Tag: طلعت حسین

  • طلعت حسین: فن کی دنیا کے ”عالی جاہ‘‘کا تذکرہ

    طلعت حسین: فن کی دنیا کے ”عالی جاہ‘‘کا تذکرہ

    اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ طلعت حسین نے فن کی دنیا میں نصف صدی اپنے نام کی ہے۔ تھیٹر سے ریڈیو، ٹی وی ڈراموں اور فلموں تک ان کا فنی سفر یادگار اور بے مثال ہے۔سینئر اداکار طلعت حسین پچھلے برس 84 سال کی عمر میں‌ انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    یہ بھی پڑھیے:‌ طلعت حسین کو عالی جاہ بنانے والے حمید کاشمیری

    طلعت حسین کو بطور صدا کار ان کے منفرد لب و لہجے کے ساتھ عمدہ تلفظ کی وجہ سے الگ پہچان ملی طلعت حسین کو شروع ہی سے مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ وہ انگریزی اور اردو ادب سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ اداکاری کے میدان میں ان کا مخصوص اور متاثر کن انداز انھیں ہم عصروں میں امتیاز بخشتا ہے۔

    طلعت حسین سنہ 1940 میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ طلعت حسین کا پورا نام طلعت حسین وارثی تھا۔ ان کی والدہ شائستہ بیگم ریڈیو پاکستان کی مقبول اناؤنسر تھیں جب کہ ان کے والد الطاف حسین وارثی انڈین سول سروس میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ان کی فیملی 1947ء میں ہجرت کر کے کراچی پہنچی۔ پاکستان آنے کے بعد والد کی بیماری کے باعث مالی حالات بہت خراب ہو گئے۔ ان کی والدہ نے ریڈیو پر ملازمت اختیار کر لی۔ طلعت حسین نے یہاں اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا۔ گھر کے نامساعد حالات کی وجہ سے ان کی ماسٹر کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ وہ تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ معاش کے لیے کئی چھوٹی موٹی نوکریاں بھی کیں اور فن کی دنیا سے وابستہ ہوئے۔

    طلعت حسین کو شہرت سنہ 1970 سے ملنا شروع ہوئی۔ اسٹیج اور تھیٹر پر انھوں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور پھر ٹی وی ڈراموں نے انھیں ملک گیر شہرت دی۔ طلعت حسین کے مقبول ڈراموں میں پرچھائیاں، ہوائیں، کشکول، طارق بن زیاد، دیس پردیس اور دیگر شامل ہیں۔ فن کی دنیا کے کئی ایوارڈ اپنے نام کرنے والے طلعت حسین کو حکومت نے ستارۂ امتیاز اور تمغائے حسن کارکرگی سے نوازا۔

    اداکاری و صدا کاری دونوں ہی شعبہ جات میں طلعت حسین بلاشبہ ایک منجھے ہوئے فن کار کے طور پر مشہور تھے۔ طلعت حسین نے اپنے فن کے سفر کا آغاز ریڈیو سے کیا اور پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو وہ ڈراموں کی جانب آ گئے۔ ان کا پہلا ڈرامہ ”ارجمند‘‘ تھا جو 1967ء میں آن ایئر ہوا۔ 1972ء میں وہ انگلینڈ چلے گئے اور ”لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ وہاں برطانوی ڈرامہ میں بھی کام کیا اور متعدد غیر ملکی فلموں، ٹی وی ڈراموں اور طویل دورانیے کے کھیلوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ناروے کی فلم ”امپورٹ ایکسپورٹ‘‘ میں وہ بہترین معاون اداکار کا ”ایمنڈا ایوارڈ‘‘ بھی لینے میں کام یاب ہوئے تھے۔ اس فلم میں انھوں نے اللہ دتہ نامی شخص کا کردار ادا کیا تھا۔ ایک بھارتی فلم ”سوتن کی بیٹی‘‘ میں طلعت حسین نے اداکارہ ریکھا اور جیتندر کے ساتھ کام کیا تھا۔ 1970ء میں طلعت حسین فلم ”انسان اور آدمی‘‘ میں نظر آئے جب کہ فلم ”گمنام‘‘ میں ڈاکٹر کا کردار ادا کرنے پر بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔

    1998ء میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر بننے والی فلم ”جناح‘‘ میں بھی انھوں نے کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ ہالی ووڈ کے اداکار کرسٹوفر لی اور بھارتی اداکار ششی کپور نے بھی کام کیا تھا۔

  • وہ فن کار جسے پی ٹی وی کا دلیپ کمار کہا گیا!

    وہ فن کار جسے پی ٹی وی کا دلیپ کمار کہا گیا!

    طلعت حسین پاکستان کے ان فن کاروں میں سے ایک ہیں جو ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پاکستانی فلم انڈسٹری پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ گئے۔

    طلعت صاحب کی پہچان ان کی آواز اور وہ انداز تھا جس نے سبھی کو اپنا اسیر کر لیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی ادکاری کم درجے کی تھی۔ وہ اداکاری میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے مگر قدرت کی ودیعت کردہ آواز نے انھیں کمال درجے کا آرٹسٹ بنا دیا جب کہ ان کے دور عروج میں پی ٹی وی ریڈیو پاکستان یا اسٹیج پر ان کی طرح صدا کاری کے فن میں یکتا آرٹسٹ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔

    اکثر اشتہارات میں پس پردہ ان کی آواز گونجتی تھی تو نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں اس اشتہار کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ ہمیں بچپن کے ادوار میں تو پتا ہی نہ چلا کہ یہ اس شخص کی آواز ہے جسے ہم اکثر اسکرین پر دیکھتے آئے ہیں بعد میں جب آرٹس کونسل کے چکر لگائے اور وہاں کچھ کورسز کیے تو ہم پر عقدہ کھلا کہ آواز کے یہ جادوگر تو مشہور اداکار طلعت حسین ہیں۔

    آج بھی یاد ہے ریڈیو آر جے بننے کے لیے ہم نے آرٹس کونسل میں ایک کورس جوائن کیا تو ہمارے ٹرینر ہمیں طلعت حسین کی آواز سنایا کرتے تھے کہ یہ شخص جس طرح الفاظ کو پیراہن عطا کرتا ہے، وہ کمال ہے۔

    ایک وقت تھا کہ طلعت حسین پس پردہ آواز کے لیے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے آرٹسٹ شمار ہوتے تھے، اشتہار ساز ادارے انھیں منہ مانگے معاوضے پر سائن کرتے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ نہ صرف طلعت صاحب کی اداکاری کمال تھی بلکہ جب وہ اپنی آواز کی گمبھیرتا اور طلسماتی اثر کے ساتھ مکالمے ادا کرتے تو سننے والے ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے تھے۔

    اگر اداکاری کی بات کی جائے تو طلعت حسین کا الفاظ کی ادائیگی کا سلیقہ، قرینہ اور برجستہ ڈائیلاگ ڈلیوری کے سبب انھیں پی ٹی وی کا دلیپ کمارکہا جاتا تھا، ’ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!‘ اس مصرعے کی جیتی جاگتی تصویر تھے طلعت حسین! کیوں کہ اب ان کے پائے کا کوئی اداکار انڈسٹری میں نظر نہیں آتا۔

    لیجنڈ اداکار کی ڈائیلاگ ڈیلوری کمال تھی، کہاں لفظ پر زور دینا ہے کہاں آہستگی سے بات کرنا ہے اور فن کارانہ بدن بولی انھیں وہ معنویت عطا کرتی تھی جس نے ناظرین کے دلوں کو چھو لیا۔ اسی بنا پر انھیں پاکستان ٹیلی ویژن کا ’دلیپ کمار‘ کہا گیا۔

    دلیپ کمار نے اداکاری میں جسمانی حرکات اور بدن بولی کو جس نہایت اچھوتے اور منفرد انداز میں کیمرے کے سامنے پیش کیا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ وہ سین کے دوران چلتے ہوئے، رک کر اور خاص انداز سے ڈائیلاگ بولتے تھے اور دیکھنے والے دیوانے ہوجاتے تھے، یہی ادا طلعت نے بھی اپنائی اور پاکستان میں بالخصوص ٹی وی انڈسٹری پر چھا گئے۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ طلعت حسین اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ٹی وی، فلم اور ریڈیو کے میڈیم میں اداکاری کی مختلف ڈیمانڈز ہوتی ہیں۔ طلعت حسین کے مطابق ریڈیو میں صرف ڈائیلاگ سے کام چل جائے گا لیکن ٹی وی یا فلم میں جذبات کے اظہار کے لیے باڈی لینگویج یا بدن بولی کافی اہمیت کی حامل ہے۔

    طلعت حسین اداکاری اور تھیٹر کی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ بھی گئے۔ انھوں نے لالی ووڈ اور بالی ووڈ سمیت برطانوی ٹی وی کیلئے بھی کام کیا، لیجنڈ اداکار کو ستارہ امتیاز، پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازاگیا، پرچھائیاں، بندش، طارق بن زیاد، دیس پردیس، مہرالنسا، ہوائیں، دی کاسل، ایک امید، ٹائپسٹ، انسان اورآدمی اور کشکول ان کے مشہور ڈرامے تھے۔

    لیجنڈ اداکار کی مشہور فلموں میں گمنام، ایک سے بڑھ کر ایک، اشارہ، چراغ جلتا رہا، محبت مر نہیں سکتی، لاج، قربانی، کامیابی، بندش، پروجیکٹ غازی، بانی پاکستان کی زندگی پر بنائی گئی فلم جناح شامل ہیں۔

    اداکار طلعت حسین کے پاس کتابوں کا خزانہ تھا وہ کتابیں پڑھنے کے کافی شوقین تھے۔ انگریزی ادب اور اردو ادب سے خاص لگاؤ تھا، انھیں ایسے افراد میں شمار کیا جاسکتا تھا جن کے ہاتھ میں ہمیشہ کتاب رہتی تھی۔

    لیجنڈ اداکار کے انتقال پر اداکارہ بشریٰ انصاری کا کہنا تھا کہ طلعت حسین باکمال اداکار اور بڑی شخصیت تھے۔ میرے لکھے ڈرامے انھوں نے پڑھے جس پر مجھے فخر ہے۔ وہ انتہائی مہذب شخصیت تھے جنھوں نے کبھی اپنے منہ سے کوئی بے جا لفظ نہیں نکالا۔

    فلم اور ٹی وی کے معروف اداکار جاوید شیخ نے طلعت حسین کے انتقال کو شوبز انڈسٹری کا بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بہت نفیس آدمی تھے، جن سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی بیماری کے دوران ان سے ملنے کے لیے جانے کا ارادہ تھا لیکن افسوسناک اب یہ حسرت ہی رہے گی۔

    عثمان پیرزادہ کا کہنا تھا کہ طلعت حسین میرے خاندان کا حصہ تھے جن کے انتقال پر بہت افسوس ہے لیکن وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ بہروز سبزواری نے کہا کہ طلعت حسین کی پہچان ان کی آواز تھی۔ طلعت حسین اس پائے کے فنکار تھے کہ اب ان کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔

    اداکار سہیل احمد نے کہا کہ طلعت حسین کی وفات سے ہونے والا نقصان کبھی پورا نہیں ہوگا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان جیسا فنکار آئندہ کبھی ملتا نظر نہیں آ رہا۔

    پی ٹی وی کے جنرل منیجر امجد حسین شاہ کا کہنا تھا کہ طلعت حسین نے ٹی وی، ریڈیو اور تھیٹر پر بہت کام کیا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ان کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ وہ اس مزاج کے تھے کہ چاہے جتنی طبیعت خراب ہو، کام سے منع نہیں کرتے تھے۔

    تقسیم ہند سے قبل 1940 میں بھارت میں پیدا ہونے والے طلعت حسین کی عمر 80 سال سے زائد تھی، وہ کافی عرصے سے علیل تھے انھیں ڈیمنشیا کا مرض لاحق تھا۔ وہ طویل عرصہ علالت کے بعد 26 مئی کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ انھیں ڈی ایچ اے فیز 8 کے قبرستان سپرد خاک کیا گیا۔

  • ممتاز اداکار طلعت حسین سے جڑی کچھ دل چسپ باتیں، کچھ مہکتی یادیں

    ممتاز اداکار طلعت حسین سے جڑی کچھ دل چسپ باتیں، کچھ مہکتی یادیں

    صاحبو، آج تھیٹر کا عالمی دن ہے،ایک قدیم فن سے جڑا دن، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کی اپنے ذوق سلیم کی تسکین کے لیے کچھ انوکھا کرگزرنے کی چاہ ہزاروں برس قدیم ہے۔

    شاید اِس خواہش کا آغاز تب ہوا تھا، جب انسان خوف اور بھوک کے عفریت پر کچھ حد تک قابو پاچکا تھا اور تہذیب کی تعمیر کی جانب پہلا قدم بڑھا رہا تھا۔

    آج کے روز یہ موزوں ہے کہ پاکستانی تھیٹر سے جڑے ایک ایسے فن کار کو یاد کیا جائے، جس نے کتنے ہی یادگار کردار نبھائے۔ اپنی آواز، مخصوص انداز سے ہزاروں کو گرویدہ بنایا۔ اداکاری کا علم نئی نسل میں منتقل کیا۔ سوچتا ہوں؛ اگر یہ صاحب نہ ہوتے، تو پاکستانی ڈراما شاید ادھورا رہ جاتا!

    [bs-quote quote=”پیشہ ورانہ سفر کا آغاز سینما میں گیٹ کیپر کے طور پر کیا۔ بعد میں جب سینما کے مالک کو اُن کی انگریزی بولنے کی قابلیت کا علم ہوا، تو انھیں گیٹ بکنگ کلرک بنا دیا۔” style=”style-2″ align=”right” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/03/Tala60x60.jpg”][/bs-quote]

    یہ معروف فن کار طلعت حسین کا ذکر ہے، جن سے کبھی تو اُس روزنامہ کے دفتر میں، جس سے میں بہ طور انٹرویوکار ایک عشرے منسلک رہا، ملاقاتیں ہوئیں، کبھی آرٹس کونسل کے چائے خانے میں سامنا ہوا، کبھی ناپا کے سامنے موجود ریسٹورنٹ میں، جو اب نہیں رہا۔ اور ہر بار یہ تجربہ پرمسرت اور یادگار رہا۔

    اُنھوں نے ہوائیں، کشکول، گھوڑا گھاس کھاتا ہے، طارق بن زیاد اور ٹائپسٹ جیسے یادگار ڈرامے کیے۔ انسان اور آدمی، گم نام ، لاج اور جناح جیسی فلموں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ہندوستانی فلم سوتن کی بیٹی اور برطانوی سیریز ٹریفک میں بھی خود کو منوایا۔ کئی ملکی و بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے۔

    طلعت حسین نے تھیڑ میں خاصا کام کیا۔ لندن میں قیام کے دوران وہ اس فن کے اوج پر نظر آئے۔ اس کلاکار کی زندگی کے کئی پہلو خاصے دل چسپ ہیں۔ آئیں، ایسے ہی چند گوشوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

    1945 دہلی میں پیدا ہونے والے اس فن کار کے اہل خانہ نے بٹوارے کے سمے ہجرت کی۔ ان کی والدہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھیں۔ وہ ان کے ریڈیو کی سمت آنے کے خلاف تھیں، ان کی شدید خواہش تھی کہ بیٹا سول سروس میں جائے، مگر قسمت کو کچھ اور منظو تھا۔ انھوں نے ریڈیوآڈیشن پاس کیا۔ ”اسکول براڈ کاسٹ“ نامی پروگرام سے اپنا فنی سفر شروع کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

    پیشہ ورانہ سفر کا آغاز سینما میں گیٹ کیپر کے طور پر کیا۔ بعد میں جب سینما کے مالک کو اُن کی انگریزی بولنے کی قابلیت کا علم ہوا، تو انھیں گیٹ بکنگ کلرک بنا دیا۔

    ڈرامے ”ارجمند“ سے 1967میں ٹی وی کی دنیا میں قدم رکھا۔ پہلے ڈرامے کے فوراً بعد گاڑی خرید لی تھی۔ پھر وہ لندن چلے گئے۔ ایکٹنگ کی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔

    [bs-quote quote=”لندن سے لوٹ کر انھوں نے ایک روزنامے میں بہ طور سب ایڈیٹر کام کیا۔ ٹی وی پر بہ طور نیوزکاسٹر بھی نظر آہے، جس کے ماہانہ 200 روپے ملا کرتے۔” style=”style-2″ align=”left” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/03/Tala_60x60.jpg”][/bs-quote]


    لندن میں قیام کے دوران بی بی سی کے لیے بھی کام کیا۔ وہاں کی پاکستانی کمیونٹی میں خاصے مقبول تھے، مگر گزر بسر کے لیے انھیں دیگر ملازمتیں بھی کرنی پڑیں۔ وہاں بہ طور ویٹر بھی کام کیا۔

    لندن سے لوٹ کر انھوں نے ایک روزنامے میں بہ طور سب ایڈیٹر کام کیا۔ ٹی وی پر بہ حیثیت نیوزکاسٹر بھی نظر آہے، جس کے ماہانہ 200 روپے ملا کرتے۔

    طلعت حسین ادب پر بھی بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ لٹریچر کے موضوع پر جم کر گفتگو کرتے ہیں۔ کتابوں سے ان کا پرانا ناتا ہے۔ کراچی کے چند کتب فروش اپنے اس مستقبل گاہک کو خوب پہچانتے ہیں۔

    وہ قرة العین حیدر کو اردو کی نمایندہ فکشن نگارسمجھتے ہیں۔ شوکت صدیقی بھی انھیں پسند ہیں۔ بین الاقوامی ادیبوں میں چیخوف، گورکی، ہیمنگ وے کو سراہتے ہیں۔ طلعت حسین نے افسانے بھی لکھے، جو مختلف جرائد میں چھپے۔ انھیں کتابی شکل دینے کا ارادہ ہے۔

    کلاسیکی شعرا میں وہ میر کے مداح ہیں۔ اس خیال سے متفق ہیں کہ ہر اچھا شعر، میر کا شعر ہے۔ فیض کو بنیادی طور پر جدید اور معروف معنوں میں رومانوی شاعر ٹھہراتے ہیں۔ جالب، ان کے مطابق پکے انقلابی تھے، ان کے ہاں نعرے بازی تھی۔ قمرجمیل کی شاعری کے معترف ہیں۔


    تھیٹرکا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔