Tag: طنزیہ و مزاحیہ ادب

  • شیر کا سفر نامہ

    شیر کا سفر نامہ

    سفر نامہ شروع کرنے سے قبل میں اپنا تعارف پیش کر دوں۔ میں کراچی کے ایک گھر میں پالا جانے والا شیر ہوں، ظاہر ہے میں کسی جنگل سے لاپتا ہو کر اس شہر میں آپہنچا، یوں میں تاریخ کا پہلا لاپتا ہوں جسے کراچی لایا گیا۔

    جب ہوش سنبھالا تو میں ایک بڑے سے بنگلے میں تھا۔ بہت دنوں تک تو پتا ہی نہ چلا کہ میں شیر ہوں۔ اڑوس پڑوس اور ارد گرد کے بنگلوں میں پَلے کُتے دیکھ کر میں سمجھتا تھا کہ میں بھی کسی اعلیٰ نسل کا کُتا ہوں۔ آئینے کا سامنا کر کے اور اپنی آواز سُن کر حیرت ہوتی کہ میں باقی کُتوں سے اتنا مختلف کیوں ہوں؟ لیکن پھر سوچتا کہ شاید میرے ماں باپ کُتوں کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے زیادہ کھانے کے سبب ان کا منہ بڑا ہوتا گیا اور دوسروں کو نیچا سمجھتے سمجھتے ان کی بھونک دہاڑ میں تبدیل ہوگئی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ”نیشنل جیوگرافک“ چینل کا جس کے طفیل اپنی آگاہی ہوئی۔

    میرا مالک کبھی کبھی مجھے اپنے پاس ڈرائنگ روم میں بٹھا لیتا اور دیوار پر نصب بڑی سی ٹی وی اسکرین پر پروگرام دیکھتا رہتا۔ ایک دن لگا ٹی وی اسکرین نہیں آئینہ دیکھ رہا ہوں۔ وہاں میرے ہم شکل ”کُتے“ جنگل میں دھاڑتے، بھاگتے دوڑتے اور ہرنوں، بھینسوں، زرافوں پر حملہ کرتے اور انھیں بھنبھوڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ مالک کی نظر جب میرے چہرے پر پڑی تو میری آنکھوں میں حیرت اور جوش دیکھ کر وہ سہم سا گیا، اور فوراً چینل تبدیل کر کے ایک نیوز چینل لگا دیا اور ٹاک شو دیکھنے لگا۔ وہ شاید دھاڑتے اور ایک دوسرے پر جھپٹتے سیاست داں دکھا کر مجھے انسانوں سے ڈرانا اور یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ ”کسی خوش فہمی میں نہ رہنا، ہم آدم زاد کسی بھی درندے سے زیادہ درندگی دکھا سکتے ہیں۔“ بعد میں گھر میں آنے جانے والی ایک بلّی نے مجھے بتایا،”میاں! تم شیر ہو شیر“ اسی نے مجھے شیروں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

    اب آتے ہیں سفر نامے کی طرف۔ اپنے سفر نامے کی شروعات میں اس وضاحت سے کر دوں کہ میرا یہ سفر اتفاقیہ تھا، نہ میں ابن بطوطہ کی طرح کھوج لگانے نکلا تھا نہ بہت سے سیاحوں کی طرح عشق لڑانے۔ ہوا یوں کہ ایک دن سُن گُن ملی کہ میرا مالک مجھے کسی کے ہاتھ فروخت کرکے پنجاب بھیج رہا ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا، ایسا نہیں کہ میں فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ سے متاثر تھا یا کراچی میں چائنا کٹنگ، واٹر ٹینکر، تجاوزات یا موبائل چھیننے کے دھندوں سے میرا کچھ لینا دینا ہے کہ میں کراچی چھوڑوں نہ کراچی والوں کو چھوڑوں، بس اتنی سی بات ہے کہ مجھے کراچی کی زندگی کی عادت ہوگئی تھی، اتنی کہ گوشت ملے نہ ملے، چائے نہ ملے تو بے تاب ہو جاتا، پھر میرا مالک گوشت کے بوٹوں کے ساتھ رائتہ، چٹنی، ہری مرچ رکھ دیتا تھا، بعض اوقات بریانی، نہاری اور بہاری کباب میرے سامنے سجا دیے جاتے، ایک دو بار تو مجھے بگھارے بیگن بھی کھانا پڑے۔ یہ سب کھانے کا میں ایسا شوقین ہوگیا تھا کہ ایک دو دن خالی کچا گوشت ملتا تو مالک کو دیکھ کر دل ہی دل اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہتا،”کیا بات ہے مامو! کنجوس ہوگئے ہو یا مہنگائی بڑھ گئی ہے؟“ غالباً ان کھانوں ہی کا اثر تھا کہ کبھی کبھی میں غرانے کی کوشش کرتا تو منہ سے اردو نکل جاتی۔

    میرے ساتھ اس بنگلے میں آباد طوطے کا کہنا تھا، ”یہ کراچی والا تمھیں بھی کھانے کے معاملے میں نخریلا بنا کر چھوڑے گا، مگر یاد رکھو کہیں اور گئے تو یہ سب لوازمات نہیں ملنے کے۔“ طوطے کی بات مجھے پریشان کیے دے رہی تھی۔ اپنا مسئلہ بلّی سے بیان کیا،”خالہ! دیکھو یہ ہو ریا ہے تمھارے بھانجے کے ساتھ۔“ خالہ بولیں،”بیٹا! پریشان کیوں ہوتا ہے، پنجاب میں تو ایک سے بڑھ کر ایک شیرِ پنجاب ہیں، وہاں تیری خوب جمے گی۔ ہوسکتا ہے تو کسی غیر حاضر شیر کی جگہ لے لے، کیوں کہ تو ہے بھی شریف۔“ پھر بڑے دکھ سے آنکھوں میں نمی لاکر بولیں،”میرے لعل! میری تیری کیا اوقات، کراچی سے تو دارالحکومت، اداروں کے صدر دفاتر شہر کے سیاسی قائدین، چلے گئے، کوئی روک نہ پایا۔ یوں سمجھ جو یہاں آیا ہے اسے جانا ہے۔“ ان کی بات سُن کر ڈھارس بندھی۔

    آخر وہ دن آہی گیا جب مجھے کراچی چھوڑ جانا تھا۔ جیسے ہی گاڑی میں بٹھایا گیا میرا دل بھر آیا، دماغ میں بھولے بسرے نغمے گونجنے لگے جیسے،”چھوڑ بابل کا گھر، موہے پی کے نگر آج جانا پڑا“،”کاہے بیاہی بدیس رے، لکھی بابل مورے۔“ گاڑی میں بیٹھ کر خیال آیا کاش جانے سے پہلے کراچی کو تھوڑا بہت دیکھ سکتا۔ شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی، کچھ دیر بعد گاڑی ایک جگہ رُکی تو مجھے کسی طرح باہر نکلنے کا موقع مل گیا۔

    سڑک پر قدم رکھتے ہی چاروں طرف دیکھا، ایک دیوار پر لکھا تھا،”دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا۔“ پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا، لیکن بڑی حیرت بھی ہوئی کہ ابھی مجھے بنگلے سے باہر آئے چند منٹ ہی ہوئے ہیں کہ لوگوں کو پتا بھی چل گیا اور انھوں نے استقبالیہ نعرے بھی لکھ دیے! تحریر کو ذرا غور سے پڑھا تو میرا نہیں کسی اور کا ذکر تھا۔ بہ ہرحال یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس شہر کے باسی شیروں سے بہت محبت کرتے ہیں، اور وہ جب بھی آتا ہے اسے دیکھ کر نہال ہوجاتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ یہ جو بھی شیر ہے کم کم ہی آتا ہے۔

    کچھ آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ خون تھوک رہے ہیں۔ سوچا یقیناً یہ کچا گوشت کھا کر خون اُگل رہے ہیں۔ بڑی بھوک لگی تھی، ایک خون تھوکتے صاحب کے قریب جاکر کہا،”بھیا! بھوکا ہوں، مجھے بھی کچھ کھانے کو دے دو۔“ بدتمیزی سے بولا،”ابے ہمارے اپنے کَنے کھانے کو نہیں تجھے کہاں سے کھلائیں، یہ لے گُٹکا کھا لے۔“ اس نے ایک چھوٹی سی پڑیا میری طرف بڑھا دی۔ میں نے کہا،”تمیز سے بات کرو، میں شیر ہوں، گوشت کھاتا ہوں۔“ کمینہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا،”کس کا شیر ہے بھیّے، لندن والوں کا یا پاکستان والوں کا، جس کا بھی ہے وہ دور لد گیا، اب سارے شیر بکری ہوچکے ہیں، تو بھی بکری کی کھال پہن اور سبزی پر گزارہ کر۔“ میں نے سوچا دفع کرو کون اس جاہل کے منہ لگے، اور آگے بڑھ گیا۔

    سُنا تھا شیر سے سب ڈرتے ہیں، لیکن یہاں تو مجھ سے کوئی ذرا بھی خوف زدہ نہیں تھا۔ ابھی اس سوچ میں گُم تھا کہ ایک موٹرسائیکل پاس آکر رکی، جس پر دو لوگ بیٹھے تھے، آگے بیٹھنے والے نے ایک سخت سی چیز میری گردن پر ٹکائی اور کرخت لہجے میں بولا،”چل موبائل نکال۔“ میں نے اسے گھور کر دیکھا اور جواب دیا،”شیر موبائل نہیں رکھتے۔“ میری بات سُن کر پیچھے بیٹھا ہوا شخص اپنے ساتھی سے بولا،”کیوں ٹیم ضائع کر رہا ہے بھائی، اس کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں موبائل کہاں ہوگا۔“ وہ تو چلے گئے مگر میں اس بے عزتی سے سلگ اُٹھا۔ اچانک پاس سے ”کھی کھی کھی“ کی آواز آئی۔ اس طرف نظر دوڑائی تو دیکھا ایک کُتا دانت نکالے کھڑا مجھے دیکھ کر ہنس رہا ہے۔ میں نے کہا،”شرم نہیں آتی، اپنے جانور بھائی کا مذاق اڑاتے ہو۔“ ہنسی روک کر بولا، ”اوہو، تو تم ہو وہ پالتو شیر جس کا تذکرہ ہر ٹی وی چینل پر ہورہا ہے۔ ”پالتو شیر“ ……اپنے نام کے ساتھ ”پالتو“ کا لفظ سُن کر مجھے بہت غصہ آیا۔ ”خبردار جو مجھے پالتو کہا“، ”چلو گھر کا شیر کہہ دیتا ہوں، بات تو وہی ہے۔“ کُتے نے پورے کُتے پن سے کہا۔ میں نے پوچھا،”ایک بات تو بتاﺅ، میں شیر ہوں، جنگل کا بادشاہ، سُنا تھا کہ میری بڑی ہیبت ہے، پھر اس شہر کے لوگ مجھ سے ڈر کیوں نہیں رہے؟“ کتے نے غور سے میری بات سُنی، پھر آرام سے بیٹھ گیا اور مجھے دیکھتے ہوئے گویا ہوا،”یہ شہر خود ایک خوف ناک جنگل ہے میرے بھائی، اور یہاں ایسے ایسے درندے ہیں جنھیں دیکھ کر شیروں کا پِتّا پانی ہوجائے۔ اس شہر کے لوگوں نے بڑے بڑے شیر دیکھے ہیں، جو آخر میں سرکس کے یا چڑیا گھر کے شیر ثابت ہوئے۔ اس لیے یہاں شیروں کا خوف رہا ہے نہ ان کی آبرو۔ اپنی خیریت چاہتے ہو تو جتنی جلد ہوسکے اس شہر سے نکل جاﺅ، ورنہ بچی کھچی عزت بھی گنوا بیٹھو گے۔“�

    یہ سننا تھا کہ میں جہاں تھا وہیں سکون سے بیٹھ گیا، پھر جانے کب آنے والے آئے اور مجھے اپنے ساتھ چڑیا گھر لے گئے۔ اب میں چڑیا گھر کے پنجرے میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اس ملک اور شہر میں کیا ہر پالتو شیر کا یہی انجام ہوتا ہے؟

    (معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کی ایک تحریر)

  • مکمل باورچی خانہ (جدید)

    مکمل باورچی خانہ (جدید)

    جناب مطبخ مرادآبادی کی یہ کتاب مستطاب ہمارے پاس بغرضِ ریویو آئی ہے۔ جو صاحب یہ کتاب لائے وہ نمونۂ طعام کے طور پر بگھارے بینگنوں کی ایک پتیلی بھی چھوڑ گئے تھے۔ کتاب بھی اچھی نکلی۔ بینگن بھی۔

    قلتِ گنجائش کی وجہ سے آج ہم فقط کتاب پر ریویو دے رہے ہیں۔ بینگنوں پر پھر کبھی سہی۔ اس سلسلے میں ہم اپنے کرم فرماؤں کو ریویو کی یہ شرط یاد دلانا چاہتے ہیں کہ کتاب کی دو جلدیں آنی ضروری ہیں۔ اور سالن کی دو پتیلیاں۔

    اس کتاب میں بہت سی باتیں اور ترکیبیں ایسی ہیں کہ ہر گھر میں معلوم رہنی چاہییں، مثلاً یہ کہ سالن میں نمک زیادہ ہو جائے تو کیا کیا جائے۔ ایک ترکیب تو اس کتاب کے بموجب یہ ہے کہ اس سالن کو پھینک کر دوبارہ نئے سرے سے سالن پکایا جائے۔ دوسری یہ کہ کوئلے ڈال دیجیے۔ چولھے میں نہیں سالن میں۔ بعد ازاں نکال کر کھائیے۔ یہاں تھوڑا سا ابہام ہے۔ یہ وضاحت سے لکھنا چاہیے تھا کہ کوئلے نکال کر سالن کھایا جائے یا سالن نکال کر کوئلے نوش کیے جائیں۔ ہمارے خیال میں دونوں صورتیں آزمائی جا سکتی ہیں۔ اور پھر جو صورت پسند ہو اختیار کی جاسکتی ہے۔

    کھیر پکانے کی ترکیب بھی شاملِ کتابِ ہذا ہے۔ اس کے لیے ایک چرخے، ایک کتے، ایک ڈھول اور ایک ماچس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نسخہ امیر خسرو کے زمانے سے آزمودہ چلا آرہا ہے۔ لیکن اس میں ماچس کا ذکر نہ ہوتا تھا۔ خدا جانے چرخے کو کیسے جلاتے ہوں گے۔ ٹیڑھی کھیر عام کھیر ہی کی طرح ہوتی ہے۔ فقط اس میں بگلا ڈالنا ہوتا ہے تاکہ حلق میں پھنس سکے۔

    اس کتاب میں بعض ترکیبیں ہمیں آسانی کی وجہ سے پسند آئیں۔ مثلاً باداموں کا حلوا یوں بنایا جا سکتا ہے کہ حلوا لیجیے اور اس میں بادام چھیل کر ملا دیجیے۔ بادام کا حلوا تیار ہے۔ بیگن کا اچار ڈالنے کی ترکیب یہ لکھی ہے کہ بینگن لیجیے اور بطریقِ معروف اچار ڈال لیجیے۔ چند اور اقتباسات ملاحظہ ہوں،

    آلو چھیلنے کی ترکیب

    سامان، آلو۔ چھری۔ پلیٹ، ناول، ڈیٹول، پٹی۔

    آلو لیجیے۔ اسے چھری سے چھیلیے۔ جن صاحبوں کو گھاس چھیلنے کا تجربہ ہے، ان کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ چھلے ہوئے آلو ایک الگ پلیٹ میں رکھتے جائیے۔ بعض صورتوں میں جہاں چھیلنے والا ناخواندہ ہو، یہ عمل بالعموم یہیں ختم ہوسکتا ہے۔ لیکن ہماری اکثر قارئین پڑھی لکھی ہیں لہٰذا آلو چھیلنے میں جاسوسی ناول یا فلمی پرچے ضرور پڑھتی ہوں گی۔ ڈیٹول انہی کے لیے ہے۔ جہاں چرکا لگا ڈیٹول میں انگلی ڈبوئی اور پٹّی باندھ لی۔

    ہمارے تجربے کے مطابق ڈیٹول کی ایک شیشی میں آدھ سیر آلو چھیلے جا سکتے ہیں۔ بعض جز رس اور سلیقہ مند خواتین سیر بھر بھی چھیل لیتی ہیں۔ جن بہنوں کو ڈیٹول پسند نہ ہو وہ ٹنکچر یا ایسی ہی کوئی اور دوائی استعمال کرسکتی ہیں۔ نتیجہ یکساں رہے گا۔

    حلوہ بے دودھ
    اس حلوے کی ترکیب نہایت آسان ہے۔ حلوہ پکائیے اور اس میں دودھ نہ ڈالیے۔ نہایت مزیدار حلوہ بے دودھ تیار ہے۔ ورق لگائیے اور چمچے سے کھائیے۔

    نہاری
    کون ہے جس کے منہ میں نہاری کا لفظ سن کر پانی نہ بھر آئے۔ اس کا رواج دہلی اور لاہور میں زیادہ ہے۔ لیکن دونوں جگہ نسخے میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔ دلّی والے نلیاں، پائے، مغز اور بارہ مسالے ڈالتے ہیں۔ جس سے زبان فصیح اور بامحاورہ ہوجاتی ہے۔ پنجاب والے بھوسی، بنولے اور چنے ڈالتے ہیں کہ طب میں مقوی چیزیں مانی گئی ہیں۔ گھوڑے اوّل الذکر نسخے کو چنداں پسند نہیں کرتے۔ جس میں کچھ دخل صوبائی تعصب کا بھی ہوسکتا ہے لیکن اس تعصب سے دلّی والے بھی یکسر خالی نہیں۔ ان کے سامنے دوسرے نسخے کی نہاری رکھی جائے تو رغبت کا اظہار نہیں کرتے، بلکہ بعض تو برا بھی مان جاتے ہیں۔

    اس بات میں فقط ایک احتیاط لازم ہے۔ کھانے والے سے پوچھ لینا چاہیے کہ وہ آدمی ہے یا گھوڑا۔ لائق مصنف نے سنبوسہ بیسن، کریلوں کی کھیر اور تھالی کے بینگن وغیرہ تیار کرنے اور انڈا ابالنے وغیرہ کی ترکیبیں بھی دی ہیں لیکن ہم نے خود مکمل باورچی خانہ کی صرف ایک ترکیب آزمائی ہے۔ وہ ہے روٹی پکانے کی۔قارئین بھی اسے آزمائیں اور لطف اٹھائیں۔

    سب سے پہلے آٹا لیجیے۔ آٹا آگیا؟ اب اس میں پانی ڈالیے۔ اب اسے گوندھیے۔ گندھ گیا؟ شاباش۔ اب چولھے کے پاس اکڑوں بیٹھیے۔ بیٹھ گئے! خوب۔

    اب پیڑا بنائیے۔ جس کی جسامت اس پر موقوف ہے کہ آپ لکھنؤ کے رہنے والے ہیں یا بنوں کے۔ اب کسی ترکیب سے اسے چپٹا اور گول کر کے توے پر ڈال دیجیے، اسی کا نام روٹی ہے۔

    اگر یہ کچی رہ جائے تو ٹھیک ورنہ کوئلوں پر ڈال دیجیے تا آنکہ جل جائے۔ اب اسے اٹھاکر رومال سے ڈھک کر ایک طرف رکھ دیجیے اور نوکر کے ذریعے تنور سے پکی پکائی دو روٹیاں منگا کر سالن کے ساتھ کھائیے۔ بڑی مزے دار ہوں گی۔

    مصنّف نے دیباچے میں اپنے خاندانی حالات بھی دیے ہیں اور شجرہ بھی منسلک کیا ہے۔ ان کا تعلق دو پیازہ کے گھرانے سے ہے۔ شاعر بھی ہیں۔ بیاہ شادیوں پر ان کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ دیگیں پکانے کے لیے بھی۔ سہرا کہنے کے لیے بھی۔

    ہر ترکیب کے بعد مصنّف نے اپنے اشعار بھی درج کیے ہیں جس سے دونوں خصوصیتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ باورچی خانہ کا باورچی خانہ، دیوان کا دیوان۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور طنز و مزاح نگار ابنِ انشا کے شگفتہ مضمون "مکمل باورچی خانہ (جدید)، ایک ریویو” سے)