Tag: ظفر اللہ جمالی

  • یومِ وفات: سادگی پسند اور ہاکی کے کھلاڑی میر ظفرُ اللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم رہے

    یومِ وفات: سادگی پسند اور ہاکی کے کھلاڑی میر ظفرُ اللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم رہے

    23 نومبر 2002ء کو میر ظفرُ اللہ جمالی نے پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔ وہ بردبار اور دھیمے مزاج کے سیاست دان مشہور تھے۔ ان کا شمار بلوچستان کے اُن سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے وفاق کی سیاست کو ترجیح دی اور قوم پرست جماعتوں سے خود کو دور رکھا۔

    ظفرُ اللہ جمالی کا تعلق بلوچستان کے علاقے روجھان جمالی سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ اس صوبے کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم تھے۔ وہ 76 سال کی عمر میں پچھلے سال 2 دسمبر کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم میر ظفرُ اللہ جمالی آبائی علاقے روجھان جمالی میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    وفات سے چند روز قبل دل کا دورہ پڑنے کے باعث انھیں راولپنڈی کے ایک اسپتال منتقل کردیا گیا تھا جہاں وہ‌ خالقِ‌ حقیقی سے جا ملے۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی 1944ء میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم کے بعد گھوڑا گلی مری میں بورڈنگ اسکول میں داخل ہوئے اور بعد میں لاہور کے ایچی سن کالج اے لیول کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے سیاست میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، پشتو اور براہوی زبانیں‌ جانتے تھے۔

    ان کا گھرانا مسلم لیگی تھا۔ ان کے چچا جعفر خان جمالی کو بانیِ پاکستان محمد علی جناح اور بعد میں ان کی بہن فاطمہ جناح کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ ظفرُ اللہ جمالی نے بھی نوجوانی میں فاطمہ جناح کے انتخابی دورے کے وقت ان کے گارڈ کے طور پر فرائض سَر انجام دیے تھے اور بعد میں ان کے پولنگ ایجنٹ بھی مقرر ہوئے۔

    انھوں نے اپنے چچا کی وفات کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 1970ء کے انتخابات میں وہ سیاسی حریف سے شکست کھا گئے اور 1977ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی میں‌ پہنچے، وہ مارشل لا کے زمانے میں اُن سیاست دانوں میں شامل تھے جنھوں نے جنرل ضیاءُ الحق کا ساتھ دیا۔

    1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں انھیں قومی اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا اور اس بار پانی و بجلی کی وزارت ان کے حصّے میں آئی اور محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی کے بعد ظفر اللہ جمالی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ 1988ء میں ایک بار پھر انھوں نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا اور انتخابات میں کام یاب ہونے کے بعد صوبے کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی وفاق میں مسلم لیگ، مسلم لیگ ق اور تحریکِ انصاف میں شامل رہے۔ وہ اپنے سیاسی سفر کے دوران سینیٹ کے رکن بھی رہے۔

    2004ء کو انھوں نے وزراتِ عظمیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ میر ظفرُ‌اللہ جمالی کھیلوں میں‌ بڑی دل چسپی رکھتے تھے اور ہاکی ان کا پسندیدہ کھیل تھا۔ انھوں نے زمانۂ طالب علمی میں خود بھی ہاکی کھیلی تھی۔ وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ انھوں نے 1984ء کے لاس اینجلز اولمپکس میں پاکستانی دستے کی سربراہی بھی کی تھی۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی سادگی پسند تھے۔ انھوں نے اپنے تمام سیاسی ادوار اور وزیرِاعظم بننے کے بعد بھی شان و شوکت اپنانے کے بجائے سادہ زندگی گزاری اور کوشش کی کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ ان کے بارے میں‌ کہا جاتا تھا کہ سیاسی میدان میں بھی وہ کسی کو بھی اپنی بات سے رنج پہنچانے سے گریز کرتے رہے۔

  • سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی دل کا دورہ پڑنے پر اسپتال متنقل

    سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی دل کا دورہ پڑنے پر اسپتال متنقل

    راولپنڈی: سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کو دل کا دورہ پڑنے پر اسپتال منتقل کردیا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کو دل کا دورہ پڑنے پر اسپتال منتقل کردیا گیا، خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی حالت تشویش ناک ہے۔

    خاندانی ذرائع کے مطابق ظفر اللہ جمالی کو وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا ہے، انہیں راولپنڈی کے اے ایف آئی اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

    ظفر اللہ جمالی کے صاحبزادے میر عمر خان جمالی نے قوم سے والد کی صحت یابی کے لیے دعاؤں کی اپیل کی ہے۔

    مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ میر ظفر اللہ جمالی کو جلد صحت یابی عطا فرمائے، چوہدری پرویز الٰہی نے بھی میر ظفر اللہ جمالی کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی اپیل کی۔

    واضح رہے کہ ظفر اللہ جمالی پاکستان کے 15ویں وزیراعظم رہ چکے ہیں۔

    ق لیگ کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے ظفر اللہ جمالی ایک سال 7 ماہ سے زائد عرصے تک اس عہدے پر فائز رہے۔

  • اسپورٹس کو برباد کرنے والوں کے خلاف بھی جے آئی ٹی بنائی جائے:‌ ظفراللہ جمالی کا مطالبہ

    اسپورٹس کو برباد کرنے والوں کے خلاف بھی جے آئی ٹی بنائی جائے:‌ ظفراللہ جمالی کا مطالبہ

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی نے اسپورٹس کو برباد کرنے والوں کے خلاف بھی جے آئی ٹی بنا کر تحقیقات کروانے کا مطالبہ کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ظفراللہ جمالی نے پاکستانی ہاکی ٹیم کی بھارت سے شکست پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کی کرپشن کے لئے جے آئی ٹی بن سکتی ہے، تو کھیلوں کو برباد کرنےوالوں کے خلاف کیوں نہیں بن سکتی.

    یاد رہے کہ میر ظفر اللہ جمالی ماضی میں‌ پی ایچ ایف کے صدر کی حیثیت سے خدمت انجام دے چکے ہیں.

    ان کا کہنا تھا کہ قومی کھیل کی تنزلی افسوس ناک ہے، چیف جسٹس پاکستان نوٹس لیں، چیف جسٹس شعبہ کھیل میں عہدوں کی بندر بانٹ کی تحقیقات کا حکم دیں.

    انھوں نے کہا کہ 10 برس میں کھیلوں کے لئے فنڈز کے استعمال کا آڈٹ کرایا جائے، جے آئی ٹی بنا کر نوٹس لیا جائے.

    ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی بنیادوں پر نامزدگیوں کو فوری طور پر واپس لیا جائے، اسپورٹس کے دیانت داراور پرفیشنل ماہرین کا تقرر کیا جائے.

    یاد رہے کہ اس وقت جاری آخری چیمپینز ٹرافی میں پاکستان کی اب تک کی کارکردگی مایوس کن ہے، پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں 4-0 سے شکست ہوئی تھی، بعد میں آسٹریلیا کے ہاتھوں میں‌ گرین شرٹس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا.


    چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ: آسٹریلیا نے پاکستان کو 2-1 سے ہرادیا


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • وطن کی خاطر اراکین استعفے دینے کو تیاربیٹھے ہیں، نوازشریف کیسے خریدیں گے؟ ظفراللہ جمالی

    وطن کی خاطر اراکین استعفے دینے کو تیاربیٹھے ہیں، نوازشریف کیسے خریدیں گے؟ ظفراللہ جمالی

    السلام آباد : مسلم لیگ (ن) کے منحرف رکن قومی اسمبلی ظفر اللہ جمالی نے کہا ہے کہ ختم نبوت سے متعلق حلف نامے میں تبدیلی کے ذمہ داروں کو سزا نہیں ملی اور حلف نامے کی اصل حالت میں بحالی بھی دباؤ کے بعد عمل میں لائی گئی.

    رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی اے ار وائی نیوز کے پروگرام دی رپورٹرز میں میزبان سمیع ابراہیم اور صابر شاکر کے سوالوں کے جوابات دے رہے تھے.

    انہوں نے کہا کہ محب الوطن اور اسلام سے محبت کرنے والے اراکین اسمبلی کی وجہ سے حکومت دباؤ کا شکار ہوئی اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلف نامے کو اصل حالت میں بحال کرنے پر مجبور ہوئی وگرنہ ان کے ارادے اچھے نہیں تھے تاہم اب بھی انہوں نے غلطی کے مرتکب ذمہ داروں کو بچالیا.

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت کا نام لے کر صرف جموریت کو بد نام کیا گیا ہے اور کوئی ایک کام بھی جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں کیا گیا جب کہ جمہوریت کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں لیکن یہاں تو عدلیہ اور شرفا کے خلاف دھڑے بندی ہو رہی ہے.

    انہوں نے کہا کہ قربانیاں دینے کا مطلب ہے کہ اداروں کوعزت دیں لیکن اس نام نہاد جمہوریت میں وزرا ء چور ثابت ہو رہے ہیں اور 2013 میں شہبازشریف نے ایک بار ساتھ دینے کا کہا تھا میں نے جوابآ شہباز شریف سے کہا کہ بسم اللہ آپ کے ساتھ غیر مشروط پر چلتا ہوں لیکن شہبازشریف سے دو ٹوک کہا تھا کہ عزت دیں گے تو عزت ملے گی.

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ عدلیہ کے پاس آرٹیکل 190 کے تحت ملک بچانے کا اختیار ہے اور انشاءاللہ حکومت میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جلد شروع ہوگا، ملک میں جو بھی ہونے والا ہے عوام کے لئے اچھا ہی ہوگا بس حکمران جھوٹ بولنا اور کرسی کی فکر چھوڑ دیں تو ملک قائم و دائم رہے گا.

    ظفراللہ جمالی نے کہا کہ اگر پاکستان کے لیے اچھا نہیں کریں گے تو ہم عوام کو کھڑا کریں گے اور خود سپریم کورٹ جا کر کہوں کہ گا خدارا پاکستان کو بچائیں جس کے لیے میں اپنی ویسٹ کوٹ اتار کرعدالت میں کھڑا ہو جاؤں گا اور اگر سپریم کورٹ گیا تو میں اکیلا نہیں ہوں گا.

    انہوں نے کہا کہ اگر مسئلہ ہوا تو میں عزت کے ساتھ استعفیٰ دے کر چلا جاؤں گا لیکن یہ کیسے لوگ ہیں کہ عدالت سے مجرم ثابت ہو گئے ہیں لیکن ڈھٹائی سے باز نہیں آتے جب کہ 2 سال پہلے ہی میں نے نوازشریف کو وزراء کی تبدیلی کا مشورہ دیا تھا لیکن وہ نہیں مانے اور آج وہی وزراء چور ثابت ہو رہے ہیں.

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ کیسی سیاست ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی قیمت لگارہا ہے یہ حق کس نے دیا ہے ؟ اور اگر نواز شریف لوگوں کو خرید سکتے ہیں پرسب لوگ نہیں بکیں گے، میں پوچھتا ہوں کہ خاندان میں اختلاف رائے برداشت نہ کرنے والے عوام کو کیا برداشت کریں گے؟

    میر ظفر اللہ جمالی نے کہا کہ دوسرے ممالک پہلے اپنا مفاد دیکھتے ہیں آپ کا نہیں اس لیے دیگر ممالک سے آس لگانا چھوڑ دیں، جب وقت آئےگا تو آپ نہ تین میں رہیں گے نہ تیرہ میں اور موجودہ وزیراعظم اور نواز شریف کے دست راست جو وفاداریوں کے دعوی کر رہے ہیں محض ایک کاروباری آدمی ہیں جن کی اپنی ایئرلائن ہے اس لیے اپنے مفادات کا دفاع کر رہے ہیں.

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیب اختیارات کے بل پر پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا شریف خاندان نے اپنے مفاد کی خاطر ملک کا سارا نظام درہم برہم کر دیا ہے، یہ امیر ترین خاندان ہیں اس لیے ان کا کلیہ غریب کو غریب تر کر کے پیچھے چلانے کا ہے.

    سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی نے کہا ہے کہ وطن کے لیے لوگ استعفیٰ دینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور اس بار جو اراکین اسمبلی ریزائن کریں گے وہ پھر ری سائن نہیں کریں گے اس لیے جمہوریت کے پیچھے اپنی کرپش چھپانے والوں کو خبردار رہنا چاہیئے اور شریف خاندان کو اپنا ماضی یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ کل کیا تھے؟

    انہوں نے مزید کہا کہ احتساب کے بغیر الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور مجوزہ نیب بل پر کامل یقین ہے کہ ارکان اسمبلی پاکستان کو ووٹ دیں گے جب کہ حکومتی صفوں میں اب دراڑیں پڑ چکی ہیں،اگراحتساب نہیں ہوگا، سزا نہیں ہوگی تو ملک کا کیا بنے گا؟ دشمن ایجنسیاں اندر کے لوگوں کو ورغلا کر کامیاب ہوتی ہیں.

  • نواز شریف میرے لیڈر نہیں، میں ان سے زیادہ سینئر ہوں، ظفر اللہ جمالی

    نواز شریف میرے لیڈر نہیں، میں ان سے زیادہ سینئر ہوں، ظفر اللہ جمالی

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم پاکستان اور ن لیگ کے منحرف رہنما میر ٖظفر اللہ خان جمالی نے کہا ہے کہ نواز شریف میرے لیڈر نہیں، میں ان سے زیادہ سینئر ہوں، ختم نبوت کے معاملے پر زاہد حامد و دیگر نے ہمیں دھوکا دیا، این آر او نہیں ہونا چاہیے تھے، اکبر بگٹی کا قتل زیادتی تھی وہ شہید ہوئے، امریکا نے ڈاکٹر عبدالقدیر کی حوالگی کے لیے دباؤ ڈالا، ن لیگ کے 40 ارکان پارٹی چھوڑنا چاہتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام پروگرام الیونتھ آور میں بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں شہباز شریف کی دعوت پر ن لیگ میں شامل ہوا تھا لیکن ختم نبوت کے معاملے پر وزیر قانون زاہد حامد اور دیگر نے ارکان قومی اسمبلی کو دھوکا دیا۔

    ظفر اللہ جمالی نے کہا کہ اسپیکر ایاز صادق کا موقف تھا کہ ختم نبوت قانون میں تکنیکی غلطی ہوئی لیکن اسپیکر کی ذمہ داری ہے کہ کمیٹی سے معاملے پر بات کرتے، ختم نبوت حلف نامے میں ترمیم کے ذمہ دار وزرا اور کمیٹی ہیں۔

    ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت ن لیگ کو احکامات نواز شریف ہی دے رہے ہیں، بلوچستان کے معاملات پر 4سال میں کسی نے اعتماد میں نہیں لیا،آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کے پیسے کہاں گئے؟ کچھ پتا نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ 2008 میں پی پی حکومت نے مشرف سے ہی حلف لیا تھا،این آر او کروا کر پاکستان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔

    محسن پاکستان ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر کے متعلق انہوں نے تسلیم کیا کہ امریکا نے ڈاکٹر عبدالقدیر کی حوالگی کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

    نواز شریف کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف سے متعلق سازش کا مجھے کوئی علم نہیں،ملک میں ہرادارے کی اپنی ترجیحات ہیں، پاک فوج اپنی حدود میں رہ کر کام کررہی ہے لیکن حکومت اپنی حدود سے تجاوز کررہی ہے،میاں صاحب کو چاہیے تھا پارٹی کی قیادت کسی اور کو سونپ دیتے۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ پارٹی صدر کے معاملے پر آئینی ترمیم نہیں کرنی چاہیے تھی، ختم نبوت میں ترمیم کرنے والی پارلیمنٹ نہیں رہنی چاہیے، پارلیمنٹ کی موت کا وقت قریب ہے، پارلیمنٹ مقررہ مدت پوری کرتی نظر نہیں آتی ایسی روش سےتو بہتر ہے کہ پارلیمنٹ خود گھر چلی جائے، شاہد خاقان عباسی کو چاہیے کہ پارلیمنٹ کو گھر بھیج دے۔

    انہوں نے کہا کہ جمہوریت قربانیاں مانگتی ہے، مارچ اور کوئیک مارچ میں تھوڑا فرق ہے، ریاض پیرزادہ چاہتے ہیں ن لیگ کسی طور پر بچالی جائے،ریاض پیرزادہ پارٹی کے مفاد میں بیان دے رہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے نہ مجھے خریدا ہے اور نہ میں نے اپنے آپ کو بیچا، نواز شریف میرے لیڈر نہیں،میں ان سے زیادہ سینئر ہوں اور اس وقت ن لیگ میں سب سے زیادہ سینئر ہوں، نواز شریف اس وقت مشکل میں ہیں اگر نواز شریف مجرم ہیں تو انہیں سزا دی جائے اور سزا بھی عزت کے ساتھ دینی چاہیے۔

    ایک سوال پر میر ظفر اللہ خان جمالی نے کہا کہ شریف خاندان میں اختلافات کا سنا، یہ ان کا خاندانی معاملہ ہے،6،6 ماہ مریم نواز اپنے چاچا سے ملاقات نہیں کرتیں،خاندانی اختلاف سوچ کا بھی ہے اور کرسی کا بھی،اسٹیک ہولڈر وہ ہے جو جنگ کے میدان میں ہو۔

    انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز مشرف دور میں مشکلات میں مجھے فون کرتے تھے، مریم بی بی بھی میرے بچوں کی طرح ہے ،شریف برادران ٹریک پر نہیں،دونوں بھائیوں کے راستے جدا ہیں،خدا ایسے خاندانوں کا پردہ رکھے۔

    انہوں نے کہا کہ بھارت سے دوستی نہیں ہوسکتی،دوقومی نظریہ ہے،کب تک بھارت کے پیچھے چلتے رہیں گے، کاروباری مفاد کے باعث نواز شریف بھارت کے پیچھے ہیں، نواز شریف چاہتے ہیں دھندہ خراب نہ ہو یہ کہتے ہیں کہ بھارت والے بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی۔

    ان کا کہنا تھا کہ جنگ گروپ کو لائسنس دینا مناسب نہیں تھا،یہ غلط فیصلہ تھا اور میرشکیل کو ٹی وی لائسنس دینا غلطی تھی، شیخ رشید میر شکیل کو میرے پاس لائے تھے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ن لیگ میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، الیکشن کرانے کی کوئی ضرورت نہیں،40 سے زائد ارکان اسمبلی ن لیگ چھوڑنے کو تیار ہیں کسی تھپکی کی ضرورت ہے۔

    اکبر بگٹی کے سوال پر انہوں‌ نے کہا کہ بلوچ رہنما اکبر بگٹی کا قتل ان کے ساتھ زیادتی تھی، میں انہیں شہید سمجھتا ہوں، ایک موقع پر سارے بلوچ رہنما پاکستان کے خلاف تھے اور آزادی کے حامی تھی لیکن صرف غوث بخش بزنجو اور نواب اکبر بگٹی ہی بچے تھے جو اس وقت بھی کہتے تھے کہ ہم پاکستان کے ساتھ ہیں۔