Tag: طنزیہ مضامین

  • کچھ زخمی کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں…

    کچھ زخمی کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں…

    وطنِ عزیز کی سیاست کا دار و مدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کر کے کتنے زیادہ لوگوں کا وقت ضایع کیا، کتنا بڑا جلوس نکال کر کتنی سڑکوں کو بند کرا کے عوام کو اذیت میں مبتلا کیا، کتنا بڑا اور طویل دھرنا دے کر میڈیا پر رنگ اور معیشت پر زنگ جمایا وغیرہ۔

    بعض برخود غلط قسم کے سیاست داں فخریہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک کال پر پورا شہر و صوبہ یا ملک بند کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے جال و مال اور روزگار کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کی ذمے داری وہ حکومت وقت اور برسر اقتدار پارٹی پر ڈال کر اپنے لیے راحت قلب اور روحت روح کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ وہ خود ”شرم پروف“ ہوتے ہیں، لیکن مخالفین کو بے شرمی کے طعنوں سے نوازنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ سیاست غریب سے ووٹ اور امیر سے نوٹ لے کر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کا فن ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے غلط تھوڑی کہا تھا ”سیاست دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔ مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ اوّل نمبر پر قدیم ترین پیشے سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔“ اگر غور کیا جائے، تو یہ دونوں پیشے آپس میں ”کزن“ ہیں۔ شاید اس قرابت داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ایک انقلابی شاعر آغا شورش کاشمیری نے سیاست کے باب میں کہا تھا:

    مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

    سیاست داں اور دانش ور کبھی بلاوجہ سچ نہیں بولتے۔ جب کبھی وہ (حادثاتی طور پر) سچ بول جاتے ہیں، تو لوگ ان کا یقین نہیں کرتے۔ امریکا میں سیاست دانوں سے بھری ہوئی ایک بس کسی قومی تقریب میں شرکت کے لیے ایک نواحی گاؤں میں جا رہی تھی۔ جب بس ہائی وے سے گاؤں کے راستے میں آگئی، تو ڈرائیور کی بد احتیاطی کے باعث ایک سنسان مقام پر درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ ہر طرف خون اور شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہو کر تن تنہا دو گھنٹے میں ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں دفنا دیا۔ شام تک جب حادثے کی خبر عام ہوئی، تو میڈیا والوں نے دیہاتی کو تلاش کر کے حادثے کی تفصیلات لیں اور اس کے جذبۂ انسانیت کو سراہا۔ ایک اخباری نمائندے نے اس سے سوال کیا ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    ”نہیں جی“ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا ”کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں، مگر آپ جانتے ہیں، وہ سیاست داں تھے۔

    انگلستان کے ایک وزیراعظم (Benjamin Disraeli) نے اپنے ہی ملک کے ایک سیاست داں کے بارے میں کہا تھا کہ اگر وہ ٹیمز دریا میں گر جائے، تو یہ ایک حادثہ ہوگا، لیکن اگر اسے بچا لیا جائے، تو یہ سانحہ ہوگا۔

    حادثے اور سانحہ کا فرق جاننا ہو تو پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    (ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف ”کتنے آدمی تھے؟“ سے انتخاب)

  • اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    بیکاری یعنی بے روزگاری اس اعتبار سے تو نہایت لاجواب چیز ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی حیثیت کا انسان اپنے گھر میں تمام دنیا سے بے نیاز ہو کر اس طرح رہتا ہے کہ ایک شہنشاہِ ہفت اقلیم کو اپنے محل میں وہ فارغ البالی نصیب نہیں ہو سکتی۔

    سچ تو یہ ہے کہ وہ دولت جس کو تمام دنیا کے سرمایہ دار اپنی جان اور اپنا ایمان سمجھتے ہیں، ایک ایسا مستقل عذاب ہے جو انسان کو کبھی مطمئن نہیں ہونے دیتا۔ سرمایہ داروں کی تمام زندگی بس دو ہی فکروں میں کٹتی ہے ایک یہ کہ اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہوگا؟

    یہ دونوں فکریں اپنی اپنی جگہ ایسی مہلک ہوتی ہیں کہ ان کو بھی دق کی منجملہ اقسام کے سمجھنا چاہیے بلکہ دق کی دوسری قسمیں تو معمولی ہیں مثلا پھیپھڑے کی دق، آنتوں کی دق، ہڈی کی دق وغیرہ، مگر یہ فکریں تو دل اور دماغ کی دق سے کم نہیں جن کا مارا ہوا نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے۔ بس توند بڑھتی جاتی ہے اور دل چھوٹا ہوتا رہتا ہے۔

    مختصر یہ کہ ان سرمایہ داروں کی زندگی حقیقتا کشمکشِ جبر و اختیار میں بسر ہوتی ہے کہ نہ زندہ رہتے بن پڑتی ہے نہ مرنے کو دل چاہتا ہے۔

    اب رہے غریب ان کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے کہ بلا ضرورت پیدا ہوگئے اور جب بھی چاہا مر گئے۔ نہ جینے کی خوشی تھی، نہ مرنے کا کوئی غم۔

    "اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے”

    (شوکت تھانوی کے ایک شگفتہ مضمون سے اقتباس)

  • کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟

    کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟

    پطرؔس میرے استاد تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تب ہوئی جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لینے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔

    انٹرویو بورڈ تین اراکین پر مشتمل تھا۔ پروفیسر ڈکنسن (صدر شعبہ انگریزی) پروفیسر مدن گوپال سنگھ اور پروفیسر اے ایس بخاری۔

    گھر سے خوب تیار ہو کر گئے تھے کہ سوالات کا کرارا جواب دے کر بورڈ کو مرعوب کرنے کی کوشش کریں گے، مگر بخاری صاحب نے ایسے سوال کیے کہ پسینے چھوٹنے لگے۔ جونہی کمرے میں داخل ہو کر آداب بجا لائے انھوں نے خاکسار پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔

    ’’آپ ہمیشہ اتنے ہی لمبے نظر آتے ہیں یا آج خاص اہتمام کر کے آئے ہیں؟‘‘ لاجواب ہو کر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’آپ شاعر ہیں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’دیکھنے میں تو آپ مجنوں گورکھپوری نظر آتے ہیں۔‘‘

    پروفیسر مدن گوپال سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔

    ’’بہ خدا ان کی شکل خطرناک حد تک مجنوںؔ گورکھپوری سے ملتی ہے۔‘‘ پھر میری جانب متوجہ ہوئے۔ ’’آپ کبھی مجنوں گورکھپوری سے ملے ہیں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’ضرور ملیے۔ وہ آپ کے ہم قافیہ ہیں۔‘‘

    پھر پوچھا۔ ’’یہ آپ کے سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ آپ کتابی کیڑے ہیں، جانتے ہو کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ جو شخص ہروقت مطالعہ میں منہمک رہتا ہے۔‘‘

    ’’کتابی کیڑا وہ ہوتا ہے، جو کتاب کے بجائے قاری کو کھا جاتا ہے۔‘‘

    پروفیسر ڈکنسن نے بخاری صاحب سے دریافت کیا۔ ’’ان کے بی اے میں کتنے نمبر آئے تھے؟‘‘

    انھوں نے میرا ایک سرٹیفیکیٹ پڑھتے ہوئے جواب دیا۔ ۳۲۹ فرسٹ ڈویژن۔

    ’’تو پھر کیا خیال ہے؟‘‘ پروفیسر مدن گوپال سنگھ نے پوچھا۔

    بخاری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ’’ داخل کرنا ہی پڑے گا۔ جو کام ہم سے عمر بھر نہ ہوسکا وہ انھوں نے کردیا۔

    پروفیسر ڈکنسن نے چونک کر پوچھا۔ ’’کون سا کام بخاری صاحب؟‘‘

    سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے فرمایا۔

    ’’یہی بی اے میں فرسٹ ڈویژن لینے کا۔‘‘

    (معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم سے)