Tag: طنز و مزاح

  • دیمک کا اردو شاعروں پر طنز

    دیمک کا اردو شاعروں پر طنز

    دیمک پودوں اور لکڑی میں پایا جانے والا ایک کیڑا ہے جس کی کئی اقسام ہیں۔ یہ جس لکڑی کو لگ جائے اسے ختم کر کے چھوڑتی ہے۔

    یہاں ہم اردو کے مشہور مزاح نگار مجتبی حسین کے مضمون سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ یہ ان کے مضمون دیمکوں کی ملکہ سے ایک ملاقات سے ماخوذ ہے۔ مصنّف ایک لائبریری میں جاتے ہیں جہاں اردو کے شاعر کے دیوان میں انھیں دیمک نظر آتی ہے۔ اس سے ہونے والی بات چیت کچھ یوں‌ ہے۔

    "میں(مصنّف) نے کہا، ’’اب جب کہ تم نے خاصے اردو ادب کو چاٹ لیا ہے تو یہ بتاؤ یہ تمہیں کیسے لگتا ہے؟‘‘

    بولی، ’’شروع شروع میں یہ میرے پلے نہیں پڑا تھا۔ بڑا ریاض کیا۔ متقدمین کے دیوان چاٹے۔ مشکل یہ ہوئی کہ میں نے سب سے پہلے ’دیوانِ غالب‘ پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی۔ خاک سمجھ میں نہ آیا۔ لہٰذا مولوی اسماعیل میرٹھی کی آسان اور زود ہضم نظمیں پہلے نوشِ جان لیں۔ پھر وہ کیا کہتے ہیں آپ کے مفلر والے شاعر، وہی جو پانی پت میں رہتے تھے مگر وہاں کی جنگوں میں شریک نہیں تھے۔ ارے اپنے وہی مولانا حالی۔ ان کی نصیحت آمیز شاعری پڑھی۔ شاعری کم کرتے تھے نصیحت زیادہ کرتے تھے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ تم لوگوں نے ان کی نصیحتوں پرعمل نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو آج تمہارے گلے میں بھی روایات کا ایک بوسیدہ سا مفلر ہوتا۔ اب تو خیر سے سارا ہی اردو ادب میری مٹھی میں ہے۔ سب کو چاٹ چکی ہوں۔

    ایک بارغلطی سے جوش ملیح آبادی کی ایک رباعی چاٹ لی طبیعت میں ایسا بھونچال آیا کہ سارا وجود آپے سے باہر ہونے لگا۔ اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے چار و ناچار، جاں نثار اختر کی گھر آنگن والی شاعری چاٹنی پڑی۔

    ویسے تو میں نے دنیا کی کم و بیش ساری زبانوں کی کتابیں چاٹ لی ہیں لیکن اردو شاعروں میں ہی یہ وصف دیکھا ہے کہ اپنے معشوق کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ کوئی معشوق کے گیسو سنوارنا چاہتا ہے تو کوئی انہیں بکھیر دینا چاہتا ہے۔ کوئی وصل کا طالب ہے تو کوئی ہجر کی لذتوں میں سرشار رہنا چاہتا ہے۔ کوئی معشوق کو کوٹھے پر بلانے کا قائل ہے تو کوئی اس کا دیدار بھی یوں کرنا چاہتا ہے جیسے چوری کر رہا ہو۔ تم لوگ آخر معشوق سے چاہتے کیا ہو۔ اسے ہزار طرح پریشان کیوں کرتے ہو۔ اردو شاعری میں معشوق خود شاعر سے کہیں زیادہ مصروف نظر آتا ہے۔ یہ بات کسی اور زبان کے معشوق میں نظر نہیں آئی۔ اردو شاعروں کا عشق بھی عجیب و غریب ہے۔ عشق کرنا ہو تو سیدھے سیدھے عشق کرو بھائی۔

    کس نے کہا ہے تم سے کہ معشوق کی یاد آئے تو آسمان کی طرف دیکھ کر تارے گنتے رہو۔ اس کی یاد نے زور مارا تو اپنا گریبان پھاڑنے کے لئے بیٹھ جاؤ۔ معلوم ہے کپڑا کتنا مہنگا ہوگیا ہے۔ سیدھے سیدھے معشوق کے پاس جاتے کیوں نہیں۔ اپنے دل کا مدعا بیان کیوں نہیں کرتے۔ عاشق، بزدل اور ڈرپوک تو ایسے ہی چونچلے کر کے اپنے دل کو بہلاتا رہتا ہے۔‘‘

  • تقریب کچھ تو ‘بہرِ مفادات’ چاہیے!

    تقریب کچھ تو ‘بہرِ مفادات’ چاہیے!

    کتاب کی تقریبِ رونمائی کی خبر پڑھتے اور سنتے ہی جانے کیوں یہ مصرع یاد آجاتا ہے

    تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے

    اور ساتھ ہی غالب ؔ کے دشمنوں کا خیال بھی آتا ہے کہ پرزے تو غیر ہی اُڑاتے ہیں اپنے تو پردہ رکھ لیتے ہیں اور سچ پوچھیے تو آئے دن اخبارات میں کتابوں کی تقریبِ رونمائی کا احوال پڑھ کر یقین سا آنے لگتا ہے کہ اس شعر کی تخلیق کے وقت غالبؔ کے ذہن میں بھی کہیں نہ کہیں ”دیوانِ غالبؔ“ کی تقریبِ رونمائی کا خدشہ سر اُٹھا رہا تھا کہ اُن کے دوست احباب قرضِ دوستاں چکانے کے لیے ایسی کسی تقریب کا اہتمام نہ کر ڈالیں اور چونکہ غالبؔ کی نظر بہت دور تک دیکھنے کی عادی تھی اس لیے غالب نے بھی بہت پہلے یہ نکتہ پا لیا تھا کہ تقریب میں کتاب اور صاحبِ کتاب کے پرزے ضرور اڑیں گے۔

    غالب پر تو اللہ نے بڑ ا کرم کیا ان کے نصیب میں وہ تماشہ لکھا ہی نہیں تھا جو اُن کے بعد آنے والوں کو بے طلب دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ بھلا ہو اس ادبی فیشن کا جو روز بہ روز زور پکڑتا جا رہا ہے، کبھی صاحبِ کتاب خود اور کبھی کوئی اور اس کی محبت اور عقیدت سے سرشار صاحبِ کتاب کے دوستوں اور قارئین کا مجمع لگا کر صاحبِ کتاب کی بے محابہ توصیف اور کتاب پر ایسی رائے دینے پر مجبور کردیتا ہے کہ بیک وقت مصنّف کا حوصلہ اور کتاب کی ترسیل کا اہتمام ہو جائے۔ اس اجتماعی رائے زنی کا اثر کبھی کبھی مضحکہ خیز المیے کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پرزے اُڑانے والے صاحبِ کتاب کے رفیق بھی ہوتے ہیں جو حقِ رفاقت نباہتے ہوئے اس قدر نڈھال ہو جاتے ہیں کہ حاضرینِ محفل سوچتے ہیں کیا واقعی صاحبِ کتاب اتنا صاحبِ اعزاز ہے جتنا کہ اسے سراہا جا رہا ہے اور کیا مقالہ نگار اتنا صائب الرّ ائے ہے جتنا نظر آرہا ہے؟

    یہ تو خیر دوستوں کا احوال تھا مگر بعض انجانے بھی ایسے صاحب کمال اور صاحب کشف و کرامات ہوتے ہیں کہ کتاب اور صاحبِ کتاب کے مطالعے کے بغیر ہی محض ذاتی مفاد کی خاطر سنی سنائی پر اعتبار کر کے کتاب اور صاحبِ کتاب کا اعتبار قائم کرنے کی دھن میں اپنا اعتبار بھی کھو دیتے ہیں مگر وہ سب ضرور پا لیتے ہیں جس کے وہ آرزو مند ہو تے ہیں۔

    اس امر سے تو سب ہی واقف ہیں کہ معاشی اعتبار سے ادب کی منڈی میں کسی مصنّف کی قدر شناسی کا کس قدر کال ہے۔ کچھ تو فطرتاً ایسے بے نیاز ہوتے ہیں کہ صلے اور ستائش سے بے پروا ہو کر اپنا کام کیے جاتے ہیں لیکن حلقۂ ادب میں ایسے حضرات بھی ہیں جو خود کو منوانے کے لیے کوئی ایسا مؤثر طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کی ادبی حیثیت کو بھی تسلیم کر لیا جائے اور وہ تہی دست بھی نہ رہیں اور اس کے لیے وہ کتابوں کی تقریبِ رونمائی کو مفید قرار دیتے ہیں۔ ہمیں اعترا ض کسی کے مفاد پر نہیں۔ معترض تو ہم اس تقریب میں پڑھے جانے والے بعض مضامین پر ہیں جن میں پڑھنے والے کی ”رضا“ سے بڑھ کر صاحبِ کتاب کی” خوشنودی“ کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس اہم تقریب میں مصنّف اور کتاب کی تشہیر کا خصوصی بلیٹن نشر کیا جاتا ہے، تب کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ حاضرین مضامین پڑھنے والوں کے بارے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ

    یہ ملکِ سخن کے وہ منافق ہیں جو ہر ”شام“
    رکھ دیتے ہیں ایک تاج سَرِ بے ہنراں پر

    کتاب کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر توصیفی کلمات ادا کیے اور تعریفی مضامین پڑھے جاتے ہیں لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے کتاب کا گھونگھٹ الٹتے ہی صاحبِ کتاب سے بے بسی اور جی داری کی ملی جلی کیفیت میں سوال کیا ہو کہ

    تیری نئی کتاب پر کیا تبصرہ کروں؟
    مضمون منحنی سا ہے، عنواں جسیم ہے

    جی ہاں؛ ایسی کئی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں جن کے عنوان کا خاصا رعب پڑتا ہے مگر جب ان کے مطالعے کی نوبت آتی ہے تو حیرانی و پریشانی کی یکجائی یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ جس مریض کی ”صحت“ پر شبہ ہو اس کا ”جشنِ صحت“ کیوں منایا گیا؟ لیکن تقریبِ رو نمائی میں‌ مقالات و مضامین میں تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ محض اس بنیاد پر کہ مقالہ نگار اخلاق اور ذاتی تعلق دونوں کو نباہنے کے ہنر اور اہمیت سے واقف ہوتے ہیں یا مروتاََ ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

    محض ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی کتاب کی اس معیار کی تعریف کرنا جس سے کمتر درجے کی وہ کتاب ہو، صاحبِ کتاب کے لیے ”اعزاز“ نہیں ”آزار“ ہے۔ بہت ممکن ہے کتاب کی تقریبِ رونمائی میں مدح سرائی کرنے والے خیال کرتے ہوں کہ رونمائی کے ساتھ کسی بری یا حقیر شے کا تصور نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا کتاب پر تبصرہ بھی اعلیٰ درجے کا ہونا چاہیے۔ اندر سے خواہ کتاب کیسی ہی ہو۔ ظاہری حسن تو داد طلب ہے۔ بعض کتابوں کا سرورق متاثر نہیں کرتا مگر مطالعے سے ذوقِ کتب بینی بڑھ جاتا ہے اور ایسی بھی کتابیں ہوتی ہیں کہ سرورق پر نظر ڈالو تو ”واہ“ اور مطالعہ کرو تو ” آہ“ بھر کر رہ جاؤ گویا….

    کتاب چھپ گئی چھ رنگے ٹائٹل کے ساتھ
    کتابت اور طباعت کا بھی جواب نہیں
    مگر کتاب کی تقریبِ رونمائی میں
    کتاب چیخ رہی ہے کہ میں کتاب نہیں

    دلہن اچھی ہو یا بُری رونمائی کا حق تو دونوں کو حاصل ہے، یہی بات کتاب کے ضمن میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ موضوع، اسلوب اور مواد خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو کتاب کی رونمائی کے آرزو مند ہر صاحبِ کتاب کے ارمان تقریبِ رونمائی کے ضمن میں کم و بیش یکساں ہوتے ہیں۔

    کتابوں کی رونمائی کی تقریبات شہر میں لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں ہوتی ہیں جتنی کہ شادی کی تقریبات۔ کیونکہ شادی ہال کی طرح اس تقریبِ سعید میں تواضع کے لیے کبھی کبھار کھانے کو بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔

    بعض اوقات تقریبِ رونمائی کا اعزاز ایسی ہستی کے حصّے میں آجاتا ہے جو کتاب شناسی تو بڑی بات ہے، کتاب خوانی کی لذّت سے بھی محروم ہو۔ کیا کوئی صاحبِ کتاب واقعی اتنا بے بس ہوسکتا ہے کہ محض تشہیر اور ذاتی مفاد کی خاطر اپنی بے توقیری بخوشی قبول کر لے؟ کیا یہ مضحکہ خیز المیہ نہیں؟

    بعض کتابیں اپنے موضوع، اسلوب، مواد کے سبب وہ پذیرائی حاصل کر لیتی ہیں اور صاحبِ کتاب کو بھی علمی اور ادبی حلقے ہی سے نہیں بسا اوقات عام قارئین کی جانب سے بھی وہ ”اعتبار“ حاصل ہو جاتا ہے جو اس کتاب اور صاحبِ کتاب کو حاصل نہیں ہوتا جس کی تشہیر کے لیے کسی”پانچ ستارہ“ ہوٹل میں تقریب کا انعقاد کیا گیا ہو یا جس تقریب کی صدارت کسی ”اعلیٰ سرکاری افسر“ یا کسی بڑی تجارتی کمپنی کے مالک کے حصّے میں آئی ہو۔

    (فیچر رائٹر اور مضمون نگار شائستہ زریں‌ کے قلم سے)

  • نظر نہیں آتا؟

    نظر نہیں آتا؟

    خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کیے ہیں۔ کتّے اس کے کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔

    آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے ليے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔

    کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کردیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے ليے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

    رات کے وقت یہی کتّا اپنی خشک، پتلی سی دُم کو تابہ حدِ امکان سڑک پر پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ جہاں آپ نے غلطی سے اس پر پاؤں رکھ دیا، انہوں نے غیظ وغیب کے لہجہ میں آپ سے پرسش شروع کر دی، "بچہ فقیروں کو چھیڑتا ہے، نظر نہیں آتا، ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں۔” بس اس فقیر کی بددعا سے سے اسی وقت رعشہ شروع ہوجاتا ہے۔ بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظر آتے رہتے ہیں کہ بے شمار کتّے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے تو پاؤں چارپائی کی ادوان میں پھنسے ہوتے ہیں۔

    اگر خدا مجھے کچھ عرصے کے ليے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے، تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے۔ رفتہ رفتہ سب کتّے علاج کے ليے کسولی پہنچ جائیں۔

    (نام ور مزاح نگار پطرس بخاری کے قلم سے)

  • فکر تونسوی: اردو طنز و مزاح نگاروں میں ایک معتبر نام

    فکر تونسوی: اردو طنز و مزاح نگاروں میں ایک معتبر نام

    رام لال نارائن نے فکر تونسوی کے قلمی نام سے جہانِ اردو میں خوب شہرت پائی اور اپنے وقت کے معروف و مقبول طنز و مزاح نگاروں میں ان کا شمار ہوا۔ 1987ء میں آج ہی کے دن فکر تونسوی نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    فکر تونسوی 7 اکتوبر 1918ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر تونسہ شریف میں‌ پیدا ہوئے، جو آج پاکستان کا حصّہ ہے۔ ان کے والد کا نام دھنپت رائے تھا جو بلوچ قبائل میں تجارت اور طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔

    گورنمنٹ ہائی اسکول تونسہ شریف سے میٹرک پاس کرنے کے بعد فکر تونسوی نے ایک سال ملتان کے ایمرسن کالج میں بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اسکول کی تعلیم کے دوران ہی شروع ہو چکا تھا۔ شاعری سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کو شروع کیا تھا اور ان کی غزلیں مختلف چھوٹے چھوٹے جرائد اور اخبار میں شائع ہوتی رہیں۔ 1942ء میں مولانا صلاح الدین احمد کے مؤقر ادبی رسالے "ادبی دنیا” میں ان کی ایک نظم "تنہائی” شائع ہوئی جو حلقۂ اربابِ ذوق لاہور کی جانب سے سال کی بہترین نظم قرار پائی۔ اس کے بعد معروف ادبی رسائل ادب لطیف، ہمایوں، ادبی دنیا وغیرہ میں ان کا کلام شائع ہونے لگا اور ان کی شہرت کا سبب بنا۔ 1945ء میں معروف ادیب ممتاز مفتی کی مشترکہ ادارت میں فکر تونسوی نے میگزین "سویرا” شائع کیا۔ بعد میں "ادبِ لطیف” سے بطور مدیر وابستہ ہوگئے اور تب 1947ء میں تقسیمِ ہند کا اعلان ہو گیا جس کے بعد فسادات کے باعث وہ بھارت ہجرت کرگئے جہاں دلّی میں‌ وفات پائی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہی فکر تونسوی نے طنز و مزاح اور نثر لکھنا شروع کیا اور عوام میں مقبول ہوئے۔ ان کی سب سے پہلی نثری تصنیف "چھٹا دریا” ہے جو فسادات پر ایک درد ناک ڈائری کی شکل میں تھی۔ فکر تونسوی نے کالم نگاری کی، ریڈیو کے لیے سیکڑوں ڈرامے، فیچر لکھے اور کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں ترنیم کش، ماڈرن الہ دین، بدنام کتاب، پیاز کے چھلکے، چھلکے ہی چھلکے کے علاوہ آپ بیتی بھی شامل ہے۔

  • "خالہ گرم مسالہ کا ہر انداز نرالا”

    "خالہ گرم مسالہ کا ہر انداز نرالا”

    خالہ گرم مسالہ کا اصل نام تو حسینہ خاتون ہے۔ وہ محلہ بھر میں گھوم پھر کر اِدھر کی خبریں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر اس برق رفتاری سے پہنچاتی ہیں کہ بسا اوقات لوگوں کو بھی اپنے گھر کی باتیں محلّے والوں کی زبانی معلوم ہوتیں۔ اور وہ حیران رہ جاتے کہ جن باتوں کا علم گھر کے تمام افراد کو نہیں خالہ گرم مسالہ تک اُن کی رسائی کیسے ہوئی اور اُس کی محلّے میں دھوم کیسے مچ گئی؟

    سادہ سی خبروں میں نمک مرچ لگا کر گرم مسالہ کا تڑکا لگانا بھی خوب جانتی ہیں۔حسینہ خاتون کے اسی ہنر کو دیکھتے ہوئے محلے کے ایک بچّے نے آپ کو ”خالہ گرم مسالہ“ کا نام دیا جس نے اصل نام سے زیادہ شہرت پائی۔

    یہی نہیں اور بھی کئی ہنر ایسے ہیں جن میں خالہ گرم مسالہ طاق ہیں۔ مثلاً خالہ گرم مسالہ کو سُنانے کا بہت ہوکا ہے۔ خواہ وہ گیت ہو یا ریت، حکایتیں ہوں یا شکایتیں، باتیں ہو یا داستانیں۔ کھری کھری ہوں یا بے بھاؤ کی جب بھی سناتی ہیں جی بھر کر سناتی ہیں۔ جبریہ سننے والوں کی تو کیا کہیے کبھی کبھی تو شوقیہ سننے والے بھی سُن کر جی بھر کر بدمزہ ہو جاتے ہیں۔

    اپنے ان تمام ”ہوکوں“ کے توسط سے خالہ گرم مسالہ اپنی ہر سنانے والی بات حسبِ ضرورت اپنے مخاطبین کو سناتی ہیں۔ بالخصوص شکوؤں شکایتوں کا ہوکا تو وہ کسی ہُڑکے کی طرح کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بڑے سلیقے سے اپنی اہمیت بھی منوانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس ضمن میں اُن کا سب سے بڑا شکوہ ”مجھے بھول گئیں ناں“ ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں ایک دن بیٹھے بٹھائے خالہ گرم مسالہ کو خیال آیا کہ لوگ مجھے بھولتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ محض اُن کا وہم تھا۔

    لو بھلا بتاؤ؟ کیا وہ ایسی شے ہیں جنہیں بھلا دیا جائے؟ ہر گز نہیں۔ جس کو دیکھو اُس کی زبان پر خالہ گرم مسالہ کا نام ہے۔ وہ دن اور آج کا دن خالہ گرم مسالہ کا ”مجھے بھول گئیں ناں“ کا ”ہوکا“ عروج پر ہے۔ جہاں خالہ گرم مسالہ اپنے طور اپنی موجودگی لازمی سمجھتی ہیں وہاں وہاں اپنی عدم موجودگی کا گلہ ضرور کرتی ہیں اور یہ گلہ محض ”مجھے بھول گئیں ناں“ تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے مخاطبین کو اس حشر برپا موقع پر ماضی کے حوالے دے کر کچھ اس طور سناتی ہیں کہ سننے والے سننے کی ہر خواہش سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ کتنا ہی خالہ گرم مسالہ کو یقین دلائیں کہ آپ کو بھولا کوئی نہیں، بات صرف اتنی سی ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر آپ کی شمولیت ضروری نہیں لیکن خالہ گرم مسالہ مان کر ہی نہیں دیتیں۔ ہر دلیل رد کر دیتی ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ اُن کا حق بلکہ پیدائشی حق ہے کہ جس ہنر میں اُنہیں معمولی سی بھی دسترس ہے، اس حساب سے نہ صرف اُنہیں یاد رکھا جائے بلکہ پیش پیش بھی رکھا جائے۔ اور جاننے والے بھی جانتے ہیں کہ اُن کی شمولیت اور عدم شمولیت کہاں ضروری ہے سو وہ اسی حساب سے اُنہیں مدعو اور نظر انداز کرتے ہیں۔

    بعض تجسس کی ماری خواتین تو اوروں کے گھروں کی سُن گن لینے کے لیے خالہ گرم مسالہ کی خدمات حاصل کرتی ہیں اور خالہ گرم مسالہ یہ ”فلاحی کام“ بلا معاوضہ بڑی لگن اور محنت سے کسی مشن کی طرح یوں کرتی ہیں گویا پیشہ ور سماجی کارکن ہیں۔

    ایک روز تو حد کر دی۔ ہُوا یوں کہ فیروزہ خالہ کی منجھلی بیٹی درخشاں کے رشتے کی بات اپنوں میں چل رہی ہے یا غیروں میں اور یہ بھی کہ لڑکا کیا کرتا ہے؟ جاننے کی خواہش میں بمشکل گھنٹہ بھر سوئیں اور شب بھر جاگ کر اپنے اس مشن میں کامیابی کے لیے دعائیں کرتی رہیں۔ ساتھ ہی اپنے منصوبہ بند ذہن کو بھی متحرک رکھا کہ جانے کب کہاں سے کون سا سرا ہاتھ لگ جائے۔ لیکن عقدہ تھا کہ حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا، پھر یہ بھی ہے کہ خالہ گرم مسالہ اس امر سے بھی تو بخوبی واقف تھیں کہ یہاں دال گلنی بہت مشکل ہے کہ خالہ فیروزہ کے گھر کے ہر فرد کا پیٹ کسی گہرے کنوئیں کی مانند ہے جہاں سے بات نکلوانا کارِ محال ہے۔لیکن خالہ گرم مسالہ بھی خالہ گرم مسالہ ہیں۔ شب بھر دماغ لڑاتی رہیں۔ بالآخر کامیاب ہو ہی گئیں۔ اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ کنواں جتنا گہرا ہے ڈول بھی اتنا ہی بڑا ڈالا جائے لیکن احتیاط سے۔

    صبح سویرے ہی وہ اپنے مشن پر نکل کھڑی ہوئیں اور حیرت انگیز طور پر دس فیصد معلومات حاصل کر لیں جس پر وہ بہت نازاں تھیں کہ جہاں سے ایک فیصد بات اُگلوانا بھی ناممکن ہے، وہاں سے اُن کی ناممکن کی جستجو نے ممکنہ فتح حاصل کر لی۔ وہ جان گئی تھیں کہ درخشاں کے رشتے کی بات چیت اُس کی امی کی خالہ زاد بہن کے نواسے سے چل رہی ہے جو ایک سرکاری ادارے میں آفیسر ہے۔ اتنا بھید بھی خالہ گرم مسالہ کی سیماب صفت اور تجسس پسند فطرت کے لیے کافی تھا۔ جہاں وہ اپنی اس غیر متوقع کامیابی پر بہت مسرور تھیں وہاں ”لڑکے“ کی سرکاری آفیسر والی اطلاع اُنہیں تشویش میں مبتلا کر گئی کہ سرکار کی تو خود حالت بہت پتلی اور غیر ہے۔ جس کی اپنی ترقی خطرے میں ہو، جو خود اپنی خیر خواہ نہ ہو، ایسی سرکار سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟

    اور پھر خالہ گرم مسالہ نے اس خبر کو بارہ مسالوں سے آراستہ کیا اور جہاں تک ممکن ہو سکا یہ خبر سماعتوں کی نذر کر دی۔ چونکہ خالہ گرم مسالہ خود سیراب نہ ہو سکیں تھیں۔ اس لیے اوروں کو مطمئن کرنا اُن کے لیے خاصی بڑی آزمائش تھی۔ کہ لوگ اس نامکمل معلومات میں دل چسپی نہیں لے رہے تھے۔ لیکن خالہ گرم مسالہ کی سنانے کی ہوس تھی کہ ختم ہو کر ہی نہیں دے رہی تھی۔

    اور پھر یوں ہُوا کہ خالہ گرم مسالہ کے برس ہا برس کے تجربات سے مستفیض ہونے کے لیے ایک ادارے نے اُن سے رابطہ کر لیا۔ بے شک سیاسی بصیرت اُن میں نام کو نہیں لیکن خالہ گرم مسالہ اپنی زباں دانی کے جوہر اور لفظوں کے ہیر پھیر سے سیاسی مبصرین کو باہمی جھگڑوں میں الجھا کر مات دینے کا ہنر خوب جانتی ہیں۔ ابھی خالہ گرم مسالہ کو پیشکش ملے گھنٹہ بھر بھی نہ ہوا تھا کہ آپ نے محلے بھر میں الم نشرح کر دیا۔ محلّے والوں نے خوشی کا بھر پور اظہار کیا اور خالہ گرم مسالہ کو جلد از جلد یہ پیشکش قبول کرنے کی تاکید بھی کی۔ خالہ گرم مسالہ خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھیں کہ خالو ببلو بیچارے (خالہ گرم مسالہ کے میاں) نے یکایک بے چارگی کا لبادہ اُتار پھینکا اور اپنی ازدواجی زندگی کے پچاس سالہ عرصے میں پہلی مرتبہ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خالہ گرم مسالہ پر قدغن لگا کر اُنہیں اس فعل سے باز رکھا جو وہ اگر اختیار کر لیتیں تو جہنم کے دروازے اُن کے لیے کھل جاتے۔ ابھی بھی وہ محلّے بھر میں کون سا کارِ خیر کر رہی تھیں لیکن شر کی جو تاریخ وہ رقم کرنے جا رہی تھیں اس کا کفارہ بہت مشکل تھا اور جب یہ خبر عمران تک پہنچی جس نے خالہ گرم مسالہ کے میاں کو خالو ببلو بیچارے کے خطاب سے نوازا تھا، ببانگِ دہل اعلان کرتا پھر رہا تھا کہ ”خالو ببلو بیچارے بنے انگارے۔“ لیکن نہ جانے خالو ببلو نے خالہ گرم مسالہ کے کانوں میں کیا صور پھونکا تھا کہ وہ اس خواہش سے تائب ہو گئیں تھیں اور چینل والوں کے بے حد اصرار پر بھی راضی ہو کر ہی نہیں دے رہی تھیں۔

    خالہ گرم مسالہ کے قطعی انکار سے عمران سخت آزردہ تھا۔ اُس نے سب سے زیادہ کوشش کی کہ خالہ گرم مسالہ کو بھڑکا کر راضی کر سکے تاکہ خالہ گرم مسالہ کے توسط سے وہ بھی سوشل ورکر بننے کا اپنا برسوں پرانا خواب پورا کر سکے۔ اور اب خالو ببلو بیچارے خالو خسارے بنے اُس کی راہ کی دیوار بن رہے تھے۔ جب خالہ گرم مسالہ عمران کے پے در پے سوالوں سے زچ آگئیں تو اُنہوں نے بڑے سبھاؤ اور تدبر سے کہا کہ ”سر اور دستارکی سلامتی اسی میں ہے کہ اس جھنجھٹ سے دور رہا جائے۔“ عمران ہونق بنا اُن کی شکل دیکھے گیا اور جب کچھ دیر بعد اُس کاسکتہ ٹوٹا تو اُس نے صرف اتنا ہی کہا ”کاش خالو ببلو بیچارے، بیچارے ہی بنے رہتے۔ کر دیا نا اُنہوں نے آپ کا کباڑا، بن گئے نا خالو مرچ مسالہ۔آج تک کسی نے آپ کو کچھ کہا؟ کس شان سے سر اُٹھا کر جی رہی ہیں۔“

    ” عمران بیٹا! بے شک شان سے ہی نہیں آن سے بھی جی رہی ہوں۔ لیکن اس لیے کہ اپنوں کے درمیان ہوں۔ اپنا مارے گا تو پھر چھاؤں میں بٹھائے گا۔ وہ کون سے میرے اپنے ہیں جو میرا مان رکھیں گے۔“

    اور عمران! خالہ گرم مسالہ کے اپنے پرائے کے فلسفے میں الجھا سوچ رہا تھا۔خالہ گرم مسالہ کا اپنوں پہ یہ کیسا مان ہے جس نے اُن کو شہرت کی خواہش سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر دیا۔ کیا واقعی اپنائیت کا احساس ایسا طاقتور ہوتا ہے جو خالہ گرم مسالہ کو خالہ نرم دو شالہ بننے پر آمادہ کر دے؟

    (شائستہ زریں کے قلم سے)

  • غریب ملکوں کا "دارُ اللفافہ”

    غریب ملکوں کا "دارُ اللفافہ”

    واشنگٹن ڈی سی امریکا کا دارالخلافہ ہے، جسے انکل سرگم غریب ملکوں کا "دارُاللفافہ” بھی کہتا ہے۔ سرگم کا کہنا ہے کہ امریکا کا دارالخلافہ غریب ملکوں کا "داراللفافہ” یوں بن جاتا ہے کہ یہاں سے غریب ملکوں کو وہ لفافے روانہ کیے جاتے ہیں جن میں "شاہ جہان” (امریکی صدر) کے احکامات یا انعامات ہوتے ہیں۔

    واشنگٹن ڈی سی کی مشہور عمارت ” کیپٹل بلڈنگ ” کے سامنے کھڑے ہو کر ہمیں اپنے علاقے کے مغل بادشاہ شاہ جہان کا تاج محل یاد آ گیا جس کے بارے میں شکیل بدایونی نے کہا کہ:

    اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
    ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے​

    اور اس شعر کی مخالفت میں ساحر لدھیانوی نے یوں کہا تھا کہ :

    اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
    ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق​

    انکل سرگم نے بھی کیپٹل بلڈنگ کو دیکھتے ہی اسے تاج محل کی مناسبت سے "راج محل” کا نام دیتے ہوئے یہ شعر کہہ ڈالا کہ:

    اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں راج محل
    ساری دنیا پہ حکومت کی نشانی دی ہے​

    "امریکی شاہ جہان” کے اس "راج محل” کا سنگ بنیاد 1793 عیسوی میں جارج واشنگٹن نے رکھا اور اس کے بعد اس کی تعمیر و زیبائش میں ترامیم ہوتی رہیں۔ کیپٹل بلڈنگ کے گنبد پر ایک خاتون کا مجسمہ نصب ہے جو امریکا میں خواتین کی آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا میں خواتین کو اتنا زیادہ لباس حاصل نہیں جتنی آزادی حاصل ہے۔ ماسی مصیبتے کا مشاہدہ ہے کہ امریکا عورتوں، بچوں اور پالتو جانوروں کے لیے جنت ہے۔ یہاں عورت کو سوائے صدر بننے کے باقی ہر چیز میں مردوں جتنے حقوق حاصل ہیں۔ بچے گھروں میں 18 سال ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور 18 سال کے بعد ماں باپ سے یوں آنکھیں پھیر لیتے ہیں کہ کبھی کبھی تو یہ ہمارے ہاں کے سیاستدان لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    امریکیوں کی اپنے جانوروں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ یہ اپنے والدین کی وفات پر رنجیدہ نہیں ہوتے، ہاں، اپنے کتّے بلّی کے بیمار ہونے پر دھاڑیں مار مار کے روتے ہیں۔ پالتو جانوروں کی خوراک لیبارٹری ٹیسٹ ہونے کے بعد جانوروں کے لیے مخصوص سپر اسٹوروں میں رکھی جاتی ہے۔ خوراک کی پیکنگ اتنی خوبصورت اور دیدہ زیب ہوتی ہے کہ اگر تھرڈ ورلڈ کا کوئی غریب انسان دیکھے تو کتوں کی غذائیت سے بھرپور عمدہ خوراک دیکھ کر اس کا جی بھونکنے کو کر اٹھے۔ جانوروں کے علاج معالجے کے لیے ہم نے یہاں جو کلینک اور اسپتال دیکھے تو ہمارا دل اپنے ملک کے اسپتال یاد کر کے وہاں کے مریضوں کی طرح تڑپ اٹھا۔

    جانوروں کے بعد یہاں بچوں کو جو سہولتیں میسر ہیں وہ ہمارے کسی بڑے سرکاری افسر کو ہی میسر ہو سکتی ہیں۔ امریکن والدین بچوں پر انگلی اٹھانا تو کجا، انہیں گھور کر بھی دیکھیں تو بچے نائن ون ون پر کال کر کے پولیس بلوا لینے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ چنانچہ ماں باپ کا دل اگر کبھی بچّے کو گھورنے کو کرے بھی تو وہ سیاہ چشمہ پہن کر گھور لیتے ہیں، تاکہ ان کی تیکھی نظروں کو بچہ دیکھ نہ پائے۔ اسی طرح اگر والدین کا اپنے بچوں کو ڈانٹنے کو جی کرے تو انہیں اپنے دل میں ہی برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔

    ہم اگر دنیا کے نقشے پر امریکا کو دیکھیں تو امریکا ہمیں باقی دنیا سے الگ اور الٹی جانب دکھائی دے گا۔ شاید اسی خاصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا نے اپنا ہر کام وکھری ٹائپ کا ہی اپنایا ہوا ہے۔ یہاں ٹریفک کے سوا ہر حرکت الٹ کی جاتی ہے۔ بجلی کے سوئچ الٹی جانب یعنی اوپر کی طرف آن ہوتے ہیں، ٹوپیاں الٹی پہنی جاتی ہیں، انگلش وکھری ٹائپ کی بولی جاتی ہے، عورتوں کی نسبت مردوں کو زیادہ ڈھانپا جاتا ہے۔ امریکا میں آپ کو سڑک پر چلتا ہوا کوئی بندہ شاذ و نادر ہی نظر آئے گا۔ سڑک پر پتھر مارنے تک کو نہیں ملے گا۔ رہائشی علاقے میں اتنی خاموشی ملے گی کہ قبرستان کا گمان ہو گا۔ عرب ملکوں کی طرح امریکا میں سڑکوں پر کوئی گورا آنکھ میں ڈالنے تک کو نہیں ملے گا۔ اس الٹی دنیا میں بسنے کے لیے تیسری دنیا کے سیدھے سادے لوگ اپنے تن، من، دھن اور بال بچوں کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ گرین کارڈ پانے کے لیے اپنی جوانی دن رات گیس اسٹیشن، اسٹور اور ٹیکسی چلانے میں کھو دیتے ہیں۔ اسی الٹی دنیا میں بسنے والی ایک پاکستانی شاعرہ نے کیا خوب کہا ہے کہ:

    قسمت کی ریکھائیں سیدھی کرنے کو
    الٹی جانب دنیا کے ہم آن بسے​

    (فاروق قیصر کے قلم سے)

  • ہم اور ہمارا امتحان

    ہم اور ہمارا امتحان

    نہ ہوئی گر میرے پرچوں سے تسلی نہ سہی
    امتحاں اور بھی باقی ہے تو یہ بھی نہ سہی

    لوگ امتحان کے نام سے گھبراتے ہیں لیکن مجھے ان کے گھبرانے پر ہنسی آتی ہے۔ آخر امتحان ایسا کیا ہوّا ہے۔ دو ہی صورتیں ہیں ’فیل یا پاس‘ اس سال کام یاب نہ ہوئے آئندہ سال سہی۔

    میں اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کو دیکھتا تھا کہ جوں جوں امتحان کے دن قریب آتے جاتے ان کے حواس پر، ان کا دماغ مختل اور ان کی صورت اتنی سی نکلتی آتی تھی۔ بندۂ درگاہ پر امتحان کا رتّی برابر اثر پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ گو امتحان سے فارغ ہو چکا ہوں لیکن اب بھی اس کے ختم ہو جانے کا افسوس ہے۔ امیدواروں کا مجمع، نئی نئی صورتیں، عجیب عجیب خیالات، یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے کبھی دل سیر نہیں ہو سکتا۔ جی چاہتا ہے کہ تمام عمر امتحان ہوئے جائے لیکن پڑھنے اور یاد کرنے کی شرط اٹھا دی جائے۔

    میری سنیے کہ دو سال میں لاء کلاس کا کورس پورا کیا۔ مگر کس طرح؟ شام کو یاروں کے ساتھ ٹہلنے نکلتا، واپسی کے وقت لاء کلاس میں بھی جھانک آتا۔ منشی صاحب دوست تھے اور لکچرار صاحب پڑھانے میں مستغرق۔ حاضری کی تکمیل میں کچھ دشواری نہ تھی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ لاء کلاس میں شریک ہونے سے میرے کس مشغلے میں فرق آ سکتا تھا؟ والد صاحب قبلہ خوش تھے کہ بیٹے کو قانون کا شوق ہو چلا ہے۔ کسی زمانے میں بڑے بڑے وکیلوں کے کان کترے گا۔ ہم بھی بے فکر تھے کہ چلو دو برس تک تو کوئی محنت کے لیے کہہ نہیں سکتا۔ بعد میں دیکھیے کون جیتا ہے اور کون مرتا ہے۔ لیکن زمانہ آنکھ بند کیے گزرتا ہے۔ دو سال ایسے گزر گئے جیسے ہوا۔ لاء کلاس کا صداقت نامہ بھی مل گیا۔

    اب کیا تھا والدین امتحانِ وکالت کی تیاری کے لیے سَر ہو گئے مگر میں بھی ایک ذات شریف ہوں۔ ایک بڑھیا اور ایک بڈھے کو دھوکا دینا کیا بڑی بات ہے۔ میں نے تقاضا کیا کہ علاحدہ کمرہ مل جائے تو محنت کروں۔ بال بچّوں کی گڑبڑ میں مجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ چند روز اسی حیلے سے ٹال دیے۔ لیکن تابکے!

    بڑی بی نے اپنے سونے کا کمرہ خالی کر دیا۔ اب میں دوسری چال چلا۔ دروازوں میں جو شیشے تھے ان پر کاغذ چپکا دیا۔ لیمپ روشن کر کے آرام سے سات بجے سو جاتا اور صبح نو بجے اٹھتا۔ اگر کسی نے آواز دی اور آنکھ کھل گئی تو ڈانٹ دیا کہ خواہ مخواہ میری پڑھائی میں خلل ڈالا جاتا ہے۔ اگر آنکھ نہ کھلی اور صبح کو سونے کا الزام لگایا گیا تو کہہ دیا کہ میں پڑھتے وقت کبھی جواب نہ دوں گا، آئندہ کوئی مجھے دق نہ کرے۔ بعض وقت ایسا ہوا کہ لیمپ بھڑک کر چمنی سیاہ ہو گئی اور میری زیادہ محویت اور محنت کا نتیجہ سمجھی گئی۔ بعض وقت والد، والدہ کہتے بھی تھے کہ اتنی محنت نہ کیا کرو لیکن میں زمانے کی ترقی کا نقشہ کھینچ کر ان کا دل خوش کر دیا کرتا تھا۔

    خدا خدا کر کے یہ مشکل بھی آسان ہوگئی اور امتحان کا زمانہ قریب آیا۔ میں نے گھر میں بہت کہا کہ ابھی میں امتحان کے لیے جیسا چاہیے ویسا تیار نہیں ہوں لیکن میری مسلسل حاضری، لاء کلاس اور شبانہ روز کی محنت نے ان کے دلوں پر سکّہ بٹھا رکھا تھا۔ وہ کب ماننے والے تھے۔ پھر بھی احتیاطاً اپنے بچاؤ کے لیے ان سے کہہ دیا اگر میں فیل ہو جاؤں تو اس کی ذمے داری مجھ پر نہ ہوگی۔ کیونکہ میں ابھی اپنے آپ کو امتحان کے قابل نہیں پاتا۔ لیکن والد صاحب مسکرا کے بولے کہ امتحان سے کیوں ڈرے جاتے ہو، جب محنت کی ہے تو شریک بھی ہو جاؤ، کام یابی و ناکام یابی خدا کے ہاتھ ہے۔

    مرد باید کہ ہراساں نشود

    میں نے بھی تقدیر اور تدبیر پر ایک چھوٹا سا لیکچر دے کر ثابت کر دیا کہ تدبیر کوئی چیز نہیں۔ تقدیر سے تمام دنیا کے کام چلتے ہیں۔

    قصہ مختصر درخواستِ شرکت دی گئی اور منظور ہوگئی اور ایک دن وہ آیا کہ ہم ہال ٹکٹ لیے ہوئے مقام امتحان پر پہنچ ہی گئے، گو یاد نہیں کیا تھا لیکن دو وجہ سے کام یابی کی امید تھی۔ اوّل تو امدادِ غیبی، دوسرے پرچوں کی الٹ پھیر۔ شاید وہ حضرات جو امتحان میں کبھی شریک نہیں ہوئے، اس مضمون کو نہ سمجھیں اس لیے ذرا وضاحت سے عرض کرتا ہوں۔

    ’’امدادِ غیبی‘‘ سے مراد امیدوارانِ امتحان کی اصطلاح میں وہ مدد ہے جو ایک کو دوسرے سے یا کسی نیک ذات نگراں کار سے یا عندالموقع کتاب سے پہنچ جاتی ہے۔ پرچوں کی الٹ پھیر گو بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے لیکن تقدیر سب کچھ آسان کر دیتی ہے۔ بعض شریف کم حیثیت ملازم ایسے بھی نکل آتے ہیں جو بہ امیدِ انعام پرچے بدل دیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس سے ایک محنت کرنے والے کو نقصان پہنچ جاتا ہے لیکن تدبیر و تقدیر کا مسئلہ جیسا اس کارروائی میں حل ہوتا ہے، دوسری کسی صورت میں حل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اور بھی صورتیں ہیں لیکن وہ بہت کم پیش آتی ہیں۔ اس لیے ان پر بھروسہ کرنا نادانی ہے۔

    خیر آمدم برسرِ مطلب! پونے دس بجے گھنٹی بجی اور ہم بسم اللہ کہہ کر کمرۂ امتحان میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک بہت خلیق اور ہنس مکھ نگراں کار تھے۔ مجھے جگہ نہیں ملتی تھی۔ میں نے ان سے کہا۔ وہ میرے ساتھ ہو لیے، جگہ بتائی اور بڑی دیر تک ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ میں سمجھا چلو بیڑا پار ہے اللہ دے اور بندہ لے۔

    ٹھیک دس بجے پرچہ تقسیم ہوا۔ میں نے پرچہ لیا۔ سرسری نظر ڈالی اور میز پر رکھ دیا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پرچہ پڑھنے کے بعد جیسا میرے چہرے پر اطمینان تھا شاید ہی کسی کے چہرے پر ہوگا۔ خود تو اس پرچے کے متعلق اندازہ نہ کر سکا لیکن نگراں کار صاحب کو یہ کہتے ضرور سنا کہ پرچہ مشکل ہے۔ میں کئی مرتبہ اوّل سے آخر تک اس کو پڑھ گیا لیکن نہ معلوم ہوا کس مضمون کا ہے۔ جوابات کی کاپی دیکھی۔ اس کے آخر کی ہدایتیں پڑھیں۔ صفحۂ اوّل کی خانہ پری کی اور کھڑا ہو گیا۔ گارڈ صاحب فوراً ہی آئے۔ میں نے ان سے کہا جناب! یہ پرچہ کس مضمون کا ہے۔ وہ مسکرائے، زبان سے تو کچھ نہ بولے مگر پرچے کے عنوان پر انگلی رکھ دی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ’’اصولِ قانون‘‘ کا پرچہ ہے۔ دل کھل گیا۔

    اب کیا تھا میں نے بھی قلم اٹھا کر لکھنا شروع کر دیا۔ کیونکہ اصول کے لیے کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔ اس مضمون پر ہر شخص کو رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ ایک مقنن ایک اصول قائم کرتا ہے۔ دوسرا اس کو توڑ دیتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی رائے کو کسی دوسرے کی تجویز کا پابند کریں۔ میں نے اپنے برابر والے سے پوچھنے کی کوشش بھی کی۔ کچھ ادھر ادھر نگاہ بھی دوڑائی مگر وہ گارڈ صاحب میری حالت کو کچھ ایسا تاڑ گئے تھے کہ ہر وقت بلائے ناگہانی کی طرح سر پر ہی کھڑے رہتے تھے۔ ذرا میں نے ادھر ادھر گردن پھیری اور انہوں نے آواز دی کہ، ’’جناب اپنے پرچے پر نظر رکھیے۔‘‘

    جب دوسروں سے مدد ملنے کی توقع منقطع ہو گئی تو میں نے دل میں سوچا کہ چلو ان گارڈ صاحب ہی سے پوچھیں۔ میں کھڑا ہو گیا۔ وہ آئے، میں نے دریافت کیا کہ، ’’جناب والا اس دوسرے سوال کا کیا جواب ہے۔‘‘ وہ مسکرائے اور کہا کہ ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ میں نے کہا کہ یہ برابر والے بڑے زور سے لکھ رہے ہیں ان سے پوچھ دیجیے اور اگر آپ کو دریافت کرتے ہوئے لحاظ آتا ہے تو ذرا ادھر ٹہلتے ہوئے تشریف لے جائیے میں خود پوچھ لوں گا۔‘‘ مگر وہ کب ہلنے والے تھے۔ قطب ہو گئے۔ ان کا مسکرانا پہلے تو بہت اچھا معلوم ہوتا تھا لیکن پھر آخر میں تو زہر ہو گیا۔ میں واللہ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام عمر میں قلبی نفرت مجھے کسی سے ہوئی ہے تو انہیں صاحب سے ہوئی ہے۔ ان کا وہ مسکراتے ہوئے ٹہلنا مجھے ایسا برا معلوم ہوتا تھا کہ کئی دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ اگر میرے برابر کھڑے ہو کر یہ مسکرائے تو ضرور گلخپ ہو جاؤں لیکن پھر سوچا کہ سرکاری معاملہ ہے۔ کہیں اینچن چھوڑ کر گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں۔ اس لیے چپکا ہو رہا۔

    غرض اس طرح یہ تمام دن امتحان کے گزر گئے۔ لیکن آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے ظالم کے ساتھ ایسی حالت میں کہ ایک حرف بھی یاد نہ ہو، پورے چھ گھنٹے گزارنے کیسے مشکل ہوں گے۔ میں تو ہر روز آدھ گھنٹے کے بعد ہی کمرے سے نکل آتا لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ والد صاحب روز گیارہ بجے سے آ جاتے اور نیچے صحن میں بیٹھے رہتے۔ اب میں جلدی باہر آ جاتا تو جو رعب میں نے دو سال کے عرصے میں قائم کیا تھا وہ سب ہوا ہو جاتا۔ اس لیے قہرِ درویش بر جانِ درویش آخری وقت تک کمرہ امتحان میں بیٹھا رہتا اور جب نیچے اترتا تو والد صاحب سے پرچے کی سختی کی ضرور شکایت کرتا۔ وہ بھی میری تشفی کے لیے ممتحن کو بہت برا بھلا کہتے لیکن ان کو یہ خیال ہو گیا تھا کہ کچھ ہی کیوں نہ ہو میرا بیٹا کام یاب ضرور ہوگا۔

    امتحان ختم ہوا اور امید نمبر ایک اور دو کا خون ہو گیا۔ اب ممتحنوں کے پاس کوشش کی سوجھی۔ والد صاحب ایک زبردست چٹھی سفارش کی لے کر ایک صاحب کے ہاں پہنچے۔ وہ چٹھی دیکھ کر بہت اخلاق سے ملے۔ آنے کی وجہ دریافت کی۔ والد نے عرض کیا کہ خادم زادہ اس سال امتحان میں شریک ہوا ہے۔ اگر آپ کچھ کوشش فرمائیں تو یہ خانہ زاد ہمیشہ ممنونِ احسان رہے گا۔

    وہ بہت ہنسے اور دوسرے لوگوں سے جو سلام کو حاضر ہوئے تھے فرمانے لگے۔ یہ عجیب درخواست ہے۔ ان کا بیٹا تو امتحان دے اور کوشش میں کروں۔ بندۂ خدا اپنے لڑکے سے کہو وہ خود کوشش کرے۔ بے چارے بڑے میاں ایسے نادم ہوئے کہ پھر کسی کے پاس نہ گئے۔

    کچھ عرصے بعد نتیجہ بھی شائع ہو گیا اور کم ترین جملہ مضامین میں بدرجۂ اعلیٰ فیل ہوا۔ خبر نہیں کہ وہ کون سے بھلے مانس ممتحن تھے کہ انہوں نے دو نمبر بھی دیے۔ باقی نے تو صفر ہی پر ٹالا۔

    (مرزا فرحت اللہ بیگ کی ایک شگفتہ تحریر)

  • کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جو بین فرق ہماری سمجھ میں آیا، یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہے جہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لیے کھیل ہے اور گھوڑے کے لیے کام۔

    ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبرنہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈو اللہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ “پڑھ‘‘ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے، ’‘فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعۂ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بد معاشی سمجھتے ہیں۔‘‘ اب یہ تنقیح قائم کی جا سکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ دراصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگّا کھاتا ہے۔

    ان کی قومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہوجاتے ہیں اور معاملاتِ محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔

    کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تأسف کا اظہار کرنا اپنی نا واقفیتِ عامّہ کا ثبوت دینا ہے۔ 1857ء کی رست خیز کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرأت کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔

    اب اگر کوئی سر پھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہو جائے۔ مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستور نہیں، اس لیے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کر کے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجدین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔

    غالبؔ نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہو کر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچّوں کا سا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچّہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیر سنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔ کرکٹ کے رسیا ہم جیسے ناآشنائے فن کو لاجواب کرنے کے لیے اکثر کہتے ہیں، ’’میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس!‘‘ عجیب اتفاق ہے۔ تاش کے دھتی بھی رمی کے متعلق نہایت فخر سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سولہ آنے سائنٹیفک کھیل ہے۔ بَکنے والے بَکا کریں، لیکن ہمیں رمی کے سائنٹیفک ہونے میں مطلق شبہ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ ہارنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک طریقہ ہنوز دریافت نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ کرکٹ اور رمی قطعی سائنٹیفک ہیں اور اسی بنا پر کھیل نہیں کہلائے جاسکتے۔

    بات یہ ہے کہ جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا کھیل کھیل نہیں رہتا کام بن جاتا ہے۔ ایک دفعہ کرکٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ہم نے مرزا سے کہا کہ کھیلوں میں وہی کھیل افضل ہے جس میں دماغ پر کم سے کم زور پڑے۔

    فرمایا، ’’بجا! آپ کی طبعِ نازک کے لیے نہایت موزوں رہے گا۔ کس واسطے کہ جوئے کی قانونی تعریف یہی ہے کہ اسے کھیلنے کے لیے عقل قطعی استعمال نہ کرنی پڑے۔‘‘ محض کرکٹ ہی پر منحصر نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان عام ہے کہ تعلیم نہایت آسان اور تفریح روز بروز مشکل ہوتی جاتی ہے (مثلاً بی اے کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر برج سیکھنے کے لیے عقل درکار ہے) ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور با تصویر کتابوں نے اب تعلیم کو بالکل آسان اور عام کر دیا ہے لیکن کھیل دن بدن گراں اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا بعض غبی لڑکے کھیل سے جی چرا کر تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔

    اس سے جو سبق آموز نتائج رونما ہوئے وہ سیاست دانوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔

    کسی اعتدال پسند دانا کا قول ہے، ’’کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کام اچھا۔‘‘ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں اس زرّیں اصول سے سراسر اختلاف ہے تو اس کو یہ معنیٰ نہ پہنائے جائیں کہ خدانخواستہ ہم شام و سحر، آٹھوں پہر کام کرنے کے حق میں ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم اپنا شمار ان نارمل افراد میں کرتے ہیں جن کو کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کھیل ہی اچھا لگتا ہے اور جب کھل کے باتیں ہو رہی ہیں تو یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ فی الواقع کام ہی کے وقت کھیل کا صحیح لطف آتا ہے۔ لہٰذا کرکٹ کی مخالفت سے یہ استنباط نہ کیجیے کہ ہم تفریح کے خلاف بپھرے ہوئے بوڑھوں (ANGROLD MEN) کا کوئی متحدہ محاذ بنانے چلے ہیں۔

    ہم بذاتِ خود سو فی صد تفریح کے حق میں ہیں، خواہ وہ تفریح برائے تعلیم ہو، خواہ تعلیم براہِ تفریح! ہم تو محض یہ امر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر چہ قدیم طریقِ تعلیم سے جدید طرزِ تفریح ہزار درجے بہتر ہے؛ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔

    (مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ‘چراغ تلے’ سے ایک شگفتہ پارہ)

  • بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    زمینداروں کے شرعی حقوق کے تحفظ کے لیے تنظیم سازی سے لے کر راہ نماﺅں کے اتحاد کی تشکیل تک طویل سیاسی سفر طے کر کے نواب زادہ نصر ﷲ خان اس دُنیا سے چلے گئے تھے، لیکن گذشتہ رات اچانک ہمارے خواب میں آگئے۔

    کیا دیکھتے ہیں کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان اپنی مخصوص وضع قطع کے ساتھ حقّہ پیتے عالمِ بالا میں پہنچے اور ڈھونڈتے ڈھانڈتے پاکستانی زعماء کی محفل میں وارد ہوگئے۔ یہاں دیگر کے ساتھ ساتھ آپ کی ملاقات بانیٔ پاکستان اور مصوّرِ پاکستان سے بھی ہوئی، جنھوں نے اپنے تصور و تخلیق کردہ ملک کے بارے میں سوالات کرکے نواب زادہ کو اس مشکل میں ڈال دیا کہ حقائق بتا کر اپنے ان محسنوں کو خون کے آنسو رلائیں یا جھوٹ بولنے کی گستاخی کریں۔ بہرحال زیرک سیاست داں نے بیچ کا راستہ نکال لیا، یوں کہ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، یہ خواب منظر کی صورت نذرِ قارئین ہے۔

    ہم نے دیکھا کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان جیسے ہی زعماء کی محفل کے قریب پہنچے، کئی حضرات استقبال کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور آوازیں بلند ہوئیں:

    حسین شہید سہروردی، مولانا مودودی، مفتی محمود: آئیے آئیے خوش آمدید بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے؟

    جنرل ضیاءُ الحق! آگئے…

    قائدِ اعظمؒ: (علّامہ اقبال سے مخاطب ہو کر) ”کون صاحب ہیں؟“

    علامہ اقبالؒ: ترکی ٹوپی تو بتا رہی ہے کہ ہمارے زمانے کے ہیں اور یہ کہ ترک قطعاً نہیں ہیں… سہروردی کو بلا کر پوچھ لیجیے، وہ جانتے ہوں گے۔

    قائد: کیا سہروردی اب ویزے کے بغیر مجھ سے مل سکتے ہیں؟

    علّامہ اقبال: خوش قسمتی سے آپ دونوں عالمِ ارواح میں ہیں ورنہ یہ ممکن نہ تھا۔

    قائد: مسٹر سہروردی! ذرا یہاں تشریف لائیے (ان کے نزدیک آتے ہی قائد پوچھتے ہیں) کون ہیں یہ نووارد؟ تعارف تو کرائیے؟

    سہروردی: (نواب زادہ کو قائد سے متعارف کراتے ہیں) سر! یہ ہیں نواب زادہ نصر ﷲ خان، جو ووٹ کی طاقت سے بنائے گئے آپ کے پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے لیے پچاس سال سے…(کہتے کہتے رک گئے پھر گویا ہوئے) بڑی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔

    قائد: تو جمہوریت آئی؟

    نواب زادہ نصر ﷲ: جی… کئی مرتبہ۔

    قائد: کیا مطلب۔

    نواب زادہ: دراصل ہمارے یہاں خوب سے خوب تر کی تلاش میں جمہوریت بار بار نئے سرے سے لائی جاتی ہے، پھر کبھی سوئے دار اور کبھی کوئے یار روانہ کر دی جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد سنوار کر پھر لے آیا جاتا ہے۔

    قائد: ان کوششوں کے نتیجے میں جمہوریت مستحکم ہوئی؟

    نواب زادہ: صرف مضبوط ہی نہیں بلکہ موٹی تازی، لحیم شحیم اور دیوہیکل ہوچکی ہے۔

    قائد: (تشویش ناک لہجے میں) اب تو نہیں جائے گی۔

    نواب زادہ: کیسے جائے گی، اس بھاری بھر کم جمہوریت کے لیے چلنا تو کجا اُٹھنا بیٹھنا محال ہے۔

    قائد: تو گویا جمہوریت کے لیے آپ کی جدوجہد کام یاب ہوگئی، یقیناً آپ اور قوم نے میرے دیے ہوئے اصولوں، ایمان، اتحاد اور تنظیم پر عمل کیا ہوگا۔

    نواب زادہ: جی ہاں، بالخصوص اتحاد پر، میری تو ساری عمر گزری ہی اتحاد کی سیاست میں۔

    قائد: اس سیاست کے مثبت نتائج نکلے؟

    نواب زادہ: بالکل! یہاں تک کہ جس حکم راں کے خلاف اتحاد بنایا کچھ عرصے بعد وہ خود میرے ساتھ نئے اتحاد میں شریک تھا۔

    قائد: اور ڈسپلن؟

    نواب زادہ: حضرت! ہماری قوم نے تو ڈسپلن کے زیرِ سایہ ہی زندگی گزاری ہے، ہم بڑے منظم انداز میں لیفٹ رائٹ اور نہایت سرعت کے ساتھ اباﺅٹ ٹرن کر لیتے ہیں۔

    قائد: اور ایمان کا کیا کیا؟

    نواب زادہ: بُرے وقتوں کے لیے بچا رکھا ہے، اس کے سہارے خراب حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، پھر سنبھال کر رکھ دیتے ہیں۔

    علّامہ اقبال: یہ تو بتائیے کہ پاکستان کی سلطانیٔ جمہور میں بندے گنے جاتے ہیں یا انھیں تولا جاتا ہے۔

    نواب زادہ: چُنے جاتے ہیں… پھر گنتی پوری کر دی جاتی ہے۔ ویسے اس مرتبہ چُننے کے ساتھ ساتھ تولا بھی گیا ہے۔

    اقبال: نقشِ کُہن مٹے؟

    نواب زادہ: منٹو پارک اب اقبال پارک اور گاندھی گارڈن جناح گارڈن ہوگیا ہے۔

    اقبال: بھئی میں جمہوریت کے حوالے سے پوچھ رہا ہوں؟

    نواب زادہ: کیوں نہیں ہر حکم راں نے مٹائے۔ بعض نے تو اپنے پیش رو کو بھی نقشِ کہن سمجھ کر مٹا دیا۔

    قائد: فوج کا کیا حال ہے۔

    نواب زادہ: جو ماضی میں تھا۔

    قائد: ”ماضی میں جنرل گریسی نے میرا حکم نہیں مانا تھا، اب تو جنرلوں میں تبدیلی آگئی ہوگی۔

    نواب زادہ: الحمدُ للہ اب سارے مسلمان ہیں۔

    اقبال: کیا یہ جنرل شاہین صفت ہیں۔

    نواب زادہ: کسی حد تک، یعنی جھپٹتے تو ضرور ہیں مگر پھر پلٹتے نہیں۔

    قائد: جمہوریت کو کوئی خطرہ تو نہیں؟

    نواب زادہ: (چند لمحے توقف کے بعد رندھی ہوئی آواز میں) نہیں جناب جمہوریت بڑے مضبوط ہاتھوں میں ہے۔

    یہ سُن کر قائد اور اقبال کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے، نواب زادہ پُر نم آنکھیں جھکائے اُٹھ کر کسی طرف چل دیے اور ہمارا خواب ٹوٹ گیا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ مضامین کے مجموعے "کہے بغیر”‌ سے انتخاب)

  • نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟

    نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟

    لکھنؤ اور کانپور اردو کے گڑھ تھے۔ بے شمار اردو اخبار نکلتے تھے۔

    خیر، آپ تو مان کے نہیں دیتے۔ مگر صاحب ہماری زبان سند تھی۔ اب یہ حال ہے کہ مجھے تو سارے شہر میں ایک بھی اردو سائن بورڈ نظر نہیں آیا۔ لکھنؤ میں بھی نہیں۔ میں نے یہ بات جس سے کہی وہ آہ بھر کے یا منھ پھیر کے خاموش ہو گیا۔ شامتِ اعمال، یہی بات ایک محفل میں دہرا دی تو ایک صاحب بپھر گئے۔ غالباً ظہیر نام ہے۔ میونسپلٹی کے ممبر ہیں۔ وکالت کرتے ہیں۔ نجانے کب سے بھرے بیٹھے تھے۔

    کہنے لگے، "للہ، ہندوستانی مسلمانوں پر رحم کیجیے۔ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیجیے۔ پاکستان سے جو بھی آتا ہے، ہوائی جہاز سے اترتے ہی اپنا فارن ایکسچینج اچھالتا، یہی رونا روتا آتا ہے۔ جسے دیکھو، آنکھوں میں آنسو بھرے شہر آشوب پڑھتا چلا آ رہا ہے۔ ارے صاحب، ہم نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟ بس جو کوئی بھی آتا ہے، پہلے تو ہر چیز کا موازنہ پچاس برس پہلے کے ہندوستان سے کرتا ہے۔ جب یہ کر چکتا ہے تو آج کے ہندوستان کا موازنہ آج کے پاکستان سے کرتا ہے۔ دونوں مقابلوں میں چابک دوسرے گھوڑے کے مارتا ہے، جتواتا ہے اپنے ہی گھوڑے کو۔” وہ بولتے رہے، میں مہمان تھا، کیا کہتا، وگرنہ وہی (سندھی) مثل ہوتی کہ گئی تھی سینگوں کے لیے، کان بھی کٹوا آئی۔

    لیکن ایک حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بد دیانتی ہو گی۔ ہندوستانی مسلمان کتنا ہی نادار اور پریشان روزگار کیوں نہ ہو، وہ مخلص، با وقار، غیور اور پُر اعتماد ہے۔ نشور واحدی سے لمبی لمبی ملاقاتیں رہیں۔ سراپا محبت، سراپا خلوص، سراپا نقاہت۔ ان کے ہاں شاعروں اور ادیبوں کا جماؤ رہتا ہے۔ دانشور بھی آتے ہیں۔ مگر دانشور ہیں، دانا نہیں۔ سب یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اردو بہت سخت جان ہے۔ دانشوروں کو اردو کا مستقبل غیر تاریک دکھلائی پڑتا ہے۔ بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں۔ سنا ہے ایک مشاعرے میں تو تیس ہزار سے زیادہ سامعیں تھے۔ صاحب مجھے آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کہ جو شعر بیک وقت پانچ ہزار آدمیوں کی سمجھ میں آ جائے وہ شعر نہیں ہو سکتا۔ کچھ اور شے ہے۔ بے شمار سالانہ سمپوزیم اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ سنا ہے کئی اردو ادیبوں کو پدم شری اور پدم بھوشن کے خطاب مل چکے ہیں۔ میں نے کئیوں سے پدم اور بھوشن کے معنی پوچھے تو جواب میں انہوں نے وہ رقم بتائی جو خطاب کے ساتھ ملتی ہے۔ آج بھی فلمی گیتوں، ذو معنی ڈائیلاگ، قوالی اور آپس کی مار پیٹ کی زبان اردو ہے۔ سنسکرت الفاظ پر بہت زور ہے۔ مگر آپ عام آدمی کو سنسکرت میں گالی نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے مخاطب کا پنڈت اور ودوان ہونا ضروری ہے۔ صاحب، بقول شخصے، گالی، گنتی، سرگوشی اور گندا لطیفہ تو اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اردو والے کافی پُر امید ہیں۔ ثقیل ہندی الفاظ بولتے وقت اندرا گاندھی کی زبان لڑکھڑاتی ہے تو اردو والوں کی کچھ آس بندھتی ہے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)