Tag: عادت

  • چائے پینے کے شوقین افراد کس وقت یہ مشروب پیئں؟ ڈاکٹر نے بتادیا

    چائے پینے کے شوقین افراد کس وقت یہ مشروب پیئں؟ ڈاکٹر نے بتادیا

    اکثر لوگ کھانے کے بعد چائے پینے کی عادت میں مبتلا ہیں مگر کس وقت چائے پینا انسانی صحت کےلیے بہتر رہتا ہے ڈاکٹرز نے بتادیا۔

    پاکستان ایک ایسا ملک میں جہاں چائے کافی زیادہ استعمال کی جاتی ہے، ناشتے کے بعد تو لازمی اکثر خواتین و حضرات چائے پیتے ہیں بلکہ شاید چائے کے بنا ان کا ناشتہ ادھورا ہوتا ہے، تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ چائے اچھی چیز ہے جب یہ شوگر فری ہو اور اسے خالی پیٹ نہ پیا جائے۔

    ڈاکٹر مدیحہ حسنین نے اے آر وائی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چائے اچھی چیز ہے اور اسے پینا چاہیے اس میں فلیمونائیڈز ہوتے ہیں لیکن کھانے کے ساتھ یا کھانے کے فوراً بعد چائے پینا درست نہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ جسم میں جو کھانا جاتا ہے، اس کھانے میں جو غذائیت اور نیوٹرینٹہ ہوتے ہیں چائے انھیں جسم میں جذب نہیں ہونے دیتی۔

    ڈاکٹر مدیحہ نے کہا کہ چائے جتنی زیادہ پکی ہوتی ہے وہ اتنی بھاری ہوتی ہے، آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ ناشتہ کرنے کے بعد اگر ہلکی بھوک بھی ہو تو وہ چائے پینے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔

    چائے پینے کا صحیح وقت بتاتے ہوئے ڈاکٹر مدیحہ نے کہا کہ کھانے کے بعد 20 سے 50 منٹ تک رک کر چائے پیئں اور خالی پیٹ چائے نہ پیئں کیوں کہ خالی پیٹ یا بیڈ ٹی پینا ایسا ہے کہ جیسے آپ اپنے پیٹ کو جلارہے ہیں کیوں کہ چائے میں ایسڈز ہوتے ہیں۔

  • ایک عام عادت جو رات کی نیند کو پرسکون بنائے

    ایک عام عادت جو رات کی نیند کو پرسکون بنائے

    پرسکون نیند جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے، بے آرام نیند نہ صرف ہمارے مزاج پر منفی اثر ڈالتی ہے بلکہ جسمانی صحت کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔

    نیند کو بہتر کرنے کے لیے ماہرین کی طرف سے بے شمار تجاویز پیش کی جاتی ہیں، حال ہی میں ماہرین نے اچھی نیند کا سبب بننے والے ایک اور سبب کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کا معیار بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں باقاعدگی لائی جائے، ان کے مطابق رات سونے اور اٹھنے کا ایک وقت مقرر کیا جائے اور اس پر پابندی سے عمل کیا جائے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ وقت مخصوص رکھا جائے اور چاہے ویک اینڈ ہو یا ہفتے کا کوئی اور دن، اس شیڈول پر عمل کیا جائے۔ باقاعدگی ایک ایسی کنجی ہے جو نیند کو بہتر بنا سکتی ہے۔

    ماہرین نے ایک اور وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوتے ہوئے کمرے کا درجہ حرات سرد رکھنا چاہیئے۔ اگر سونے کے لیے ایک گرم، اور ایک سرد کمرے کا انتخاب کیا جائے تو گرم کمرے کی نسبت سرد کمرے میں جلدی اور پرسکون نیند آئے گی۔

  • کیا ہماری یہ عادات واقعی اچھی ہیں؟

    کیا ہماری یہ عادات واقعی اچھی ہیں؟

    پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی صحت کا خیال رکھنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں کیا جاتا، تاہم ایسے باشعور اور پڑھے لکھے افراد بھی ہمارے ارد گرد ملتے ہیں جو اپنی صحت کے حوالے سے متفکر رہتے ہیں، اور وہ صحت کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ اچھی عادتیں بھی اپنا لیتے ہیں۔

    ان عادات میں سے کچھ بہت زیادہ اہم ہوتی ہیں، جیسا کہ پھل ہمیشہ دھو کر کھانے کی عادت یا پھر ورزش کرنا، اپنے اعصاب کو ہمیشہ پُر سکون رکھنا، غصے سے اجتناب کرنا، اور الم غلم خوراک سے پرہیز وغیرہ۔

    تاہم، کچھ عادتیں ایسی بھی ہیں جن پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے، ان میں سے 7 ایسی عام عادتیں ہیں، جن کا کوئی خاص فائدہ نہیں، اور جنھیں لوگ بہ آسانی چھوڑ سکتے ہیں۔

    1۔ ملٹی وٹامنز کا استعمال

    امریکا میں سائنس دانوں نے ساڑھے 4 لاکھ سے زیادہ افراد پر طبّی تجربات کے بعد اخذ کیا کہ ملٹی وٹامنز اور تمام اقسام کی bio-additives نہ ہی آپ کو مختلف بیماریوں سے بچا سکتی ہیں اور نہ آپ کی یادداشت یا کام کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ یہ طبی مطالعے بھی کیے جا چکے ہیں کہ روزانہ ملٹی وٹامنز لینے سے صحت پر الٹا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

    2۔ الکحل سے پاک ہینڈ سینیٹائزرز کا استعمال

    جراثیم کُش ہینڈ جیلز کئی قسم کے جراثیم کا خاتمہ کرنے میں مدد دیتے ہیں لیکن ایسا صرف ان جیلز سے ہو سکتا ہے جن میں الکحل کی مقدار 60 فی صد سے کم نہ ہو۔ دیگر ہینڈ سینیٹائزرز کسی بھی قسم کے جراثیم کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔

    3۔ مونو سوڈیم گلوٹیمٹ سے گریز

    تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ مونو سوڈیم گلوٹیمٹ (MSG) سے قے اور سر درد جیسی علامات انسانوں میں صرف اسی وقت ظاہر ہوتی ہیں جب اسے خالص شکل میں کم از کم 3 گرام استعمال کیا جائے۔ اب کسی بھی چیز میں آپ کو Monosodium glutamate کی اتنی زیادہ مقدار تو بہ مشکل ملے گی، ویسے بھی جن مصنوعات میں MSG شامل ہوتا ہے، وہ ویسے بھی آپ کے لیے اچھی نہیں ہوتیں، چاہے ان میں ‏MSG نہ ہو تب بھی۔

    4۔ڈیٹوکس ڈائٹ

    ڈیٹوکس ڈائٹ اس وقت بہت تیزی سے مقبول ہو رہی ہے، اس کے حوالے سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ یہ جسم میں موجود زہریلے مادّوں کا خاتمہ کرتی ہے، لیکن ماہرین کا اتفاق ہے کہ جسم ایسے مادّوں سے خود اپنے بل بوتے پر نمٹ سکتا ہے۔ اگر آپ کا جگر اور گردے ٹھیک کام نہیں کر رہے تو آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے، صرف خوراک میں تبدیلی سے کام نہیں چلے گا۔

    5۔ نامیاتی مصنوعات کا استعمال

    پاکستان جیسے ملک میں قانوناً کسی نامیاتی (organic) پروڈکٹ کو نشان زد کرنا لازمی نہیں، یہی وجہ ہے کہ اگر آپ کو کسی پروڈکٹ پر ’eco‘ یا ’bio‘ لکھا نظر آئے تو یاد رکھیں کہ یہ محض مارکیٹنگ کا ایک طریقہ ہے، اس بات کی ضمانت نہیں کہ کھانے کی یہ پروڈکٹ کیمیائی مادّوں کے استعمال کے بغیر بنائی گئی ہے۔

    6۔ مائیکرو ویوز کا استعمال نہ کرنا

    کہا جاتا ہے کہ کھانا گرم کرنے کے لیے مائیکرو ویوز کا استعمال ان میں موجود غذائیت کا خاتمہ کر دیتا ہے، لیکن یاد رکھیں کہ اوون یا چولہے پر کھانا گرم کرنے سے بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

    7۔ صرف کم چکنائی کی حامل مصنوعات کا استعمال

    نشاستے (کاربوہائیڈریٹس) اور لحمیات (پروٹینز) کی طرح ہمارے جسم کو چکنائی (فیٹس) کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے عام مصنوعات کی جگہ صرف لو-فیٹ پروڈکٹس استعمال کرنا ہی کیلوریز کم کرنے کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ پھر کئی مصنوعات ایسی ہیں کہ جن میں لو-فیٹ صلاحیت دراصل شوگر کونٹینٹ بڑھا کر حاصل کی جاتی جاتا ہے، جو صحت کے لیے ویسے ہی نقصان دہ ہے۔

  • آپ کی یہ عام عادت آپ کو موت کا شکار بنا سکتی ہے

    آپ کی یہ عام عادت آپ کو موت کا شکار بنا سکتی ہے

    دن کا زیادہ تر حصہ بیٹھ کر گزارنے کی عادت بے شمار امراض کا باعث بن سکتی ہے حتیٰ کہ یہ آپ کو موت کے منہ میں بھی دھکیل سکتی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک نہ رہنا متعدد امراض بشمول امراض قلب، فالج، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس ٹائپ 2 اور متعدد اقسام کے کینسر اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھانے والا عنصر ثابت ہوچکا ہے۔

    اس نئی تحقیق میں 168 ممالک کا سنہ 2016 کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور محققین نے دریافت کیا کہ سست طرز زندگی غیر متعدی امراض کا باعث بنتے ہیں۔ ہر ہفتے ڈیڑھ سو منٹ سے بھی کم معتدل یا 75 منٹ کی سخت جسمانی سرگرمیوں کو سست طرز زندگی قرار دیا جاتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ امیر ممالک کے رہائشیوں میں سست طرز زندگی سے جڑے امراض کا خطرہ غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے مقابلے میں 2 گنا سے زیادہ ہے۔

    سنہ 2016 میں امیر ممالک میں جسمانی سرگرمیوں کی سطح متوسط ممالک کے مابلے میں دوگنا کم تھی تاہم متوسط ممالک میں سست طرز زندگی سے لوگوں کو زیادہ خطرے کا سامنا ہوتا ہے جس کی وجہ وہاں کی آبادی زیادہ ہونا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سست طرز زندگی کے نتیجے میں ہونے والی مجموعی اموات میں سے 69 فیصد متوسط ممالک میں ہوئیں، اسی طرح غیرمتعدی امراض سے ہونے والی 80 فیصد اموات متوسط اور غریب ممالک میں ہوئیں۔

    اس طرز زندگی کے نتیجے میں سب سے زیادہ اموات لاطینی امریکا، کیرئیبین ممالک، ایشیا پیسیفک اور مغربی ممالک میں ہوئیں۔ اس کے مقابلے میں سب سے کم شرح سب صحارا افریقہ، اوشیانا، مشرقی اور جنوبی مشرقی ایشیا میں دیکھنے میں آئی۔

  • ایک عام عادت جو کینسر سے بچا سکتی ہے

    ایک عام عادت جو کینسر سے بچا سکتی ہے

    کینسر ایک عام مرض بنتا جارہا ہے اور حال ہی میں ماہرین نے اس سے بچنے کے لیے ایک عام عادت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت بخش غذا اور دیگر طبی مسائل جیسے فشار خون اور ذیابیطس کو کنٹرول میں رکھنا امراض قلب کے ساتھ ساتھ کینسر کا خطرہ بھی کم کرتا ہے۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور دیگر اداروں کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 20 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا اور آغاز میں ان میں کوئی بھی کینسر کا شکار نہیں تھا۔

    15 سال کے دوران 2 ہزار 548 افراد میں کینسر کی تشخیص ہوئی اور محققین نے دریافت کیا کہ امراض قلب کا باعث بننے والے روایتی عناصر جیسے عمر، جنس اور تمباکو نوشی، کینسر سے بھی متعلق ہے۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ دل پر دباؤ ڈالنے والے عناصر سے کینسر کا امکان بھی 40 فیصد بڑھ گیا، اس کے مقابلے میں دل کو صحت مند رکھنے والی عادات جیسے بلڈ پریشر، کولیسٹرول، بلڈ شوگر اور جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھنا اور صحت بخش غذا کا استعمال کینسر کا خطرہ بھی کم کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کی شریانوں سے جڑے امراض اور کینسر کے درمیان تعلق براہ راست نہیں مگر ہماری عادات یا رویے اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل ہیں۔

    تحقیق میں موٹاپے اور سگریٹ نوشی کے نتیجے میں جسم میں دائمی ورم اور کینسر کے درمیان تعلق کو بھی دریافت کیا گیا۔

    ماہرین نے مزید کہا کہ پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال دل کی صحت کے لیے مفید ہوتا ہے جو کولیسٹرول کی سطح میں کمی کے ساتھ ورم سے لڑنے والے اجزا سے بھرپور ہوتے ہیں۔

  • نانی اور دادی کے زمانے کی یہ عادت بے حد فائدہ مند

    نانی اور دادی کے زمانے کی یہ عادت بے حد فائدہ مند

    نیا دور ہے، لوگ بھی نئے ہیں، تاہم یہ حقیقت ہے کہ نانی اور دادی کے پرانے زمانوں کی کئی عادات اور ہدایات ایسی ہیں جن کی وجہ تو بظاہر معلوم نہیں، لیکن جدید سائنس نے نانی دادی کی ان ہدایات کو بالکل درست ثابت کردیا ہے۔

    ہم اکثر اپنی نانی دادی کی ہدایات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جدید دور میں ان عادات اور توہمات کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن جدید تحقیقوں نے ثابت کردیا ہے کہ ہماری نانی دادی کی کہی ہوئی باتیں ہمارے لیے کس قدر فائدہ مند ہیں۔

    ایسی ہی ایک ہدایت کھانا کھانے کے بعد غسل نہ کرنے کی بھی ہے جس سے اکثر نانیاں اور دادیاں منع کرتی ہیں اور وہ اپنی جگہ بالکل درست ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانا کھانے کے فوراً بعد غسل کرنا ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کھانا کھانے کے فوراً بعد نہانا ہاضمے میں مشکل پیدا کرسکتا ہے۔

    دراصل جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو معدے کے گرد دوران خون کی گردش بڑھ جاتی ہے جس سے کھانا آسانی سے ہضم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ہم کھانا کھانے کے فوراً بعد نہانے چلے جائیں گے تو خون کی روانی پورے جسم میں تیز ہوجائے گی اور یوں ہاضمے کا عمل رک جائے گا۔

    نہانے کے بعد ہمارے جسم کا درجہ حرارت بھی کم ہوجاتا ہے اور جب یہ درجہ حرارت اپنے معمول پر واپس آتا ہے تو ہاضمے کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے جسمانی اعضا خصوصاً دل کو خون پمپ کرنے کے لیے اضافی کام کرنا پڑتا ہے۔

    ہاضمے کا عمل رک جانے یا سست پڑجانے سے طبیعت میں بوجھل پن پیدا ہوسکتا ہے جبکہ تیزابیت بھی ہوسکتی ہے۔

    اس تمام عمل سے بچنے کے لیے نہ صرف نانی دادی بلکہ ماہرین کی بھی تجویز ہے کہ کھانا کھانے کے بعد نہانے کے بجائے، نہانے کے بعد کھانا کھایا جائے جب جسم ہلکا پھلکا ہوتا ہے اور طبیعت تازہ دم ہوتی ہے۔

  • نیند سے اٹھنے کے فوراً بعد انجام دی جانے والی ضروری عادت

    نیند سے اٹھنے کے فوراً بعد انجام دی جانے والی ضروری عادت

    کیا آپ کا شمار بھی ایسے افراد میں ہوتا ہے جنہیں صبح اٹھنا نہایت برا لگتا ہے اور وہ صبح جلدی اٹھنے کے بعد دن کا تقریباً آدھا حصہ سستی میں گزار دیتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح جلدی اٹھنے کے بعد دن کو نا خوشگوار بنانے والی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم ایک اہم کام سرانجام نہیں دیتے جو نیند سے آنکھ کھلنے کے بعد سب سے پہلے کرنا چاہیئے۔

    یہ عادت انگڑائی لینا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح نیند سے آنکھ کھلتے ہی بستر سے اترنے سے بھی قبل آپ کو ایک بھرپور انگڑائی لینے کی ضرورت ہے۔

    مزید پڑھیں: صرف آدھے منٹ میں نیند لانے کی تکنیک

    ماہرین کے مطابق انگڑائی لیتے ہوئے اپنے جسم کو زیادہ سے زیاد کھینچیں اور اسے پھیلا لیں۔

    ماہرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جسم کو چوڑا کرنا اور پھیلا لینا خود اعتمادی کی علامت ہے۔ جب ہم جسم کو پھیلاتے ہیں تو اس سے ہم اپنے دماغ کو یہ بتاتے ہیں کہ ہم بہت پراعتماد ہیں اور ایک بھرپور دن کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔

    اس سے ہمارا دماغ واقعتاً خود اعتمادی محسوس کرنے لگتا ہے۔

    ماہرین متفق ہیں کہ بستر سے اترنے سے قبل ایک بھرپور انگڑائی دن کو نہایت خوشگوار بنا سکتی ہے اور آپ جسمانی طور پر چاق و چوبند رہ سکتے ہیں۔

  • فوری طور پر ترک کردینے والی 5 عادات

    فوری طور پر ترک کردینے والی 5 عادات

    زندگی میں آگے بڑھنے اور خوش رہنے کے لیے کچھ عادات و معمولات کا اپنایا جانا اور کچھ کا ترک کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔

    کچھ مثبت عادات آپ کو زندگی میں مطمئن اور خوش و خرم بناتی ہیں اور آپ ایک کم خوشحال زندگی گزارتے ہوئے بھی خوش رہ سکتے ہیں۔

    اس کے برعکس کچھ منفی عادات ہمیں ہمیشہ غیر مطمئن رکھتی ہیں۔ ہم جتنی بھی محنت کرلیں، جتنے کامیاب ہوجائیں، یہ عادات ہماری زندگی میں منفیت بھرتی ہیں۔

    افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ان میں موجود کون سی عادات ان کی زندگی کو مشکل بنائے ہوئے ہیں۔

    چنانچہ ایسے افراد کی مشکل کو آسان بنانے کے لیے ہم نے ایسی ہی کچھ عادات کی نشاندہی کی ہے جنہیں فوری طور پر ترک کردینا زندگی کو سہل اور خوشگوار بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔


    سب کو خوش رکھنے کی کوشش

    ls-1

    دنیا میں موجود ہر شخص کا مزاج اور عادات الگ ہیں۔ چنانچہ یہ ناممکن ہے کہ بیک وقت اپنے ارد گرد موجود تمام افراد کو خوش رکھا جاسکے۔

    آپ جتنی بھی کوشش کرلیں، ایک وقت میں کسی ایک فریق کو تو خوش کیا جاسکتا ہے، لیکن اسی کوشش سے دوسرا فریق بدگمان اور ناراض بھی ہوسکتا ہے۔

    لہٰذا سب کو خوش رکھنے کی بیکار کوشش کو فوری طور پر ترک کریں اور اپنی زندگی اور مقاصد پر توجہ مبذول کریں۔


    تبدیلی سے خوف

    ls-2

    تبدیلی فطرت کا قانون ہے۔ اچھا وقت برے، اور برا وقت اچھے میں تبدیل ہوتا ہے۔ اس تبدیلی کا کھلے دل سے استقبال کر کے اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنا چاہیئے۔

    بعض لوگ کئی بہترین مواقع اس لیے بھی چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ برسوں سے ایک ہی معمول پر کاربند ہوتے ہیں اور تبدیلی نہیں چاہتے۔ یہ عادت وقت گزرنے کے بعد بدترین پچھتاوے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔


    ماضی میں رہنا

    ls-5

    ماضی اچھا ہو یا برا، اسے یاد کرنا اور ہر وقت اس میں گم رہنا نہایت احمقانہ عادت ہے۔ یہ زندگی کو ناخوشگوار اور ناکام بنانے والی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    حال سے لطف اندوز ہوں، چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے خوش ہونا سیکھیں اور مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے کام کریں۔


    احساس کمتری کا شکار ہونا

    ls-3

    ہمیشہ اپنے آپ کو سب سے اچھا اور ہر کام کرنے کی صلاحیت سے مالا مال سمجھیں۔ یاد رکھیں عاجزی و انکساری اور احساس کمتری میں فرق ہوتا ہے۔

    عاجز رہیں، لیکن احساس کمتری کا شکار مت ہوں۔ یہ آپ کی صلاحیتوں اور ٹیلنٹ کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گا۔


    بہت زیادہ سوچنا

    ls-4

    زندگی میں بعض اوقات کچھ باتوں کو درگزر کرنا اور بھلا دینا بہتر ہوتا ہے۔ اگر آپ تلخ باتوں کو مستقل اور بہت زیادہ سوچتے رہیں گے تو آپ ناخوش رہیں گے اور اپنے پیاروں سے بھی بدگمان رہیں گے۔

    تلخ باتوں کو بھلائیں، سب کو معاف کریں اور زندگی میں آگے بڑھیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کارکردگی کو متاثر کرنے والی نقصان دہ عادات

    کارکردگی کو متاثر کرنے والی نقصان دہ عادات

    ہم اپنے کام کے وقت بہترین کارکردگی دکھانا اور کامیاب ہونا چاہتے ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کام کے دوران ہمارا ارتکاز ٹوٹ جاتا ہے اور ہم بہترین کام نہیں کر پاتے۔

    دراصل ہماری کچھ عادات ایسی ہوتی ہیں جو ہماری لاعلمی میں ہماری کارکردگی اور دماغ کو سست کردیتی ہیں اور ہم بہترین کام نہیں کر پاتے۔ آئیں دیکھیں وہ کون سی عادات ہیں جو ہماری کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دماغ کی بہترین کارکردگی کا وقت کون سا ہے؟


    سونے سے قبل اسمارٹ فون کا استعمال

    ہمارے اسمارٹ فونز ہماری زندگی پر اس قدر حاوی ہوگئے ہیں کہ یہ ہر لمحے ہمارے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ ہم رات سونے سے قبل اور صبح جاگنے کے بعد سب سے پہلے اپنا اسمارٹ فون دیکھتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اسمارٹ فون کی نیلی روشنیاں ہماری دماغی صحت اور نیند کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    یہ روشنی نیند کے خلیات کو متاثر کرتی ہے جس سے ہم رات کو بھرپور نیند نہیں لے پاتے نتیجتاً صبح ہم پر غنودگی اور سستی چھائی رہتی ہے اور کام کرنے کا دل نہیں چاہتا۔


    توجہ بھٹکنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی کام پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے 15 منٹ درکار ہوتے ہیں۔ 15 منٹ بعد ہمارا ذہن رواں ہوجاتا ہے اور اس کے بعد ہم مکمل ارتکاز اور دلچسپی کے ساتھ وہ کام کرنے لگتے ہیں۔

    لیکن اس دوران اگر آپ کسی چیز سے مخل ہوئے، آپ نے کام سے توجہ ہٹا کر فیس بک، ٹویٹر یا کسی دوسری شے کی طرف مبذول کرلی تو آپ کا ارتکاز ٹوٹ جائے گا۔

    اس کا مطلب ہے کہ آپ کو کام پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے مزید 15 منٹ درکار ہیں۔ کام کے دوران تمام سوشل میڈیا سائٹس کے نوٹی فکیشن بند کردیں اور موبائل بھی سائلنٹ پر کردیں۔


    ہر وقت جواب دینا

    آپ کے فون پر آنے والے پیغامات اور آپ کو موصول ہونے والی ای میلز فوری جواب کی متقاضی نہیں ہوتیں۔

    پھر بھی اگر آپ ہر گھنٹے بعد اپنا موبائل اور ای میل چیک کرتے ہیں اور ضروری و غیر ضروی پیغامات کا فوری جواب دیتے ہیں تو یہ عمل آپ کی کارکردگی کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    اس کے بجائے ای میل اور موبائل فون چیک کرنے کے لیے ایک مخصوص وقت رکھ لیں۔ یہ وقت دن میں 2 بار بھی ہوسکتا ہے۔

    مکمل توجہ سے کام کریں اور مخصوص وقت میں اپنا موبائل اور ای میل دیکھ کر ضروری پیغامات کا جواب دیں۔


    ناپسندیدہ افراد کے بارے میں سوچنا

    ہم سب کی زندگیوں میں کچھ افراد ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کی عادات اور گفتگو کی وجہ سے ہم انہیں سخت ناپسند کرتے ہیں اور ان کی موجودگی میں ہم سخت الجھن اور بے زاری محسوس کرتے ہیں۔

    ایسے افراد کے بارے میں تنہائی میں سوچنا بھی آپ کے دماغ کو منفی خیالات سے بھر سکتا ہے۔ جن لوگوں کو آپ پسند نہیں کرتے انہیں نظر انداز کردیں اور ان کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی نہ کریں۔


    میٹنگ کے دوران مختلف کام سر انجام دینا

    جب بھی آپ کسی میٹنگ میں شریک ہوں تو یاد رکھیں کہ میٹنگ ایسی ہو جو آپ کی مکمل توجہ کی متقاضی ہو۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ میٹنگ میں کی جانے والی گفتگو آپ کے لیے غیر ضروری ہے تو ایسی میٹنگ میں شریک ہو کر وقت ضائع نہ کریں۔

    یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ کسی میٹنگ میں جائیں اور وہاں بیٹھ کر اسمارٹ فون یا ٹیب پر اپنا کوئی ادھورا کام نمٹائیں۔ یہ رویہ کام سے آپ کی عدم دلچسپی کو ظاہر کرے گا۔


    گپ شپ سے پرہیز کریں

    آپ نے سابق امریکی خاتون اول ایلینور روز ویلیٹ کا وہ مقولہ ضور سنا ہوگا، ’عظیم لوگ خیالات کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، اوسط درجے کے لوگ واقعات جبکہ عام افراد دیگر افراد کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں‘۔

    کام کے دوران اگر آپ کے پاس وقت ہے تو اسے ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ میں ضائع کرنے کے بجائے کسی سینیئر کے پاس جا کر بیٹھ جائیں اور ان کے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کریں۔


    بہترین کا انتظار کرنا

    اگر آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے مکمل مہارت حاصل کرنے کا انتظار کر رہے ہیں تو آپ وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ کام شروع کردیں، مہارت خود بخود آتی جائے گی۔

    شروع میں آپ کا کام کم معیار کا ہوگا لیکن آہستہ آہستہ اس کا معیار بہتر ہوتا جائے گا۔

    بعض مصنفین یا دیگر لکھنے والے افراد بھی یہی حرکت کرتے ہیں۔

    جب بھی ان کے ذہن میں کچھ نیا آتا ہے وہ اسے الگ سے لکھ کر ایک جگہ رکھ دیتے ہیں لیکن کبھی ان صفحات کو ضم کر کے مکمل کتاب کی شکل دینے کی کوشش نہیں کرتے، کیونکہ وہ کسی بہترین آئیڈیے اور اس کے مکمل ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔

    انتظار کرنے والے لوگ ہمیشہ انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ ایک مصنف نے ایسی ہی صورتحال کے لیے کہا ہے، ’ایک برے لکھے ہوئے صفحے کی درستگی کی جاسکتی ہے، لیکن ایک خالی صفحے کی درستگی نہیں کی جاسکتی‘۔

    لہٰذا انتظار چھوڑیں اور جو کرنا چاہتے ہیں آج ہی سے اس کا آغاز کریں۔


    دوسروں سے مقابلہ کرنا

    جب بھی آپ کوئی کامیابی حاصل کریں تو خوش ہوں، اور اس کا مقابلہ کسی دوسرے شخص سے مت کریں کہ کاش وہ مل جاتا جو اسے ملا۔

    یہ سوچ آپ کی خوشی اور مزید کام کے لیے حوصلہ افزائی کو ختم کردے گی اور آپ کامیابی پر خوش ہونے کے برعکس مایوس اور بد دل ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دانتوں کی ساخت سے شخصیت کا اندازہ لگائیں

    دانتوں کی ساخت سے شخصیت کا اندازہ لگائیں

    کسی انسان کی شخصیت کا اندازہ اس کی بہت سی چیزوں سے ہوتا ہے۔ اس کے بات کرنے کا انداز، کھانا کھانے کا انداز، گفتگو کے دوران جسم کو حرکت دینے کا آغاز، اس کی ہر حرکت اس کی شخصیت اور مزاج کی عکاس ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی شخص کے سامنے کے دانتوں کی ساخت بھی اس کی شخصیت کا اندازہ لگانے میں مدد دے سکتی ہے۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ مختلف ساخت کے دانتوں کے حامل افراد کس مزاج و عادات کے مالک ہوتے ہیں۔


    دانتوں کی ساخت

    پہلے تو یاد رکھیں کہ ہمارے بالکل سامنے کے دو دانت 4 قسم کی ساخت کے حامل ہوتے ہیں۔ بیضوی (اوول)، چوکور، قائمہ الزاویہ (ریکٹینگولر) اور تکون۔


    بیضوی دانت

    t2

    اگر کسی شخص کے سامنے کے دو دانت بیضوی ساخت کے ہیں تو یہ اس شخص کے تخلیقی ہونے کی نشانی ہیں۔ ایسے افراد بعض اوقات معمولی باتوں پر بھی جھگڑ سکتے ہیں تاہم یہ ہمدرد طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اور کسی کو مشکل میں دیکھ کر فوراً اس کی مدد کرتے ہیں۔

    بیضوی دانتوں والے افراد چونکہ تخلیقی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں لہٰذا یہ اپنے خیالات و تصورات میں اتنے کھو جاتے ہیں کہ یہ حقیقی دنیا سے کٹ جاتے ہیں۔ یہ طویل عرصے تک کسی چیز پر اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتے۔


    چوکور دانت

    t1

    چوکور دانت کے حامل افراد عموماً پرسکون طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ اپنے جذبات پر قابو پانا جانتے ہیں۔

    یہ لوگ عموماً کم گو بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں مغرور سمجھا جاتا ہے اور لوگ ان سے دور رہتے ہیں۔


    قائمہ الزاویہ دانت

    t4

    اگر آپ قائمہ الزاویہ یا ریکٹینگلر دانتوں کے مالک ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ حاکمانہ مزاج کے مالک ہیں۔ آپ میں رہنمائی کرنے اور بہترین فیصلہ سازی کی پیدائشی خصوصیت موجود ہے۔

    ایسے دانتوں کے حامل افراد زندگی میں طے کیے گئے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بے حد جنونی ہوتے ہیں اور اس کے لیے بعض اوقات یہ اپنے قریبی رشتوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے خود غرض اور انا پسند قرار پاتے ہیں۔


    تکون دانت

    t3

    تکون دانت رکھنے والے افراد تنہائی سے گھبراتے ہیں لہٰذا یہ دوست بنانے میں ماہر ہوتے ہیں۔ یہ مثبت سوچ رکھنے والے افراد ہوتے ہیں اور اگر انہیں ان کے پسندیدہ شعبے میں کام کرنے کا موقع مل جائے تو یہ نہایت کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔

    مضمون بشکریہ: ہیفٹی ڈاٹ کو