Tag: ظہیر الدین بابر

  • رانا سانگا: بہادری میں یکتا راجپوت جو تیموری فوج کا مقابلہ نہ کرسکا

    رانا سانگا: بہادری میں یکتا راجپوت جو تیموری فوج کا مقابلہ نہ کرسکا

    ہندوستان کی تاریخ میں راجپوت قوم کے مہارانا سانگا کو ایک بہادر اور باہمّت سلطان مانا جاتا ہے اور مشہور ہے کہ رانا سانگا کو اُس کے مصاحبین نے زہر دے کر ابدی نیند سونے پر مجبور کر دیا تھا۔

    مؤرخین متفق ہیں کہ رانا سانگا نے 30 جنوری 1528ء کو دَم توڑا اور بعض اس حکم راں کی وفات کا مہینہ مئی بتاتے ہیں، لیکن راجپوت امراء نے اپنے مہاراجہ پر یہ ظلم کیوں کیا؟ تاریخ کی بعض کتب میں‌ لکھا ہے کہ اس کی وجہ رانا سانگا کا راجپوت امراء کی مخالفت کے باوجود ظہیر الدّین بابر سے جنگ لڑنے کا فیصلہ تھا جب کہ ایک بڑے معرکے میں اسے بابر نے شکست دے دی تھی۔

    راجپوت قوم کا امتیازی وصف اُن کی شجاعت، دلیری اور میدانِ جنگ میں‌ اُن کی پامردی رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہند کی اقوام میں ماضی میں کوئی قوم راجپوت جیسی نہیں تھی۔ راجپوت اپنے قول کے پکّے، اعلیٰ قسم کے شہسوار اور تیغ زنی کے ایسے ماہر تھے جو اپنی آن بان سلامت رکھنے کے لیے جان کی بازی لگا دیتے تھے۔ اسی وصف کی بناء پر راجپوت لگ بھگ ساتویں صدی عیسوی سے بارہویں صدی عیسوی تک برصغیر کے ایک بڑے علاقے پر راج کیا لیکن یہ شان و شوکت آمادۂ زوال ہوئی اور ہندوستان میں سلطنتِ مغلیہ کی بنیاد پڑی۔

    یہ بھی مشہور ہے کہ راجپوت نہ تو خوشی سے کسی کی اطاعت قبول کرتے تھے اور نہ ہی حملہ آور یا دشمن کی تلوار کے نیچے آنے پر اس سے رحم اور معافی طلب کرتے تھے۔ راجپوتوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جب وہ جنگ میں اپنی شکست دیکھتے تو اپنی عورتوں اور بچّوں کو خود موت کا جام پلا کر غنیم کے مقابلے میں جان دے دیتے تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ راجپوت اپنی بات پر قائم رہنے والے اور ہر حال میں اپنا وعدہ نبھانے کے لیے مشہور تھے۔

    اسی قوم کا رانا سنگرام سنگھ (Sangram Singh) المعروف رانا سانگا مشہور اور تاریخی حیثیت کے حامل چتوڑ کے حکم راں خاندان کا تھا جس کے بارے میں مؤرخین کے علاوہ ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدّین بابر نے بھی لکھا ہے کہ تلوار اور نیزوں کے کئی گہرے گھاؤ ایسے تھے جن کے نشان رانا سانگا کے جسم پر دیکھے جاسکتے تھے۔ اس کی ایک آنکھ ضایع ہوچکی تھی اور ایک ہاتھ کٹ چکا تھا، مگر وہ بہادری میں یکتا تھا۔ مشہور ہے کہ رانا سانگا ہی نے لودھی حکم رانوں‌ کے خلاف بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے مکتوب بھیجا تھا۔ مگر جب بابر نے مخالف فوج کو شکست دے کر یہاں‌ اپنی حکومت قائم کرنا چاہی تو رانا سانگا کو یہ بات پسند نہ آئی۔ وہ سمجھتا تھا کہ بابر ہندوستان پر قابض ہوگیا تو راجپوتوں کا اقتدار بھی قائم نہ رہ سکے گا۔

    مغل حکومت کے قیام سے قبل رانا سانگا شمالی ہندوستان پر حکومت کرتا تھا اور ایک آزاد ہندو مہاراجہ تھا۔ آج سے تقریباً پانچ سو برس قبل بابر نے پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کو شکستِ فاش دے کر ہندوستان میں مغل سلطنت قائم کی تھی۔ اسی وقت یہ مشہور ہوا تھا کہ رانا سانگا یا دولت خان لودھی نے ہی اسے دہلی پر حملہ کرنے کی دعوت دی تھی اور جب بابر نے ابراہیم لودھی کو پانی پت کے میدان میں شکست دے کر شمالی ہند میں‌ اپنی حکومت بنائی تو رانا نے اس کا دشمن بن گیا اور مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ رانا سانگا اس مغل حملہ آور کی افواج کے مقابلے پر آیا اور 1527ء میں کنواہہ کے مقام پر جنگ میں شکست سے دوچار ہوا۔ رانا سانگا میدانِ جنگ سے زندہ لوٹ گیا اور دوبارہ بابر سے مقابلہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا جس کے لیے راجپوت سردار تیّار نہ تھے۔ وہ ایک بڑی شکست کے بعد مزید تنازع میں نہیں‌ پڑنا چاہتے تھے۔ مشہور ہے کہ بادشاہ کے رؤساء نے رانا سانگا کو زہر دے دیا تھا۔

    بابر اور رانا سانگا کی جنگ سے متعلق کئی قصّے مشہور ہیں اور کہتے ہیں‌ کہ بابر کے ہی ایک نجومی نے اس کی شکست کی پیش گوئی کی تھی جس کے بعد بابر نے خدا سے فتح کے لیے دعا کی اور وعدہ کیا کہ وہ شراب نوشی اور دیگر بداعمالیاں ترک کر دے گا، جس کے بعد اس نے اپنے سپاہیوں کے سامنے جذباتی تقریر کے دوران قسم اٹھوائی کہ رانا سانگا کی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کریں‌ گے اور موت کو سامنے دیکھ کر میدان نہیں چھوڑیں‌ گے۔ رانا سانگا کے لشکر کی تعداد بابر کے سپاہیوں سے چار پانچ گنا زیادہ تھی لیکن بابر کی جذباتی تقریر اور قول و قرار کام کرگیا اور تعداد کے اس غیرمعمولی فرق کے باوجود بابر کو فتح حاصل ہوئی اور ہندوستان میں مغل خاندان کی بادشاہت کا بھی آغاز ہوگیا۔

    رانا سانگا کا سنہ پیدائش 1482 ہے جسے مؤرخین نے شمالی ہندوستان کا آخری آزاد ہندو بادشاہ لکھا ہے۔ اپنے دورِ‌ اقتدار میں مہارانا سانگا نے کئی جنگوں میں کام یابی سمیٹی اور خاص طور پر دہلی کے لودھی خاندان کو زیر کرنے کے لیے کوششیں‌ کرتا رہا۔ اس نے ترائن کی دوسری جنگ کے بعد راجپوت قبائل اور ان کے بڑے سرداروں کو متحد کیا تھا اور بڑی طاقت بن گیا تھا، لیکن بابر کے ہاتھوں لودھیوں کی شکست کے بعد وہ ہندوستان پر راج کرنے کا اپنا خواب پورا نہیں کرسکا۔

    مغل دور کے مشہور مؤرخ عبدالقادر بدایونی نے بھی رانا سانگا کو اپنی کتاب میں راجپوت قوم میں سب سے بہادر اور قابل بادشاہ لکھا ہے۔ ہندوستان میں‌ موجودہ راجستھان، مدھیہ پردیش، ہریانہ، گجرات کے شمالی حصّے اور امر کوٹ وغیرہ کے ساتھ سانگا نے سندھ کے کچھ علاقوں کو فتح کر کے انھیں‌ اپنا مطیع کیا تھا۔

    رانا سانگا کی کالپی میں موت کے بعد راجپوت قوم نے اس کے بیٹے رتن سنگھ کو اس کا جانشین مان لیا تھا۔

  • کامران مرزا کی بارہ دری سے وابستہ مغل دور کی تلخ یادیں

    کامران مرزا کی بارہ دری سے وابستہ مغل دور کی تلخ یادیں

    لاہور میں کامران کی بارہ دری اپنے طرزِ تعمیر کا ایک نمونہ اور اس وقت کے حکم راں کی ایک یادگار ہے۔ اسے مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے بڑے بیٹے کامران مرزا نے بنوایا تھا اور یہ اسی کے نام سے موسوم ہے۔

    کامران مرزا نے یہاں صرف بارہ دری نہیں بلکہ اس کے آس پاس ایک شان دار مغل باغ بھی تعمیر کروایا تھا۔ جج عبدالطیف نے ”تاریخِ لاہور میں اس کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے“ یہ مستحکم و مضبوط پرانی عمارت اپنی عالی شان اور بلند و بالا محرابوں کے ہمراہ دریائے راوی کے دائیں کنارے پر کھڑی ہے۔

    آج کامران مرزا کا یومِ‌ وفات ہے۔ بابر کے بعد مغلیہ سلطنت کا وارث کامران مرزا کا سوتیلا بھائی نصیر الدین محمد ہمایوں بنا۔ کہتے ہیں اس نے فراخ دلی سے اس وقت کے لاہور کا یہ علاقہ اپنے بھائی کامران مرزا کو سونپ کر حکم راں بنا دیا، مگر ان میں دشمنی اور شاہی رقابت ہوگئی۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ کامران نے لاہور پر قبضہ کر لیا تھا۔

    کامران مرزا نے 1530ء میں شہر میں اپنا باغ تعمیر کروایا تھا۔ اسی باغ میں اس نے 1540ء میں یہ بارہ دری تعمیر کروائی، جو لاہور میں تعمیر کی جانے والی پہلی مغلیہ عمارت بھی کہلاتی ہے۔

    کامران مرزا مغلیہ سلطنت کے بانی مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر کا دوسرا بیٹا تھا۔ اس کا سنِ پیدائش 1512ء لکھا گیا ہے، وہ بابر کی بیوی گل رخ بیگم کے ہاں کابل میں پیدا ہوا تھا۔ مغل تخت کے وارث نصیرالدین ہمایوں اور کامران مراز میں دشمنی کا نتیجہ وہی نکلا جو تاج و تخت کے پیچھے ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ کامران کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور کہتے ہیں کہ سوتیلے بھائی ہمایوں نے اسے اندھا کروا دیا اور بعد میں حج کے لیے مکّہ روانہ کردیا۔

    5 اکتوبر 1557ء کو کامران نے وہیں وفات پائی۔

  • کابل کے ایک مرغزار کے حوض پر چلیے!

    کابل کے ایک مرغزار کے حوض پر چلیے!

    مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کی مادری زبان فارسی تھی اور ایک زمانے میں‌ دستور کے مطابق ہر خاص و عام عربی اور فارسی سمجھتا اور سیکھتا تھا۔ معززین و امرائے وقت خاص طور پر فارسی بولتے اور لکھتے، یہ زبان گفتگو سے مراسلت تک ہر شعبے پر حاوی تھی۔

    مغل بادشاہ جہاں‌ دیگر علوم اور فنون سے آشنا تھا، وہیں بڑا باذوق اور ادب کا شائق بھی تھا۔ یہی نہیں‌ بلکہ خود بھی فارسی میں‌ شعر کہتا۔

    بابر کے ایک شعر کا مصرعِ ثانی ہے: "بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست”

    یہ مصرع کم و بیش پانچ سو سال سے ضرب المثل ہے۔ اس کا مصرع اولیٰ بہت کم صاحبانِ ذوق کو معلوم ہو گا۔

    کہتے ہیں‌ ہندوستان پر حملے سے پہلے بابر نے کابل میں‌ ایک مرغزار میں حوض بنوایا جہاں وہ اپنے خوش طبع اور باذوق دوستوں کے ساتھ اکثر وقت گزارتا تھا، اسی مناسبت سے اس نے یہ شعر کہہ کر اس حوض کی منڈیر پر کندہ کرایا تھا۔

    یہ مکمل شعر اور اس کا اردو ترجمہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    نو روز و نو بہار مئے و دلبرِ خوش است
    بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

    شاعر کہتا ہے کہ نئے سال کا جشن ہو، موسمِ بہار میں تازہ شربت ارغوان ہو اور حسن و جمال مرصع معشوق ہو۔ بابر عیش کے اس خزانے کو خوب خرچ کرلے کیوں کہ یہ زندگی دوبارہ پلٹ کر نہیں آئے گی۔