Tag: طریقہ علاج

  • ویڈیو : جاپان میں ہڈیوں کے درد کا ’جان لیوا‘طریقہ علاج

    ویڈیو : جاپان میں ہڈیوں کے درد کا ’جان لیوا‘طریقہ علاج

    ٹوکیو : جاپان میں ماہرین صحت ہڈیوں کے درد کے علاج کیلیے جو طریقہ اختیار کرتے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید مریض کا دم گھٹ جائے گا۔

    اس طریقہ علاج میں مریض کے جسم میں پیدا ہونے والی سختی اور تکلیف کو دور کرنے کے لیے اس کو ایک بڑی سی چادر میں لپیٹ کر کچھ دیر کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    Japanese

    عام طور پر جاپانی شہری سخت محنت کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہیں اور وہ دورانِ ڈیوٹی طویل وقت تک اپنی نشست پر بیٹھے رہتے ہیں جس کے باعث انہیں جسم میں طرح طرح کی تکالیف جوڑوں کا دور، جسم میں سختی اور دیگر امراض کی شکایات ہوتی ہیں۔

    ان شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے جاپانی ماہرین صحت نے ایک ایسا علاج دریافت کیا کہ مریضوں کو ایک چادر کی گٹھڑی میں لپیٹ کر کچھ دیر کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، جس کے بعد متاثرہ شخص کی حالت ایسے ہوجاتی ہے جیسے ایک بچہ ماں کے پیٹ میں سکڑ کر سوتا ہے۔

    مریض کو ایک چادر میں لپیٹنے کے عمل کو (اڈلٹ باڈی) ریپنگ کا نام دیا گیا ہے، جس کے تحت متاثرہ شخص کے جسم پر ایک کپڑا لپیٹا جاتا ہے کہ مریض کو سانس لینے میں تکلیف نہ ہو جبکہ یہ کپڑا 15 سے 20 منٹ تک باندھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جو بظاہر دیکھنے میں تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس جاپانیوں کی بڑی تعداد اس انوکھے طریقہ علاج کو اپنا رہی ہے۔

  • کینسر سے 99 فیصد بچاؤ کا طریقہ دریافت

    کینسر سے 99 فیصد بچاؤ کا طریقہ دریافت

    کینسر ویسے تو ایک لاعلاج مرض ہے تاہم اس کی بروقت تشخیص کیلئے اگر مناسب طریقہ کار اور بروقت علاج شروع کردیا جائے تو ممکن ہے اس سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق کینسر سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اصول فطری، متوازن غذا اور سادہ زندگی گزارنا اور غیر فطری طرزِ زندگی سے بچنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ باقاعدہ ورزش اور خصوصاً پان، چھالیہ، تمباکو اور گٹکے وغیرہ سے اجتناب بھی لازمی ہے۔

    برطانوی ادارے جرنل نیچر کیمسٹری میں شائع ہونے والے نئے تحقیقی نتائج کے مطابق سائنسدانوں نے کینسر کے علاج کا ایک نیا ذریعہ تلاش کیا ہے جو لیبارٹری تجربات میں 99 فیصد تک مؤثر ثابت ہوا ہے۔

    امریکا کے سائنسدانوں نے نیئر انفراریڈ لائٹ کے ذریعے امینو سیانائن مالیکیولز کو متحرک کیا جو کینسر زدہ خلیات کو تباہ کرنے میں کامیاب رہے۔

    ان مالیکیولز کا استعمال ابھی بائیو امیجنگ کے لیے کیا جاتا ہے اور عموماً کینسر کی شناخت کے لیے ان کی مدد لی جاتی ہے۔

    امریکا کی رائس یونیورسٹی، ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی اور ٹیکساس یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں اس دریافت کے بارے میں بتایا گیا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مخصوص مالیکیولز کینسر زدہ خلیات کو ختم کرنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔

    کینسر

    محققین نے بتایا کہ اس نئے طریقہ کار سے نئی مالیکیولر مشینیں تیار کرنے کا موقع ملے گا جن کو ہم نے مالیکیولر جیک ہیمرز کا نام دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ کار کینسر ختم کرنے والی پرانی مالیکیولر مشین فرنگا ٹائپ موٹرز سے 10 لاکھ گنا تیز ہوگا اور مالیکیولر جیک ہیمرز کو عام روشنی کی بجائے انفراریڈ لائٹ سے متحرک کیا جائے گا۔

    اس نئے طریقہ کار کی آزمائش لیبارٹری میں بنائے گئے کینسر کے خلیات پر کی گئی اور 99 فیصد خلیات کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔

    اس طریقہ کار کی آزمائش خون کے کینسر کی رسولی کا سامنا کرنے والے چوہوں پر بھی کی گئی تھی اور ان میں سے 50 فیصد جانور کینسر سے نجات پانے میں کامیاب ہوگئے۔ محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا ہے کہ یہ مالیکیولز کیسے کام کرتے ہیں۔

    ان کے مطابق یہ پہلی بار دریافت ہوا ہے کہ مالیکیولر plasmon کو اس طریقے سے کینسر کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان کے ذریعے کینسر کے خلیات کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

    پلازما سے مالیکیولز کو کینسر کے خلیات کی جھلی سے جڑنے کا موقع ملتا ہے جبکہ ایسا ارتعاش پیدا ہوتا ہے جس سے بیمار خلیات ختم ہوتے ہیں۔ محققین کے مطابق ابھی تحقیق ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے مگر اب تک کے نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں۔

  • کیا کرونا وائرس کے لیے برسوں پرانا طریقہ علاج مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟

    کیا کرونا وائرس کے لیے برسوں پرانا طریقہ علاج مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کا علاج یا ویکسین تیار کرنے پر کام کیا جارہا ہے ایسے میں امریکی ماہرین نے اس موذی وائرس کے ایک اور طریقہ علاج کی طرف توجہ دلائی ہے۔

    امریکی ریاست میزوری کی واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن اس بات کی جانچ کر رہی ہے کہ وہ افراد جو اس وائرس سے لڑ کر صحتیاب ہوچکے ہیں، آیا ان کے خون کا پلازمہ اس وائرس کے شکار دیگر افراد کی بھی مدد کرسکتا ہے یا نہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر اس وائرس سے صحتیاب ہونے والے افراد اپنا خون عطیہ کریں اور یہ خون اس مرض سے لڑتے افراد کو چڑھایا جائے تو ان میں بھی اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوسکتی ہے۔

    یہ طریقہ علاج اس سے پہلے سنہ 1918 میں اسپینش فلو کی وبا کے دوران استعمال کیا گیا تھا جب طبی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔

    واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ علاج نیا نہیں ہے، اسے ہمیشہ سے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہ خاصا مؤثر بھی ہے۔

    ماہرین نے امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کو درخواست دے دی ہے جس کی منظوری ملنے کے بعد اس طریقہ علاج کو استعمال کیا جاسکے گا۔

    ایف ڈی اے کی اجازت کے بعد ڈاکٹرز اس طریقہ علاج سے کرونا وائرس کے ان مریضوں کا علاج کرسکیں گے جن کی علامات شدید ہیں اور انہیں موت کے منہ میں جانے کا خدشہ ہے۔

    ان کے مطابق یہ طریقہ علاج فوری طور پر ان مریضوں پر استعمال کیا جائے گا جن میں وائرس کی ابتدائی علامات ظاہر ہوں گی جس کے بعد ان کے مرض کو شدید ہونے سے روکا جاسکے گا۔