Tag: طنزومزاح

  • حاکمِ اعلیٰ کا جنونِ لطیفہ

    حاکمِ اعلیٰ کا جنونِ لطیفہ

    بدقسمتی سے اگر کوئی افسر لطیفہ گوئی کا بیمار ہوا تو سمجھ لیجیے کہ بے چارے ماتحتوں کی مصیبت آگئی، کیوں کہ صاحب کے روکھے پھیکے، گھسے پٹے لطیفوں (جس پر ہنسنا تو ہنسنا، رونا بھی نہ آسکے) کو سن کر ان بے چاروں کو اپنی نوکری برقرار رکھنے کے لیے دیوارِ قہقہہ بننا پڑتا ہے۔

    ایک دفتر کے حاکمِ اعلیٰ بھی اس مرض میں مبتلا تھے۔ اکثر اپنے ماتحتوں کو بور کیا کرتے تھے۔ ایک دن اسی طرح لطیفہ گوئی ہو رہی تھی اور افسر صاحب کے بلند و بانگ قہقہوں کے ساتھ ان کے اسسٹنٹ صاحبان بھی قہقہے میں قہقہہ ملا رہے تھے، لیکن ایک صاحب غیر معمولی طور پر بالکل خاموش اور بے توجہ بیٹھے رہے۔

    کسی نے پوچھا، ’’آپ کیوں خاموش ہیں؟‘‘

    وہ صاحب برجستہ بول پڑے، ’’میں کیوں ہنسوں، میں تو کل سے ریٹائر ہو رہا ہوں۔‘‘

    (سرور جمال کی تحریر سے اقتباس)

  • پیرس کی دکان میں‌ ایک پاکستانی نے سیلز گرل سے کیا کہا؟ جانیے

    پیرس کی دکان میں‌ ایک پاکستانی نے سیلز گرل سے کیا کہا؟ جانیے

    سامنے کتابوں کی ایک دکان نظر آئی، لکھا تھا “ڈبلیو ایچ سمتھ اینڈ کمپنی.‘‘ (ڈبلیو ایچ سمتھ اینڈ سنز) یہ نام میں نے پہلے کئی بار سنا تھا۔

    میں دکان کے اندر چلا گیا اور کتابوں کا جائزہ لینے لگا۔ میں نے بڑے سکون سے ایک دھیلا خرچ کیے بغیر کوئی دو گھنٹے وہا‌ں گزارے۔ تازہ کتابوں کی مفت خوشبو سونگھی، بلاقیمت کئی کتابوں کے گرد پوش اور دیباچے پڑھے اور اس قلیل عرصے میں‌ مجھے اتنی کتابوں اور اتنے مصنفوں کے نام یاد ہوگئے کہ میں آئندہ دس سال تک کوئی کتاب پڑھے بغیر کافی ہوٹل میں دانشورانہ بحث (Intellectual Discussion) میں‌ حصہ لے سکتا ہوں۔

    جب مفت کی کتب بینی سے سیر ہو گیا تو خیال آیا، بے چاروں کا بہت استحصال کر چکا ہوں اب ایک آدھ کتاب خرید بھی لینی چاہیے۔ میری پہلی نظر (فرانسیسی فلسفی) سارتر (Jean-Paul Sartre) کی کتابیں تھیں۔ میں نے دو تین طرف نظر دوڑائی لیکن اس کی کوئی کتاب نظر نہ آئی۔ میرا تجسس اور پریشانی دیکھتے ہوئے ایک سیلز گرل میرے پاس آئی اور کہنے لگی:
    ”کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں؟‘‘
    ”جی ہاں۔‘‘
    ”خدمت بتائیے۔‘‘
    میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، وہاں بہت سے آدمی تھے، اس کے علاوہ ایک بُڈھا کاؤنٹر پر بیٹھا ہمیں تاڑ رہا تھا۔ میں نے اسے کوئی نازیبا خدمت بتانے کے بجائے صرف یہ کہا:
    ”مجھے سارتر کی کتابیں چاہییں۔‘‘
    وہ کچھ نہ سمجھی، میں نے اپنا جملہ دہرایا لیکن پھر بھہ وہ خالی الذّہن ہی رہی۔ میں نے سوچا یہاں آنے سے پہلے ”اپنی مدد آپ‘‘ کے ذریعے جو فرنچ سیکھی تھی اور ”Teach Yourself Books‘‘ کی 28 مشقیں بھی حل کر لی تھیں، انہیں کیوں نہ آزمایا جائے۔ میں نے صبح‌ ڈرائیور کی مدد کرنے کے لیے بھی ان اسباق کا سہارا لیا تھا لیکن وہ شاید کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے استفادہ نہ کر سکا تھا، یہ لڑکی تو خاصا ہونہار لگ رہی تھی۔ میں نے اسے اپنی فرنچ سے مستفید کیا، لیکن وہ بھی کوری نکلی، وہ بھی میری فرنچ سمجھنے سے قاصر رہی۔ اتنے میں ایک انگریزی دان سیلز گرلز آئی تو میں نے اپنے فرانسیسی جملوں کا مفہوم اُسے انگریزی میں سمجھایا لیکن اس کے بھی کچھ پلّے نہ پڑا۔ میں نے سوچا اگر فرانس کے صدر مقام پر تعلیم کا یہ حال ہے تو یہ یورپی منڈی میں‌ کیا خاک کردار ادا کرے گا….

    وہاں دوسری بات جو میرے مشاہدے میں آئی یہ تھی کہ جونہی سرخ بتی کی وجہ سے گاڑیوں کا ریلہ رُکتا ہے تو اسٹیرنگ (Steering) پر بیٹھے صاحب کتاب نکال کر فوراً مطالعہ شروع کر دیتے ہیں اور جب بتی سبز ہوتی ہے تو چل پڑتے ہیں اور کھلی کتاب الٹا کر پاس رکھ لیتے ہیں تا کہ اگلے اسٹاپ پر مطلوبہ صفحہ تلاش نہ کرنا پڑے۔ میں نے ایک گھنٹے میں کم از کم گیارہ آدمیوں کو یوں مطالعے میں مصروف دیکھا۔

    (اس پارے کے مصنّف صدیق سالک ہیں‌ جو مزاح نگاری میں نام و مقام رکھتے ہیں، یہ ان کے پیرس میں قیام کے دنوں کی شگفتہ روداد سے نقل کیا گیا ہے)

  • "میرا قیمہ بنا دیجیے…!”

    "میرا قیمہ بنا دیجیے…!”

    میں ٹولنٹن مارکیٹ کی چھوٹے گوشت کی دکان پرکھڑا اپنی باری کا انتظارکررہا تھا اور کچھ اس قسم کے ’’جذباتی‘‘ سوال جواب سن رہا تھا۔

    ’’نسیم بھائی! پہلے میرا قیمہ بنا دیجیے‘‘ایک خاتون کہہ رہی تھیں۔ ’’بہن جی آپ فکر ہی نہ کریں، میں آپ کا ایسا قیمہ بناؤں گا کہ آپ یاد کریں گی۔۔۔!‘‘

    ’’ذرا جلدی کریں نسیم بھائی!‘‘

    ’’بس آپ کھڑی رہیں۔ آپ کے کھڑے کھڑے میں آپ کا قیمہ بنا دوں گا۔‘‘

    ’’قیمہ روکھا بناؤں یا موٹا۔۔۔‘‘

    ’’روکھا ٹھیک رہے گا لیکن میں ذرا جلدی میں ہوں‘‘

    ’’بہن جی یہ قریشی صاحب کا قیمہ ہے، یہ والا جو میں کُوٹ رہا ہوں، اس کے بعد انشاء اللہ آپ کا قیمہ بنے گا۔‘‘

    ’’نسیم صاحب۔ مغز چاہیے مل جائے گا۔‘‘ ایک صاحب دریافت کرتے ہیں۔

    ’’کیوں نہیں جناب۔ یہ ہمارے لیڈرانِ کرام تھوڑی ہیں، بکرے ہیں ان میں بہت مغز ہے، ابھی دیتا ہوں۔‘‘

    ’’اور میرے گردوں کا کیا ہوا؟‘‘ ایک آواز آتی ہے۔

    ’’یہ والے۔۔۔۔‘‘نسیم کا بھائی جو شکل سے ہیرو لگتا ہے چند گردے فضا میں بلند کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’آپ کے گردے ہیں۔ ابھی نکالے ہیں، بنا کر دیتا ہوں۔‘‘

    ’’اورمیری ران۔۔۔‘‘

    ’’یہ رہی آپ کی ران، بالکل نرم اور تازہ تازہ۔‘‘

    ’’اور میری سری۔۔۔‘‘

    ’’ابھی توڑتا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’ایک صاحب جو آرڈر دے کر جا چکے تھے واپس آکر پوچھتے ہیں۔‘‘، ’’یار ابھی تک میرا گوشت نہیں بنایا۔۔۔‘‘

    ’’اوہو آپ یہ بتائیں کہ آپ کی بوٹیاں کیسے کاٹوں۔۔۔! چھوٹی یا بڑی۔۔۔ میں پانچ منٹ میں آپ کا گوشت بناتا ہوں جناب۔ ہم آپ کا گوشت نہیں کاٹیں گے تو اور کس کا کاٹیں گے۔‘‘

    بالآخر میری باری آتی ہے اور میں ایک مختصر سا آرڈر دیتا ہوں۔ ’’تارڑ صاحب۔‘‘ نسیم مسکراتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’اتنا گوشت تو پورے محلے کے لیے کافی ہوگا، کیا کریں گے اتنے گوشت کو دیگ پکائیں گے؟‘‘

    ’’بھائی آپ براہِ کرم جگتیں نہ کریں اور گوشت بنا دیں۔ اور یہ والی بوٹی تو اچھی نہیں ہے! یہ نہ ڈالنا۔‘‘

    ’’یہ والی۔۔۔؟‘‘ وہ بوٹی کو اٹھا کر اس کی نمائش کرتا ہے۔ ’’یہ والی تو بڑی جذباتی بوٹی ہے تارڑ صاحب۔‘‘

    نسیم اپنے گوشت کے بارے میں ’’جذباتی‘‘ کا لفظ بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ مثلاً جناب یہ گردہ ملاحظہ کیجیے بالکل جذباتی ہے۔ یہ چانپ جو آپ دیکھ رہے ہیں، جذباتی ہورہی ہے آہستہ آہستہ، یہ ران تو خیر ہے ہی جذباتی۔ ویسے میرے پاس غیر جذباتی گوشت بھی ہے لیکن آپ کو مزہ نہیں آئے گا۔ وہ سامنے والا بکرا جو لٹک رہا ہے وہ شہنشاہِ جذبات ہے اور بکری جو ہے یہ ملکۂ جذبات ہے۔ اس کی ٹانگ پیش کروں؟‘‘

    گوشت کے بارے میں کالم لکھنا غیر ادبی سا فعل ہے، لیکن کیا کیا جائے یہ مہنگا ہوتا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کی ’’مسلمانی‘‘ کم ہوتی جارہی ہے۔ گوشت اور مسلمان لازم و ملزوم ہیں۔ ہمارے گاؤں میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ گوشت کھانے سے ایمان مضبوط ہوجاتا ہے۔ لوہے کی طرح۔ ظاہر ہے کہ اگر گوشت مہنگا ہوگا تو کم کھایا جائے گا اور اسی تناسب سے ’’مسلمانی‘‘ کم ہوتی جائے گی۔ میں بھی اسی لیے فکر مند ہوں۔

    گوشت کی قیمتوں میں یک دم اضافہ ہوگیا ہے اور کہیں سے احتجاج کا ایک لفظ سنائی نہیں دیا۔ سگریٹ مہنگے ہوجائیں تو چھوڑ دو، چائے مہنگی ہو جائے تو کم پیو۔ آٹا مہنگا ہو جائے تو کیک کھا لو، لیکن گوشت تو کم نہیں کھایا جاسکتا۔ مجھے چونکہ گوشت کی قیمتوں میں اضافے کی خبر نہ تھی، اس لیے میں نے جیب میں پڑی رقم کے مطابق آرڈر دیا اور پھر بعد میں بِل زیادہ بننے پر خوب خوب شرمندہ ہوا۔

    (اردو ادب میں طنز و مزاح پر مبنی تحریروں، ناول اور سفرنامہ نگاری کے لیے معروف مستنصر حسین تارڑ کے کالم سے منتخب پارے)

  • "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔

    اس سے ساکنانِ کوہِ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروسُ البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔

    کبھی کبھار شہرِ خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجۂ حرارت یعنی 98.4 سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبانِ شہر لحاف اوڑھ کر ائرکنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔ حسنِ تضاد کو کراچی کے محکمۂ موسمیات کی اصطلاح میں ’’کولڈ ویو‘‘ (سردی کی لہر) کہتے ہیں۔

    لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچّے بھی انہی پر پڑے ہیں۔ بادِ شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئسکریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نو وارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچّہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسمِ گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔

    تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہلِ کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدّت کو کسی سیم تن ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔

  • مہمان کی تواضع

    مہمان کی تواضع

    قتیل شفائی نے ایم۔ اسلم سے اپنی اوّلین ملاقات کااحوال بیان کرتے ہوئے کہا۔

    ’’کتنی عجیب بات ہے کہ میں اسلم صاحب کی کوٹھی میں ان سے ملنے گیا لیکن اس کے باوجود ان کا تازہ افسانہ سننے سے بال بال بچ گیا۔‘‘

    ’’یہ ناممکن ہے …!‘‘ احباب میں سے ایک نے بات کاٹتے ہوئے فوراً تردید کر دی۔

    ’’سنیے تو۔‘‘ قتیل نے مسکراتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

    ’’ہوا یوں کہ انتہائی خاطر و مدارات کے بعد جب اسلم صاحب اپنا افسانہ سنانے کے موڈ میں آنے لگے تو انہوں نے کہا… ’’قتیل صاحب! آپ کی کچھ نظمیں میری نظر سے گزری ہیں ۔آپ تو خاصے مقبول شاعر ہیں، مگر نہ جانے عام لوگ ہر ترقی پسند شاعر کے بارے میں کیوں بدگمانی کا شکار ہیں۔‘‘ اور اسلم صاحب کی اس بات کے جواب میں نہایت انکساری سے کام لیتے ہوئے میں نے کہا:

    ’’جی ہاں واقعی عام لوگ بہت غلط فہمیاں پیدا کردیتے ہیں۔ دیکھیے نا، اب آپ کے بارے میں بھی یوں تو یہی مشہور ہے کہ آپ ہر نو وارد مہمان کی تواضع کرنے کے بعد اپنا کوئی نیا افسانہ ضرور سناتے ہیں، حالاں کہ یہ بالکل غلط ہے۔‘‘

    (اردو کے ممتاز شاعر قتیل شفائی کی اپنے زمانے کے مشہور و معروف ناول اور افسانہ نگار ایم اسلم سے متعلق شگفتہ بیانی)

  • ضرورت نہیں ہے!

    ضرورت نہیں ہے!

    اخبارات میں "ضرورت ہے” کے عنوان سے مختلف اشیا کی خرید و فروخت اور اسامیوں کے اشتہارات تو آپ نے پڑھے ہی ہوں گے، جو سنجیدہ اور واقعی ضرورت و طلب کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن ابنِ انشا نے ان اشتہارات کو یوں اپنی شگفتہ بیانی اور شوخیِ طبع کی "نذر” کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    ہمیں درکار نہیں
    کار مارس مائنر ماڈل 1959ء بہترین کنڈیشن میں۔ ایک بے آواز ریڈیو، نہایت خوب صورت کیبنٹ، ایک ویسپا موٹر سائیکل اور دیگر گھریلو سامان پنکھے، پلنگ وغیرہ قسطوں پر یا بغیر قسطوں کے ہمیں درکار نہیں۔ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے یہ سب چیزیں پہلے سے موجود ہیں۔

    عدم ضرورتِ رشتہ
    ایک پنجابی نوجوان، برسرِ روزگار، آمدنی تقریباً پندرہ سو روپے ماہ وار کے لیے باسلیقہ، خوب صورت، شریف خاندان کی تعلیم یافتہ دو شیزہ کے رشتے کی ضرورت نہیں ہے کیوں‌ کہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے۔ خط و کتابت صیغہ راز میں نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار لڑکے اور لڑکیوں کے لیے رشتے مطلوب نہیں ہیں۔ پوسٹ بکس کراچی۔

    داخلے جاری نہ رکھیے
    کراچی کے اکثر کالج آج کل انٹر اور ڈگری کلاسوں میں داخلے کے لیے اخباروں میں دھڑا دھڑ اشتہار دے رہے ہیں۔ یہ سب اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے ہاں داخل ہونا مقصود نہیں۔ ہم نے کئی سال پہلے ایم اے پاس کر لیا تھا۔

  • گھوڑے کی چاکری

    گھوڑے کی چاکری

    مرزا وحیدُ الزّمان بیگ جس کے نام کے آگے یا پیچھے کوچوان لکھتے ہوئے کلیجہ خون ہوتا ہے، اپنا ہر جملہ "قصور معاف!” سے شروع کرتا تھا۔

    ملازمت کے انٹرویو کے دوران اس نے دعویٰ کیا کہ میں موٹر ڈرائیونگ بھی بہت اچھی جانتا ہوں۔ بشارت نے جل کر حقارت سے کہا، تو پھر تم تانگہ کیوں چلانا چاہتے ہو؟ دُعا کے انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہنے لگا، پاک پروردگار آپ کو کار دے گا تو کار بھی چلا لیں گے۔

    بشارت نے اسے یہ سوچ کر ملازم رکھا تھا کہ چلو مسکین آدمی ہے۔ قابو میں رہے گا۔

    مرزا عبدُالودود بیگ نے ٹِپ دیا تھا کہ ذہانت پر ریجھ کر کبھی کسی کو ملازم نہیں رکھنا چاہیے۔ ملازم جتنا غبی ہو گا اتنا ہی زیادہ تابع دار اور خدمتی ہو گا، لیکن اس نے کچھ دن تو بڑی تابع داری دکھائی، پھر یہ حال ہو گیا کہ اسکول سے کبھی ایک گھنٹا لیٹ آ رہا ہے، کبھی دن میں تین تین گھنٹے غائب۔

    ایک دفعہ اسے ایک ضروری انوائس لے کر پاکستان ٹوبیکو کمپنی بھیجا۔ چار گھنٹے بعد لوٹا۔ بچے اسکول کے پھاٹک پر بھوکے پیاسے کھڑے رہے۔ بشارت نے ڈانٹا۔ اپنی پیٹی کی طرف جسے راچھ اوزار کی پیٹی بتاتا اور تانگے میں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا، اشارہ کر کے کہنے لگا، قصور معاف، وقوعہ ہو گیا۔

    میونسپل کارپوریشن کی بغل والی سڑک پر گھوڑا سکندری (ٹھوکر) کھا کے گر پڑا۔ ایک تنگ ٹوٹ گیا تھا۔ نعل بھی جھانجھن کی طرح بجنے لگی۔ انھیں ٹھیک کر رہا تھا۔ قصور معاف، نعل کی ایک بھی میخ ڈھیلی ہو تو ایک میل دور سے فقط ٹاپ سن کر بتا سکتا ہوں کہ کون سا سُم ہے۔

    بشارت نے حیرت سے پوچھا، تم خود نعل باندھ رہے تھے؟ بولا، اور نہیں تو۔ کہاوت ہے۔

    کھیتی، پانی، بینتی اور گھوڑے کا تنگ۔ اپنے ہاتھ سنواریے چاہے لاکھوں ہوں سنگ۔ گھوڑے کی چاکری تو خود ہی کرنی پڑتی ہے۔

    وہ ہر دفعہ نئی داستان اور نیا عذر تراشتا تھا۔ جھوٹے لپاٹی آدمی کی مصیبت یہ ہے کہ وہ سچ بھی بولے تو لوگ جھوٹ سمجھتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا کہ اسی کی بات سچ نکلی۔ تاہم اس کی بات پر دل نہیں ٹھکتا تھا۔

    ایک دن بہت دیر سے آیا۔ بشارت نے آڑے ہاتھوں لیا تو کہنے لگا۔ "جنابِ عالی” میری بھی تو سنیے۔ میں ریس کلب کے اصطبل کے سامنے سے اچھا بھلا گزر رہا تھا کہ گھوڑا ایک دَم اَڑ گیا۔ چابک مارے تو بالکل الف ہو گیا۔ راہ گیر تماشا دیکھنے کھڑے ہو گئے۔

    اتنے میں اندر سے ایک بڈھا سلوتری نکل کے آیا۔ گھوڑے کو پہچان کے کہنے لگا، ” ارے ارے ! تُو اس شہزادے کو کائے کو مار ریا ہے۔ اس نے اچھے دن دیکھے ہیں۔ قسمت کی بدنصیبی کو صیّاد کیا کرے۔ یہ تو اصل میں دُرِشہوار (گھوڑی کا نام) کی بُو لیتا، یہاں آن کے مچلا ہے۔ جس ریس میں اس کی ٹانگ میں موچ آئی ہے، دُرِشہوار بھی اس کے ساتھ دوڑی تھی۔ دو اتوار پہلے، پھر اوّل نمبر پر آئی ہے۔ اخباروں میں فوٹو چھپے تھے۔بھاگوان نے مالک کو لکھ پتی کر دیا۔”

    پھر اس نے اس کے پرانے سائیس کو بلایا۔ ہم تینوں اسے تانگے سے کھول کے اندر لے جانے لگے۔ اسے سارے رستے معلوم تھے۔ سیدھا ہمیں اپنے تھان پہ لے گیا۔

    وہاں ایک بے ڈول کالا بھجنگ گھوڑا کھڑا پشتک (دولتی) مار رہا تھا۔ ذرا دور پہ، دوسری طرف دُرِشہوار کھڑی تھی۔ وہ اسے پہچان کے بے کل ہو گئی۔ کہاں تو یہ اتنا مچل رہا تھا اور کہاں یہ حال کہ بالکل چپکا، بے ست ہو گیا۔ گردن کے زخم کی مکھیاں تک نہیں اڑائیں، صاحب جی، اس کا گھاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ سائیس نے اسے بہت پیار کیا۔

    کہنے لگا، بیٹا! اس سے تو بہتر تھا کہ تجھے اسی وقت انجکشن دے کے سلا دیتے۔ یہ دن تو نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ تو تیرے مالک کو ترس آگیا۔

    پھر اس نے اس کے سامنے ریس کلب کا راتب رکھا۔ صاحب، ایسا چبینا تو انسان کو بھی نصیب نہیں۔ پر قسم لے لو جو اس نے چکھا ہو۔ بس سَر جھکائے کھڑا رہا۔ سائیس نے کہا، اسے تو بخار ہے۔ اس نے اس کا بقیہ ساز کھول دیا اور لپٹ کے رونے لگا۔

    (نام وَر ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • مرید پور کے پیر اور ان کا بھتیجا!

    مرید پور کے پیر اور ان کا بھتیجا!

    میرا بھتیجا دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں۔ میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ نئی پود سے تعلق رکھنے کے باعث اس میں بعض فالتو اوصاف نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہیں ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے۔ اور میں تو اس کے نزدیک بس علم و فن کا ایک دیوتا ہوں۔

    یہ خبط اس کے دماغ میں کیوں سمایا ہے؟ اس کی وجہ میں یہی بتا سکتا ہوں کہ نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ خاندانوں میں بھی کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آ جاتا ہے۔ میں شائستہ سے شائستہ دو زمانوں کے فرزندوں کو بعض وقت بزرگوں کا اس قدر احترام کرتے دیکھا، کہ ان پر پنچ ذات کا دھوکا ہونے لگتا ہے۔

    ایک سال میں کانگریس کے جلسے میں چلا گیا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ کانگریس کا جلسہ میرے پاس چلا آیا۔ مطلب یہ کہ جس شہر میں، میں موجود تھا وہیں کانگریس والوں نے بھی اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی۔

    جب کانگریس کا سالانہ جلسہ بغل میں ہو رہا ہو تو کون ایسا متقی ہو گا جو وہاں جانے سے گریز کرے، زمانہ بھی تعطیلات اور فرصت کا تھا چنانچہ میں نے مشغلۂ بیکاری کے طور پر اس جلسے کی ایک ایک تقریری سنی۔ دن بھر تو جلسے میں رہتا۔ رات کو گھر آ کر اس دن کے مختصر سے حالات اپنے بھتیجے کو لکھ بھیجتا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔

    بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بھتیجے صاحب میرے ہر خط کو بے حد ادب و احترام کے ساتھ کھولتے، بلکہ بعض بعض باتوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس افتتاحی تقریب سے پیش تر وہ باقاعدہ وضو بھی کر لیتے۔ خط کو خود پڑھتے پھر دوستوں کو سناتے۔ پھر اخباروں کے ایجنٹ کی دکان پر مقامی لال بجھکڑوں کے حلقے میں اس کو خوب بڑھا چڑھا کر دہراتے، پھر مقامی اخبار کے بے حد مقامی ایڈیٹر کے حوالے کر دیتے جو اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ چھاپ دیتا۔

    یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس اخبار نے میرے ان خطوط کے بل پر ایک کانگریس نمبر بھی نکال مارا جو اتنی بڑی تعداد میں چھپا کہ اس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکانوں پر نظر آتے ہیں۔ بہرحال مرید پور کے بچے بچے نے میری قابلیت، انشا پردازی، صحیح الدماغی اور جوشِ قومی کی داد دی۔

    میری اجازت اور میرے علم کے بغیر مجھ کو مرید پور کا قومی لیڈر قرار دیا گیا۔ ایک دو شاعروں نے مجھ پر نظمیں بھی لکھیں۔ جو وقتاً فوقتاً مرید پور گزٹ میں چھپتی رہیں۔

    میں اپنی اس عزت افزائی سے محض بے خبر تھا۔ سچ ہے خدا جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے، مجھے معلوم تھا کہ میں اپنے بھتیجے کو محض چند خطوط لکھ کر اپنے ہم وطنوں کے دل میں اس قدر گھر کر لیا ہے۔

    (پطرس بخاری کے مزاحیہ مضمون "مرید پور کا پیر” سے انتخاب)

  • پیاری ڈکار……

    پیاری ڈکار……

    کونسل کی ممبری نہیں چاہتا۔ قوم کی لیڈری نہیں مانگتا۔ کوئی خطاب درکار نہیں۔ موٹر، اور شملہ کی کسی کوٹھی کی تمنا نہیں۔ میں توخدا سے اور اگر کسی دوسرے میں دینے کی قدرت ہو تو اس سے بھی صرف ایک ”ڈکار“ طلب کرتا ہوں۔

    چاہتا یہ ہوں کہ اپنے طوفانی پیٹ کے بادلوں کو حلق میں بلاؤں اور پوری گرج کے ساتھ باہر برساؤں۔ یعنی کڑا کے دار ڈکار لوں۔ پَر کیا کروں یہ نئے فیشن والے مجھے زور سے ڈکار لینے نہیں دیتے۔ کہتے ہیں ڈکار آنے لگے تو ہونٹوں کو بھینچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اسے چپ چاپ اڑا دو۔ آواز سے ڈکار لینا بڑی بے تہذیبی ہے۔

    مجھے یاد ہے یہ جیمس لا ٹوش، یو پی کے لفٹیننٹ گورنر علی گڑھ کے کالج میں مہمان تھے۔ رات کے کھانے میں مجھ جیسے ایک گنوار نے میز پر زور سے ڈکارلے لی۔ سب جنٹلمین اس بیچارے دہقانی کو نفرت سے دیکھنے لگے، برابر ایک شوخ و طرار فیشن ایبل تشریف فرما تھے۔ انہوں نے نظرِ حقارت سے ایک قدم اور آگے بڑھا دیا۔ جیب سے گھڑی نکالی اور اس کو بغوردیکھنے لگے۔ غریب ڈکاری پہلے ہی گھبرا گیا تھا۔ مجمع کی حالت میں متاثر ہو رہا تھا۔ برابر میں گھڑی دیکھی گئی تو اس نے بے اختیار سوال کیا۔

    ”جناب کیا وقت ہے۔“ شریر فیشن پرست بولا۔ ”گھڑی شاید غلط ہے۔ اس میں نو بجے ہیں، مگر وقت بارہ بجے کا ہے کیوں کہ ابھی توپ کی آواز آئی تھی۔“ بیچارہ ڈکار لینے والا یہ سن کر پانی پانی ہوگیا کہ اس کی ڈکار کو توپ سے تشبیہہ دی گئی۔

    اس زمانہ میں لوگوں کو سیلف گورنمنٹ کی خواہش ہے۔ ہندوستانیوں کو عام مفلسی کی شکایت ہے۔ میں تو نہ وہ چاہتا ہوں۔ نہ اس کا شکوہ کرتا ہوں۔ مجھ کو تو انگریزی سرکار سے صرف آزاد ڈکار کی آرزو ہے۔ میں اس سے ادب سے مانگوں گا۔ خوشامد سے مانگوں گا۔ زور سے مانگوں گا۔ جدوجہد کروں گا۔ ایجی ٹیشن مچاؤں گا۔ پُر زور تقریریں کروں گا۔ کونسل میں جاکر سوالوں کی بوچھاڑ سے اونریبل ممبروں کا دم ناک میں کر دوں گا۔

    لوگو! میں نے تو بہت کوشش کی کہ چپکے سے ڈکار لینے کی عادت ہوجائے۔ ایک دن سوڈا واٹر پی کر اس بھونچال ڈکار کو ناک سے نکالنا بھی چاہتا تھا، مگر کم بخت دماغ میں الجھ کر رہ گئی۔ آنکھوں سے پانی نکلنے لگا اور بڑی دیر تک کچھ سانس رکا رکا سا رہا۔

    ذرا تو انصاف کرو۔ میرے ابّا ڈکار زورسے لیتے تھے۔ میری اماں کو بھی یہی عادت تھی۔ میں نے نئی دنیا کی ہم نشینی سے پہلے ہمیشہ زور ہی سے ڈکار لی۔ اب اس عادت کو کیونکر بدلوں۔ ڈکار آتی ہے تو پیٹ پکڑ لیتا ہوں۔ آنکھیں مچکا مچکا کے زور لگاتا ہوں کہ موذی ناک میں آجائے اور گونگی بن کر نکل جائے، مگر ایسی بد ذات ہے، نہیں مانتی۔ حلق کو کھرچتی ہوئی منہ میں گھس آتی ہے اور ڈنکا بجا کر باہر نکلتی ہے۔

    کیوں بھائیو! تم میں سے کون کون میری حمایت کرے گا اور نئی روشنی کی فیشن ایبل سوسائٹی سے مجھ کو اس ایکسٹریمسٹ حرکت کی اجازت دلوائے گا۔ ہائے میں پچھلے زمانہ میں کیوں نہ پیدا ہوا۔ خوب بے فکری سے ڈکاریں لیتا۔ ایسے وقت میں جنم ہوا ہے کہ بات بات پر فیشن کی مہر لگی ہوئی ہے۔

    تم نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں ماش کی دال کھانے والے یتیموں میں شامل ہو جاؤں گا۔ کیسے خوش قسمت لوگ ہیں، دکانوں پر بیٹھے ڈکاریں لیا کرتے ہیں۔ اپنا اپنا نصیبا ہے۔ ہم ترستے ہیں اور وہ نہایت مصرفانہ انداز میں ڈکاروں کو برابر خرچ کرتے رہتے ہیں۔

    پیاری ڈکار میں کہاں تک لکھے جاؤں۔ لکھنے سے کچھ حاصل نہیں۔ صبر بڑی چیز ہے۔

    (معروف ادیب اور مضمون نگار خواجہ حسن نظامی کا شگفتہ شکوہ)

  • "چپل پہن کر بینک جائیں اور….”

    "چپل پہن کر بینک جائیں اور….”

    جوتا ایسی چیز نہیں کہ زیور کی طرح مانگ تانگ کر پہن لیا جائے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ چپل پہن کر بینک جائیں اور تین دن بعد تنخواہ ملے تو نیا جوتا خرید لیں۔

    پھر خیال آیا کہ اگر اینڈرسن پوچھ بیٹھا کہ آج انسپکشن ڈیپارٹمنٹ چپل پہنے کیوں پھر رہا ہے تو کیا جواب دیں گے۔
    ایک دفعہ ایک افسر بینک میں بغیر ٹائی کے آگیا تو اینڈرسن نے اس سے پوچھا کہ آج کیا بینک ہالی ڈے ہے جو یوں ننگ دھڑنگ پھر رہے ہو؟

    اسی طرح ایک کلرک کا تین دن کا بڑھا ہوا شیو دیکھ کر دوّنی پکڑاتے ہوئے کہنے لگا کہ اپنا کیمو فلاج منڈوا کر آؤ تاکہ چہرہ شناخت کر کے رجسٹر میں حاضری لگائی جاسکے۔

    ذہن پر زور ڈالا تو اس کا حل بھی نکل آیا۔ چپل پہن کر ایک پیر پر پٹی باندھ لیں گے۔

    کسی نے پوچھا تو کہہ دیں گے، چوٹ لگ گئی ہے اور یہ کچھ ایسا جھوٹ بھی نہیں۔ آخر اندرونی چوٹ تو آئی ہی تھی جس کے بارے میں حضرت نوحؔ ناروی سہلِ ممتنع میں فرما گئے ہیں:

    جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
    جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے

    ایک مونڈھے پر نیلے رنگ کا جھاڑن پڑا نظر آیا۔ اس میں سے ایک لمبی سی دَھجی پھاڑ کر پٹی باندھ لی۔ سہ پہر کو اینڈر سن کی نظر پڑی تو کہنے لگا کہ زخم پر کبھی رنگیں پٹی نہیں باندھنی چاہیے، پک جاتا ہے، خصوصاً برسات میں۔

    دوسرے دن صبح دونوں کام پر جانے کے لیے تیار ہونے لگے تو بیگم دوپٹا اوڑھتے ہوئے کہنے لگیں کہ تمہارے ان لاڈلوں نے ناک میں دَم کر رکھا ہے اور کچھ نہیں تو کم بخت آدھا دوپٹا ہی پھاڑ کر لے گئے۔

    ہم نے پٹی بجنسہٖ واپس کر دی اور جلدی جلدی ایک پھٹے پاجامے کے لٹھے کی سفید پٹی باندھ کر بینک چلے گئے۔
    گیارہ بجے کسی کام سے اینڈرسن نے طلب کیا۔ واپس آنے لگے تو عینک کو ناک کی پھننگ پر رکھ کر اس کے اوپر سے دیکھتے ہوئے فرمایا: Just a minute, Tamerlane، تمہارے زخم نے چوبیس گھنٹے میں کافی مسافت طے کی ہے، دائیں سے بائیں پیر میں منتقل ہو گیا ہے۔

    اب جو ہم نے نگاہ ڈالی تو دَھک سے رہ گئے۔ افراتفری میں آج دوسرے یعنی بائیں پیر پر پٹی باندھ کر آگئے تھے۔

    (معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی کی کتاب زرگزشت سے انتخاب)