جو کل تھا‘ کے عنوان سے پروفیسر یوسف سرمست کے مضمون سے لی گئی ہیں)

  • لسڑ، جس نے جراثیم کی "اہمیت” کو منوایا

    لسڑ، جس نے جراثیم کی "اہمیت” کو منوایا

    یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ انیسویں صدی کے وسط تک طب و صحت کی دنیا میں جراثیم کی وجہ سے کسی زخم یا آلاتِ جراحی کے آلودہ ہو جانے سے بیماریاں‌ پھیلنے اور اس کے نقصان دہ ثابت ہونے کا تصور نہ تھا۔

    عام آدمی تو دور کی بات خود معالجین پانی سے ہاتھ دھونے اور خاص طور پر مرہم پٹی کے بعد کھانے پینے یا دوسرے کاموں سے پہلے اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح‌ دھونے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ یہ عمل ایک فطری اور طبعی عادت سے زیادہ نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر جراثیم یا خرد بینی جاندار ہیں‌ بھی تو پانی سے ہاتھ یا آلات کو دھونے سے ختم نہیں‌ ہوسکتے۔

    چوں‌ کہ جراثیم اور گندگی سے بچنے پر زور دینے کو اضافی یا غیرضروری یا وہم اور مفروضہ مانا جاتا تھا، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کا صاف ستھرا رہنا، نہانا دھونا ایک فطری خواہش، جسمانی تقاضا اور عام بات تھی۔

    اگر کسی شخص کا زخم علاج کے باوجود پھیلتا اور ٹھیک نہ ہوتا تو آلودہ ہوا کو اس کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں اسپتال میں داخل ہونے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی بیماری یا جسمانی تکلیف بڑھ سکتی ہے اور جان بھی جاسکتی ہے۔

    اس کی وجہ یہ تھی کہ اسپتالوں میں صفائی ستھرائی کا فقدان تھا۔ خصوصاً وارڈ، مریض کا بیڈ، طبی آلات کو صاف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔

    معالج اور سرجن بھی اپنے ہاتھ اور جراحی کے آلات نہیں دھوتے تھے۔ خون آلود ہاتھوں اور استعمال شدہ طبی آلات سے ایک کے بعد دوسرے مریض کا علاج یا آپریشن شروع کر دیا جاتا تھا۔ جراثیم کُش محلول تو ایک طرف معالجین میں‌ صابن جیسی کسی شے کے استعمال کا تصور تک نہ تھا۔

    طبی سائنس نے کچھ ترقی کی تو مریضوں کو بے ہوش کرنے کا طریقہ ایجاد ہوا اور ایک روز میڈیکل سائنس کے ایک طالبِ علم جوزف لسٹر نے دنیائے طب میں جراثیم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ‘‘اینٹی سیپٹک’’ طریقہ متعارف کرایا۔

    1883 میں اس نے طبی سائنس اور ماہرین کی توجہ حاصل کی اور بعد میں جراثیم سے متعلق مستند تحقیق اور سرجری کے حوالے سے اس کا خوب شہرہ ہوا۔

    لسٹر نے زخموں کا سائنسی طرز پر مشاہدہ کیا اور لوئی پاسچر کے خرد بینی جانداروں کے مفروضے کا بغور مطالعہ کیا۔

    جوزف لسٹر نے لوئی پاسچر کے جراثیم سے متعلق تصور پر تحقیق کرتے ہوئے کہا کہ اگر زخموں‌ کو جراثیم خراب کرتے ہیں‌ تو ان کو کیمیائی طریقے سے مارا بھی جاسکتا ہے۔

    اس کے لیے لسٹر نے ایک تجربہ کیا اور کاربولک ایسڈ (فینول) استعمال کیا۔

    اسی دوران لسٹر کو ایک سات سالہ بچے کی شدید زخمی ٹانگ کا علاج کرنا پڑا اور اس نے زخم کی بدبُو، اسے مزید سڑنے اور پیپ وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے تجربہ کیا جو کام یاب رہا۔ بچے کے زخم بھی جلد ہی مندمل ہو گئے۔

    یہ میڈیکل سائنس کی ایک زبردست اور نہایت مفید کام یابی تھی جس پر لسٹر نے باقاعدہ مقالہ لکھا اور یوں جراحی کی دنیا میں انقلاب برپا ہو گیا۔ اب آپریشن تھیٹرز میں صفائی اور علاج کے دوران جراثیم کو مارنے اور دوسری گندگی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات شروع ہوئے۔ ان میں دستانے اور لیب کوٹ، آلات کو دھونا، آپریشن ٹیبل کی مخصوص محلول سے صفائی جیسے اقدامات شامل تھے۔

    جوزف لسٹر کو دنیائے طب کا ایک عظیم مسیحا اور انسانوں کا محسن کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق برطانیہ سے تھا، جہاں آج بھی ان کے نام پر کئی اسپتال اور میڈیکل کالجز قائم ہیں جب کہ دنیا بھر میں لسٹر کے مجسمے اور یادگاریں موجود ہیں اور طب کے شعبے کے متعدد ایوارڈ لسٹر سے منسوب ہیں۔