Tag: طنز و مزاح

  • سیاست داں سیاحت سے ’اجازت‘ تک!

    سیاست داں سیاحت سے ’اجازت‘ تک!

    سیاست داں سے بڑا سیاح کوئی نہیں۔ اندرون ملک وہ ایک پارٹی سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی سیاحت کرتا ہے اور اگر کسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں برسراقتدار آجاتا ہے، تو سرکاری خرچے پر اپنے اہل وعیال، دوست احباب اور خوشامدیوں کے ساتھ ملکوں ملکوں گھومنے پھرنے کا لائسنس حاصل کر لیتا ہے۔

    سیاست داں کو وفاداری بدلنے کے لیے اسمبلی کا ایک ٹکٹ یا کابینہ کی ایک نشست کی ترغیب کافی ہے۔ اب تو سیاسی وفاداری کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ جس پارٹی نے کسی سیاست داں کو خریدا ہے، وہ اسی کا ہو رہے، لیکن وہ تو دھڑلے سے کہتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی، آخری یا مستقل نہیں ہوتی۔ چناں چہ جب بھی انتخابات کا موسم قریب آتا ہے سیاست کا میدان ”اسٹاک ایکسچینج“ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور سودوں میں تیزی آجاتی ہے۔ انگریزی میں اس طرح بک جانے والے سیاست داں کو Turncoat کہا جاتا ہے، جب کہ اردو میں وہ اپنی لڑھکتی خصلت کے باعث ”لوٹا“ کہلاتا ہے۔ جس پارٹی سے وہ قطع تعلق کرتا ہے، وہ اسے ”گندا انڈا“ قرار دیتی ہے اور جہاں جاتا ہے وہاں اس کی ایسی آؤ بھگت ہوتی ہے کہ وہ خود کو بھگت کبیر سمجھنے لگتا ہے۔ آپ ایسے کسی سیاست داں کے جس کو سابقہ ریکارڈ کی بنا پر شرمندہ کرنے کی کوشش کریں، تو وہ علامہ اقبال کی سند لے آتا ہے:

    جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
    اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

    سیاست داں کا ہر قدم ہر قول، ہر کام قوم کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے۔ اس کے ”یوٹرنز“ قلابازیوں، کہہ مکرنیوں اور وعدہ خلافیوں، سب پر قوم کے بہترین مفاد کی چھاپ لگی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ بھی قوم کے بہترین مفاد میں کرتا ہے۔ وہ قوم کے بہترین مفاد میں کوئی ادارہ بناتا ہے اور پھر قوم کے بہترین مفاد میں اسے بند کر دیتا ہے۔ یہی حال قانون سازی کا ہے۔ بے چارہ قانون خود پکار اٹھتا ہے کہ ’میں ترا چراغ ہوں، جلائے جا بجھائے جا۔‘ عوام کی بے لوث خدمت اس کا اولین و آخرین نصب العین ہوتا ہے۔ سیاست داں اس وقت تک خدمت کرتا رہتا ہے، جب تک دَھر نہیں لیا جاتا اور جب دَھر لیا جاتا ہے، تو پولیس وین میں بیٹھ کر پوری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلیوں سے ”وی“ (V) کا نشان بنانا نہیں بھولتا، جس سے اپنے حواریوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ ڈٹے رہو جیت بالآخر بدعنوانی کی ہوگی۔ جیل جاتے ہی وہ بیمار پڑ جاتا ہے اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسپتال کے اسپیشل وارڈ میں داخل کر لیا جاتا ہے۔ اس دوران اس کی ضمانت ہو گئی، تو ٹھیک ورنہ میڈیکل بورڈ فوراً اس کی مرضی کے ملک میں علاج کی سفارش کر دیتا ہے اور وہ یہ کہتا ہوا نو دو گیارہ ہو جاتا ہے کہ؎
    اب تو جاتے ہیں بُت کدے سے میر
    پھر ملیں گے اگر خدا لایا

    (طنز و مزاح‌ پر مبنی یہ تحریر ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی "تصنیف کتنے آدمی تھے؟” سے چنا گیا)

  • کچھ زخمی کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں…

    کچھ زخمی کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں…

    وطنِ عزیز کی سیاست کا دار و مدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کر کے کتنے زیادہ لوگوں کا وقت ضایع کیا، کتنا بڑا جلوس نکال کر کتنی سڑکوں کو بند کرا کے عوام کو اذیت میں مبتلا کیا، کتنا بڑا اور طویل دھرنا دے کر میڈیا پر رنگ اور معیشت پر زنگ جمایا وغیرہ۔

    بعض برخود غلط قسم کے سیاست داں فخریہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک کال پر پورا شہر و صوبہ یا ملک بند کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے جال و مال اور روزگار کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کی ذمے داری وہ حکومت وقت اور برسر اقتدار پارٹی پر ڈال کر اپنے لیے راحت قلب اور روحت روح کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ وہ خود ”شرم پروف“ ہوتے ہیں، لیکن مخالفین کو بے شرمی کے طعنوں سے نوازنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ سیاست غریب سے ووٹ اور امیر سے نوٹ لے کر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کا فن ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے غلط تھوڑی کہا تھا ”سیاست دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔ مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ اوّل نمبر پر قدیم ترین پیشے سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔“ اگر غور کیا جائے، تو یہ دونوں پیشے آپس میں ”کزن“ ہیں۔ شاید اس قرابت داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ایک انقلابی شاعر آغا شورش کاشمیری نے سیاست کے باب میں کہا تھا:

    مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

    سیاست داں اور دانش ور کبھی بلاوجہ سچ نہیں بولتے۔ جب کبھی وہ (حادثاتی طور پر) سچ بول جاتے ہیں، تو لوگ ان کا یقین نہیں کرتے۔ امریکا میں سیاست دانوں سے بھری ہوئی ایک بس کسی قومی تقریب میں شرکت کے لیے ایک نواحی گاؤں میں جا رہی تھی۔ جب بس ہائی وے سے گاؤں کے راستے میں آگئی، تو ڈرائیور کی بد احتیاطی کے باعث ایک سنسان مقام پر درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ ہر طرف خون اور شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہو کر تن تنہا دو گھنٹے میں ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں دفنا دیا۔ شام تک جب حادثے کی خبر عام ہوئی، تو میڈیا والوں نے دیہاتی کو تلاش کر کے حادثے کی تفصیلات لیں اور اس کے جذبۂ انسانیت کو سراہا۔ ایک اخباری نمائندے نے اس سے سوال کیا ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    ”نہیں جی“ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا ”کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں، مگر آپ جانتے ہیں، وہ سیاست داں تھے۔

    انگلستان کے ایک وزیراعظم (Benjamin Disraeli) نے اپنے ہی ملک کے ایک سیاست داں کے بارے میں کہا تھا کہ اگر وہ ٹیمز دریا میں گر جائے، تو یہ ایک حادثہ ہوگا، لیکن اگر اسے بچا لیا جائے، تو یہ سانحہ ہوگا۔

    حادثے اور سانحہ کا فرق جاننا ہو تو پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    (ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف ”کتنے آدمی تھے؟“ سے انتخاب)

  • گم شدہ کی تلاش

    گم شدہ کی تلاش

    یہ اشتہار میں اپنے گم شدہ بھائی چنتا منی کے متعلق دے رہا ہوں۔ موصوف ایک مرتبہ پہلے بھی گم ہوگئے تھے، لیکن اس وقت میں نے اشتہار نہیں دیا تھا۔

    کیونکہ میرا خیال تھا کہ موصوف خود دار آدمی ہے، اس لیے اس نے ضرور کنوئیں میں چھلانگ لگا دی ہوگی۔ لیکن چھٹے دن وہ میلی چکٹ پتلون کے ساتھ گھر لوٹ آیا اور بقول ہمارے چچا کے ’’آخر تو ہمارا ہی خون تھا، کیوں نہ لوٹتا، خون نے جوش مارا ہوگا۔‘‘

    ہمیشہ اجلی پتلون پہننے والا کب تک گھر سے باہر رہ سکتا تھا۔ خودی چاہے کتنی ہی بلند ہو جائے پتلون کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مگر اس بار مجھے یقین ہے کہ موصوف لوٹ کر نہیں آئے گا۔ کیونکہ وہ گھر سے دو سو روپے اٹھا کر لے گیا ہے۔ اس لیے اب اس کی رگوں میں ہمارا خون جوش نہیں مارے گا۔ اشتہار دینے کی ایک اور وجہ والدہ محترمہ ہیں، جو موصوف کو ابھی تک ’’نادان لڑکا‘‘ گردان رہی ہیں۔ میں نے لاکھ کہا کہ مادر مہربان! چنتا منی اب بیس برس کا ہوچکا ہے نادان نہیں رہا۔ وہ چہرے مہرے سے ہی گدھا دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے کافی کائیاں ہوچکا ہے۔ مگر والدہ محترمہ جس نے اس گدھے کو جنم دیا، اپنی تخلیق پر زیادہ مستند رائے رکھتی ہیں، اس نے مجھے طعنہ دیا، ’’دراصل تم چھوٹے بھائی کی غیرحاضری میں ساری آبائی جائیداد کو تنہا ہڑپ کرنا چاہتے ہو۔‘‘

    ہماری آبائی جائیداد دو کمروں والا ایک مکان ہے جو ہم نے کرائے پر لے رکھا ہے یا پھر والد محترم کے قبضہ میں ایک بہی کھاتا ہے جس میں درج ہے کہ ہمارے خاندان کے پاس ڈیڑھ سو ایکڑ زمین ہے جس پر آج کل ایک دریا بہہ رہا ہے۔ والد محترم گزشتہ گیارہ برس سے اس دریا کے سوکھنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

    اگرچہ والدہ محترمہ کے طعنہ کی بنیادیں دریا برد ہوچکی ہیں لیکن پھر بھی ایک فرماں بردار فرزند کے طور پر میں یہ اشتہار دینے پر مجبور ہوا ہوں۔

    برادر عزیز چنتا منی کی تصویر مجھے نہیں مل سکی ورنہ اس اشتہار کے ساتھ ضرور چھپواتا۔ دراصل اس کے جتنے فوٹو تھے وہ اس نے اپنی وقتاً فوقتاً قسم کی محبوباؤں میں بانٹ دیے تھے۔ پوچھنے پر چنتا منی کی ہر محبوبہ نے جواب دیا کہ اس کے پاس چنتا منی کی فوٹو تھی، وہ اس نے رسوائی کے خوف سے ضائع کر دی ہے۔ ایک محبوبہ تو اتنی صاف گو نکلی کہ اس نے تنک کر جواب دیا، ’’میں نے شادی ہوتے ہی چنتا منی کی وہ فوٹو لوٹا دی تھی اور آج کل بٹوے میں اپنے خاوند کا فوٹو رکھتی ہوں۔‘‘

    چنانچہ فوٹو دستیاب نہ ہونے کے باعث مجبوراً میں اپنا ہی فوٹو اس اشتہار کے ساتھ شائع کر رہا ہوں۔ اس کے باوجود گم شدہ میرے بھائی کو سمجھا جائے، مجھے نہیں۔

    والد اور والدہ محترمہ دونوں کی متفقہ رائے ہے کہ چنتا منی کی ناک تم سے ملتی ہے، اس لیے پہچاننے میں آسانی رہے گی۔ ہمارے نانا مرحوم کی ناک بھی تم دونوں نواسوں سے ملتی تھی اور وہ بھی گھر سے بھاگ گئے تھے (عجیب ناک ہے، نانا کے وقت سے کٹ رہی ہے) بہرکیف فوٹو میں میری ناک حاضر ہے۔ ناک کے علاوہ میرے جتنے اعضا ہیں وہ میرے ذاتی ہیں۔ برادر عزیز چنتا منی کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

    برادر موصوف چنتا منی کے باقی ناک نقشہ کے متعلق پوزیشن یہ ہے کہ اس کا رنگ بچپن میں دودھ کی طرح گورا تھا (ان دنوں وہ صرف ماں کا دودھ پیا کرتا تھا) لڑکپن میں وہ دودھیا رنگ گندمی ہوتا گیا، کیونکہ اس نے گندم کھانا شروع کردی تھی۔ جوان ہوتے ہی رنگ کا میلان سیاہی کی طرف ہوگیا، نہ جانے جوانی میں چوری چھپے اس نے کیا کھانا شروع کردیا تھا۔ البتہ جب والد محترم اسے ہیبت ناک قسم کی گالیاں اور بھبکیاں دیا کرتے تو لمحہ بھر کے لیے اس کا رنگ پیلا بھی پڑ جاتا تھا۔ گویا چنتا منی بڑا رنگا رنگ آدمی تھا (خدا اسے ہر رنگ میں خوش رکھے۔)

    آنکھیں بڑی بڑی مگر گونگی قسم کی، جیسے کوئی حسینہ بغیر بیاہ کے بیوہ ہو گئی ہو۔ کئی بار میں نے اسے مشورہ دیا، ’’ارے پگلے! ان پر کالا چشمہ لگالے، بات بن جائے گی۔‘‘ مگر وہ نہیں مانا۔ ایک بار میں نے اپنی بیوی کی آنکھ بچا کر اپنا چشمہ اسے دے بھی دیا مگر وہ اس نے ایک دوست کو دے دیا۔ دوست نوازی میں تو وہ بے مثال تھا۔

    والد محترم اسے دوست نوازی پر ہمیشہ چھڑی سے پیٹا کرتے تھے اور اس پٹائی کو وہ کمال صبر و شکر سے سہ لیتا تھا۔ صبر و شکر میں بھی بے مثال تھا۔ والد محترم نہایت فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی شریف اور صابر لڑکا پیدا کیا ہے اور وہ چنتا منی ہے۔ بزرگوں کے سامنے چوں تک نہیں کرتا۔ آہ اس کے بھاگنے کے بعد اب ان بزرگوار کی چھڑی کسی کام نہیں آرہی۔

    چنتا منی کی پیشانی پر ایک داغ ہے۔ ایک بار وہ چھت پر کھڑا ایک لڑکی کو گھور رہا تھا۔ لڑکی مذکورہ نے جواباً ایک اینٹ دے ماری۔ اگرچہ چنتا منی نے اس خشت محبت کا ذکر کسی سے نہیں کیا مگر بعد میں اس ناشائستہ لڑکی نے اپنی سہیلیوں سے ذکر کردیا تو بات پھیل گئی اور اس ڈاکٹر تک بھی جاپہنچی جس نے علاج کا بل ایک دم یہ کہہ کر بڑھا دیا کہ اینٹ کا زخم زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

    چنتا منی کے جسم کے باقی حصے صحیح سلامت ہیں۔ وہ ایک مضبوط الجثہ نوجوان ہے۔ غلہ کی بوری اٹھا کر تین میل تک چل سکتا ہے۔ ممکن ہے وہ اس وقت بھی کسی غلہ منڈی میں بوریاں اٹھانے کا کام کر رہا ہو اور منڈی کے بیوپاری اسے نہایت قلیل اجرت دے رہے ہوں۔ کیونکہ چنتا منی کو بھاؤ تاؤ کرنا نہیں آتا۔ اسے کچھ بھی نہیں آتا۔ سوائے خاموش رہنے کے۔ سوائے ستم سہنے کے۔ مگر میں بیوپاریوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ اس ستم پسندی کا زیادہ استحصال نہ کریں، ورنہ وہ ان کے ہاں سے بھی بھاگ جائے گا۔ کیونکہ بھاگنے کے لیے اس کے پاس پاؤں موجود ہیں۔ چنتا منی کی زبان کام نہیں کرتی، پاؤں کام کرتے ہیں۔

    چنتا منی کیوں بھاگا؟ اس کے متعلق مؤرخین کی آراء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ والد محترم یعنی ابوالچنتا منی کا خیال ہے کہ لڑکا شادی کا خواہش مند تھا مگر اسے دور دور تک شادی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ مگر عم الچنتا منی یعنی چچا جان اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ چنتا سرے سے شادی سسٹم کے ہی خلاف تھا اور برہم چریہ میں یقین رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ایک ذمہ دارانہ سوجھ بوجھ کا مالک تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی دو بہنیں ابھی تک کنواری بیٹھی ہیں۔ یعنی برہم چریہ کے لیے اس کے پاس ٹھوس وجہ موجود تھی۔۔۔ تیسرے مؤرخ ام الچنتا منی یعنی والدہ محترمہ کی رائے چچا جان سے کسی حد تک ملتی ہے، صرف اس ترمیم کے ساتھ کہ بہو (یعنی میری زوجہ) نے ہی اسے یہاں سے فرار ہونے میں مدد دی ہے۔

    خود بہو بھی اس قسم کی ایک الگ رائے رکھتی ہے۔ یعنی جو ساس کہے اس کے الٹ۔

    قارئین! مجھے انتہائی افسوس ہے کہ چنتا منی کی خاطر مجھے اپنے کنبہ کی اندرونی حالت ظاہر کرنا پڑی اور باعزت کنبے کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ لیکن پورا پس منظر دیے بغیر چنتا منی کی تلاش ناممکن ہے، بہرکیف مؤرخین کے ان شدید اختلافات کی موجودگی میں وثوق سے کہنا ناممکن ہے کہ چنتامنی کیوں بھاگا؟ بیکاری، بیزاری، کنوارپن، کند ذہنی، پٹائی، ڈیموکریسی، صنعتی ارتقا، برہم چریہ، قربانی، بے وقوفی۔۔۔ ان میں سے کوئی ایک وجہ بھی ہوسکتی ہے یا ساری وجہیں بھی ہوسکتی ہیں۔ شاید چنتا منی ان تمام وجہوں کو اپنے ذہن میں پالتا رہا، پالتا رہا اور اس دن یہ تمام وجہیں منزل مقصود کو پہنچ گئیں جب اچانک دو سو رپے اس کے ہاتھ لگ گئے۔

    یہ دو سورپے میرے ایک دوست کی امانت تھے اور اب اس نے مجھ پر مقدمہ کر رکھا ہے۔

    عزیز چنتا منی کی تلاش میں ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ ریلوے اسٹیشنوں پر ڈھونڈا، جیل خانے چھانے، جوئے خانوں میں گئے، فلم کمپنیوں سے پوچھا۔ میری ماں درختوں سے پوچھتی پھری۔ والد محترم نے مختلف ریل گاڑیوں پر سفر کیا لیکن چنتا منی جیسے ایک خدا تھا کہ کہیں نہیں ملا۔

    (ممتاز اردو ادیب اور معروف مزاح نگار فکر تونسوی کی ایک شگفتہ تحریر)

  • ہماری فلمیں!

    ہماری فلمیں!

    فلم ہر دور میں ایک ایسا میڈیم رہا ہے جس نے ہر طبقۂ عوام کو یکساں‌ متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر رومانوی فلمیں ایک زمانہ میں بہت دیکھی جاتی تھیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں کئی دہائیوں پہلے جو فلمیں بنا کرتی تھیں ان میں محبّت کے راستے میں ایک ولن کو رکاوٹ اور ظالم سماج کو حائل ضرور دکھایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی رنگین اور اکثر سنگین موڑ فلموں‌ میں آتے تھے، جو فلم کی کام یابی کی ضمانت تو ہوتے تھے، لیکن ان کے کردار عام زندگی سے اتنے مختلف ہوتے تھے یا کہانی میں واقعات کو اس قدر غیر فطری انداز میں پیش کیا جاتا تھا کہ فلم بین بعد میں ان پر ہنستے ہی تھے۔

    اردو زبان کے بڑے بڑے ادیبوں، خاص طور پر مزاح نگاروں نے ایسی ہی فلمی کہانیوں‌ پر مزاحیہ تحریریں سپردِ قلم کی ہیں‌۔ یہاں ہم اردو زبان کے مقبول ترین طنز و مزاح نگار شفیق الرحمان کے ایک ایسے ہی مزاحیہ مضمون سے چند پارے پیش کررہے ہیں جو آپ کو مسکرانے پر مجبور کردیں‌ گے۔ ملاحظہ کجیے:

    ہماری فلموں سے مراد وہ فلمیں ہیں جو ملکی ہیں۔ جن میں ہماری روزانہ زندگی کے نقشے کھینچے جاتے ہیں، جن میں ہماری برائیاں اور کمزوریاں بے نقاب کی جاتی ہیں۔

    ڈاکٹر، وکیل، تھانیدار، یہ سب ہماری فلموں کی جان ہیں۔ جس فلم میں ایک آپریشن، ایک عدالت کا سین اور ایک گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاتی اسے بہت کم لوگ پسند کرتے ہیں۔ لیکن فلموں کا ڈاکٹر آل راؤنڈ ہوتا ہے۔ یعنی ہاتھ میں نشتر، گلے میں ربڑ کی نلکی، سر پر ہیڈ مرر اور دیوار پر بینائی ٹسٹ کرنے کے حروف۔ پتہ نہیں یہ سب چیزیں ایک ہی شخص ایک ہی کمرے میں کیونکر استعمال کر سکتا ہے اور ڈاکٹر کا محبوب فقرہ یہ ہے، ’’حالت نازک ہے، دماغی صدمہ پہنچا ہے۔ اگر ایسا ہی صدمہ دوبارہ پہنچایا جا سکے تو یہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے یا ہو جائیں گی۔‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر دماغ کا آپریشن کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ ایسا آپریشن جو بڑے بڑے تجربہ کار سرجن نہیں کرسکتے۔

    ایک خطرے سے ہم آگاہ کیے دیتے ہیں کہ اگر فلم میں کوئی ایسا سین آجائے جہاں فضا میں سکون ہو۔ ایکٹر بولتے بولتے دفعتاً خاموش ہوجائیں۔ کوئی خوش خبری سنا دے یا بہت بری خبر لے آئے۔ دو پرندے (ہمارے پرانے دوست) بیٹھے ہیں۔ سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو اور ہوا چل رہی ہو، تو سمجھ لیجیے کہ ضرور کوئی نہ کوئی گائے گا۔ کسی نہ کسی ایکٹر کو بیٹھے بٹھائے دورہ اٹھے گا اور دیکھتے دیکھتے وہ آپے سے باہر ہو جائے گا۔ اس وقت دنیا کی کوئی طاقت اسے گانے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ اور کچھ نہیں تو فوراً وہی ہمارا دیرینہ رفیق ایک سادھو گاتا ہوا سامنے سے گزر جائے گا۔

    اور یہ لاٹری کی علت بھی سچ مچ سمجھ میں نہیں آئی۔ فلم میں جہاں کہیں ہیرو لاٹری کا ٹکٹ لے لے، بس فوراً سمجھ لیجیے کہ یہ تین چار لاکھ یوں وصول کر لے گا۔ یہ یک طرفہ کارروائی ہمیں بالکل پسند نہیں۔ یا تو یوں ہو کہ فلم کے تمام ایکٹروں کو لاٹری کے ٹکٹ خریدتے دکھایا جائے۔ پھر کسی ایک کے نام انعام نکل آئے تو کوئی بات بھی ہوئی۔ لیکن جو سب سے غریب ہوتا ہے، اسے کوئی مجبور کر کے ایک ٹکٹ دلوا دیتا ہے۔ یک لخت وہ امیر ہو جاتا ہے اور بیوی بچوں کو چھوڑ چھاڑ کر بمبئی یا لاہور بھاگ جاتا ہے۔ وہاں سارا روپیہ خرچ کر کے پاگل یا کانا ہوکر واپس آجاتا ہے۔ آتے ہی اس کی بیوی فوراً اسے معاف کر دیتی ہے۔ ایک ڈاکٹر آپریشن کر کے اس کا دماغ یا آنکھیں درست کر دیتا ہے اور جہاں سے یہ قصہ شروع ہوا تھا وہیں ختم ہو جاتا ہے۔

    اور زمینداروں کے متعلق لگاتار فلمیں دیکھ دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ زمیندار ایک نہایت رومانوی ہستی ہے جس کا کام صبح سے شام تک شعر و شاعری اور محبت کرنا ہے۔ کپاس کے کھیتوں میں عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں۔ چرواہے بیلوں اور بھینسوں کے پاس بیٹھ کر محبوب کی یاد میں بانسری بجاتے ہیں۔ ہر ہل چلانے والا ایک زبردست گویا ہوتا ہے جو چوبیس گھنٹے گاتا ہی رہتا ہے۔ ہر زمیندار کے لڑکے کا فرض ہے کہ وہ ضرور کسی سے محبت کرے اور زمیندار کا فرض ہے کہ وہ پہلے تو رسماً خفگی ظاہر کرے، پھر شادی پر رضامند ہو جائے۔

  • ‘مختصر بات قدرے تفصیل سے!’

    ‘مختصر بات قدرے تفصیل سے!’

    سیاستدانوں کو ٹیلی ویژن پر بھاشن دیتے ہوئے مجھے ہمیشہ اپنی بڑی خالہ جان یاد آ جاتی ہیں۔

    وہ بھی کسی سادہ سے سوال کے جواب میں ایک طویل داستان شروع کر دیتی تھیں، مثلاً میں پوچھتا کہ ”خالہ جان آج آپ دوپہر کے کھانے میں کیا پکا رہی ہیں؟“ تو وہ کچھ یوں آغاز کرتی تھیں کہ ”میں جو گھر سے نکلی ہوں تو راستے میں فاطمہ جولاہی مل گئی، اس کا بیٹا دوبئی میں ہے، اس نے ایک پورا صندوق کپڑے لتّے کا ماں کو بھیجا ہے، تو فاطمہ جولاہی نے مجھے وہ سارے کپڑے دکھائے۔“

    خالہ جان نہایت تفصیل سے ہر کپڑے اور ہر لباس کے بارے میں مجھے آگاہ کرتیں کہ ان میں سے کتنے سوٹ کمخواب کے تھے اور کتنے سوٹوں پر کتنی تعداد میں موتی ٹانکے تھے۔

    ازاں بعد وہ آشاں بی بی سے ملاقات کی تفصیل بیان کرنے لگتیں اور جب میں بیزار ہو کر کہتا کہ ”خالہ جی میں نے تو آپ سے پوچھا تھا کہ آج دوپہر کے کھانے پر آپ کیا بنا رہی ہیں؟“ تو وہ سخت خفا ہو جاتیں اور کہتیں کہ "ایک تو آج کل کے بچوں میں صبر نہیں ہے، بات سننے کا حوصلہ نہیں، میں نے دوپہر کے کھانے کے لئے ٹینڈے پکائے ہیں“۔

    ویسے خالہ جان اِن سیاست دانوں کی مانند دروغ گو اور منافق نہ تھیں، جو دل میں ہوتا تھا وہ بیان کر دیتی تھیں، اگرچہ قدرے "تفصیل” سے کرتی تھیں۔ ”

    (اقتباس ”مختصر بات اور باتوں کے خربوزے“ از مستنصر حسین تارڑ)

  • گفتگو کا آرٹ!

    گفتگو کا آرٹ!

    جو کچھ کہنے کا اردہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے۔ وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ورنہ جتنی دیر چاہے، باتیں کیجیے۔

    اگر کسی اور نے بولنا شروع کر دیا تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔ چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رُکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کر دیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجئے۔ اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا تو بے شک جمائیاں لیجیے، کھانسیے، بار بار گھڑی دیکھیے۔۔۔ابھی آیا۔۔۔ کہہ کر باہر چلے جائیں یا پھر وہیں سو جائیے۔

    یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگاتار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہو جائے گا۔ البتہ لڑیئے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آ سکتا ہے۔ کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اسے بھی مت مانیے۔ لوگ ٹوکیں، تو الٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کر کے اُنہیں خاموش کرا دیجیے، ورنہ خوامخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔ دورانِ گفتگو لفظ آپ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اصل چیزمیں ہے۔ اگر آپ نے اپنے متعلق کچھ نہ کہا تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔ تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔ کبھی کسی کی تعریف مت کریں۔ ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ کو اُس سے کوئی کام ہے۔ اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا ہو تو، جسے وہ چھپا رہا ہو تو بار بار اُس کی بات کاٹ کر اُسے چڑائیے۔وکیل بھی اسی طرح مقدّمے جیتتے ہیں۔

    ( مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی کتاب مزید حماقتیں سے اقتباس)

  • کراچی کا سفر نامہ (طنز و مزاح)

    کراچی کا سفر نامہ (طنز و مزاح)

    یوں تو ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے“ اور ہر تمنا پوری نہیں ہوتی لیکن یار لوگ تادم مرگ دل میں کوئی نہ کوئی آرزو پالے رکھتے ہیں اور اس کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

    بعض صاحبان اگر اپنی خواہشات من وعن پوری نہ کرسکیں تو بھی کسی نہ کسی طرح دل کا ارمان نکال ہی لیتے ہیں۔ مثلاً شاعر کہلانے کے آرزومند خواتین و حضرات ایک عرصے تک طبع آزمائی اور قافیہ پیمائی کے باوجود جب اپنے کلام کو باوزن کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں تو ”نثری نظمیں“ کہہ کر شاعر کہلانے کا ارمان پورا کرلیتے ہیں یا ڈاکٹر بننے کے خواہش مند اگر ایم بی بی ایس میں داخلے سے محروم رہ جائیں تو ہومیوپیتھ بن کر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگا لیتے ہیں۔ ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

    ہمیں آرزو تھی کہ ملکوں ملکوں سفر کریں اور سفرنامے لکھیں۔ اب آپ سے کیا پردہ، ہماری اس خواہش کے پیچھے سیاحت سے زیادہ ابن بطوطہ سے لے کر مستنصر حسین تارڑ تک تقریباً تمام سیاحوں کی رنگیں بیانیوں کا عمل دخل تھا۔ سوچا تھا کہ ابن بطوطہ کی طرح فی سفر ایک شادی نہ بھی کرسکے تو تارڑ صاحب کی طرح فی سیاحت ایک رومان تو کر ہی ڈالیں گے، لیکن مجبوری حالات نے ملکوں ملکوں گھومنا تو کجا پنڈی بھٹیاں اور رن پٹھانی کا سفر بھی نہیں کرنے دیا۔ لیکن ہم بھی ایک ڈھیٹ، تہیہ کرلیا کہ سفر کریں نہ کریں سفر نامہ ضرور لکھیں گے سو ”میں نے آسٹریلیا دیکھا“، ”ہٹلر کے دیس میں“ اور ”جہاں انگریز بستے ہیں“ کے زیر عنوان بالترتیب آسٹریلیا، جرمنی اور برطانیہ کے سفر نامے لکھ اور چھپوا ڈالے۔

    یہ سفر نامے کیا تھے معلومات کے خزانے تھے، ان میں ہم نے ایسے ایسے انکشافات کیے تھے کہ اگر یہ کسی اور ملک میں چھپتے تو ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور ہمیں سیاح اور مصنف کے بہ جائے محقق کا درجہ عطا کردیا جاتا۔ مثلاً ”ہٹلر کے دیس میں“ میں ہم نے پہلی بار یہ انکشاف کیا کہ جرمنی کا نام جرمنی اس لیے پڑا کہ وہاں جرمن رہتے ہیں۔ آسٹریلیا کے بارے میں ہماری یہ تحقیق ملتِ بیضا کے لیے کتنی دل خوش کُن ہونا چاہیے تھی کہ یہ ملک ”آسٹر علی“ نامی ایک یورپی نژاد مسلمان نے دریافت کیا تھا اور اسی سے منسوب ہوا، بعد میں کچھ زیادہ ہی بگڑ کر یہ نام ”آسٹر علی“ سے آسٹریلیا ہوگیا، ویسے ہم تو یہ بھی ثابت کرسکتے تھے کہ آسٹریلیا جون ایلیا نے کسی آسٹر نامی انگریز کے اشتراک سے دریافت کیا تھا، اور اس ملک کا اصل نام ”آسٹر ایلیا“ تھا، لیکن (ہمارے یا آسٹریلیا کے) ایک بہی خواہ نے مسودہ دیکھ کر ہمیں سمجھایا کہ جون صاحب نے ”پیالۂ ناف“ کے سوا کچھ دریافت نہیں کیا اور یوں بھی وہ آسٹریلیا کے بہت بعد پیدا ہوئے تھے۔ اسی طرح ”جہاں انگریز بستے ہیں“ میں ہم پہلی مرتبہ یہ حقیقت سامنے لائے کہ برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ، ان تینوں ملکوں میں بڑی ثقافتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لیکن ایسی خرد افروز اور علم افزا تصانیف کا صلہ ناقدین نے ہمیں ”جاہل مطلق“ ٹھہراکر دیا۔ انھوں نے ہماری ذکر کردہ معلومات اور ہمارے کچھ فقروں کو جواز بنا کر ہم پر وہ لعن طعن کی کہ خدا کی پناہ۔ ہماری تصانیف کے جو فقرے طنزوتضحیک کا نشانہ بنے ان میں سے چند یہ ہیں:

    ”میں نیاگرا آبشار کے کنارے خاموش بیٹھا اس جھرنے کی صدا سن رہا ہوں جو آسٹریلیا کی تاریخ بیان کررہا ہے۔“(”میں نے آسٹریلیا دیکھا“ صفحہ 3)

    ”دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی دوحصوں میں منقسم ہو گیا۔ ایک کا نام رکھا گیا مغربی جرمنی اور دوسرا مشرقی جرمنی کہلایا۔ ہمارے ہاں تو مشرقی پاکستان میں بنگالی بستے تھے، لیکن حیرت ہے کہ یہاں مغربی کی طرح مشرقی جرمنی میں بھی جرمن ہی آباد ہیں، ہمیں تلاش بسیار کے باوجود یہاں ایک بھی بنگالی نظر نہیں آیا۔ اس صورت حال سے اندازہ ہوا کہ ان کے ٹکا اور یحییٰ خان ہمارے والوں سے کہیں زیادہ سفاک تھے۔ یہ امکان بھی ہے کہ جرمنوں کے ساتھ رہتے رہتے مشرقی جرمنی کے بنگالی بھی جرمن ہوگئے ہوں۔ اس امکان نے ہمیں خوف زدہ کردیا اور ہم اپنا سفر مختصر کر کے اس ڈر سے پاکستان واپس آگئے کہ کہیں کچھ روز اور جرمنی میں رہ کر ہم بھی جرمن نہ ہوجائیں۔“ (”ہٹلر کے دیس میں“ صفحہ 608)

    ”برطانیہ میں جہاں دیکھو انگریز نظر آتے ہیں۔ یقیناً یہ انگلستان سے آکر یہاں بسے ہوں گے اور ایسے بسے کہ سارے ملک پر چھاگئے۔“

    اب آپ ہی بتائیے کہ ان تحریروں میں آخر ایسا کیا ہے جس سے ہماری جہالت یا لاعلمی ثابت ہوتی ہو؟ اس ضمن میں تنقید کرنے والوں سے ہم نے کہا کہ جہاں تک نیاگرا آبشار کا تعلق ہے تو ہم نے یہ کب لکھا کہ یہ جھرنا کینیڈا کے بہ جائے آسٹریلیا میں گرتا ہے۔ بات بس اتنی ہے کہ آسٹریلیا جانے سے پہلے ہم کینیڈا گئے تھے اور نیاگرا کے قریب بیٹھے آسٹریلیا کے خیالوں میں گم تھے۔ یہ منظر ہم نے ذرا شاعرانہ انداز میں بیان کردیا اور کینیڈا کا تذکرہ کرنا بھول گئے اور نقادوں نے اتنی سی بات کا بتنگڑ بنادیا۔ جب یہی وضاحت ہم نے ایک نقاد جناب ”اعتراض الدین معترض“ کے سامنے پیش کی تو فرمانے لگے:

    ”اچھا تو بتائیے کہ آخر نیاگرا آبشار کینیڈا کے بہ جائے آسٹریلیا کی تاریخ کیوں بیان کرنے لگا۔“

    ہم نے دل ہی دل میں انھیں ”احمق“، ”گاؤدی“ اور ”گھامڑ“ جیسے القابات سے نوازا اور گویا ہوئے ”حضرت! کینیڈا میں تو ہم بہ نفس نفیس موجود تھے، چناں چہ اس ملک کے ماضی و حال کے بارے میں سب کچھ جان سکتے تھے تو نیاگرا آبشار ہمیں کینیڈا کے بارے میں کیوں بتاتا؟ لہٰذا اس نے ہمیں اس ملک کی تاریخ سے آگاہ کیا جہاں ہم جانے والے تھے۔“

    اعتراض الدین صاحب منہ پھاڑے ہماری وضاحت وصراحت سنا کیے پھر جانے کیا بڑبڑاتے ہوئے چل دیے۔ اسی طرح جرمنی اور برطانیہ کے باب میں ہم نے جو کچھ لکھا وہ ہماری ذہانت اور سوچ کی گہرائی کا واضح ثبوت ہے، نہ کہ اسے ہماری ناواقفیت کی دلیل بنایا جائے۔

    بہرحال، ہمارے یہ تینوں سفرنامے ہم سے ناشر اور ناشر سے دکان دار تک کا سفر طے کر کے ہمارے پاس واپس آگئے اور اس کے بعد ہم نے بنا سفر کے سفرنامے لکھنے سے توبہ کرلی۔ لیکن سفرنامہ لکھنے کی خواہش سے دست بردار نہیں ہوئے، تاہم، اس تجربے نے ہمیں یہ ضرور باور کرادیا کہ جو دیکھو وہی لکھو۔ چناں چہ ہم نے فیصلہ کیا کہ کراچی کا سفر نامہ لکھیں گے ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا کہ یہ سفر نامہ کتاب کے بہ جائے مضمون کی صورت میں تحریر کریں گے، کیوں کہ ایک تو نہیں ہوتی اس میں محنت زیادہ اور دوسرے پیسے ڈوبنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ تو ہمارا ”سفرنامۂ کراچی“ ملاحظہ کیجیے۔

    ہم نے اپنے سفر کا آغاز سہراب گوٹھ سے کیا۔ ہم واضح کر دیں کہ اس جگہ کا رستم و سہراب سے کوئی تعلق نہیں، البتہ یہاں سہراب سے کہیں زیادہ زورآور بستے ہیں اور جو کام ان سے ہورہے ہیں وہ رستم سے بھی نہ ہوں گے۔ نہ ہی یہ روایتی معنوں میں گوٹھ ہے۔ ایک سہراب گوٹھ کیا کراچی کے اکثر علاقے اسی طرح ”اسم بے مسمیٰ“ ہیں مثلاً گلستان جوہر اور گلشن اقبال میں کہیں دور دور تک گُلوں کا نام ونشان نہیں، گیدڑ کالونی میں گیدڑ ناپید اور دریا آباد میں دریا تو کجا کوئی تالاب تک نہیں۔ سہراب گوٹھ میں کبھی کوئی گوٹھ آباد ہوگا، مگر اب تو یہ علاقہ افغان مہاجرین کے دم سے غزنی یا جلال آباد دکھائی دیتا ہے۔ سہراب گوٹھ پر بسوں ٹرکوں ”وغیرہ“ کے اڈے ہیں اور امی ابو نے ہمیں ہر قسم کے اڈوں سے دور رہنے کی تاکید کر رکھی ہے، لہٰذا ہم نے اس علاقے میں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا۔

    اب ہم فیڈرل بی ایریا پہنچے۔ یہ علاقہ فیڈرل اس نسبت سے کہلاتا ہے کہ جب یہ آباد ہوا تو کراچی وفاقی دارالحکومت تھا۔ بعدازاں ”الحکومت“ اسلام آباد چلی گئی اور کراچی میں دار ہی دار رہ گئی، لیکن یہ علاقہ آج بھی فیڈرل کہلاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ملک کو ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کہا جاتا ہے۔ کافی عرصے سے لوگ فیڈرل بی ایریا کو ”فیڈرل بھائی ایریا“ کہنے لگے ہیں۔ ہمیں اس نام کی دو وجوہ تسمیہ بتائی گئیں ایک تو یہ کہ اس علاقے میں الطاف بھائی کی قیام گاہ اور ان کی جماعت کا مرکز واقع ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس بستی اور فیڈرل گورنمنٹ کے درمیان بڑی مدت بعد بھائی چارے کی فضا قایم ہوگئی ہے!

    فیڈرل بی ایریا کے بعد لیاقت آباد شروع ہوتا ہے۔ یہ کبھی لالو کھیت کہلاتا تھا، جہاں مختلف حکومتوں نے بے روزگاری اور افلاس کی فصل کاشت کی اور پھل کی صورت میں پتھر کھائے۔ شہید ملت لیاقت علی خان سے منسوب اس بستی میں ایک زمانے میں شہادت بلامطلوب ومقصود عام تھی۔ شہادتیں اس علاقے کے باسیوں کا مقدر بنیں اور مال غنیمت اور کشور کشائی دوسروں کے حصے میں آئی۔

    اب ہم ناظم آباد سمیت کئی بستیوں کو چھوڑتے ہوئے لیاری میں داخل ہوئے۔ یہ شہر کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے، چناں چہ ”اولڈ از گولڈ“ کے محاورے کے تحت اسے چمکتا دمکتا علاقہ ہونا چاہیے تھا، مگر یہ علاقہ غربت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، جہاں واحد چمکتی چیز وہ ”سفید سفوٖف“ ہے جو ”ولن“ ہونے کے باوجود ہیروئن کہلاتا ہے۔

    لیاری کے بعد ہماری منزل ایم اے جناح روڈ تھی۔ یہ کبھی بندرگاہ کے حوالے سے بندر روڈ کہلاتی تھی، لیکن اب ریلیوں اور جلوسوں کی وجہ سے یہ سڑک اکثر بند رہتی ہے، لہٰذا لوگ اسے بند روڈ کہنے لگے ہیں۔ اس شاہ راہ پر واقع اہم ترین مقام مزار قائد ہے۔ حکومت نے مزارقائد کے گرد ایک خوب صورت باغ لگا دیا ہے۔ نوجوان جوڑوں کی کھیپ کی کھیپ ہر روز مزار قائد پر حاضری دینے آتی ہے اور باغ قائد اعظم میں بیٹھ کر ”یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران“ گاتی ہے۔ اس شاہ راہ پر آگے چلیں تو نشتر پارک آتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد ”الاسٹک“ کا بنا ہوا پارک ہے، جس میں چند ہزار نفوس کی گنجایش ہے، لیکن سیاسی جلسوں کے دوران یہ پارک لاکھوں افراد کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ اپنی اس خصوصیت کی بنا پر نشتر پارک کو ”گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز“ میں جگہ ملنی چاہیے، مگر مغربی دنیا کے مسلمانوں سے تعصب کے باعث یہ پارک اس اعزاز سے اب تک محروم ہے۔

    ایم اے جناح روڈ کی دھوئیں سے آلودہ فضا اور گاڑیوں کے شور نے ہماری طبیعت ایسی مکدر کی کہ شہر کی گنجان آباد غریب بستیوں کے سفر کا ارادہ ترک کرکے ہم ڈیفنس سوسائٹی اور کلفٹن کی جانب رواں ہوگئے۔ یہ آبادیاں درحقیقت دو سمندروں کے درمیان واقع جزائر ہیں، جن کے سامنے بحیرۂ عرب ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور عقب میں غربت، بھوک بیماری، بے روزگاری اور دیگر لاتعداد مصائب کے بحر ظلمات کی لہریں ساحل امید پر سر پٹخ پٹخ کر ناکام ونامراد لوٹ رہی ہیں۔ وسیع وعریض محلات سے مزین ان علاقوں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے آپ کسی ایسے الف لیلوی شہر کی سیر کررہے ہوں، جس کے باسی کسی عذاب کا شکار ہوکر اپنے قصور خالی چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن کسی کوٹھی کے اونچے دروازے سے زن سے نکلتی کوئی بیش قیمت گاڑی آپ کی یہ غلط فہمی دور کر دیتی ہے۔ ان بستیوں کے مکینوں کی اکثریت صرف شہریت اور پاسپورٹ کے اعتبار سے پاکستانی ہے ورنہ ان کے انداز واطوار، بول چال، چال ڈھال اور طرز رہایش و ذہنیت سب بدیسی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ انگریز حکم رانوں کی نشانیاں اور امریکی تہذیب کا نشان ہیں۔ ان علاقوں میں ہم جیسے ”مڈل کلاسیے“ کا پاپیادہ سفر ہمیں مشکوک بناکر مشکل میں ڈال سکتا تھا، اس لیے ہم نے ان بستیوں کی مختصر سیاحت کے بعد اپنے گھر کی راہ لی۔

    آپ کے لیے ہمارا یہ مختصر سفر نامہ اس لحاظ سے خاصا بے زار کردینے والا اور مایوس کُن ہو گا کہ یہ وجود زن سے تہی ہے۔ مگر کیا کریں، مستنصر حسین تارڑ اور دیگر سیاحوں نے جن علاقوں کا سفر کیا وہاں خواتین و حضرات بسوں اور ٹرینوں میں ساتھ ساتھ براجمان ہوتے ہیں، چناں چہ اس بات کا پورا امکان ہوتا ہے کہ کوئی حسینہ ان سیاحوں کے کندھے پر سر رکھ کر سورہے اور زیب داستاں بن جائے، لیکن کراچی کی بسوں میں خواتین کے حصے میں سلاخیں لگا کر اسے مردوں کے لیے (ماسوائے کنڈیکٹر) ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے، اس باعث کسی کم عمر حسینہ تو کجا کسی ادھیڑ عمر بدصورت بی بی کے قربت کی امید بھی ناپید ہوگئی ہے۔ لہٰذا مختلف بسوں میں دوران سفر ہمارے شانے پر کوئی نہ کوئی خان صاحب اپنی بھاری بھرکم ”سری“ رکھے خراٹے لیتے اور اپنے لعاب کا خزانہ ہماری دھلی دھلائی قمیص پر لٹاتے رہے۔ ہم نے ان مناظر کا تفصیلی تذکرہ محض اس لیے نہیں کیا کہ یہ مناظر زیب داستاں کے بہ جائے ”عیب داستاں“ بن جاتے۔

    (معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ مضامین کے مجموعے "کہے بغیر” سے انتخاب)

  • ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    پوچھا کسی نے، ”بھئی! یہ مغلِ اعظم جیسی عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہوگئی؟“

    ہمارا جواب تھا، ”بادشاہوں کی فلموں سے انھیں دل چسپی ہوگی جن کے لیے بادشاہت تاریخ کا حصہ ہوگئی ہے، ہم پاکستانیوں کو ”اکبرِاعظم اور نورتن“ کے نظارے کے لیے سنیما جانے کی کیا ضرورت؟“

    بہرحال ”مغلِ اعظم“ کی ناکامی سے قطع نظر اس فلم کی پاکستان میں نمائش سے پاک بھارت ”فلمی تعلقات“ کا ایک نیا دور شروع ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ یہاں فلمی تعلقات کی اصطلاح ہم نے بہت ہی محدود معنوں میں استعمال کی ہے ورنہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے فلمی انداز ہی کے رہے ہیں اور وہ بھی ایکشن فلموں والے۔ کبھی کبھی ان تعلقات میں رومانوی فلموں کا رنگ آجاتا ہے اور کبھی تو لگتا ہے جیسے سفارتی اسکرین پر روایتی پنجابی فلم کا گانا چل رہا ہو جس میں ناچتی، اچھلتی کودتی اور چھلانگیں لگاتی ہیروئن ”کُل وقتی ناراض“ اور مغل بچوں کی طرح محبوب کو مار رکھنے کی خُو بُو والے ”جٹ“ ہیرو کو دراصل اتنی سی بات باور کروا رہی ہوتی ہے کہ اسے ”بڑے زور کی محبت لگی ہے“، ادھر ہیرو ”اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی“ کی تصویر بنا اکڑا کھڑا ہوتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو ”دل میرا اٹوٹ انگ ہے، یہ تو میں کسی حال میں نہیں دوں گا۔“

    بعض حضرات کا خیال ہے کہ ہیرو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اچھل کود کے نتیجے میں بھاری بھرکم ہیروئن کا وزن ذرا کم ہو تو محبت کا آغاز کیا جائے۔

    جن دنوں ہمارا ملک ”مسلم سوشل فلم“ بنا ہوا تھا، اس زمانے میں بھی یہاں بھارتی فلمیں دیکھنے کی مکمل آزادی تھی اور اب تو وطن عزیز کا منظر نامہ خاصا رنگین، بلکہ ”گلیمرائز“ ہوچکا ہے، لہٰذا قوی امید ہے کہ ہم پاکستانی بہت جلد بڑی اسکرین پر ”چھوٹے کپڑے“ دیکھ کر کمپیوٹر اور ٹی وی کی اسکرین سے زیادہ محظوظ ہوں گے۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے امکان کے ساتھ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے اداکار اور اداکارائیں ایک دوسرے کے ملک میں آ…جا اور باہم گھل مِل رہے ہیں۔ دوستی بڑھانے کا یہ بہت اچھا موقع ہے، بشرطے کہ اداکار موقع سے فائدہ اٹھانا جانتے ہوں۔

    بہت سے حضرات کو پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر سخت اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلموں کی نمائش دوطرفہ بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ہم نہ صرف اس مطالبے کی پرزور تائید کرتے ہیں، بلکہ ہمارا تو کہنا ہے کہ حکومت پاکستان، بھارت سرکار سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے ملک میں ”فلم بینی بالجبر“ کا قانون منظور کرواکے ہر بھارتی کو پاکستانی فلمیں دیکھنے کا پابند بنا دے۔

    ویسے ہمیں ذاتی طور پر بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے زیادہ پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمایش سے دل چسپی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر ہماری پنجابی فلمیں دہلی، ممبئی اور کولکتہ وغیرہ کے سنیما گھروں میں چلنے لگیں تو بھارتیوں کے دل میں ”گنڈاسے“ کی ایسی دہشت بیٹھے گی کہ وہ کہہ اٹھیں گے ”بھگوان کے لیے کشمیر لے لو، مگر ہمیں اپنی فلمیں نہ دکھاؤ۔“

    ہم اس رائے کے تہِ دل سے حامی ہیں کہ دونوں ملک مشترکہ فلم سازی کریں، مگر ہمارا کہنا ہے کہ یہ مشترکہ فلمیں یک طرفہ کے بہ جائے ”مشترکہ ”ہی نظر آنی چاہییں۔ یعنی ان فلموں میں نہ صرف دونوں ملکوں کے اداکار ایک ساتھ کام کریں، بلکہ فلموں کے نام، کہانیاں اور مناظر بھی مشترکہ نوعیت کے ہوں، چوں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، اس لیے ہم یہاں ایک مشترکہ فلم کا خاکہ تجویز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس مجوزہ خاکے پر اور اس فارمولے کے تحت بننے والی فلم ہی مشترکہ کہلانے کی مستحق ہوگی۔

    ہماری تجویز کردہ فلم کا نام ہے ”جٹ تے مغل اعظم“ ہم یقینِ کامل کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس نام سے ”مغل اعظم“ کا ری میک بنایا جائے تو نہ صرف یہ فلم کام یاب ہوگی، بلکہ کئی ”کھڑکی توڑ ہفتے“ بھی مکمل کرے گی۔ اب جہاں تک کہانی کا تعلق ہے تو ہماری رائے میں کہانی کا آغاز لکھ کر اختتام کرداروں پر چھوڑ دیا جائے، ”جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔“ رہے مکالمے، تو اصل مغل اعظم کے ہر مکالمے کے شروع اور آخر میں ”اوئے“ لگا کر انھیں مشترکہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات ہم بہ صد اصرار کہیں گے کہ برصغیر میں نہ سہی، فلم میں مرکزی کردار پاکستان ہی کو ملنا چاہیے۔ اگر سلطان راہی حیات ہوتے تو ہم ”شہزادہ سلیم“ کے کردار کے لیے انھی کا نام تجویز کرتے۔ ایسی صورت میں فلم کا اختتام یقینا کسی ایسے منظر پر ہوتا کہ ”اکبر اعظم“ دیوار میں ”چُنے“ ہوئے ”شیخو شیخو“ پکار رہے ہیں اور ”شیخو“ انارکلی کو گھوڑی پر بٹھائے گنڈاسا لہراتا ”ٹپاٹپ ٹپا ٹپ“ دوڑا چلا جارہا ہے۔

    ”شیخو“ کے کردار کے لیے ہمارے ذہن میں دوسرا نام محمد علی کا تھا۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں تاریخی فلمیں بناتے وقت صرف فلم ریلیز کرنے کی تاریخ کے بارے میں سوچ بچار کی جاتی تھی، باقی سارے امور طے شدہ ہوتے تھے۔ مثلاً یہی کہ مرکزی کردار محمد علی کو ادا کرنا ہے۔ وہ تو خیریت گزری کہ قائد اعظم پر فلم لولی وڈ کے کسی فلم ساز اور ہدایت کار نے نہیں بنائی، ورنہ یہ کردار بھی محمد علی کو ملتا اور ان کے جذباتی طرز بیان سے متاثر ہوکر ”انگریز“ دو تین مناظر کے بعد ہی پاکستان بنانے پر مجبور ہوجاتے اور پوری فلم صرف دس پندرہ منٹ میں نمٹ جاتی۔ اسی طرح ”جٹ تے مغل اعظم“ کی کہانی میں انارکلی کا انجام اس بات پر منحصر ہوتا کہ محمد علی اکبر بادشاہ کا کردار کرتے ہیں یا شہزادہ سلیم کا۔ خیر، نہ سلطان راہی رہے نہ محمد علی، لہٰذا اب تو جو ہیں انھی سے کام چلانا پڑے گا۔ ایسے میں بہتر ہوگا کہ انارکلی کا کردار صائمہ کو دے دیا جائے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری یہ اداکارہ تمام بھارتی اداکاراؤں پر بھاری ہے، تاہم، ہمارے دعوے کی صداقت معلوم کرنے کے لیے آپ کو سنیما اسکرین کے بجائے ویٹ مشین سے رجوع کرنا ہوگا۔ اگر صائمہ نے انار کلی کا روپ دھارا تو اکبر اعظم کی کیا مجال کہ انارکلی کو دیوار میں چنوا سکیں۔ اوّل تو بادشاہ سلامت کی ہمت ہی نہیں ہوگی کہ مغلیہ سلطنت کی طرح ”وسیع و عریض“ اس انارکلی پر ”لشکر کشی“ کرسکیں۔ دوسرے ”ٹھیکے دار“ کا بھی یہی مشورہ ہوگا ”مہا بلی! دیوار اتنا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔“ یوں فلم کا اختتام غم ناک ہونے کے بہ جائے خوش گوار ہوگا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، وہ متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں اور بطور طنز و مزاح نگار ادبی حلقوں میں‌ شہرت رکھتے ہیں)

  • بیمار کی باتیں!

    بیمار کی باتیں!

    ’’تندرستی ہزار نعمت ہے۔‘‘ یہ کہاوت پہلے محض کہاوت تھی لیکن اس میں ایک مصرعے کا اضافہ کر کے سالکؔ نے اسے ایک مکمل شعر بنا دیا ہے۔

    تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ
    تندرستی ہزار نعمت ہے

    گویا پرانے زمانے کے لوگوں میں یہ خیال عام تھا کہ

    تنگدستی بھی ہو اگر سالکؔ
    تندرستی ہزار نعمت ہے

    لیکن سالک نے اپنے ذاتی تجربے اور دوسرے غریب مگر تنگ دست لوگوں کی حالت زار کا مشاہدہ کرکے یہ فیصلہ دیا کہ ’’تندرستی تو ہزار نعمت ہے بشرطیکہ تندرست آدمی تنگدست نہ ہو۔‘‘

    آدمی تندرست ہونے کے علاوہ تنگ دست بھی ہو تو وہ زیادہ عرصے تک تندرست نہیں رہ سکتا۔ تنگ دستی کے باعث وہ خالص گھی اور خالص دودھ نہیں خرید سکتا، ایسی قیمتی غذائیں نہیں کھا سکتا جن میں وٹامن اور غذائیت کے دیگر ضروری اجزا ہوں۔ تنگ دستی کے باعث روٹی کے بعد فروٹ نہیں کھا سکتا۔ جب فروٹ نہیں کھا سکتا تو خون بھی نہیں بنتا۔ جب خون نہیں بنتا تو تندرست کیسے رہ سکتا ہے۔

    تندرست آدمی کو بھوک بہت لگتی ہے۔ ایک تندرست آدمی بیک وقت دو آدمیوں کی غذا کھا سکتاہے لیکن تنگ دستی کے باعث وہ ایک آدمی کی بھی پیٹ بھرغذا نہیں کھاسکتا تو دُبلا ہونے لگتا ہے۔ ہڈے موترے نکالنے لگتا ہے۔

    تنگ دست آدمی کو چوبیس گھنٹے روپے اور روٹی کی فکر لگی رہتی ہے یا لگا رہتا ہے۔

    فکر مذکر ہے یا مؤنث؟

    فکر کو بعض لوگ مذکر کہتے ہیں اور بعض لوگ مؤنث۔ لیکن میری رائے میں اگر فکر زیادہ ہو تو ’’فکر‘‘ مذکر ہے یعنی آدمی کو فکر لگا رہتا ہے مگر اگر فکر کم ہے تو مؤنث ہے یعنی آدمی کو فکر لگی رہتی ہے۔

    خیر بہرحال اگر آدمی کو پیٹ بھر روٹی بھی ملتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ فکر لگی ہوئی یا لگا ہوا ہے تو آدمی اسی طرح دبلا ہونے لگتا ہے جس طرح سائیکل کے ٹیوب یا فٹ بال کے بلیڈر میں بڑا ننّھا سا پنکچر ہوجائے اور آہستہ آہستہ ہوا نکلنے لگے۔

    تندرست آدمی فکرمند اور تنگدست ہوجائے تو دیکھے ہی دیکھتے اس کا گوشت اندر اور ہڈیاں باہر نکل آتی ہیں اور لوگ باگ مذاق اڑاتے ہیں۔

    وہ دیکھو مچھّر پہلوان
    وہ دیکھو پّدی پہلوان

    میرا ذاتی تجربہ تو کہتا ہے کہ تندرستی نہ ورزش میں ہے نہ آب وہوا میں، تندرستی اگر ہے تو صرف پیسے میں ہے۔ صرف پیسہ ہو تو آدمی اب و ہوا خرید سکتا ہے یعنی کراچی کو چھوڑ کر راولپنڈی میں آباد ہوسکتا ہے، سوئٹزر لینڈ میں رہ سکتا ہے۔ بھینس خرید سکتا ہے، خالص دودھ پی سکتا ہے، خالص گھی کھا سکتا ہے، مرغی کا سوپ پی سکتا ہے۔ شوربا پی سکتا ہے۔ انڈے کھا سکتا ہے، ہارلکس اور اوولٹین پی سکتا ہے، جب چاہے وٹامن کی گولیاں پھانک سکتا ہے، روٹی کے بعد فروٹ کھا سکتا ہے۔ بیمار ہو تو فوراً علاج کروا کر فوراً تندرست ہو سکتا ہے، اِسی لئے تو سالکؔ نے کہا،

    تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ
    تندرستی ہزار نعمت ہے

    لیکن اس کے برعکس آدمی تنگ دست ہو اور وہ تندرست ہونے کے لئے خوب ڈنڈ پیلے اور بیٹھکیں نکالے تو اس کا جسم کچھ عرصے کے لئے بن جائے گا لیکن ڈنڈ بیٹھکوں کی وجہ سے اسے خوب کھل کر بھوک لگے گی اور کھانے میں اسے سُوکھی روٹی اور مسور کی دال ملے گی تو چند دنوں میں ڈنڈ پیلتے پیلتے یا بیٹھکیں نکالتے نکالتے یا تو بے ہوش ہوجائے گا یا پھر عفر لہا ہو جائے گا اور لوگ عربی میں بولیں گے؛

    انا للہ وانا الیہ راجعون

    تنگ دستی کے ساتھ ساتھ تندرستی کے اور بھی بڑے نقصانات ہیں۔ تندرست آدمی کو نیند بڑی گہری آتی ہے اور چور اس کی گہری نیند سے جائز ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کا گھر لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ چور تنگدست کے گھر اس لئے چوری کرتے ہیں کہ تنگدست کے گھر دولت مند آدمی کے گھر کی طرح پہرے پر نہ چوکیدار ہوتا ہے اور نہ کُتّا۔

    تنگ دست تندرست جب کسی بس یا ٹرام یا ریل میں اپنی سیٹ پر آرام سے بیٹھتا ہے تو لوگ اسے ڈانٹتے ہیں۔

    ’’کمبخت ہٹا کٹا آدمی اس طرح آرام سے بیٹھا ہے اور بوڑھے، ضعیف، دُبلے، بیمار یوں کھڑے ہیں، اٹھ اپنی سیٹ سے۔‘‘

    تنگ دست تندرست، تنگدستی کے باعث اچھے کپڑے نہیں پہن سکتا تو پولیس یہ سمجھتی ہے۔

    ’’تنگ دستی میں یہ آدمی اتنا موٹا تازہ کیسے ہے؟ یہ ضرور کوئی غنڈہ ہے۔‘‘

    چنانچہ پولیس تنگ دست کو غنڈہ ایکٹ میں پکڑ لیتی ہے اور اگر شومئی قسمت سے بیچارے کی والدہ بیوہ ہو تو دنیا والے الگ انگلی اٹھاتے ہیں۔

    ’’وہ دیکھو۔ رانڈ کا بیٹا سانڈ۔‘‘

    تنگ دست تندرست کا مالک اس کا جتنا کام لیتا ہے، اتنا دوسرے مریل ملازمین سے نہیں لیتا۔ وہ ہمیشہ تنگ دست تندرست سے یہی کہے گا۔

    ’’ماشاء اللہ اتنے ہٹّے کٹّے ہو، چلو تم ہی یہ کام کر دو، وہ دوسرا تو مریل ٹٹّو ہے۔‘‘

    سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ تندرست تنگدست بڑا کثیرالعیال ہوتا ہے۔

    غیرملکی باشندوں کو عام طور پر یہ شکایت ہے کہ پاکستان کے باشندے تندرست نہیں ہوتے۔

    پاکستانی باشندے بھلا تندرست کیسے ہوسکتے ہیں؟

    ۱۔ راشن کارڈ پر روٹی کھاتے ہیں۔

    ۲۔ پانی ملا دودھ یا دودھ ملا پانی پیتے ہیں۔

    ۳۔ پنجاب کا خالص گھی کھانے کے بجائے خالص پنجاب کا گھی کھاتے ہیں یعنی پنجاب کا نام تو خالص ہوتا ہے مگر گھی خالص نہیں ہوتا۔

    ۴۔ کسی دعوت میں فروٹ کھائیں تو کھائیں لیکن اپنے پلّے سے کبھی فروٹ نہیں کھا سکتے۔

    ۵۔ وہ چاہے پیٹ بھر کر بھی کھانا کھالیں لیکن تفکّرات انہیں کھاتے رہتے ہیں۔

    آدمی تندرست اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ وہ ’’دھن درست‘‘ ہو۔

    ’’دھن درست‘‘ ہو تو آدمی بھی تندرست‘‘ ورنہ پھر

    تنگ دستی بھی ساتھ ہو سالک
    تندرستی ہزار نعمت ہے

    (ممتاز ادیب، صحافی اور مشہور مزاح نگار ابراہیم جلیس کے قلم سے)

  • میرا من پسند صفحہ

    میرا من پسند صفحہ

    کچھ لوگ صبح اُٹھتے ہی جماہی لیتے ہیں، کچھ لوگ بستر سے اُٹھتے ہی ورزش کرتے ہیں، کچھ لوگ گرم چائے پیتے ہیں۔ میں اخبار پڑھتا ہوں اور جس روز فرصت زیادہ ہو اس روز تو میں اخبار کو شروع سے آخر تک مع اشتہارات اور عدالت کے سمنوں تک پورا پڑھ ڈالتا ہوں۔

    یوں تو اخبار سارے کا سارا اچھا ہوتا ہے لیکن عام لوگوں کے لیے اخبار کا ہر صفحہ اتنی دل چسپی نہیں رکھتا۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو اخباروں میں صرف ریس کا نتیجہ دیکھتے ہیں یا وہ صفحہ جس پر روئی، تلی، پیتل، لوہا، تانبا، پٹ سن، سونا، چاندی، گڑ، پاپڑ اور آلوؤں کے سوکھے قتلوں کے بھاؤ درج ہوتے ہیں اور ایسے بھی لوگ ہیں جو اخبار کا پہلا صفحہ ہی پڑھتے ہیں جس پر بڑی وحشت ناک خبریں موٹے موٹے حروف میں درج ہوتی ہیں۔ روز قتل اور ڈاکہ اور بد دیانتی اور خون خرابے کے واقعات کو بڑی بڑی سرخیوں میں چھاپا جاتا ہے۔ بعض لوگ اخبار کے ہاتھ میں آتے ہی اُس کا اداریہ کھول کے پڑھتے ہیں جس پر آج ایک چیز کے حق میں لکھا گیا ہے تو کل اُسی ذمہ داری سے اُس چیز کے خلاف لکھا جائے گا اور اگر پہلے دن آپ اس چیز کے حق میں ہوں گے تو دوسرے دن اس کے خلاف ہوجائیں گے۔ یار لوگوں نے اس صورت حال کا نام رائے عامہ رکھ چھوڑا ہے۔ خیر اپنی اپنی سُوجھ بُوجھ۔

    آج کل میرا من پسند صفحہ وہ ہے جو پہلا صفحہ اُلٹنے کے فوراً بعد آتا ہے۔ دوسرا صفحہ جس پر صرف اشتہار ہوتے ہیں، میرے خیال میں یہ اخبار کا سب سے سچا، سب سے عمدہ اور سب سے دلچسپ صفحہ ہوتا ہے۔ یہ انسانوں کے لین دین اور تجارتی کاروبار کا صفحہ ہے۔ ان کی ذاتی مصروفیتوں اور کاوشوں کا آئینہ دار ہے۔ ان کی زندگی کی ٹھوس سماجی حقیقتوں کا ترجمان ہے۔ یہاں پر آپ کو کار والے اور بے کار ٹائپسٹ اور مل مالک مکان کی تلاش کرنے والے اور مکان بیچنے والے، گیراج ڈھونڈنے والے اور ذاتی لائبریری بیچنے والے، کُتے پالنے والے اور چوہے مارنے والے، سرسوں کا تیل بیچنے والے اور انسانوں کا تیل نکالنے والے، پچاس لاکھ کا مِل خریدنے والے اور پچاس روپے کی ٹیوشن کرنے والے سبھی بھاگتے دوڑتے، چیختے چلاتے، روتے ہنستے، نظر آتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے جیتا جاگتا صفحہ ہے جس کا ہر اشتہار ایک مکمل افسانہ ہے اور ہر سطر ایک شعر۔ یہ ہماری دنیا کی سب سے بڑی سیر گاہ ہے جس کی رنگا رنگ کیفیتیں مجھے گھنٹوں مسحور کیے رکھتی ہیں۔ آئیے آپ بھی میرے اس من پسند صفحہ کی دلچسپیوں میں شامل ہوجائیے۔ دیکھئیے یہ ذاتی کالم ہے۔

    نائیلان جرابوں کا اسٹاک آگیا ہے، بیوپاری فوراً توجہ کریں۔ آپ کہیں گے یہ تو کوئی ذاتی دل چسپی کی چیز نہیں ہے۔ بھئی ہمیں نائیلان جرابوں سے کیا لینا، یہ صحیح ہے لیکن ذرا صنفِ نازک سے پوچھیے، جن کے دل یہ خبر سُن کر ہی زور سے دھڑک اُٹھے ہوں گے اور ٹانگیں خوشی سے ناچنے لگی ہوں گی۔ آج کل عورت کے دل میں نائیلان جراب کی وہی قدر و قیمت ہے جو کسی زمانے میں موتیوں کی مالا کی ہوتی تھی۔ آگے چلیے۔

    ڈارلنگ فوراً خط لکھو، معرفت ایس ڈی کھرونجہ نیلام پور۔ کون ڈارلنگ ہے وہ۔ کسی مصیبت میں ہے وہ۔ وہ کیوں اس کے گھر یا کسی دوست یا سہیلی کے ہاں خط نہیں بھجوا سکتا۔ اخبار میں یہ اشتہار کیوں دے رہا ہے کہ بیچارہ دیکھیے کیسی کیسی مجبوریاں ہوں گی، اس بیچاری لڑکی کے لیے بھی۔ وہ بھی میری طرح ہر روز یہ اخبار کھولتی ہوگی۔ اس میں ذاتی کالم دیکھتی ہوگی اور اپنے لیے کوئی خبر نہ پاکر کیسی اُداس اور رنجور ہوجاتی ہوگی اور آج جب وہ ذاتی کالم میں یہ خبر پڑھے گی تو کیسے چونک جائے گی، خوشی سے اس کا چہرہ چمک اٹھے گا۔ مسرّت کی سنہری ضیا اس کی روح کے ذرے ذرے کو چمکا دے گی اور وہ بے اختیار اخبار اپنے کلیجے سے لگا لے گی اور اس کی لانبی لانبی پلکیں اس کے رخساروں پر جھک جائیں گی یعنی اگر اس کی لانبی پلکیں ہوئیں تو ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی پلکیں نہایت چھوٹی چھوٹی ہوں، جیسے چوہیا کے بال ہوتے ہیں اور ماتھا گھٹا ہوا ہو۔ کچھ بھی ہو وہ ایس ڈی کھرونجہ کی ڈارلنگ ہے۔ ایس ڈی کھرونجہ کون ہے؟ اب اس کے متعلق آپ اندازہ لگائیے۔ ممکن ہے وہ کوئی بھڑونجہ ہو یا معمولی کلرک ہو یا ہلاس مونی گولیاں بیچنے والا ہو یا نیلا پور میں رس گلے اور بنگالی مٹھائی کی دکان کرتا ہو یا کسی بڑے مل کا مالک ہو وہ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے اور اب سوچتے جائیے، دیکھیے زندگی کس قدر دلچسپ ہوتی جارہی ہے۔

    اس سے اگلا کالم دیکھیے، یہ مکانات کا کالم ہے۔ یہ بھی بے حد دلچسپ ہے کیونکہ آج کل مکان کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے لیکن یہاں آپ کو ہر طرح کے مکان مل جائیں گے۔

    میرے پاس سمندر کے کنارے ایک بنگلے میں ایک علیحدہ کمرہ ہے لیکن میں شہر میں رہنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی صاحب مجھے شہر کے اندر ایک اچھا کمرہ دے سکیں تو میں انہیں سمندر کے کنارے کا اپنا کمرہ دے دوں گا اور ساتھ ہی اس کا کل ساز و سامان بھی جس میں ایک صوفہ دو ٹیبل لیمپ اور ایک پیتل کا لوٹا شامل ہے۔

    لیجیے اگر آپ شہری زندگی سے اُکتا گئے ہوں تو سمندرکے کنارے جا کے رہیے۔ اگر آپ سمندر کے کنارے رہنے سے گھبراتے ہوں تو شہر میں جا کے رہیے۔ پیتل کا لوٹا تو کہیں بھی رہ سکتا ہے۔

    یہ دوسرا اشتہار دیکھیے۔

    کرائے کے لیے خالی ہے، نیا مکان، آٹھ کمرے، دو کچن پانچ غسل خانے، گراج بھی ہے اور مکان کے اوپر چھت ابھی نہیں ہے۔ مگر اگلے مہینے تک تیار ہوجائے گی۔ کرائے دار فوراً توجہ کریں۔

    آپ یہ پڑھ کر فوراً توجہ کرتے ہیں بلکہ کپڑے بدل کر چلنے کے لیے آمادہ بھی ہوجاتے ہیں کہ اتنے میں آپ کی نظر اگلی سطر پر پڑتی ہے لکھا ہے۔

    ’’کرایہ واجبی مگر سال بھر کا پیشگی دینا ہوگا۔ سالانہ کرایہ اٹھارہ ہزار۔‘‘

    اور آپ پھر بیٹھ جاتے ہیں اور اگلا اشتہار دیکھتے ہیں، لکھا ہے عمدہ کھانا، بہترین منظر، کھلا کمرہ، فرنیچر سے سجا ہوا بجلی پانی مفت۔ کرایہ سب ملا کے ساڑھے تین سو روپے ماہانہ۔

    آپ خوشی سے چلّا اٹھتے ہیں مِل گیا، مجھے ایک کمرہ مل گیا اور کس قدر سستا اور عمدہ اور کھانا ساتھ میں۔ واہ واہ آپ فوراً خط لکھنے کی سوچتے ہیں اور پھر کلیجہ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ آگے لکھا ہے؛

    ’’دل کُشا ہوٹل دار جلنگ‘‘

    ظاہر ہے کہ آپ بمبئی میں نوکر ہیں۔ دلکشا ہوٹل۔ دارجلنگ میں رہ کر بمبئی کی نوکری نہیں کرسکتے۔

    اس کا اگلا کالم موٹروں کتابوں اور کتوں کا ہے۔ اس میں آپ دیکھیں گے کہ ایک ہی ماڈل کی نئی گاڑی ہے مگر وہ دو مختلف داموں میں بک رہی ہے۔ سیٹھ حُسن لال کی گاڑی سات ہزار میں بکاؤ ہے، کیونکہ وہ اسے بیچ کر کوئی دوسرا ماڈل لینا چاہتے ہیں اور وہی گاڑی مسٹر مکڈانلڈ کے پاس ہے اور وہ اسے دو ہزار میں بیچے دے رہے ہیں کیونکہ مسٹر مکڈانلڈ ولایت جا رہے ہیں۔ ایک خوب صورت کتّا ہے جو ڈیڑھ سو میں بکتا ہے۔ شکسپیئر کے ڈراموں کا باتصویر سیٹ ہے جو دس روپے میں جارہا ہے۔ یہ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ کتوں کے دام کتابوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی کہ اس کالم میں موٹروں اور کتوں کے خریدنے اور بیچنے والے تو بہت ملتے ہیں، لیکن کتابوں کے صرف بیچنے والے تو نظر آتے ہیں خریدنے والا کوئی نہیں۔ جتنے اشتہار ہیں اس سے ہمیں اپنے ملک کے عظیم کلچر کا اندازہ ہوتا ہے۔

    اس صفحہ کا سب سے آخری کالم جسے میں سب سے پہلے پڑھتا ہوں، شادی کا کالم ہے۔ بر کی ضرورت ہے، ایک نوجوان حسین اٹھارہ سالہ گریجویٹ لڑکی کے لیے۔

    بَر کی ضرورت ہے، ایک خوش رو خوش خو اور خوش قامت تعلیم یافتہ بے حد حسین لڑکی کے لیے جو ناچنا گانا بھی جانتی ہے اور ادبی ذوق بھی رکھتی ہے۔

    بَر کی ضرورت ہے، ایک خوبصورت خاندانی لڑکی کے لیے جس کا باپ ایک مل کا مالک ہے، لڑکا اچھا ہونا چاہیے، ذات پات کی کوئی تمیز نہیں۔

    اور میں بھی ذات پات کی پروا کیے بغیر ہر جگہ عرضی بھیجنے کی سوچتا ہوں کہ اتنے میں میری بیوی میرے سر پرآن کے کھڑی ہوجاتی ہے اور مجھ سے پوچھتی ہے کیا پڑھ رہے ہو؟ اور میں ایک حزیں مسکراہٹ سے اپنا من پسند صفحہ بند کر دیتا ہوں۔

    (کرشن چندر کے ایک شگفتہ مضمون سے چند پارے)