ملکہ صاحبہ کے نوکروں کا کچھ حال آپ نے سنا۔ ان میں اور مجھ میں صرف یہ فرق ہے کہ خاکسار راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتا۔ زندگی میں بعض ایسے موقعے بھی آئے۔ جب خاکسار نے جھگڑنے کی کوشش کی مگر رانی جی نے فوراً یہ کہہ کر منہ بند کردیا کہ اگر وہ مجھ سے شکایت نہ کریں تو اور کس سے کریں۔ کوئی اور ان کی کیوں سنے گا۔ اور یہ کہ گائے اسی کھونٹے کے زور پر جس سے وہ بندھی ہوتی ہے، بدکتی ہے۔
Tag: طنز و مزاح
-
ذکر اُس پری وَش کا
پیدائش پٹیالہ کے ایک دیوان خاندان میں ہوئی۔ تاریخِ پیدائش مت پوچھیے کہ صنفِ نازک کی حد تک اس سوال کا پوچھنا خلافِ تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس موضوع پر کوئی احمق سوال کر ہی بیٹھے تو بزرگوں کے قول کے مطابق یہ صنف تاریخ تو یاد رکھتی ہے مگر سنہ بھول جاتی ہے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر انسان کا حافظہ خراب ہو تو وہ زیادہ دیر تک جوان رہ سکتا ہے۔اس بات کا ثبوت کہ پری وَش کی ولادت واقعی دیوانوں (یعنی وزیروں) کے خاندان میں ہوئی۔ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ بات کرتے ہوئے موصوفہ خود کو صیغہ واحد کے بجائے صیغہ جمع سے تعبیر کرتی ہیں، مثلاً ہم نے ایسا کیا، ہم یہ کرنا چاہتے ہیں، ہمارا فیصلہ ہے کہ یہی ہوگا۔ اس کے علاوہ کسی اور کو کسی معاملے میں برتری حاصل نہ ہونے دینے کی خُو، گو ایسا کرنے سے کوئی خوبی ثابت نہ ہوتی ہو۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ان کے سامنے یہ دعویٰ کرے کہ اس کے لڑکے ایسے سرپھرے ہیں کہ دن میں دس روپے کی پتنگیں اڑادیتے ہیں، تو پری وَش فوراً بے پر کی اڑانے لگتی ہیں کہ ان کی لڑکیاں اپنے اس شوق کو پورا کرنے میں ایک دن میں بیس بیس روپے صرف کر دیتی ہیں۔تاجپوشی اور تخت نشینی ان کی 44ء میں ہوئی۔ جب راوی زرّین شیروانی اور آہنی تلوار کرایہ کی لے کر اس تقریب میں شریک ہوا تو پتہ چلا کہ ہمارے سسر صاحب مرحوم ہوکر ہم کو محروم کرگئے تھے، ان حقوق سے جو فرزندی میں لینے کے بعد خاکسار کو حاصل ہوسکتے تھے۔ بہرحال پَری وَش کی تخت نشینی کے بعد ان کا راج شروع ہوا، جو اب تک جاری و ساری ہے۔ عنانِ حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد انہوں نے ایک ایسا نظام قائم کر رکھا ہے جس میں ایک صاحب، ایک بی بی اور ایک غلام ہونے کے باوجود غلاموں کی تعداد دو ہے۔ممکن ہے اب آپ یہ سمجھنے لگیں کہ رانی جی کے تعلق سے خاکسار غیرجانبدارانہ رویہ اختیار نہیں کرسکتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ موصوفہ کا شمار حسینانِ جہاں میں ہونا چاہیے۔ سرو قد، متناسب جسم، سرخ و سپید رنگت، تابناک چہرہ، آہو چشم، ایک ماہِ کامل۔ زندگی میں جب پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو ایک لڑکی تھی۔ قیس کی لیلیٰ سے زیادہ خوبصورت اور فرہاد کی شیریں سے بڑھ کر شیریں۔ لڑکی جو عورت پھر ماں بنی، گھر کی مالک، گھرانے کی رانی، جس کی حکمرانی میں سرکشی اور بغاوت شرم سے پانی پانی۔ جس کا حکم نادرشاہی، جس کے فرامین اَٹل، جس کا غصہ گھر بھر کو لرزہ براندام کردے، جس کے رعب سے سر اور کمر جھکے رہیں۔ جس کی حشم ناکیوں سے گھر کا کتا بھونکنا بند کرکے اور دم دبا کر پلنگ کے نیچے پناہ ڈھونڈے اور خاندان کے افراد تتر بتر ہو کر سراسیمگی کی حالت میں گھر کے کونوں اور گوشوں میں سہم کر سمٹ جائیں۔ غرض شان اس پَری وَش کی شاہانہ، انداز تحکمانہ، لہجہ بیباکانہ، جب لب ہائے شیریں متحرک ہوں، یعنی یہ کھولیں اپنا دہانہ، تو اپنے الفاظ کی روانی کے سامنے تھم جائے۔ ٹینی سن کی پہاڑی ندی کا پانی اور چون و چرا کرنے کاجذبہ بھسم ہوجائے مانند پروانہ!جب اس رنگین قیامت کا عتاب شباب پر ہو تو آواز ایسی بلند کہ ٹیلیفون کا توسط غیر ضروری محسوس ہو۔ کانوں کے پردے ہل جائیں اور اڑوس پڑوس کی پردہ والیاں بھی پردے پرے کرکے اپنے اپنے آشیانوں سے باہر نکل پڑیں۔جب سے رانی جی نے چابیوں کا گچھا کمر میں لٹکانا شروع کیا ہے گھر میں سخت قسم کا کنٹرول عائد ہوگیا ہے۔ جہاں ہر چیز کسی مقفل الماری، صندوق، کمرہ یا میز کی دراز میں ہو تو ان کی اجازت یا ایما کے بغیر تنکا بھی اِدھر سے ادھر نہیں ہوسکتا اور خادم کو سگریٹ ماچس وغیرہ کے لیے گھر کے کتے کی طرح دم ہلانی پڑتی ہے۔ان کے دورِ حکومت میں خاندان کے اراکین میں دو کا اضافہ ہوا اور مالک یعنی اس اوپر والے کی مرضی سے دونوں چاند کی ٹکڑیاں ثابت ہوئیں۔ اس طرح ملکہ صاحبہ اولادِ نرینہ سے محروم ہیں اور ہمیشہ خاکسار کو اس کمی کے لیے ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ جب صاحبزادیاں امتحانوں میں اونچے درجے حاصل کرکے پاس ہوتی ہیں یا کوئی اور قابل ستائش کام انجام دیتی ہیں تو بتلایا جاتا ہے کہ آخر ان کی رگوں میں ان کا ہی خون ہے اور اگر شاذ و نادر وہ کبھی ضد کرتی ہیں یا کسی بات پر اڑ جاتی ہیں تو ان بچیوں کی رگوں میں خالص میرا خون دورہ کرنے لگتا ہے۔رانی صاحبہ کو اپنی رعایا سے جو کم و بیش خاکسار پر مشتمل ہے، یہ شکایت ہے کہ ان کو انتظامِ خانہ داری کی ہر ذمہ داری سے نپٹنا پڑتا ہے جب کہ راوی دفتر میں ٹانگیں پھیلائے گلچھڑے اڑاتا رہتا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق دفتر کا کام محض غپ شپ لڑانے، چائے پینے، اناپ شناپ بکنے، نیچے والوں کو دھمکانے اور اوپر والوں کے سامنے بھیگی بلی کی طرح میاؤں میاؤں کرنے، اور فائلوں پر کچھ الٹے سیدھے دستخط کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ جب کبھی مجھے دفتر سے آنے میں دیر ہوجاتی ہے تو ملکہ صاحبہ میرے انتظار میں بیزار، برسرپیکار، مرنے مارنے پر تیار۔ جب مجھ پر بڑھاپے میں آوارہ گردی کا الزام دھرتے ہوئے، دفتر کے کام کے متعلق اپنے نظریے کو باآوازِ بلند بیان فرمانے لگتی ہیں تو میں نہایت ادب سے ان کے حضور میں یہ عرض کرنے کی جسارت کر بیٹھتا ہوں کہ اگر بیگم صاحبہ کے ان خیالات کی بھنک محکمہ فنانس کے کسی عہدہ دار کے کانوں میں پڑگئی تو خادم کی جگہ تخفیف میں آجائے گی اور وہ بے روزگار ہو جائے گا اور سرکار کے دربار میں جو خراج مہینے کی پہلی تاریخ کو پیش کیا جاتا ہے اس سے حضور کو ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ اس پر ملکہ صاحبہ کچھ دیر کے لیے رک تو ضرور جاتی ہیں مگر روایتی رخصتی ٹھوکر کے طور پر یہ فرماتی ہیں کہ اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لیے خاکسار نے اچھی منطق تراشی ہے۔ان کو خادم سے یہ بھی شکایت ہے کہ جب وہ ان الٹی سمجھ والے نوکروں کو سیدھی طرح کام کرنے کے لیے تنبیہ کر رہی ہوتی ہیں تو اس نازک موقع پر خاکسار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ شکایت درست اور بجا ہے مگر خاکسار کو اس فروگزاشت کی صفائی میں یہ عرض کرنا ہے کہ جب ملکہ صاحبہ نوکروں سے عالمِ غیض و غضب میں مخاطب ہوتی ہیں تو ایسے موقع پر میرا کچھ کہنا سننا نقار خانے میں طوطی کی آواز سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں جس نوکر کو بڑی سفارشوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور بڑی ناز برداری سے رکھا جاتا ہے اس کو ملازمت چھوڑ دینے کے لیے اکسانے میں بھلا میں کیونکر شریک ہوسکتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ رانی جی کے راج میں بہت سے نوکر ہماری ملازمت چھوڑ کر چلے گئے۔ ان میں سے ایک پچھلی جنگ کے موقع پر فوج میں بھرتی ہوگیا، تنگ آمد بجنگ رفت!پچھلے 23 سال گزارنے کے بعد یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ زندگی کی الجھنیں کم مگر زندہ رہنے کی بہت بڑھ گئی ہیں۔ خاکسار کو اب پوری طرح یقین ہوگیا ہے کہ یہ دنیا عورتوں کی ہی ہے۔ جب آدمی پیدا ہوتا ہے تو پہلا سوال جو پوچھا جاتا ہے یہ ہوتا ہے کہ بچہ کی ماں کی طبیعت کیسی ہے؟ جب وہ شادی کرتا ہے تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیا خوبصورت دلہن ہے۔ اور جب وہ مرجاتا ہے تو لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مرنے والے نے بیوہ کے لیے کیا چھوڑا؟اس دنیا کی بس یہی ریت ہے۔ خادم اس دنیا میں اب تک جو حاصل کرچکا ہے وہ محض تجربہ ہے جس کے حصول میں اس دھات کی عمر میں پہنچ گیا ہے جس میں پیروں میں سکہ، منہ میں سونا اور بالوں میں چاندی بھر جاتی ہے۔ خود پری وَش میں اب پختگی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ مگر ان کا رخِ روشن اب بھی تابناک ہے۔ جلالِ شاہانہ برقرار ہے۔ مگر ان کے خیالات، ان کی حرکات اور ان کی پالیسی جس جذبہ کے تحت تشکیل پاتی ہے وہ ماں کی محبت کا جذبہ ہے۔ ان کے دل میں اس بے لوث محبت کے انمول خزانے پنہاں ہیں اور آنکھوں میں اس محبت کے دریا لہریں مارتے ہیں۔ گرانی اور ملاوٹ کے جس دور سے ہماری زندگی گزر رہی ہے اس میں بھی ان کی بے پناہ نگرانی کے باعث صاف ستھرا رزق ہم کو میسر آرہا ہے۔ رانی جی کو جب میں ماں کی محبت کے روپ میں دیکھتا ہوں تو اس چھتری والے کے حضور میں یہ دعا مانگتا ہوں کہ ان کی حکومت ہم پر قائم و دائم رہے۔آپ شاید مسکرا رہے ہیں کہ آمرانہ حکمرانی کی اس لمبی چوڑی داستان کے بعد یہ کیا؟ اس کے جواب میں مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ،اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھوتم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنادے(معروف مزاح نگار بھارت چند کھنہ کی شگفتہ تحریر) -
موسموں کا شہر
انگریزوں کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ طبعاً کم گو واقع ہوئے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ وہ فقط کھانے اور دانت اکھڑوانے کے لیے منھ کھولتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر انگلستان کا موسم اتنا واہیات نہ ہوتا تو انگریز بولنا بھی نہ سیکھتے اور انگریزی زبان میں کوئی گالی نہ ہوتی۔ کم و بیش یہی حال ہم اہلیانِ کراچی کا ہے۔ میں اپنے شہر کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ (INDOOR PASTIME) رہا ہے۔ ہر آن بدلتے ہوئے موسم سے جس درجہ شغف ہمیں ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ یہاں بہت سے نجومی ہاتھ دیکھ کر آئندہ چوبیس گھنٹوں کے موسم کی پیش گوئی کرتے ہیں اور الغاروں کماتے ہیں۔
اب سے چند مہینے پہلے تک بعض گرم و سرد چشیدہ سیاست دان خرابیِ موسم کو آئے دن وزارتی رد و بدل کا ذمہ دار ٹھیراتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کراچی کا موسم بھی انگریز ہی کی ایک چال ہے۔ لیکن موسم گزیدہ عوام کو یقین ہو چلا تھا کہ در حقیقت وزارتی رد و بدل کے سبب یہاں کا موسم خراب ہو گیا ہے۔ نظرِ انصاف سے دیکھا جائے تو موسم کی برائی تہذیب اخلاق کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ اگر موسم کو برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکالنا شہری آداب میں داخل نہ ہوتا تو لوگ مجبوراً ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگتے۔
اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو یا پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بت ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھیرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔)
ایک صاحب کو جانتا ہوں جنہیں عرصہ سے بنولے کے سٹہ کا ہوکا ہے۔ وہ بھی کراچی کی مرطوب آب و ہوا ہی کو اپنے تین دوالوں کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ ایک اور بزرگ کا دعویٰ ہے کہ میں اپنی بتیسی اسی نامعقول آب و ہوا کی نذر کر چکا ہوں۔ دیکھنےمیں یہ بات عجیب ضرور لگتی ہے مگر اپنے مشاہدے کی بناپر کہتا ہوں کہ اس قسم کی آب و ہوا میں چائے اور سٹہ کے بغیر تندرستی قائم نہیں رہ سکتی۔ اور تو اور چالان ہونے کے بعد اکثر پنساری اپنی بے ایمانی کو ایمائے قدرت پر محمول کرتے ہوئے اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ ’’حضور! ہم موسم کی خرابی کی وجہ سے کم تولتے ہیں۔ سیلن سے جنس اور دالوں کا وزن دگنا ہو جاتا ہے اور زنگ کھا کھا کر باٹ آدھے رہ جاتے ہیں۔ نتیجہ میں گاہک کو ۱/۴سودا ملتا ہے! ہم بالکل بے قصور ہیں۔‘‘
ایک اور ایک کفایت شعار خاتون (جنھوں نے پچھلے ہفتہ اپنی 32 ویں سالگرہ پر 23 موم بتیاں روشن کی تھیں) اکثر کہتی ہیں کہ دس سال پہلے میں گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی رہتی تھی۔ لیکن یہاں کی آب و ہوا اتنی واہیات ہے کہ اب بے خبری میں آئینے پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس کی ’’کوالٹی‘‘ پر شبہ ہونے لگتا ہے۔
لیکن غصہ ان حضرات پر آتا ہے جو بے سوچے سمجھے یہاں کے موسم پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اس کی وضاحت نہیں فرماتے کہ انہیں کون سا موسم ناپسند ہے۔یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں موسم ہر لحظہ روئی کے بھاؤ کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک ہی عمارت کے کرایہ دار ایک منزل سے دوسری منزل پر تبدیل آب و ہوا کی غرض سے جاتے ہیں۔ یہاں آپ دسمبر میں ململ کا کرتہ یا جون میں گرم پتلون پہن کر نکل جائیں تو کسی کو ترس نہیں آئے گا۔ اہلِ کراچی اس واللہ اعلم بالصواب قسم کے موسم کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اگر یہ دو تین گھنٹے تبدیل نہ ہو تو وحشت ہونے لگتی ہے اور بڑی بوڑھیاں اس کو قربِ قیامت کی نشانی سمجھتی ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ اچھے خاصے لحاف اوڑھ کر سوئے اور صبح پنکھا جھلتے ہوئے اٹھے۔ یا محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کو ملحوظ رکھتے ہوئے صبح برساتی لے کر گھر سے نکلے اور دوپہر تک لو لگنے کے سبب بالا ہی بالا اسپتال میں داخل کرا دیے گئے۔ کہاں تو رات کو ایسی شفاف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی کہ چارپائی کی چولوں کے کھٹمل گن لیجیے۔ اور کہاں صبح دس بجے کہرے کا یہ عالم کہ ہر بس ہیڈ لائٹ جلائے اور اوس سے بھیگی سڑک پر خربوزے کی پھانک کی طرح پھسل رہی ہے۔ بعض اوقات تو یہ کہرا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ نوواردوں کو کراچی کا اصل موسم نظر نہیں آتا۔ موسم کے تلون کی یہ کیفیت ہے کہ دن بھر کے تھکے ہارے پھیری والے شام کو گھر لوٹتے ہیں تو بغیر استخارہ کیے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صبح اٹھ کر بھول بل کی بھنی گرما گرم مونگ پھلی بیچیں یا آئس کریم!
کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیر و سیاحت پر اکسانے میں آب و ہوا کو بڑا دخل ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقیت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہرگز نہ نکلتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ محض میری صحت دیکھ کر یہاں کی آب و ہوا سے بدظن ہو جائیں۔ لیکن اطلاعاً اتنا ضرور عرض کروں گا کہ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے، کچھ دن یہاں کی بہارِ جاں فزا دیکھ کر میونسپل کارپوریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں، ان کا تعلق اس مخلوق سے ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مثلاً مگرمچھ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ!
(ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کی ایک تحریر سے چند پارے)
-
باتوں کے بھوت…
نجانے وہ لوگ کہاں بستے ہیں جن کے بارے میں احمد فراز نے کہا تھا ؎
کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفت گو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرےہمیں تو اپنے ارد گرد وہ لوگ ہی نظر آتے ہیں جنھیں سخن سے دل کو لہو اور سماعت کو لہولہان کرنے کا شوق ہے۔ ہمارے ہاں باتیں کرنا ایک باقاعدہ مشغلہ اور رواج ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو ”گپ شپ“ اور ”کچہری کرنے“ کی دعوت دیتے ہیں اور یہ ”دعوتِ گفتگو“ گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں بات چیت کا آغاز ہی نہایت بے تکے پن سے کیا جاتا ہے، لہٰذا دوران گفتگو دانائی اور معقولیت کی توقع رکھنا فضول ہے۔ بات چیت کی ابتدا عموماً دو بھلے چنگے اور ہنستے مسکراتے افراد اس سوال سے کرتے ہیں:
”اور بھئی ٹھیک ٹھاک“ یا ”خیریت سے ہو۔“ اس کے بعد لایعنی سوالات اور بے معنی گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔
مغرب میں دو اجنبیوں میں گفتگو کی شروعات عموماً موسم کے تذکرے سے ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں جب دو ناآشنا ملتے ہیں تو خالصتاً ذاتی نوعیت کے سوالوں سے بات شروع کی جاتی ہے۔ مثلاً اپنے کاروبار کے مالک اور خاصے متمول یا نو دلتیے، بھائی اچھن اور ایک فیکٹری میں ملازمت کرنے والے شبّو میاں پہلی بار ایک شادی کی تقریب میں ملے ہیں، جہاں وہ دونوں محض اس لیے ایک دوسرے سے گویا ہونے پر مجبور ہوگئے کہ کوئی تیسرا انھیں لفٹ نہیں کرا رہا۔
بھائی اچھن (گاڑی کی چابی گھُماتے ہوئے): ”آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟“
شبو میاں: ”مصروفیات تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ تو نوکری ہی میں مصروف رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں۔“
بھائی اچھن:”کہاں نوکری کرتے ہیں“
شبو میاں: ”ایک فیکٹری میں۔“
بھائی اچھن: ”فیکٹریوں میں تو تنخواہیں بہت کم ہیں۔ گزارہ ہو جاتا ہے؟“
شبو میاں: ”بڑی مشکل سے“
بھائی اچھن: ”تو اپنا کاروبار کیوں نہیں کر لیتے؟“
اس سوال پر شبو میاں کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور کئی مغلظات ان کے گلے تک آکر بہ مشکل واپس جاتی ہیں۔ وہ بھائی اچھن کے پاس سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بھائی اچھن اس شکار کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔ وہ شبو میاں کے سامنے مشوروں کا انبار لگادیتے ہیں، جن میں مختلف کاروبار کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔
میاں اچھن کی طرح کے کردار ہمارے یہاں عام ”دست یاب“ ہیں۔ یہ خواتین و حضرات کی وہ قسم ہے جسے دوسروں کو مشورے دینے کا جنون ہوتا ہے۔ یہ ہر وقت بے تاب رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسروں کے مسائل جان لیں، تاکہ انھیں حل کرنے کے لیے کوئی نادر و نایاب مشورہ دیا جاسکے۔ بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کو مسائل میں مبتلا دیکھیں اور ان مسائل کا حل تجویز کریں۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے یہ لوگ دوسروں کے دل و دماغ، یہاں تک کہ کپڑوں میں جھانکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر آپ کہیں ان کے سامنے کھانس دیے تو یہ ذراسی دیر میں آپ کے لیے لاتعداد حکیمی، ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک ادویات تجویز کر دیں گے۔ ادھر آپ نے ان کے روبرو اپنی مالی پریشانی کا تذکرہ کیا اور ادھر یہ کسی ماہر معاشیات کی طرح آپ کی معیشت سدھارنے کے فارمولے پیش کرنے لگے۔ ان خواتین و حضرات کے بارے میں ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ یہ صرف باتوں کے لیے مشوروں کی پٹاری کھول دیتے ہیں یا مشورے دینے کے لیے گفت گو فرماتے ہیں!
(شاعر، ناول نگار، سینئر صحافی اور مزاح نگار محمد عثمان جامعی کے قلم سے)
-
سینما کا عشق
"سینما کا عشق” عنوان تو عجب ہوس خیز ہے۔ لیکن افسوس کہ اس مضمون سے آپ کی تمام توقعات مجروح ہوں گی۔ کیونکہ مجھے تو اس مضمون میں کچھ دل کے داغ دکھانے مقصود ہیں۔
اس سے آپ یہ نہ سمجھیے کہ مجھے فلموں سے دلچسپی نہیں یا سینما کی موسیقی اور تاریکی میں جو ارمان انگیزی ہے میں اس کا قائل نہیں۔ میں تو سینما کے معاملے میں اوائلِ عمر ہی سے بزرگوں کا موردِ عتاب رہ چکا ہوں لیکن آج کل ہمارے دوست مرزا صاحب کی مہربانیوں کے طفیل سینما گویا میری دکھتی رگ بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں اس کا نام سن پاتا ہوں بعض درد انگیز واقعات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جس سے رفتہ رفتہ میری فطرت ہی کج بین بن گئی ہے۔ اوّل تو خدا کے فضل سے ہم کبھی سینما وقت پر نہیں پہنچ سکے۔ اس میں میری سستی کو ذرا دخل نہیں یہ سب قصور ہمارے دوست مرزا صاحب کا ہے جو کہنے کو تو ہمارے دوست ہیں لیکن خدا شاہد ہے ان کی دوستی سے جو نقصان ہمیں پہنچے ہیں کسی دشمن کے قبضہ قدرت سے بھی باہر ہوں گے۔
جب سینما جانے کا ارادہ ہو ہفتہ بھر پہلے سے انہیں کہہ رکھتا ہوں کہ کیوں بھئی مرزا اگلی جمعرات سینما چلو گے نا؟ میری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے تیار رہیں اور اپنی تمام مصروفیتیں کچھ اس ڈھب سے ترتیب دے لیں کہ جمعرات کے دن ان کے کام میں کوئی ہرج واقع نہ ہو لیکن وہ جواب میں عجب قدر ناشناسی سے فرماتے ہیں: "ارے بھئی چلیں گے کیوں نہیں؟ کیا ہم انسان نہیں؟ ہمیں تفریح کی ضرورت نہیں ہوتی؟ اور پھر کبھی ہم نے تم سے آج تک ایسی بے مروتی بھی برتی ہے کہ تم نے چلنے کو کہا ہو اور ہم نے تمہارا ساتھ نہ دیا ہو؟”
ان کی تقریر سن کر میں کھسیانا سا ہو جاتا ہوں۔ کچھ دیر چپ رہتا ہوں اور پھر دبی زبان سے کہتا ہوں: "بھئی اب کے ہو سکا تو وقت پر پہنچیں گے۔ ٹھیک ہے نا؟”
میری یہ بات عام طور پر ٹال دی جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کا ضمیر کچھ تھوڑا سا بیدار ہو جاتا ہے۔ خیر میں بھی بہت زور نہیں دیتا۔ صرف ان کو بات سمجھانے کے لیے اتنا کہہ دیتا ہوں: "کیوں بھئی سینما آج کل چھ بجے شروع ہوتا ہے نا؟”
مرزا صاحب عجیب معصومیت کے انداز میں جواب دیتے ہیں۔ "بھئی ہمیں یہ معلوم نہیں۔”
"میرا خیال ہے چھ ہی بجے شروع ہوتا ہے۔”
"اب تمہارے خیال کی تو کوئی سند نہیں۔”
"نہیں مجھے یقین ہے چھ بجے شروع ہوتا ہے۔”
"تمہیں یقین ہے تو میرا دماغ کیوں مفت میں چاٹ رہے ہو؟”
اس کے بعد آپ ہی کہیے میں کیا بولوں؟
خیر جناب جمعرات کے دن چار بجے ہی ان کے مکان کو روانہ ہو جاتا ہوں اس خیال سے کہ جلدی جلدی انہیں تیار کرا کے وقت پر پہنچ جائیں۔ دولت خانے پر پہنچتا ہوں تو آدم نہ آدم زاد۔ مردانے کے سب کمروں میں گھوم جاتا ہوں۔ ہر کھڑکی میں سے جھانکتا ہوں ہر شگاف میں سے آوازیں دیتا ہوں لیکن کہیں سے رسید نہیں ملتی آخر تنگ آ کر ان کے کمرے میں بیٹھ جاتا ہوں۔ وہاں دس منٹ سیٹیاں بجاتا رہتا ہوں۔ دس پندرہ منٹ پنسل سے بلاٹنگ پیپر پر تصویریں بناتا رہتا ہوں، پھر سگریٹ سلگا لیتا ہوں اور باہر ڈیوڑھی میں نکل کر ادھر اُدھر جھانکتا ہوں۔ وہاں بدستور ہُو کا عالم دیکھ کر کمرے میں واپس آ جاتا ہوں اور اخبار پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ ہر کالم کے بعد مرزا صاحب کو ایک آواز دے لیتا ہوں۔ اس امید پر کہ شاید ساتھ کے کمرے میں یا عین اوپر کے کمرے میں تشریف لے آئے ہوں۔ سو رہے تھے تو ممکن ہے جاگ اٹھے ہوں۔ یا نہا رہے تھے تو شاید غسل خانے سے باہر نکل آئے ہوں۔ لیکن میری آواز مکان کی وسعتوں میں سے گونج ہر واپس آ جاتی ہے آخرکار ساڑھے پانچ بجے کے قریب زنانے سے تشریف لاتے ہیں۔ میں اپنے کھولتے ہوئے خون پر قابو میں لا کر متانت اور اخلاق کو بڑی مشکل سے مد نظر رکھ کر پوچھتا ہوں:
"کیوں حضرات آپ اندر ہی تھے؟”
"ہاں میں اندر ہی تھا۔”
"میری آواز آپ نے نہیں سنی؟”
"اچھا یہ تم تھے؟ میں سمجھا کوئی اور ہے؟”
آنکھیں بند کر کے سر کو پیچھے ڈال لیتا ہوں اور دانت پیس کر غصے کو پی جاتا ہوں اور پھر کانپتے ہوئے ہونٹوں سے پوچھتا ہوں:
"تو اچھا اب چلیں گے یا نہیں؟”
"وہ کہاں”؟
"ارے بندۂ خدا آج سینما نہیں جانا؟”
"ہاں سینما۔ سینما۔ (یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں) ٹھیک ہے۔ سینما۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ایسی ہے جو مجھے یاد نہیں آتی اچھا ہوا تم نے یاد دلایا ورنہ مجھے رات بھر الجھن رہتی۔”
"تو چلو پھر اب چلیں۔”
"ہاں وہ تو چلیں ہی گے میں سوچ رہا تھا کہ آج ذرا کپڑے بدل لیتے۔ خدا جانے دھوبی کم بخت کپڑے بھی لایا ہے یا نہیں۔ یار ان دھوبیوں کا تو کوئی انتظام کرو۔”
اگر قتل انسانی ایک سنگین جرم نہ ہوتا تو ایسے موقع پر مجھ سے ضرور سرزد ہو جاتا لیکن کیا کروں اپنی جوانی پر رحم کھاتا ہوں بے بس ہوتا ہوں صرف یہی کر سکتا ہوں کہ: "مرزا بھئی للہ مجھ پر رحم کرو۔ میں سینما چلنے کو آیا ہوں دھوبیوں کا انتظام کرنے نہیں آیا۔ یار بڑے بدتمیز ہو پونے چھ بج چکے ہیں اور تم جوں کے توں بیٹھے ہو۔”
مرزا صاحب عجب مربیانہ تبسّم کے ساتھ کرسی پر سے اٹھتے ہیں گویا یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اچھا بھئی تمہاری طفلانہ خواہشات آخر ہم پوری کر ہی دیں۔ چنانچہ پھر یہ کہہ کر اندر تشریف لے جاتے ہیں کہ اچھا کپڑے پہن آؤں۔
مرزا صاحب کے کپڑے پہنے کا عمل اس قدر طویل ہے کہ اگر میرا اختیار ہوتا قانون کی رو سے انہیں کبھی کپڑے اتارنے ہی نہ دیتا۔ آدھ گھنٹے کے بعد وہ کپڑے پہنے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ ایک پان منہ میں دوسرا ہاتھ میں، میں بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ دروازے تک پہنچ کر مڑ کر جو دیکھتا ہوں تو مرزا صاحب غائب۔ پھر اندر آ جاتا ہوں مرزا صاحب کسی کونے میں کھڑے کچھ کرید رہے ہوتے ہیں۔ "ارے بھئی چلو۔”
"چل تو رہا ہوں یار، آخر اتنی بھی کیا آفت ہے؟”
"اور یہ تم کیا کر رہے ہو؟”
"پان کے لیے ذرا تمباکو لے رہا تھا۔”
تمام راستے مرزا صاحب چہل قدمی فرماتے جاتے ہیں۔ میں ہر دو تین لمحے کے بعد اپنے آپ کو ان سے چارپانچ قدم آگے پاتا ہوں۔ کچھ دیر ٹھہر جاتا ہوں وہ ساتھ آ ملتے ہیں تو پھر چلنا شروع کر دیتا ہوں پھر آگے نکل جاتا ہوں پھر ٹھہر جاتا ہوں۔ غرض یہ کہ گو چلتا دوگنی تگنی رفتار سے ہوں لیکن پہنچتا ان کے ساتھ ہی ہوں۔
ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوتے ہیں تو اندھیرا گھپ، بہتیرا آنکھیں جھپکتا ہوں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ادھر سے کوئی آواز دیتا ہے۔ "یہ دروازہ بند کر دو جی!” یا اللہ اب جاؤں کہاں۔ رستہ، کرسی، دیوار، آدمی، کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔ ایک قدم بڑھاتا ہوں تو سر ان بالٹیوں سے جا ٹکراتا ہے جو آگ بجھانے کے لیے دیوار پر لٹکی رہتی ہیں، تھوڑی دیر کے بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جہاں ذرا تاریک تر سا دھبہ دکھائی دے جائے۔ وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہو گی خمیدہ پشت ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں، اس کے پاؤں کو پھاند کر اس کے ٹخنوں کو ٹھکرا۔ خواتین کے گھنٹوں سے دامن بچا۔ آخرکار کسی گود میں جا کر بیٹھتا ہوں وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی مدد سے کسی خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں مرزا صاحب سے کہتا ہوں: "میں نہ بکتا تھا کہ جلدی چلو خوامخواہ میں ہم کو رسوا کروا دیا نا! گدھا کہیں کا!” اس شگفتہ بیانی کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ساتھ کی کرسی پر جو حضرت بیٹھے ہیں اور جن کو مخاطب کر رہا ہوں وہ مرزا صاحب نہیں کوئی اور بزرگ ہیں۔ اب تماشے کی طرف متوجہ ہوں اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ فلم کون سا ہے اس کی کہانی کیا ہے اور کہاں تک پہنچ چکی ہے اور سمجھ میں صرف اس قدر آتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت جو پردے پر بغل گیر نظر آتے ہیں ایک دوسرے کو چاہتے ہوں گے۔ اس انتظار میں رہتا ہوں کہ کچھ لکھا ہوا سامنے آئے تو معاملہ کھلے کہ اتنے میں سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے حضرات ایک وسیع و فراخ انگڑائی لیتے ہیں جس کے دوران میں کم از کم دو تین سو فٹ فلم گزر جاتا ہے۔ جب انگڑائی کو لپیٹ لیتے ہیں تو سر کو کھجانا شروع کر دیتے ہیں اور اس عمل کے بعد ہاتھ کو سر سے نہیں ہٹاتے بلکہ بازو کو ویسے خمیدہ رکھتے ہیں۔ میں مجبوراً سر کو نیچا کر کے چائے دانی کے اس دستے کے بیچ میں سے اپنی نظر کے لیے راستہ نکال لیتا ہوں اور اپنے بیٹھنے کے انداز سے بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ٹکٹ خریدے بغیر اندر گھس آیا ہوں اور چوروں کی طرح بیٹھا ہوا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد انہیں کرسی کی نشست پر کوئی مچھر یا پسو محسوس ہوتا ہے چنانچہ وہ دائیں سے ذرا اونچے ہو کر بائیں طرف کو جھک جاتے ہیں۔ میں مصیبت کا مارا دوسری طرف جھک جاتا ہوں۔ ایک دو لمحے کے بعد وہی مچھر دوسری طرف ہجرت کر جاتا ہے چنانچہ ہم دونوں پھر سے پینترا بدل لیتے ہیں۔ غرض یہ کہ یہ دل لگی یوں ہی جاری رہتی ہے وہ دائیں تو میں بائیں اور وہ بائیں تو میں دائیں ان کو کیا معلوم کہ اندھیرے میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ دل یہی چاہتا ہے کہ اگلے درجے کا ٹکٹ لے کر ان کے آگے جا بیٹھوں۔ اور کہوں کہ لے بیٹا دیکھوں تو اب تو کیسے فلم دیکھتا ہے۔
پیچھے سے مرزا صاحب کی آواز آتی ہے: "یار تم سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا۔ اب ہمیں ساتھ لائے ہو تو فلم تو دیکھنے دو۔”
اس کے بعد غصے میں آ کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور قتل عمد، خودکشی، زہر خورانی وغیرہ معاملات پر غور کرنے لگتا ہے۔ دل میں، میں کہتا ہوں کہ ایسی کی تیسی اس فلم کی۔ سو سو قسمیں کھاتا ہوں کہ پھر کبھی نہ آؤں گا۔ اور اگر آیا بھی تو اس کم بخت مرزا سے ذکر تک نہ کروں گا۔ پانچ چھ گھنٹے پہلے سے آ جاؤں گا۔ اوپر کے درجے میں سب سے اگلی قطار میں بیٹھوں گا۔ تمام وقت اپنی نشست پر اچھلتا رہوں گا! بہت بڑے طرے والی پگڑی پہن کر آؤں گا اور اپنے اوور کوٹ کو دو چھڑیوں پر پھیلا کر لٹکا دوں گا! بہرحال مرزا کے پاس تک نہیں پھٹکوں گا!
لیکن اس کم بخت دل کو کیا کروں۔ اگلے ہفتے پھر کسی اچھی فلم کا اشتہار دیکھ کر پاتا ہوں تو سب سے پہلے مرزا کے ہاں جاتا ہوں اور گفتگو پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے کہ کیوں بھئی اگلی جمعرات سے سینما چلو گے نا؟
(اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور مزاح نگار پطرس بخاری کی ایک شگفتہ تحریر)
-
شیر کا سفر نامہ
سفر نامہ شروع کرنے سے قبل میں اپنا تعارف پیش کر دوں۔ میں کراچی کے ایک گھر میں پالا جانے والا شیر ہوں، ظاہر ہے میں کسی جنگل سے لاپتا ہو کر اس شہر میں آپہنچا، یوں میں تاریخ کا پہلا لاپتا ہوں جسے کراچی لایا گیا۔
جب ہوش سنبھالا تو میں ایک بڑے سے بنگلے میں تھا۔ بہت دنوں تک تو پتا ہی نہ چلا کہ میں شیر ہوں۔ اڑوس پڑوس اور ارد گرد کے بنگلوں میں پَلے کُتے دیکھ کر میں سمجھتا تھا کہ میں بھی کسی اعلیٰ نسل کا کُتا ہوں۔ آئینے کا سامنا کر کے اور اپنی آواز سُن کر حیرت ہوتی کہ میں باقی کُتوں سے اتنا مختلف کیوں ہوں؟ لیکن پھر سوچتا کہ شاید میرے ماں باپ کُتوں کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے زیادہ کھانے کے سبب ان کا منہ بڑا ہوتا گیا اور دوسروں کو نیچا سمجھتے سمجھتے ان کی بھونک دہاڑ میں تبدیل ہوگئی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ”نیشنل جیوگرافک“ چینل کا جس کے طفیل اپنی آگاہی ہوئی۔
میرا مالک کبھی کبھی مجھے اپنے پاس ڈرائنگ روم میں بٹھا لیتا اور دیوار پر نصب بڑی سی ٹی وی اسکرین پر پروگرام دیکھتا رہتا۔ ایک دن لگا ٹی وی اسکرین نہیں آئینہ دیکھ رہا ہوں۔ وہاں میرے ہم شکل ”کُتے“ جنگل میں دھاڑتے، بھاگتے دوڑتے اور ہرنوں، بھینسوں، زرافوں پر حملہ کرتے اور انھیں بھنبھوڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ مالک کی نظر جب میرے چہرے پر پڑی تو میری آنکھوں میں حیرت اور جوش دیکھ کر وہ سہم سا گیا، اور فوراً چینل تبدیل کر کے ایک نیوز چینل لگا دیا اور ٹاک شو دیکھنے لگا۔ وہ شاید دھاڑتے اور ایک دوسرے پر جھپٹتے سیاست داں دکھا کر مجھے انسانوں سے ڈرانا اور یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ ”کسی خوش فہمی میں نہ رہنا، ہم آدم زاد کسی بھی درندے سے زیادہ درندگی دکھا سکتے ہیں۔“ بعد میں گھر میں آنے جانے والی ایک بلّی نے مجھے بتایا،”میاں! تم شیر ہو شیر“ اسی نے مجھے شیروں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
اب آتے ہیں سفر نامے کی طرف۔ اپنے سفر نامے کی شروعات میں اس وضاحت سے کر دوں کہ میرا یہ سفر اتفاقیہ تھا، نہ میں ابن بطوطہ کی طرح کھوج لگانے نکلا تھا نہ بہت سے سیاحوں کی طرح عشق لڑانے۔ ہوا یوں کہ ایک دن سُن گُن ملی کہ میرا مالک مجھے کسی کے ہاتھ فروخت کرکے پنجاب بھیج رہا ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا، ایسا نہیں کہ میں فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ سے متاثر تھا یا کراچی میں چائنا کٹنگ، واٹر ٹینکر، تجاوزات یا موبائل چھیننے کے دھندوں سے میرا کچھ لینا دینا ہے کہ میں کراچی چھوڑوں نہ کراچی والوں کو چھوڑوں، بس اتنی سی بات ہے کہ مجھے کراچی کی زندگی کی عادت ہوگئی تھی، اتنی کہ گوشت ملے نہ ملے، چائے نہ ملے تو بے تاب ہو جاتا، پھر میرا مالک گوشت کے بوٹوں کے ساتھ رائتہ، چٹنی، ہری مرچ رکھ دیتا تھا، بعض اوقات بریانی، نہاری اور بہاری کباب میرے سامنے سجا دیے جاتے، ایک دو بار تو مجھے بگھارے بیگن بھی کھانا پڑے۔ یہ سب کھانے کا میں ایسا شوقین ہوگیا تھا کہ ایک دو دن خالی کچا گوشت ملتا تو مالک کو دیکھ کر دل ہی دل اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہتا،”کیا بات ہے مامو! کنجوس ہوگئے ہو یا مہنگائی بڑھ گئی ہے؟“ غالباً ان کھانوں ہی کا اثر تھا کہ کبھی کبھی میں غرانے کی کوشش کرتا تو منہ سے اردو نکل جاتی۔
میرے ساتھ اس بنگلے میں آباد طوطے کا کہنا تھا، ”یہ کراچی والا تمھیں بھی کھانے کے معاملے میں نخریلا بنا کر چھوڑے گا، مگر یاد رکھو کہیں اور گئے تو یہ سب لوازمات نہیں ملنے کے۔“ طوطے کی بات مجھے پریشان کیے دے رہی تھی۔ اپنا مسئلہ بلّی سے بیان کیا،”خالہ! دیکھو یہ ہو ریا ہے تمھارے بھانجے کے ساتھ۔“ خالہ بولیں،”بیٹا! پریشان کیوں ہوتا ہے، پنجاب میں تو ایک سے بڑھ کر ایک شیرِ پنجاب ہیں، وہاں تیری خوب جمے گی۔ ہوسکتا ہے تو کسی غیر حاضر شیر کی جگہ لے لے، کیوں کہ تو ہے بھی شریف۔“ پھر بڑے دکھ سے آنکھوں میں نمی لاکر بولیں،”میرے لعل! میری تیری کیا اوقات، کراچی سے تو دارالحکومت، اداروں کے صدر دفاتر شہر کے سیاسی قائدین، چلے گئے، کوئی روک نہ پایا۔ یوں سمجھ جو یہاں آیا ہے اسے جانا ہے۔“ ان کی بات سُن کر ڈھارس بندھی۔
آخر وہ دن آہی گیا جب مجھے کراچی چھوڑ جانا تھا۔ جیسے ہی گاڑی میں بٹھایا گیا میرا دل بھر آیا، دماغ میں بھولے بسرے نغمے گونجنے لگے جیسے،”چھوڑ بابل کا گھر، موہے پی کے نگر آج جانا پڑا“،”کاہے بیاہی بدیس رے، لکھی بابل مورے۔“ گاڑی میں بیٹھ کر خیال آیا کاش جانے سے پہلے کراچی کو تھوڑا بہت دیکھ سکتا۔ شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی، کچھ دیر بعد گاڑی ایک جگہ رُکی تو مجھے کسی طرح باہر نکلنے کا موقع مل گیا۔
سڑک پر قدم رکھتے ہی چاروں طرف دیکھا، ایک دیوار پر لکھا تھا،”دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا۔“ پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا، لیکن بڑی حیرت بھی ہوئی کہ ابھی مجھے بنگلے سے باہر آئے چند منٹ ہی ہوئے ہیں کہ لوگوں کو پتا بھی چل گیا اور انھوں نے استقبالیہ نعرے بھی لکھ دیے! تحریر کو ذرا غور سے پڑھا تو میرا نہیں کسی اور کا ذکر تھا۔ بہ ہرحال یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس شہر کے باسی شیروں سے بہت محبت کرتے ہیں، اور وہ جب بھی آتا ہے اسے دیکھ کر نہال ہوجاتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ یہ جو بھی شیر ہے کم کم ہی آتا ہے۔
کچھ آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ خون تھوک رہے ہیں۔ سوچا یقیناً یہ کچا گوشت کھا کر خون اُگل رہے ہیں۔ بڑی بھوک لگی تھی، ایک خون تھوکتے صاحب کے قریب جاکر کہا،”بھیا! بھوکا ہوں، مجھے بھی کچھ کھانے کو دے دو۔“ بدتمیزی سے بولا،”ابے ہمارے اپنے کَنے کھانے کو نہیں تجھے کہاں سے کھلائیں، یہ لے گُٹکا کھا لے۔“ اس نے ایک چھوٹی سی پڑیا میری طرف بڑھا دی۔ میں نے کہا،”تمیز سے بات کرو، میں شیر ہوں، گوشت کھاتا ہوں۔“ کمینہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا،”کس کا شیر ہے بھیّے، لندن والوں کا یا پاکستان والوں کا، جس کا بھی ہے وہ دور لد گیا، اب سارے شیر بکری ہوچکے ہیں، تو بھی بکری کی کھال پہن اور سبزی پر گزارہ کر۔“ میں نے سوچا دفع کرو کون اس جاہل کے منہ لگے، اور آگے بڑھ گیا۔
سُنا تھا شیر سے سب ڈرتے ہیں، لیکن یہاں تو مجھ سے کوئی ذرا بھی خوف زدہ نہیں تھا۔ ابھی اس سوچ میں گُم تھا کہ ایک موٹرسائیکل پاس آکر رکی، جس پر دو لوگ بیٹھے تھے، آگے بیٹھنے والے نے ایک سخت سی چیز میری گردن پر ٹکائی اور کرخت لہجے میں بولا،”چل موبائل نکال۔“ میں نے اسے گھور کر دیکھا اور جواب دیا،”شیر موبائل نہیں رکھتے۔“ میری بات سُن کر پیچھے بیٹھا ہوا شخص اپنے ساتھی سے بولا،”کیوں ٹیم ضائع کر رہا ہے بھائی، اس کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں موبائل کہاں ہوگا۔“ وہ تو چلے گئے مگر میں اس بے عزتی سے سلگ اُٹھا۔ اچانک پاس سے ”کھی کھی کھی“ کی آواز آئی۔ اس طرف نظر دوڑائی تو دیکھا ایک کُتا دانت نکالے کھڑا مجھے دیکھ کر ہنس رہا ہے۔ میں نے کہا،”شرم نہیں آتی، اپنے جانور بھائی کا مذاق اڑاتے ہو۔“ ہنسی روک کر بولا، ”اوہو، تو تم ہو وہ پالتو شیر جس کا تذکرہ ہر ٹی وی چینل پر ہورہا ہے۔ ”پالتو شیر“ ……اپنے نام کے ساتھ ”پالتو“ کا لفظ سُن کر مجھے بہت غصہ آیا۔ ”خبردار جو مجھے پالتو کہا“، ”چلو گھر کا شیر کہہ دیتا ہوں، بات تو وہی ہے۔“ کُتے نے پورے کُتے پن سے کہا۔ میں نے پوچھا،”ایک بات تو بتاﺅ، میں شیر ہوں، جنگل کا بادشاہ، سُنا تھا کہ میری بڑی ہیبت ہے، پھر اس شہر کے لوگ مجھ سے ڈر کیوں نہیں رہے؟“ کتے نے غور سے میری بات سُنی، پھر آرام سے بیٹھ گیا اور مجھے دیکھتے ہوئے گویا ہوا،”یہ شہر خود ایک خوف ناک جنگل ہے میرے بھائی، اور یہاں ایسے ایسے درندے ہیں جنھیں دیکھ کر شیروں کا پِتّا پانی ہوجائے۔ اس شہر کے لوگوں نے بڑے بڑے شیر دیکھے ہیں، جو آخر میں سرکس کے یا چڑیا گھر کے شیر ثابت ہوئے۔ اس لیے یہاں شیروں کا خوف رہا ہے نہ ان کی آبرو۔ اپنی خیریت چاہتے ہو تو جتنی جلد ہوسکے اس شہر سے نکل جاﺅ، ورنہ بچی کھچی عزت بھی گنوا بیٹھو گے۔“�
یہ سننا تھا کہ میں جہاں تھا وہیں سکون سے بیٹھ گیا، پھر جانے کب آنے والے آئے اور مجھے اپنے ساتھ چڑیا گھر لے گئے۔ اب میں چڑیا گھر کے پنجرے میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اس ملک اور شہر میں کیا ہر پالتو شیر کا یہی انجام ہوتا ہے؟
(معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کی ایک تحریر)
-
مطیع و فرماں بردار میاں
میں ایک میاں ہوں۔ مطیع و فرماں بردار۔
اپنی بیوی روشن آرا کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ کرنا اصولِ زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔
چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات و خصائل سے واقف ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آرا کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کر رکھا ہے، انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعث ذلت سمجھتی ہے۔ آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدا نحواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع میں نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔
مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیے۔ اچھے خاصے بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل و صورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جوا نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں، جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں،انھیں سے جی بہلاتے ہیں۔
ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کسی کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان مرزا صاحب مرزا صاحب کہتے تھکتی نہیں، ہمارے گھر میں ’’موئے کبوتر باز‘‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آرا کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوتر باز بننے لگا۔
اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔
ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ میاں بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے، ’’اندر آجاؤ‘‘ ہم نے کہا، ’’نہیں آتے، تم باہر آؤ‘‘ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے ’’بیٹھ جاؤ‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹھیں گے نہیں‘‘ آخر بیٹھ گئے، معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے۔ مرزا بولے، ’’کیوں بھئی؟ خیرباشد!‘‘ میں نے کہا ’’کچھ نہیں۔‘‘ کہنے لگے ’’اس وقت کیسے آنا ہوا؟‘‘
اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو۔ پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا، اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں۔ آخر ہم نے کہا،
’’مرزا! بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟‘‘ یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکہ تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا ’’چلو اب مزرا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟‘‘ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی۔
لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات کی جھلک نظر آتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔
(پطرس بخاری کے مزاحیہ مضمون سے چند پارے)
-
ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ…
پرسوں میں نے کرایہ کے مکانوں میں رہنے کی سنچری اور اپنی زندگی کی نصف سنچری ایک ساتھ مکمل کر لی تو سوچا کہ کیوں نہ اس مبارک و مسعود موقع کو سیلبریٹ کیا جائے۔
یہ اعزاز کسے ملتا ہے کہ سواں مکان شروع اور زندگی کا پچاسواں سال ختم ہو۔ یہ حسنِ اتفاق نہیں، عشقِ اتفاق ہے۔
میں خوشی خوشی گھر پہنچا تو بیوی کو افسردہ و رنجیدہ پایا۔ میں نے کہا: ’’بہت اداس دکھائی دیتی ہو۔ کیا نیا مکان تمہیں پسند نہیں آیا۔‘‘ بولی ’’تمہاری رفاقت میں آج تک میں نے اَن گنت مکان بدلے۔ کبھی کسی مکان کے بارے میں شکایت کی؟‘‘ میں نے کہا ’’سچ تو یہ ہے کہ مجھے تم سے ہی یہ شکایت ہے کہ اتنے مکان بدلنے کے باوجود تم نے میرا ساتھ اور ہاتھ نہیں چھوڑا۔‘‘ بولی ’’اگر میں مکانوں کے بدلنے میں ہنسی خوشی تمہارا ساتھ نہ دیتی تو تم مکان بدلنے کی بجائے بیویاں بدلتے اور اس کوشش میں ایک نہ ایک دن کہیں گھر داماد لگ جاتے۔‘‘
میں نے کہا ’’بات کیا ہے؟ تم نہ صرف اداس نظر آتی ہو بلکہ لڑائی کے موڈ میں بھی ہو۔‘‘ بولی ’’ایک بری خبر ہے، خدا کرے کہ جھوٹی ہو، ابھی ابھی تمہارے بھتیجے نے آکر یہ اطلاع دی ہے کہ 25 سال پہلے تم جس ہاؤسنگ سوسائٹی کے ممبر بنے اس نے بالآخر مکان بنا لیے ہیں یہ کہ تمہیں اب اپنا مکان ملنے ہی والا ہے۔‘‘ اس اطلاع کو سن کر میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ پیروں تلے سے مکان سمیت زمین نکلنے لگی۔ میں نے سوچا، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ میں اور اپنا ذاتی مکان! زندگی کے 50 برس بیت چکے ہیں اب میں اپنا مکان لے کر کیا کروں گا۔
میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بیوی نے کہا ’’کسی سوچ میں پڑ گئے، بتاؤ اب کیا ہو گا؟‘‘ میں نے بیوی پر قابو پانے کی خاطر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا ’’ہونا کیا ہے، اگر ذاتی مکان ملتا ہے تو اس میں چلے جاتے ہیں۔ لوگ تو ذاتی مکان کے لیے ترستے ہیں۔ یہ اداس ہونے کی نہیں خوش کی بات ہے۔‘‘ بولی ’’مگر میرے لیے یہ خوشی کی بات نہیں ہے۔ کرایہ کے مکان میں ازدواجی زندگی کا جو لطف ہے وہ ذاتی مکان میں کہاں۔ میں نے تم سے شادی اس لیے کی تھی کہ تمہارا اپنا کوئی ذاتی مکان نہیں، کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ جس دن تمہیں اپنا مکان مل جائے گا تم اپنی ساری توجہ مجھے بنانے سنوارنے کی بجائے مکان کو بنانے سجانے میں صرف کر دو گے۔ میں اپنے اور تمہارے بیچ کسی مکان کو حائل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ پھر ہماری خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز یہی ہے کہ تمہارا زیادہ وقت مکانوں کے مالکوں سے لڑنے یا انہیں خوش کرنے میں گزرتا ہے۔
مجھ سے لڑنے کی تمہیں مہلت ہی نہیں ملتی۔ جس دن مالک مکان ہم دونوں کے بیچ سے نکل جائے گا، ہم ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جائیں گے۔ یہ ایک جنگی حکمت عملی ہے جس کے باعث ہمارے گھر میں دائمی اور پائیدار امن قائم ہے۔ میں گھریلو اور عالمی امن کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتی ہوں۔ چاہے مجھے ذاتی مکان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑے۔‘‘زندگی میں پہلی بار میں اپنی بیوی کی فہم و فراست کا قائل ہو گیا۔ میں نے کہا ’’میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی اب کرایہ کے مکانوں میں رہنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ جس آدمی نے فی برس دو مکانوں کے حساب سے اپنی جائے رہائش تبدیل کی ہو، اس کی خانہ بدوشی کو کم از کم تمہیں تو تسلیم کر لینا چاہیے۔
اپنی تو ساری زندگی اس طرح گزری کہ ایک پاؤں ایک مکان میں ہے اور دوسرا پاؤں دوسرے مکان میں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں مکانوں کو بدلتے بدلتے مکاں سے لامکاں تک پھیل گیا ہوں۔ میں مکان میں ہوں بھی اور نہیں بھی۔ میں مکان کے اندر ہوں اور مکان میرے اندر ہے۔ کرایہ کے مکانوں کی برکتوں سے جتنا میں واقف ہوں، شاید کوئی اور ہو، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں وہ کرایہ کے مکانوں میں رہنے کی وجہ سے ہوں۔ تمہیں یاد ہو گا کہ شادی کے بعد ہم نے ایک مکان کرایہ پر لیا تھا۔ مالک مکان نے تین چار مہینوں تک ہمیں ہنی مون منانے کی اجازت دے دی۔ پانچویں مہینے سے اس نے کرایہ کی ادائیگی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میں اس سے منہ چھپاتا پھرا۔ ایک دن آمنا سامنا ہوا تو اس نے پوچھا ’’آخر تم کرایہ کیوں ادا نہیں کرتے؟‘‘ میں نے کہا ’’اس لیے کہ بے روزگار ہوں۔ کہیں نوکری لگے تو کرایہ بھی ادا کروں۔‘‘ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ مالک مکان کئی دنوں تک میری ملازمت کی خاطر جوتیاں چٹخاتا پھرا۔ جگہ جگہ میری درخواستیں دیں۔ بالآخر اس نے مجھے نوکری سے لگا دیا۔ تنخواہ سے سارا کرایہ وصول کیا اور اپنے گھر سے نکال باہر کیا۔(بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے مضمون سے اقتباس)
-
حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!
گرامر کی طرح گالی کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔
اگرچہ یہ قواعد و ضوابط بعض ممالک کے دساتیر کی طرح غیر تحریری ہیں، مگر ان کا احترام کچھ ریاستوں کے تحریری آئین کے مندرجات سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی ملکوں میں گالی آئین سے کہیں زیادہ معتبر حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں تک پاکستان میں رائج قواعدِ دشنام کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں تین قسم کی گالیاں مروج ہیں۔
1- موٹی سی گالی
2- چھوٹی سی گالی
3- جھوٹی سی گالیاور ان گالیوں کی مزید کئی قسمیں ہیں۔ ویسے ہماری سمجھ میں نہیں یہ آتا کہ گالی کو خلافِ اخلاق اور بدتہذیبی کی علامت کیوں سمجھا جاتا ہے؟ آخر گالی میں ایسی کون سی بات ہے جسے اخلاقیات کے ضابطوں سے روگردانی قرار دیا جائے؟ ہمارے سوالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا مروجہ گالیوں کے عناصر ترکیبی پر غور کیجیے!………. آپ کو ان گالیوں میں فقط وہ لوازمات ملیں گے جن کے بغیر ہماری زندگی نامکمل ہے۔ مثلاً بنیادی انسانی رشتے، ضروری جسمانی اعضا اور ناگزیر افعال۔ ان لوازمات کو مناسب ترتیب دینے سے گالی وجود میں آجاتی ہے۔ ان عناصر کے ”ظہورِ ترتیب“ پر ناک بھوؤں چڑھانا اور انھیں اجزائے پریشاں کی صورت میں دیکھ اور سُن کر کوئی اعتراض نہ کرنا………آپ ہی بتائیے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟
ہم تو سمجھتے ہیں کہ تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، علوم و فنون اور آثارِ قدیمہ کی طرح کسی قوم کی گالیاں بھی اس کی پہچان ہوا کرتی ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ حکومتِ پاکستان ہمارا ”فلسفۂ مغلظات“ تسلیم کرتے ہوئے گالیوں کو بھی قومی ورثہ قرار دے دے۔ قومی پھول، قومی کھیل اور قومی جانور کی طرح ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر دیا جائے۔ قومی گالی کے تعین کے سلسلے میں کراچی اور پنجاب کے درمیان چشمک ہوسکتی ہے۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں کی طرح ملک بھی میں ”گالی بازی“ پر نشستیں منعقد ہوں، جن میں ”گالی باز“ یا دشنام طراز اپنی نئی نئی گالیاں پیش کرکے داد حاصل کریں۔ گالیوں پر تنقیدی نشستیں ہوں، جن میں نقاد گالیوں کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں اور تنقیدی نظریات کی روشنی میں یہ ثابت کریں کہ کون سی گالی سماج کی آئینہ دار ہو کر ترقی پسندی کے رجحان کا پتا دے رہی ہے، کس میں علامتی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ کون سی گالی فطری ہے اور کون سی غیر فطری۔ کس دشنام طراز کی تخلیق شعور کی لہر کا نتیجہ ہے اور کس گالی باز کی کاوش منفرد لب و لہجہ رکھتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اپنی نوعیت کی واحد تنقیدی نشستیں ہوں گی، جن میں نقّاد تنقید سے پہلے گالیاں سنیں گے!
پاکستانی گالیوں کے عالمی سطح پر فروغ کے لیے ملک میں اور بیرون ملک پاکستانی گالیوں کی نمائشیں بھی منعقد کی جاسکتی ہیں۔ ان نمائشوں میں قدیم اردو شعرا کی ہجویات سے لے کر دورِ حاضر کے سیاست دانوں کی مغلظات تک پھیلے ہمارے عظیم ”دشنامی ورثے“ کو ”سُن“ کر غیرملکیوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کوئی ”ایویں“ قوم نہیں بلکہ گالیوں کی ایک طویل روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔
اگر حکومت نے ہمارا پیش کردہ ”فلسفۂ مغلظات“ اپنا لیا اور اسے عملی شکل دے دی تو یقین مانیے ہماری کرخت گالیاں راتوں رات ہمارا وہ ”سوفٹ امیج“ بنا دیں گی، جس کے لیے حکومت ایک مدت سے کوشاں ہے۔
(معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، یہ مزاح پارے مصنّف کی کتاب "کہے بغیر” سے مقتبس ہیں)
-
ہر آنگن میں اُترا چاند…
چاند محض شب کی تاریکی میں اُجالے کی نوید ہی نہیں جانے کتنے دلوں کا قرار ہے۔ چاند سے جتنا استفادہ شاعروں اور خواتین نے کیا ہے شاید ہی اور کسی نے کیا ہو۔ یہاں تک کہ چاند سے خواتین کی والہانہ وابستگی کے طفیل دھرتی پر ان گنت چاند بکھر گئے۔ چاند خواتین کی امنگوں کا مرکز ازل سے رہا ہے اور ابد تک رہے گا۔
وہ پیشے اور شعبے جن پر صدیوں مردوں نے راج کیا ہے، اب خواتین بھی اُن میں اپنے جوہر دکھا رہی ہیں۔ اگر خواتین رویتِ ہلال کمیٹی کے اراکین میں شامل ہو گئیں تو شہادتوں کے باوجود چاند کا فیصلہ بہت دشوار ہو جائے گا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ خواتین ہر شے میں چاند کی شباہت تلاش کرتی ہیں، ہر عزیز چہرے کو چاند سے تشبیہ دیتی ہیں۔ یوں بھی شرعی نقطۂ نظر سے ایک مرد کی گواہی برابر ہے دو خواتین کی گواہی کے۔ اگر مردوں کے مساوی خواتین گواہوں کی ضرورت پڑی تو فی مرد کے مساوی دو خواتین اراکین شامل ہوں گی اور جتنی زیادہ خواتین ہوں گی اُتنی ہی زیادہ چاند کے اعلان میں تاخیر اور فساد کا اندیشہ ہے کہ اپنی فطرت کے عین مطابق خواتین کو پَل بھر میں چاند نظر آ جائے گا لیکن چاند پر کئی بار اختلاف ہوگا۔ کبھی کسی خاتون کو کسی شے پر چاند کا گمان ہوگا تو کبھی کسی کو اور کسی شے پر کہ چاند خواتین کا من پسند استعارہ ہر عہد میں رہا ہے مگر جدا جدا معیار کے ساتھ۔ سو بگاڑ کا احتمال بھی یقینی ہے۔ جب کہ مرد حضرات بہت دیدہ ریزی کے باوجود چاند دیکھنے میں دھوکہ کھا جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کبھی قبل از وقت عید کروا دیتے ہیں اور کبھی رات گئے۔ ہلالِ عید کی نوید سناتے ہیں اور اکثر تو ایسا بھی ہُوا ہے آدھی رات کو جب خواتین سکھ کی نیند میں بھی چاند کے سپنے دیکھ رہی ہوتی ہیں رویتِ ہلال کمیٹی کے اراکین کو عید کا چاند نظر آجاتا ہے۔
غور فرمائیے کہ اگر خواتین بھی رویتِ ہلال کمیٹی کی رکن ہوں تواس صورت میں اُن پر کیا بیتے گی؟ طلوعِ ماہتاب کے انتظار میں خواتین خود کو کس قدر بے بس محسوس کریں گی؟ میک اپ اس عرصے میں دغا دے جائے گا اور پھر یہ بھی کہ طلوعِ مہتاب کے انتظار کا عذاب خواتین کو مردوں کی بہ نسبت زیادہ جھیلنا پڑے گا کہ مردوں کی تمام توجہ چاند پر مرکوز ہو گی جب کہ خواتین کے مابین کچھ اس طرح کے مکالموں کا تبادلہ ہوگا کہ
”ہائے اللہ! اگر کل عید ہو گئی تو کیا ہو گا، ابھی تو مجھے پارلر بھی جانا ہے۔ مہندی ہتھیلی پر بھی لگانی ہے اور ہتھیلی کی پشت پر بھی اور اچھے بھلے سیاہ بال ڈارک براؤن کرنے ہیں، مگر یہ چاند قسم سے اس وقت تو سچ مچ ہرجائی لگ رہا ہے، بے وفا ایک جھلک ہی دکھا دیتا۔“”تمہیں پارلر کی پڑی ہے اور میرے کپڑے بدبخت ٹیلر نے ابھی تک نہیں دیے، ایسا نہ ہو جب میں گھر پہنچوں تو وہ دکان بڑھا کر چل دے اور میں ہاتھ ملتی رہ جاؤں۔“
”یہ تو ہے، پچھلے سال شمی کے ساتھ یہی تو ہوا تھا، بیچاری کی عید کی ساری خوشی خاک میں مل گئی تھی۔ ٹیلر نے عید کے بعد کپڑے دیے تھے اور عید کے تین دن بعد اس وقت شمی نے عید منائی جب اُس کے کپڑے دیکھ کر انوشا کلس کر رہ گئی تھی اور شمی کے دل میں چراغاں ہو گیا تھا۔“
”اور میں اپنی جان کو رو رہی ہوں، رات بھر جاگ کر پورا گھر ڈیکوریٹ کرتی ہوں، میرے گھر کا کیا ہوگا جو عید ملنے آئے گا پہلے مجھ پر تھو تھو کرے گا۔ پھر تمسخر سے عید ملے گا۔ میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی۔ موا چاند نہ ہُوا بجلی ہو گئی غائب ہو جائے تو حاضر ہونا مشکل۔“
”ارے شمع تمہارے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں، قسم سے دیکھ کر ہول اٹھ رہے ہیں۔“
”تم کیسی لڑکی ہو جسے میری پریشانی کا اندازہ ہی نہیں ساری میچنگ جیولری، چوڑیاں، سینڈل چاند رات کو ہی لیتی ہوں، ہائے میرا پانچ ہزار کا سوٹ کیسا بے وقعت لگے گا ان سب کے بغیر اور خود میں کتنی ادھوری ادھوری لگوں گی۔“
”مجھ سے پوچھو عید کا چاند ہمیشہ اُن کے ساتھ دیکھتی ہوں، اُن کے بِنا ہر رنگ پھیکا اور عالم یہ ہے کہ
تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوںکاش اسوقت وہ میرے ساتھ ہوتے تو چاند مجھے پل بھر میں نظر آجاتا۔“
”نظر آجاتا! کیا مطلب؟ مجھے تو ہر سُو چاند ہی چاند نظر آرہا ہے۔“
”لیکن کہاں؟ خواتین نے متجسس نظروں سے دیکھا تو خاتون آنکھیں موندے کہہ رہی تھیں ”میرے دل میں جھانکو، ایمان سے۔“
جب تصور میں کبھی آپ کو پاتا ہے دل
آپ ہی کے حسن کی تصویر بن جاتا ہے دلاور پھر یکا یک خاتون چلائیں ہائے اللہ“ ساتھی خاتون چہکیں، کیا ہُوا تصور ٹوٹ گیا یا چاند گم ہو گیا۔“
”یاد آگیا انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ عید کے دن تمہارے ہاتھ کے بنے ہُوئے دہی بڑے اور شامی کباب کھاؤں گا، اور میں اپنے چاند کے لیے یہ اہتمام تب ہی کر سکتی ہوں جب آسمان کا چاند طلوع ہو۔ ایمان سے اس وقت میں گھر پر ہوتی نا تو آدھا کام نمٹا چکی ہوتی اور جب وہ آتے تو جھٹ کباب تل کر اُن کے سامنے رکھ دیتی اور جب وہ اس سے لطف اُٹھا کر مجھے داد دیتے تو سمجھو عیدی تو مجھے مل ہی جاتی مگر ہائے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
”اس مسئلے کا ایک حل ہے کہ میرے پاس۔“ ایک محترمہ نے دانائی ظاہر کی، ”وہ کیا؟“ تمام خواتین نے یک زبان ہو کر پوچھا،“ جواباً محترمہ نے شانِ بے نیازی سے کہا، اتنے عذاب جھیلنے سے بہتر ہے کہ سب اپنا اپنا استعفیٰ پیش کر دو۔ میں تو آج ہی اپنا استعفیٰ پیش کر دوں گی، حد ہوتی ہے ظلم کی، یوں تو وقت بے وقت پارلر کے چکر لگائیں اور جب موقع ہے تب؟ اب عید کے دن نہ چہرے کی زیبائش ہو اور نہ ہی بالوں کی آرائش، میں تو باز آئی ایسے شوق سے۔ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ میرا تو ارمان پورا ہو گیا۔ بس عید کے بعد ایک پریس کانفرنس کر کے تمام خواتین کو پیغام دوں گی۔ جس شعبے میں چاہو دھڑلے سے اپنے قدم جماؤ مگر خبردار جو رویتِ ہلال کمیٹی میں شامل ہوئیں۔ ایمان سے منٹوں میں ارمانوں کا خون ہو جاتا ہے، مردوں کو کام ہی کیا ہوتا ہے؟ بیشک صبحِ کاذب کے وقت چاند کا اعلان کر کے گھر واپس جائیں۔ اف اللہ کیا بتاؤں چاند مجھے کتنا پیارا لگتا ہے لیکن چاند دیکھنے کے انتظار میں اپنی آرزوئیں مٹی میں ملتے نہیں دیکھ سکتی اور نہ ہی اپنے چاند کو خفا کرسکتی ہوں کہ اُن کی روشنی سے میرے دل میں اجالے ہی اجالے بکھر جاتے ہیں اور میں گنگناے لگتی ہوں۔
چشمِ تصور سے یہ منظر بھی دیکھیے!
ابھی خواتین کا اجلاس جاری ہوتا ہے کہ مرد حضرات کی ملی جلی صدائیں بلند ہوتی ہیں ”عید مبارک، چاند نظر آگیا۔“ یہ سنتے ہی خواتین کے مذاکرات نئے رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ ”اللہ کہاں ہے ہمیں بھی تو دکھائیے نا“ دل میں شوق کا طوفان چھپائے لپکتی ہوئی خواتین آگے بڑھتی ہیں اور مشتاق نظروں سے بے تابانہ آسمان کی وسعتوں میں چمکتے چاند کو دیکھ کر دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتی ہیں، ”سنو تم کیا مانگ رہی ہو؟“ قریب کھڑی خاتون سرگوشی میں پوچھتی ہیں۔ میں نے تو یہی التجا کی ہے”اے عید کے چاند میرے چاند کو روٹھنے نہ دینا“ اور تم نے؟ اس وقت تو میں نے چاند کا شکریہ ادا کیا ہے وہ نمودار تو ہُوا، بس اب گھر کی جانب دوڑ لگاؤ اور پھر آناً فاناً تمام خواتین نے دوڑ لگائی۔ حد تو یہ ہے کہ عجلت میں میڈیا کے سامنے چاند کے اعلان کے لیے بھی نہیں رکیں کہ اب چہرہ اس قابل ہی کہاں رہا تھا۔ تھکی ماندی صورتیں دیکھ کر لوگ بور ہی ہوں گے۔ اور چاند بے بسی سے خواتین کی بے رخی پر دل مسوس کر رہ جائے گا کہ کتنی بے مروت ہیں ہر شے میں میرا جلوہ دیکھنے والیوں کو میری پروا بھی نہیں ہے اور خواتین امبر کے چاند کے شکوے سے بے نیاز دھرتی کے چاندوں کی جانب اپنی توجہ مرکوز رکھیں گی، اُن چاندوں کی جانب جنھیں دیکھ دیکھ کر وہ جیتی ہیں خواہ اُن سے رشتے اور تعلق کی نوعیت کچھ بھی ہو، وہ ہیں تو اُن کے چاند۔(شائستہ زریں کی شگفتہ تحریر)
-
یہ ایک خط کا جواب ہے!
یہ ایک خط کا جواب ہے جو بلیماران دلّی کے کسی نسیم صاحب نے لکھا ہے۔ اپنے خط میں نسیم صاحب مجھ پر بہت برسے ہیں، خوب گالیاں دی ہیں، ایسی گالیاں جنہیں کھا کر میں بہت بدمزہ ہوا اور باتوں کے علاوہ مجھے انہوں نے گرہ کٹ کا بھائی چور کہا ہے۔
صرف گالیوں پر اکتفا ہوتا تو شاید میں برداشت کر جاتا، لیکن انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر میں کبھی ان کے ہتھے چڑھ گیا تو میری ہڈی پسلی ایک کر دیں گے۔
نسیم صاحب نے اپنے خط میں بڑے بھاری بھرکم الفاظ استعمال کئے ہیں۔ کچھ اس وزن کے الفاظ جو عبادت بریلوی صاحب اپنے تنقیدی مضامین میں کیا کرتے ہیں۔ ان کے وزن دار الفاظ سے مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ پہلوان قسم کے آدمی ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ایسے آدمی کے دل میں میرے لئے پرخاش کا خیال رہے، اس لئے میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے یہ خط لکھ رہا ہوں۔
میرا خط پڑھنے سے پہلے نسیم صاحب کی ناراضگی کا پس منظر دیکھ لیجئے۔
کچھ مہینے پہلے مرزا عبدالودود کے مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ "گٹھلیوں کے دام” شائع ہوا تھا۔ مرزا اپنی کتاب میرے پاس لائے تھے کہ میں اس پر تبصرہ کردوں۔ وہ تبصرہ دلّی کے رسالہ”گھامڑ” میں شائع ہوگیا، نسیم صاحب نے وہ تبصرہ پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "گٹھلیوں کے دام” مزاحیہ ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے، چنانچہ بیس روپے میں انہوں نے یہ کتاب خریدی اور جب کتاب پڑھی تو انہیں احساس ہوا کہ وہ ٹھگ لئے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کتاب پڑھ کر انہیں یوں لگا جیسے کسی نے ان کی جیب کاٹ لی ہو، جس میں بیس روپے تھے۔ اور چونکہ انہوں نے یہ کتاب میرے تبصرہ کی بناء پر خریدی تھی اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ میں اس جیب کترے کا رشتہ دار ہوں۔
نسیم صاحب! آپ کے خط کو پڑھنے سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ کو کتاب پڑھنے کی تمیز تو شاید ہے۔ تبصرہ پڑھنے کی ہرگز نہیں ہے۔ میں نے ہرگز یہ نہیں لکھا کہ یہ کتاب مزاحیہ ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔ میں جانتا ہوں میں نے یہ بھی نہیں لکھا کہ مرزا عبدالودود کی کتاب بالکل واہیات چیز ہے۔ لیکن اگر میں اس طرح لکھتا تو مرزا اسی طرح میرے خون کے پیاسے ہوتے جیسے آج آپ ہیں، اور ماشاء اللہ ان کی صحت آپ کی صحت سے کسی لحاظ سے کم نہیں۔
آئیے میں آپ کو تبصرہ پڑھنا سکھاؤں۔ میں نے لکھا تھا کہ "مرزا عبدالودود نے بہت ہی قلیل مدت میں مزاح نگاروں کی صف میں اپنی جگہ بنالی ہے۔”
آپ سمجھے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مرزا جب مزاح کے میدان میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے سے موجود مزاح نگاروں نے اپنی اپنی نشست چھوڑ کر ان کی خدمت میں گزارش کی کہ حضور یہ کرسیاں دراصل آپ ہی کے لائق ہیں۔ تشریف رکھئے۔ نسیم صاحب میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ میں نے تو تبصرے کی زبان میں یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ مرزا نے مزاح نگاروں کی صف میں بالکل ایسے جگہ بنائی ہے جیسے ریل کے ایک بہت ہی بھرے ہوئے تھرڈ کلاس کے ڈبے میں ایک نیا مسافر اپنی جگہ بناتا ہے یعنی دروازہ بند پاکر پہلے انہوں نے کھڑکی سے بستر اور صندوق پھینکا پھر اسی رستے خود کود پڑے، بستر کسی کے سر پر پڑا، صندوق نے کسی اور کو زخمی کیا۔ ایک دو مسافر ان کے بوجھ کے نیچے دب گئے۔ ایسا بھونچال آنے پر لوگ خود ہی ادھر ادھر سرک گئے اور اس طرح مرزا نے اپنی جگہ بنالی۔
میں نے لکھا تھا کہ "مرزا نے ابھی ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے، اس دشت کی سیاحی کے لئے تو عمر پڑی ہے۔”
آپ سمجھے میں کہہ رہا ہوں کہ ان کا قدم پڑتے ہی اس دشت میں پھول اگ آئے ہیں۔ جب وہ پوری عمر اس دشت میں قدم رکھے رہیں گے تو یہ دشت نشاط باغ بن جائے گا۔ حضور میرا مطلب یہ نہیں تھا، میں تو مرزا صاحب کو بڑے پیار سے مشورہ دے رہا تھا کہ بھیا اس دشت کی سیاحی کے لئے عمر پڑی ہے ابھی سے اس میں کیوں کود رہے ہو ۔ بیس پچیس سال اور صبر کرو ، جب کوئی اردو پڑھنے والا نہیں رہے گا تو آپ شوق سے اس دشت کی سیاحی پر اترنا تاکہ کوئی آپ کی اس بے راہ روی پر اعتراض نہ کرسکے۔
میں نے لکھا ہے کہ "مرزا کا لکھنے کا انداز ریسی (RACY) ہے۔”
آپ نے سمجھ لیا کہ ان کے انداز بیان میں وہی روانی ہے جو ریس کے گھوڑوں میں ہوتی ہے۔ یعنی ایک خوبصورت ایک ادائے بے نیازی کے ساتھ تیزی سے منزل تک پہنچنے کی آرزو۔ نہیں صاحب! میرا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا۔ ریسی (RACY) سے میرا مطلب گھڑ دوڑ سے ضرور تھا لیکن ان گھوڑوں کی دوڑ سے نہیں جو بمبئی کے مہا لکشمی میدان میں دوڑتے ہیں، بلکہ ان گھوڑوں سے تھا جو تانگوں کے آگے جتے ہیں اور جو سڑکوں پر پیدل اور سائیکل سوار لوگوں کو روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں، اور اگر اڑ جائیں تو ایسے اڑتے ہیں کہ کوچوان کا چابک بھی انہیں اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا۔
میں نے لکھا تھا کہ ’’کتاب کے تمام جملے مصنّف کی محنت کے آئینہ دار ہیں۔”
آپ سمجھے میرا مطلب یہ ہے کہ مصنف نے ایک ایک جملے پر وہ محنت کی ہے جو ایک ذہین لڑکا اپنے امتحان کی تیاری میں کرتا ہے تاکہ وہ کلاس میں اوّل آسکے۔ نہیں صاحب! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ میرا اشارہ اس محنت کی طرف تھا جو ایک دھوبی ایک گندے کھیس میں سے میل نکالنے کی کوشش میں کرتا ہے ۔ یعنی پتھر پر مار مار کر اتنے زور سے مارنے کے باوجود کھیس پھٹ جاتا ہے، پر میل نہیں نکلتا۔
میں نے لکھا تھا کہ "مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔”
آپ نے سمجھا کہ یہ کتاب یوں بکے گی جیسے متھرا کے پیڑے یا ناگپور کے سنگترے یا بمبئی کی بھیل پوری۔ نسیم صاحب! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ پہلی بات تو آپ یہ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اردو کی کوئی کتاب ان معنوں میں ہاتھوں ہاتھ نہیں لی جاتی۔ یہ ہمیشہ ہاتھوں ہاتھ دی جاتی ہے ۔ یعنی کتاب کو آپ خود شائع کرتے ہیں اور پھر اسے آپ دوسرے ادیبوں کو ہاتھوں ہاتھ بانٹتے ہیں۔ وہ بھی کچھ اس طرح کہ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ یعنی وہ بھی آپ کو اپنی کتابیں اسی طرح پیش کریں۔
جہاں تک مرزا کی کتاب "گٹھلیوں کے دام” کا تعلق ہے، میرا مطلب یہ بھی نہیں تھا!
جب میں نے لکھا کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی تو میرا مطلب تھا کہ پبلشر سے یہ کتاب سیدھے ردی والے لے جائیں گے، وہاں سے یہ کتاب حلوائی کے ہاتھ پہنچنے گی اور پھر گاہکوں کے پاس جائے گی۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ اتنی سی بات کو سمجھ نہیں پائے۔ خیر بیس روپے خر چ کرنے کے بعد تو سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
آپ نے لکھا ہے کہ میں نے تبصرے میں مرزا کے مضامین میں سے کچھ ایسے فقرے نقل کئے ہیں جو بہت خوب صورت اور معنی خیز ہیں۔ ان سے آپ کو دھوکہ ہوا کہ شاید ساری کتاب ہی خوب صورت ہوگی۔
ایسے کتنے فقرے میں نے نقل کئے تھے؟ کُل چار۔ اور یہ میں ہی جانتا ہوں کہ ان کو کتاب میں سے ڈھونڈنے میں مجھے کتنی ریاضت کرنی پڑی۔ تقریباً پوری رات میں کتاب کو کھنگالتا رہا تب کہیں جاکر یہ فقرے ہاتھ لگے۔ ویسے ایک گزارش کر دوں کہ دو صفحے کی کتاب میں دو چار جملے اچھے نکل آتے ہیں۔ بھائی جان وہ گھڑی جو کئی سال سے بند پڑی ہو وہ بھی دن میں دو بار صحیح وقت بتا سکتی ہے۔
آپ کی شکایت ہے کہ میں نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ "میں تمام اردو داں حضرات کو اس کتاب کے مطالعے کی پُر زور سفارش کروں گا۔”
جی میں نے ضرور لکھا ہے لیکن آپ کو یہ تو دیکھنا چاہیے تھا کہ سفارش کرنے والے کی اپنی حیثیت کیا ہے۔ میں تو دن میں سیکڑوں لوگوں کو سفارشی خط دیتا رہتا ہوں، کبھی وزیر نشر و اشاعت کے نام، کبھی وزیرِ تعلیم کے نام، کبھی شہر کے میئر کے نام کہ اس کو ریڈیو اسٹیشن کا ڈائریکٹر بنا دو۔ اس کو کالج کا پرنسپل بنا دو، اس محلے میں پانی کا نل لگوا دو۔ لیکن آج تک میرے سفارشی خط والے لوگوں کو کسی نے سرکاری دفتر کے قریب نہیں گھسنے دیا۔ میری سفارش پر لگے ہوئے نل سے کسی نے پانی نہیں پیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ نے میری سفارش کیوں مان لی۔
تبصرہ کو جلدی ختم کرتے ہوئے میں نے لکھا کہ "میں مصنّف اور قاری کے درمیان کھڑا نہیں رہنا چاہتا۔”
نسیم صاحب! آپ اس کا مطلب یہ سمجھے کہ کتاب اتنی دل چسپ ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ قاری جلد سے جلد اس کا مطالعہ شروع کر دے اور اس سے لطف اندوز ہو۔ نہیں جناب میرا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا۔ میں جانتا تھا کہ جو قاری بھی اس کتاب کو پڑھے گا مصنّف کی گردن پر ہاتھ ڈالنا چاہے گا، اس لئے میں جلد از جلد راستے سے ہٹ جانا چاہتا تھا۔
اب صرف اتنی سی بات رہ گئی کہ تبصرے اس طرح کیوں لکھے جاتے ہیں کہ آپ جیسا سیدھا سادا قاری ان کا مطلب نہ سمجھ سکے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ تبصرے کا یہی اصول ہے اور یہ اصول میں نے نہیں بنایا۔ ایک عرض اور کر دوں کہ جب مرزا صاحب اپنی کتاب میرے پاس تبصرے کے لئے لائے تھے تو ساتھ ہی برفی کا ایک ڈبہ بھی لائے تھے۔ برفی بڑی عمدہ قسم کی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی خوشبو نے کتاب کے بارے میں میری رائے میں مداخلت کی ہو۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ اچھے جہیز کے ساتھ ایک معمولی لڑکی ایک اچھی دلہن بن جاتی ہے اور ساس سسر کے علاوہ دولھے میاں کو بھی خوب صورت لگنے لگتی ہے۔ تبصرہ نگاری میں اگر مجھ سے کچھ غلطی ہوئی ہے تو محض برفی کی وجہ سے۔
امید ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ تبصرہ کس طرح پڑھاجاتا ہے۔ یقین مانیے بیس روپے میں یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ پھر بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی تو بندہ معافی کا خواستگار ہے۔
آپ کا خیر اندیش
(یہ معروف ہندوستانی مزاح نگار دلیپ سنگھ کا مشہور انشائیہ ہے جس پر انھیں کئی نام ور ادیبوں اور اہلِ قلم نے خاص طور پر سراہا تھا۔ دلیپ سنگھ 1994 میں انتقال کرگئے تھے۔ انھوں نے اپنے اس انشائیہ کو "معذرت نامہ” کا عنوان دیا تھا)