Tag: طنز و مزاح

  • ‘‘آپ ہمارے تیسرے شکار ہیں!’’

    ‘‘آپ ہمارے تیسرے شکار ہیں!’’

    دوسروں کو بنانا خاص کر ان لوگوں کو جو چالاک ہیں یا اپنے کو چالاک سمجھتے ہیں، ایک فن ہے۔

    آپ شاید سمجھتے ہوں گے کہ جس شخص نے بھی ‘‘لومڑی اور کوّے’’ کی کہانی پڑھی ہے۔ وہ بخوبی کسی اور شخص کو بنا سکتا ہے۔ آپ غلطی پر ہیں۔ وہ کوّا جس کا ذکر کہانی میں کیا گیا ہے ضرورت سے زیادہ بے وقوف تھا۔ ورنہ ایک عام کوّا لومڑی کی باتوں میں ہرگز نہیں آتا۔

    لومڑی کہتی ہے۔ ‘‘میاں کوّے! ہم نے سنا ہے تم بہت اچھا گاتے ہو۔’’وہ گوشت کا ٹکڑا کھانے کے بعد جواب دیتا ہے۔‘‘ بی لومڑی۔ آپ نےغلط سنا۔ خاکسار تو صرف کائیں کائیں کرنا جانتا ہے۔’’

    تاہم مایوس ہونےکی ضرورت نہیں۔ تلاش کرنے پر بیوقوف کوّے کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں۔ اس اتوار کا ذکر ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ رائے صاحب موتی ساگر کا کتّا مرگیا۔ ہم فوراً ان کے ہاں پہنچے۔ افسوس ظاہر کرتے ہوئے ہم نے کہا۔ ‘‘رائے صاحب آپ کےساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ برسوں کا ساتھی داغِ مفارقت دے گیا۔’’

    ‘‘پرماتما کی مرضی۔’’ رائے صاحب نے مَری ہوئی آواز میں جواب دیا۔

    ‘‘بڑا خوب صورت کتّا تھا۔ آپ سے تو خاص محبت تھی۔’’

    ‘‘ہاں مجھ سے بہت لاڈ کرتا تھا۔’’

    ‘‘کھانا بھی سنا ہے آپ کے ساتھ کھاتا تھا۔ کہتے ہیں آپ کی طرح مونگ کی دال بہت پسند تھی۔’’

    ‘‘دال نہیں گوشت۔’’

    ‘‘آپ کا مطلب ہے چھیچھڑے۔’’

    ‘‘نہیں صاحب بکرے کا گوشت۔’’

    ‘‘بکرے کا گوشت! واقعی بڑا سمجھ دار تھا۔ تیتر وغیرہ تو کھا لیتا ہوگا۔’’

    ‘‘کبھی کبھی۔’’

    ‘‘سنا ہے۔ ریڈیو باقاعدگی سے سنتا تھا۔’’

    ‘‘ہاں ریڈیو کے پاس اکثر بیٹھا رہتا تھا۔’’

    ‘‘تقریریں زیادہ پسند تھیں یا گانے؟’’

    ‘‘یہ کہنا تومشکل ہے۔’’

    ‘‘میرے خیال میں دونوں۔ سنیما جانے کا بھی شوق ہوگا۔’’

    ‘‘نہیں سنیما تو کبھی نہیں گیا۔’’

    ‘‘بڑے تعجب کی بات ہے۔ پچھلے دنوں تو کافی اچھی فلمیں آتی رہیں۔ خیر اچھا ہی کیا۔ نہیں تو خواہ مخواہ آوارہ ہو جاتا۔’’

    ‘‘بڑا وفادار جانور تھا۔’’

    ‘‘اجی صاحب۔ ایسے کتّے روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ آپ نے شاید اڑھائی روپے میں خریدا تھا۔’’

    ‘‘اڑھائی روپے نہیں اڑھائی سو میں۔’’

    ‘‘معاف کیجئے۔ کسی مہاراجہ نے آپ کو اس کے لئے پانچ روپے پیش کئے تھے۔’’

    ‘‘پانچ نہیں پانچسو۔’’

    ‘‘دوبارہ معاف کیجئے۔ پانچسو کے تو صرف اس کے کان ہی تھے۔ آنکھیں چہرہ اور ٹانگیں الگ۔’’

    ‘‘بڑی رعب دار آنکھیں تھیں اس کی۔’’

    ‘‘ہاں صاحب کیوں نہیں جس سے ایک بار آنکھ ملاتا وہ آنکھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔’’

    ‘‘چہرہ بھی رعب دار تھا۔’’

    ‘‘چہرہ! اجی چہرہ تو ہو بہو آپ سے ملتا تھا۔’’ ‘‘رائے صاحب نے ہماری طرف ذرا گھوم کر دیکھا۔ ہم نے جھٹ اٹھتے ہوئےعرض کیا۔‘‘اچھا رائے صاحب صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں واقعی آپ کو بہت صدمہ پہنچا ہے۔ آداب عرض۔’’

    رائے صاحب سے رخصت ہو کر ہم مولانا کے ہاں پہنچے۔ مولانا شاعر ہیں اور زاؔغ تخلص کرتے ہیں۔

    ‘‘آداب عرض مولانا۔ کہیے وہ غزل مکمل ہوگئی۔’’

    ‘‘کونسی غزل قبلہ۔’’

    ‘‘وہی۔ اعتبار کون کرے۔ انتظار کون کرے؟’’

    ‘‘جی ہاں ابھی مکمل ہوئی ہے۔’’

    ‘‘ارشاد۔’’

    ‘‘مطلع عرض ہے۔ شاید کچھ کام کا ہو۔

    جھوٹے وعدے پہ اعتبارکون کرے
    رات بھر انتظار کون کرے’’

    ‘‘سبحان اللہ۔ کیا کرارا مطلع ہے ؎ رات بھر انتظار کون کرے۔ واقعی پینسٹھ سال کی عمر میں رات بھر انتظار کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اور پھر آپ تو آٹھ بجے ہی اونگھنے لگتے ہیں۔’’

    ‘‘ہے کچھ کام کا۔’’

    ‘‘کام کا تو نہیں۔ لیکن آپ کے باقی مطلعوں سے بہتر ہے۔’’

    ‘‘شعرعرض کرتاہوں ؎

    گو حسیں ہے مگر لعیں بھی ہے
    اب لعیں سے پیار کون کرے’’

    ‘‘کیا بات ہےمولانا۔ اس‘لعیں’کا جواب نہیں۔ آج تک کسی شاعر نےمحبوب کے لیےاس لفظ کا استعمال نہیں کیا۔ خوب خبر لی ہے آپ نے محبوب کی۔’’

    ‘‘بجا فرماتے ہیں آپ۔ شعر ہے ؎

    ہم خزاں ہی میں عشق کرلیں گے
    آرزوئے بہار کون کرے

    ‘‘بہت خوب۔ خزاں میں بیگم صاحب شاید میکے چلی جاتی ہیں۔ خوب موسم چنا ہے آپ نے اور پھر خزاں میں محبوب کو فراغت بھی تو ہو گی۔’’

    ‘‘جی ہاں۔عرض کیا ہے ؎

    مر گیا قیس نہ رہی لیلی
    عشق کا کاروبار کون کرے

    ‘‘بہت عمدہ، عشق کا کاروبار کون کرے۔ چشمِ بَد دور آپ جو موجود ہیں۔ ماشاء اللہ آپ قیس سے کم ہیں۔’’

    ‘‘نہیں قبلہ ہم کیا ہیں۔’’

    ‘‘اچھا کسرِ نفسی پر اتر آئے۔ دیکھیے بننے کی کوشش مت کیجیے۔’’

    ‘‘مقطع عرض ہے۔’’

    ‘‘ارشاد۔’’

    ‘‘رنگ کالا سفید ہے داڑھی
    زاغؔ سے پیار کون کرے

    ‘‘اے سبحان اللہ۔ مولانا کیا چوٹ کی ہے محبوب پر۔ واللہ جواب نہیں، اس شعر کا۔ زاغ سے پیار کون کرے۔ کتنی حسرت ہے اس مصرع میں۔’’

    ‘‘واقعی؟’’

    ‘‘صحیح عرض کر رہا ہوں۔ اپنی قسم یہ شعر تو استادوں کے اشعار سے ٹکر لے سکتا ہے۔کتنا خوبصورت تضاد ہے۔ ؎ رنگ کالا سفید ہے داڑھی۔ اور پھر زاغ کی نسبت سے کالا رنگ کتنا بھلا لگتا ہے۔’’

    زاغؔ صاحب سے اجازت لے کر ہم مسٹر‘‘زیرو’’کے ہاں پہنچے۔ آپ آرٹسٹ ہیں اور آرٹ کے جدید اسکول سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنی تازہ تخلیق دکھائی۔ عنوان تھا۔ ‘‘ساون کی گھٹا’’ہم نے سنجیدگی سے کہا۔‘‘سبحان اللہ۔ کتنا خوبصورت لہنگا ہے۔’’

    ‘‘لہنگا۔ اجی حضرت یہ لہنگا نہیں۔ گھٹا کا منظر ہے۔’’

    ‘‘واہ صاحب آپ مجھے بناتے ہیں۔ یہ ریشمی لہنگا ہے۔’’

    ‘‘میں کہتا ہوں یہ لہنگا نہیں ہے۔’’

    ‘‘اصل میں آپ نے لہنگا ہی بنایا ہے لیکن غلطی سے اسے ساون کی گھٹا سمجھ رہے ہیں۔’’

    ‘‘یقین کیجیے میں نے لہنگا……’’

    ‘‘اجی چھوڑیے آپ کے تحت الشعور میں ضرور کسی حسینہ کا لہنگا تھا۔ دراصل آرٹسٹ بعض اوقات خود نہیں جانتا کہ وہ کس چیز کی تصویر کشی کررہا ہے۔’’

    ‘‘لیکن یہ لہنگا ہرگز نہیں….’’

    ‘‘جناب میں کیسےمان لوں کہ یہ لہنگا نہیں۔ کوئی بھی شخص جس نے زندگی میں کبھی لہنگا دیکھا ہے۔ اسے لہنگا ہی کہے گا۔’’

    ‘‘دیکھیےآپ زیادتی کر رہے ہیں۔’’

    ‘‘اجی آپ آرٹسٹ ہوتے ہوئے بھی نہیں مانتے کہ آرٹ میں دو اور دو کبھی چار نہیں ہوتے۔ پانچ، چھ، سات یا آٹھ ہوتے ہیں۔ آپ اسے گھٹا کہتے ہیں۔ میں لہنگا سمجھتا ہوں۔ کوئی اور اسے مچھیرے کا جال یا پیرا شوٹ سمجھ سکتا ہے۔’’

    ‘‘اس کا مطلب یہ ہوا۔ میں اپنےخیال کو واضح نہیں کرسکا۔’’

    ‘‘ہاں مطلب تو یہی ہے۔ لیکن بات اب بھی بن سکتی ہے۔ صرف عنوان بدلنے کی ضرورت ہے۔’’ساون کی گھٹا۔‘ کی بجائے’۔ ان کا لہنگا‘ کردیجیے’۔

    مسٹر زیرو نے دوسری تصویر دکھاتے ہوئے کہا۔‘‘ اس کےمتعلق کیا خیال ہے، ’’غور سے تصویر کو دیکھنے کے بعد ہم نےجواب دیا۔‘‘یہ ریچھ تو لا جواب ہے۔’’

    زیرو صاحب نے چیخ کر کہا۔‘‘ریچھ کہاں ہے یہ’’

    ‘‘ریچھ نہیں تو اور کیا ہے۔’’

    ‘‘یہ ہے زمانۂ مستقبل کا انسان۔’’

    ‘‘اچھا تو آپ کے خیال میں مستقبل کا انسان ریچھ ہو گا۔’’

    ‘‘صاحب یہ ریچھ ہرگز نہیں۔’’

    ‘‘چلیے آپ کو کسی ریچھ والے کے پاس لے چلتے ہیں۔ اگر وہ کہہ دے کہ یہ ریچھ ہے تو۔’’

    ‘‘تو میں تصویر بنانا چھوڑ دوں گا۔’’

    ‘‘تصویریں تو آپ ویسے ہی چھوڑ دیں تو اچھا رہے۔’’

    ‘‘وہ کس لیے۔’’

    ‘‘کیونکہ جب کوئی آرٹسٹ انسان اور ریچھ میں بھی تمیز نہیں کرسکتا۔ تو تصویریں بنانے کا فائدہ۔’’

    مسٹر زیرو نے جھنجھلا کر کہا۔‘‘یہ آج آپ کو ہو کیا گیا ہے۔’’

    ہم نے قہقہہ لگا کر عرض کیا۔‘‘آج ہم بنانے کے موڈ میں ہیں۔ اور خیر سے آپ ہمارے تیسرے شکار ہیں!۔’’

    (معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم سے)

  • بُلبل غلطیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتی!

    بُلبل غلطیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتی!

    بلبل ایک روایتی پرندہ ہے جو ہر جگہ موجود ہے سوائے وہاں کے جہاں اسے ہونا چاہیے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ نے چڑیا گھر میں یا باہر بلبل دیکھی ہے تو یقیناً کچھ اور دیکھ لیا ہے۔ ہم ہر خوش گلو پرندے کو بلبل سمجھتے ہیں۔ قصور ہمارا نہیں ہمارے ادب کا ہے۔

    شاعروں نے نہ بلبل دیکھی ہے، نہ اسے سنا ہے۔ کیوں کہ اصلی بلبل اس ملک میں نہیں پائی جاتی۔ سنا ہے کہ کوہِ ہمالیہ کے دامن میں کہیں کہیں بلبل ملتی ہے لیکن کوہِ ہمالیہ کے دامن میں شاعر نہیں پائے جاتے۔

    عام طور پر بلبل کو آہ و زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور رونے پیٹنے کے لیے اکسایا جاتا ہے۔ بلبل کو ایسی باتیں بالکل پسند نہیں۔ ویسے بلبل ہونا کافی مضحکہ خیز ہوتا ہوگا۔ بلبل اور گلاب کے پھول کی افواہ کسی شاعر نے اڑائی تھی، جس نے رات گئے گلاب کی ٹہنی پر بلبل کو نالہ و شیون کرتے دیکھا تھا۔ کم از کم اس کا خیال تھا کہ وہ پرندہ بلبل ہے اور وہ چیز نالہ وشیون۔ دراصل رات کو عینک کے بغیر کچھ کا کچھ دکھائی دیتا ہے۔

    بلبل پروں سمیت محض چند انچ لمبی ہوتی ہے۔ یعنی اگر پروں کو نکال دیا جائے تو کچھ زیادہ بلبل نہیں بچتی۔ بلبل کی نجی زندگی کے متعلق طرح طرح کی باتیں مشہور ہیں۔ بلبل رات کو کیوں گاتی ہے؟ پرندے جب رات کو گائیں تو ضرور کچھ مطلب ہوتا ہے۔ وہ اتنی رات گئے باغ میں اکیلی کیوں جاتی ہے؟ بلبل کو چہچہاتے سن کر دور کہیں ایک اور بلبل چہچہانے لگتی ہے۔ پھر کوئی بلبل نہیں چہچہاتی وغیرہ۔ ہمارے ملک میں تو لوگ بس اسکینڈل کرنا جانتے ہیں۔ اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر کسی چیز کا یقین نہیں کرنا چاہیے۔

    کبھی کبھی بلبل غلطیاں کرتی ہے، لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھاتی۔ چناں چہ پھر غلطیاں کرتی ہے۔ سیاست میں تو یہ عام ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ بلبل کے گانے کی وجہ اس کی غمگین خانگی زندگی ہے، جس کی وجہ یہ ہر وقت کا گانا ہے۔ دراصل بلبل ہمیں محظوظ کرنے کے لیے ہرگز نہیں گاتی۔ اسے اپنے فکر ہی نہیں چھوڑتے۔

    کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بلبل گاتے وقت بل۔ بل، بلبل۔ بل کی سی آوازیں نکالتی ہے۔ یہ غلط ہے۔ بلبل پکے راگ گاتی ہے یا کچّے؟ بہرحال اس سلسلے میں وہ بہت سے موسیقاروں سے بہتر ہے۔ ایک تو وہ گھنٹے بھر کا الاپ نہیں لیتی۔ بے سُری ہو جائے تو بہانے نہیں کرتی کہ ساز والے نکمے ہیں۔ آج گلا خراب ہے۔ آپ تنگ آجائیں، تو اسے خاموش کرا سکتے ہیں۔ اور کیا چاہیے؟

    جہاں تیتر ’’سبحان تیری قدرت‘‘ پپیہا ’’پی کہا‘‘ اور گیدڑ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہتا ہوا سنا گیا ہے، وہاں بلبل کے متعلق وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی مصرعے کے ایک حصّے پر اٹک گئی ہو۔ مثلاً مانا کہ ہم پہ جور و جفا، جور و جفا، جور و جفا۔ یا تعریف اس خدا کی، خدا کی، خدا کی۔ اور دِلے بفر و ختم، بفر و ختم، بفر و ختم۔ شاید اسی میں آرٹ ہو۔

    ہو سکتا ہے کہ ہماری توقعات زیاد ہوں، لیکن یہ گانے کا ریکٹ اس نے خود شروع کیا تھا۔ بلبل کو شروع شروع میں قبول صورتی، گانے بجانے کے شوق اور نفاست پسندی نے بڑی شہرت پہنچائی۔ کیوں کہ یہ خصوصیات دوسرے پرندوں میں یک جا نہیں ملتی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نوعیت جاتی رہی اور لوگوں کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ ادھر بلبل پر نئی نئی تحریکوں اور جدید قدروں کا اتنا سا بھی اثر نہیں ہوا، چناں چہ اب بلبل سو فی صدی رجعت پسند ہے۔ کچھ لوگ اس زمانے میں بھی بلبل کے نغموں، چاندنی راتوں اور پھولوں کے شائق ہیں۔ یہ لوگ حالات حاضرہ اور جدید مسائل سے بے خبر ہیں اور سماج کے مفید رکن ہرگز نہیں بن سکتے۔ وقت ثابت کر دے گا کہ وغیرہ وغیرہ۔

    جیسے گرمیوں میں لوگ پہاڑ پر چلتے جاتے ہیں اسی طرح پرندے بھی موسم کے لحاظ سے نقلِ وطن کرتے ہیں۔ بلبل کبھی سفر نہیں کرتی۔ اس کا خیال ہے کہ وہ پہلے ہی سے وہاں ہے جہاں اسے پہنچنا چاہیے تھا۔ ہمارے ادب کو دیکھتے ہوئے بھی بلبل نے اگر اس ملک کا رخ کیا تو نتائج کی ذمہ دار خود ہوگی۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کے قلم سے)

  • "آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟”

    "آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟”

    ایک دن مرزا غالب نے مومن خاں مومن سے پوچھا، ’’حکیم صاحب! آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟‘‘

    مومن نے جواب میں کہا، ’’مرزا صاحب! اگر درد سے آپ کا مطلب داڑھ کا درد ہے، تو اس کی کوئی دوانہیں۔ بہتر ہوگا آپ داڑھ نکلوا دیجیے کیوں کہ ولیم شیکسپیر نے کہا ہے‘‘، ’’وہ فلسفی ابھی پیدا نہیں ہوا جو داڑھ کا درد برداشت کر سکے۔‘‘

    مرزا غالب نے حکیم صاحب کی سادہ لوحی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے فرمایا، ’’میری مراد داڑھ کے درد سے نہیں، آپ کی دعا سے ابھی میری تمام داڑھیں کافی مضبوط ہیں۔‘‘

    ’’تو پھر شاید آپ کا اشارہ دردِ سر کی طرف ہے، دیکھیے مرزا صاحب! حکما نے دردِ سر کی درجنوں قسمیں گنوائی ہیں۔ مثلاً آدھے سر کا درد، سر کے پچھلے حصے کا درد، سر کے اگلے حصے کا درد، سر کے درمیانی حصے کا درد، ان میں ہر درد کے لیے ایک خاص بیماری ذمہ دار ہوتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کے سر کے درمیانی حصہ میں درد ہوتا ہے تو ممکن ہے آپ کے دماغ میں رسولی ہو۔ اگر کنپٹیوں پر ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے آپ کی بینائی کمزور ہو گئی ہو۔ دراصل درد سر کو مرض نہیں مرض کی علامت سمجھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’بہرحال چاہے یہ مرض ہے یا مرض کی علامت، مجھے درد کی شکایت نہیں ہے۔‘‘

    ’’پھر آپ ضرور دردِ جگر میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آپ نے اپنے کچھ اشعار میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔

    مثلاً؛ یہ خلش کہاں ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

    یا…..حیراں ہوں روؤں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں‘‘

    مرزا صاحب، حکما نے اس مرض کے لیے ’’پپیتا‘‘ کو اکسیر قرار دیا ہے۔ کسی تک بند نے کیا خوب کہا ہے۔

    جگر کے فعل سے انساں ہے جیتا
    اگر ضعفِ جگر ہے کھا پپیتا

    ’’آپ کا یہ قیاس بھی غلط ہے۔ میرا آ ج تک اس مرض سے واسطے نہیں پڑا۔‘‘

    ’’تو پھر آپ اس شاعرانہ مرض کے شکار ہو گئے ہیں جسے دردِ دل کہا جاتا ہے اور جس میں ہونے کے بعد میر کو کہنا پڑا تھا،

    الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا

    ’’معلوم ہوتا ہے اس ڈومنی نے جس پر مرنے کا آپ نے اپنے ایک خط میں ذکر کیا ہے آپ کو کہیں کا نہیں رکھا۔‘‘

    ’’واہ حکیم صاحب! آپ بھی دوسروں کی طرح میری باتوں میں آ گئے۔ اجی قبلہ کیسی ڈومنی اور کہاں کی ڈومنی وہ تو میں نے یونہی مذاق کیا تھا۔ کیا آپ واقعی مجھے اتنا سادہ لوح سمجھتے ہیں کہ مغل زادہ ہو کر میں ایک ڈومنی کی محبت کا دم بھروں گا۔ دلّی میں مغل زادیوں کی کمی نہیں۔ ایک سے ایک حسین و جمیل ہے۔ انہیں چھوڑ کر ڈومنی کی طرف رجوع کرنا بالکل ایسا ہے جیسا کہ آپ نے اپنے شعر میں بیان کیا ہے؛

    اللہ رے گمرہی! بت و بت خانہ چھوڑ کر
    مومن چلا ہے کعبہ کو اک پارسا کے ساتھ

    ’’خدا نخواستہ کہیں آپ کو جوڑوں کا درد تو نہیں۔ دائمی زکام کی طرح یہ مرض بھی اتنا ڈھیٹ ہے کہ مریض کی ساری عمر جان نہیں چھوڑتا، بلکہ کچھ مریض تو مرنے کے بعد بھی قبر میں اس کی شکایت کرتے سنے گئے ہیں۔ عموماً یہ مرض جسم میں تیزابی مادّہ کے زیادہ ہو جانے سے ہوتا ہے۔‘‘

    ’’تیزابی مادہ کو ختم کرنے کے لیے ہی تو میں ہر روز تیزاب یعنی شراب پیتا ہوں۔ ہومیو پیتھی کا اصول ہے کہ زہر کا علاج زہر سے کیا جانا چاہیے۔ خدا جانے یہ سچ ہے یا جھوٹ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ شراب نے مجھے اب تک جوڑوں کے درد سے محفوظ رکھا ہے۔‘‘

    ’’پھر آپ یقینا دردِ گردہ میں مبتلا ہیں۔ یہ درد اتنا ظالم ہوتا ہے کہ مریض تڑپ تڑ کر بے حال ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’میرے گردے ابھی تک سلامت ہیں شاید اس لیے کہ میں بڑے دل گردے کا انسان ہوں۔‘‘

    ’’اگر یہ بات ہے تو پھر آپ کو محض وہم ہو گیا ہے کہ آپ کو درد کی شکایت ہے اور وہم کی دوا نہ لقمان حکیم کے پاس تھی نہ حکیم مومن خاں مومنؔ کے پاس ہے۔‘‘

    ’’قبلہ میں اس درد کا ذکر کر رہاہوں جسے عرفِ عام میں ’’زندگی‘‘ کہتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا، زندگی! اس کا علاج تو بڑا آسان ہے ، ابھی عرض کیے دیتا ہوں۔‘‘

    ’’ارشاد۔ ‘‘

    ’’کسی شخص کو بچھو نے کاٹ کھایا۔ درد سے بلبلاتے ہوئے اس نے ایک بزرگ سے پوچھا، اس درد کا بھی کوئی علاج ہے، بزرگ نے فرمایا، ’’ہاں ہے اور یہ کہ تین دن چیختے اور چلاتے رہو۔ چوتھے دن درد خود بخود کافور ہو جائے گا۔‘‘

    ’’سبحان اللہ! حکیم صاحب، آپ نے تو گویا میرے شعر کی تفسیر کر دی۔‘‘

    ’’کون سے شعر کی قبلہ؟‘‘

    ’’اس شعر کی قبلہ…

    غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

    نیند کیوں رات بھر…..

    ایک مرتبہ مرزا غالب نے شیخ ابراہیم ذوقؔ سے کہا، ’’شیخ صاحب! نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟‘‘ ذوق نے مسکراکر فرمایا۔ ظاہر ہے جس کمرے میں آپ سوتے ہیں ، وہاں اتنے مچھر ہیں کہ وہ رات بھر آپ کو کاٹتے رہتے ہیں۔ اس حالت میں نیند آئے بھی تو کیسے؟

    معلوم ہوتا ہے یا توٓپ کے پاس مسہری نہیں اور اگر ہے تو اتنی بوسیدہ کہ اس میں مچھر اندر گھس آتے ہیں۔ میری مانیے تو آج ایک نئی مسہری خرید لیجیے۔‘‘

    غالب نے ذوقؔ کی ذہانت میں حسبِ معمول اعتماد نہ رکھتے ہوئے جواب دیا، ’’دیکھیے صاحب! آخر ہم مغل زادے ہیں، اب اتنے گئے گزرے بھی نہیں کہ ہمارے پاس ایک ثابت و سالم مسہری بھی نہ ہو اور جہاں تک کمرے میں مچھروں کے ہونے کا سوال ہے۔ ہم دعویٰ سے کہ سکتے ہیں، جب سے ڈی ڈی ٹی چھڑکوائی ہے ایک مچھر بھی نظر نہیں آتا۔ بلکہ اب تو مچھروں کی گنگناہٹ سننے کے لیے ہمسائے کے ہاں جانا پڑتا ہے۔‘‘

    ’’تو پھر آپ کے پلنگ میں کھٹمل ہوں گے۔‘‘

    ’’کھٹملوں کے مارنے کے لیے ہم پلنگ پر گرم پانی انڈیلتے ہیں، بستر پر کھٹمل پاؤڈر چھڑکتے ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی کھٹمل بچ جائے تو وہ ہمیں اس لیے نہیں کاٹتا ہے کہ ہمارے جسم میں اب لہو کتنا رہ گیا ہے۔ خدا جانے پھر نیند کیوں نہیں آتی۔‘‘

    ’’معلوم ہوتا ہے آپ کے دماغ میں کوئی الجھن ہے۔‘‘

    ’’بظاہر کوئی الجھن نظر نہیں آتی۔ آپ ہی کہیے بھلا مجھے کون سی الجھن ہو سکتی ہے۔‘‘ گستاخی معاف! سنا ہے آپ ایک ڈومنی پر مرتے ہیں، اور آپ کو ہماری بھابی اس لیے پسند نہیں کیوں کہ اسے آپ کے طور طریقے نا پسند ہیں۔ ممکن ہے آپ کے تحت الشعور میں یہ مسئلہ چٹکیاں لیتا رہتا ہو۔ ’’آیا امراؤ بیگم کو طلاق دی جائے یا ڈومنی سے قطع تعلق کر لیا جائے۔‘‘

    ’’واللہ! شیخ صاحب آپ کو بڑی دور کی سوجھی! ڈومنی سے ہمیں ایک شاعرانہ قسم کا لگاؤ ضرور ہے لیکن جہاں تک حسن کا تعلق ہے وہ امراؤ بیگم کی گرد کو نہیں پہنچتی۔‘‘

    ’’تو پھر یہ بات ہو سکتی ہے آپ محکمہ انکم ٹیکس سے اپنی اصلی آمدنی چھپا رہے ہیں اور آپ کو یہ فکر کھائے جاتا ہے۔ کسی دن آپ کے گھر چھاپہ پڑ گیا تو ان اشرفیوں کا کیا ہوگا جو آپ نے زمین میں دفن کر رکھی ہیں اور جن کا پتہ ایک خاص قسم کے آلہ سے لگایا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’اجی شیخ صاحب! کیسی اشرفیاں! یہاں زہر کھانے کو پیسہ نہیں شراب تو قرض کی پیتے ہیں اور اسی خود فریبی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہماری فاقہ کشی رنگ لائے گی۔ اگر ہمارے گھر چھاپہ پڑا تو شراب کی خالی بوتلوں اور آم کی گٹھلیوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملےگی۔‘‘

    ’’اچھا وہ جو آپ کبھی کبھی اپنے گھر کو ایک اچھے خاصے قمار خانہ میں تبدیل کر دیتے ہیں، اس کے متعلق کیا خیال ہے۔‘‘

    ’’واہ شیخ صاحب! آپ عجیب باتیں کرتے ہیں، تھوڑا بہت جوا تو ہر مہذب شخص کھیلتا ہی ہے اور پھر ہر کلب میں بڑے بڑے لوگ ہر شام کو ’’برج‘‘ وغیرہ کھیلتے ہیں۔ جوا آخر جوا ہے چاہے وہ گھر پر کھیلا جائے یا کلب میں۔‘‘

    ’’اگر یہ بات نہیں تو پھر آپ کو کسی سے حسد ہے۔ آپ ساری رات حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں اور میر کے اس شعر کو گنگناتے ہیں؛

    اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب
    مجھ دل زدہ کو نیند نہ آئی تمام شب‘‘

    ’’بخدا شیخ صاحب! ہم کسی شاعر کو اپنا مد مقابل ہی نہیں سمجھتے کہ اس سے حسد کریں۔ معاف کیجیے، آپ حالانکہ استادِ شاہ ہیں۔ لیکن ہم نے آپ کے متعلق بھی کہا تھا۔ ذوق کی شاعری بانگ دہل ہے اور ہماری نغمۂ چنگ۔‘‘

    ’’مرزا صاحب! یہ تو صریحاً زیادتی ہے۔ میں نے ایسے شعر بھی کہے ہیں جن پر آپ کو بھی سر دھننا پڑا ہے۔‘‘

    ’’لیکن ایسے اشعار کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔‘‘

    ’’یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم اور کہا تھا آپ نے،

    ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں‘‘

    ’’اگر ہم سخن فہم نہ ہوتے تو آپ کے کلام پر صحیح تبصرہ نہ کر سکتے۔ خیر چھوڑیے بات تو نیند نہ آنے کی ہو رہی تھی۔‘‘

    ’’کسی ڈاکٹر سے اپنا بلڈ پریشر چیک کرائیے۔ ہو سکتا ہے وہ بڑھ گیا ہو۔‘‘

    ’’قبلہ! جب بدن میں بلڈ ہی نہیں رہا تو پریشر کے ہونے یا بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’پھر ہر رات سونے سے پہلے کسی ایسی گولی کا سہارا لیجیے جس کے کھانے سے نیند آجائے۔ آج کل بازار میں ایسی گولیاں عام بک رہی ہیں۔‘‘

    ’’انہیں بھی استعمال کر چکے ہیں۔ نیند تو انہیں کھا کر کیا آتی البتہ بے چینی اور بھی بڑھ گئی۔ اس لیے انہیں ترک کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔‘‘

    ’’کسی ماہرِ نفسیات سے مشورہ کیجیے شاید وہ کچھ۔‘‘

    ’’وہ بھی کر چکے ہیں۔‘‘

    ’’تو کیا تشخیص کی اس نے؟‘‘

    ’’کہنے لگا، آپ کے تحت الشعور میں کسی ڈرنے مستقبل طور پر ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ اس سے نجات حاصل کیجیے۔ آپ کو نیند آنے لگے گی۔‘‘

    ’’یہ تو بڑا آسان ہے، آپ اس ڈر سے نجات حاصل کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘

    ’’لیکن ہمیں پتہ بھی تو چلے وہ کون سا ڈر ہے۔‘‘

    ’’اسی سے پوچھ لیا ہوتا۔‘‘

    ’’پوچھا تھا۔ اس نے جواب دیا، اس ڈر کا پتہ مریض کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا۔‘‘

    ’’کسی لائق ایلو پیتھک ڈاکٹر سے ملیے، شاید وہ۔۔۔‘‘

    ’’اس سے بھی مل چکے ہیں۔ خون، پیشاب، تھوک، پھیپھڑے، دل اور آنکھیں ٹیسٹ کرنے کے بعد کہنے لگا، ان میں تو کوئی نقص نہیں معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو نیند سے الرجی ہو گئی ہے۔‘‘

    ’’علاج کیا بتایا؟‘‘

    ’’کوئی علاج نہیں بتایا۔ دلیل یہ دی کہ الرجی ایک لاعلاج مرض ہے۔‘‘

    ’’آپ اگر اجازت دیں تو خاکسار جو کہ نہ حکیم ہے نہ ڈاکٹر بلکہ محض ایک شاعر آپ کے مرض کا علاج کر سکتا ہے۔‘‘

    ’’ضرور کیجیے۔‘‘

    ’’دیکھیے! اگر آپ کو نیند رات بھر نہیں آتی تو آپ رات کے بجائے دن میں سویا کیجیے۔ یعنی رات کو دن اور دن کو رات سمجھا کیجیے۔‘‘

    ’’سبحان اللہ! کیا نکتہ پیدا کیا ہے۔ تعجب ہے ہمیں یہ آج تک کیوں نہیں سوجھا۔‘‘

    ’’سوجھتا کیسے‘‘، آپ تو اس وہم میں مبتلا ہیں؛

    آج مجھ سا نہیں زمانے میں
    شاعرِ نغر گوئے خوش گفتار

    ’’شیخ صاحب آپ نے خوب یاد دلایا۔ بخدا ہمارا یہ دعویٰ تعلی نہیں حقیقت پر مبنی ہے۔‘‘

    ’’چلیے یوں ہی سہی۔ جب تک آپ استاد شاہ نہیں ہیں مجھے آپ سے کوئی خطرہ نہیں۔‘‘

    ’’یہ اعزاز آپ کو ہی مبارک ہو۔ ہمیں تو پینے کو ’’اولڈ ٹام‘‘ اور کھانے کو ’’آم‘‘ ملتے رہیں۔ ہم خدا کا شکر بجا لائیں گے۔‘‘

    دراصل شراب پی پی کر آپ نے اپنا اعصابی نظام اتنا کمزور کر لیا ہے کہ آپ کو بے خوابی کی شکایت لاحق ہو گئی۔ اس پر ستم یہ کہ توبہ کرنے کی بجائے آپ فخر سے کہا کرتے ہیں۔ ’’ہر شب پیا ہی کرتے ہیں، مے جس قدر ملے۔‘‘

    ’’بس بس شیخ صاحب رہنے دیجیے، ورنہ مجھے آپ کو چپ کرانے کے لیے آپ کا ہی شعر پڑھنا پڑے گا۔‘‘

    ’’کون سا شعر قبلہ؟‘‘

    ’’رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
    تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘

    (اردو ادب کے معروف طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم کی شوخیاں)

  • "غیبت سوسائٹی” کی ضرورت کیوں‌ پیش آئی؟ دل چسپ تفصیل جانیے

    "غیبت سوسائٹی” کی ضرورت کیوں‌ پیش آئی؟ دل چسپ تفصیل جانیے

    آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ہماری ایک غیبت سوسائٹی ہے جس میں ہم لوگ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور ملنے والوں کی حرکات و سکنات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔

    ظاہر ہے کہ تعریف یا اچھائیاں تو مقابل بیٹھ کر کرنے سے ہی سننے والے کو خوش کر دیتی ہیں۔ لیکن اگر ہم کسی کے طرزِ تکلّم پر یا ان کے عادات و اطوار پر اعتراض کریں تو صاحب موصوف کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور بفرضِ محال وہ آپ کی باتوں کا منہ توڑ جواب نہ دیں جو ان کی انسانیت کو ظاہر کرے گا، لیکن اس میں شک نہیں کہ مستقبل میں وہ آپ سے ملنے سے کترانے لگیں گے اور اگر رشتے ناتے کی ایسی ڈور آپ کے بیچ ہے کہ میل ملاقات قطع نہیں کی جاسکتی تو بادلِ نخواستہ آداب سلام کی رواداری کا سلسلہ بنا رہے گا۔

    آپسی محبت و خلوص آپ کی کڑوی سچائی کے زہر میں گھل جائے گا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس نے ہم کو غیبت سوسائٹی بنانے کی ترغیب دی۔

    یہ تو انسانی فطرت ہے کہ دنیا میں، چاہے دینوی معاملہ ہو یا دنیاوی سب کا ہم خیال ہونا ضروری نہیں۔ ہر فرد کسی بھی مسئلے پر جداگانہ طریقے سے غور کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہوں لیکن ظاہر ہے کہ ہر ایک اپنی بات کو صحیح تصور کرتا ہے اور دوسروں سے منوانا چاہتا ہے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ جس دلیل پر اختلافِ رائے ہو یا ہم اوروں کو اپنی رائے سے متفق کرنا چاہیں تو ناخوش گوار حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔

    مجھے یاد آیا کہ ایک بار ہماری غیبت سوسائٹی سے انحراف کرتے ہوئے ایک صاحب کہنے لگے کہ غیبت اور جھوٹ گناہ ہے۔ لوگوں کی خوشی کے لیے دونوں کا سہارا غلط ہے۔ ہم نے سمجھایا کہ ان دونوں کو مصلحت کے تحت اپنایا جائے تو حالات خوش گوار رہتے ہیں۔ اگر ہماری بات صحیح نہیں سمجھتے ہیں تو آزما کر دیکھ لیجیے۔ جناب انہوں نے دل میں ٹھان لی کہ ایک دن صبح سے شام تک میں سچ اور صاف گوئی سے کام لے کر دیکھوں گا۔

    صبح ہوئی بیوی مسکراتی چائے لے کر آئی، انہوں نے ایک گھونٹ لیا ہوگا کہ اس نے اٹھلا کر پوچھا: "اچھی ہے نا؟” اور انہوں نے منہ بنا کر کہا: بالکل بیکار، گرم پانی کی طرح۔

    بیوی کا چہرہ اتر گیا۔ اس کی خدمت گزاری پر اوس پڑ گئی اور وہ وہاں سے چلی گئی۔ پھر یہ صاحب دفتر پہنچے۔ اپنے سینئر افسر سے مڈبھیڑ ہوئی، صاحب سلامت کے بعد انہوں نے اپنی ٹائی کے متعلق پوچھا کیسی ہے؟ انہوں نے کہا کوئی خاص نہیں، آپ کی شرٹ پر تو مناسب نہیں لگتی۔ وہ اپنی ڈریسنگ کی دھجیاں اڑتے دیکھ کر ٹھنڈے پڑ گئے، مگر تمام دن ان صاحب کے ساتھ گرما گرمی کا برتاؤ جاری رکھا۔

    ابھی دن گزرنے میں بہت وقت باقی تھا مگر ان کے ارادے اٹل کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا اور منہ پر کہوں گا۔ کھانے کا وقت آ گیا۔ روز کی طرح سب اکھٹے ہوئے اور ایک ساتھی نے جو خود توشہ نہیں لایا تھا ان کی خاطر شروع کی تو یہ بول اٹھے: خوب جناب، حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ؟ اور وہ جو محبت سے ان کا خیال کر رہا تھا یک دم خاموش ہو گیا۔ اسی طرح گھر واپس آنے تک مختلف ملنے والوں سے ان کے کام کے بارے میں گل فشانی رہی۔ شام کو اسے احساس ہوا کہ اس کے اطراف اترے چہرے یا خفگی بھرا ماحول چھایا ہے، تب ہی اس کو احساس ہوا کہ کسی کے سامنے اس پر اعتراض سے کشیدگی یا بدمزگی ہی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر ہم غیبت کے بنیادی نکتوں پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ ہم خیال لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ گفتگو میں لطف پیدا کرتی ہے۔ اور اس کا سلسلہ طویل ہوتا ہے۔

    غیبت سے یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بات غیبت کرنے میں یہ ہے کہ انسان میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنا جائزہ لینے اور اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جب آپ دوسروں کی بری باتوں کا ذکر کرتے ہیں یا باالفاظ دیگر ان کی خصلت، ان کے طور طریقہ اور ان کے برتاؤ پر تنقید کرتے ہیں تو ڈھکے چھپے طریقے سے یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ برائیاں آپ کی شخصیت میں نہیں۔ اتفاقاً اگر دوسروں کی کچھ قابلِ اعتراض باتیں جنہیں غیبت سوسائٹی میں زیرِ بحث رکھا گیا ہو، اپنے حالات سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہیں، تو اس سوسائٹی کے ممبران سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ شیشے کے گھروں میں رہنے والے دوسروں پر پتھر نہیں پھینک سکتے۔ کیوں کیا خیال ہے آپ کا؟

    (یہ دل چسپ اور مزاحیہ تحریر، نسیمہ ترابُ الحسن (بھارت) کی ہے جو نثر اور مزاح نگاری کے میدان میں "باتیں کہنے سننے کی” اور خاکوں کے مجموعے "نقوشِ دل” کے لیے پہچانی جاتی ہیں)

  • مانگے تانگے کی چیزیں

    مانگے تانگے کی چیزیں

    پچھلے دنوں ایک پرانے رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ مانگے تانگے کی چیزوں کے متعلق ایک مضمون نظر آیا۔

    اصل مضمون تو بیری پین کا ہے۔ اردو میں کسی صاحب نے اس کا چربا اتارا ہے۔ ماحصل یہ کہ مانگے تانگے کی چیزیں برتنا گناہ ہے۔ جیب میں زور ہے تو جس چیز کی ضرورت پڑے بازار سے خرید لائیے، نہیں تو دل پر جبر کیجیے، لیکن اس میں نہ بیری پین کا کوئی کمال ہے نہ اس مضمون کو اردو جامہ پہنانے والے نے کوئی تیر مارا ہے۔

    بڑا پیش پا افتادہ اور پامال سا مضمون ہے۔ جس پر شیخ سعدی کے استاد بوٹے خاں تک سبھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ کتنی ہی سچائیاں ہیں جو منڈی میں جھوٹ کے بھاؤ بک رہی ہیں اور کتنے جھوٹ ہیں جنہوں نے سچ کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ بس اس کو بھی انہیں میں سے سمجھیے۔

    ہمارے بیری پین صاحب تو ولایت میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارتے رہ گئے۔ ذرا ہندوستان آتے تو انہیں قدر عافیت معلوم ہو جاتی۔ یورپ کی بات کو جانے دیجیے۔ ایشیا میں تو زندگی جیسی قیمتی شے کو بھی مانگے تانگے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایران اور ہندوستان کے شاعر ہمیشہ زندگی مستعار ہی کہتے چلے آئے ہیں۔

    میں نے عہدِ جدید کے ترقی پسند شاعروں کا کلام بہت کم پڑھا ہے اور جتنا پڑھا ہے اسے بھول بھی گیا ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ایسے نکل آئیں کہ جن کے نزدیک زندگی کو مستعار کہنا یا سمجھنا فرسودہ خیالی ہو، لیکن پرانے انداز کے سخنور خاص طور پر غزل گو شاعر ہمیشہ زندگی کو مستعار ہی کہیں گے کیونکہ بہار، دیار، شمار قافیہ ہو تو حیاتِ مستعار کی گرما گرم ترکیب مصرع میں یوں بیٹھتی ہے جس طرح انگشتری میں نگینہ۔ ہاں اگر سرے سے قافیہ ہی غتربود ہو جائے تو اور بات ہے۔ لیکن اس بحث کو چھوڑیے اور ذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ جب زندگی ہی مستعار ہے تو اس ٹیں کے کیا معنیٰ ہیں کہ نہیں صاحب ہم تو مانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے۔

    غرض زندگی مستعار ہے۔ اس مستعار زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا سب سے کم خرچ بالا نشین طریقہ یہ ہے کہ جہاں تک بن پڑے مانگے تانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے۔ ممکن ہے کہ آپ کو اجنبیوں سے راہ و رسم پیدا کرنے کی بہت سی ترکیبیں آتی ہوں لیکن مجھے تو بس ایک ہی نسخہ یاد ہے جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے یعنی جب کسی سے شناسائی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تو ہمت کر کے اس سے کوئی چھوٹی موٹی چیز مانگ لیتا ہوں۔

    مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ سگریٹ نکالا لیکن جیب میں دیا سلائی نہیں۔ یہ واقعہ راستہ چلتے پیش آیا تو کسی راہ گیر سے دیا سلائی مانگ کر سگریٹ سلگایا اور دیا سلائی کے ساتھ سگریٹ کیس بھی ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے کسی قدر پس و پیش کے بعد سگریٹ سلگا کے کش لگایا اور اجنبیت کا حجاب دھوئیں کے ساتھ ساتھ ہوا میں تحلیل ہوکے رہ گیا۔

    یہ نسخہ صدری اسرار میں سے نہیں کہ فقیر کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ اکثر لوگوں نے اسے بارہا آزمایا ہے اور ہمیشہ بہت مؤثر پایا ہے اور میں نے بعض لوگوں کو تو دیکھا ہے کہ جیب میں دیا سلائی موجود ہے جب بھی کسی اجنبی سے مانگیں گے۔ پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ دیا سلائی کے اس داد و ستد سے محبت اور دوستی کا جو تعلق قائم ہوا، برسوں کی گرما گرمی میں فرق آنے نہیں پایا۔

    چنانچہ بہت سی دوستیاں جو آگے چل کر شعر و شاعری کا موضوع بنیں اسی قسم کے کسی واقعہ سے شروع ہوئی ہیں اور کہیں کہیں تو ہم نے یوں ہی بیاہ ہوتے اور گھر بستے بھی دیکھے ہیں۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور طنز و مزاح نگار چراغ حسن حسرت کے قلم سے شگفتہ پارہ)

  • ایک گیند پر پندرہ رن!

    ایک گیند پر پندرہ رن!

    میں آپ کو پہلے ہی بتا دوں کہ یہ کہانی کرکٹ کی نہیں، کتّے کی ہے۔

    ہمارے بھائی جان نے ایک کتّا پال رکھا تھا۔ لاکھوں کتّوں کی طرح اس کا نام بھی موتی تھا۔ لیکن بھائی جان کا خیال تھا کہ وہ لاکھوں میں ایک تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ بھائی جان کا ذرا زیادہ ہی لاڈلا تھا۔ اسے نہلاتے، دھلاتے، ٹہلانے لے جاتے اور اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے۔

    موتی بھی ان کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا۔ ان کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا، ان کے جوتے اٹھا کر لاتا، ان کے سودے کی ٹوکری اٹھا کر چلتا، اور ان کے اشاروں پر طرح طرح کے کرتب بھی دکھاتا۔ بھائی جان بھی ہروقت اسے سدھارنے کی فکر میں رہتے۔ ان کا بس چلتا تو موتی کو پڑھنا لکھنا بھی سکھا دیتے۔

    میرے خیال میں موتی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بھائی جان کی کرکٹ ٹیم کا اہم کھلاڑی تھا۔ گیند تو وہ بڑی خوب صورتی سے سنبھالتا۔ بس ہاتھ میں بلّا پکڑنے کی کسر تھی۔ موتی بھائی جان کے بہت سے کام کرنے لگا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ گیند کو ہٹ لگا کر وہ خود تو کھڑے رہیں اور ان کی جگہ موتی دوڑ دوڑ کر رن بنائے۔

    ایک دن بھائی جان کسی ٹیم کے خلاف دوستانہ میچ کھیل رہے تھے۔ بیٹنگ کرتے ہوئے، انھوں نے اپنے دوست کو بلانے کے لیے سیٹی بجائی۔ موتی سمجھا کہ اسے بلایا گیا ہے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جھٹ میدان میں کود پڑا۔ اسی دوران بھائی جان نے ایک چوکا مارنے کی کوشش کی۔ گیند ابھی باؤنڈری لائن تک نہیں گئی تھی کہ موتی نے اسے اپنے منہ میں دبوچ لیا اور رن بناتے بھیا کے ساتھ خود بھی دوڑنا شروع کردیا۔

    اب عالم یہ تھا کہ میدان میں ایک کتّا اور دو کھلاڑی سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور سارے تماشائی پیٹ پکڑ کر ہنس رہے ہیں اور ہنس ہنس کر دہرے ہوئے جارہے ہیں۔ تو اس طرح موتی نے ایک گیند پر پندرہ رن بنانے میں مدد کی۔

    بھائی جان بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

    (از: عبدالحمید بھکر)

  • "ہماری تنخواہ سے ملکی معیشت کی تباہی”

    "ہماری تنخواہ سے ملکی معیشت کی تباہی”

    بیگم نے ہمیں ایک دن یہ اطلاع دی کہ ہماری تنخواہ 13 تاریخ تک کے لیے بالکل کافی ہوتی ہے تو ہمیں پوپ گریگری پر بڑا غصہ آیا جس نے عیسوی کیلنڈر کی ترتیب و اصلاح کرتے وقت یہ تباہ کن فیصلہ کیا تھا کہ کوئی مہینہ 28 دن سے کم کا نہ ہوگا۔

    ظالم کو اصلاح ہی کرنی تھی تو ٹھیک سے کرتا۔ خیر، گرم گرم گرہستی چوٹ تھی۔ ہم نے دوسرے ہی دن اینڈرسن کی اسٹینو گرافر کو ایک درخواست ڈکٹیٹ کروائی جس میں احتجاج کیا کہ جس تنخواہ کا بینک کے چیئرمین مسٹر ایم۔ اے۔ اصفہانی نے وعدہ کر کے ہم سے سول سروس سے استعفیٰ دلوایا تھا، اس کے نصف پر ہمیں ٹرخا دیا گیا۔ لہٰذا چارسو روپے کا فوری اضافہ کیا جائے اور بقایا جات ادا کیے جائیں۔

    اس لُتری نے غالباً اس کی پیشگی اطلاع اسے دے دی۔ جبھی تو درخواست ٹائپ ہونے سے پہلے ہی اس نے ہمیں طلب کرلیا۔ کہنے لگا بینک کا حال تو اورینٹ ایئرویز سے بھی بدتر ہے۔ شیئر کی قیمت کا کریش ہو چکا ہے۔ خسارہ ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک فراڈ بھی ہو گیا ہے۔

    بینک فراڈ دراصل اعداد و شمار کی شاعری ہے۔ صبح کیش پوزیشن دیکھ کر گلے میں پھندا سا پڑ جاتا ہے۔ میں خود آج کل ضرورت مند صنعت کاروں اور تاجروں کو اوور ڈرافٹ کے بجائے قیمتی مشورے دے رہا ہوں۔ بینک موجودہ اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میں تمہاری تنخواہ کی طرف سے بہت فکر مند رہتا ہوں۔ مگر تم عیال دار آدمی ہو۔ گھٹاتے ہوئے ڈرتا ہوں۔

    تنخواہ میں مزید تخفیف کی بشارت کے علاوہ اس نے معاشیات پر لمبا سا لیکچر بھی دیا جس کے دوران رف پیڈ پر ڈائگرام بنا کر ہمیں ذہن نشین کرایا کہ اگر قومی پیداوار میں اضافہ ہو اور تنخواہیں اور اجرتیں بڑھتی ہی چلی جائیں تو ملک کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ انگلینڈ اسی طرح برباد ہو رہا ہے۔

    ہم اس کے کمرے سے نکلے تو ہر چند ہماری تنخواہ وہی تھی جو کمرے میں داخل ہونے سے پیشتر تھی، لیکن اس خیال ہی سے ایک عجیب طرح کی سرخوشی اور طمانیت محسوس ہوئی کہ ہماری ترقی سے ساری معیشت تباہ ہوسکتی ہے۔

    (ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر موصوف سے انتخاب)

  • ’’مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی!‘‘

    ’’مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی!‘‘

    میں بے حد پریشان بلکہ شرمندہ تھا۔ شرمندگی کا باعث میرا نصیب تھا کہ مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی۔ جب بھی کوئی بیماری آتی وہ نزلہ زکام میں بدل جاتی۔

    زیادہ سے زیادہ سر کا درد، پیٹ کا درد یا کوئی پھوڑا ابھرتا اور مجھے جُل دے کر نو دو گیارہ ہو جاتا۔ احباب اور رشتے دار زیرِ ناف قسم کا طعنہ دیا کرتے کہ ان غیر ضروری بیماریوں پر کوئی آپ سےکیا ہمدردی کرے۔ میری بیوی تو کنکھیوں سے کئی بار اشارے بھی کرچکی تھی کہ میں آپ کی خاطر مَر مٹنے کے لیے تیار ہوں لیکن اس مَر مٹنے کی کوئی ٹھوس بنیاد بھی تو پیدا کیجیے۔

    اور نہ جانے میرے کس پیارکی دعا قبول ہوئی کہ ایک دن میں صبح کو شیو کرکے اٹھا تو میری ایک لغزشِ پا نے پکارا۔ ’’لینا کہ چلا میں!‘‘

    میری بیوی جوشاید اسی نادر لمحے کے انتظار میں ادھیڑ ہوگئی تھی، فوراً ڈاکٹر کو بلا لائی۔ ڈاکٹر نے کہا ’’یہ لغزشِ پا نہیں ہے، سیریس بیماری ہے!‘‘

    بیوی کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔ ’’ہائے اللہ! یہ سریس بیماری ان کی بجائے مجھے لگ جائے۔‘‘

    ڈاکٹر نے رولنگ دیا۔ ’’یہ فیصلہ اسپتال میں جاکر ہوگا کہ بیماری کس جسم کے لیے موزوں ہے، یہ متنازع مسئلہ ہے۔‘‘

    اتنے میں میرے بہت سے احباب اور رشتے دار جمع ہوگئے تھے۔ انھو ں نے ڈاکٹر سے ’’ونس مور‘‘ کہا اور باری تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ آخر میں تھرڈ ریٹ بیماریوں کے چنگل سے نکل آیا اور اب راہِ راست پر چل پڑا ہوں۔ ان کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو بھر گئے۔ انھوں نے تالیاں بجائیں کئی ایک فرطِ انبساط سے رقص کرنے لگے۔ میری بیوی نے جذبات سے کانپتے لفظوں میں اعلان کیا کہ وہ میرے غسلِ صحت پر یتیموں کو کھانا کھلائے گی۔ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے سرگوشی میں ایک دوست کو بتایا کہ نروس بریک ڈاؤن کی بیماری ہے۔ ہوسکتاہے، کئی سال لگ جائیں۔

    کئی سال؟ مجھے یتیموں کا مستقبل خطرے میں نظر آیا۔

    اسپتال کے پیڈ پر لیٹتے ہی مجھے بے حد اطمینان ہوا۔ نہ پریشانی باقی رہی تھی نہ شرمندگی ہی۔ بلکہ فخر سے پھولا نہ سماتا تھا کہ اب اس سیریس بیماری کی بدولت کئی لوگوں کو ابلائیج کرسکوں گا۔ میرے احباب خلوص اور ہمدردی کا فراخ دلانہ استعمال کرسکیں گے۔ رشتے داروں کو ٹھنڈی آہیں بھرنے اور آنسو تھر تھرانے کا موقع نصیب ہوگا۔ میری ایک جنبشِ لب پر وہ اپنی گردنیں کٹوانے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔

    میری آنکھ کا ایک ہلکا سا اشارہ ان کی زنگ آلود روح کے سبھی بند دروازے کھول دے گا۔ میرے بدن میں ایک چھوٹی سی ٹیس اٹھے گی تو احباب مرغِ بسمل کی طرح اسپتال کے سڑک پر تڑپتے ہوئے نظر آئیں گے۔ میری بیوی ہر پرسانِ حال کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہہ سکے گی،

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

    غرض میں اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا تھا کہ زندگی میں کسی کے کام تو آیا۔ دوسروں کی خوشنودی کے چند لمحے بھی میسر آجائیں تو وہ سُنبل و ریحاں اور لعل و یاقوت وغیرہ سے کم نہیں ہوتے ورنہ اس سے پہلے تو زندگی جیسے بے برگ و گیاہ ریگستان میں گزر رہی تھی۔ نہ کسی کے آنسو، نہ تبسم، نہ جذبات سے چُور چُور ہونٹ، نہ کسی کی ہمدردی، نہ کسی کا خلوص، نہ کسی کا امتحان، نہ کوئی ممتحن۔

    اسپتال میں جاتے ہی سب سے پہلے تو میرے ایک منسٹر دوست نے میرے ریگستان میں ایک پھول کھلا دیا۔ یعنی ایک دوست کے ٹیلیفون پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے کہہ دیا کہ اس مریض کو فوراً ایک بیڈ عطا کیا جائے۔ اسپتال میں بیڈ میسر آنے کا مطلب ہوتا ہے جیسے کسی بے روزگار کو اپائنٹمنٹ لیٹر مل جائے۔ میرے ایک پروفیسر دوست نے میری ہوا باندھتے ہوئے کہا ’’جی! بیڈ کیوں نہ ملتا۔ ان کی رسائی تو منسٹروں تک ہے۔‘‘

    مجھے منسٹروں کی اس پستی پر رحم کھانا چاہیے تھا لیکن منسٹر کی خوشی مجھے بیڈ میں مل جانے میں مضمر تھی۔ اس لیے میں اس پستی کو شہد کا گھونٹ سمجھ کر پی گیا۔

    بیڈ مل جانے کے بعد میں تین چار دن تک یہ دیکھتا رہا کہ احباب اور رشتے دار نہایت سرگرم ہوگئے ہیں۔ چاروں طرف بھاگے بھاگے پھرتے ہیں۔ وہ لمحہ بہ لمحہ اپنی دوڑ دھوپ کی رپورٹ لے آتے اور میرے حلق میں انڈیل دیتے۔ کوئی بتاتا اسپتال کا ہارٹ اسپیشلسٹ میرے کالج کا ساتھی ہے اور مجھ سے میتھمیٹکس کی گائڈ بک لے جایا کرتا تھا۔ کوئی انکشاف کرتا، بلڈ بنک کے انچارج سے میں نے کہہ دیا ہے کہ آپ کی خوش نصیبی ہے۔ آپ کے اسپتال میں ایک عظیم مریض داخل ہوا ہے۔ یہ انچارج میری خالہ کا چوتھا بیٹا ہے۔ اگرچہ خالہ نے اسے جائداد سے عاق کردیا ہے لیکن اس کی لو میرج سے پہلے کے سبھی لو لیٹر میں نے ہی قلم بند کرکے دیے تھے۔

    ایک دوست نے تین اخباروں میں میری فوٹو اور بیماری کی خبر بے حد ولولہ انگیز انداز میں شائع کروا کے مسرت حاصل کی جیسے اس نے مجھے مرنے کے بعد جنت کی سیٹ دلوادی ہو۔ چار پانچ دوستوں نے کافی ہاؤس میں ایک ریزولیوشن پاس کروادیا کہ خدانخواستہ اگر فکر تونسوی کی موت واقع ہوگئی تو پورے کافی ہاؤس کے ممبران نہ صرف باجماعت شمشان بھومی تک جائیں گے بلکہ پسماندگان کے لیے چندہ بھی اکٹھا کریں گے۔

    یہ جان توڑ سرگرمیاں دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے سارا ہندوستان میری بیماری کی خاطر زندہ ہے ورنہ درگور ہوگیا ہوتا! ہر روز کئی ڈاکٹر باری باری آتے اور مجھے لیبارٹری سمجھ کر تجربے شروع کر دیتے۔ جیسے یہ ڈاکٹر نہ ہوں، اسکول کے طالب علم ہوں اور میں ایک کاپی ہوں جس پر وہ ہوم ورک کر رہے ہوں۔ پہلے تو میں سمجھا کہ وہ میرے مرض سے خوش ہونے کی وجہ سے سرگرم ہیں لیکن ایک بار میں نے ان کی خوشی سے بور ہو کر ایک ڈاکٹر سے پوچھا ’’جناب! کیا آپ کو مریض سے محبت ہے یا مرض سے؟‘‘

    وہ بولا ’’مرض سے! کیونکہ ہم مریض پر ریسرچ کرکے مرض تک پہنچتے ہیں۔ آپ پر ریسرچ کرنے سے بنی نوع انسان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘

    ’’اور اگر میں نہ آتا تو بنی نوع انسان کا کیا بنتا؟‘‘

    اس کے جواب میں ڈاکٹر نے اپنے اسسٹنٹ کو حکم دیا۔ ’’اس مریض کی بی۔ سی۔جی بھی کرائی جائے۔ دماغ میں توقع سے زیادہ خلل معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    لیکن میں جانتا تھا کہ میرے دماغ کے خلل کا سبب میری بے پناہ مسرت ہے، جو مریض بن کر مجھے حاصل ہو رہی ہے۔ میں یہ سوچ کر جھوم اٹھا کہ اسپتال میں مجھے بے حد رومانٹک ماحول ملے گا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ کئی آرٹسٹ لوگ اسپتال میں جاکر ناول تک لکھتے ہیں اور بیماری کو ادبِ عالیہ میں اضافہ کا باعث بناتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک نرسوں سے پیار بھی کرنے لگتے ہیں بلکہ کئی نرسیں تو نوکری پر لات مار دیتی ہیں اور ناول نگار کی روح کے نرم گوشے میں دلہن بن کر گھس جاتی ہیں۔

    دوسرے دن جب میں چھم سے کسی نرس کی آمد کی انتظار میں آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ کسی نے میرا کندھا جھنجھوڑا۔ یہ واقعی نرس تھی (میرے متوقع ناول کی متوقع ہیروئن۔) میں نے آنکھ کھول کر دیکھا نرس خوبصورت نہ تھی، خوبصورت دنیا کے جسم پر ایک چیتھڑا تھی! اس نے پہلے مجھے سونگھا پھر ماحول کو سونگھا اور جیسے اسے احساس ہواکہ ماحول نامکمل ہے۔ اس لیے اس نے میرے بیڈ کے سرہانے ایک مَیلے سے گتے پر میڈیکل چارٹ لٹکا کر ماحول کو مکمل کردیا۔

    اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس نے میری قبر پر دِیا جلا دیا ہو۔

    (طنز و مزاح نگار اور شاعر فکر تونسوی کے قلم سے شگفتہ پارے)

  • مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    اکبر الٰہ ابادی اردو شاعری میں اپنے طنز و مزاح پر مبنی کلام کی بدولت ہی مشہور نہیں تھے بلکہ انھیں اپنے زمانے کا ایک مفکّر، مدبّر اور مصلح بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

    اکبر الٰہ آبادی کے دور میں نہ صرف مشرقیت پر بلکہ اسلامیت پر بھی مغربی رنگ غلبہ پا رہا تھا۔ اس دور میں قوم و ملّت کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی، اکابرین چاہتے تھے کہ لوگ اپنی اسلامی روایات پر قائم رہتے ہوئے اپنی تہذیب اور ثقافت کو اہمیت دیں۔ انہی میں اکبر بھی شامل تھے۔ مغربیت کے اس غلبے کے خلاف اکبر الٰہ آبادی نے شاعری سے مدد لی۔

    آج اردو زبان کے اس مشہور شاعر کا یومَِ وفات ہے۔ وہ 1921ء کو آج ہی دن دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اکبر کی شاعری اخلاقی، سیاسی، تہذیبی شعور اور زندگی کا آئینہ سمجھی جاتی ہے۔ وہ واعظ بھی تھے، مصلح بھی، نقّاد بھی، نکتہ چیں بھی۔ انھیں ان کی روایت اور جدّت پسندانہ سوچ کے ساتھ ایک انقلابی اور باغی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    اکبر کو اس دور کے خواص اور عوام دونوں نے سندِ قبولیت بخشی۔ اکبر نے اپنے کلام کے ذریعے اس دور میں‌ سبھی کی گویا خبر لی، اور کسی سے مرعوب ہوئے۔ وہ حق بات کہنے سے نہ گھبرائے اور اس معاملے میں کسی کے عہدے مرتبے کا لحاظ بھی نہ کیا۔

    یہاں ہم اکبر سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے اس دور میں ان کی حیثیت و مرتبے اور شہرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اکبر الہ آبادی کی شہرت اور ان کی مقبولیت نے جہاں‌ کئی حاسد پیدا کیے، وہیں بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعویٰ کرکے دوسروں کی نظر میں خود کو مستند اور معتبر منوانا چاہا۔

    ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انھوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کر دیا۔ کسی طرح یہ بات اکبر کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ ان تک اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو ایک روز اپنے دوستوں اور مداحوں کی محفل میں فرمایا،

    ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انہیں عقل، مگر دونوں ناکام رہے۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم۔‘‘

    آج بھی جب ہم اکبر الٰہ آبادی کے اشعار پڑھتے ہیں تو مسکرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اگر ان کی شاعری کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کریں تو شرمندگی بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اکبر الہ آبادی کا اصل نام سیّد اکبر حسین تھا۔ انھوں نے 16 نومبر 1846ء کو آنکھ کھولی۔ اپنے وطن کی نسبت نام سے لاحقہ جوڑا اور اکبر الٰہ آبادی کہلائے۔ ابتدائی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد وکالت پڑھی اور امتحان پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ مقدمات لڑے اور پھر جج کے منصب تک پہنچے۔ اس دوران انھوں نے سماج کے مختلف روپ بھی دیکھے اور ہندوستان میں‌ انگریزوں کی آمد کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول اور تہذیب و ثقافت پر مغربیت کا غلبہ تو دیکھ ہی رہے تھے۔ سو، ان کی شاعری نے اصلاح اور طنز کا انداز اپنا لیا۔

    انھوں‌ نے اپنی شاعری سے اصلاحِ معاشرہ کا وہی کام لیا جو اس دور میں سر سیّد احمد خان اور علاّمہ اقبال جیسی شخصیتوں کا شیوہ رہا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اکثر سماجی برائیوں، مغربی تہذیب اور لادینیت کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کیا اور نئی تہذیب یا مغربیت کے دلدادگان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم ان کی اس طرزِ شاعری میں کوشش یہ تھی کہ لوگوں کا وقار اور انا مجروح نہ ہو اور وہ اپنا محاسبہ بھی کریں‌۔ ان کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور آج بھی ہماری اخلاقی اور معاشرتی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کرتے ہیں۔

    لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
    مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

    ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
    کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

    چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
    شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
    چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
    کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا

  • "یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے!”

    "یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے!”

    جب مرض بہت پرانا ہو جائے اور صحت یابی کی کوئی امید باقی نہ رہے تو زندگی کی تمام مسرتیں محدود ہو کر بس یہیں تک رہ جاتی ہیں کہ چارپائی کے سرہانے میز پر جو انگور کا خوشا رکھا ہے اس کے چند دانے کھا لیے، مہینے دو مہینے کے بعد کوٹھے پر غسل کر لیا یا گاہے گاہے ناخن ترشوا لیے۔

    مجھے کالج کا مرض لاحق ہوئے اب کئی برس ہو چکے ہیں۔ شباب کا رنگین زمانہ امتحانوں میں جوابات لکھتے لکھتے گزر گیا۔ اور اب زندگی کے جو دو چار دن باقی ہیں وہ سوالات مرتب کرتے کرتے گزر جائیں گے۔ ایم اے کا امتحان گویا مرض کا بحران تھا۔

    یقین تھا کہ اس کے بعد یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے۔ سو مرض تو بدستور باقی ہے اور ہم… ہر چند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں۔

    طالب علمی کا زمانہ بے فکری کا زمانہ تھا۔ نرم نرم گدیلوں پر گزرا، گویا بستر عیش پر دراز تھا۔ اب تو صاحبِ فراش ہوں۔ اب عیش صرف اس قدر نصیب ہے کہ انگور کھا لیا۔ غسل کر لیا۔ ناخن ترشوا لیے۔ تمام تگ و دو لائبریری کے ایک کمرے اور اسٹاف کے ایک ڈربے تک محدود ہے اور دونوں کے عین درمیان کا ہر موڑ ایک کمین گاہ معلوم ہوتا ہے۔

    (پطرس بخاری کے مضمون "اب اور تب” سے اقتباس)