Tag: طنز و مزاح

  • پُرخلوص اور رسمی تعزیت

    پُرخلوص اور رسمی تعزیت

    ہمارا خیال ہے کہ مرنے سے زیادہ مرنے والے کی تعزیت مشکل ہے کیوں کہ موت تو بن بلائے ہنستی ہوئی خود گھر پر آجاتی ہے اور تعزیت کے لیے منھ لٹکائے ہوئے دوسرے کے گھر جانا پڑتا ہے۔

    اور جانا ہی نہیں بلکہ مرحوم کی ’’بے وقت موت‘‘ کو (چاہے وہ نوے برس کی عمر ہی میں کیوں نہ ہوئی ہو) ایک ’’ناقابل تلافی نقصان‘‘ ثابت کرتے ہوئے ان کی فرضی خوبیوں کی فہرست اس تفصیل کے ساتھ گنانا ہوتی ہے کہ اگر مرحوم سُن لیں تو خود انھیں ہنسی آجائے اور انھیں اپنی موت پر رشک آنے لگے، اس لیے کہ زندگی میں کسی کو کبھی ان کے حق میں ایک کلمۂ خیر کہنے کی توفیق نہ ہوئی اور موت کی بدولت آج انھیں تعزیت کرنے والوں کے منھ سے ایسے مدحیہ قصیدے سننے کو مل رہے ہیں کہ کیا کسی بادشاہ کو زندگی میں درباری شاعروں سے سننے کو ملے ہوں گے۔

    تعزیت پُرخلوص بھی ہوتی ہے اور رسمی بھی۔ مگر وہ چاہے رسمی ہو، چاہے مخلصانہ دونوں مشکل ہیں کیوں کہ اگر مرنے والے سے آپ کو خلوص تھا تو آپ کی حالت خود تعزیت کے لائق ہوگی اور ایسی حالت میں آپ تعزیت کرنے جائیں گے تو آپ مرحوم کے پس ماندگان کو تسلّی دینے کے بجائے خود رونے لگیں گے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے،

    تسلّی میں بھی تخم غم بو دیے
    وہ سمجھاتے سمجھاتے خود رو دیے

    اور اگر آپ رسمی طورپر اس خیال سے تعزیت کے لیے نکلے ہیں کہ؛

    کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے

    آج آپ جن کی تعزیت کے لیے جارہے ہیں کل ان کے لڑکے آپ کی تعزیت کے لیے آئیں گے یا یہ مرحوم آپ کے کسی بزرگ کی موت پر آپ کے گھر تعزیت کے لیے آئے تھے تو ایسی صورت میں تعزیت کا کام مشکل سےمشکل تر ہوجاتا ہے کیوںکہ آپ دراصل تعزیت کرنے نہیں بلکہ اس تعزیتی قرض کو ادا کرنے جاتے ہیں جو آپ پر واجب الادا تھا اور آپ جانتے ہیں کہ قرض کی ادائیگی کوئی آسان کام نہیں، خصوصیت کے ساتھ وہ قرض جو تر کے میں ملا ہو اور پھر اس قرض کا کیا کہنا جو روپیوں پیسوں کا نہیں، آنسوؤں اور غموں کا ہو۔ پیسے کا قرض تو ایک اُدھار لے کر دوسرے کو ادا کیا جاسکتا ہے لیکن آنسو نہ اُدھار لیے جاسکتے ہیں نہ دیے جاسکتے ہیں ان کے لیے تو ایکٹروں یا گویوں کی طرح ریاض کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے تعزیت ایک فن ہو گیا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی فن کے حصول میں کتنے پا پڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ خدا نظر بد سے بچائے، اگر آپ شاعر ہیں تو ایک اور مثال پیش کر دوں۔ شاعر ہونے کی وجہ سے آپ جانتے ہی ہیں کہ سیروں خون تھوکنا پڑتا ہے تب جاکے شعر برآمد ہوتا ہے۔

    بس یہی حال تعزیت کا ہے۔ گڑے مردے اکھاڑنے پڑتے ہیں اپنے باپ دادا کی موت یاد کر کے آنسو اکٹھا کرنے پڑتے ہیں اور پھر جب یہ سارے درد و غم جمع ہوجاتے ہیں تب جاکے کہیں تعزیت کا قرض ادا ہو پاتا ہے۔

    قرض کے ذکر پر یاد آگیا کہ تعزیت کرنے کی طرح قرض مانگنا بھی بڑے فنکار کا کام ہے۔ قرض اور تعزیت دونوں کے لیے منھ لٹکانا ضروری ہوتا ہے لیکن فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ قرض کے لیے گھر سے نکلتے وقت منھ خود بخود لٹکا ہوتا ہے اور تعزیت کے لیے مرنے والے کے گھر پہنچ کر منھ لٹکانا پڑتا ہے۔ منھ کے خود لٹکے ہونے اور ارادتاً لٹکانے میں جو نازک فرق ہے اسے صرف حالات سے مجبور ہوکر قرض مانگنے والے کا ہی دل محسوس کرسکتا ہے۔ رسمی تعزیت کرنے والے کبھی محسوس نہیں کرسکتے۔

    جہاں تک ہماری ذات کا تعلق ہے قرض کی مصیبت بار بار برداشت کرنے کی وجہ سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہمارے لیے تعزیت کی مشکل اس حد تک ضرور آسان ہوگئی ہے کہ ہمیں مرنے والے کے گھر پہنچ کر زبردستی روہانسا منھ نہیں بنانا پڑتا بلکہ ہماری صورت ہی اب روہانسی ہوگئی ہے۔ البتہ اگر کسی جگہ خلوص کی بنا پر زیادہ رقت طاری کرنے کی ضرورت ہوئی تو ہم تعزیت کے وقت قرض کی ادائیگی کا بھی تصور کرلیتے ہیں۔ اس طرح فاقہ مستی کا رنگ لانے کے خوف سے ہمارا چہرہ خاصا سوگوار ہو جاتا ہے اور مرنے والے کے پسماندگان کے دلوں پر ہمارے خلوص کا کافی اثر پڑتا ہے۔ حالاںکہ ہم جانتے ہیں کہ اس میں خلوص و ہمدردی سے زیادہ ہمارے حالات کو دخل ہے جنھوں نے ہمیں بغیر کسی خاص کوشش کے تعزیت جیسے مشکل فن میں اُن پیشہ ور تعزیت مندوں سے کہیں زیادہ کامیاب بنا دیا ہے جو اس تاک میں ہی بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی اللہ کو پیارا ہو اور وہ اپنے فن کے مظاہرے کے لیے پہنچ جائیں۔

    آپ کہیے گا کہ یہ پیشہ ور تعزیت مند کیسے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں پیشہ ور تعزیت مند وہ ہیں جو ایک خاص بندھے ٹکے انداز میں تعزیتی تقریر کرتے ہیں اور اس تقریر کے دوران جگہ جگہ شعر بھی پڑھتے ہیں، مثلاً،

    حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھِلے مرجھا گئے

    ایک پیشہ ور تعزیت مند، پُرسے میں پہنچتا ہے اور پہنچتے ہی زندگی کی بے ثباتی کا ذکر کرتا ہے کہ ’’مشیّت ایزدی میں کیا چارہ ہے،

    موت سے کس کو رستگاری ہے
    آج وہ، کل ہماری باری ہے‘‘

    ’’آدمی پانی کا بُلبلہ ہے، ایک دم کا ٹھکانا نہیں۔‘‘ پھر آہ سرد بھرتے ہوئے شعر پڑھتا ہے،

    ہستی اپنی حباب کی سی ہے
    یہ نمائش سراب کی سی ہے

    ’’بھیّا صبر کرو، جس کی امانت تھی اس نے لے لی۔ اپنا یہاں کیا ہے جس پر بھروسہ کیا جائے۔ سامان سو برس کے ہیں کل کی خبر نہیں، ہم کو بھی ایک دن اسی راہ پر جانا ہے۔ ہر ایک پر یہ دن آنے والا ہے،

    بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
    صبر کرو صبر کے سوا چارہ کیا ہے

    مگر اب تعزیت زیادہ مشکل نہیں رہی اس لیے کہ فن تعزیت کے فن کاروں نے جیسا کہ آپ نے ابھی دیکھا اچھا خاصا تعزیتی لٹریچر رسمی تعزیت کرنے والوں کی آسانی اور سوگواروں کی پریشانی کے لیے فراہم کردیا ہے جس میں مرحوم کی بے وقت موت کو ناقابل تلافی نقصان قرار دینے سے لے کر مرحوم کے جوار رحمت میں جگہ پانے کی توقع تک تمام مراحل کے لیے ڈھلے ڈھلائے جملے موجود ہیں۔ بس اب تعزیت کرنے والے کا کام صرف منھ بنا کر اور موقع بے موقع آہ سرد بھر کر انھیں جملوں کو بے دھڑک دُہرا دینا ہے۔

    ایک مرتبہ میرے ایک قریبی دوست کے بچہ کا انتقال ہوگیا۔ پلوٹھی کا لڑکا تھا۔ ماں باپ دونوں کی آنکھ کا تارا۔ اس کے مرنے کا دونوں کو قدرتاً بڑا قلق ہوا۔ میں دورے پر گیا ہوا تھا۔ چار روز بعد جب واپس آیا تو بیگم سے اس سانحہ کی اطلاع ملی۔ سامان گھر پر ڈال، سیدھا دوست کے گھر روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ان کی روانگی کا انتظام ہے۔ کچھ سامان باہر رکھا ہے اور ایک تانگہ بھی کھڑا ہے۔ بہرحال میں نے آواز دی تو انھیں جھنجھلا کر زور سے یہ کہتے سنا کہ کہہ دو گھر پر نہیں ہیں۔ میں یہ بات سُن رہا تھا۔ پہلے تو میں سوچنے لگا کہ اب کیا کروں مگر پھر زور سے پکارا کہ ’’بھائی‘‘ میں ہوں سعید! یہ سنتے ہی وہ ڈیوڑھی میں آگئے اور لپٹ کر رونے لگے۔ میرا بھی دل بھر آیا مگر زبان سے تسلّی اور تعزیت کے الفاظ نکلنے نہیں پائے تھے کہ دل نے بے ساختہ آواز دی،

    جس سے بڑھے بے تابی دل کی ایسی تسلّی رہنے دے…

    زبان نے دل کے مشورے کو فوراً مان لیا کیوںکہ اُسے بارہا تجربہ ہوچکا تھا کہ نازک جذبات کی ترجمانی اس نے ہمیشہ خاموش رہ کر زیادہ اچھے طریقہ پر کی ہے۔ ہم دونوں تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ اس کے بعد میں نے بچہ کی بیماری اور موت کے متعلق کچھ پوچھنے کے بجائے ان کی روانگی کا سبب دریافت کرنا زیادہ مناسب خیال کیا۔

    انھوں نے کہا کہ بچہ کی جدائی سے ہم دونوں کے دلوں پر جو گزری ہے اس کے متعلق کچھ کہنا ہی بے کار ہے لیکن ماں کی بُری حالت ہے۔ چار دن ہوگئے ہیں طرح طرح سے بہلانے کی کوشش کررہا ہوں لیکن تعزیت کرنے والوں نے میری اور خاص طورپر میری بیوی کی زندگی تلخ کردی ہے۔ میری ہزار کوششوں کے باوجود ان ظالموں نے ایک منٹ کے لیے غم بھلانے کی فرصت نہ دی اور جب میں نے محسوس کیا کہ تعزیت کرنے والی بیبیاں رُلا رُلا کر بچہ کے ساتھ میری بیوی کو بھی قبرستان پہنچائے بغیر دم نہیں لیں گی تو میں نے فیصلہ کرلیا کہ تھوڑے دنوں کے لیے یہاں سے ہٹ جاؤں۔

    چنانچہ ہم لوگ دو ہفتہ کے لیے پہاڑ پر جارہے ہیں تاکہ ہمارے دُکھے دل نادان تعزیت کرنے والوں کی بیداد سے بچ سکیں اور زخموں کو مندمل ہونے کا موقع مل سکے، ابھی وہ یہ جملہ پورا بھی نہ کر پائے تھے کہ میں نے دیکھا کہ ایک رکشا سڑک سے ان کے گھر کی طرف مڑ رہا ہے اور اس پر ایک برقعہ پوش خاتون بیٹھی ہیں۔ مجھے فوراً موقع کی نزاکت کا احساس ہوا اور میں نے دوڑ کر رکشے والے سے پوچھا، ’’کس کے یہاں جانا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں برقعہ پوش خاتون نے بھرائی ہوئی آواز میں میرے دوست کا نام لیا۔ میرا ماتھا ٹھنکا اور میں نے خیال کیا کہ اگر اس وقت یہ خاتون تعزیت کے لیے وہاں گئیں تو انہیں گھر واپس ہونے کے بجائے اسپتال نہ جانا پڑے۔ اس لیے میں نے منھ سکھا کر کہا کہ میں انہی کے گھر سے لوٹ رہا ہوں۔ اُن کی بیوی حالت زیادہ خراب ہوگئی تھی اس لیے میرے دوست انھیں لے کر ان کے میکے چلے گئے ہیں اور غالباً ایک ماہ بعد واپس آئیں۔ اس پر انھوں نے ایک سرد آہ بھر کر کہا کہ ہاں بیٹا! مصیبت ایک طرف سے نہیں آتی۔ میں نے جلدی سے کہا، جی ہاں! دیکھیے نا چاروں طرف سے چلی آرہی ہے۔ اس کے بعد وہ دل میں تعزیت کی تمنا لیے اپنے گھر واپس گئیں۔

    (عبدالمجیب سہالوی کی ایک شگفتہ تحریر)

  • ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!‘‘

    ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!‘‘

    ادھر کئی مہینوں سے مکان کی تلاش میں شہر کے بہت سے حصوں اور گوشوں کی خاک چھاننے اور کئی محلّوں کی آب و ہوا کو نمونے کے طور پر چکھنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ جس طرح ہر گلی کے لیے کم سےکم ایک کم تول پنساری، ایک گھر کا شیر کتا، ایک لڑا کا ساس، ایک بد زبان بہو، ایک نصیحت کرنے والے بزرگ، ایک فضیحت پی جانے والا رند، اور حوائجِ ضروری سے فارغ ہوتے ہوئے بہت سے بچوں کا ہونا لازمی ہوتا ہے، اسی طرح کسی نہ کسی بھیس میں ایک ماہرِ غالبیات کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے اور بغیر اس کے گرد و پیش کا جغرافیہ کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔

    اچھا بھلا ایک مکان مل گیا تھا لیکن ابھی اس میں منجملہ اسبابِ ویرانی میرا لپٹا ہوا بستر بھی ٹھیک سے کھل نہیں پایا تھا کہ محلّے کے ماہرِ غالبیات نے نہیں معلوم کیسے سونگھ لیا کہ میں سخن فہم نہ سہی غالب کا طرف دار ضرور ہوں اور مجھے اپنی غالبانہ گرفت میں ایک صید زبوں کی طرح جکڑ لیا۔ آتے ہی آتے انہوں نےغالب کے متعلق دوچار حیرت انگیز انکشافات کے بعد مجھے پھانسنے کے لیے ایک آدھ ہلکے پھلکے سوالات کر دیے۔ اب میری حماقت ملاحظہ ہو۔۔۔ کہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو بہت بڑاغالب فہم سمجھتا۔ میں نے ان کو نرم چارہ سمجھ کر ان پر دوچار منھ ماردیے یا یوں سمجھ لیجیے ان کی دُم پر پیر رکھ دیا یعنی ان کے سامنے غالب کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے پیش کرنے کی ’’سعی لا حاصل‘‘ کر بیٹھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میں کسی بارود کے خزانے کے قریب دیا سلائی جلانے کی کوشش کر رہا ہوں؟

    پھر کیا تھا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں‘‘ چیخ کر ماہرِ غالبیات پھٹ تو پڑے مجھ پر! اور میری معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے فنِ غالبیات کی ایسی ایسی توپوں اور آتش فشانوں کے دہانے کھول دیے کہ میں سراسیمہ، مبہوت اور ششدر ہو کر ہمیشہ کے لیے عہد کر بیٹھا کہ اب آئندہ کسی اجنبی بزرگ کے سامنے حضرت غالب کا نام اپنی زبان بے لگام سے ہرگز ہرگز نکلنے نہ دوں گا۔ دوسرے ہی دن سے ماہر غالبیات نے، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ کے عنوان سے میری باقاعدہ تعلیم شروع کر دی۔ سویرے میں بستر ہی پر ہوتا کہ وہ ’’لذت خواب سحر‘‘ پر دھاوا بولتے آپہنچتے اور پہلے غالب کے کچھ انتہائی سنگلاخ اشعار پڑھ کر ان کے معنی مجھ سے پوچھتے، گویا میرا آموختہ سنتے اور پھر قبل اس کے کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکال پاؤں، وہ ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ فرما کر ان کے معنی اور مطالب خود بیان کرنا شروع کر دیتے۔

    آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
    مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

    اور پھر نوبت یہاں تک پہنچتی کہ میں داڑھی بنارہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ حسن سمجھا رہے ہیں۔ میں کنگھا کر رہا ہوں اور وہ آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز، میں مسئلہ ارتقا کو پروان چڑھتے دیکھ رہے ہیں۔ میں کپڑے بدل رہا ہوں اور وہ ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا، پڑھ پڑھ کر اور گاہے گاہے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا لگا کر غالب کو ہندوستان کا سب سے پہلا انقلابی ثابت کر رہے ہیں۔ میں جوتے کی ڈوریاں باندھ رہا ہوں اور وہ ’بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے‘ والے مصرع سے فضائے آسمانی پر اسپٹنگ چھوڑ رہے ہیں۔ میں ناشتہ کر رہا ہوں اور وہ ’’مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے‘‘ دہرا دہرا کر غالب کے علم الغذا پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈال رہے ہیں کہ میرے منہ کا نوالہ حلق میں جانے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ میں دفتر جانے کے لیے سائیکل نکال رہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ عمرانیات بیان کر رہے ہیں۔ میں سائیکل پر بیٹھ چکا ہوں اور وہ شام کو دفتر سے میری واپسی پر غالب اور ضبطِ تولید کے موضوع پر اپنے تازہ ترین الہامات کو مجھ پر نازل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

    شام کو ظہور پذیر ہوتے تو غالب اور دوسرے شعرا کا موازنہ شروع فرما دیتے اور غالب کے منہ لگنے والے دیگر تمام شعرا کو قابل گردن زدنی قرار دے کر بھی جب تسلی نہ ہوتی تو غالب کے مختلف شارحین کا پہلے سرکس پھر کشتی شروع کرا دیتے اور کافی دھر پٹخ کے بعد جب ہر شارح کافی پست ہو چکتا تو خود بھی اکھاڑے میں کود پڑتے اور فرداً فرداً ہر شارح کو پچھاڑتے اور پھر ہر شعر کے متعلق اپنی ایک انوکھی، اچھوتی اور عجوبۂ روزگار شرح کا آغاز کر دیتے جس کا انجام غالباً اس وقت تک نہ ہوتا جب تک میں اپنے ہوش و حواس کی قید و بند سے نجات پاکر وہاں نہ پہنچ جاتا جہاں سے خود مجھ کو میری خبر نہ آتی، یعنی بالکل ہی بے سدھ ہو کر اپنے بستر پر گر نہ جاتا۔

    کئی مرتبہ تکلف برطرف کرکے منت سماجت کی، ہاتھ جوڑے، داڑھی میں ہاتھ دیا، کان پکڑ کر اٹھا بیٹھا اور حرف مطلب یوں زبان پر لایا کہ اے ماہرِ غالبیات آپ کو آپ کے حضرت غالب مبارک! مجھ مغلوب کو میرے ہی حال پر چھوڑ دیجیے تو آپ کی غالبیت میں کون سا بٹا لگ جائے گا؟ میں ایک گدائے بے نوا ہوں، احمق، جاہل اور ہیچمداں ہوں۔ میرے ایسے ذرۂ ناچیز کو غالب ایسے آفتاب عالم تاب سے کیا نسبت؟ میں حضرت غالب کا صرف اس قدر گنہگار ہوں کہ عالمِ طفولیت میں ایک مولوی صاحب نے اسکول میں کورس کی کتاب سے ان کی چند غزلیں زبردستی پڑھا دی تھیں۔ اس کے علاوہ مجھ سے قسم لے لیجیے جو میں نے کبھی انہیں ہاتھ بھی لگایا ہو اور ہاتھ لگاتا بھی خاک…. ہاتھ آئیں تو لگائے نہ بنے! غالب کو میں کیا میری سات پشتیں بھی نہیں سمجھ سکتیں۔

    لیکن ماہرِ غالبیات بھلا کب ماننے والے تھے؟ میرے اظہارِ بیچارگی سے ان کی ہمہ دانی میں اور بھی چار چاند لگ جاتے اور فخر و تمکنت سے ان کے گلے کی رگیں پہلے سے بھی زیادہ پھولنے لگتیں،

    ’’ہو گا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے؟

    دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور!

    آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!

    اے دریغاوہ رند شاہد باز!‘‘

    اور یہ فرمانے کے بعد وہ غالب کے متعلق اپنی تحقیق اور دریافت کی گولہ باری مجھ پر کچھ اور تیز کر دیتے۔

    بس کیا عرض کیا جائے کہ کس طرح عاجز اور پریشان کر رکھا تھا ان ماہرِ غالبیات نے۔ ان سے جان چھڑانے کے لیے بیسیوں ترکیبیں کیں۔ محلّے کے با اثر لوگوں کا دباؤ ڈالوایا۔ گمنام خطوط لکھے۔ ایک انسپکٹر پولیس سے ان کے خلاف کوئی فرضی مقدمہ چلانے کی فرمائش کی، بیماری کا ڈھونگ بنایا۔ بہرے بنے (تو التفات دونا ہوگیا۔) دوستوں کے گھر جا کر پناہ لی، گھر کے دروازے بند کرائے۔ نوکر کو ہدایت کی کہ ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے!‘‘ لیکن اجی توبہ کیجیے۔…. اہل تدبیر کی وا ماندگیاں!

    ان حالات میں اسے چاہے میری بد ذاتی کہیے، چاہے اقدامِ قتل سے گریز کہ جیسے ہی مجھے ایک دوسرا مکان ملا جو اگرچہ میرے پہلے مکان کا صرف نصف بہتر معلوم ہوتا، میں رسیاں تڑا کر بھاگا۔ ماہر غالبیات سے میں نے کہہ دیا کہ میں شہر کیا صوبہ چھوڑ رہا ہوں اور وہ مجھے آبدیدہ ہوکر رخصت کرنے آئے تو بڑے رقت انگیز لہجے میں فرمایا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ اور اگر میں ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی۔‘‘ نہ چیختا اور غلطی سے تانگے والا اس اس کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھ کر فوراً تانگہ ہانک نہ دیتا تو یقیناً ماہرِ غالبیات مجھے ایک فی البدیہ الوداعی جلاب دیے بغیر ہرگز نہ مانتے۔ اپنے ان جان لیوا ماہرِ غالبیات سے چھٹکارا پاکر مجھے جو مسرتِ بے پایاں حاصل ہوئی اس کا اظہار غالباً غیرضروری ہے۔

    (ادیب اور طنز و مزاح نگار وجاہت علی سندیلوی کے قلم سے)

  • ہمارے ہاں مزاح کیوں نہیں؟

    ہمارے ہاں مزاح کیوں نہیں؟

    اس سوال پر زیادہ توجہ صرف نہیں کی گئی ہے۔ بہر حال کبھی کبھی لوگوں کے دل میں یہ خیال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اردو کے جدید ادب میں مزاح کیوں نہیں ہے؟ یعنی خالص مزاح، ورنہ ویسے تو افسانوی ادب کا بیشتر حصّہ طنز پر مشتمل ہے اور طنزیہ نظموں کے علاوہ بہت سی اور نظموں میں بھی طنزیہ عناصر آ جاتے ہیں۔

    ادب میں مزاح کی کمی ایسا مسئلہ نہیں جو صرف اردو ادب تک ہی محدود ہو۔ اس کا تعلق بیسویں صدی کے ہر ادب سے ہے بلکہ صنعتی دور کے ادب سے ہے۔ یوں ہونے کو تو مغرب میں مزاحیہ ادب کی تھوڑی بہت تخلیق ہو رہی ہے اور طنز و تضحیک سے لے کر FANTASY تک ہر چیز موجود ہے۔ اگر خالص ادبی حثییت رکھنے والی چیزیں ختم بھی ہو جائیں تو بھی جب تک MUSIC HALL زندہ سلامت ہیں، مغربی تہذیب سے مزاح غائب نہیں ہو سکتا بلکہ اگر کاڈویل کی بات مانیں تو میوزک ہال کی تخلیقات کو پرولتاری آرٹ کہنا پڑے گا، لیکن ان سب باتوں کے باوجود خود مغرب میں چوسر، رابیلے، سروانیٹنراور شیکسپئر کی قسم کا عظیم المرتبت مزاحیہ ادب پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ ہاں البتہ جوئس کی کتابوں کے بہت سے حصّے مستثنیٰ کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں، مگر ان مزاحیہ اور طربیہ حصوں کے پہلو بہ پہلو جوئس کے یہاں حزن بھی بلا کا موجود ہے۔ بہرحال جوئس سے قطع نظر عمومی حیثیت سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بیسویں صدی وہ زمانہ ہی نہیں جہاں طربیہ روح پھلے پھولے۔

    ہمارے دور کا انسان ایک بڑی مصیبت میں مبتلا ہے۔ وہ مستقبل کو نہیں بھول سکتا۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو حال کے لمحے میں بھی اس طرح جذب نہیں کر سکتا جس طرح صنعتی دور سے پہلے کا انسان کر سکتا تھا۔ اور پھر مستقبل بھی ایسا کہ جو ہمیشہ خوفناک نہ سہی، مگر اتنا بے شکل ہے کہ دل میں تردد پیدا کر دیتا ہے۔ بیسویں صدی کا انسان اس یقین کے ساتھ نہیں ہنس سکتا کہ کل بھی وہ اسی طرح ہنس سکے گا۔ پہلے آدمی کے لئے حیات بعد ممات کا عقیدہ ایک بہت بڑا سہارا تھا، اس کے ساتھ یہ عقیدہ بھی کہ ایسی طاقت موجود ہے جس کی رضا کے مطابق ہر بات ہوتی ہے۔ یہ طاقت انسان سے بلند تر ہونے کے باوجود بہت سی باتوں میں انسان سے مشابہ تھی۔

    یہ طاقت غضب ناک سہی مگر رحیم و کریم تھی۔ کم سے کم انسان کو تھوڑا بہت یہ ضرور معلوم تھا کہ یہ طاقت کن باتوں سے خوش ہوتی ہے اور کن باتوں سے ناراض۔ ان تصورات پر سے اعتقاد اٹھ جانے کے بعد کوشش کی گئی ہے کہ ان کی جانشینی چند معاشیاتی یا عمرانی نظریوں کے سپرد کی جائے، مگر یہ نظریے ابھی تک عوام کے شعور میں جذباتی تجربوں کا درجہ حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ چنانچہ اب ان کے پاس اپنی دنیا کو سمجھنے کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں رہا جو انہیں مطمئن کر سکے۔ ہر نیا واقعہ اتفاق یا حادثے کی حیثیت رکھتا ہے اور عوام کی ذہنی حالت کچھ حیرانی اور سراسیمگی کی زیادہ ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں اگر کوئی مزاح نگار پیدا بھی ہو جائے تو اسے ایسی پبلک نہیں ملے گی جو ہنسنے کے لئے تیار ہو۔ چیٹرٹن کے اندر بڑا مزاح نگار بننے کی کچھ صلاحیت موجود تھی، لیکن ماحول کا جبر دیکھئے، ساری عمر وہ ہنسنے کی ضرورت پر وعظ کہتا رہا، مگر خود نہیں ہنس سکا (یعنی کسی بڑی مزاحیہ تخلیق کی شکل میں)

    ایک اور وقت ہمارے زمانے کے مزاح نگار کو پیش آتی ہے۔ وہ پورے یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس چیز پر ہنسا جا سکتا ہے اور اس چیز پر نہیں۔ ماحول اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ کسی چیز کو غور سے دیکھنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ جو چیز آج طربیہ ہے کل وہ حزنیہ بن جاتی ہے۔ ان کے اس طرح گڈمڈ ہو جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر چیز یا تو ہولناک نظر آنے لگی ہے یا مضحکہ خیز۔ لیکن جب ہر چیز مضحکہ خیز ہو گئی تو اس کے یہ معنیٰ ہوں گے کہ آپ کسی چیز پر بھی ہنس نہیں سکتے۔ سوچئے کہ آپ ALICE IN WONDERLAND والی دنیا میں پہنچ جائیں تو آپ کے دماغ کی کیا حالت ہوگی؟

    ہنسی کے لئے تضاد اور تقابل کا وجود لازمی ہے۔ تضاد کے بغیر چیزوں کی معنویت غائب ہونے لگتی ہے۔ جب ساری چیزیں ایک سی بے معنی ہوگئیں تو ہنسی کی گنجائش کہاں رہی؟ ہمارے زمانے میں کوئی STANDARD OF FORMALITY ہی باقی نہیں رہتا ہے، حالانکہ مزاح کے لئے یہ چیز بنیادی طور پر ضروری ہے۔ غیر معمولی باتیں اتنی عام ہوگئی ہیں کہ ہم انہیں روزمرّہ کی چیزیں سمجھ کر قبول کرنے لگے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سب باتیں ہمارے اندر رنج و غم بلکہ وحشت اور دیوانگی تک پیدا کرتی ہوں۔ لیکن جب تک ہم انہیں معمول سے ہٹتی ہوئی باتیں نہ سمجھیں ہم ان پر ہنس نہیں سکتے۔

    کچھ ہماری دنیا میں نظریہ بازی کا شوق بھی بہت بڑھ گیا ہے اور واقعی ہمارے زمانے کے واقعات ہیں بھی بہت اہم۔ ساری انسانیت کا مستقبل بلکہ انسانیت کی زندگی تک ان کے رجحانات پر منحصر ہے۔ چنانچہ ہر چیز ایک مسئلہ بن گئی ہے اور ایسا مسئلہ کہ جس سے لطف لینے کا وقت بالکل نہیں ہے بلکہ جسے جلدی سے جلدی سمجھنا ہے اور کوئی حل تلاش کرنا ہے۔ ہر چیز اتنی سنجیدہ ہو گئی ہے کہ بے پروائی سے اس پر ہنستے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ہاں جب ہم کسی چیز کا حل نہیں تلاش کر سکتے تو شکست، مایوسی اور جھنجھلاہٹ کی وجہ سے ایک زہر خند ضرور ہمارے ہونٹوں تک آ جاتا ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ادب میں اذیت پرستانہ طنز کی بڑی فراوانی ہے۔

    اور بہت سی چیزوں کی طرح اس بحرانی دور میں ادب اور ادیب بھی بڑی غیر ضروری اور بے کار سی چیزیں معلوم ہونے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ ادیب کو بھی شدت سے یہ احساس ہوگیا ہے کہ سماج اب اس کی ضرورت نہیں سمجھتی، یا اسے سامانِ تعیش میں گنا جاتا ہے جس کا بوجھ اب سماج نہیں اٹھا سکتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ چند ادیب سماج سے بے نیاز ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن ہر آدمی میں تو اتنا بل بوتا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ادیبوں کے ایک بہت بڑے طبقے نے سماج پر اپنی اہمیت واضح کرنے اور اپنا کھویا ہوا وقار پا لینے کی کوشش کی ہے۔ وہ سماج کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی ذمہ دار آدمی ہیں، ہم بھی نظریے بنا سکتے ہیں، ہمارے پاس بھی مسائل کے حل موجود ہیں، ہمارا بھی مقصد ایک ہے۔ ادیب اس بات سے بہت ڈرتے ہیں کہ کہیں انہیں غیر ذمہ دار یا غیرسنجیدہ نہ سمجھ لیا جائے، لہٰذا وہ کوشش کر کر کے اپنے چہرے پر شکنیں ڈالتے ہیں، خود اپنے آپ کو زبردستی یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم بڑے سنجیدہ اور ذمہ دار آدمی ہیں، حالانکہ زندگی سے لطف لینا خود ایک بڑ ی ذمہ داری ہے۔ اس طرح یہ ادیب اپنے اندر ہنسی کا گلا خود دبائے رکھتے ہیں۔

    یہ ایسی باتیں تھیں جو صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں مزاحیہ ادب کی تخلیق کو روک رہی ہیں۔ لیکن اردو کے نئے ادب میں مزاح کی کمی کے علاوہ ایک اور بھی سبب ہے۔ اردو کے ادیبوں کا سرمایہ بس لے دے کے ادیب بننے کی خواہش ہے۔ ان کی جڑیں نہ تو ادب میں مضبوط ہیں نہ زندگی میں۔ جس زندگی نے انہیں پیدا کیا ہے اس سے نہ تو انہیں واقفیت ہے نہ اس سے محبت۔ یوں حب الوطنی کا اظہار اور چیز ہے، لیکن جس طرح ہم سرشار اور نذیر احمد کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے ماحول میں ڈوبے ہوئے تھے اور اپنی دنیا سے محبت کرتے تھے، اس طرح کے جملے ہم نئے ادیبوں کے متعلق استعمال نہیں کرسکتے۔ عصمت چغتائی اس بات سے بہت حد تک مستثنی ہیں۔ ذاتی خواہشات کے میدان کو چھوڑ کر اردو کے اکثر و بیشتر نئے ادیبوں کو زندگی سے کچھ یوں ہی سا علاقہ ہے۔ غریبوں سے ہمدری کے تمام اعلانوں کے باوجود زندگی سے ناواقف ہیں۔

    میرا مطلب ذہنی علم سے نہیں بلکہ اعصابی ادراک سے ہے۔ اگر میرا یہ الزام کچھ غیرمتوازن معلوم ہوتا تو امتحان بھی کچھ مشکل نہیں۔ اردو کے سارے نئے ادب میں سے صرف ایک افسانہ ایسا نکال کر دکھا دیجیے جس میں ہندوستان کی زندگی اور ہندوستان کی روح اپنی پوری شدت کے ساتھ نظر آتی ہو۔ ایک ایسا افسانہ جسے پڑھ کر کوئی غیر ملکی آدمی یہ کہہ سکے کہ ہاں، اس افسانے میں ہندوستان سما گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں صرف PICK PAPERS جیسی چیز سے مطمئن ہوں گا۔ یہاں تو اسکاٹ کے THE TWO DROVERS کے مقابلے کا افسانہ ملنا مشکل ہے۔

    اردو کے ادیبوں کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ انہیں اپنی زبان ہی نہیں آتی۔ ہمارے ادیبوں نے عوام کو بولتے ہوئے نہیں سنا، ان کے افسانوں میں زندہ زبان اور زندہ انسانوں کا لب و لہجہ نہیں ملتا۔ ایسی صورت میں مزاح کی تخلیق ممکن ہی نہیں۔ ادب کی اور اصناف کی بہ نسبت مزاح کہیں زیادہ سماجی چیز ہے۔ جب تک مزاح دوسروں کے اندر آواز بازگشت پیدا نہیں کرتا، کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ اور یہ آواز بازگشت اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک زبان پر قدرت حاصل نہ ہو۔ لوگوں کو رلانے کے لئے اتنے فن کی ضرورت نہیں جتنی ہنسانے کے لئے ہے۔ ہمارے لکھنے والوں کو ایک طرف تو اردو نہیں آتی، دوسری طرف زیادہ تعداد ایسے ادیبوں کی ہے جنہیں صرف اتنی انگریزی آتی ہے کہ عبارت کا مفہوم سمجھ لیں۔ جب وہ کسی انگریزی مصنف سے اثر پذیر ہوتے ہیں تو وہ اس اثر کا تجزیہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا موٹی موٹی باتوں کی نقل تو وہ خیر بری بھلی کر لیتے ہیں مگر اصلی چیز ان کی گرفت میں نہیں آتی۔

    بہرحال اور جتنی رکاوٹیں ہیں وہ دور بھی ہو جائیں تب بھی اردو میں مزاحیہ ادب کا مستقبل کچھ زیادہ تابناک نہیں بن سکتا، جب تک کہ اردو کے ادیب اردو سیکھنے کی کوشش نہ کریں۔

    (اردو کے ممتاز نقاد، مترجم اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی ایک فکرانگیز تحریر)

  • کرسی کی تاریخ اوّل سے آخر تک….

    کرسی کی تاریخ اوّل سے آخر تک….

    ایسے سر پھروں کی تعداد کم نہیں جو کرسی سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں، وہ اسے حاصل کرنے کے لیے وقت سے لے کر دولت، بلکہ خون کا آخری قطرہ تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا کرتے۔

    دنیا کے بہت سے فرماں رواؤں اور سپہ سالاروں نے کرسی کے لیے بڑی سرفروشیاں کی ہیں۔ عرصہ کار زار کو رنگین کیا ہے۔ خون کی نہریں بہائی ہیں۔ کرسی میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کسی نازک اندام محبوبہ اور اس کے خوبصورت خد و خال میں ہوا کرتی ہیں۔ بیوفائی میں کرسی اس سے بھی آگے ہے۔ کتنا ہی گوند لگا کر بیٹھے اس کی نگاہِ خوں آشام بدل جاتی ہے، تو آدمی کو اس طرح نیچے گرا دیتی ہے کہ سنبھلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے عشق میں خطرناک رقیبوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ لیلائے کرسی کے فریفتہ جب کسی رقیب سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں تو صلح کا امکان نہیں رہتا۔ انھیں سمجھوتے پر یقین نہیں۔ وہ سر ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترا کرتے ہیں۔

    ماضی میں کرسیوں کی تعداد اتنی نہ تھی جتنی اب ہے۔ اقسام بھی محدود تھیں۔ صدارت اور ممبری کی چند کرسیاں ہی تھیں جو میونسپل بورڈ اور جلسہ گاہوں میں یوسف بے کارواں کی طرح اکیلی پڑی رہا کرتی تھیں، پھر بھی دل رُبائی کا یہ عالم تھا کہ ان کے حصول میں بڑے ہنگامے ہوا کرتے تھے، دولت لٹائی جاتی تھی، کبھی زمین کو قطراتِ خوں سے لالہ زار بنایا جاتا تھا۔ طالبانِ کرسی میں سے کسی کو خریدنے کی نوبت آجایا کرتی تھی۔ موجودہ زمانے میں کرسیوں کی تعداد اور اقسام میں جتنا اضافہ ہوا ہے، اتنی ہی صفِ عشاق طویل ہوگئی ہے۔ وہ کیو بنائے یوں کھڑے رہتے ہیں کہ کان صدائے تکبیر پر لگے ہوئے ہیں اور آنکھیں اشارۂ ابرو کی منتظر ہیں۔ ذرا آواز فضا میں گونجے اور نمازِ عشق پڑھنا شروع کر دیں۔ کیفیت بالکل وہی ہوتی ہے جس کی عکاسی اس شعر میں کی گئی ہے،

    باندھ کے صف ہوں سب کھڑے تیغ کے ساتھ سر جھکے
    آج تو قتل گاہ میں دھوم سے ہو نمازِ عشق

    آج کل وہ روایتی مجنوں پیدا نہیں ہوتے جو ناقۂ لیلیٰ کے ساتھ میلوں دوڑے چلے جایا کرتے تھے۔ ان کی جگہ ایسے دلدادگانِ کرسی عالم وجود میں آرہے ہیں جو اس کی زلفِ گرہ گیر میں اسیر ہوکر بھاگتے نہیں بیٹھنا پسند کرتےہیں۔ اپنی جگہ تڑپتے ہیں۔ رومانی غزلیں کہتے ہیں، کہانیاں لکھتے ہیں، اسی طرح ہجر و فراق کی کڑی منزلیں طے ہوجاتی ہیں اور شربتِ وصل پینے کی مسرت حاصل ہوجاتی ہے۔ تو عالمِ سر خوشی میں کرسی کے علاوہ ہر چیز کو فراموش کردیتے ہیں۔ دن رات اسی کے خالِ رخسار کی پرستش میں مصروف رہتے ہیں۔ دل کی ساخت بدل جاتی ہے۔ خون میں بھی کیمیاوی تغیرات ہوجاتے ہیں۔ سرخی کم ہو کر سفیدی بڑھ جاتی ہے۔ اس حقیقت کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے کہ کرسی کے ان گنت فریفتہ ہیں وہ ان میں سے کسی کو بھی مرکزِ التفات بنا سکتی ہے۔ نئے چہروں کی تلاش کرسی کی تاریخی روایت ہے۔ وہ تو گرفتارانِ بلا پر زیادہ مہربان رہتی ہے۔ ان کے ہجر و فراق کی مصیبتوں پر اسے رحم بھی آجاتا ہے۔ حالانکہ سنگ دلی محبوبیت کا خاص وصف ہے۔ تاہم کبھی معشوق کی نگاہِ مشکل پسندی میں رحم کے جذبات بھی جھلک آجاتے ہیں۔

    کرسی کے شیدائی ساری رکاوٹیں دور کر کے چاہتے ہیں کہ جس طرح ہو سکے جلد اس پر قابض ہو جائیں، لیکن وقت اتنا ظالم اور سنگ دل ہے کہ آرزوؤں کے آبگینوں کو توڑ کر ہی دم لیتا ہے۔ ملک میں کروڑوں صاحبانِ دل آباد ہیں، ان کے سینہ میں دھڑکتے ہوئے قلوب کا جائزہ لیا جائے تو سویدائے دل میں جو چنگاری شعلہ بن جانے کی دھن میں چمک رہی ہوگی، وہ کرسی کے اشتیاقِ بے پایاں ہی کی ہوگی، کرسی کا حسن لازوال ہے اس کی کشش مکان و زماں کی پابند نہیں۔ ہر کرسی میں دل ربائی کا وصف نہیں ہوتا۔ گھر میں کتنی ہی نازک اور آراستہ کرسی پر بیٹھ جائیے اس میں جلوہ افروزی کا وہ لطف نہیں ہوگا جو کسی جلسہ کی کرسی صدارت میں ہوا کرتا ہے۔

    کرسی کی تاریخ اوّل سے آخر تک بے نیازی اور تغافل شعاری کا دل شکن افسانہ ہے۔ کرسی کی انقلاب انگیز تبدیلیوں کے پیش نظر کرسی نشینوں کو دیدہ وری سے کام لینا چاہیے اور اسے بد لگام گھوڑے کی طرح قابو میں رکھنا چاہیے۔ اس عاشقانہ جذباتی رویّے سے شدید نقصان ہوتا ہے جس میں باگ ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے اور پاؤں رکاب سے نکل جاتے ہیں اور کرسی نشین چیخ اٹھتا ہے کہ

    رَو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
    نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہیں رکاب میں

    (معروف ادیب، افسانہ نگار کوثر چاند پوری کی طنز و مزاح پر مبنی تحریر)

  • مَردوں کا سچ…

    مَردوں کا سچ…

    جب یہ امر طے شدہ ہے کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، تو اسے تحقیق کے ذریعے ثابت اور بے چارے مردوں کو مزید رسوا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

    برطانیہ کے محققین کو نہ جانے کیا سوجھی کہ بیٹھے بٹھائے مردوں اور عورتوں کی دروغ گوئی کی پیمائش کر ڈالی اور سروے کے ذریعے مردوں کو زیادہ جھوٹا قرار دے دیا۔

    دراصل سروے میں معصوم مردوں نے سچ سچ بتا دیا کہ وہ روزانہ کم از کم تین جھوٹ بولتے ہیں، یوں عورتوں سے بڑھ کر جھوٹے ٹھہرائے گئے۔
    محققین نے یہ تو جان لیا کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، مگر یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ ایسا کرتے کیوں ہیں۔ ارے یہ جھوٹ ہی تو ہے جس کے سہارے مرد جی لیتے ہیں، ورنہ ہر مرد یہی دعا مانگتا نظر آئے ؎

    اب کے جنم موہے ”کاکا“ نہ کیجو

    جھوٹ مردوں کی مجبوری اور ان کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر اس برادری کی مظلوم ترین ”نوع“ شوہروں کا دروغ گوئی کے بغیر گزارہ ہی نہیں۔ اب خدا لگتی کہیے، شادی کے دس پندرہ سال بعد،”میں کیسی لگ رہی ہوں“ کے اہلیانہ سوال کا جواب پوری سچائی کے ساتھ دیا جاسکتا ہے؟ ایسے کتنے ہی سوال ہر روز شوہروں کے سامنے کھڑے کہہ رہے ہوتے ہیں،”ہمت ہے تو سچ بول کے دکھا۔“ اسی طرح،”چَن کِتھاں گزاری ائی رات وے“ کا سیدھا سچا جواب ”چن“ کے دن رات کا چین چھین لے گا، چناں چہ اسے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی کہانی گھڑنا پڑتی ہے۔

    ”کیا آپ نے شادی سے پہلی کسی سے محبت کی ہے؟“ کا شک میں گندھا بلکہ سَنا ہوا استفسار اس لیے نہیں ہوتا کہ شوہر پڑوس کی بانو، پچھلی گلی کی رانو، اَگلی گلی کی چَھپن چُھری، کالج کی حمیدہ، یونیورسٹی کی زبیدہ اور دفتر کی سعیدہ سے تعلق کے گفتنی اور ناگفتنی تذکرے چھیڑ دے اور اہلیہ برداشت کی پوری اہلیت کے ساتھ مزے لے لے کر سُنتی رہیں، بلکہ بیگم صاحبہ صرف یہ سننا چاہتی ہیں کہ تم میری پہلی اور آخری محبت ہو، لہذا ”پہلی“ سے پہلے ”شادی کے بعد“ اور ”آخری“ سے قبل ”اب تک کی“ کے ٹکڑے دل ہی دل میں جوڑ کر حسب منشا جواب دے دیا جاتا ہے۔

    نصف بہتر کے ہاتھ کا بدترین کھانا بھی ”واہ واہ“ کر کے پیٹ میں انڈیلنا پڑتا ہے، ورنہ شوہر غریب کتنی ہی دیر کھا جانے والی نظروں کا سامنا کرتا رہے گا اور اس کے کان کھائے جاتے رہیں گے۔

    اب آپ ہی فیصلہ کیجیے مرد جھوٹے ہیں یا وہ لوگ ظالم ہیں جو مردانہ مجبوریوں کو جھوٹ کا مکروہ نام دیتے ہیں۔

    (معروف مزاح نگار، کہانی نویس، شاعر اور سینئر صحافی محمد عثمان جامعی کی کتاب ‘کہے بغیر’ سے انتخاب)

  • نجات کا طالب غالب

    نجات کا طالب غالب

    مرزا غالب کی غزلیں‌ ہی نہیں ان کے خطوط بھی مشہور ہیں۔ غالب نے اردو زبان میں خطوط نویسی میں پُر تکلّف زبان، القاب اور روایتی طریقۂ سلام و پیام کو اہمیت نہ دی بلکہ اس روش کو ترک کر کے اردو خطوط نویسی کو خوش مزاجی، لطف اور تازگی سے بھر دیا۔ ابنِ‌ انشاء اردو کے ممتاز مزاح نگار اور شاعر تھے جن کی کتاب خمارِ گندم میں شامل غالب کا ایک فرضی خط یہاں ہم نقل کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    منشی صاحب میاں داد خاں سیاح

    یہ خط نواب غلام بابا خاں کے توسط سے بھیج رہا ہوں کہ تمہارا تحقیق نہیں اس وقت کہاں ہو۔ اشرف الاخبار تمہارے نام بھجوایا تھا، وہ واپس آگیا کہ مکتوب الیہ شہر میں موجود نہیں۔ اس اخبار کے مہتمم صاحب کل آئے تو کچھ اخبار بلاد دیگر کے دے گئے کہ مرزا صاحب انہیں پڑھیے اور ہو سکے تو رنگ ان لوگوں کی تحریر کا اختیار کیجیے کہ آج کل اسی کی مانگ ہے۔

    یہ اخبار لاہور اور کرانچی بندر کے ہیں۔ کچھ سمجھ میں آئے کچھ نہیں آئے۔ آدھے آدھے صفحے تو تصویروں کے ہیں۔ دو دو رنگ کی چھپائی موٹی موٹی سرخیاں۔ افرنگ کی خبریں۔ اگر بہت جلد بھی آئیں تو مہینہ سوا مہینہ تو لگتا ہی ہے لیکن یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ آج واردات ہوئی اور آج ہی اطلاع مل گئی۔ گویا لوگوں کو پرچاتے ہیں۔ بے پر کی اڑاتے ہیں۔ پھر ایک ہی اخبار میں کشیدہ کاری کے نمونے ہیں، ہنڈیا بھوننے کے نسخے ہیں۔ کھیل تماشوں کے اشتہار ہیں۔ ایک لمبا چوڑا مضمون دیکھا، ’’اداکارہ دیبا کے چلغوزے کس نے چرائے۔‘‘ سارا پڑھ گیا۔ یہ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہوئی۔ کسی کی جیب سے کسی نے چلغوزے نکال لیے تو یہ کون سی خبر ہے۔

    خیر یہ سب سہی، لطیفے کی بات اب کہتا ہوں۔ کرانچی کے ایک اخبار میں میرے تین خط چھپے ہیں۔ ایک منشی ہرگوپال تفتہ کے نام ہے، ایک میں نواب علائی سے تخاطب اور ایک میر مہدی مجروح کے نام۔ میں حیران کہ ان لوگوں نے میرے خطوط اخبار والوں کو کیوں بھیجے۔ اب پڑھتا ہوں تو مضمون بھی اجنبی لگتا ہے۔ اب کہ جو شراب انگریزی سوداگر دے گیا ہے کچھ تیز ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی کیفیت اک گونہ بے خودی سے آگے کی ہو جاتی ہے۔ یا تو میں نے اس عالم میں لکھے اور کلیان اٹھا کر ڈاک میں ڈال آیا۔ یا پھر کسی نے میری طرف سے گھڑے ہیں اور اندازِ تحریر اڑانے کی کوشش کی ہے۔ کونے میں کسی کا نام بھی لکھا ہے، ابنِ انشا۔

    کچھ عجب نہیں یہی صاحب اس شرارت کے بانی مبانی ہوں۔ نام سے عرب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کیا حرکت ہے۔ سراسر دخل در معقولات ہے۔ اخبار نویسی میں ٹھٹول کیا معنی؟ بھئی مجھے بات پسند نہیں آئی۔ امید ہے وہ ٹوپیاں تم نے نواب صاحب کو پہنچا دی ہوں گی۔ نواب صاحب سے میرا بہت بہت سلام اور اشتیاق کہنا۔ میں سادات کا نیاز مند اور علی کا غلام ہوں۔

    نجات کا طالب
    غالب

  • ہم لوگ کن چیزوں پر ہنستے ہیں؟

    ہم لوگ کن چیزوں پر ہنستے ہیں؟

    انسان کو حیوانِ ظریف کہا گیا ہے۔ لیکن یہ حیوانوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔

    اس لیے کہ دیکھا جائے تو انسان صرف واحد حیوان ہے جو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہوجاتا ہے۔ انسان واحد جاندار ہے، جسے خلّاقِ عالم نے اپنے حال پر رونے کے لیے غدودِ گریہ بخشے ہیں۔ کثرتِ استعمال سے یہ بڑھ جائیں تو حساس طنز نگار دنیا سے یوں خفا ہو جاتے ہیں جیسے اگلے وقتوں میں آقا نمک حرام لونڈیوں سے روٹھ جایا کرتے تھے۔ لغزشِ غیر پر انہیں ہنسی کے بجائے طیش آجاتا ہے۔ ذہین لوگوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو احمقوں کا وجود سرے سے برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ لیکن، جیسا کہ مارکوئس دی سید نے کہا تھا، وہ بھول جاتے ہیں کہ سبھی انسان احمق ہوتے ہیں۔ موصوف نے تو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر تم واقعی کسی احمق کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے تو خود کو اپنے کمرے میں مقفّل کر لو اور آئینہ توڑ کر پھینک دو۔

    لیکن مزاح نگار کے لیے نصیحت، فصیحت اور فہمائش حرام ہیں۔ وہ اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان ایک قد آدم دیوارِ قہقہ کھڑی کر لیتا ہے۔ وہ اپنا روئے خنداں، سورج مکھی پھول کی مانند، ہمیشہ سرچشمۂ نور کی جانب رکھتا ہے اور جب اس کا سورج ڈوب جاتا ہے تو اپنا رخ اس سمت کر لیتا ہے، جدھر سے وہ پھر طلوع ہوگا؛

    ہمہ آفتاب بینم، ہمہ آفتاب گویم
    نہ شبنم، نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم

    حسّ مزاح ہی اصل انسان کی چھٹی حس ہے۔ یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسان گزر جاتا ہے۔ یوں تو مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں با آسانی حل ہو جاتے ہیں، بالخصوص اردو ادب میں۔ لیکن مزاح کے اپنے تقاضے، اپنے ادب آداب ہیں۔ شرطِ اوّل یہ کہ برہمی، بیزاری اور کدورت دل میں راہ پائے۔ ورنہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کردیتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ’’یہ دھوآں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟‘‘ مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیرِ لب کا سزاوار نہیں، جب تک اس نے دنیا اور اہلِ دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ ان سے، ان کی بے مہری و کم نگاہی سے۔ ان کی سَر خوشی و ہوشیاری سے۔ ان کی تر دامنی اور تقدس سے۔ ایک پیمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے، مگر مشتاق و آرزو مند بھی ہے۔ یہ زلیخا کا ہاتھ ہے۔ خواب کو چھو کردیکھنے والا ہاتھ۔

    صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی

    ایک صاحبِ طرز ادیب نے، جو سخن فہم ہونے کے علاوہ ہمارے طرف دار بھی ہیں (تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ سود خوار ہوتا…. کی حد تک) ایک رسالے میں دبی زبان سے شکوہ کیا کہ ہماری شوخیٔ تحریر مسائل حاضرہ کے عکس اور سیاسی سوز و گداز سے عاری ہے۔ اپنی صفائی میں ہم مختصرًا اتنا ہی عرض کریں گے کہ طعن و تشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہوجاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

    لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں، جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب معلوم ہوجائے گا، انسان ہنسنا چھوڑ دے گا۔ رہا یہ سوال کہ کس پر ہنستے ہیں؟ تو اس کا انحصار حکومت کی تاب و رواداری پر ہے۔ انگریز صرف ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔ پنچ کے لطیفے، موسم، عورت، تجریدی آرٹ۔ اس کے برعکس، ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو اب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں۔ مثلاً انگریز، عشقیہ شاعری، روپیہ کمانے کی ترکیبیں، بنیادی جمہوریت۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کے قلم سے)

  • امریکہ میں صلاحیت اور ہمّت کا امتحان

    امریکہ میں صلاحیت اور ہمّت کا امتحان

    نیویارک ٹیکس زدہ ہے۔ ہر قدم پر ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

    ایئرپورٹ پر سامان رکھنے کے لئے ٹرالی درکار تھی۔ وہ ایک لوہے کی راڈ سے بندھی تھی۔ ہم نے اسے کھینچ کر نکالنے کی بہت کوشش کی۔ ناکام ہوئے، تب ایک امریکن نے بتایا ڈیڑھ ڈالر ڈالیں گے جب باہر نکلے گی۔ ہم ڈالر کو روپے سے ضرب کر کے پریشان ہونے لگے۔ لیکن کوئی اور راستہ نہ تھا۔

    نیویارک سے باہر نکلنے کا بھی جرمانہ ہے۔ شہر سے نکلتے ہی ایک پل آ گیا…. ٹرائی برو۔ اسے پار کرنے کے ڈھائی ڈالر ٹیکس۔ اس کا ٹوکن بھی ملتا ہے۔ پل دیکھ کر حیران ہو گئے۔ دریائے ہڈسن پر عظیم الشان بارعب ایسا کہ ہم بھی ڈھائی ڈالر ٹیکس دینے کو آمادہ ہو گئے۔ ہائی وے پر آئے تو بھائی ساڑھے دس ڈالر ادا کر چکا تھا۔ اتنی رقم دینے کے بعد جو سڑک نظر آئی وہ اچھی لگنی ضروری تھی۔ دونوں طرف گھاس کے قطعے، جنگلوں اورباغوں کی بہتات۔ کئی جگہ ” یہاں ہرن ہیں” لکھے دیکھا۔ ہم بار بار اس ہائی وے سے گزرے لیکن ہم نے نہ ہرن دیکھے، نہ کوئی اور جانور۔ امریکی اگر ” یہاں شیر ہے” کا بورڈ لگا دیتا تو بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔

    راستے میں کئی جگہ ہم نے دیکھا پولیس کی گاڑی درختوں کے جھنڈ میں کھڑی ہے۔ اس میں ریڈار لگا ہے رفتار چیک کرنے کا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عام گاڑیوں میں اینٹی ریڈار لگا ہے۔ جہاں گاڑی پولیس والوں کے ریڈار رینج میں پہنچی اور وارننگ سگنل کی آواز آنے لگی اب ظاہر ہے ایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ کم ہوگا۔ رفتار قابو میں آجائے گی اور ٹکٹ سے بچت ہو گی۔
    یہ نظام ہمیں پسند آیا۔ جمہوری ملک میں پکڑنے اور بچنے کے مواقع برابر ہونے چاہیں۔

    آسمان پر بادل تھے۔ ذرا دیر میں رم جھم بارش ہونے لگی۔ سیاہ سڑک پہلے ہی صاف ستھری تھی اب مزید دھل گئی۔ یہ سب ہمیں متاثر کرنے کے لئے تھا۔ ہم مرعوب ہو گئے۔ ایک آدھ بار شک گزرا کہیں کسی حادثے کا شکار ہو کر جنت تو نہیں سدھار گئے۔ لیکن اعمال پر نظر گئی تو یہ خیال خام نکلا۔

    گاڑی ایک جگہ ٹہر گئی۔ یہ ریسٹ ایریا تھا۔ یہاں ریسٹورنٹ تھا۔ چائے، کافی، کولڈ ڈرنک، چپس، ڈونَٹ، برگر…. ڈالر کے بدلے ملتے تھے۔ باتھ روم مفت تھے۔ ہم نے مال مفت پر حملہ کیا۔

    بھائی کے گھر، لاوڈن ول میں جاگنگ کرتے دور نکل گئے۔ نہ گرد و غبار نے منہ ڈھکا نہ تھکن کا احساس ہوا۔ اس بات سے دل خوش نہیں ہوا۔ برسوں کی عادت ایک دن میں کیسے جاتی۔ دھول مٹی نہ ہو پھر کیا لطف۔ تین میل کا چکر لگا کر واپس گھر آئے تو عجیب سی خوشبو نے استقبال کیا۔ بھاوج نے بتایا ” نہاری پک رہی ہے ” ۔ دوسرے دن پائے، تیسرے دن حلیم۔ پھر جو دعوتوں کا سلسلہ چلا تو گردے، کلیجی، مغز، بریانی، فیرنی کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ ہماری سمجھ میں نہ آیا ان لوگوں کے نہاری خلوص، پائے محبت، حلیم مہمان داری کو کیسے روکیں؟

    امریکہ جانے میں یہ بات بھی پوشیدہ تھی کہ سلاد کھائیں گے، پھلوں کا رس پئیں گے۔ ایک آدھ دبلا کرنے کی دوا استعمال کریں گے تو لوگ چہرے کی شادابی اور جسم کی فٹنس دیکھ کر حیران ہوں گے۔ لیکن امریکہ میں پاکستانی ہمیں نہاری، پائے سے مرعوب کر رہے تھے۔

    جس دن ہم امریکہ پہنچے اس کے دوسرے دن بقر عید تھی۔ دوسرے دن دس بجے بھائی ہمیں گاڑی میں سوار کر کے ایک باڑے کی طرف چلا قربانی کے لئے۔

    ایک کمرے میں مشین پر گوشت کاٹتا قصائی کھڑا تھا۔ ہمارے بھائی نے کہا: ” قربانی کے لئے بکرا چاہیے۔”

    اچانک مشین بند ہو گئی۔ اس نے برابر کے نل سے ہاتھ دھوئے اور جھٹ ہم سے ملا لیا۔ ہمارا ہاتھ چھوڑ کر وہ اندر کے کمرے میں گیا اور ایک بکرے کو کان سے پکڑ لایا۔ مول تول ہونے لگا۔ وہ اسّی ڈالر سے کم پر آمادہ نہ تھا۔ بھائی ضد کرنے لگا۔

    قصاب بولا ” میں کچھ اور دے دوں گا۔ ” اتنے میں اندر سے ایک اور بکرا نمودار ہوا۔ قصاب نے اس کی ٹانگ پکڑ لی، ہم سمجھے کچھ اور میں اس کی ٹانگ کاٹ کر دے گا۔ لیکن اس نے ٹانگ چھوڑ کر دائیں طرف سے ایک ڈبہ اٹھا کر دیا۔ اس میں ایک درجن انڈے تھے۔

    بھائی نے کہا صرف ایک درجن، قصاب نے ایک ڈبہ اور پیش کر دیا۔ اور بولا۔۔” بس اب چپ رہنا۔”
    بھائی نے اسّی ڈالر کا چیک کاٹ کر دیا۔ اسی لمحے بکرے کو زمین پر لٹا کر چھری پھیر دی گئی۔ہمیں ایک ڈر تھا۔ یہ سارا گوشت، پائے، مغز، گردوں اور کلیجی کے ساتھ کھانا پڑے گا اور آنے والے دنوں میں ایسا ہی ہوا۔ وہ سارا گوشت ہمارے گوشت میں آ ملا۔ اور اب ساتھ لئے پھرتے ہیں۔

    شوکت صاحب ہمارے بھائی کے سسر ہیں۔ انہیں سیر و سیاحت کا شوق ہے۔ اب پروگرام بننے لگا کہ کھلی فضا میں پکنک منائی جائے بھلا ہمیں کیا اعتراض۔ جارج لیک کا پروگرام بنا۔ البنی سے ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ اس کے لئے شوکت صاحب کے ہم نام شوکت علی خان کو فون کیا گیا کہ ٹرک لے کر آ جاؤ، ہم پریشان ہو گئے ۔ بھلا ٹرک کیا کام۔ پھر اس میں کس طرح بیٹھیں گے۔ شوکت علی خان اپنی ایئر کنڈیشن ٹویوٹا ویگن لے آئے۔ یہ ٹرک تھا۔ شوکت علی خان نے لیک ایک گھنٹے سے پہلے پہنچا دیا۔

    یہاں جھیل کی سیر کے لئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جہاز تھے جن میں ایک گھنٹے سے ساڑھے چار گھنٹے کی سیر شامل ہے۔ اس میں جاز اور رقص شامل ہے۔

    ہم نے دریافت کیا۔ "رقاصہ ساتھ لانی ہو گی یا جہاز مہیا کرے گا۔”

    جواب ملا، ” یہ اپنی صلاحیت اور ہمّت پر ہے۔”

    (قمر علی عباسی کے سفر نامہ امریکہ مت جیو سے اقتباس)

  • گھاگ اور ‘گھاگیت’

    گھاگ اور ‘گھاگیت’

    گھاگ (یا گھاگھ) کی ہیئت صوتی و تحریر اس کو کسی تعریف کا متحاج نہیں رکھتیں۔

    الفاظ کی شکل اور آواز سے کتنے اور کیسے کیسے معنی اخذ کیے گئے ہیں لسانیات کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ کبھی کبھی تلفظ سے بولنے والے کی نسل اور قبیلہ کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ گھاگ کی تعریف منطق یا فلسفہ سے نہیں تجربے سے کی جاتی ہے۔ ایسا تجربہ جسے عقل مند سمجھ لیتا ہے، بے وقوف برتنا چاہتا ہے۔

    گھاگیات کا ایک اصل یہ ہے کہ قضیے میں فریق سے بہتر قاضی بننا ہے، جھگڑا میں فریق ہونا خامی کی دلیل ہے۔ حکم بننا عقل مندوں کا شعار ہے۔ اگر ہر ایجاد کے لیے ایک ماں کی ضرورت ہے تو ہر ضرورت کے لیے ایک گھاگ لازم آتا ہے۔ گھاگ موجود نہ ہوتا تو دنیا سے ضرورت کا عنصر مفقود ہو جاتا اور طالب محض ہے سارا عالم “ کا فلسفہ انسدادِ توہینِ مذاہب کے قانون کی مانند ناقص ہو کر رہ جاتا۔ گھاگ کا کمال یہ ہے کہ وہ گھاگ نہ سمجھا جائے۔ اگر کوئی شخص گھاگ ہونے کا اظہار کرے یا بقول شخصے ” مارکھا جائے“ تو وہ گھاگ نہیں، گھاگس ہے اور یہ گھاگ کی ادنٰی قسم ہے۔ ان میں امتیاز کرنا دشوار بھی ہے، آسان بھی، جیسے کسی روشن خیال بیوی کے جذبۂ شوہر پرستی یا کسی مولوی کے جذبۂ خدا ترسی کا صحیح اندازہ لگانا۔

    گھاگ کی ایک منفرد شخصیت ہوتی ہے۔ وہ نہ کوئی ذات ہے نہ قبیلہ۔ وہ صرف پیدا ہو جاتا ہے لیکن اس کی نسل نہیں چلتی، روایت قائم رہتی ہے۔ ہر طبقہ اور جماعت میں کوئی نہ کوئی گھاگ موجود ہوتا ہے۔ معاشرہ، مذہب، حکومت، غرض وہ تمام ادارے جن سے انسان اپنے آپ کو بناتا بگاڑتا یا ڈرتا ڈراتا رہتا ہے کسی نہ کسی گھاگ کی دستبرد میں ہوتا ہے۔ وہ جذبات سے خالی ہوتا ہے اور اپنے مقصد کے حصول میں نہ جاہل کو جاہل سمجھتا ہے نہ عالم کو عالم۔ دانش مند کے سامنے وہ اپنے کو احمق، احمق کے سامنے احمق تر ظاہر کرے گا جب تک وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس کو یہ پروا نہیں ہوتی کہ دنیا اس کو کیا کہے گی۔ وہ کامیابی ہی کو مقصد جانتا ہے۔ وسیلے کو اہمیت نہیں دیتا۔

    گھاگ کا سوسائٹی کے جس طبقے سے تعلق ہوتا ہے اسی اعتبار سے اس کی گھاگیت کا درجہ متعین ہوتا ہے۔ نچلے طبقے کا، متوسط طبقے کا، اعلیٰ طبقے کے گھاگ پرفوقیت رکھتا ہے اس لیے کہ موخرالذّکر کو اوّل الذکر سے کہیں زیادہ سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گھاگ نہ بھی ہوں جب بھی اپنی دولت اور اثر سے کام نکال سکتے ہیں۔ ان سے کم درجہ والے کو اپنی گھاگیت کے سوا کچھ اور میسر نہیں ہوتا۔ مثلاً گھاگ ہونے کے اعتبار سے ایک پٹواری کا درجہ کسی سفیر سے کم نہیں۔ بشرطیکہ سفیر خود کبھی پٹواری نہ رہ چکا ہو۔ سیاسی گھاگ کو قوم اور حکومت کے درمیان وہی حیثیت حاصل ہوتی ہے جو قمار خانے کے منیجر کو قمار بازوں میں ہوتی ہے۔ یعنی ہار جیت کسی کی، نفع اس کا۔ وہ صدارت کی کرسی پر سب سے زیادہ ہار پہن کر تالیوں اور نعروں کی گونج میں بیٹھتا ہے۔ اور تحریر و تقریر میں پریس اور حکومت کے نمائندوں کو پیش نظر رکھتا ہے۔ کہیں گولی چلنے والی ہو یا دار و رسن کا سامنا ہو تو وہ اپنے ڈرائنگ روم یا کوہستانی قیام گاہ کو بہتر و محفوظ تر جگہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک قوم کی حیثیت نعش کی ہے۔ اس پر مزار تعمیر کر کے نذرانے اور چڑھاوے وصول کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن پیش قدمی کی ضرورت ہو تو ان سے پاٹ کی راستے ہموار کیے جا سکتے ہیں۔ اپنے اغراض کے پیش نظر وہ نوحۂ غم اور نغمۂ شادی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ وہ حکومت سے خفیہ طور پر اور حکومت اس سے علانیہ ڈرتی ہے۔

    گھاگ صرف اپنا دوست ہوتا ہے، کسی اور کی دوستی پر اعتبار نہیں رکھتا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے، موقع کو اپنے سے فائدہ نہیں اٹھانے دیتا۔ وہ انتہا پسند نہیں ہوتا صرف انتہا پسندوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کی مثال ایک ایسی عدالتی مثل سے دی جا سکتی ہے جس کی رو سے متضاد فیصلے آسانی سے دیے جا سکتے ہیں اور وہ فیصلے آسانی سے بحال بھی رکھے جا سکتے ہیں اور توڑے بھی جا سکتے ہیں۔ سیاسی گھاگ فیکٹری کے بڑے پہیے کی مانند ہوتا ہے بظاہر یہ معلوم ہوگا کہ صرف ایک بڑا پہیا گردش کررہا ہے لیکن اس ایک پہیے کے دَم سے معلوم نہیں کتنے اور کل پرزے گردش کرتے ہوتے ہیں۔ کہیں بھاری مشین تیار ہوتی ہے، کہیں نازک ہلکے ہلکے طرح طرح کے آلات۔ کہیں زہر، کہیں تریاق، کہیں برہنہ رکھنے کے لیے کپڑے تیار ہوتے ہوں گے، کہیں بھوکا رکھنے کے لیے خرمن جمع کیا جا رہا ہو گا۔ کہیں حفاظت کا کام در پیش ہوگا، کہیں ہلاکت کے سامان فراہم کیے جا رہے ہوں گے۔

    گھاگ بولنے کے موقع پر سوچتا ہے اور چھینکنے کو صرف ایک جمائی پر ختم کر دیتا ہے۔ وہ ضابطہ فوجداری اور کتابِ الہٰی دونوں کی طاقت اورکمزوری سے واقف ہوتا ہے۔ آرام کمرے میں بیٹھ کر جیل خانہ پر عذاب جھیلنے والوں سے ہمدردی کرے گا۔ کبھی کبھی وہ ملک الموت کی زد میں نہ ہو۔ وہ حکومت کے خطابات نہیں قبول کرتا لیکن خطاب یافتوں کو اپنے اثر میں رکھتا ہے۔ کونسل اور کمیٹی میں نہیں بولتا لیکن کونسل اور کمیٹی میں بولنے والے اس کی زبان سے بولتے ہیں۔ وہ کبھی بیمار نہیں پڑتا لیکن بیماری اسی طرح مناتا ہے جس طرح دوسرے تعطیل مناتے ہیں۔ اس کا بیمار ہونا درحقیقت اپنی صحت منانا ہوتا ہے۔ وہ ہر طرح کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے لیکن ماخوذ کسی میں نہیں ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ ہوتا ہے، سز ایافتہ نہیں ہوتا۔

    مذہبی گھاگ کو مذہب سے وہی نسبت ہے جو نسبت بعض نوجوانوں کو اپنے والدین سے ہوتی ہے۔ وہ والدین کو اپنا کمزور اور مضبوط دونوں پہلو سمجھتا ہے۔ ایک طرف تو وہ ان کو حکام کے آستانوں پر حاضر ہو کر مرادیں مانگنے کا وسیلہ سمجھتا ہے دوسری طرف اگر وہ خود تعلیم یافتہ روشن خیال اور اسی طرح کی بیوی کا شوہر ہے اور والدین ذی حیثیت نہیں ہیں وہ ان کو حکامِ عالی مقام کے چپڑاسی سے بھی چھپانے کی کوشش کرے گا۔ ضرورت پڑ جائے گی تو مذہب کا واسطہ دلا کر دوسروں کو ہندوستان سے ہجرت پر آمادہ کرے گا، کسی اور موقع پر مذہب ہی کی آڑ پکڑ کر دارالحرب میں سود لینے لگے گا۔ وہ تارکِ حوالات رہے گا ۔ تارکِ لذت نہ ہوگا۔

    ایک شخص کا کردار یوں بیان کیا گیا، پیشِ مُلّا قاضی، پیشِ قاضی ملّا۔ پیش ہیچ ہر دو، و پیش ہر دو ہیچ۔ یعنی وہ ملّا کے سامنے قاضی بنا رہتا ہے اور قاضی کے سامنے ملّا۔ دونوں میں سے کسی کا سامنا نہ ہو تو دونوں حیثیتیں اختیار کر لیتا ہے اور دونوں موجود ہوں تو کہیں کا نہیں رہتا۔ یہ مقولہ گھاگس پر صادق آتا ہے گھاگ ایسا موقع ہی نہیں آنے دیتا کہ ” وہ کہیں کا نہ رہے۔“ گھاگ کی یہ مستند پہچان ہے۔

    (اردو کے معروف ادیب، نقاد اور مزاح نگار رشید احمد صدیقی کے ایک شگفتہ مضمون سے اقتباس)

  • "اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے!”

    "اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے!”

    عام آدمی کے لیے شاید یہ امر تعجب خیز ہو کہ فن کار یا اہلِ قلم کی اکثریت اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور تخلیقی کام پر بہت کم معاوضہ یا محنتانہ پاتے رہے ہیں۔ آج اگرچہ صورتِ‌ حال پہلے جیسی نہیں، لیکن خالص ادب تخلیق کرنے والوں کو چھوڑ کر اب آرٹسٹ یا کانٹینٹ رائٹر کو باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے، ؒمگر یہ سلسلہ بھی بڑے اور مشہور ناموں تک محدود ہے۔

    ادیب و شعراء کو کل بھی اکثر ادارے، مدیر اور ناشر وغیرہ چھوٹے اور کم معروف ناموں کو طے کردہ معمولی رقم کی بروقت ادائیگی میں ‘ناکام’ ہوجاتے تھے اور آج بھی قلم کی مزدوری کرنے والا ‘مفت’ کام کیے جارہا ہے۔

    ایک زمانہ تھا جب آج کی طرح سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن چینل اور دوسرے ذرایع ابلاغ یا پلیٹ فارم نہیں‌ تھا جس پر کوئی فن کار یا ادیب و شاعر اپنے ساتھ ناانصافی کا شور مچاتا، جب کہ آج کوئی اوسط درجے کا فن کار بھی فیس بک پوسٹ یا ٹویٹ کر دے اور عوام میں بات پھیل جائے تو ادارہ یا کوئی فرد اپنی ساکھ بچانے کے لیے فوراً اس کا حق دے کر معاملہ ختم کرنا چاہے گا۔ یہاں ہم معروف ہندوستانی قلم کار دلیپ سنگھ کی ایک تحریر سے اقتباسات پیش کررہے ہیں جس میں طنز و مزاح کے پیرائے اسی حقیقت کو عیاں کیا گیا ہے۔

    دلیپ سنگھ کی پیدائش 1932ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے اور تقسیم کے بعد ہندوستان میں سکونت اختیار کی۔ دلیپ سنگھ بھارت میں‌ وزارتِ خارجہ سے منسلک رہے اور ساتھ ہی علمی و ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ وہ 8 اگست 1994 کو نئی دہلی میں وفات پاگئے تھے۔

    دلیپ سنگھ کی کتاب "سارے جہاں کا درد” کے دیباچہ سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    "1954 میں جب میرا پہلا طنزیہ مضمون اردو کے ایک مؤقر رسالہ میں شائع ہوا تو میں دس دن کے بعد معاوضہ لینے کے لیے رسالہ کے دفتر میں پہنچ گیا۔ دفتر میں اس وقت چھ سات آدمی موجود تھے۔ جوں ہی میں نے معاوضہ کا ذکر کیا، دفتر میں موجود لوگوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا، اتنا زوردار کہ مجھے احساس ہوا کہ قہقہہ چھ سات آدمیوں کا نہیں، ساٹھ ستّر آدمیوں کا ہے۔ ان لوگوں کی ہنسی رکی تو مدیر محترم نے مجھے بتایا کہ اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے۔”

    "مجھے یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ رواجوں کے اس دیس میں یہ رواج رائج ہونے سے کیسے رہ گیا؟ وضاحت کرتے ہوئے مدیر صاحب نے فرمایا کہ جب مدیر ہی کو تنخواہ نہیں ملتی تو مضمون نگاروں کو معاوضہ کس بات کا؟ جب میں نے نہایت سادگی سے پوچھا کہ لوگ پھر لکھتے کیوں ہیں؟
    تو کہنے لگے کہ شہرت کی خاطر۔”

    "یوں تو مجھے شہرت حاصل کرنے سے کوئی عذر نہیں تھا لیکن اس سے زیادہ مجھے ان دنوں پیٹ بھرنے کے لیے روٹی کی ضرورت تھی۔ پھر بھی سوچا کہ چلو شہرت تو حاصل کرو، ہو سکتا ہے جب بہت مشہور ہو جاؤں تو لوگ روٹی بھی کھلانے لگیں۔”

    "میں یہ سوچ کر اس رسالہ کے دفتر سے نیچے اترا کہ شاید مجھے دیکھتے ہی قارئین کرام آنکھوں پر بٹھا لیں گے۔ رسالہ جس میں میرا مضمون چھپا تھا، میری بغل میں تھا۔ سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا تو آنکھوں پر بٹھانا تو درکنار مجھے کوئی اپنی رکشا میں مفت بٹھانے کو تیار نہ ہوا۔ میں نے کہا بھی کہ میں ادیب ہوں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ سیکڑوں ادیب اس بازار میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ چنانچہ میں جوتیاں چٹخاتا گھر کی طرف چل دیا۔”

    "بعد میں، میں نے غور و خوض کی تو پتا چلا کہ اردو کے رسائل کے پڑھے جانے کا عالم یہ ہے کہ اکثر انہیں وہی حضرات پڑھتے ہیں جو ان میں لکھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اپنا مضمون پڑھنے کے بعد رسالہ سنبھال کر رکھ لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زیادہ ورق گردانی کرنے سے رسالے کے خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے اور ایسی حالت میں یہ بوقتِ ضرورت کام نہیں آ سکے گا اور سند نہیں بن سکے گا۔”