Tag: طنز نگار

  • آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار

    آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار

    آرٹ بکوالڈ (Art Buchwald) اُن چند عالمی شہرت یافتہ اور مقبول طنز نگاروں میں شامل ہیں جو بامقصد اور تعمیری فکر کو پروان چڑھانے کے لیے قلم سے کام لیتے تھے وہ ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت امریکی اخبار سے 40 سال بطور کالم نویس منسلک رہے۔ بکوالڈ کو امریکی سماج اور سیاست کا ایک ایسا نکتہ چیں کہا جاسکتا ہے جسے عوام اور خواص میں‌ یکساں احترام اور مقبولیت حاصل رہی۔

    طنز نگار آرٹ بکوالڈ زندہ دل بھی تھے اور نکتہ بیں بھی۔ انھیں زندگی کا خوب ادراک تھا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے آرٹ بکوالڈ نے جو کچھ سمجھا اور سیکھا، وہ اپنے کالموں کی شکل میں‌ قارئین تک پہنچایا۔ آرٹ بکوالڈ کی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت نے امریکا، بالخصوص واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو جس خوب صورتی سے اپنی عام تحریروں اور کالموں میں سمویا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ انھیں بہترین طنز نگار مانا جاتا ہے۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ ان کا تعلق نیویارک کے ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ آرٹ بکوالڈ کے والد کو کاروبار میں گھاٹا ہوتا رہا جس کے نتیجے میں یہ کنبہ مشکلات میں گھر گیا۔ آرٹ بکوالڈ کو کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے تھے۔

    بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے آرٹ بکوالڈ نے اپنی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے ہی اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت وہ پیرس میں مقیم تھے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا جب انھوں نے اپنے کالموں میں امریکا کے اعلیٰ طبقات اور اشرافیہ پر طنز کرنا شروع کیا۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    چار دہائیوں کے دوران جہاں آرٹ بکوالڈ نے کالم نگاری کی وہیں ان کی 33 کتابیں بھی شایع ہوئیں اور قارئین نے انھیں پسند کیا۔ آرٹ بکوالڈ کے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات اور ان کے تیکھے جملوں نے سنجیدہ و باشعور امریکی عوام اور دنیا بھر میں اہلِ علم و ادب کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ آرٹ بکوالڈ کا ایک مشہور طنزیہ جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘ ایک سروے کے مطابق صرف امریکا میں آرٹ بکوالڈ کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ ایک عالی دماغ انسان اور طنز نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ جلد وہ دنیا بھر میں پہچانے گئے۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا اور ان کی تحریریں‌ بامقصد اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھاتی تھیں۔

    اس امریکی طنز نگار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 5 سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی جرائد کے لیے کالم اور مضامین لکھتے رہے۔ آرٹ بکوالڈ کی جو تحریریں‌ واشنگٹن پوسٹ کی زینت بنیں، ان میں زیادہ تر سیاسی پارٹیوں، سیاست دانوں، حکومت اور اپنے معاشرے پر گہرا طنز کیا ہے۔ ان کی یہ تحریریں ثابت کرتی ہیں‌ کہ وہ ایک بیدار مغز انسان تھے اور یہی وصف آرٹ بکوالڈ کو ان کے ہم عصروں میں بھی ممتاز کرتا ہے۔

  • آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار، مقبول کالم نویس

    آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار، مقبول کالم نویس

    آرٹ بکوالڈ (Art Buchwald) دنیا کے اُن چند عالمی شہرت یافتہ اور مقبول طنز نگاروں میں شامل ہیں جو امریکا کے ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت اخبار سے 40 سال تک بطور کالم نویس منسلک رہے۔ انھیں امریکی سماج اور سیاست کا ایک ایسا نکتہ چیں کہا جاسکتا ہے جسے عوام اور خواص میں‌ یکساں احترام اور مقبولیت حاصل رہی۔

    طنز نگار آرٹ بکوالڈ زندہ دل بھی تھے اور باریک بیں بھی۔ انھیں زندگی کا خوب ادراک تھا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے آرٹ بکوالڈ نے جو کچھ سیکھا، وہ اپنے کالموں کی شکل میں‌ اپنے قارئین تک پہنچایا۔

    کالم نویس آرٹ بکوالڈ کی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت نے امریکا، بالخصوص واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو جس خوب صورتی سے اپنی عام تحریروں اور کالموں میں سمویا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ دنیا میں لاکھوں لوگ آرٹ بکوالڈ کے مداح ہیں اور انھیں بہترین طنز نگار مانا جاتا ہے۔

    آرٹ بکوالڈ کا قلم 40 سال تک کالم نگاری میں مصروف رہا اور ان کی 33 کتابیں بھی شایع ہوئیں جنھیں قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کالم نگار کی حیثیت سے آرٹ بکوالڈ نے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات پر گہرا طنز کرتے ہوئے ایسے تیکھے جملے تحریر کیے جس نے سنجیدہ، باشعور امریکی عوام اور اہلِ علم و ادب کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ آرٹ بکوالڈ کا ایک مشہور طنزیہ جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘

    ایک سروے کے مطابق صرف امریکا میں آرٹ بکوالڈ کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ ایک عالی دماغ انسان اور طنز نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ عالمی حالات و واقعات میں دل چسپی لینے والے اور باقاعدگی سے انگریزی روزنامے اور مختلف جرائد پڑھنے کے عادی بیرونِ ملک موجود قارئین میں وہ بہت جلد مقبول ہوگئے۔

    اس امریکی طنز نگار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 5 سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی جرائد کے لیے کالم اور مضامین لکھتے رہے۔ آرٹ بکوالڈ کی جو تحریریں‌ واشنگٹن پوسٹ کی زینت بنیں، ان میں زیادہ تر سیاسی پارٹیوں، سیاست دانوں، حکومت اور اپنے معاشرے پر گہرا طنز کیا ہے۔ ان کی یہ تحریریں ثابت کرتی ہیں‌ کہ وہ ایک بیدار مغز انسان تھے اور یہی وصف آرٹ بکوالڈ کو ان کے ہم عصروں میں بھی ممتاز کرتا ہے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اپنے زورِ‌ قلم کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے آرٹ بکوالڈ نے اپنی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے ہی اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت وہ پیرس میں مقیم تھے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا جب انھوں نے اپنے کالموں میں امریکا کے اعلیٰ طبقات اور اشرافیہ پر طنز کرنا شروع کیا۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ ان کا تعلق نیویارک کے ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ آرٹ بکوالڈ کے والد کو کاروبار میں گھاٹا ہوتا رہا جس کے نتیجے میں یہ کنبہ مشکلات میں گھر گیا۔ آرٹ بکوالڈ کو کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے تھے۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کا ایک خاص وصف ارد گرد پھیلے ہوئے عام موضوعات کا انتخاب کرکے اس پر کالم لکھنا تھا۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا اور ان کی تحریریں‌ بامقصد اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھاتی تھیں۔ آج دنیا بھر میں اہلِ قلم آرٹ بکوالڈ کی پیروی کرنے کی کوشش اور ان کے انداز کو اپنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

  • جب دو جواں سال بیٹیوں‌ کی موت کے بعد مارک ٹوین موت کے آگے سپر انداختہ ہوئے!

    جب دو جواں سال بیٹیوں‌ کی موت کے بعد مارک ٹوین موت کے آگے سپر انداختہ ہوئے!

    مارک ٹوین امریکا ایک ادیب، بے باک طنز نگار اور مدرّس تھے جن کی حاضر جوابی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے بچّوں کی کہانیاں اور ناول بھی لکھے جنھیں بہت پذیرائی ملی۔ مارک ٹوین 21 اپریل 1910ء کو چل بسے تھے۔ آج مداح اور ان کے طنزیہ مضامین کے شیدائی مارک ٹوین کی یاد منا رہے ہیں۔

    وہ 1835ء میں امریکی ریاست فلوریڈا میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سیموئل لینگ ہارن کلیمنز تھا اور جہانِ ادب میں انھیں مارک ٹوین کے نام سے شہرت ملی۔ اپنے طنزیہ مضامین کے علاوہ مارک ٹوین نے اپنے ناولوں ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ کی بدولت بہت نام کمایا۔ ان کی یہ کہانیاں دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں جن میں اردو بھی شامل ہے۔ انہی تراجم کی بدولت مارک ٹوین کو برصغیر میں پہچانا گیا اور وہ یہاں بھی قارئین میں مقبول ہوئے۔

    گیارہ سال کی عمر میں مارک ٹوین اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ اس کنبے کو مالی مسائل کا سامنا تھا جس کی وجہ سے مجبوراً مارک ٹوین کو اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ ایک اخبار کے دفتر میں نوکر ہوگئے۔ وہیں کام سیکھنے کے دوران اخبار بینی کتب کے مطالعہ کا موقع ملا جس کے سبب مارک ٹوین کو مختلف علوم میں‌ دل چسپی پیدا ہوئی اور ادب کا شوق پروان چڑھا۔ اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ جب انھوں نے خود لکھنے کے لیے قلم تھاما تو کسے معلوم تھا کہ وہ امریکا بھر میں‌ مشہور ہوجائیں گے۔ انھوں نے اپنی طبیعت کی شوخی اور ظرافت کو تحریروں میں‌ یوں‌ سمویا کہ مقبول ترین مزاح نگاروں میں شمار ہوئے۔ مارک ٹوین کے کئی اقوال بھی مشہور ہیں جنھیں تحریر سے تقریر تک خوبی سے اظہارِ خیال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    مارک ٹوین نہ صرف عوام میں مقبول تھے بلکہ امریکی سیاست دان، بڑے بڑے سرمایہ دار اور فن کار بھی ان سے متأثر تھے اور مارک ٹوین کے احباب میں‌ شامل تھے۔ اپنے دور کے ممتاز ناقدین اور مارک ٹوین کے ہم عصروں نے بھی ان کے تخلیقی جوہر کا اعتراف کیا اور مارک ٹوین کو ان کے منفرد طرزِ فکر اور طنز نگاری پر سراہا۔

    مارک ٹوین کو ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے اور جس طرح اردو ادب میں غالب کی ظرافت اور ان کی شوخ مزاجی مشہور ہے، اسی طرح مارک ٹوین سے بھی کئی واقعات منسوب ہیں جنھیں پڑھ کر ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ یہاں ہم سلام بن رزاق کے ترجمہ کردہ اس مضمون سے چند لطائف نقل کررہے ہیں جو نئی دہلی سے شایع ہونے والے معروف رسالے کھلونا میں‌ شایع ہوا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:

    ‘مارک ٹوین امریکہ کا زبردست مزاح نگار ہو گزرا ہے۔ غالب کی طرح بات میں بات پیدا کرنے میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس کی ہر بات میں عموماً مزاح کا پہلو ہوتا۔’

    اس کے چند لطیفے سنو:
    مارک ٹوین اور اس کے کچھ دوست بیٹھے شیکسپیئر کے ڈراموں پر بحث کر رہے تھے۔ مارک ٹوین کے ایک دوست نے کہا، ’’بھئی ہم نے تو سنا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے دراصل کسی اور کے تھے، شیکسپیئر کے نام سے یوں ہی مشہور ہو گئے ہیں۔ کچھ دوستوں نے اس سے اختلاف کیا۔ بحث طول پکڑتی گئی۔

    مارک ٹوین نے بحث ختم کرنے کے ارادے سے کہا، دوستو بحث چھوڑو، میں جب جنت میں جاؤں گا تب خود سیکسپیئر سے پوچھ لوں گا کہ اس کے ڈراموں کا اصل مصنف کون تھا؟‘‘

    ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا ’’مارک! کیا یہ ضروری ہے کہ شیکسپیئر جنت ہی میں ہو، یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ دوزخ میں پڑا ہو۔‘‘مارک نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’اس صورت میں تم وہاں جا کر پوچھ لینا۔‘‘

    مارک ٹوین نے اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا، ’’میں لڑکپن سے ہی بے حد ایمان دار تھا۔ ایک دن میں اپنے گھر کے سامنے کھیل رہا تھا کہ میرے کان میں آواز آئی، ’’میٹھے سیب دو آنے میں، دو آنے میں۔‘‘ ایک شخص ٹھیلا گاڑی دھکیلتا ہوا سڑک سے گزر رہا تھا۔ گاڑی میں گول گول، سرخ و سپید سیب بڑے پیارے لگ رہے تھے۔ میری جیب میں پیسے نہیں تھے مگر میرا دل سیبوں پر للچا رہا تھا۔ میں نے گاڑی والے کی آنکھ بچا کر ایک سیب اڑا لیا اور بغل کی گلی میں گھس گیا۔ جیسے ہی میں نے سیب پر منہ مارا میرا دل مجھے ملامت کرنے لگا۔ میں بے چین ہو گیا اور دوڑتا ہوا گلی سے باہر نکلا، سیب والے کے پاس پہنچ کر میں نے وہ سیب گاڑی میں رکھ دیا۔ اور اس کی جگہ ایک پکا اور میٹھا سیب اٹھا لیا۔‘‘

    مارک ٹوین کو شام کے وقت ایک لیکچر دینا تھا۔ دوپہر کو وہ بال کٹوانے گیا۔ نائی نے قینچی سنبھالی اور حسبِ عادت زبان بھی قینچی کی طرح چلانے لگا، ’’جناب عالی! آج شام کو مارک ٹوین کا لیکچر ہونے والا ہے۔ کیا آپ نے ٹکٹ خرید لیا ہے؟ نہ خریدا ہو تو خرید لیجیے ورنہ لیکچر کھڑے رہ کر ہی سننا پڑے گا۔‘‘

    مارک ٹوین نے بڑی سادگی اور سنجیدگی سے کہا، ’’بھائی تمہاری رائے کا شکریہ۔ لیکن میں بڑا بدنصیب ہوں کیوں کہ جب بھی مارک ٹوین کا لیکچر ہوتا ہے مجھے تو کھڑا ہی رہنا پڑتا ہے۔‘‘

    کسی نے مارک ٹوین سے پوچھا، بڑی بھول اور چھوٹی بھول میں کیا فرق ہے؟‘‘
    مارک نے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔ ’’دیکھو اگر تم کسی ہوٹل میں چائے پینے کے بعد واپسی میں بھول سے اپنی پرانی چھتری کے بجائے کسی کی نئی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ چھوٹی بھول ہے۔ مگر اس کے برعکس اپنی نئی چھتری کے بجائے کسی کی پرانی چھتری اٹھا لاؤ تو یہ بڑی بھول ہوگی۔‘‘

    عالمی شہرت یافتہ طنز نگار مارک ٹوین کی ذاتی زندگی کے دو بڑے المیے ان کی دو جوان بیٹیوں کی اچانک موت ہیں۔ مارک ٹوین کی 24 سالہ بیٹی سوزی سنہ 1896ء میں انتقال کر گئی تھی۔ بیٹی کی موت کے صدمے سے نڈھال مارک ٹوین کو چند برس بعد 1904ء میں اپنی اہلیہ اولیویا کو بھی کھونا پڑا اور وہ بہت ٹوٹ گئے۔ سنہ 1909ء میں ان کی دوسری بیٹی بھی صرف 29 برس کی عمر میں چل بسی اور اس کے اگلے برس مارک ٹوین بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ حاضر جواب اور برجستہ گو مارک ٹوین کو بابائے امریکی ادب بھی کہا جاتا ہے۔

  • آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جنھوں نے امریکا کے اعلیٰ طبقات کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا

    نکتہ رس اور تیز فہم آرٹ بکوالڈ نے زندگی کا خوب مطالعہ کیا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے جو کچھ حاصل کیا، اسے اپنے کالموں کے ذریعے قارئین تک پہنچا دیا۔ انھیں امریکی سماج اور سیاست کا نکتہ چیں کہہ سکتے ہیں۔

    آرٹ بکوالڈ (art buchwald) مشہور کالم نویس تھے۔ وہ اپنی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت کے زیرِ اثر واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو اس خوب صورتی سے اپنی تحریر میں سموتے تھے کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ لاکھوں لوگ آرٹ بکوالڈ کے مداح تھے۔ دنیا بھر میں انھیں بہترین طنز نگار مانا گیا۔

    بکوالڈ نے امریکا کے ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت اخبار کے لیے 40 سال تک کالم لکھے جو ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئے۔ آرٹ بکوالڈ کی کتابوں کی تعداد 33 تھی۔

    کالم نگار کی حیثیت سے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات کے ساتھ آرٹ بکوالڈ کو ان کے گہرے طنزیہ اور تیکھے جملوں نے امریکیوں میں مقبول بنایا۔ ان کا ایک مشہور جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘

    صرف امریکا میں ان کے مداح لاکھوں میں تھے۔ بعد میں انھیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایک طنز نگار کے طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ بکوالڈ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پانچ سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی اخبارات میں لکھتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں بکوالڈ کی شایع شدہ تحریروں پر نظر ڈالیں تو وہ سیاست اور سماج پر گہری چوٹ کرتے ہیں جس نے انھیں ایک بیدار مغز قلم کار کی حیثیت سے ہم عصروں میں بھی ممتاز کیا۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اپنا زورِ‌ قلم اور طنز و مزاح کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے بکوالڈ نے اپنی وفات سے ایک برس قبل اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں اس وقت شائع ہوا جب وہ پیرس میں رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے بعد میں وطن واپس آکر اخبارات کے لیے ہزاروں کالم لکھے جس میں خاص طور امریکا میں اعلیٰ طبقے اور اشرافیہ پر گہرا طنز ملتا ہے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ نیویارک کے ایک یہودی گھرانے کے فرد تھے۔ اپنے والد کے کاروبار میں ناکامی کے بعد انھیں کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ارد گرد بکھرے ہوئے موضوعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے اور اپنے مختصر جملوں میں چونکا دینے والی باتیں کر جاتے۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا جو طنز مزاح کی چاشنی میں‌ ڈھل کر بلیغ و بامقصد ہوجاتا۔ آرٹ بکوالڈ کی شہرت اور مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور اہلِ قلم اور کالم نگار ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  • امریکا کے مشہور طنز نگار، بذلہ سنج اور حاضر جواب مارک ٹوین کا تذکرہ

    امریکا کے مشہور طنز نگار، بذلہ سنج اور حاضر جواب مارک ٹوین کا تذکرہ

    دنیا بھر میں مارک ٹوین کی وجہِ شہرت ان کی طنز نگاری ہے۔ انھیں ایک ناول نگار اور مدرّس کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ مارک ٹوین کی زندگی کا سفر 21 اپریل 1910ء میں ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا تھا۔ آج علم و ادب کے شیدا اور مارک ٹوین کے جوہرِ تخلیق کے معترف ان کی یاد منا رہے ہیں۔

    1835ء میں فلوریڈا میں پیدا ہونے والے سیموئل لینگ ہارن کلیمنز کو جہانِ ادب میں مارک ٹوین کے نام سے شہرت ملی۔ انھیں ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے جن کے ناولوں ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ کو بہت پذیرائی ملی اور یہ شائقینِ ادب میں مقبول ہوئے۔

    مارک ٹوین گیارہ سال کی عمر میں اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ انھیں مالی مسائل کی وجہ سے مجبوراً اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ ایک اخبار کے دفتر میں کام سیکھنے لگے۔ وہیں اخبار بینی کے ساتھ مارک ٹوین کو مختلف علوم اور ادب کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ اسی ذوق و شوق کے ساتھ جب انھوں نے لکھنے کے لیے قلم تھاما تو ان کا شمار مقبول ترین مزاح نگاروں میں ہونے لگا۔ مارک ٹوین کے کئی اقوال بھی مشہور ہیں اور آج بھی تحریر سے تقریر تک اظہارِ خیال کے لیے ان کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ اقوال پڑھے اور شایع کیے جاتے ہیں۔

    مارک ٹوین نہ صرف عوام میں مقبول تھے بلکہ سیاست دانوں، صنعت کاروں اور فن کاروں سے بھی ان کے گہرے مراسم اور تعلقات تھے جو ان کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے بے حد متاثر تھے۔ مارک ٹوین کو ناقدین اور ہم عصروں میں ان کے منفرد طرزِ فکر اور طنز و مزاح کے سبب بہت سراہا گیا۔

    اس امریکی طنز نگار کی ذاتی زندگی میں کئی الم ناک موڑ بھی آئے جن میں مالی خسارے کے ساتھ ٹوین کی بیٹیوں اور اہلیہ کی موت ایسے صدمات تھے جنھوں نے انھیں توڑ کر رکھ دیا اور دوسری بیٹی کی وفات کے اگلے ہی برس وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔