Tag: طنز و مزاح

  • ماہر چور اور اصلاحِ احوال

    ماہر چور اور اصلاحِ احوال

    آپ یقین مانیے کہ اگر مذہبی قیود، سماجی ذمہ داریاں اور ذاتی وقعت کا خیال لوگوں کے دلوں سے نکال دیا جائے تو آپ کو یہ جتنے شریف صورت انسان نظر آ رہے ہیں، ان کے کارناموں سے شیطان بھی پناہ مانگے اور یہ لوگ وہ حشر بپا کر دیں کہ دنیا دوزخ کا نمونہ بن جائے۔

    یہ تو شاید آپ بھی مانتے ہوں گے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ خطاب اس کو محض اس کی دماغی قوتوں کی وجہ سے ملا ہے۔ چونکہ شیطان اور اس کی ذریات یقیناً اشرف المخلوقات کے زمرے سے خارج ہیں، اس لئے ماننا پڑے گا کہ ان کے سروں میں دماغ نہیں ہے اور جب دماغ ہی نہیں ہے تو وہ کسی طرح بھی سوچ سوچ کر وہ بد معاشیاں نہیں کر سکتے جو انسان کر سکتا ہے اور جو جو باتیں دماغ سے اتار کر یہ کر جاتا ہے وہ فرشتہ تو کیا حضرت عزرائیل کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آ سکتیں۔

    اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر واقعات کسی شخص کو نیک سے بد اور اچھے سے برا کر سکتے ہیں تو کیا واقعات کسی بدمعاش کو نیک معاش بھی بنا سکتے ہیں۔ اس بارے میں میری اور دنیا کی بعض قابل احترام ہستیوں کی رائے میں اختلاف ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ چیز ممکن ہے وہ کہتے ہیں کہ برائی کا مادّہ پختہ ہو کر کوئی بیرونی اثر قبول نہیں کر سکتا۔ یہ وہ بحث ہے جس کے سلسلے میں اپنی زندگی کے بعض حالت لکھ کر میں آپ کی رائے کا طالب ہوں۔ مگر خدا کے لیے رائے ظاہر کرتے وقت آپ صرف واقعات کو دیکھیے اور اس کا خیال نہ کیجیے کہ ایک طرف تو ایک ایسے شخص کی رائے ہے جس کی تمام عمر بدمعاشیاں کرتے گزری ہے اور دوسری طرف ان لوگوں رائے ہے جن کی عزت دنیا میں ہر شخص کے دل میں ہے اور جن کے قول آپ حدیث اور آیت کے ہم پلہ سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی بتائیے کہ کیا طریقے ہو سکتے ہیں جو پختہ کار بدمعاشوں کو راہِ راست پر لا سکیں اور ان کی اصلاح حال کر سکیں۔

    اس سے غرض نہیں کہ میں کہاں پیدا ہوا اور کب پیدا ہوا۔ اس سے مطلب نہیں کہ میں کس خاندان میں پیدا ہوا۔ میرا نام کیا رکھا گیا اور میں نے اس ایک نام کے رفتہ رفتہ کتنے نام کر لیے۔ ہمارے گرد و پیش کے واقعات سمجھنے کے لیے بس اتنا جاننا کافی ہے کہ ہم پیدا ہوئے اور ایسے والدین کے ہاں پیدا ہوئے کہ جناب والد صاحب قبلہ سخت شرابی اور بے فکرے تھے اور ہماری اماں بالکل اپاہج۔ گھر میں پہلے کچھ جمع پونجی ہو تو ہو لیکن جب سے ہوش سنبھالا، ہم نے تو یہاں خاک ہی اڑتے دیکھی۔ ہم کو اب تک یہ معلوم نہیں کہ آخر گھر کا خرچ چلتا تھا تو کیوں کر چلتا تھا۔ آٹھ نو برس تک ہماری عمر لونڈوں میں گیڑیاں اور گلی ڈنڈا کھیلنے، بدمعاشیاں کرنے اور شہر بھر کے گلی کوچوں کی خاک چھاننے میں گزری۔

    کوئی ہم دس برس کے ہوں گے کہ والدہ صاحبہ نے گھر کا خرچ چلانے کا آلہ ہم کو بنایا۔ یعنی چوری کرنے کی ترغیب دی اور اس طرح ہم نے چوری کی۔ بسم اللہ سامنے کے گھر والے مولوی صاحب کے مرغے سے کی لیکن وہ مرغا بھی آخر مولوی صاحب کا مرغا تھا۔ ادھر ہم نے اس پر ہاتھ ڈالا اور ادھر اس نے غل مچا کر سارے محلّے کو جمع کر لیا۔ مولوی صاحب بھی باہر نکل آئے۔ مرغے کو ہماری بغل سے رہائی دلائی۔ ہمارے دو تین چپت رسید کیے۔ خوب ڈانٹا۔ ہماری اماں سے شکایت کی اور ڈرامے کا یہ سین ختم ہو گیا۔ ہماری عمر کا لحاظ کرتے ہوئے کسی کو یہ خیال بھی نہیں گزرا کہ ہم نے چوری کی نیّت سے یہ مرغا پکڑا تھا۔ یہ سمجھے کہ جس طرح بچّے جانوروں کو ستاتے ہیں، اسی طرح اس نے بھی کیا ہوگا۔ چلیے گئی گزری بات ہوئی۔

    ہم روتے ہوئے اماں کے پاس آئے۔ انہوں نے ہم کو ایک ایسی ترکیب بتا دی کہ اب کہو تو سارے شہر کی مرغیاں پکڑ لاؤں اور کیا مجال ہے کہ ایک بھی ذرا چوں کر جائے۔ خیر وہ ترکیب بھی سن لیجیے۔ مگر للہ اس پر عمل نہ کیجیے، ورنہ یاد رکھیے کہ چوری کا جو مادّہ فطرت نے آپ کو ودیعت کیا ہے اس میں ہیجان پیدا ہو جائے گا اور ممکن ہے آپ بھی مرغے چور ہو جائیں۔

    یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ مرغی پر اگر پانی کی ایک بوند بھی پڑ جائے تو وہ سکڑ کر وہیں بیٹھ جاتی ہے اور چاہے مار بھی ڈالو تو آواز نہیں نکالتی اور اسی سے ’’بھیگی مرغی‘‘ کا محاورہ نکلا ہے۔ فطرت کے مطالعے نے چوروں کو سکھا دیا ہے کہ مرغیوں کے چرانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کو کسی طرح گیلا کر دیا جائے۔ وہ کیا کرتے ہیں کہ جہاں کسی مرغی کو اپنے موقع پر دیکھا اور چپکے سے گیلا کپڑا اس پر ڈال دیا۔ ادھر گیلا کپڑا پڑا اور ادھر وہ دبکی۔ انہوں نے اٹھا کر بغل میں دبایا اور چلتے بنے۔ اب مرغی ہے کہ آنکھیں بند کیے سکڑی سکڑائی بغل میں دبی چلی جا رہی ہے۔ نہ کڑ کڑاتی ہے اور نہ منہ سے آواز نکالتی ہے۔ بہر حال یہ طریقہ سیکھ ہم نے سب سے پہلے مولوی صاحب کے مرغے پر ہی ہاتھ صاف کیا۔ اس روز بہت دنوں کے بعد ہمارے ہاں مرغ کا سالن پکا اور سب نے بڑے مزے سے اڑایا۔ مرغ کے بال و پر سب گڑھا کھود کر گھر ہی میں دفن کر دیے۔

    بات یہ ہے کہ بچّے کو جو چیز سکھائی جاتی ہے وہ جلد سیکھ جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اپنے ہاتھ کی چالاکی دکھا کر لوگوں کو بتائے کہ ہم کسی کارروائی میں بڑوں سے دب کر رہنے والے نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم نے بھی مرغیاں پکڑنے کا تانتا باندھ دیا۔ شاید ہی کوئی منحوس دن ہوتا ہوگا جو ہم مرغیاں پکڑ کر نہ لاتے ہوں۔ کچھ دنوں تو یہ مرغیاں صرف ہمارے کھانے میں آتی رہیں۔ اس کے بعد ان کی تجارت شروع کی۔ یہاں کی مرغی پکڑی وہاں بیچ دی۔ وہاں کی مرغی لائے یہاں فروخت کر دی۔ غرض ہمارے بل پر گھر کا خرچ چلنے لگا۔ گھر کے خرچ سے جو کچھ بچتا وہ والد صاحب قبلہ مار پیٹ کر لے جاتے اور مفت کی شراب اڑاتے۔

    اسی آوارہ گردی میں ہماری ملاقات ایسے لوگوں سے ہو گئی جو چوری میں مشاق تھے۔ ان میں بعضے ایسے تھے جو قید خانے کی ڈگریاں بھی حاصل کر چکے تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی صحبت میں ہم کو مزہ آنے لگا۔ ہم اپنے کارنامے بیان کرتے وہ اپنے قصے سناتے۔ ہمارا شوق بڑھتا اور جی چاہتا کہ کچھ ایسا کام کرو جو یہ بھی کہیں کہ ’’واہ میاں صاحب زادے تم نے تو کمال کر دیا۔‘‘ غرض’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔‘‘ کے خیال نے ہم کو مرغی چور سے پکا چور کر دیا۔ پہلے جیب کترنے کی مشق کی۔ گندہ بروزہ مل مل کر انگلیوں کی کگریں ایسی سخت کر لیں کہ مضبوط سے مضبوط اور موٹے سے موٹے کپڑے کو چٹکی میں لیا، ذرا مسلا اور جیب ہاتھ میں آ گئی۔ ہوتے ہوتے انگلیاں ایسا کام کرنے لگیں کہ قینچی بھی کیا کرے گی۔ جب اس میں کمال حاصل ہوگیا تو پھر قفل شکنی کی مشق بہم پہنچائی۔

    قفل دو طرح سے کھولے جاتے ہیں۔ یا کنجیوں سے یا تار سے۔ اب یہ چور کا کمال ہے کہ قفل کو دیکھتے ہی اپنے لچھے میں سے کنجی ایسی نکالے جو قفل میں ٹھیک بیٹھ جائے، اور تار کو اس طرح موڑ کر ڈالے کہ پہلے ہی چکر میں سب پتلیاں ہٹ کر کھٹ سے قفل کھل جائے۔ کچھ خدا کی دین تھی کہ مجھے اس کام میں یدِ طولٰی حاصل ہو گیا۔ معمولی قفل تو درکنار، چپ کے کارخانے کا قفل بھی میں ایک منٹ میں کھول دیتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ شہر کے بڑے بڑے چور بھی میری خوشامد کرتے۔ سب سے بڑا حصہ دیتے۔ اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر مجھے ساتھ لے جاتے مگر میں سوائے قفل کھول دینے کے چوری سے کچھ غرض نہ رکھتا تھا۔ قفل کھولا اور چلا آیا۔ یار لوگوں نے چوری کا مال فروخت کیا اور میرا حصہ چپکے سے میرے پاس بھیج دیا۔ میرے ساتھی اکثر گرفتار ہوئے جیل گئے لیکن میرا نام کبھی عدالت کے سامنے نہیں آیا اورمیں باوجود سیکڑوں وارداتوں میں حصہ لینے کے بچا رہا۔

    ہوتے ہوتے میرے ہاتھ کی صفائی نے وہ نام پیدا کیا کہ مجھے شہر بھر کے چوروں نے اپنا سردار بنا لیا۔ کوئی بڑی واردات نہ ہوتی تھی جس میں مجھ سے مشورہ نہ کیا جاتا ہو۔ کوئی بڑی چوری نہ ہوتی تھی جس کا میں نقشہ نہ ڈالتا ہوں اور کوئی مقدمہ نہ ہوتا تھا جس میں میری ذہانت سے مدد لے کر ملز مین رہا نہ ہوتے ہوں۔ بڑے بڑے گھاگ جیب کترے میرا لوہا مانتے تھے اور بڑے بڑے دیہاڑی چور میرے مشورے بغیر کسی کام میں ہاتھ نہ ڈالتے تھے۔

    میری عمر کوئی اٹھارہ انیس سال کی ہو گی کہ اخبار ’’حفاظت‘‘ میں ایک اشتہار میری نظر سے گزرا۔ ہمارے ملک کے ایک بہت بڑے ادیب مسٹر مسعود نے لکھا تھا کہ ’’میں ایک ناول لکھنا اور چوری کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اگر اس فن کا کوئی ماہر میری مدد کرے تو میں اس کو مناسب معاوضہ دینے پر بھی تیار ہوں۔‘‘ آپ جانتے ہیں کہ ہر شخص اپنے کارناموں پر فخر کرتا اور ان کو مشتہر کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک انسانی کمزوری ہے اور اس سے کوئی فرد بشر خالی نہیں ہے۔ خیر انعام و اکرام کا تو مجھے فکر نہ تھا۔ ہاں میرے دل نے کہا کہ ذرا ان صاحب سے چل کر مل لو اور دیکھو کہ ہیں یہ کتنے پانی میں۔ چوروں کے قصے لکھ لکھ کر یہ اتنے مشہور ہو گئے ہیں لیکن یہ جانتے بھی ہیں کہ چور کیسے ہوتے ہیں اور چوری کس طرح کرتے ہیں۔

    خطرہ ضرور تھا مگر میرے شوق نے مجھے اس قدر گھیرا کہ میں آخر شریفوں کی سی شکل بنا ان کے پاس پہنچ ہی گیا۔

    کیا دیکھتا ہوں کہ ایک خوبصورت نوجوان سا شخص سامنے کھڑا مسکرا رہا ہے۔ آنکھوں میں ذہانت اور چہرہ پر متانت کے ساتھ شوخی اور لباس میں سادگی کے ساتھ صفائی ہے۔ آتے ہی ہاتھ بڑھایا اور کہا، ’’معاف کیجیے گا میں نے آپ کو نہیں پہچانا۔‘‘ میں نے کہا، ’’میں آپ ہی کی طلبی پر حاضر ہوا ہوں۔ آپ ہم لوگوں کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ میں آپ کی اس خواہش کو پورا کر سکوں۔‘‘

    کہنے لگے ’’اوہو۔ آپ میرے اشتہار کے جواب میں تشریف لائے ہیں۔ ذرا ٹھہریے۔ میں ابھی اپنی موٹر لاتا ہوں۔ ایسی باتیں کرنے کے لئے یہ جگہ مناسب نہیں ہے۔ کہیں سوفتے میں بیٹھ کر گفتگو کریں گے۔ مجھے آپ سے بہت کچھ پوچھنا ہے۔ ممکن ہے کہ ہماری یہ گفتگو دونوں کے لئے فائدہ بخش ہو۔‘‘

    وہ تو یہ کہہ کر چلے گئے اور مجھے خیال ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ حضرت مجھے گرفتار کرا دیں۔ پھر سوچا کہ مجھ پر الزام ہی کیا ہے جو میں ڈروں۔ اور ان کو میرے حالات ہی کیا معلوم ہیں جو مجھے کچھ اندیشہ ہو۔ اگر گڑبڑ ہوئی بھی تو خود انہی کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ موٹر لے آئے اور میں ’’ہر چہ باد باد ما کشتی در آب انداختیم‘‘ کہتا ہوا ان کے ساتھ سوار ہو گیا۔

    موٹر فراٹے بھرتی شہر سے گزر آبادی کو پیچھے چھوڑ، جنگل میں سے ہوتی ہوئی ایک ندی پر پہنچی۔ مسٹر مسعود نے موٹر روکی۔ ہم دونوں اترے۔ چائے کا سامان نکالا گیا اور ندی کے کنارے دستر خوان بچھا کر ہم دونوں بیٹھے۔ اب کھاتے جاتے ہیں اور باتیں ہوتی جاتی ہیں۔

    مسٹر مسعود نے کہا کہ ’’معاف کیجیے میں آپ کا نام نہیں جانتا اس لئے آپ کو گفتگو میں صرف ’’مسٹر‘‘ کہوں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ کے حالات شاید اس کی اجازت نہ دیں کہ آپ اپنا نام کسی اجنبی شخص پر ظاہر کریں۔ اور اگر آپ نے ظاہر کیا بھی تو وہ یقیناً آپ کا اصلی نام نہ ہوگا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ صرف لفط ’’مسٹر‘‘ سے ان تمام دقتوں کو رفع کیا جائے۔

    اس سے تو آپ مطمئن ہو گئے ہوں گے کہ میں آپ کو ایسی جگہ لایا ہوں جہاں کوئی شخص چھپ چھپا کر ہماری باتیں نہیں سن سکتا۔ اور میں نے یہ صرف اس لیے کیا ہے کہ آپ کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ میں آپ کے واقعات سننے میں کسی دوسرے کو شریک کر کے گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ اب ہم نہایت اطمینان سے گفتگو کر سکتے ہیں۔ آپ کا جو جی چاہے مجھ سے پوچھیے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ہر چیز صاف دلی سے بیان کروں گا اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی میرے سوالوں کے جواب میں سچائی کا پہلو اختیار کریں گے اور اس طرح ممکن ہے کہ یہ صحبت ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا دوست اور پکا دوست بنا دے۔

    مسٹر مسعود کی آواز میں کچھ ایسا لوچ، الفاظ میں کچھ ایسی شیرینی، نگاہ میں کچھ ایسی محبت اور گفتگو میں کچھ ایسی دل چسپی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ تمام اندیشے ہوا ہو گئے جو مجھ جیسے شخص کے دل میں پیدا ہوئے تھے۔ اور پیدا ہونے لازمی تھے اور یہ پہلا موقع تھا کہ میرے دل میں کسی شخص کی وقعت قائم ہوئی۔ اور خود اپنے متعلق بھی سمجھا کہ میں بھی آدمی ہوں اور ایک شریف آدمی بن سکتا ہوں۔ باتوں باتوں میں یہ بھی معلوم ہوا کہ مسٹر مسعود کو ابتدا ہی سے مجھ جیسے لوگوں سے ملنے کا شوق ہے اور وہ کوئی کتاب نہیں لکھتے جب تک اس کی بنا واقعات پر نہ ہو۔ ان کو بہت سے بدمعاشوں نے دھوکے بھی دیے اور دوستی کی آڑ میں ان کو خوب لوٹا۔ یہاں تک کہ کئی دفعہ تو خود ان کے گھر میں چوری کی اور مزہ یہ ہے کہ خود اس چوری کا حال ان سے بیان بھی کر دیا مگر اس اللہ کے بندے نے نہ کبھی کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی اور نہ کبھی کوئی شکوہ و شکایت زبان پر لایا۔

    مجھے یہ معلوم کر کے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ اور تو اور، خود میرے حالات سے پوری طرح واقف ہیں۔ انہوں نے اپنا جال کچھ اس طرح پھیلایا تھا کہ کوئی واردات نہ ہوتی ہوگی جس کا رتی رتی حال ان کو نہ معلوم ہو جاتا ہو۔ اور کوئی مشہور چور یا ڈاکو ایسا نہ تھا جس کو وہ ذاتی طور پر نہ جانتے ہوں، اور ضرورت کے وقت اس کی مدد نہ کرتے ہوں۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ ضرورت اکثر لوگوں کو چوری کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے لیکن رفتہ رفتہ گرد و پیش کے واقعات جال بن کر ان کو اس طرح پھنسا لیتے ہیں کہ وہ جتنا نکلنا چاہتے ہیں اتنی ہی جال کی رسیاں ان کو کستی چلی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ کسی جیل خانے میں مر کر رہ جاتے ہیں یا ضمیر کی ملامت کسی مرض میں مبتلا کر کےان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔

    مسٹر مسعود جیسے شخص کے ساتھ دل کھول کر گفتگو نہ کرنا واقعی ظلم تھا۔ میں نے بھی اپنے اگلے پچھلے واقعات سب بیان کر دیے۔ چوری کرنے کی ترکیبیں بتائیں۔ قفل کھولنے کے طریقے بتائے۔ اپنے ساتھیوں کے قصے بیان کیے۔ غرض کوئی تین چار گھنٹے اسی قسم کی گفتگو میں گزر گئے۔ شام ہو گئی تھی اس لیے ہم دونوں اٹھے۔ شہر کے کنارے پر انہوں نے مجھے موٹر سے اتار دیا۔ دوسرے دن ملنے کا وعدہ لیا اور اس طرح ہم دونوں کی گفتگو کا سلسلہ کوئی مہینہ بھر چلتا رہا۔ انہوں نے مجھے معقول معاضہ دینا بھی چاہا لیکن میں نے لینے سے انکار کر دیا۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے، ’’مسٹر اب معلوم نہیں آئندہ ہمارا ملنا ہو یا نہ ہو لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ آپ کی صحبت میں جو مزہ مجھے آیا ہے، وہ شاید ہی کسی کی صحبت میں آیا ہو۔ میرا ارادہ ہے کل یہاں سے چلا جاؤں گا۔ اس لئے یہ سمجھنا چاہیے کہ آج میری اور آپ کی آخری ملاقات ہے۔

    ایک دن میں نے اخبار میں پڑھا کہ قفلوں کے ایک بڑے کارخانے میں ایک کاریگر کی ضرورت ہے۔ اسّی روپے تنخواہ ملے گی مگر انہی لوگوں کو درخواست دینی چاہیے جو قفلوں کی پتلیوں کو سمجھتے ہوں اور ان میں ایجاد کرنے کا مشورہ دے سکتے ہوں۔ مجھ کو آتا ہی کیا تھا، اگر کچھ آتا تھا تو انہی پتلیوں کا الٹ پھیر۔ دل میں آیا کہ چلو یہاں قسمت آزمائی کریں۔ جیب جو ٹٹولی تو کرایہ تک پاس نہ تھا۔ اللہ کا نام لے کر پیدل چل کھڑا ہوا۔

    سو میل کا فاصلہ چار دن میں طے کیا۔ کارخانے میں پہنچا۔ میری زدہ حالت دیکھ کر کسی نے منہ نہ لگایا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ جگہ بھر چکی ہے۔ کارخانے کی سیڑھیوں پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر نہ ہوئی تھی کہ خدا کی قدرت سے کارخانے کے مالک وہاں سے گزرے۔ مجھے سر پکڑے بیٹھا دیکھ کر وہیں ٹھہر گئے۔ مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ کون ہیں اور یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘

    میں نے اپنے پیدل آنے کا قصہ بیان کیا۔ ان پر اس کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ مجھے لے کر کارخانے میں گئے۔ ایک بڑی تجوری رکھی تھی۔ کہنے لگے، ’’ذرا بتاؤ تو سہی کہ اس میں کتنی پتلیاں ہیں۔ ہمارے کار خانے کا دعویٰ ہے کہ اسے کوئی نہیں کھول سکتا۔‘‘ میں نے ان سے ایک موٹا تار مانگا۔ قفل کے سوراخ میں ڈال کر گھمایا اور کہا کہ’’اس میں گیارہ پتلیاں ہیں اور اس کے کھولنے کے لیے دو کنجیاں چاہییں۔ لیکن اگر آپ کہیں تو اسی تار سے میں اس کو کھول دوں۔‘‘

    میں نے تار کو ذرا موڑ کر دو چکر دیے۔ قفل کھٹ سے کھل گیا۔ یہ دیکھ کر تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کہنے لگے، ’’کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس میں اور کیا ترمیم کی ضرورت ہے جو قفل بغیر کسی کنجی کے نہ کھل سکے۔‘‘ میں نے اپنے تجربے کے لحاظ سے ان کو پتلیوں کی ترتیب بتائی۔ یہ سن کر تو وہ ایسے خوش ہوئے کہ وہیں کھڑے کھڑے اسّی روپے پر مجھے نوکر رکھ لیا۔ اس کے بعد میں نے اتنی محنت سے کام کیا اور قفلوں میں وہ ایجادیں کیں کہ تھوڑے ہی دنوں میں وہ کارخانہ کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ میری تنخواہ بڑھ کر تین سو روپے ہو گئی۔ دوسرے کارخانے والوں نے مجھے توڑنا بھی چاہا لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ جس شخص نے مصیبت میں میری مدد کی تھی اس کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ غرض یہ کہ تمام ملک میں ہمارے کارخانے کی دھاک بیٹھ گئی۔ جب اس طرح اطمینان ہو گیا، تو میں نے گھر بسانے کا ارادہ کیا۔ شادی بھی ٹھہر گئی لیکن عین وقت پر از غیبی گولہ پڑا۔

    ہوا یہ کہ ہمارے شہر میں’’چور اور چوری‘‘ پر ایک لیکچر کا اشتہار دیا گیا۔ میں نے سوچا کہ چلو دیکھیں کہ یہ لیکچرار صاحب اس پیشے کے متعلق کیا جانتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ وقت مقررہ پر جو میں جلسہ میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہزاروں آدمیوں کا مجمع ہے۔ سیکڑوں اخباروں کے نمائندے فوٹو کے کیمرے لیے موجود ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر ان بھلے آدمیوں کو چوروں سے کچھ ایسی دلچسپی ہے جو اپنا سارا کاروبار چھوڑ کر یہاں جمع ہوئے ہیں۔ بہرحال چار بجے کے قریب مقرر صاحب تشریف لائے۔ ان کے خیر مقدم میں تالیوں کا وہ شور اور ہرے ہرے کا وہ غل ہوا کہ زمین آسمان ہل گئے۔ وہ بھی نہایت شان سے چبوترہ پر آئے۔ اب جو دیکھتا ہوں تو یہ تو میرے پرانے دوست مسٹر مسعود ہیں۔ میں نے کہا، ’’لو بھئی اچھا ہوا، اب ان کو بتاؤں گا کہ حضرت مجھے دیکھ کر آپ اندازہ کیجیے کہ میں صحیح کہتا تھا یا آپ صحیح کہتے تھے۔ میں پہلے کیا تھا اور اب کیا ہوں۔ آخر میری اصلاح حال ہوئی یا نہیں۔‘‘

    خیر لیکچر شروع ہوا۔ مسٹر مسعود نے چوروں کی ٹولیوں کے، ان کے رہنے سہنے کے، ان کے چوری کرنے کے، ان کے خیالات کے غرض ان کی زندگی کے ہر پہلو کا نقشہ اس خوبی سے کھینچا کہ دل خوش ہو گیا۔ اور اس وقت معلوم ہواکہ واقعی مطالعۂ زندگی اس طرح کیا جاتا ہے اور تجربات کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔ اپنے لیکچر کے آخر میں انہوں نے وہی پرانی بحث چھیڑی کہ ’’جس شخص کو چوری کا مرض پڑ گیا ہو کیا اس کی اصلاح حال کی جا سکتی ہے؟‘‘ اور اپنی وہی پرانی رائے ظاہر کی کہ ’’یہ مرض پختہ ہو کر عادت ثانی ہو جاتا ہے۔ اور عادت ثانی کا چھڑانا ناممکن ہے۔‘‘ لیکچر ختم ہونے کے بعد مجھ سے نہ رہا گیا اور میں سیدھا لیکچرار صاحب کے چبوترے پر پہنچا۔ انہوں نے مجھ کو ذرا غور سے دیکھا لیکن یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ کون شخص ہے۔

    مجھ کو لیکچر وکچر دینا تو آتا نہیں۔ ہاں میں نے سیدھی سیدھی زبان میں کہا، ’’معزز حاضرین! ہمارے کرم فرما مسٹر مسعود نے آخر میں جو کچھ کہا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی دریافت میں کوئی ایسا چور نہ ملا ہو جو راہ راست پر آیا ہو۔ لیکن میرا تجربہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ بد سے بد تر شخص کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ خواہ اس کو مسٹر مسعود مانیں یا نہ مانیں۔‘‘ میں یہیں تک کہنے پایا تھا کہ جلسہ میں غل مچ گیا۔ کوئی کہتا، ’’حضرت آپ کے دماغ کا علاج کرائیے۔‘‘ کوئی کہتا، ’’آپ کی فصد لیجیے۔‘‘ غرض کیسا سننا اور کیسا سمجھنا۔ ایک طوفان بے تمیزی برپا ہو گیا۔ مسٹر مسعود تو سوار ہو کر چل دیے اور مجھے اخبار کے نمائندوں نے گھیر لیا۔ بیسیوں فوٹو لیے گئے۔ہزاروں سوالات کیے گئے۔

    میں نے پوچھا، ’’بھائیو یہ کیا معاملہ ہے۔ آخر میں نے ایسی کون سی عجیب بات کہی ہے جو مجھے یوں دیوانہ بنا لیا ہے۔‘‘ آخر بڑی مشکل سے ایک صاحب نے کہا، ’’حضرت معلوم بھی ہے کہ آپ نے کس شخص کی تردید کی ہے۔ مسٹر مسعود وہ شخص ہیں کہ جرائم پیشہ لوگوں کی واقفیت کے متعلق تمام دنیا ان کا لوہا مانتی ہے۔ آپ کے سوا اس شہر میں تو کیا ساری دنیا میں کوئی نہ ہوگا کہ مسٹر مسعود ان لوگوں کے بارے میں کچھ فرمائیں اور وہ آمنّا اور صدقنا نہ کہے۔ خیر اور کچھ نہیں تو یہ ضرور ہوگا کہ ساری دنیا میں شہرت ہو جائے گی کہ آج بھرے جلسے میں ایک صاحب نے مسٹر مسعود پراعتراض ٹھونک دیا۔‘‘ میں پریشان تھا کہ یا میرے اللہ یہ عجیب بات ہے کہ یہ دنیا والے جب کسی کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں تو پھر اس کے خلا ف کچھ سننا ہی نہیں چاہتے اور اس کی صحیح اور غلط ہر بات پر سر تسلیم جھکا دیتے ہیں۔

    چار روز بھی نہیں گزرتے تھے کہ ملک کے سارے اخباروں میں اس جلسے کی کیفیت اور میری تقریر چھپ گئی۔ ہر اخبارمیں میری تصویر تھی اور اس کے نیچے لکھا تھا کہ ’’آپ فلاں شہر میں لوہار ہیں۔ اور چوروں کے اصلاح حال کے بارے میں مسٹر مسعود کی رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔‘‘ غرض کوئی پرچہ نہ تھا جس میں مجھے خوب نہ بنایا گیا ہو، اور میرا مذاق نہ اڑایا گیا ہو۔ جو پرچہ چھپتا اس کی ایک کاپی میرے پاس بھی آتی۔ میں دیکھتا اور ہنس کر خاموش ہو جاتا۔ لوگوں کی اس بے ہودگی کی تو مجھے پروا نہ تھی لیکن غضب یہ ہوا کہ یہ اخبار میرے قدیم ہم پیشہ لوگوں کے ہاتھوں میں بھی پڑے۔ وہ پہلے سے میری تلاش میں تھے، اور پیشہ چھوڑنے کی وجہ سے مجھ سے بدلہ لینا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ کیا کہ میرے سابقہ حالات اخباروں میں چھپوا دیے۔ اور دنیا کو بتا دیا کہ جن صاحب نے مسٹر مسعود کی مخالفت کی ہے وہ خود بڑے دیہاڑی چور ہیں۔ اور اس لیے ان کی رائے کسی طرح بھی مسٹر مسعود کی رائے سے کم وقعت نہیں رکھتی۔

    ان حالات کا چھپنا تھا کہ سارے ملک میں اودھم مچ گیا ور جو عزت میں نے اپنی محنت، کار گزاری اور دیانت سے حاصل کی تھی وہ سب خاک میں مل گئی۔

    (اردو کے مقبول مزاح نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی ایک شگفتہ تحریر سے اقتباسات)

  • پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    آج کل شہر میں جسے دیکھو، پوچھتا پھر رہا ہے کہ غالب کون ہے؟ اس کی ولدیت، سکونت اور پیشے کے متعلق تفتیش ہو رہی ہے۔

    ہم نے بھی اپنی سی جستجو کی۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری کو کھولا۔ اس میں غالب آرٹ اسٹوڈیو تو تھا لیکن یہ لوگ مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھنے اور سکھانے والے نکلے۔ ایک صاحب غالب مصطفے ہیں جن کے نام کے ساتھ ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ لکھا ہے۔ انہیں آٹے دال کے بھاؤ اور دوسرے مسائل سے کہاں فرصت ہو گی کہ شعر کہیں۔ غالب نور اللہ خاں کا نام بھی ڈائریکٹری میں ہے لیکن ہمارے مؤکل کا نام تو اسد اللہ خاں تھا جیسا کہ خود فرمایا ہے۔

    اسد اللہ خاں تمام ہوا
    اے دریغا وہ رند شاہد باز

    بے شک بعض لوگ اس شعر کو غالب کا نہیں گنتے۔ ایک بزرگ کے نزدیک یہ اسد اللہ خاں تمام کوئی دوسرے شاعر تھے۔ ایک اور محقق نے اسے غالب کے ایک گمنام شاگرد دریغا دہلوی سے منسوب کیا ہے لیکن ہمیں یہ دیوان غالب ہی میں ملا ہے۔

    ٹیلی فون ڈائریکٹری بند کر کے ہم نے تھانے والوں کو فون کرنے شروع کیے کہ اس قسم کا کوئی شخص تمہارے روزنامچے یا حوالات میں ہو تو مطلع فرماؤ کیونکہ اتنا ہم نے سن رکھا ہے کہ کچھ مرزا صاحب کو یک گونہ بیخودی کے ذرائع شراب اور جوئے وغیرہ سے دل چسپی تھی اور کچھ کوتوال ان کا دشمن تھا۔ بہرحال پولیس والوں نے بھی کان پر ہاتھ رکھا کہ ہم آشنا نہیں، نہ ملزموں میں ان کا نام ہے نہ مفروروں میں، نہ ڈیفنس رولز کے نظر بندوں میں، نہ اخلاقی قیدیوں میں، نہ تین میں نہ تیرہ میں۔

    مرزا ظفر الحسن ہمارے دوست نے مرزا رسوا کو رسوائی کے مقدمے سے بری کرانے کے بعد اب مرزا غالب کی یاد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ مرزا کو مرزا ملے کر کر لمبے ہاتھ۔ پچھلے دنوں انہوں نے ایک ہوٹل میں ادارۂ یادگارِ غالب کا جلسہ کیا تو ہم بھی کچے دھاگے میں بندھے پہنچ گئے۔ ظفر الحسن صاحب کی تعارفی تقریر کے بعد صہبا لکھنوی نے تھوڑا سا تندیٔ صہبا سے موضوع کے آبگینے کو پگھلایا۔
    اس کے بعد لوگوں نے مرزا جمیل الدین عالی سے اصرار کیا کہ کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں۔ وہ نہ نہ کرتے رہے کہ ہے ادب شرط منہ نہ کھلواؤ لیکن پھر تاب سخن نہ کر سکے اور منہ سے گھنگنیاں نکال کر گویا ہوئے۔ غالب ہر چند کہ اس بندے کے عزیزوں میں تھا لیکن اچھا شاعر تھا۔ لوگ تو اسے اردو کا سب سے اونچا شاعر کہتے ہیں۔ مرزا ظفر الحسن قابلِ مبارک باد ہیں کہ اس کے نام پر منظوم جلسہ یعنی بیت بازی کا مقابلہ کرا رہے ہیں اور اسے کسوٹی پر بھی پرکھ رہے ہیں لیکن اس عظیم شاعر کی شایانِ شان دھوم دھامی صد سالہ برسی کے لیے ہندوستان میں لاکھوں روپے کے صرف کا اہتمام دیکھتے ہوئے ہم بھی ایک بڑے آدمی کے پاس پہنچے کہ خزانے کے سانپ ہیں اور ان سے کہا کہ گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی۔ کچھ غالب نام آور کے لئے بھی ہونا چاہیے ورنہ، طعنہ دیں گے بت کہ غالب کا خدا کوئی نہیں ہے۔

    ان صاحب نے کہا، ’’آپ غالب کا ڈومیسائل سرٹیفیکٹ لائے؟‘‘ یہ بولے، ’’نہیں۔‘‘ فرمایا، ’’پھر کس بات کے روپے مانگتے ہو، وہ تو کہیں آگرے، دلّی میں پیدا ہوا، وہیں مر کھپ گیا۔ پاکستان میں شاعروں کا کال ہے۔‘‘ عالی صاحب نے کہا، ’’اچھا پھر کسی پاکستانی شاعر کا نام ہی بتا دیجیے کہ غالب کا سا ہو۔‘‘ بولے، ’’میں زبانی تھوڑا ہی یاد رکھتا ہوں۔ شاعروں کے نام، اچھا اب لمبے ہو جائیے، مجھے بجٹ بنانا ہے۔‘‘

    خیر ہندوستان کے شاعر تو ہندوستانیوں ہی کو مبارک ہوں۔ خواہ وہ میر ہوں یا انیس ہوں یا امیر خسرو ساکن پٹیالی واقع یوپی لیکن غالب کے متعلق ایک اطلاع حال میں ہمیں ملی ہے جس کی روشنی میں ان سے تھوڑی رعایت برتی جا سکتی ہے۔ ہفت روزہ قندیل لاہور کے تماشائی نے ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک اعلان سنا کہ اب اردن کے مشہور شاعر غالب کا کلام سنیے۔ یہ بھی تھا کہ ’’اردن کو مرزا غالب پر ہمیشہ ناز رہے گا۔‘‘ تو گویا یہ ہمارے دوست ملک اردن کے رہنے والے تھے۔ تبھی ہم کہیں کہ ان کا ابتدائی کلام ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا اور عربی فارسی سے اتنا بھرپور کیوں ہے اور کسی رعایت سے نہیں تو اقربا پروری کے تحت ہی ہمیں یوم غالب کے لیے روپے کا بندوبست کرنا چاہیے کہ اردن سے ہماری حال ہی میں رشتے داری بھی ہو گئی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ صد سالہ برسی فروری میں ہے۔
    فردوسی کی طرح نہ ہو کہ ادھر اس کا جنازہ نکل رہا تھا۔ ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا اور ادھر خدام ادب اشرفیوں کے توڑوں کا ریڑھا دھکیلتے غزنی کے دروازے میں داخل ہو رہے تھے۔

    عالی صاحب کا اشارہ تو خدا جانے کس کی طرف تھا۔ کسی سیٹھ کی طرف یا کسی اہل کار کی طرف۔ لیکن مرزا ظفر الحسن صاحب نے دوسرے روز بیان چھپوا دیا کہ ہم نے حکومت سے کچھ نہیں مانگا، نہ اس کی شکایت کرتے ہیں، جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ یہ شکوہ شکایت ادارہ یادگارِ غالب کے حساب میں نہیں، مرزا جمیل الدین عالی کے حساب میں لکھا جائے، ہم تو پنسیلیں بیچ کر یوم غالب منائیں گے۔‘‘

    ہم نے پہلے یہ خبر پڑھی تو ’’پنسلین‘‘ سمجھے اور خیال کیا کہ کہیں سے مرزا صاحب کو ’’پنسلین‘‘ کے ٹیکوں کا ذخیرہ ہاتھ آگیا ہے۔ بعد ازاں پتا چلا کہ نہیں۔۔۔ وہ پنسلیں مراد ہیں جن سے ہم پاجاموں میں ازار بند ڈالتے ہیں اور سگھڑ بیبیاں دھوبی کا حساب لکھتی ہیں۔ خیر مرزا ظفر الحسن صاحب کا جذبہ قابل تعریف ہے لیکن دو مرزاؤں میں تیسرے مرزا کو حرام ہوتے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ حکومت سے غالب یا کسی اور شاعر کے نام پر کچھ مانگنا یا شکوہ کرنا کوئی جرم تو نہیں، آخر یہ کسی راجے یا نواب کی شخصی حکومت تھوڑا ہی ہے۔ خزانہ عامرہ کا پیسہ ہمارے ہی ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ اب یہ تو ٹھیک ہے کہ انجمن ترقی اردو والے یا ڈاکٹر حمید احمد خان اس موقع پر کچھ کتابیں چھاپ رہے ہیں اور مرزا ظفر الحسن صاحب منظوم جلسے کا اہتمام کر رہے ہیں یا غالب کو کسوٹی پر پرکھ رہے ہیں، لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں۔ چار کتابوں کا چھپنا اور منظوم جلسے میں ہم ایسے شاعروں کا غالب کی زمینوں میں ہل چلانا حق سے ادا ہونا تو نہ ہوا۔ وہ مرحوم تو بڑی اونچی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔

    منزل اِک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
    عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکان اپنا

    (ممتاز مزاح نگار، شاعر و ادیب ابنِ انشا کی ایک شگفتہ تحریر)

  • چوائس ہے کہاں؟

    چوائس ہے کہاں؟

    علامہ اقبال نے ان شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں پر بڑا ترس کھایا ہے جن کے اعصاب پہ عورت سوار ہے۔ مگر ہمارے حبیب لبیب اور ممدوح بشارت فاروقی ان بدنصیبوں میں سے تھے جن کی بے داغ جوانی اس شاعر کے کلام کی طرح تھی جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ موصوف کا کلام غلطیوں اور لطف دونوں سے پاک ہے!

    بشارت کی ٹریجڈی شاعروں، آرٹسٹوں اور افسانہ نویسوں سے کہیں زیادہ گھور گھمبیر تھی۔ اس لیے کہ دکھیا کے اعصاب پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی سوار رہا، سوائے عورت کے۔ اس دور میں جسے ناحق جوانی دیوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان کے اعصاب پر بالترتیب ملا، ناصح، بزرگ، ماسٹر فاخر حسین، ممتحن، مولوی مظفر، داغ دہلوی، سیگل اور خسرِ بزرگوار سوار رہے۔ خدا خدا کر کے وہ اسی ترتیب سے ان پر سے اترے تو گھوڑا سوار ہوگیا۔ وہ سبز قدم ان کے خواب، ذہنی سکون اور گھریلو بجٹ پر جھاڑو پھیر گیا۔ روز روز کے چالان، جرمانے اور رشوت سے وہ اتنے عاجز آچکے تھے کہ اکثر کہتے کہ اگر مجھے چوائس دی جائے کہ تم گھوڑا بننا پسند کرو گے یا اس کا مالک یا کوچوان تو میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے SPCA کا انسپکٹر بننا پسند کروں گا جو ان تینوں کا چالان کرتا ہے۔ سنگین غلطی کرنے کے بعد پس بینی (hingsight) کا مظاہرہ کرنے والوں کی طرح وہ اس زمانے میں چوائس کی بہت بات کرتے تھے۔ مگر چوائس ہے کہاں؟ مہاتما بدھ نے تو دو ٹوک بات کہہ دی کہ اگر چوائس دی جاتی تو وہ پیدا ہونے سے ہی انکار کر دیتے۔ لیکن ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ گھوڑے کو اگر چوائس دی جاتی تو وہ اگلے جنم میں بھی گھوڑا ہی بننا پسند کرے گا۔ مہاتما بدھ بننا ہرگز پسند نہیں کرے گا کیوں کہ وہ گھوڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھ سکتا جیسا گوتم بدھ نے یشودھرا کے ساتھ کیا۔ یعنی انہیں غافل سوتا چھوڑ کر بیابان کو نکل جائے یا کسی جاکی کے ساتھ بھاگ جائے۔ گھوڑا کبھی اپنے گھوڑے پن سے شرمندہ نہیں ہوتا۔ نہ کبھی اس غریب کو فلکِ کج رفتار سے شکوہ ہوگا۔ نہ اپنے سوارِ گردوں رکاب سے کوئی شکایت۔ نہ تن بہ تدبیر، بسیار جو ماداؤں کے ہرجائی پن کا کوئی گلہ کرے۔ یہ تو آدمی ہی ہے جو ہر دم اپنے آدمی پن سے نادم و نالاں رہتا ہے اور اس فکر میں غلطاں ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔

    گھوڑا تانگہ رکھبت اور اسے ٹھکانے لگانے کے بعد بشارت میں بہ ظاہر دو متضاد تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پہلی تو یہ کہ گھوڑے اور اس کے دور و نزدیک کے تمام متعلقات سے ہمیشہ کے لیے نفرت ہوگئی۔ تنہا ایک لنگڑے گھوڑے نے انہیں جتنا نقصان پہنچایا، اتنا تمام ہاتھیوں نے مل کر پورس کو نہیں پہنچایا ہوگا۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ اب وہ سواری کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ آدمی کو ایک دفعہ سواری کی عادت پڑجائے تو پھر اپنی ٹانگوں سے ان کا فطری کام لینے میں توہین کے علاوہ نقاہت بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کی لکڑی کی بزنس اب کافی پھیل گئی تھی جسے وہ کبھی دوڑ دھوپ کا پھل اور کبھی اپنے والد بزرگوار کی جوتیوں کا طفیل بتاتے تھے، جب کہ خود بزرگوار اسے بھاگوان گھوڑے کے قدموں کی برکت پر محمول کرتے تھے۔ بہر صورت، قابلِ غور بات یہ کہ ان کی ترقی کا محرک اور سبب کبھی پیروں اور جوتیوں کی سطح سے اوپر نہیں گیا۔ کسی نے بلکہ خود انہوں نے بھی ذہانت اور فراست کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا۔ لکڑی کی بِکری بڑھی تو دفتروں کے چکر بھی بڑھے۔ اسی قدر سواری کی ضرورت میں اضافہ ہوا۔ اس زمانے میں کمپنیوں میں رشوت نہیں چلتی تھی۔ لہٰذا کام نکالنے میں کہیں زیادہ ذلت و خواری ہوتی تھی۔ ہمارے ہاں ایمان دار افسر کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ جب تک بے جا سختی، خوردہ گیر اور اڑیل اور سڑیل پن سے سب کو اپنی ایمان داری سے عاجز نہ کردے، وہ اپنی ملازمت کو پکا اور خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ بے ایمان افسر سے بزنس مین باآسانی نمٹ سکتا ہے، ایمان دار افسر سے اسے ہول آتا ہے۔ چنانچہ صورت یہ تھی کہ کمپنی سے لکڑی اور کھوکھوں کا آرڈر لینے کے لیے پانچ چکر لگائیں تو بل کی وصولی کے لیے دس چکر لگانے پڑتے تھے۔

    جب سے کمپنیاں لیچڑ ہوئیں، انہوں نے دس پھیروں کا کرایہ اور محنت بھی لاگت میں شامل کر کے قیمتیں بڑھا دیں۔ ادھر کمپنیوں نے ان کی نئی قیمتوں کو لُٹس قرار دے کر دس فی صد کٹوتی شروع کردی۔ بات وہیں کی وہیں رہی۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ ہر دو فریق ایک کو لالچی، کائیاں اور چور سمجھ کر لین دین کرنے لگے۔ اور یہ چوکس اور کامیاب بزنس کا بنیادی اصول ہے۔

    ( عہد ساز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’آبِ گم‘‘ سے اقتباس)

  • بیویوں کی ٹریڈ یونین

    بیویوں کی ٹریڈ یونین

    چند دن ہوئے رات کو جب گھر لوٹا اور مردانہ روایت کے مطابق دیر سے لوٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری پہلی اور آخری بیگم نے اپنے گورے گورے کندھے پر ایک سیاہ بلّا لگا رکھا ہے۔ میں نے عرض کیا ” یہ کیا ہے حضور؟”………..وہ بولی "جھنڈا اونچا رہے ہمارا”۔

    میرا ماتھا ٹھنکا کہ آج دال میں کالا ہے۔ چاند سا چہرا جو کل تک رشکِ بتاں تھا آج کسی انجمنِ خدام وطن کا پوسٹر معلوم ہو رہا تھا۔ جس پر تحریر تھا "اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو، کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو۔”​ میں نے کچھ مسکرا کر (اور کچھ ڈر کر) کہا "اے انقلاب زندہ باد! کھانا لے آؤ۔”

    وہ اپنی سڈول بانہوں کو کسی جھنڈے کی طرح لہرا کر بولی: آج کھانا نہیں ملے گا۔ آج چولھا ڈاؤن اسٹرائک ہے۔” شبہ یقین میں بدلنے لگا کہ معاملہ گمبھیر ہے اور اب بیگم کے ساتھ رومانٹک گفتگو کرنا فضول ہے۔ یہ کس ستمگر نے گھر پر انقلابی چھاپا مارا ہے کہ آج محترمہ کی آنکھوں میں کاجل کی تحریر کے بجائے مطالبات کا چارٹر دکھائی دیتا ہے۔ معاملے کی سنجیدگی کو دیکھ کر میں نے ہی اپنا لب و لہجہ بدل دیا اور مالکانہ وقار کے ساتھ کہا

    "بیگم تمھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تم میری بیوی ہو۔”………..تڑاخ سے جواب آیا : "ہاں مگر میں ایک ورکر بھی ہوں اور آپ میرے مالک ہیں اور میری محنت کا استحصال کرتے ہیں۔”

    "مگر ڈارلنگ!” میں نے پھر اپنا لہجہ بدل لیا۔ "مالک تو تم ہو، میرے دل و جان کی مالک، اس سلطنت کی، تم نواب واجد علی شاہ ہو۔ بتاؤ ہو کہ نہیں؟”

    ایک دن پہلے تک میرا یہی فقرہ طلسم ہوشربا کا کام کر جاتا تھا اور بیگم تڑپ کر میرے بازوؤں میں آ گرتی تھی لیکن آج آغوش میں آنے کے بجائے اس نے اپنی نرم و نازک مٹھی دکھائی اور میز پر مارتے ہوئے بولی "سیٹھ جی! لچھے دار لفظوں کے یہ چھلاوے اب نہیں چلیں گے۔ صدیوں سے ظلم کی چکی میں پستی ہوئی بیویاں اب بیدار ہو چکی ہیں اور اب اپنے حقوق منوا کر دم لیں گی۔ جو ہم سے ٹکرائے گا چور چور ہو جائے گا۔”

    میں نے کہا : ” کیا آج ہمارے گھر کوئی ترقی پسند شاعر آیا تھا؟” وہ بولی "شاعر میرے اندر سویا ہوا تھا۔ آج جاگ اٹھا ہے، لہٰذا میرے مطالبات مانیے نہیں تو ۔۔۔۔”

    "کون سے مطالبات ؟”

    "سب سے پہلے” بیگم نے حلق میں تھوک نگلتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز میں گھنگھروؤں کی مانوس جھنکار نہیں تھی بلکہ طبلِ جنگ کی سی گھن گرج تھی۔ "سب سے پہلے میرا مطالبہ یہ ہے کہ میرے کام کے اوقات گھٹائے جائیں۔ صبح پانچ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کرتی ہوں، انھیں کم کر کے نو گھنٹے کیے جائیں۔ ہر مہذب سماج میں یہی دستور ہے۔”

    "مگر ڈارلنگ ! یہ تو ہندوستانی سماج ہے۔” وہ پھڑک اٹھی۔” اور بائی دی وے، جب تک مطالبات کی گفتگو جاری رہے آپ مجھے ڈارلنگ کے لقب سے مخاطب نہ کریں۔ ہاں تو ہندوستانی سماج کو مہذب بنانے کے لئے نو گھنٹے کے اوقات آپ کو منظور ہیں؟”

    میں نے کہا :” دیکھو ( ڈارلنگ نہیں) ورکر بیگم! گھر میں اگر صرف نو گھنٹہ کام ہوا تو اس سے پروڈکشن پر برا اثر پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کام کی دو شفٹیں کرنا پڑیں گی۔ دو شفٹیں اور دو بیویاں۔ کیا تم چاہتی ہو کہ میں اس گھر میں دوسری بیوی لے آؤں؟”

    سوتن کا جلاپا عورت کی نازک رگ ہے۔ میں نے اس رگ پر جان بوجھ کر انگلی رکھ دی کہ ٹریڈ یونین کے اندر انتشار پیدا ہو مگر بیگم کے اندر جیسے ہو قدیم حاسد عورت مر چکی تھی۔ وہ بولی "یہ مالک کی اپنی پرابلم ہے، آپ چاہیں تو کوئی ملازمہ رکھ سکتے ہیں۔” بیگم سوتن والے پہلو سے صاف بچ کر نکل گئیں۔ اس کی یہ چالاکی میرے لئے پریشان کن تھی۔ چنانچہ میں نے ایک اور ہتھیار نکالا۔ "مگر اسے تنخواہ کہاں سے دیں گے؟ جتنی تنخواہ ملتی ہے تمہارے گورے گورے ہاتھوں پر لا کر رکھ دیتا ہوں، تم چاہو تو اس تنخواہ میں سے ملازمہ رکھ سکتی ہو۔”

    "اس تنخواہ میں ملازمہ نہیں رکھی جا سکتی۔”

    "تو پھر کیا کیا جائے؟ میں نے کہا نا۔ یہ مالک کی اپنی پرابلم ہے، اسے خود سوچنا چاہیے۔”

    "آل رائٹ ۔”میں نے تنگ آکر کہا۔ "مینجمنٹ اس پر ہمدردانہ غور کرے گا۔اب اگلا مطالبہ پیش کیا جائے۔”

    "دوسرا مطالبہ چھٹیوں کا ہے۔”

    "مستقل چھٹی کا؟ اس کی تو میں کئی بار پیش کش کر چکا ہوں مگر ہر بار تم نے اسے حقارت سے ٹھکرا دیا۔”

    "دیکھیے، آپ اسے مذاق میں مت ٹالیے۔ (حالانکہ اللہ قسم یہ مذاق بلکل نہیں تھا۔) ہندوستان بھر کے سارے کام گاروں کو اتوار کی ہفتہ وار چھٹی ملتی ہے مگر مجھے اتوارکو سب سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر اتوار کو آپ کے احباب آ دھمکتے ہیں، کوئی لنچ کھانے اور کوئی ڈنر، اور کوئی یوں ہی گھومتے گھماتے چائے پینے آ ٹپکتا ہے۔ دیوالی، دسہرہ، عید، بقرعید کوئی چھٹی بھی تو نہیں ملتی۔ نہ میڈیکل چھٹی اور نہ ایمرجنسی چھٹی۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟” یہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگی۔

    میں بھی رونا چاہتا تھا مگر مینجمنٹ میں رونے کا رواج نہیں تھا۔ مطالبہ (خدا جھوٹ نہ بلوائے) بلکل جائز تھا لیکن مینجمنٹ کا رویہ بھی اس کے متعلق بڑا واضع تھا کہ کسی بھی مطالبے کو جائز قرار نہ دیا جائے بلکہ اگر مطالبہ تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کے بجائے احسان کا درجہ دیا جائے، چناچہ میں نے کہا "دیکھو بیگم! عورت ذات کی تاریخ گواہ ہے اسے موت سے پہلے چھٹی نہیں ملتی۔”

    "لیکن میں تاریخ کا دھارا موڑنا چاہتی ہوں ۔”……….”میری پیاری ہٹلر! اگر تم عقل کا تھوڑا سا بھی استعمال کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ سماج کی تاریخ کا سارا ڈھانچہ عورت کے کندھے پر کھڑا ہے جس دن بھی عورت نے چھٹی کی سماج میں ایک تعطل آ جائے گا۔ بھائیں بھائیں کرتی ہوئی ایک ویرانی گھر پر مسلط ہو جائے گی۔ سارا کام اس روز چوپٹ ہو جائے گا۔ یوں لگے گا فیکٹری پر جبری تالہ بندی کردی گئی ہے۔ بچے روئیں گے، میں روؤں گا، گھر کی بلّی اور طوطا اور سبھی روئیں گے۔ میں پوچھتا ہوں تمہاری چھٹی کے دوران کام کون کرے گا؟”

    "آپ کیجیے گا۔”جذبات سے بلکل آری ہو رہی تھی ظالم! اب میں نے پینترا بدلا اور کہا "اچھا چلو تمہاری ہفتہ وار چھٹی منظور کرتا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اس چھٹی پر تم کروگی کیا؟”

    بس بیٹھی رہوں گی، سوئی رہوں گی، سہیلیوں کے ساتھ گھومنے جاؤں گی، فلم دیکھوں گی۔” لب ولہجہ سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ بیگم صرف میری نقل کرنا چاہتی ہیں۔ اوریجنل بلکل نہیں ہے۔ ایک بار دل میں یہ شیطانی خیال آیا کہ اسے اوور ٹائم کا لالچ دے دوں یعنی چھٹی کے دن کام کرو گی تو دگنی اجرت ملے گی۔ اوور ٹائم کی رقم سے ایک ساڑی خرید لینا؛ لیکن بیوی کو اوور ٹائم کی ترازو سے تولنا کچھ اچھا نہیں لگا ،لہٰذا میں نے مردانہ فراخ دلی کی انتہائی بلندی پر کھڑے ہو کر آواز دی، "ویکلی چھٹی منظور کی جاتی ہے مگر ایک شرط پر کہ تم اس دن بال بچوں کو ہمراہ لے کر میکے چلی جایا کرو۔”

    میکے کی پخ پر بیگم کچھ بوکھلا گئی۔ میکہ ہر عورت کی کمزوری ہے۔ میکے کے سامنے سارا ٹریڈ یونین ازم منتشر ہو جاتا ہے۔ اگرچہ بیگم کی سمجھ میں فوراً نہیں آئی کہ اس کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے یا مطالبہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا ہے۔ مطالبے کے ساتھ میں شرط کی پخ لگا کر میں نے ایک تیر سے دو شکار کر دیے تھے۔ میں نے سوچا کہ اس سے بیگم بھی خوش ہو جائے گی اور میں بھی۔ بیگم کی غیر حاضری میں خاوند کو جو آزادی نصیب ہو جا تی ہے اس کا اندازہ وہی شادی شدہ مرد لگا سکتے ہیں جو ایک مستقل یکسانیت سے نالاں رہتے ہیں۔

    بیگم نے زیِِر تبسم سے اس فیصلے پر صاد کیا اور میں نے دل ہی دل میں خوش ہو کر کہا کہ
    "مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
    انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات”

    بیگم کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ گھر کے اخرجات کے لیے اسے جو رقم دی جاتی ہے ،اس میں اضافہ کیا جائے، کیوں کہ اشیا کے پرانے ریٹ قائم نہیں رہے۔ ہر چیز پہلے کے مقابلے میں دوگنی مہنگی ہو گئی ہے مگر اخرجات کی رقم بدستور وہی ہے۔

    گویا یہ مہنگائی الاؤنس کا مطالبہ تھا جو بیک وقت جائز اور نا جائز ہے۔ میں نے جھٹ کہا۔ "بیگم مجھے تمہارے اس مطالبے سے ہمدردی ہے بلکہ صرف ہمدردی ہے۔” وہ تڑپ اٹھی "مگر ہمدردی سے تو بنیان بھی نہیں آ سکتی۔”

    تو بنیان نہ خریدو۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ روکھی سوکھی روٹی کھا کے ٹھنڈا پانی پی تو اس کا کچھ مطلب تھا، کچھ فلاسفی تھی؛ افسوس یہ ہے بیگم کہ تم ٹریڈ یونین ازم کے بزرگوں کی فلاسفی بھول گئیں۔”

    اس کے جواب میں بیگم نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ بہت اذیت ناک تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ روکھے سوکھے کی فلاسفی پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ معیارِ زندگی کو گرا کر محلے میں اپنی ناک کٹوانا نہیں چاہتی۔ اس نے آنسوؤں کا ہتھیار نکال کر مجھ پر بار بار حملے کیے اور دھمکی دی۔ "گھر کے اخراجات کی ذمہ داری تم خود سنبھال لو۔ خالی خولی ہمدردی اور بزرگوں کی فلاسفی کے ساتھ تم ایک ہفتہ میں ہی دیوالیہ نہ بن گئے تو میں بیگم کہلانا چھوڑ دوں گی۔”

    "تو پھرمیں کیا کروں ڈارلنگ؟ جتنی آمدنی ہے اس سے زیادہ کہاں سے لاؤں؟”

    "اپنی آمدنی بڑھاؤ۔” انقلابی بیوی نے نعرہ لگایا۔

    "کیسے؟”

    "رشوت لو، جیب کتری شروع کر دو، اسمگل کیا ہوا مال بیچو، کوئی پرمٹ لائسنس لے لو۔ ساری دنیا اسی طرح ترقی کر رہی ہے ۔” اور میرا جواب یہ تھا کہ یہ مجھ سے نہیں ہو سکے گا۔ گزشتہ ایک سو برس سے جو خاندانی شرافت ہمارے سر پر سایہ کیے ہوئے ہے میں اسے چند کرسیوں، اناج کے چند دانوں، بنیانوں اور آلو گوبھی کی خاطر تباہ و برباد نہیں کرسکتا۔ مگر بیگم مصر تھیں۔ اس نے مجھے بزدل کہا۔ میرے شوہر پن کو مشکوک قرار دیا۔ جنرل اسٹرائیک کی دھمکی دے کر گھر کے مفاد پر ضرب لگانے کا اعلان کیا۔ یہ رویہ سیدھا طلاق کی منزل کی طرف بڑھا جا رہا تھا مگر میں نے بھی تہیہ کر لیا کہ بیوی کو طلاق دے دوں گا خاندانی اخلاق کو نہیں۔ چند منٹ کی بحرانی خاموشی کے بعد بولی "تو کیا ارادے ہیں؟”

    "مطالبہ رد کیا جاتا ہے۔” میں نے تاریخ انسانیت کا عظیم ترین اعلان کیا۔ "لیکن یہ بنیادی مطالبہ ہے۔ اگر اسے رد کیا گیا تو میں غور کروں گی کہ پہلے دو مطالبے بھی منظور کروں یا نہ کروں!”

    "مجھے یہ چیلنج منظور ہے۔” اس مرحلے پر آ کر سمجھوتے کی بات چیت ٹوٹ گئی۔ مصلحت کے تحت بیگم پلنگ پر جا لیٹیں۔ خصلت کے مطابق میں یوں ہی کوئی پرانا رسالہ اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگا۔ گھڑی کی ٹک ٹک ہمارے غم اور مسرت دونوں کو پیچھے چھوڑ کر وقت کی بے نیاز منزلیں طے کرتی رہی۔ میں نے کھانا نہیں کھایا۔ شاید بیگم نے بھی نہیں کھایا اور پھر یوں لگا جیسے ہم دونوں ایک دوسرے سے آہستہ آہستہ دور ہوتے جا رہے ہیں۔ شاید ہم اندر ہی اندر روتے روتے سوگئے تھے، کھو گئے تھے۔

    اور جب بھوک کی گھڑیال نے دو بجائے تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ایک گرم گرم آنسو میری پیشانی پر آگرا۔ اور پھر ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز۔ اور نرم و نازک ہاتھوں کا لمس اور چوڑیوں کی مترنم جھنکار۔

    "یہ کون تھا؟” یہ کوئی ٹریڈ یونین لیڈر نہیں تھا۔ یہ کوئی انقلابی بھی نہیں تھا۔ یہ میری اکلوتی پہلی اور آخری بیگم تھی جو کہہ رہی تھی،
    "اٹھو! کھانا کھا لو۔ مجھے نیند نہیں آ رہی ہے۔”

    (بھارت کے معروف ادیب اور طنز و مزاح نگار فکر تونسوی کی ایک تحریر)

  • بیزار ہونے کا عرصہ!

    بیزار ہونے کا عرصہ!

    نصف صدی کی طویل مدت بالعموم ایک دوسرے سے بیزار ہونے کے لیے بہت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اتنے عرصے میں گلاب کی خوش بو مانوسیت کے باعث باسی باسی سی لگتی ہے، مگر وہی بے ضرر سے کانٹے اب بہت چبھنے لگتے ہیں۔

    امریکا میں ایک حالیہ سروے سے یہ دل چسپ انکشاف ہوا ہے کہ 50 فی صد جوڑوں کی طلاق شادی کے تین سال کے اندر ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے۔ بقیہ پچاس فی صد جوڑوں کی طلاق 40 سال بعد ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اس اثنا میں وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوجاتے ہیں۔ پچاس سال دوستانہ تعلق کا وہی ہوجاتا ہے جس کی تصویر غالب نے مرزا تفتہ کے نام اپنے خط میں کھینچی ہے۔ لکھتے ہیں ”جیسے اچھی جورو برے خاوند کے ساتھ مرنا بھرنا اختیار کرتی ہے میرا تمہارے ساتھ وہ معاملہ ہے۔“ یوں تو غالب کا ہر قول حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے تاہم مجھے اس میں تھوڑا سا اضافہ کرنے کی اجازت ہو تو عرض کروں گا کہ تعلقات میں مزید پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب دونوں فریق خود کو مظلوم زوج سمجھ کر اپنا سہاگ اجڑنے کی دعا کرنے لگیں۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”شامِ شعریاراں“ سے لیا گیا)

  • نفسیات کی زبان میں اِس طرزِ عمل کو Impulsivity کہتے ہیں!

    نفسیات کی زبان میں اِس طرزِ عمل کو Impulsivity کہتے ہیں!

    چونکہ محاورے کی رُو سے حرکت میں برکت ہے اس لیے بہت سے وہ لوگ جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا (مثلاً سرکاری ملازمین اور باس ٹائپ کے لوگ) اپنے ایک یا دونوں ہاتھوں کو مسلسل کسی نہ کسی فضول حرکت میں مصروف رکھ کر مفت میں برکتیں لوٹتے رہتے ہیں۔

    کچھ لوگ برکت کے حصول کی غرض سے بیٹھے اپنی ٹانگیں ہلاتے رہتے ہیں، کچھ جسم کو کھجاتے ہیں، کچھ میز پر طبلہ بجاتے ہیں، ناخن چباتے ہیں وغیرہ۔ نفسیات کی زبان میں اس طرز عمل کو Impulsivity کہتے ہیں۔

    اردو لغت میں ایسی بابرکت حرکات کے لیے ایک لفظ ملتا ہے: چُل۔ اسی سے لفظ بنا ”چُلبل“ یعنی بے کل، بے چین، نچلا نہ بیٹھنے والا۔

    حضرتِ سودا نے ”شیخ“ کی چُل پر یہ چوٹ کی تھی:
    شیخ کو ذوق اچھلنے سے نہیں مجلس میں
    اس بہانے سے مٹاتا ہے وہ اپنی چُل کو

    کل جب ایک دیرینہ دوست سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران اچانک لائن کٹ گئی، تو ہمیں نہ جانے کیوں بعض احباب کی چُلیں یاد آگئیں۔ آپ نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ جب ان پر ہنسی کا دورہ پڑتا ہے تو وہ اپنا دایاں ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے ہوا میں اٹھنے والی چیز کو نیچے بھی آنا ہوتا ہے، لہٰذا آپ ان کے قریب بیٹھے ہیں، تو ضرور برداشت کر کے تالی کی آواز پیدا کر دیں۔ اگر آپ نے ایسا نہیں کیا، تو جان لیجیے کہ ان کا ہاتھ آپ کے جسم کے کسی بھی حصے پر گر کر اسے عارضی طور پر سہی، ناکارہ یا غیر فعال بنا سکتا ہے۔ اس لیے کہ زور دار قہقہے کے دوران فریق ثانی کی آنکھیں عموماً بند ہوتی ہیں۔ ہاتھ کہاں گرنے والا ہے اسے کچھ علم نہیں ہوتا۔

    ہمارے ایک دوست اپنے اٹھنے والے ہاتھ کی نچلی منزل کا تعین پہلے سے خود کر لیتے ہیں یعنی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی ران، لہٰذا ہم جب بھی ان کے پاس جاتے ہیں اپنے دونوں ہاتھوں، رانوں پر رکھ کر ”ارد گرد کے رقبے کا دفاع کر لیتے ہیں۔

    بعض لوگ دورانِ گفتگو اپنے جسم کے کسی نہ کسی عضو (عموماً پیشانی، کھوا، ٹھوڑی، گُدی وغیرہ) کو ہلکے ہلکے سہلاتے رہتے ہیں۔ ٹی وی کے ایک سینئر اداکار کی چُل یہ ہے کہ وہ ڈائیلاگ کی ڈلیوری کے دوران اپنے دائیں نتھنے کو دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے چھیڑتے رہتے ہیں۔ ٹی وی ہی کے ایک اینکر اور سینئر صحافی کی چُل ہے کہ وہ بات کر کے خاموش ہوتے ہیں، تو اپنے چشمے کی ایک کمانی کا سرا چوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ دانش وَر ٹائپ کے لوگ کسی کی بات سن رہے ہوتے ہیں تو بار بار اپنے دونوں ہاتھ تیمم کے انداز میں پورے چہرے پر پھیر کر اور آنکھیں باہر نکال کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ آپ کو بولا ہوا ایک ایک لفظ ان کے ذہن میں پوری طرح سرایت کرتا جا رہا ہے۔ کسی کی بات سنتے وقت بعض لوگوں کی گردن کو قرار نہیں رہتا۔ وہ مسلسل اپنے نیچے یا دائیں بائیں حرکت میں رہتی ہے۔ اوپر نیچے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کے مؤقف سے متعلق ہے، جب کہ گردن کو دائیں بائیں ہلا کر وہ گویا آپ کے مؤقف کو مسترد کرتے ہیں۔ تاہم یہ اشاراتی زبان کا کوئی پیٹنٹ اصول نہیں ہے۔ حیدرآباد (دکن) کے احباب انکار میں گردن ہلاتے ہیں، تو آپ مایوس نہ ہوں ان کے انکار کا مطلب اقرار ہوتا ہے۔

    (مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی کتاب ’کتنے آدمی تھے؟‘ سے انتخاب)

  • کچھ نے کہا چہرہ تِرا…

    کچھ نے کہا چہرہ تِرا…

    کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہم نے اپنی دائیں ہتھیلی کا پسینا پونچھ کر ہاتھ مصافحہ کے لیے تیار کیا۔ سامنے کرسی پر ایک نہایت بارعب انگریز نظر آیا۔ سر بیضوی اور ویسا ہی صاف اور چکنا، جس پر پنکھے کا عکس اتنا صاف تھا کہ اس کے بلیڈ گنے جا سکتے تھے۔

    آج کل کے پنکھوں کی طرح اس پنکھے کا وسطی حصّہ نیچے سے چپٹا نہ تھا، بلکہ اس میں ایک گاؤ دم چونچ نکلی ہوئی تھی، جس کا مصرف بظاہر یہ نظر آیا کہ پنکھا سر پر گرے تو کھوپڑی پاش پاش نہ ہو، بلکہ اس میں ایک صاف گاؤ دم سوراخ ہو جائے۔ بعد میں اکثر خیال آیا کہ سر پر اگر بال ہوتے تو اس کی وجاہت و دبدبہ میں یقیناً فرق آجاتا۔ میز کے نیچے ایک ادھڑا ادھڑا ”کیِمل“ رنگ کا قالین بچھا تھا۔ رنگ میں واقعی اس قدر مشابہت تھی کہ معلوم ہوتا تھا کوئی خارش زدہ اونٹ اپنی کھال فرش راہ کیے پڑا ہے۔ بھرے بھرے چہرے پر سیاہ فریم کی عینک۔ کچھ پڑھنا یا پاس کی چیز دیکھنی ہو تو ماتھے پر چڑھا کر اس کے نیچے سے دیکھتا تھا۔ دور کی چیز دیکھنی ہو تو ناک کی پھننگ پر رکھ کر اس کے اوپر سے دیکھتا تھا۔ البتہ آنکھ بند کر کے کچھ دیر سوچتا ہو تو ٹھیک سے عینک لگا لیتا تھا۔ بعد میں دیکھا کہ دھوپ کی عینک بھی ناک کی نوک پر ٹکائے اس کے اوپر سے دھوپ کا معائنہ کرتا ہوا بینک آتا جاتا ہے۔ آنکھیں ہلکی نیلی جو یقیناً کبھی روشن روشن رہی ہوں گی۔ ناک ستواں ترشی ترشائی۔ نچلا ہونٹ تحکمانہ انداز سے ذرا آگے کو نکلا ہوا۔ سگریٹ کے دھوئیں سے ارغوانی، بائیں ابرو بے ایمان دکان دار کی ترازو کی طرح مستقلاً اوپر چڑھی ہوئی۔ گرج دار آواز۔ جسم مائل بہ فربہی، رنگ وہی جو انگریزوں کا ہوتا ہے۔

    آپ نے شاید دیکھا ہوگا کہ چینیوں کا چہرہ عمر سے بے نیاز ہوتا ہے۔ اور انگریزوں کا جذبات سے عاری، بلکہ بعض اوقات تو چہرے سے بھی عاری ہوتا ہے۔ لیکن یہ بالکل مختلف چہرہ تھا۔ ایک عجیب تمکنت اور دبدبہ تھا اس چہرے پر۔ کمرے میں فرنیچر برائے نام۔ نہ آرائش کی کوئی چیز۔ سارا کمرا اس کے چہرے سے ہی بھرا بھرا نظر آتا تھا۔ یہ مقابل ہو تو اور کوئی چیز۔ اس کا اپنا جسم بھی۔ نظر نہیں آتا تھا۔

    اس کا سراپا ہے یہ مصرع…چہرہ ہی چہرہ پاؤں سے سر تک

    ہم نے تیار شدہ ہاتھ مصافحہ کو بڑھایا، تو اس نے اپنا ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈال لیا۔ کچھ دیر بعد ”کریون اے“ کا ”کارک ٹپڈ“ سگریٹ ڈبّے سے نکال کر الٹی طرف سے ہونٹوں میں دبایا۔ وہ بہت برے موڈ میں تھا۔ کانپتے ہوئے ہاتھ سے چائے کی پیالی اٹھائی اور دوسرے کانپتے ہوئے ہاتھ سے زیادہ کانپتے ہاتھ کو تھاما۔ کپ کی ڈگڈگی سی بجنے لگی اور چائے چھلک کر ہماری درخواست کو رنگین کر گئی۔ اب ایک دیا سلائی کو اپنے بہتر ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ کے اس پر ڈبیا رگڑنے لگا۔ لیکن وہ کسی طرح جل کر نہیں دیتی تھی۔ خواہ مخواہ کا تکلّف تھا، ورنہ چاہتا تو اسے اپنے بلڈپریشر پر رگڑ کے بہ آسانی جلا سکتا تھا۔

    (مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی ایک شگفتہ تحریر سے اقتباس)

  • مسلمان اور تجارت

    مسلمان اور تجارت

    ایک رِیت سی پڑگئی تھی کہ مسلمان رؤسا اور جاگیرداروں کی آمدنی کا حساب تو ہندو رکھتے اور خرچ کا حساب خود عدالت کو قرقی کے وقت بنانا پڑتا تھا۔

    اعمال کے حساب کتاب کا جنجال بھی ہم نے کراماً کاتبین کو اور متعلقہ آڈٹ منکر نکیر کو سونپ رکھا ہے، ہمیں روپیہ ہمیشہ کم ہی معلوم ہوتا ہے۔ مسلمان 3 اور 2 کو 4 نہیں بلکہ ایک کم پانچ کہتا ہے، جب کہ ہندو ایک اوپر 3 کہتا ہے۔ یہ قول رابرٹ کلایو کے ایک ہم عصر سے منسوب ہے کہ روپیہ بچاکر رکھنے کے معاملے میں مسلمان چھلنی کی طرح ہوتا ہے اور ہندو اسفنج کی مانند۔

    سوداگری کو کسر شان سمجھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ دودمان تیموریہ پر جب ملکِ خدا تنگ ہوا تو اس کا آخری چشم و چراغ مہاجن سے قرض لے کر فوج کی تنخواہیں چکاتا اور اپنی غزلوں کی اصلاح کرنے والے استاد نجم الدولہ، دبیرالملک مرزا، اسد اللہ خان غالب کو چاندی کے طشت میں زربفت کے تورہ پوش سے ڈھکا ہوا سیم کے بیجوں کا توشہ بھیجتا۔

    تقسیم سے پہلے کے تین چار سو برسوں میں خاص کر برصغیر کے مسلمان نے تجارت کو اپنی شانِ قلندری کے خلاف سمجھا۔ اس لیے کہ اس میں یہ اندیشہ تھا کہ ذرا سی غفلت یا لاپروائی سے کہیں منافع نہ ہوجائے۔ چمڑے اور کھالوں کی ساری تجارت البتہ مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی جس کی تین وجہیں تھیں۔ اول تو یہ انہی مرحومین کی آخری نشانی تھی جنہیں وہ بہ رغبت کھا چکے تھے۔ دوم یہ کہ ہندو اس کاروبار کو ناپاک سمجھتے تھے۔ سوم، خوش قسمتی سے ان تاجروں کا تعلق چنیوٹ سے تھا جو دلّی کے دربار سے ہنوز دور تھا۔ ان کی سوجھ بوجھ کے سامنے مارواڑی بھی کان پکڑتے ہیں۔ مشہور ہے کہ چنیوٹی یا میمن پاگل ہوجائے تب بھی دوسرے کی پگڑی اتار کر اپنے ہی گھر میں پھینکتا ہے۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پرگندہ طبع لوگ۔

    (اردو کے مشہور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • ‘غالب انڈ گوئٹے’

    ‘غالب انڈ گوئٹے’

    مجھ سے روایت کیا کامریڈ باری علیگ نے اور انہوں نے سنا اپنے دوست مرزا کاظم سے اور مرزا کاظم نے سنائی آپ بیتی اور اب آپ مجھ سے سنیے ’’مرزا بیتی‘‘ میرے الفاظ میں اور اس کا ثواب پہنچائیے غالب اور گوئٹے کی ارواح کو اور دعا کیجیے میرے حق میں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

    مرزا کاظم جن دنوں برلن میں تھے ان ایام کا ذکر ہے کہ مرزا صاحب کی ملاقات ایک پنجابی سکھ پریتم سنگھ سے ہوئی اور دونوں تین چار روز تک ایک قہوہ خانے میں ایک دوسرے سے ملتے رہے۔ ایک روز سردار جی نے مرزا صاحب سے کہا کہ بھائی صاحب! بات یہ ہے کہ میں اٹلی جانا چاہتا ہوں اور میرے پاس پیسہ کوئی نہیں۔ اٹلی میں میرا مستقبل بہت شاندار ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کچھ روپیہ مجھے بطور قرض دے دیں یا کسی دوست سے دلادیں تو میں اٹلی پہنچ کر تھوڑے ہی عرصے میں قرض چکا دوں گا۔

    مرزا کاظم نے ایک لمحہ بھر سوچنے کے بعد کہا، ’’قرض؟‘‘، ’’سردار صاحب یہاں پردیس میں کون ایسا ہندوستانی فارغ البال ہوسکتا ہے جو اپنے اللّے تللّوں کے علاوہ کسی دوست کو قرض دے سکے؟‘‘

    سردار جی، مجھے کوئی زیادہ روپیہ نہیں چاہیے صرف۔۔۔

    مرزا صاحب، (بات کاٹ کر) ’’اجی کم زیادہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بات یہ ہے کہ کسی سے ایسی درخواست کرنا ہی بے معنی چیز ہے۔‘‘

    سردار جی، (مایوسی کے لہجے میں) تو پھر کیا کیا جائے؟

    مرزا صاحب، کیا کیا جائے، بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

    سردار جی، (پر امید نگاہوں سے دیکھتے ہوئے) وہ کیا، وہ کیا؟

    مرزا صاحب، وہ یہ کہ ہندوستانیوں کی بجائے جرمنوں سے روپیہ حاصل کیا جائے، جو بہت آسان کام ہے۔

    سردار جی، وہ کیسے؟

    مرزا صاحب، میں کل بتاؤں گا۔ آپ اسی وقت یہاں تشریف لے آئیے۔ (سردار جی کی آنکھیں ان الفاظ کو سن کر چمک اٹھیں اور آپ مرزا صاحب کا ’’پیشگی‘‘ شکریہ ادا کر کے رخصت ہوئے۔ رات بھر سردار جی کو نیند نہ آئی اور دوسرے دن وقت مقررہ سے آدھ گھنٹہ پہلے ہی قہوہ خانے میں پہنچ گئے اور بے صبری کے ساتھ مرزا کاظم کا انتظار کرنے لگے۔ آخر مرزا آئے اور قہوہ کی پیالی پیتے ہوئے یوں گویا ہوئے)،

    مرزا صاحب، دیکھئے سردار جی! مرزا غالب ہندوستان کے بہت بڑے شاعر تھے آپ جانتے ہوں گے؟

    سردار جی، وہی نہ جنہیں انڈین شکسپیئر کہتے ہیں؟

    مرزا صاحب، (مسکراتے ہوئے) نہیں نہیں۔ انڈین شکسپیئر تو آغاحشر کاشمیری مرحوم تھے جو مشہور ڈرامانویس تھے۔ غالب ان سے بہت پہلے عہدِ مغلیہ میں گزرے ہیں۔ آپ کا نام اسد اللہ خاں تھا اور وطن دہلی۔ آپ فارسی اور اُردو دونوں زبانوں کے بہت بڑے شاعر تھے۔ لیکن عمر تنگ دستی میں گزری، آپ کو شراب نوشی کا بہت شو ق تھا۔ اس لیے کبھی فارغ البالی نصیب نہ ہوئی۔

    سردار جی، بالکل میرے چچا ہرنام سنگھ کی طرح، ذیلدار تھا۔ دو سو بیگھہ زمین تھی۔ ضلع بھر میں عزت تھی لیکن شراب نے بیڑا غرق کردیا۔ آج اسے کوئی دس روپے ادھار نہیں دیتا۔

    مرزا صاحب، ہاں ہاں، بس غالب کی بھی یہی حالت تھی۔ لیکن تھا بڑا خود دار، مرتا مرگیا لیکن امراء کے سامنے نہ جھکا۔ اس کی ایک خوبی یہ تھی کہ۔۔۔

    سردار سر تو ہلاتے جاتے تھے لیکن دل میں سوچتے تھے کہ بات تو جرمنوں سے روپیہ حاصل کرنے کی تھی۔ یہ مرزا صاحب غالب کا قصہ کیوں چھیڑ بیٹھے؟ آپ کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ مرزا کاظم نے ان کے دل کی بات کو بھانپ کر ہاتھ سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ خاموشی سے سنتے جائیے۔

    مرزا صاحب، غالب ایک فلاسفر شاعر تھے اور انہوں نے وہی زمانہ پایا جو جرمنی کے فلاسفر شاعر گوئٹے کو نصیب ہوا۔ گوئٹے بھی۔۔۔

    مرزا صاحب یہاں تک کہہ پائے تھے کہ سردار جی سے صبر نہ ہوسکا اور انہوں نے بات کاٹ کر اپنی بات شروع کر دی۔

    سردار جی، لیکن مرزا صاحب! جہنم میں جائیں غالب اور گوئٹے، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ جرمنوں سے روپیہ حاصل کرنے کی ترکیب بتائیں گے۔

    مرزا صاحب، بالکل درست، اور میں وہی ترکیب تو بتا رہا ہوں۔ آپ ذرا سنتے جائیے۔ آپ ہندوستان کے بہت بڑے مؤرخ، شاعر اور ادیب ہیں۔

    سردار جی، میں اور شاعر؟

    مرزا صاحب، بس آپ چپ رہیے اور میری بات سنیے، آپ اتوار کے دن ’’ہومبرگ ہال‘‘ میں ایک تقریر کریں گے جس میں آپ غالب اور گوئٹے کی شاعری کا موازنہ فرمائیں گے۔

    سردار جی، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ میں تو جرمن زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا اور نہ غالب اور گوئٹے کی شاعری سے واقف ہوں۔

    مرزا صاحب، آپ اردو زبان میں اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو پنجابی زبان میں تقریر فرمائیے۔ بات صرف یہ ہے کہ بولتے جائیے اور گوئٹے کی شاعری سے آپ واقف نہیں تو ان کا نام تو چنداں مشکل نہیں، ذرا کہیے تو۔

    سردار جی، غالب گوئٹے۔ غالب گوئٹے۔

    مرزا صاحب، بالکل ٹھیک! آپ پاس ہو گئے۔ صرف اتنی بات ہے کہ ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ انگریزی زبان میں جسے ہم اینڈ کہتے ہیں۔ جرمن میں اسے انڈ کہا جاتا ہے۔

    سردار جی، غالب انڈ گوئٹے۔۔۔ غالب انڈ گوئٹے۔

    مرزا صاحب، واہ وا۔ خوب! اب آپ ہندوستان کے بہت بڑے اسکالر ہیں۔ کل برلن کے اخبارات میں اعلان شائع ہوگا کہ ہندوستان کے مشہور اسکالر سردار پر یتم سنگھ اتوار کے دن بوقت شام ہومبرگ ہال میں ’’غالب اور گوئٹے‘‘ کے موضوع پر ایک زبردست تقریر کریں گے۔ داخلہ ٹکٹ کے ذریعہ ہوگا وغیرہ۔

    سردار جی، لیکن میں تقریر میں کہوں گا کیا۔

    مرزا صاحب، جو جی میں آئے کہتے جائیے۔ بس بولتے جائیے اور ہر تین چار جملوں کے بعد ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ کہتے رہیے۔

    اتوار کی شام آپہنچی۔ ہومبرگ ہال جرمن ’’اہل ذوق‘‘ سے کھچا کھچ بھر گیا۔ صدارت کی کرسی پر برلن کے ایک مشہور ماہر ادبیات جلوہ افروز تھے۔ ان کے ایک طرف سردار پریتم سنگھ اور دوسری طرف مرزا کاظم بیٹھے تھے۔ تقریر کا وقت آگیا اور سردار صاحب تقریر کرنے کے لیے اٹھے صاحب صدر نے اٹھ کر حاضرین سے پروفیسر پریتم سنگھ کا تعارف کرایا۔ جس پر ہال خیر مقدم کی تالیوں سے گونج اٹھا۔

    سردار صاحب نے اپنی تقریر شروع کی۔

    ’’صاحبان! مرزا اسد خاں غالب دہلی کے رہنے والے تھے، اردو فارسی دونوں زبان کے شاعر تھے۔ شراب بہت پیتے تھے اس لیے ان کی عمر تنگ دستی میں گزری۔ دہلی ہندوستان کا دارالسلطنت ہے۔ وہاں ایک گھنٹہ گھر بھی ہے۔ چاندنی چوک میں سودا بیچنے والوں کی صدائیں بہت پیاری ہوتی ہیں ہر طرف سے آوازیں آتی ہیں۔ غالب انڈ گوئٹے۔‘‘

    مجمع نے پر زور تالیاں بجا کر آسمان سرپر اٹھا لیا اور جب تالیوں کی گونج ختم ہوئی تو سردار صاحب نے تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’دہلی سے تین سو میل کے فاصلے پر لاہور ہے۔ میں ضلع لاہور کا رہنے والا ہوں۔ ہمارا علاقہ بڑا زرخیز ہے۔ پچھلے سال بارشیں کم ہوئی تھیں۔ اس لیے فصلیں اچھی نہ ہوئیں، اس سال گورو مہاراج کی کرپا ہے۔ نہر میں بھی پانی خوب رہا اور بارشیں بھی اچھی ہوگئیں، امید ہے کہ گیہوں کی فصل اچھی رہے گی۔ لاہور کی بہت سی چیزیں دیکھنے لائق ہیں۔ مثلاً شاہی مسجد، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی، چڑیا گھر عجائب گھر غالب انڈ گوئٹے۔‘‘

    پھر تالیوں سے فضا گونج اٹھی اور صاحب صدر کے لبوں پر تبسم رقص کرنے لگا۔ آپ نے میز پر ہاتھ مار مار کر مقرر کی ’’جادو بیانی‘‘ کی داد دی۔ سردار صاحب نے اپنی حوصلہ افزائی ہوتی دیکھی تو ذرا زیادہ بلند آواز سے تقریر کرنے لگے۔ فرمایا،

    ’’غالب انڈ گوئٹے کی بدقسمتی تھی کہ انہوں نے شری دربار صاحب امرتسر کے درشن نہ کیے۔ حتیٰ کہ وہ ضلع گورداسپور بھی نہ جاسکے، ورنہ وہاں کا گڑ کھا کر انھیں نانی سپنے میں یاد آجاتی۔ ضلع امرت سرمیں ایک گائوں چمیاری ہے۔ وہاں کے خربوزے بہت مشہور ہیں، قصور کی میتھی بہت خوشبودار ہوتی ہے اور پھر غالب انڈ گوئٹے کے کیا ہی کہنے گویا انڈیا انڈ جرمنی!‘‘

    اس دفعہ سردار نے استاد کے بتائے ہوئے سبق ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ پر ’’انڈیا انڈ جرمنی‘‘ کا اضافہ کرکے کمال کر دکھایا اور ان الفاظ نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ تالیوں سے ہال گونج اُٹھا۔ سردار صاحب نے تقریر جاری رکھی اور دو تین فقرے کہنے کے بعد فرمایا کہ،

    ’’صاحبان! اب غالب کے اشعار بھی سنیے!‘‘

    اس مقام پر مرزا کاظم نے اُٹھ کر حاضرین سے جرمن زبان میں کہا کہ پروفیسر پریتم سنگھ اب غالب کے چند اشعار سنائیں گے۔ سردار صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں یہ گانا شروع کردیا،

    اساں نِت دے
    نی اساں نِت دے شرابی رہنا نی ہرنام کورے نارے
    اودھ وِچ کندھ کرلئے

    مرزا کاظم کرسی سے اچھل پڑے، جس پر حاضرین نے تالیوں سے فضا میں گونج پیدا کردی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب نے ان اشعار کو بے حد پسند کیا ہے سردار صاحب پھر بولے!

    اسیں مرگئے۔
    نی اسیں مرگئے کمایاں کردے نی ہر نام کورے نارے
    اجے تیرے بند نہ ہے ہائے نی اسیں مرگئے

    اس دفعہ بھی حسب معمول کافی داد ملی۔ لیکن داد کی حد تو اس وقت ہوئی جب سردار صاحب نے غالب کی وہ ’’مثلث‘‘ سنائی جس کی ٹیپ کا مصرعہ یہ تھا،

    ’’موڑیں بابا ڈانگ والیا چھئی‘‘

    ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا اور سردار پریتم سنگھ مورخ، شاعر اور ماہر ادبیات کی تقریرختم ہوئی، اس کے بعد مرزا کاظم اٹھے اور انھوں نے نہایت فصیح جرمن زبان میں بیان کیا کہ پروفیسر نے جس قابلیت کے ساتھ غالب اور گوئٹے کا موازنہ کیا ہے شاید ہی آج تک کسی نے کیا ہو۔ کم از کم برلن میں تو آج تک ایسی تقریر نہ ہوئی ہوگی اور مجھے فخر ہے کہ میرے ملک نے پروفیسر صاحب جیسے آدمی پیدا کیے ہیں۔ میں اس پوری تقریر کا ترجمہ کر کے برلن کے اخبارات میں شائع کراؤں گا اور آپ دیکھیں گے کہ میرے وطن کے مایہ ناز ماہر ادبیات نے علم و فضل کے کیا کیا دریا بہائے ہیں۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے پروفیسر صاحب کے خیالات سننے کی تکلیف گوارا فرمائی۔

    اس کے بعد صاحب صدر اٹھے اور انھوں نے پروفیسر صاحب اور مرزا کا ظم کا شکریہ حاضرین کی طرف سے ادا کی اور جلسے کے اختتام کا اعلان کیا۔ پھر کیا تھا بڑے بڑے ادیب، شاعر، اخبار نویس اور رئیس سردار صاحب سے مصافحہ کرنے کو لپکے اور آپ کو بڑی مشکل سے ہال کے دروازے تک لے جایا گیا۔ اسی رات کو مرزا کاظم پروفیسر پریتم سنگھ کو ٹرین پر سوار کرانے کے لیے اسٹیشن تک لے گئے اور دونوں کی جیبیں نوٹوں سے پُر تھیں۔

    (اردو ادیب اور مشہور طنز و مزاح نگار حاجی لق لق کی ایک دل چسپ تحریر)

  • جب روفی ‘شیطان’ مشہور ہوئے!

    جب روفی ‘شیطان’ مشہور ہوئے!

    اس رات اتفاق سے میں نے شیطان کو خواب میں دیکھ لیا۔ خواہ مخواہ خواب نظر آگیا۔ رات کو اچھا بھلا سویا تھا، نہ شیطان کے متعلق کچھ سوچا نہ کوئی ذکر ہوا۔ نجانے کیوں ساری رات شیطان سے باتیں ہوتی رہیں اور شیطان نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا کہ خاکسار کو شیطان کہتے ہیں۔

    یہ فقط ذہنی تصویر تھی جس سے شبہ ہوا کہ یہ شیطان ہے۔ چھوٹے چھوٹے نوک دار کان، ذرا ذرا سے سینگ، دبلا پتلا بانس جیسا لمبا قد۔ ایک لمبی دم جس کی نوک تیر کی طرح تیز تھی۔ دُم کا سرا شیطان کے ہاتھ میں تھا۔ میں ڈرتا ہی رہا کہ کہیں یہ چبھو نہ دے۔ نرالی بات یہ تھی کہ شیطان نے عینک لگا رکھی تھی۔ رات بھر ہم دونوں نہ جانے کس کس موضوع پر بحث کرتے رہے۔

    اس صبح چائے کی میز پر بیٹھتے ہیں تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ روفی کی شکل بالکل شیطان سے ملتی تھی۔ شکل کیا حرکتیں بھی وہیں تھیں۔ ویسا ہی قد، وہی چھوٹا سا چہرہ، لمبی گردن، ویسی ہی عینک، وہی مکار سی مسکراہٹ۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ چپکے سے رضیہ کے کان میں کہہ دیا کہ روفی شیطان سے ملتے ہیں۔ وہ بولی۔ آپ کو کیا پتہ؟ کہا کہ ابھی ابھی تو میں نے اصلی شیطان کو خواب میں دیکھا ہے۔ حکومت آپا رضیہ کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے جو ہمیں سرگوشی کرتے دیکھا تو بس بے قابو ہوگئیں۔ فوراً پوچھا۔۔۔ کیا ہے۔۔۔؟ رضیہ نے بتا دیا۔

    حکومت آپا کو تو ایسا موقع خدا دے۔ بس میز کے گرد جو بیٹھا تھا اسے معلوم ہوگیا کہ روفی کا نیا نام رکھا جا رہا ہے۔ لیکن محض خواب دیکھنے پر تو نام نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ ویسے روفی نے ہمیں تنگ بہت کر رکھا تھا۔ بچوں تک کی خواہش تھی کہ ان کا نام رکھا جائے۔

    ہم چائے ختم کرنے والے تھے۔ مجھے دوسرے آملیٹ کا انتظار تھا اور رضیہ کو پتہ نہیں کس چیز کا۔۔۔ کالج میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا، اس لیے مزے مزے سے ناشتہ کر رہے تھے۔ اتنے میں ننھا حامد بھاگا بھاگا آیا۔ اس کے اسکول کا وقت ہوگیا تھا اس لیے جلدی میں تھا۔ وہ روفی کے برابر بیٹھ گیا۔ حامد کو بخار ہو گیا تھا۔ تبھی اس کی حجامت ذرا باریک کروائی گئی تھی۔ روفی نے بڑی للچائی ہوئی نگاہوں سے حامد کے سر کو دیکھا۔ جونہی حامد نے ٹوسٹ کھانا شروع کیا روفی نے ایک ہلکا سا تھپڑ حامد کے سر پر جما دیا، اور میں نے فوراً رضیہ سے کہہ دیا کہ سچ مچ روفی شیطان ہی ہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی ننگے سر کھائے تو شیطان دھول مارتا ہے۔ حکومت آپا چونک کر ہماری جانب متوجہ ہوئیں۔ ان کو پتہ چلنا تھا کہ سارے کنبے کو معلوم ہوگیا کہ آج سے روفی شیطان کہلائے جائیں گے۔

    یہ تھا وہ واقعہ جس کے بعد روفی شیطان مشہور ہوگئے۔ چند ہی دنوں میں ہر ایک کی زبان پر یہ نام چڑھ گیا۔ یہاں تک کہ خود روفی نے اس نام کو بہت پسند کیا۔ روفی اور میں بچپن کے دوست تھے اور مجھے ان کی سب کہانیاں یاد تھیں۔ جب ہم بالکل چھوٹے چھوٹے تھے تو ایک دن روفی کو ان کی نانی جان تاریخ پڑھا رہی تھیں۔ جب پتھر اور دھات کے زمانے کا ذکر آیا تو روفی پوچھنے لگے، ’’نانی جان آپ پتھر کے زمانے میں کتنی بڑی تھیں؟‘‘ پھر کہیں سقراط اور بقراط کا ذکر ہوا۔ یہ بولے، ’’نانی جان سقراط اور بقراط کیسے تھے؟‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’آپ نے تو دیکھے ہوں گے۔‘‘ جواب ملا۔ ہر وقت روفی کو کچھ نہ کچھ سوجھتی رہتی تھی۔

    لیکن جب ہماری جماعت میں انسپکٹر صاحب معائنہ کرنے آئے تو وہ روفی سے بہت خوش ہوئے اور انعام دے کر گئے۔ انہوں نے پوچھا، ’’اگر پانی کو ٹھنڈا کیا جائے تو کیا بن جائے گا؟‘‘ ہم نے سوچا کہ روفی کہہ دیں گے کہ برف بن جائے گا۔

    روفی نے پوچھا، ’’کتنا ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    وہ بولے، ’’بہت ٹھنڈا کیا جائے۔‘‘

    روفی سوچ کر بولے، ’’تو وہ بہت ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ (بہت پر زور دے کر)

    ’’اگر اور بھی ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    ’’تو پھر وہ اور بھی ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ روفی بولے۔

    ’’اور اگر اسے بے حد ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘

    ’’تو وہ بے حد ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ انسپکٹر صاحب مسکرانے لگے اور پوچھا، ’’اچھا اگر پانی کو گرم کیا جائے تب؟‘‘

    ’’تب وہ گرم ہو جائے گا۔‘‘

    ’’نہیں، اگر ہم اسے بہت گرم کریں اور دیر تک گرم کرتے رہیں پھر؟‘‘

    روفی کچھ دیر سوچتے رہے، یکایک اچھل کر بولے، ’’پھر۔۔۔ چائے بن جائے گی۔‘‘ اور انسپکٹر صاحب نے ایک عظیم الشان قہقہہ لگایا۔ ماسٹر صاحبان نے کوشش کی کہ انہیں کہیں ادھر ادھر لے جائیں، لیکن وہ وہیں کھڑے رہے اور روفی سے بولے، ’’بلّی کی کتنی ٹانگیں ہوتیں ہیں؟‘‘

    ’’تقریباً چار!‘‘

    ’’اور آنکھیں؟‘‘

    ’’کم از کم دو۔۔۔!‘‘

    ’’اور دُمیں؟‘‘

    ’’زیادہ سے زیادہ ایک!‘‘

    ’’اور کان؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’تو کیا سچ مچ آپ نے اب تک بلّی نہیں دیکھی؟‘‘ روفی منہ بنا کر بولے اور انسپکٹر صاحب ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے۔ ان دنوں سے میں اور روفی دوست تھے۔

    (پاکستان کے معروف طنز و مزاح نگار اور افسانہ نویس شفیق الرحمان کے ایک مضمون سے اقتباسات)