Tag: طنزومزاح

  • دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے…

    دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے…

    دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے کہ انڈا پہلے آیا یا مرغی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں انڈا۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔

    ایک کو ہم مرغی اسکول یا فرقۂ مرغیہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے کو انڈا اسکول۔ ہمیں انڈا اسکول سے منسلک سمجھنا چاہیے۔ ملت بیضا کا ایک فرد جاننا چاہیے۔ ہمارا عقیدہ اس بات میں ہے کہ اگر آدمی تھانے دار یا مولوی یعنی فقیہ شہر ہو تو اس کے لیے مرغی پہلے اور ایسا غریب شہر ہو تو اس کے لیے انڈا پہلے اور غریب شہر سے بھی گیا گزرا ہو تو نہ اس کی دسترس مرغی تک ہوسکتی ہے نہ انڈا اس کی گرفت میں آ سکتا ہے۔ اسے اپنی ذات اور اس کی بقا کو ان چیزوں سے پہلے جاننا چاہیے، مقدم رکھنا چاہیے۔

    ایک زمانے میں ہمارا دھیان کبھی کبھی مرغی کی طرف بھی جایا کرتا تھا۔ لیکن جب سے بکری کے دام گائے کی قیمت کے برابر ہوئے ہیں اور مرغی بکری کے دام پانے لگی ہے اور انڈا مرغی کے بھاؤ دستیاب ہونے لگا ہے، ہمارے لیے انڈا ہی مرغی ہے۔ ہم وحدت الوجود کی منزل میں آگئے ہیں۔ انڈا یوں بھی بڑی خوبیوں کی چیز ہے۔ اس میں سفیدی ہوتی ہے۔ اس میں زردی ہوتی ہے۔ اس میں چونا ہوتا ہے۔ اس میں پروٹین ہوتی ہے۔ اسے دانہ نہیں ڈالنا پڑتا۔ یہ بیٹ نہیں کرتا۔ بلیاں اس کی جان کی خواہاں نہیں ہوتیں۔ اس کے لیے ڈربا نہیں بنوانا پڑتا۔ اس کے خول پر رنگ کرکے اسے گھر میں سجا سکتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھی یہ گندا ضرور نکل جاتا ہے۔ سو اسے آسانی سے اٹھا کر باہر گلی میں پھینکا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال بھی جب نئی تہذیب کے کسی گندے انڈے کو دیکھتے تھے، یہی کہا کرتے تھے۔ افسوس کہ پرانی تہذیب کے گندے انڈوں کے متعلق انہوں نے اپنے کلام میں کوئی واضح ہدایات نہیں چھوڑیں۔ اس لیے ان کے عقیدت مند ان کو سنبھال سنبھال کر رکھے جا رہے ہیں۔

    اقبال کے ایک شارح نے تو اس شعر کی مدد سے علامہ اقبال کی گھریلو زندگی پر بھی پورا مقالہ لکھ دیا ہے۔ آج کل دستور یہی ہے کہ غالب کی زندگی معلوم کرنی ہے تو اس کے دیوان سے اخذ کرو کہ وہ شہر میں بے آبرو پھرا کرتے تھے۔ دھول دھپا اور پیش دستی کیا کرتے تھے۔ درِ کعبہ سے الٹے پھر آیا کرتے تھے۔ سیدھے نہیں۔ اور مرنے کے بعد بھی بولا کرتے تھے۔ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان صاحب نے لکھا ہے کہ علامہ اقبال ایک روز بازار سے نئی تہذیب کے کچھ انڈے لے کر آئے۔ ان کی بیوی آملیٹ بنانے بیٹھیں تو انہیں دوسرا مصرع پڑھنا پڑا۔

    نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

    اس پر علامہ موصوف نے ترکی بہ ترکی یعنی مصرع بہ مصرع ہدایت کی کہ ان کو، اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں۔

    یہ تحقیق یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ اتنی سی بات کو ہر عامی بھی سمجھ سکتا ہے۔ شارح موصوف کا کہنا ہے کہ شاعر کا گھر کسی گلی میں تھا۔ یہ شعر لازماً ان دنوں کا ہے جب علامہ مرحوم نے میوروڈ پر ابھی اپنی کوٹھی نہیں بنائی تھی۔ ورنہ وہ یہ فرماتے کہ اٹھا کر پھینک دو باہر سڑک پر۔ جناب محقق نے علامہ اقبال کی زبان میں نقص بھی دریافت کیا ہے کہ باہر کا لفظ زاید ہے کیونکہ گلی گھر کے اندر نہیں ہوتی۔ مزید لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو ہر معاملے میں خوامخواہ اپنی رائے دینے کی عادت تھی ورنہ گندے انڈے کو گلی میں پھینکنے کا فیصلہ ان کی بی بی خود بھی کر سکتی تھیں۔

    شارح موصوف نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ شعر علامہ اقبال مرحوم کے ابتدائے جوانی کا ہے۔ جب انہیں پہلوانی اور کسرت اور کرتب بازی سے دلچسپی تھی۔ وہ بھاری بھاری وزن کو اٹھا کر دوچار بار گردش دیتے تھے، پھر پھینکتے تھے۔ یہ ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ اس لیے کہا ہے کہ اٹھا کر پھینک دو۔ صرف ’’پھینک دو‘‘ کہنا کافی نہیں سمجھا۔ معاملہ انڈوں ہی کا کیوں نہ تھا۔ ہمارے خیال میں اس شعر سے ابھی اور معنی نچوڑنے کی بھی گنجائش ہے۔ علامہ مرحوم کو اپنے باطن کی صفائی کی طرف زیادہ دھیان رہتا تھا۔ باہر کی صفائی کا کچھ خیال نہ کرتے تھے۔ ورنہ وہ یہ کبھی نہ فرماتے کہ انڈے اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دو۔ انہیں کوڑے کے ڈرم میں پھینکنا چاہیے تھا۔ باہر کسی بھلے آدمی کی اچکن پر گر جاتے تو بڑا فضیحتا ہوتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری قوم کو علامہ مرحوم کی ہر ہدایت پر آنکھ بند کر کے عمل کرنا چاہیے۔ ہماری رائے میں اپنی عقل کا واجبی استعمال بھی کر لینا چاہیے۔ تھوڑی احتیاط بھی لازم ہے۔ ہرخوشہ گندم کو جلانے، مَرمَر کی سلوں سے ناخوش و بیزار ہونے، اس رزق سے موت اچھی ہونے اور گندے انڈے گلی میں اٹھا کر پھینک دینے کے متعلق اشعار اس کی محض چند مثالیں ہیں۔

    آج انڈوں کی طرف رہ رہ کر ہمارا دھیان جانے کی کئی وجہیں ہیں۔ ایک تو سردی دوسرے حکومت کا یہ اعلان کہ گوشت اور دودھ کی طرح انڈوں کی بھی قیمتیں مقرر کی جارہی ہیں تاکہ مقررہ قیمتوں پر نہ ملیں۔ تیسرے شاد عارفی مرحوم کا ایک نادرہ کار شعر ہماری نظر سے گزرا ہے۔ صیاد اور قفس اور نشیمن کے مضمون بہت شاعروں نے باندھے ہیں۔ نئے رنگ اور نئے ڈھنگ سے بھی باندھے ہیں۔ خود علامہ اقبال مرحوم نے بھی ایک بلبل کی فریاد لکھی ہے۔ لیکن اس مضمون کے جملہ تعلقات پرکسی کی نظر نہیں گئی تھی۔ فرماتے ہیں شاد عارفی رام پوری،

    انہیں بھی ساتھ لیتا جا، کہیں ٹکیاں بنالینا
    ارے صیاد دو انڈے بھی رکھے ہیں نشیمن میں

    (اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب ابنِ انشا کی ایک شگفتہ تحریر)

  • اب لائیے ادھر کان!

    اب لائیے ادھر کان!

    ایک تھا کچھوا۔ ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگائی۔

    کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تُو نے کیوں لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔

    دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا، پلک چھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے۔ اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شان دار ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ جب اس دنیا میں کچھوے راج کیا کرتے تھے۔ سائنس اور فنون لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یونہی سوچتے میں آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ خود تو تخت شاہی پر بیٹھے ہیں۔ باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔ آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچّے کی کیا اوقات ہے۔ میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ واہ بھئی واہ میرے کیا کہنے۔

    جانے کتنا زمانہ سوئے رہے تھے۔ جب جی بھر کے سستا لیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی کہ واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کرسکتا ہے؟ اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہا تھا۔

    کچھوے نے کہا، ’’اے برخوردار تو خرگوش خان کو جانتا ہے؟‘‘ خرگوش کے بچّے نے کہا، ’’جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ وہ کچھوے میاں ہیں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدتوں آپ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر انتقال کرگئے۔ جاتے ہوئے وصیت کرگئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔‘‘

    کچھوے نے اپنے کان اور سری خول کے اندر کر لی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور مقبول مزاح نگار ابنِ‌ انشاء کے قلم کی شوخی)

  • بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    مثل مشہور ہے کہ ”پرہیز سب سے اچھا نسخہ ہے۔“ اور زباں زدِ عام بھی یہی ہے کہ ”پرہیز علاج سے بہتر ہے۔“ گویا معالج کی مجوزہ ادویات اُس وقت مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں جب اُن کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے جو علاج کا لازمی جزو اور پرہیز کہلاتی ہیں۔
    مصنفہ کی دیگر تحریریں اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    پرہیز اور علاج میں جو بنیادی فرق ہے، وہ بہت واضح ہے۔ علاج کے سلسلے میں جو رقم خرچ کرنی پڑتی ہے، پرہیز کے مرحلے سے گزرتے ہوئے اُس کی بچت ہوجاتی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس کے اور بھی کئی فائدے ہیں۔ ضبطِ نفس کے اس مظاہرے سے دنیا ہی نہیں عاقبت بھی سنورجاتی ہے۔ ایک ذرا دل پر جبر کیا کِیا، بیٹھے بٹھائے ہدایت یافتہ بھی ہوگئے اور جنّت کی کنجی بھی پالی۔
    ہمیں یہ مثل بہت اچھی لگتی ہے، جبھی اس پر عمل بھی کرتے ہیں، لیکن ایک مرتبہ یہی پرہیز ہمارے لیے کڑی آزمائش بن گیا۔ اس سے باعزّت گزر کے ہم سرخرو تو ہو گئے، لیکن کچھ دل ہی جانتا ہے جو دل پر ستم ہوئے۔
    ہُوا یوں کہ دانتوں کی شدید تکلیف ہمیں دندان ساز کے پاس لے گئی۔ ہمارے دانتوں کے ساتھ ڈاکٹر کا برتاؤ اُن کے پیشے کے عین مطابق تھا، سو ہم اُن کو قصور وار نہیں مانتے، لیکن وقتِ رخصت ڈاکٹر کی اس ہدایت نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا کہ ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا۔“ بھوک ہم سے برداشت ہوجاتی ہے، لیکن یہاں تو صورتِ حال ہی مختلف تھی۔ ڈاکٹر کے کلینک سے محض چند قدم کے فاصلے پر احمد رشدی کا ترنّم کسی کے روزگار کے فروغ اور کسی کے ذوقِ طعام کا وسیلہ بنا ہُوا تھا۔
    گول گپے والا آیا گول گپے لایا
    اس سے قبل گول گپے کھانے کی خواہش نے اتنی شدت سے سَر نہ اٹھایا تھا، جتنا اس وقت ستا رہی تھی۔ ہم نے ازلی بے نیازی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے آگے راہ لی تو قلفی والا ہمارے ضبط کا امتحان لینے چلا آیا۔ ہم نے اس سے بھی نظریں چرا لیں۔ چند قدم کے فاصلے پر مونگ پھلی گرم کی صدائیں ہماری سماعت سے ٹکرا رہی تھیں تو دوسری جانب حبیب ولی محمد کی آواز بھی ہماری سماعت پر دستک دے رہی تھی۔
    دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں…
    چونکہ ہمیں بچپن ہی سے پرہیز علاج سے بہتر ہے کا خیال بہت بھلا لگتا ہے، سو ہم نے بدپرہیزی کے نتیجے میں ہونے والے مزید اور ممکنہ علاج سے بچنے کے لیے بچپن کی دوستی پر دھیان دیا اور دیرینہ رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے غیریت کی انتہا کر دی۔
    اُدھر قدم قدم پر ہر گھڑی ہمارے لیے ایک آزمائش تھی۔ یہ لیجیے”صفائی نصف ایمان ہے“ کی اطلاع دینے والے نصف ایمان سے ہاتھ کھینچے خود تو عالمِ برزخ میں کھڑے ہی تھے ہمیں بھی آزمائش میں ڈال دیا۔ گندگی کا ڈھیر چلّا چلّا کر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ قلفی، گول گپوں اور مونگ پھلی کی خواہش کو تو ہم نے اچھے وقتوں کے لیے اُٹھا رکھا مگر غلاظت کا انبار دیکھ کر بھی پیچ و تاب کھانے کے عمل سے خود کو باز رکھنا ہمارے لیے کٹھن تھا۔ گو پیچ وتاب کھانے پر پابندی ڈاکٹر کی ہدایت میں شامل نہ تھی لیکن اس عمل کے فوری ردِ عمل کے طور پر ہمیں ایک مرتبہ پھر کلینک کا راستہ ناپنا پڑتا کہ پیچ و تاب کھانے کا عمل دانتوں کی تکلیف کے ممکنہ خاتمہ میں حارج ہوتا۔ بھلا کبھی کسی نے دانت پیسے بغیر پیچ و تاپ کھایا ہے، پرہیز سے وفا نباہنے کا یہ فائدہ تو ہوا کہ ہم مزید عذاب جھیلنے سے بچ گئے۔
    اوّل اوّل تو ڈاکٹر کے تاکیدی فقرے ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا“ نے ہمیں صبر کی راہ دکھائی تھی، لیکن اگلی ہی ساعت ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ دورانِ گفتگو ہمیں قسم کھانے کی عادت نہیں، ورنہ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو سکتا تھا۔ قسم کھانے کے لیے ہمیں بتیس دانتوں کے بیچ تولہ بھر زبان بہرحال ہلانی پڑتی۔ خیالات کی یلغار سے جتنا ہم نے بچنا چاہا اُتنا ہی اس کی زد میں رہے۔ ابھی ہماری سوچوں کا سفر جاری تھا کہ اچانک سڑک کے ایک جانب پڑے کوڑے پر ہماری نظر پڑی جو گلی گلی کسی کی یاد کی مانند بچھا رہتا ہے۔ جو رستہ دیکھ کر چلتے ہیں وہ یا تو خود کو بچا لیتے ہیں یا اپنا فشار خون بلند کر لیتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ ہی اور تھا، تڑپنے اور فریاد کی اجازت تو تھی پَر پیچ پر پیچ کھانے کی نہیں۔ سو بیچ سڑک پہ پڑے کوڑے کو ہم نے نظر انداز کرنا چاہا کہ بل کھانے کا حکم نہ تھا، سو ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوڑے کا ڈھیر لگانے والوں کو نگلنا چاہا لیکن ہماری بصارت نے بصیرت کے کہے میں آکر تعاون سے انکار کر کے ہماری رہی سہی امید پر پانی پھیر دیا۔
    ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی بھی طرح یہ دو گھنٹے جو دو صدیوں کے برابر لگ رہے ہیں دو پل میں بیت جائیں، پَر وقت نے کب کسی کی مانی ہے جو ہماری سنتا۔ وقت نے اپنی میعاد پوری کر کے ہی ہمیں آزادی کی نوید دی۔ اب ہم اپنے ہر اُس عمل کے لیے آزاد تھے جس کو کھانے سے نسبت تھی۔ ہاں وقت کی بے نیازی اور بے مہری کا ہمیں بہت گلہ تھا جس کی وقت کو پروا تک نہ تھی۔ اور جب وقت کی بے نیازی کے خلاف احتجاج کا خیال آیا تو وقت بیت گیا تھا کیونکہ دو گھنٹے کی میعاد پوری ہو چکی تھی اور ہم پر سے کچھ نہ کھانے کی قید بھی اٹھا لی گئی تھی۔ پَر اب کچھ کھانے کی خواہش سے ہمارا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔
    بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی، اگلے روز بھی ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بلایا تھا اور ترتیب وار ان ہی مراحل سے ہمیں گزرنا تھا گویا
    ابھی وقت کے امتحان اور بھی ہیں
    اور ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ جو آج نہ کر سکے وہ کل ضرور کریں گے اور قبل از وقت کریں گے۔ کون سا وقت؟ ارے بھئی وہی ”بد وقت‘‘جس میں بے شک ہم اشیائے خور و نوش سے ہاتھ کھینچ لیں لیکن رہ گزر کے عذاب سے کترا کر گزرنا ہمارے بس میں نہیں۔ سو ہم نے اسی وقت پیچ و تاب کھانا شروع کر دیا…. کس پر؟ کوئی ایک ہو تو ہم بتائیں بھی۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جانے کیسے قلم کے توسط سے ہماری فسانۂ درد بیان کرنے کی نیت کی خبر عام ہو گئی اور مختلف محکموں کے کشتگانِ ستم قطار بنائے کھڑے ہو گئے۔
    ہر ستم کے مارے کی آرزو تھی کہ پہلے اس کے متعلقہ محکمہ کے دانت کھٹے کریں اور ہمارے قلم کی روشنائی اجازت ہی نہیں دے رہی تھی کہ پردہ نشینوں کو بے نقاب کریں لیکن چشم کشا حقائق سے چشم پوشی بھی تو جرم ہے اور پھر جو شے اظہر من الشّمس ہو اس کا پردہ رکھ کر ہم کون سا ثواب کما لیں گے؟ بس یہی سوچ کر ہم نے قلم کی روشنائی کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا کہ ہمارے اور آپ کے مابین رابطے کا یہ مستند و معتبر حوالہ اگر روٹھ گیا تو؟ سو ہم نے دل پر جبر کر کے خود کو ہر اس خواہش سے باز رکھا جو ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتی تھی۔ خود پر پابندیوں کے اس عمل سے گزرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ہم ڈاکٹر کے پاس گئے اور واپسی میں راستہ بھر بے بسی کی تصویر بنے مہر بہ لب صیاد کے مسکرانے کا تماشہ دیکھتے رہے۔ فضائی آلودگی، جا بجا گندگی کے ڈھیر، شاہراہوں پر لگے اسٹالوں اور دکانوں میں خریداروں پر ہونے والے مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں نے کئی بار ہمیں اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا مگر ہم نے کچھ نہ کھانے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کھانے کی ہر قسم سے منہ موڑ لیا اور نہایت صبر شکر کے ساتھ یہ برا وقت بھی کاٹ لیا۔

    پیچ و تاب کھانے کے تمام تر سنہرے مواقع ہماری بے بسی پر ہنستے رہے اور ہم اس بے بسی پر شریفانہ احتجاج کرتے رہے۔

    دانتوں کی تکلیف سے تو ہم نے نجات حاصل کر لی لیکن اب بھی وہ برا وقت یاد آتا ہے جب شدید خواہش کے باوجود ہم نے پیچ و تاب نہیں کھایا تھا تو فیضؔ صاحب کا یہ شعر اپنی ساری توانائیوں سمیت ہمیں اپنے حصار میں لے لیتا ہے
    کیا کیا نہ تنہائی میں تجھے یاد کیا ہے
    کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
    اور ہماری یادیں دستِ صبا تو ہیں نہیں کہ ہم فخریہ سینے سے لگائے پھرتے۔ ہمیں بے بس کرنے والے لمحات تو سینے کے وہ داغ ہیں جو اربابِ اختیار اور عوام النّاس کے باہمی تعاون ہی سے دھل سکتے ہیں۔
  • دفتر میں نوکری

    دفتر میں نوکری

    ہم نے دفتر میں کیوں نوکری کی اور چھوڑی، آج بھی لوگ پوچھتے ہیں مگر پوچھنے والے تو نوکری کرنے سے پہلے بھی پوچھا کرتے تھے!

    ’’بھئی، آخر تم نوکری کیوں نہیں کرتے؟‘‘

    ’’نوکری ڈھونڈتے نہیں ہو یا ملتی نہیں؟‘‘

    ’’ہاں صاحب، ان دنوں بڑ ی بے روز گاری ہے۔‘‘

    ’’بھئی، حرام خوری کی بھی حد ہوتی ہے!‘‘

    ’’آخر کب تک گھر بیٹھے ماں باپ کی روٹی توڑو گے۔‘‘

    ’’لو اور سنو، کہتے ہیں، غلامی نہیں کریں گے۔‘‘

    ’’میاں صاحبزادے! برسوں جوتیاں گھسنی پڑیں گی، تب بھی کوئی ضروری نہیں کہ۔۔۔‘‘ غرض کہ صاحب گھر والوں، عزیز رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے دن رات کے تقاضوں سے تنگ آکر ہم نے ایک عدد نوکری کر لی۔ نوکری تو کیا کی، گھر بیٹھے بٹھائے اپنی شامت مول لے لی۔ وہی بزرگ جو اٹھتے بیٹھتے بے روزگاری کے طعنوں سے سینہ چھلنی کیے دیتے تھے، اب ایک بالکل نئے انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے؟‘‘

    ’’اماں، نوکری کر لی؟ لاحول ولا قوۃ!‘‘

    ’’ارے، تم اور نوکری؟‘‘

    ’’ہائے، اچھے بھلے آدمی کو کولہو کے بیل کی طرح دفتر کی کرسی میں جوت دیا گیا۔‘‘

    ’’اگر کچھ کام وام نہیں کرنا تھا تو کوئی کاروبار کرتے اس نوکری میں کیا رکھا ہے۔‘‘

    لیکن ملازمت کا پرُسہ اور نوکری پر جانا دونوں کام جاری تھے۔ ایسے حضرات اور خواتین کی بھی کمی نہ تھی جن کی نظروں میں خیر سے ہم اب تک بالکل بے روزگار تھے۔ لہٰذا ان سب کی طرف سے نوکری کی کنویسنگ بھی جاری تھی۔ روزگار کرنے اور روزگار نہ کرنے کا بالکل مفت مشورہ دینے والوں سے نبٹ کر ہم روزانہ دفتر کا ایک چکر لگا آتے۔

    یہاں چکر لگانے، کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ اب تک ہم کو نوکری مل جانے کے باوجود کام نہیں ملا تھا۔ بڑے صاحب دورے پر گئے ہوئے تھے۔ ان کی واپسی پر یہ طے ہونا تھا کہ ہم کس شعبے میں رکھے جائیں گے۔ دفتر ہم صرف حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرنے کی حد تک جاتے تھے۔ فکر اس لیے نہ تھی کہ ہماری تنخواہ جڑ رہی تھی، یعنی پیسے دودھ پی رہے تھے۔ پریشانی اس بات کی تھی کہ اس ’باکار‘ ’بے کاری‘ کے نتیجے میں ہم کہیں ’حرام خور‘ نہ ہو جائیں۔ بے روزگاری کے تقاضوں سے ہم اس قدر تنگ آچکے تھے کہ اب کسی پر یہ ظاہر کرنا نہ چاہتے تھے کہ باوجود روزگار سے لگے ہونے کے ہم بالکل بے روزگار ہیں اور بے روز گا ر بھی ایسے کہ جس سے کار تو کار، بے گار تک نہیں لیا جارہا ہے۔

    روزانہ ہم گھر سے دفتر کے لیے تیار ہو کر نکلتے اور راستے میں سائیکل آہستہ کر کے دفتر کے پھاٹک پر کھڑے چپراسی سے پوچھتے، ’’اماں آیا؟‘‘

    جواب ملتا، ’’ابھی نہیں آیا۔‘‘

    اس کے بعد ہم دفتر میں جا کر حاضری لگا الٹے قدموں باہر آتے، سائیکل اٹھاتے اور شہر کے باہر دیہات، باغوں اور کھیتوں کے چکر لگا لگا کر دل بہلاتے اور وقت کاٹتے۔

    لیکن دو چار دن میں، جب دیہات کی سیر سے دل بھر گیا، تو شہر کے نکڑ پر ایک چائے خانے میں اڈا جمایا۔ پھر ایک آدھ ہفتے میں اس سے بھی طبیعت گھبرا گئی۔ اب سوال یہ کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ ایک ترکیب سوجھ گئی۔ گھر میں کہہ دیا، چھٹی لے لی ہے۔ دو چار دن بڑے ٹھاٹھ رہے آخر جھک مار کر وہی دفتری آوارہ گردی شروع کر دی۔

    اس کے بعد دو ایک دن دفتر میں سوانگ رچایا۔ ایک دن دفتر میں چھٹی کی وجہ یہ بتائی کہ ہمارے افسر ایک مختصر علالت کے بعد آج وفات پاگئے۔ مگر یہ خوش آگیں لمحات بھی مدتِ وصل کی طرح جلد ختم ہوگئے۔ اب کیا کریں۔ اسکول کے زمانے میں ہم نے چھٹی حاصل کرنے کے لیے ایک ایک کر کے تقریباً اپنے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    غیر حاضری کا یہ عذر پیش کرتے۔ ’’دادا جان پر اچانک ڈبل نمونیہ کا حملہ ہوا اور وہ ایک ہی دن میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘‘

    نوبت یہاں تک آپہنچی کہ ماسٹر صاحب نے بید کھڑکاتے ہوئے کڑک کر پوچھا، ’’کل کہاں تھے؟‘‘

    رونی صورت بنا کر عرض کیا، ’’والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔‘‘

    دروغ گو را حافظہ نہ باشد۔ ہم والد مرحوم کی وفاتِ حسرت آیات کی تفصیل میں جانے کے لیے مصائب پر آنے ہی والے تھے کہ ماسٹر صاحب گرجے، ’’تمہارے والد کا تو پچھلے مہینے انتقال ہو چکا ہے۔‘‘

    جلدی سے بات بناتے ہوئے کہا، ’’ابّا سے مراد بڑے ابّا۔ جنہیں ہم ابّا کہتے تھے۔ ہمارے بڑے ابّا!‘‘

    ماسٹر صاحب ہماری اس تازہ ترین یتیمی سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس موقع پر تو خیر ہم بالکل بال بال بچ گئے۔ لیکن جب ہم نے اپنی بھاوج کے تیسری بار انتقال کی خبر سنائی تو ماسٹر صاحب کھٹک گئے۔ ہم سے بہ ظاہر رسمی ہمدردی کی مگر شام کو بید لے کر تعزیت کے لیے ہمارے گھر آئے، جہاں ہمارے خاندان کے ہر مرحوم سے انہوں نے ذاتی طور پر ملاقات کرنے کے بعد ہم کو ہمارے گھر نما قبرستان میں بید سے مارتے مارتے زندہ درگور کر دیا۔

    چنانچہ اب جو دفتر سے بچنے کے سلسلے میں زمانۂ طالب علمی میں چھٹی کے ہتھکنڈوں پر نظر دوڑائی اور طبیعت گدگدائی تو بجائے دفتر جانے کے گھر میں اعلان کر دیا۔

    ’’ڈائریکٹر صاحب کا آج انتقال ہو گیا۔‘‘ رفتہ رفتہ وقت گزاری سے اتنے عاجز آگئے کہ ایک دن یہ سوچ کر کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری، استعفیٰ جیب میں رکھ کر دفتر پہنچے لیکن ہماری بدقسمتی ملاحظہ فرمائیے کہ قبل اس کے کہ ہم استعفیٰ پیش کرتے ہمیں یہ خوش خبری سنادی گئی کہ فلاں شعبے سے ہم کو وابستہ کر دیا گیا ہے، جہاں ہم کو فلاں فلاں کام کرنے ہوں گے۔

    اب ہم روزانہ بڑی پابندی سے پورا وقت دفتر میں گزارنے لگے۔ دن دن بھر دفتر کی میز پر جمے ناول پڑھتے، چائے پیتے اور اونگھتے رہتے۔

    جب ہم اپنے انچارج سے کام کی فرمائش کرتے تو وہ بڑی شفقت سے کہتے ایسی جلدی کیا ہے، عزیزم زندگی بھر کام کرنا ہے۔

    ایک دن ہم جیسے ہی دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ جن ڈائریکٹر صاحب کو ہم اپنے گھر میں مرحوم قرار دے چکے تھے، وہ ہم کو طلب فرما رہے ہیں۔ فوراً پہنچے۔بڑے اخلاق سے ملے۔ دیر تک اِدھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد بولے، ’’اچھا!‘‘

    ’’آپ نے شاید مجھے کسی کام سے یاد فرمایا تھا۔‘‘

    ’’اوہ! ٹھیک ہے۔ سیکریٹری صاحب سے مل لیجیے۔ وہ آپ کو سمجھا دیں گے۔‘‘

    سیکریٹری صاحب سے ایک ہفتے بعد کہیں ملاقات ہوسکی۔ انہوں نے اگلے دن بلایا اور بجائے کام بتانے کے ڈپٹی سیکریٹری کا پتہ بتا دیا۔ موصوف دورے پر تھے۔ دو ہفتے بعد ملے۔ بہت دیر تک دفتری نشیب و فراز سمجھانے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ اس موضوع پر اس اس قسم کا ایک مختصر سا مقالہ لکھ لائیے، آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔

    خوشی کے مارے ہم پھولے نہ سمائے کہ ہم بھی دنیا میں کسی کام آسکتے ہیں۔ دو صفحے کا مقالہ تیار کرنا تھا جو ہم نے بڑی محنت کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔ موصوف نے مقالہ بہت پسند کیا۔

    مزید کام کے لیے ہم ان کے کمرے کا رخ کرنے ہی والے تھے کہ اس دفتر کے ایک گھاگ افسر نے ہمارا راستہ روکتے ہوئے ہمیں سمجھایا، بھیّا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو یا ہم لوگوں کی نوکریاں ختم کرانا چاہتے ہو؟ آخر تمہارا مطلب کیا ہے؟ جو کام تم کو دیا گیا تھا، اسے کرتے رہو، ہم لوگ دفتر میں کام کرنے نہیں بلکہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے آتے ہیں۔

    اگلے دن اتوار کی چھٹی تھی۔ ناشتہ کرتے وقت اخبار کے میگزین سیکشن پر جو نظر دوڑائی تو وہی مقالہ ہمارے ایک صاحب کے صاحب کے صاحب کے صاحب کے نام نامی اور اسم گرامی کے دم چھلّے کے ساتھ بڑے نمایاں طور پر چھپا ہوا نظر آ گیا۔

    ہمارے حساب سے اب اگلا آدھ گھنٹے کا کام دو تین مہینے کی دوڑ دھوپ کے بعد دفتر میں مل سکتا تھا، جس پر لعنت بھیجتے ہوئے بجائے دفتر جانے کے ہم نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا، جس کو منظور ہونے میں اتنے دن لگے جتنے دن ہم نے دفتر میں کام بھی نہیں کیا تھا۔

    شاید آپ پوچھیں کہ ملازمت کر کے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ تو میں عرض کروں گا کہ نوکری کھوئی اور دن میں اونگھنے، سونے اور ناول پڑھنے اور وقت گزاری کی عادت پائی۔ ہمیں اور کیا چاہیے؟

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف مزاح نگار اور صحافی احمد جمال پاشا کی کتاب ستم ایجاد سے ایک شگفتہ تحریر)

  • بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں فرق

    بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں فرق

    دنیا بھر میں ادیب، شاعر یا فنونِ‌ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی شخصیت جہاں اپنی تخلیقات اور فن کی بدولت پہچانے جاتی ہے، وہیں اس کی ذاتی زندگی سے منسوب قصّے، واقعات اور وہ لطائف بھی قابل ذکر ہوتے ہیں جس سے اس کی خوش مزاجی اور حاضر جوابی ظاہر ہوتی ہے۔

    مارک ٹوین کو ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے اور جس طرح اردو ادب میں غالب کی ظرافت اور ان کی شوخ مزاجی مشہور ہے، اسی طرح مارک ٹوین سے بھی کئی واقعات منسوب ہیں جنھیں پڑھ کر ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ یہاں ہم سلام بن رزاق کے ترجمہ کردہ اس مضمون سے چند لطائف نقل کررہے ہیں جو نئی دہلی سے شایع ہونے والے معروف رسالے کھلونا میں‌ شایع ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:

    ‘مارک ٹوین امریکہ کا زبردست مزاح نگار ہو گزرا ہے۔ غالب کی طرح بات میں بات پیدا کرنے میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس کی ہر بات میں عموماً مزاح کا پہلو ہوتا۔’

    اس کے چند لطیفے سنو:
    مارک ٹوین اور اس کے کچھ دوست بیٹھے شیکسپیئر کے ڈراموں پر بحث کر رہے تھے۔ مارک ٹوین کے ایک دوست نے کہا، ’’بھئی ہم نے تو سنا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے دراصل کسی اور کے تھے، شیکسپیئر کے نام سے یوں ہی مشہور ہو گئے ہیں۔ کچھ دوستوں نے اس سے اختلاف کیا۔ بحث طول پکڑتی گئی۔

    مارک ٹوین نے بحث ختم کرنے کے ارادے سے کہا، دوستو بحث چھوڑو، میں جب جنت میں جاؤں گا تب خود سیکسپیئر سے پوچھ لوں گا کہ اس کے ڈراموں کا اصل مصنف کون تھا؟‘‘

    ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا ’’مارک! کیا یہ ضروری ہے کہ شیکسپیئر جنت ہی میں ہو، یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ دوزخ میں پڑا ہو۔‘‘مارک نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’اس صورت میں تم وہاں جا کر پوچھ لینا۔‘‘

    مارک ٹوین نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا، ’’میں لڑکپن سے ہی بے حد ایمان دار تھا۔ ایک دن میں اپنے گھر کے سامنے کھیل رہا تھا کہ میرے کان میں آواز آئی، ’’میٹھے سیب دو آنے میں، دو آنے میں۔‘‘ ایک شخص ٹھیلا گاڑی دھکیلتا ہوا سڑک سے گزر رہا تھا۔ گاڑی میں گول گول، سرخ و سپید سیب بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ میری جیب میں پیسے نہیں تھے مگر میرا دل سیبوں پر للچا رہا تھا۔ میں نے گاڑی والے کی آنکھ بچا کر ایک سیب اڑا لیا اور بغل کی گلی میں گھس گیا۔ جیسے ہی میں نے سیب پر منہ مارا میرا دل مجھے ملامت کرنے لگا۔ میں بے چین ہو گیا اور دوڑتا ہوا گلی سے باہر نکلا، سیب والے کے پاس پہنچ کر میں نے وہ سیب گاڑی میں رکھ دیا۔ اور اس کی جگہ ایک پکا اور میٹھا سیب اٹھا لیا۔‘‘

    مارک ٹوین کو شام کے وقت ایک لیکچر دینا تھا۔ دوپہر کو وہ بال کٹوانے گیا۔ نائی نے قینچی سنبھالی اور حسبِ عادت زبان بھی قینچی کی طرح چلانے لگا، ’’جناب عالی! آج شام کو مارک ٹوین کا لیکچر ہونے والا ہے۔ کیا آپ نے ٹکٹ خرید لیا ہے؟ نہ خریدا ہو تو خرید لیجیے ورنہ لیکچر کھڑے رہ کر ہی سننا پڑے گا۔‘‘

    مارک ٹوین نے بڑی سادگی اور سنجیدگی سے کہا، ’’بھائی تمہاری رائے کا شکریہ۔ لیکن میں بڑا بدنصیب ہوں کیوں کہ جب بھی مارک ٹوین کا لیکچر ہوتا ہے مجھے تو کھڑا ہی رہنا پڑتا ہے۔‘‘

    کسی نے مارک ٹوین سے پوچھا، بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں کیا فرق ہے؟‘‘
    مارک نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔ ’’دیکھو اگر تم کسی ہوٹل میں چائے پینے کے بعد واپسی میں بھول سے اپنی پرانی چھتری کے بجائے کسی کی نئی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ چھوٹی بھول ہے۔ مگر اس کے برعکس اپنی نئی چھتری کے بجائے کسی کی پرانی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ بڑی بھول ہوگی۔‘‘

  • ابنِ انشاء سے فیض صاحب کے سوالات

    ایک روز فیض صاحب نے صبح صبح مجھے آن پکڑا۔

    کہا: ” ایک کام سے آیا ہوں۔ ایک تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یورپ میں آج کل آرٹ کے کیا رجحانات ہیں۔ اور آرٹ پیپر کیا چیز ہوتی ہے؟ دوسرے میں واٹر کلر اور آئل پینٹنگ کا فرق معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ٹھمری اور دادرا کا فرق بھی چند لفظوں میں بیان کر دیں تو اچھا ہے۔”

    میں نے چائے پیتے پیتے سب کچھ عرض کر دیا۔ اٹھتے اٹھتے پوچھنے لگے۔ "ایک اور سوال ہے۔ غالب کس زمانے کا شاعر تھا اور کس زبان میں لکھتا تھا؟” وہ بھی میں نے بتایا۔ اس کے کئی ماہ بعد تک ملاقات نہ ہوئی۔ ہاں اخبار میں پڑھا کہ لاہور میں آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر ہوگئے ہیں۔ غالباً اس نوکری کے انٹرویو میں اس قسم کے سوال پوچھے جاتے ہوں گے۔

    (ممتاز مزاح نگار، شاعر اور ادیب ابنِ انشاء کے قلم سے)

  • خوش نصیب ملک!

    دنیا میں کوئی ایسا خوش نصیب ملک نہیں ہے جہاں ادیب پیدا نہ ہوتے ہوں۔

    بہت سے ملک ایسے ہوتے ہیں، جہاں ادیبوں کو فرش وغیرہ پر بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔ انہیں وہاں کے لوگ ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھائے رکھتے ہیں۔ ان ادیبوں کو بھی لوگوں کے سروں پر بیٹھے رہنے کی اتنی عادت ہوتی ہے کہ پھر یہ کہیں اور بیٹھ ہی نہیں سکتے۔ بہت سے ملک ایسے بھی ہوتے ہیں، جہاں ادیبوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور ان کا بچا کھچا حصّہ ان کے ورثا کو بڑی مشکل سے واپس ملتا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں تو یہ حصّہ بھی میونسپلٹی کے حصّے میں آتا ہے۔ اب یہ ادیب کی قسمت پر منحصر ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس کے ہاتھ کی لکیریں اچھی ہیں اور اس کے والدین سعادت مند ہیں تو یقیناً ایسے ملک میں پیدا ہوا ہو گا، جہاں خرافات لکھنے پر باز پرس نہیں کی جاتی۔

    ادیبوں کے بہت سے حقوق ہوا کرتے ہیں، جن میں سے چند حقوق پیدائشی ہوتے ہیں۔ خرافات لکھنا پیدائشی حقوق کی فہرست میں آتا ہے۔ اچھا ادیب وہ ہوتا ہے، جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔ دودھ خود پی لے اور پانی اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کردے۔

    اچھا ادیب اسے بھی مانا گیا ہے جو قلم توڑ دے، اس ادیب کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک قلم توڑ کر چپ نہیں بیٹھ جاتا، بلکہ دوسرے قلم سے لکھنا شروع کر دیتا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہی پہلے والا قلم غنیمت تھا، لیکن جو قلم ٹوٹ گیا، ٹوٹ گیا۔ سمجھدار لوگ اسی دوسرے قلم سے نکلی ہوئی تحریر کو صبر و شکر کے ساتھ سہہ لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ کم سے کم یہ قلم تو نہ ٹوٹے۔ ادیب کو ہمیشہ لگن سے لکھنا چاہیے۔ لوگ چاہے کتنا ہی منع کریں، لکھنے سے کبھی باز نہ آئے۔ لوگ خود ہی عادی ہو جائیں گے۔ یوں بھی لوگوں میں مدافعت کا مادّہ کم ہی ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے، وہ ادیبوں کے مقابلے میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ جو ادیب اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاتے، وہ غبی ہوتے ہیں۔

    ادیبوں کی صحبت کے کئی فائدے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ مشتبہ قسم کے لوگ اگر ادیبوں کی صحبت میں بیٹھیں تو انہیں کوئی نہیں پہچان سکتا۔

    عام آدمیوں کی طرح ادیبوں کی بھی دو ٹانگیں ہوتی ہیں۔ لیکن اُن کی ایک ٹانگ ہمیشہ اونچی رہتی ہے۔ غیر ادیبوں کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔ مساوات ہر معاملے میں اچھی بھی نہیں معلوم ہوتی۔ ادیب کی اس اونچی ٹانگ کو گھسیٹنا مشکل ہے۔ ادیبوں کی ناک بھی خلافِ معمول اونچی ہوتی ہے اور اس ناک کو اونچا رکھنے کے سلسلے میں ادیب راستہ چلتے وقت نیچے نہیں دیکھا کرتے، البتہ بعد میں صرف یہ دیکھ لیتے ہیں کہ گرنے پر انہیں زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔ ادیب کی ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھ سکتی۔ خود مکھیوں کو بھی اِس قاعدے کا علم ہے اور وہ اپنے بیٹھنے کے لیے کسی اور معقول شخص کی ناک کا انتخاب کرلیتی ہیں۔ آرام دہ نشستوں کی اس وسیع دنیا میں کمی نہیں ہے۔

    پہلے زمانے میں سُنا ہے ادیب پیدائشی ہوا کرتے تھے اور جس گھر میں پیدا ہوجاتے، اس گھر پہلے ہی دن سے رونا پیٹنا شروع ہوجاتا، لیکن اب قدرت کو والدین پر رحم آنے لگا ہے۔ اب ہر گھرمیں صرف آدمی پیدا ہوتے ہیں، البتہ آگے چل کر اُن میں سے کچھ ادیب بن جاتے ہیں۔ اپنے اپنے کرتوت ہیں۔ اس کی ذمہ داری اب قدرت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

    ادیبوں کے پاؤں میں سنیچر ہوتا ہے اور سر میں اتوار، یعنی بالکل چھٹی۔ ادیبوں میں ایک بات اچھی ہوتی ہے کہ یہ جو کچھ لکھتے ہیں، خود نہیں پڑھتے۔ اگر خود پڑھ لیں تو آیندہ کبھی نہ لکھیں۔ یہ اسی سے ڈرتے ہیں اور دوسروں کا لکھا ہوا نہیں پڑھتے۔ اس کے باوجود اگر ان کے خیالات کسی اور کے پراگندہ خیالات سے ٹکرا جائیں تو اس میں ان کا قصور نہیں ہوتا، نظامِ شمسی کا ہوتا ہے۔ جو نظامِ شمسی ادیبوں کے مشورے کے بغیر بنے گا، اس میں یہی خرابی ہو گی۔ اگر ادیبوں کے خیالات کسی وجہ سے ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں تو ادیب خود ٹکرا جاتے ہیں۔ ادیبوں ہی کی دیکھا دیکھی کئی ملکوں میں بُل فائٹنگ اور گھونسا بازی کے مقابلے مقرر کیے جاتے ہیں۔

    ادیب دیکھنے میں بے ضرر نظر آتے ہیں، لیکن یہ اندر ہی اندر بڑے جنگ جُو ہوتے ہیں۔ تحریر و تقریر کی آزادی کے لیے انہوں نے “ پانی پت” اور “واٹر لو” کی کئی لڑائیاں لڑی ہیں۔ اِن لڑائیوں میں جب بھی اور جہاں بھی ادیب جیتے ہیں، وہاں ہر قسم کے ادب کے ڈھیر کے ڈھیر لگ گئے، اور اقوام و افراد بے بس ہو کر رہ گئے۔ بعض ملکوں میں ادیبوں کو لکھنے پر اور بعض ملکوں میں نہ لکھنے پر انعامات دیے جاتے ہیں۔ کس میں نقصان اور کس میں فائدہ ہے، ابھی تک طے نہیں ہوا ہے۔ یوں بھی ادیبوں کے سلسلے میں کوئی بات طے ہو ہی نہیں سکتی۔ ظلم اور ادب ہمیشہ غیر محدود رہے ہیں۔

    بعض ادیب بے حد بے دردی سے لکھتے ہیں اور کاغذ پر اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے پڑھنے والا کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا۔ خود اُس کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے اور بڑی مشکل سے واپس جاتا ہے۔

    ادیبوں کو لکھنے سے جب بھی فرصت ملتی ہے، وہ اور زیادہ لکھتے ہیں۔ وہ اصل میں اُس شخص کی طرح ہوتے ہیں، جو لیٹے لیٹے تھک جاتا ہے تو اور آرام کرتا ہے۔ ادیب بھی جب ایک چیز لکھتے لکھتے تھک جاتا ہے تو دوسری چیز لکھنے لگتا ہے اور پہلے کے لکھے ہوئے علمی مضمون کے صفحے، بعد کے لکھے ہوئے سیاسی مضمون کے صفحوں میں مل جاتے ہیں اور ادیب کو فرصت نہیں ملتی کہ انہیں چھانٹ سکے۔ پڑھنے والوں کی قسمت میں یہی دو رنگی مضمون ہوتا ہے۔ ایڈیٹر اس مضمون کو صرف اس لیے چھاپ دیتا ہے کہ اس کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔ ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ضروری ہے کہ ہر وہ مضمون جو سمجھ میں نہ آئے، ہر حال میں چھاپا جائے۔ اخباروں اور رسالوں میں صرف اشتہارات ہی اچھے نہیں معلوم ہوتے، ایک آدھ مضمون چھپنا ہی چاہیے۔

    (اردو کے معروف طنز و مزاح نگار یوسف ناظم​ کی اہلِ قلم سے متعلق شگفتہ بیانی)

  • شعر و ادب میں‌ عاشقوں اور بادشاہوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کا حصّہ

    شعر و ادب میں‌ عاشقوں اور بادشاہوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کا حصّہ

    ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے عاشقوں اور بادشاہوں کو ادب میں خاصا اونچا مقام دے رکھا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ادب کا بیشتر حصہ انہی لوگوں پر صرف ہوا ہے۔

    اس کا ہمیں کوئی خاص گلہ نہیں، کیونکہ جہاں تک عاشقانِ کرام یعنی فرہاد اور مجنوں کا تعلق ہے، ان دونوں نے عشق و عاشقی کے میدان میں واقعی قابلِ قدر کارنامے انجام دیے ہیں۔ دونوں کے دونوں نہایت دیانت دار، جفا کش اور مخلص عاشق تھے۔ ان میں عقل کچھ کم تھی تو کیا ہوا، دوسری خوبیاں تو بہرحال وافر مقدار میں تھیں۔ اس لیے ان کی خدمات کو بھلایا جانا ممکن نہیں۔ کسی میونسپل کارپوریشن یا ضلع پریشد کو تو ان کے مجسمے بنوا کر سڑکوں پر یا پارکوں میں کھڑا کرنے کی توفیق نہیں ہوئی کیونکہ عام طور پر اس قسم کے کمرشل ادارے عشق کی اہمیت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ یا ممکن ہے فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان سے یہ کام نہ ہوسکا ہو۔

    اس میں شک نہیں کہ میونسپل ٹیکس مکانوں کی قیمت کے قریب قریب پہنچ گئے ہیں۔ تاہم فرہاد اور مجنوں کے مجسموں کے خرچ کی گنجائش نکلنی اب بھی مشکل ہے۔ شہری زندگی میں تو انہیں داخلہ مل نہیں سکا۔ اگر ادب میں بھی ان لوگوں کا ذکر نہ ہوتا تو معلوم نہیں انہیں یہ بات کتنی ناگوار گزرتی اور ان کی روحیں کتنا ایجی ٹیشن کرتیں۔

    اسی طرح اگر چند بادشاہوں کو بھی ادب میں جگہ جگہ درج کردیا گیا ہے تو کچھ برا نہیں ہوا۔ کیونکہ بعض بادشاہوں سے بھی ‘بھولے ہی سہی’ کچھ نیک کام ضرور سرزد ہوئے ہیں۔ بعض بادشاہ تو عین رات کے وقت جو سب کے آرام کا وقت ہوتا ہے۔ بھیس بدل کر شہر کا دورہ کیا کرتے تھے کہ دیکھیں رعایا ٹھیک سے سوئی بھی ہے یا نہیں۔ (بادشاہوں کا چھپ کر، رعایا کی خانگی باتیں سننا منع نہیں تھا۔ رعایا پر البتہ اس کی پابندی تھی) ان بادشاہوں کو اپنی گشت کے موقع پر عموماً رعایا آرام کی نیند سوتی ملی (رعایا کو آرام کی نیند سلا دینے کا انتظام آج بھی ہے لیکن یہ انتظام اس زمانے کے انتظام سے قدرے مختلف بلکہ بہتر ہے، آج کے انتظام میں رعایا سو کر اٹھتی نہیں ہے) ان بادشاہوں کو کچھ رعایا موسیقی میں مگن ملی لیکن وہ موسیقی صرف چین کی بنسری کی موسیقی تھی جو رعایا خود ہی بجاتی اور خود ہی سنتی تھی (اس میں میوزک ڈائرکٹر نہیں ہوا کرتا تھا۔) بادشاہوں کا اس طرح بھیس بدل کر رعایا کی شکل کا ہوجانا اور وہ بھی اس مہارت سے کوئی پہچان ہی نہ سکے معمولی بات نہ تھی (مانا کہ اس زمانے میں رعایا اتنی ذہین نہیں تھی لیکن پہچانتے پہچانتے تو آج بھی چھ سال لگ ہی جاتے ہیں)۔ اس لیے اگر چند بادشاہوں کا ادب میں ذکر آگیا ہے تو اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں بلکہ ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہوا ورنہ ان کے ذکر کے بجائے کسی شاعر کی سات نظمیں نو غزلیں یا کوئی تبصرہ چھپ جاتا۔ یوں بھی ہر زبان کے ادب میں سرکشی کی داستانیں کم اور زر کشی کی وارداتیں زیادہ ہیں۔

    لیکن ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے عاشقوں اور بادشاہوں کے علاوہ چند جانوروں اور پرندوں کو بھی ادب میں غیر معمولی منزلت سے نوازا ہے اور یہ لوگ بھی ادب میں یوں درانہ چلے آئے ہیں۔ گویا ادب نہ ہوا غالب کا غریب خانہ ہوگیا۔ ان جانوروں میں سے دو تو ایسے ہیں جن کے ساتھ خصوصی رعایت برتی گئی ہے اور ان کے ساتھ اتنا امتیازی سلوک کیا گیا ہے کہ کیا کوئی ماں یا کوئی باپ اپنے بیٹے کے ساتھ کرے گا!

    گھوڑا اور بلبل یہ دو افراد ایسے ہیں جنہوں نے ادب میں سب سے زیادہ جگہ گھیر رکھی ہے۔ ہماری ساری تشبیہات، استعارے، کنایے روز مرّہ ضرب الامثال اور محاورے انہی دو شخصیتوں کے گرد گھومتے ہیں اور بعض وقت تو یہ خوف ہونے لگتا ہے کہ آئندہ چل کر اگر کسی سیاسی دباؤ کی وجہ سے اردو کے رسم الخط کی طرح یہ بھی نظر میں آگئے اور ان دونوں کو ادب سے خارج کر دینا پڑا تو ادب میں سوائے مزاح کے اور بچے گا کیا؟

    گھوڑا ہمارے ادب میں اور خاص طور پر شاعری میں اسی طرح بس گیا ہے کہ ادب ہی کا باشندہ معلوم ہونے لگا ہے۔ یہ جانور یوں بھی انسانوں سے بہت قریب رہا ہے۔ اتنا قریب کہ اسے ڈپٹی اشرف المخلوقات تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ (لیکن زندگی کے اس شعبے میں ڈپٹی کا کوئی عہدہ ہے نہیں) گھوڑے کی ہم سے قربت کا یہ حال ہے کہ وہ ہماری سماجی، فوجی، سیاسی بلکہ ازدواجی زندگی تک میں دخیل ہے شادی کے موقع پر نوشہ گھوڑے ہی پر سوار ہوکر دلہن لانے جاتا ہے۔ گھوڑے پر بیٹھ کر نہ جانے والے دولہے کو دلہن تو خیر مل جاتی ہے لیکن جہیز نسبتاً کم ملتا ہے۔ سوئمبر کے جشن
    میں بھی گھوڑے ہی نے مستحق اشخاص کی مدد کی ہے۔ اس کی فوجی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ کتنی ہی جنگیں انہوں نے ہرائی ہیں اور آج بھی گھوڑا جنگ کے میدان کا نہ سہی، ریس کے میدان کا تو ہیرو ہے ہی بلکہ ریس کے وجود میں آنے کی وجہ سے اس جانور کے شخصی وقار میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

    جنگ میں استعمال کیے جانے والے گھوڑوں کا شجرہ نہیں ہوا کرتا تھا لیکن ریس کے گھوڑوں کا شجرہ ہوا کرتا ہے اور جب تک ان کے حسب نسب کے بارے میں خاطر خواہ اطمینان نہیں کر لیا جاتا انہیں ریس کے میدان کے قریب بھی نہیں آنے دیا جاتا ہے۔ ہاں ان کے مالکوں کی بات اور ہے۔ گھوڑے کی اس افادیت اور وجاہت سے متاثر ہو کر ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپنی ہر چیز کو گھوڑے سے نسبت دے رکھی ہے۔ شاعر اور ادیب اپنی ہر چیز کا انتساب گھوڑے ہی کے نام کرتے ہیں۔ وہ اپنے قلم کو صرف قلم نہیں کہیں گے کیونکہ قلم تو بچوں کے بھی ہوا کرتے ہیں۔ شاعروں کا قلم یا تو اسپ خامہ ہوتا ہے یا اشہب قلم۔ لکھنے کی رفتار چاہے کتنی ہی سست یا بے ڈھنگی کیوں نہ ہو وہ لکھیں گے اسپ خامہ ہی سے۔

    پرندوں کو ادب میں اتنا اونچا مقام تو نہیں دیا گیا لیکن بلبل کو قریب قریب یہی رتبہ حاصل ہے۔ بات یہ ہے کہ بلبل جانور تو چھوٹا سا ہے لیکن کافی جاندار ہے اور دوسرے پرندوں کے مقابلے میں اس کی جمالیاتی حس بہتر ہے۔ آرٹ کے معاملے میں کی سوجھ بوجھ پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی نظر خوب صورتی کو پہچانتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ خوب صورت پر اس کی اتنی ہی گہری نظر ہے جتنی ہمار ے بعض دانشوروں کی کافکا اور سارتر پر ہے۔ اس لیے عشق و عاشقی کے معاملے میں بلبل جسے عندلیب بھی کہاجاتا ہے، آدمی کے برابر تو نہیں دوسرے نمبر پر ضرور ہے اور چاندی کا تمغہ اس کا حق ہے۔

    ہمارے ادب میں مرغ بھی موجود ہے (بلکہ یہ دنیا ہی "جہانِ مرغ و ماہی” ہے۔) لیکن یہ مرغ انگریزی زبان کا وہ ٹیبل برڈ نہیں ہے جو لذّتِ کام و دہن کے کام آتا ہے۔ انگریزی ادب کا جو جستہ جستہ مطالعہ ہم نے کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ادب میں بھی جانور بکثرت موجود ہیں بلکہ ان کے ہاں بارش بھی ہوتی ہے تو کتے اور بلیاں برسا کرتی ہیں، ہر مالِ غنیمت میں ان کا حصہ شیر کے حصے کے برابر ہوتا ہے۔ وہ لوگ اتنے چوکنے رہتے ہیں کہ بلی کی نیند سوتے ہیں۔ ان کے ہاں بیل کی آنکھ بھی ادب میں داخل ہے اور جب تک وہ کوئی بات خود گھوڑے کے منہ سے نہیں سنتے اس پر یقین نہیں کرتے۔

    (ہندوستان کے معروف مزاح نگار اور مصنّف یوسف ناظم کی کتاب "البتہ” سے انتخاب)

  • گدھا اور تمغۂ خدمت

    گدھا اور تمغۂ خدمت

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ ملک بڑا خوش حال تھا۔ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے آزادی کے پودے کی داغ بیل دنیا میں سب سے پہلے اسی ملک میں پڑی ہو اور جمہوریت کا سورج یہیں طلوع ہوا ہو۔

    وقت گزرتا گیا…. پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ نامعلوم کیوں، پورے ملک میں سخت قحط پڑ گیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جن لوگوں کے آگے پیچھے ہر وقت کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی تھی اور جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوا کرتی تھیں وہ بھی خشک روٹی کے ٹکڑوں تک کو ترسنے لگے۔

    جب بادشاہ نے دیکھا کہ قحط سے لوگوں کی کمر ٹوٹی جارہی ہے تو اسے ملک میں بغاوت کا خطرہ ہوا۔ سوچ سوچ کر اسے اس خطرے سے بچنے کی ایک انوکھی راہ سمجھائی دی۔ اس نے ملک بھر میں شہر شہر، گلی گلی ڈھونڈورچی روانہ کروائے اور منادی سے شاہی فرمان رعایا تک پہنچا دیا۔

    ‘‘میرے عزیز ہم وطنو! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ مابدولت نے اپنی رعایا کی عظیم خدمات کے عوض تمام مستحق افراد کو تمغۂ خدمت عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا جس کسی نے آج تک ملک اور عوام کی کوئی خدمت کی ہو، اسے چاہیے کہ فوراً شاہی محل میں حاضر ہو جائے۔ مابدولت اسے تمغۂ خدمت سے نوازیں گے۔’’

    منادی سنتے ہی ملک کے طول و عرض میں ہر شخص کے سر میں تمغہ حاصل کرنے کی ایسی دھن سمائی کہ کسی کو بھوک، پیاس، قحط بیماری یا کمر توڑ گرانی کا احساس تک باقی نہ رہا۔ ادھر بادشاہ نے قومی خدمات کی نوعیت کے مطابق چھوٹے بڑے، قسم قسم کے تمغے تیار کروائے۔ تمغۂ خدمت درجۂ اوّل خالص سونے کا بنوایا گیا۔ درجۂ دوم چاندی کا، تیسرے درجے پر رولڈ گولڈ، پھر پیتل، تانبا، لوہا، ٹین وغیرہ وغیرہ۔ شاہی دربار میں تمغہ حاصل کرنے والے امیدواروں کا تانتا بندھ گیا۔

    ہر شخص کو اس کی خدمات کے مطابق کوئی نہ کوئی تمغہ عطا کر دیا جاتا۔ تمغے اتنی فراخ دلی سے عطا کیے گئے کہ تھوڑے ہی عرصے بعد ملک میں مزید تمغے بنانے کے لیے نہ سونا بچا، نہ چاندی اور نہ کوئی دھات۔ مجبوراً لکڑی، چمڑے اور اسی قسم کی دوسری اشیاء تمغہ بنانے میں استعمال کرنا پڑیں۔

    ایک سے زیادہ تمغے حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوگئی۔ جدھر دیکھو مشکیزوں کی طرح پھولے ہوئے سینوں پر لٹکتے تمغے دکھائی دینے لگے۔
    ایک گائے نے جب ہر انسان کی چھاتی پر چمکتے تمغے دیکھے اور اسے پتہ چلا کہ بادشاہ سلامت ہر آئے گئے کو تمغوں سے نوازتے رہتے ہیں تو اسے بھی قسمت آزمائی کا شوق چرایا۔ بھوک سے بیچاری کی پسلیاں ابھری ہوئی تھیں، جسم کا گوشت لٹک چکا تھا، جس کی وجہ سے ایک ایک ہڈی گنی جاسکتی تھی۔ اس کے باوجود گائے بھاگی اور سیدھی شاہی محل جا پہنچی۔ دربانوں نے راستہ روکا، تو بولی….

    ‘‘بادشاہ سلامت کو اطلاع دی جائے کہ ان کی رعایا میں سے ایک گائے شرفِ ملاقات کے لیے حاضر ہوئی ہے۔’’

    دربان نے گائے کو ٹرخانے کی لاکھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی مجبوراً بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ بادشاہ کے حکم پر گائے کو دربار میں پیش کیا گیا۔ بادشاہ بولا….

    گائے نے عرض کی ‘‘بادشاہ سلامت میں نے سنا ہے آپ رعایا کو تمغے عنایت فرمارہے ہیں چنانچہ میں بھی اپنا حق لینے کی خاطر آپ کے دربار میں حاضر ہوئی ہوں۔’’

    ‘‘تم جیسے حیوان کو شاہی تمغوں کی توہین کی جرات کیونکر ہوئی….؟ آخر حیوان اس ملک کی کون سی خدمات سر انجام دیتے ہیں جن کے عوض انہیں تمغے دیے جائیں….؟’’ بادشاہ نے غصے سے چلا کر کہا۔

    گائے نے جواب دیا ‘‘بادشاہ سلامت، اگر آپ کی یہ ناچیز خادمہ تمغے کی حق دار نہیں تو پھر بھلا اور کون ہوسکتا ہے! میں آپ کی اور آپ کے عوام کی ہرممکن خدمت کرتی ہوں۔ انسان میرا دودھ پیتا ہے، میرا گوشت کھاتا ہے، میری کھال استعمال میں لاتا ہے، یہاں تک کہ میرا گوبر بھی نہیں چھوڑتا۔ آپ خود ہی انصاف کیجیے ایک تمغہ حاصل کرنے کے لیے اس سے زیادہ اور کیسی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے….؟’’

    گائے کی دلیل سن کر بادشاہ خوش ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ گائے کو فوراً تمغہ خدمت درجہ دوم عطا کر دیا جائے۔

    گائے گلے میں تمغہ لٹکائے بڑے فخر سے مٹکتی مٹکتی واپس لوٹ رہی تھی کہ راستے میں اسے ایک خچر ملا۔

    ‘‘گائے جی سلام!’’

    ‘‘سلام خچر بھیا۔’’

    ‘‘باجی آج بڑی خوش نظر آرہی ہو، کیا وجہ ہے….؟ کہاں سے آرہی ہو….؟ اور ہاں، یہ گردن میں کیا لٹکا رکھا ہے….؟’’

    گائے نے خچر کو سارا ماجرا سنایا۔ خچر کو بھی جوش آیا، فوراً سرپٹ بھاگا اور جاکر شاہی محل کے گیٹ پر دم لیا۔

    دربانوں سے بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضری دینے کی خواہش ظاہر کی، مگر کسی نے ایک نہ سنی۔ خچر اپنی ضد پر اڑا رہا۔ پھر ایک دو دربانوں پر دولتیاں جھاڑیں، ایک دولتی شاہی محل کے گیٹ پر ماری۔ آخر بادشاہ سلامت کو اطلاع دی گئی کہ ایک گستاخ مہماں اندر آنا چاہتا ہے۔

    بادشاہ نے حکم دیا ‘‘خچر کو پیش کیا جائے، آخر وہ بھی تو ہماری رعایا ہی میں شمار ہوتا ہے۔’’

    خچر نے اندر آکر بادشاہ کو فرشی سلام کیا اور تمغے کے حصول کے لیے عرض داشت پیش کی۔

    بادشاہ نے پوچھا ‘‘اے خچر، تمہاری کون سی ایسی خدمات ہیں جن کے بدلے تم اپنے آپ کو تمغےکا حق دار سمجھ کر مابدولت کے دربار میں آئے ہو….؟’’

    خچر نے عرض کی ‘‘مجھے یہ جان کر بڑا دکھ ہوا ہے کہ آپ کو اس ناچیز کی خدمات کا علم ہی نہیں۔ بھلا یہ تو بتائیے کہ جنگ کے دوران آپ کی توپیں، گولہ بارود اور دوسری جنگی ضروریات اپنی کمر پر اُٹھا کر کون دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچاتا ہے۔ آپ کے سپاہیوں کا راشن کون ڈھوتا ہے….؟ امن کے زمانے میں بھی آپ کے بال بچوں کو اور آپ کی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں میرا کچھ کم حصہ نہیں ہے۔ اگر اس ملک میں میری برادری کے خچر نہ ہوتے تو سلطنت کے بے شمار کام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رکے رہتے۔’’

    بادشاہ نے محسوس کیا کہ واقعی خچر حق بجانب ہے۔ چنانچہ خچر کو درجہ اوّل کا تمغہ عطا کرنے کا حکم صادر ہوگیا۔

    خچر تمغہ لے کر خوشی خوشی محل سے واپس لوٹ رہا تھا کہ اسے راستے میں گدھا ملا۔

    گدھے نے خچر سے کہا ‘‘سلام پیارے بھتیجے۔’’

    ‘‘سلام چچا جان’’ خچر نے جواب دیا۔ ‘‘کہو! اتنے خوش خوش کہاں سے آرہے ہو….؟’’ خچر نے سارا واقعہ سنایا، تو گدھا رینکا۔

    ‘‘ذرا ٹھہرو، میں بھی جاکر بادشاہ سلامت سے اپنا حق طلب کرتا ہوں۔’’ یہ کہا اور سیدھا شاہی محل کے گیٹ پر جا پہنچا۔ محافظوں نے ڈرایا دھمکایا، دربانوں نے منت سماجت کرکے گدھے کو واپس لوٹ جانے کی ترغیب دی۔ لیکن گدھا کہاں سنتا تھا۔ وہ بادشاہ سلامت سے ملاقات کی رٹ لگاتا رہا۔ آخر کار بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ گدھے کو حاضری کی اجازت مل گئی۔ انسانوں اور حیوانوں کی درخواستیں سن سن کر بادشاہ تنگ آچکا تھا۔ گدھے کو دیکھتے ہی جھلا کر بولا۔

    ‘‘گدھے کہیں کے تمہیں کیسے جرات ہوئی کہ اپنا گدھا پن بھول کر شاہی محل میں آپہنچے ہو اور پھر طرّہ یہ کہ مابدولت سے ملاقات کرنے پر مصر ہو۔ میری رعایا کے حیوانوں میں گائے اپنے دودھ، گوشت اور کھال سے قوم اور وطن کی خدمت کرتی ہے۔ خچر امن اور جنگ کے دوران بوجھ اٹھا کر قومی خدمات سرانجام دیتا ہے لیکن تم گدھوں کا سوائے ڈھینچوں، ڈھینچوں کرکےرعایا کے آرام میں خلل اندازی کے اور کیا کام کیا ہے….؟

    تمہیں کس خوشی میں تمغہ دے دوں….؟’’ گدھے کی امیدیں خاک میں مل گئیں، مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور بولا۔

    ‘‘بادشاہ سلامت! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی سب سے زیادہ خدمت تو گدھے ہی کرتے ہیں۔ ذرا خیال کیجیے اگر مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں گدھے آپ کی سلطنت میں موجود نہ ہوتے تو آپ اتنی مدت شاہی تخت پر کیوں کر براجمان رہ سکتے تھے۔ اپنی اس ناچیز مخلوق کو دعا دیجیے جنہیں لوگ گدھا سمجھتے ہیں اور جن کی بدولت آپ کی کرسی محفوظ چلی آرہی ہے۔’’

    گدھے کی بات سن کر بادشاہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اس نے اپنے تمام درباریوں اور مشیروں پر باری باری نظر ڈالی اور دل ہی دل میں کہا۔ ‘‘واقعی گدھا حق بجانب ہے۔’’

    بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ گدھے سے یوں مخاطب ہوا۔ ‘‘اے میرے وفادار گدھے! تو بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ تیری اس اعلیٰ خدمت کا صلہ ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی مناسب تمغہ نہیں ہے، البتہ ہم حکم دیتے ہیں کہ تمہارے لیے تاحیات سرکاری توشہ خانے سے ہر روز ایک بوری گھاس کا وظیفہ لگا دیا جائے۔ جب تک زندہ ہو سرکاری گھاس کھاتے جاؤ اور رات دن ہماری سلطنت کی سلامتی کی دعائیں مانگا کرو۔’’

    (ترکی کے مشہور ادیب، شاعر اور ممتاز مزاح نگار عزیز نیسن کی کہانی کا یہ ترجمہ کرنل (ریٹائرڈ) مسعود اختر شیخ کی کتاب ‘‘تماشائے اہلِ کرم ’’میں شامل ہے)

  • "وہ باتیں جن پر عمل کرکے آپ زندگی میں کام یاب نہیں ہوسکتے!”

    "وہ باتیں جن پر عمل کرکے آپ زندگی میں کام یاب نہیں ہوسکتے!”

    ہم لوگ خوش قسمت ہیں کیوں کہ ایک حیرت انگیز دور سے گزر رہے ہیں۔ آج تک انسان کو ترقّی کرنے کے اتنے مواقع کبھی میسر نہیں ہوئے، پرانے زمانے میں ہرایک کو ہر ہنر خود سیکھنا پڑتا تھا، لیکن آج کل ہر شخص دوسروں کی مدد پر خواہ مخواہ تلا ہوا ہے اور بلاوجہ دوسروں کو شاہراہِ کام یابی پر گام زن دیکھنا چاہتا ہے۔

    اس موضوع پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ اگرآپ کی مالی حالت مخدوش ہے تو فوراً ’لاکھوں کماؤ‘ خرید لیجیے۔ اگر مقدمہ بازی میں مشغول ہیں تو ’راہ نمائے قانون‘ لے آئیے۔اگر بیمارہیں تو ’گھر کا طبیب‘ پڑھنے سے شفا یقینی ہے۔ اس طرح ’’کام یاب زندگی‘‘، ’’کام یاب مرغی خانہ‘‘، ’’ریڈیو کی کتاب‘‘، ’’کلیدِ کام یابی‘‘، ’’کلیدِ مویشیاں‘‘ اور دوسری لاتعداد کتابیں بنی نوع انسان کی جو خدمت کر رہی ہیں، اس سے ہم واقف ہیں۔

    مصنّف ان کتابوں سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے ازراہِ تشکر کلیدِ کام یابی، حصّہ دوم، لکھنے کا ارادہ کیا، تاکہ وہ چند نکتے جو اس افادی ادب میں پہلے شامل نہ ہو سکے، اب شریک کر لیے جائیں۔

    حافظہ تیز کرنا
    اگر آپ کو باتیں بھول جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا حافظہ کم زور ہے۔ فقط آپ کو باتیں یاد نہیں رہتیں۔ علاج بہت آسان ہے۔

    آئندہ ساری باتیں یاد رکھنے کی کوشش ہی مت کیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ باتیں آپ کو ضرور یاد رہ جائیں گے۔

    بہت سے لوگ بار بار کہا کرتے ہیں۔ ہائے یہ میں نے پہلے کیوں نہیں سوچا؟ اس سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ ہمیشہ پہلے سے سوچ کر رکھیے اور یا پھر ایسے لوگوں سے دور رہیے، جو ایسے فقرے کہا کرتے ہیں۔

    دانش مندوں نے مشاہدہ تیز کرنے کے طریقے بتائے ہیں کہ پہلے پھرتی سے کچھ دیکھیے، پھر فہرست بنائیے کہ ابھی آپ نے کیا کیا دیکھا تھا۔ اس طرح حافظے کی ٹریننگ ہوجائے گی اور آپ حافظ بنتے جائیں گے۔ لہٰذا اگر اور کوئی کام نہ ہو تو آپ جیب میں کاغذ اورپنسل رکھیے۔ چیزوں کی فہرست بنائیے اور فہرست کو چیزوں سے ملایا کیجیے۔ بڑی فرحت حاصل ہوگی۔

    مشہور فلسفی شوپنہار سیر پر جاتے وقت اپنی چھڑی سے درختوں کو چھوا کرتا تھا۔ ایک روز اسے یاد آیا کہ پل کے پاس جو لمبا درخت ہے، اسے نہیں چھوا۔ وہ مردِعاقل ایک میل واپس گیا اور جب تک درخت نہ چھو لیا، اسے سکونِ قلب حاصل نہ ہوا۔ شوپنہار کے نقشِ قدم پر چلیے۔ اس سے آپ کا مشاہدہ اس قدر تیز ہوگا کہ آپ اور سب حیران رہ جائیں گے۔

    خوف سے مقابلہ
    دل ہی دل میں خوف سے جنگ کرنا بے سود ہے۔ کیوں کہ ڈرنے کی ٹریننگ ہمیں بچپن سے ملتی ہے اور شروع ہی سے ہمیں بھوت، چڑیل، باؤ اور دیگر چیزوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ اگر آپ کو تاریکی سے ڈر لگتا ہے تو تاریکی میں جائیے ہی مت۔

    اگر اندھیرا ہوجائے تو جلدی سے ڈر کر روشنی کی طرف چلے آئیے۔ آہستہ آہستہ آپ کو عادت پڑ جائے گی اور خوف کھانا پرانی عادت ہوجائے گی۔

    تنہائی سے خوف آتا ہو تو لوگوں سے ملتے رہا کیجیے۔ لیکن ایک وقت میں صرف ایک چیز سے ڈریے، ورنہ یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ اس وقت آپ دراصل کس چیز سے خوف زدہ ہیں۔

    وقت کی پابندی
    تجربہ یہی بتاتا ہے کہ اگرآپ وقت پر پہنچ جائیں تو ہمیشہ دوسروں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے اکثر دیر سے آتے ہیں۔ چنانچہ خود بھی ذرا دیر سے جائیے۔ اگر آپ وقت پر پہنچے۔ تو دوسرے یہی سمجھیں گے کہ آپ کی گھڑی آگے ہے۔

    وہم کاعلاج
    اگر آپ کو یونہی وہم سا ہوگیا ہے کہ آپ تندرست ہیں تو کسی طبیب سے ملیے۔ یہ وہم فوراً دور ہوجائے گا۔ لیکن اگر آپ کسی وہمی بیماری میں مبتلا ہیں تو ہر روز اپنے آپ سے کہیے۔ میری صحّت اچھی ہو رہی ہے… میں تندرست ہو رہا ہوں….

    احساسِ کمتری ہو تو بار بار مندرجہ ذیل فقرے کہے جائیں۔ میں قابل ہوں…. مجھ میں کوئی خامی نہیں… جو کچھ میں نے اپنے متعلق سنا، سب جھوٹ ہے…. میں بہت بڑا آدمی ہوں۔ (یہ فقرے زور زور سے کہے جائیں تاکہ پڑوسی بھی سن لیں)

    بے خوابی سے نجات
    اگر نیند نہ آتی ہو تو سونے کی کوشش مت کیجیے۔ بلکہ بڑے انہماک سے فلاسفی کی کسی موٹی سی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیجیے۔ فوراً نیند آجائے گی۔ مجرّب نسخہ ہے۔ ریاضی کی کتاب کا مطالعہ بھی مفید ہے۔

    ہمیشہ جوان رہنے کا راز
    اوّل تو یہ سوچنا ہی غلط ہے کہ جوان رہنا کوئی بہت بڑی خوبی ہے۔ اس عمر کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ملاحظہ ہو وہ شعر،

    خیر سے موسمِ شباب کٹا
    چلو اچھا ہوا عذاب کٹا

    تاہم اگر آپ نے ہمیشہ جوان رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو بس خواہ مخواہ یقین کر لیجیے کہ آپ سدا جوان رہیں گے۔ آپ کے ہم عمر بیشک بوڑھے ہوجائیں، لیکن آپ پر کوئی اثر نہ ہوگا۔ جوانوں کی سی حرکتیں کیجیے۔ اصلی نوجوانوں میں اٹھیے بیٹھیے۔ اپنے ہم عمر بوڑھوں پر پھبتیاں کسیے۔ خضاب کا استعمال جاری رکھیے اور حکیموں کے اشتہاروں کا بغور مطالعہ کیجیے۔

    دلیر بننے کا طریقہ
    دوسرے تیسرے روز چڑیا گھر جا کر شیر اور دیگر جانوروں سےآنکھیں ملائیے (لیکن پنجرے کے زیادہ قریب مت جائیے) بندوق خرید کر انگیٹھی پر رکھ لیجیے اور لوگوں کو سنائیے کہ کس طرح آپ نے پچھلے مہینے ایک چیتا یا ریچھ (یا دونوں) مارے تھے۔ بار بار سنا کر آپ خود یقین کرنے لگیں گے کہ واقعی آپ نے کچھ مارا تھا۔

    (اردو ادب میں شفیق الرّحمان طنز و مزاح نگار کے طور پر پہچان رکھتے ہیں، یہ سرخیاں ان کی شگفتہ تحریر "کلیدِ کام یابی” سے لی گئی ہیں)