Tag: عارف عزیز

  • ”گاؤں والے…“

    ”گاؤں والے…“

    گاﺅں کا نام تو امیر پور تھا، لیکن وہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرتے تھے۔ ان میں‌ بعض لوگ ہنر مند اور کسی نہ کسی پیشے سے جڑے ہوئے تھے اور اسی سے اپنی روزی روٹی کا انتظام کر پاتے تھے۔ امیر پور کے یہ باسی بڑے صابر و شاکر تھے۔ وہ روکھی سوکھی کھا کر خدا کا شکر ادا کرتے اور مل جل کر رہتے تھے۔

    گاﺅں سے تھوڑے فاصلے پر ایک پکّی سڑک موجود تھی۔ اس سڑک سے بیل گاڑی یا تانگے پر سوار ہو کر گاؤں والے کام کی تلاش میں‌ شہر جایا کرتے تھے۔ سڑک کے قریب ایک بڑا پرانا مکان تھا، جس میں میاں بیوی اور ان کا ایک بیٹا رہتا تھا۔ پورا گاﺅں انہیں حاجی صاحب اور امّاں بی کے نام سے جانتا تھا۔

    یہ میاں‌ بیوی بہت مہمان نواز اور خدا ترس تھے، لیکن ان کا بیٹا نہایت بدتمیز اور خود سَر تھا۔ اسے گاؤں والے ننّھے کے نام سے پکارتے تھے۔ ماں باپ اپنے بیٹے کو بہت سمجھاتے اور دوسروں سے اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتے، لیکن اُس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ حاجی صاحب اور امّاں بی فجر کی نماز کے بعد اپنے گھر کے باہر بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھ جاتے۔ وہ شہر جانے کے لیے گزرنے والے دیہاتیوں سے سلام دعا کرتے اور ان کی خیریت دریافت کرتے، اسی طرح شام کو جب لوگ اپنے کاموں سے لوٹتے تو ایک بار پھر حاجی صاحب اور ان کی بیوی سے سامنا ہوتا اور وہ مسکرا کر گویا ان استقبال کرتے۔

    خوش اخلاق اور ملن سار میاں بیوی کی آمدن اور گزر بسر کا ذریعہ ان کے دو مکانات اور تین دکانیں تھیں جو انہوں‌ نے کرایے پر اٹھا رکھی تھیں۔ حاجی صاحب سے گاؤں کے غریب لوگ ضرورت پڑنے پر کچھ رقم ادھار بھی مانگ لیتے تھے اور اکثر ان کے گھر ضرورت مند آتے جاتے رہتے تھے۔ یہ بات ننھّے کو بالکل پسند نہ تھی۔ حاجی صاحب کی غیر موجودگی میں اگر کوئی گاؤں والا ان کے گھر آجاتا تو ننھّا بدتمیزی سے پیش آتا اور انہیں جھڑک دیتا۔ غریب اور مجبور دیہاتی حاجی صاحب کی وجہ سے اس کی باتوں کو نظر انداز کر دیتے تھے اور اُن سے اس کی شکایت بھی نہیں‌ کرتے تھے۔

    ایک دن یہ میاں بیوی اپنے بیٹے کو گھر پر چھوڑ کر کسی کام سے شہر گئے، جہاں ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا۔ اس حادثے میں حاجی صاحب اور امّاں بی کی موت واقع ہو گئی۔ اس سانحے پر گاؤں کے ہر فرد کی آنکھ اشک بار تھی۔ ہر کوئی ان کے اکلوتے بیٹے کو صبر کی تلقین کررہا تھا۔ حاجی صاحب اور امّاں‌ بی کی تدفین کے بعد گاؤں‌ کے بزرگ اور نوجوان سبھی دیر تک ننھّے کے ساتھ بیٹھے رہے۔ اُس دن وہ بہت رویا اور پھر اسے صبر آہی گیا۔

    چند دن بعد ننھّے کے تمام رشتے دار بھی اپنے گھروں کو چلے گئے اور وہ اکیلا رہ گیا تو گاﺅں کے چند بڑوں نے اس کی مزاج پرسی اور دل بہلانے کی غرض سے مرحوم کے گھر کا رخ کیا۔ ننّھا انہیں دیکھ کر بگڑ گیا اور بولا، ”تم لوگ اب یہاں کا رُخ مت کرنا۔ مجھے تم جیسے جاہل اور گنوار لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔“ گاﺅں والوں نے بڑے تحمّل کا مظاہرہ کیا اور خاموشی سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

    حاجی صاحب اور امّاں بی کے انتقال کو تین ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ خود سَر اور بدتمیز ننّھے کی غلطی کی وجہ سے گھر کے ایک حصّے میں آگ لگ گئی۔ شاید قدرت اُسے اس کے رویّے کی سزا دے رہی تھی۔ گاﺅں والوں کو اس کی خبر ہوئی تو دوڑے دوڑے آئے اور کسی طرح آگ پر قابو تو پا لیا، مگر اس وقت تک خاصا مالی نقصان ہو چکا تھا۔ دیواریں کالی ہوچکی تھیں، لکڑی کے دروازے اور کمروں میں‌ موجود سامان خاکستر ہوچکا تھا۔ ننھّا شدتِ غم سے نڈھال تھا اور گھر کے سامنے زمین پر بیٹھا اپنا سَر پیٹ رہا تھا۔

    آگ بجھانے کے بعد گاؤں کے چند بڑے گامو، رستم اور شیر خان آگے بڑھے اور اس سے مخاطب ہو کہا، ”بیٹا، ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت بڑا نقصان ہے، مگر تم فکر نہ کرو، ہم ہیں تمہارے ساتھ۔“ شیر خان نے بات کرنے میں پہل کی۔ وہ ایک معمولی ٹھیکے دار تھا۔

    ”ہاں، ہم سب مل کر تمہارا مکان دوبارہ تعمیر کریں گے۔“ گامو نے کہا، جو شہر جاکر مزدوری کرتا تھا۔ ننّھے نے خالی خالی نظروں سے اِس کی طرف دیکھا۔ اس دوران دُور کھڑے دیہاتی بھی قریب آگئے اور ننھّے کی ہمّت بندھائی۔ ادھر ننّھا سوچ رہا تھا کہ یہ غریب لوگ اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

    چند دن گزرے تھے جب اپنے سوختہ گھر کے باقی ماندہ حصّے میں موجود ننھّے نے باہر کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سنا۔ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ گاؤں والے بیلچے اور پھاؤڑے لے کر جلے ہوئے مکان کا ملبا ہٹانے کی تیّاری کررہے ہیں۔ ابھی وہ کچھ بولنا ہی چاہتا تھا کہ گامو اور شیر خان اس کے قریب آئے اور مسکراتے ہوئے کہا۔ ”ننھے میاں! گاﺅں کا ہر ہنرمند اور مزدور یہاں صفائی کرنے کے بعد تمھارا مکان دوبارہ تعمیر کرنے میں حصّہ لے گا، اور تم سے کوئی اُجرت نہیں لی جائے گی۔“

    ”اور ہاں، رنگ و روغن کا کام دو، چار دن میں نمٹا دوں گا، تم فکر نہ کرنا۔“ یہ رستم نامی رنگ ریز کی آواز تھی۔ شیر خان الیکٹریشن تھا۔ اس نے پورے گھر کا بجلی کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ اسی طرح گاؤں میں رہنے والے بڑھئی نے بھی دروازے اور کھڑکیاں وغیرہ تیّار کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ گاؤں کا ہر فرد ننّھے کے ساتھ تھا، لیکن ضروری ساز و سامان کی خریداری بھی ایک مسئلہ تھا۔ قدرت نے اس کا انتظام بھی کردیا۔ گاؤں کے ایک شخص نے حاجی صاحب سے کچھ رقم قرض لے رکھی تھی، جو اس کام کے لیے کافی تھی اور یہ وہی مہینہ تھا جس میں اس نے حاجی صاحب سے قرض لوٹانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے گاؤں والوں کی موجودگی رقم ننھّے کو دے دی۔

    ننھّا جان گیا تھا کہ انسان کا امیر یا غریب ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا، اصل چیز انسانیت ہے۔ وہ اپنے رویّے پر گاؤں والوں سے بہت شرمندہ تھا۔ اُس دن شہر کو جانے والی پکّی سڑک سے گزرنے والوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ جن میں عورتیں بھی شامل ہیں، ایک سوختہ عمارت سے ملبا ہٹانے کا کام کررہے ہیں۔

    (مصنّف: عارف عزیز)

  • چھوٹی کہانیاں جو آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں

    چھوٹی کہانیاں جو آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں

    عارف حسین

    کہانی ہمیں متوجہ کر لیتی ہے؛ داستانیں، قصے پُر لطف ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب انسان نے لکھنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ وہ مظاہرِ قدرت اور خود سے طاقت ور یا نفع و نقصان پہنچانے والے جان دار و بے جان اجسام اور قدرتی عوامل سے متاثر ہوتا اور چوں کہ وہ اس کا علم اور شعور نہیں رکھتا تھا تو اس کے بارے میں عجیب و غریب کہاںیاں اور قصے گھڑ لیتا۔ اسے دوسروں کے آگے طرح طرح سے بیان کرتا اور نہایت ڈرامائی انداز اختیار کرتا۔ پھر انسان نے لکھنا پڑھنا سیکھا اور ارتقائی منازل طے کیں تو اس کا وہی تجسس، تحیّر، وہی بیانیہ ادب اور اس کی مختلف اصناف میں ڈھل گیا۔ وہ زیادہ جاننے اور بیان کرنے پر قادر ہو گیا۔ یوں کہانی، ناول، ڈراما لکھے گئے اور یہ ایک فن ٹھہرا۔

    قارئین آج ہم اخبار اور سوشل میڈیا پر مختلف مصنفین کی مختصر کہانیاں (شارٹ اسٹوریز) پڑھتے ہیں۔ تحریر کے علاوہ ہمارے ہاں بصری اور صوتی ذرایع سے بھی مختصر ماجرا بیان کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ خصوصاً دو دہائیوں کے دوران شعور اور آگاہی کا سفر طے کرنے والی نسل کے لیے سو لفظوں کی تحریر سے لے کر دو، تین منٹ تک کی ویڈیو کہانی کوئی نئی بات نہیں، مگر ستّر اور اسّی کے زمانے میں کتب و جرائد کے مطالعے کے رسیا ‘‘افسانچہ’’ پڑھتے تھے جو عموماً طنز و مزاح، شوخی و ظرافت پر مبنی ہوتا تھا۔ تاہم اس کا خالق کسی واقعے، ذاتی تجربے اور مشاہدے کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں بھی بیان کرتا تھا۔ ان ہی افسانچوں نے کئی باقاعدہ لکھاری بھی تیار کیے۔ آج کی مختصر کہانیاں تحریری شکل میں ہوں یا ویڈیو کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہوں، ان میں واقعاتی، حالاتِ حاضرہ اور سماج کے بدرنگ اور تکلیف دہ پہلوئوں کا خاص طور پر احاطہ کیا جاتا ہے۔ یہ سیاست کے ایوانوں سے لے کر سماج کے ہر شعبے تک سنجیدہ پیغام دینے اور شعور اجاگر کرنے کی کوشش تو ہیں اور مقبول بھی۔ مگر چار دہائیوں قبل افسانچہ اخبارات اور دوسرے جرائد میں خاص طور پر شامل کیا جاتا تھا۔ یہ دل چسپ اور پُرلطف تحریر کسی بڑے اور نام ور ادیب کی نہیں بلکہ ایک عام قاری کی ہوتی تھی۔ مدیر ذرا سی قطع برید اور کمی بیشی سے اسے قابلِ اشاعت بنا لیتے تھے۔ اسّی کی دہائی کے وہ گدگداتے افسانچے الگ ہی لطف رکھتے ہیں۔

    یہ بھی مطالعہ کریں:  محمدی بیگم: مسلمان مدبر اور مصنّفہ، خواتین کے لیے مشعلِ راہ

    شارٹ اسٹوری یا مختصر کہانی اردو ادب میں نئی نہیں۔ افسانچہ شاید اسی کی ایک شکل ہے جسے عام لوگوں نے برتا اور یہ ان میں مقبول ہوئی۔ دوسری طرف ہم سعادت حسن منٹو کے کمالِ فنِ مختصر نویسی اور اس دور کے دیگر کہانی کاروں کی بات کریں تو نہایت پُرمغز اور فنی مہارت سے آراستہ کہانیاں بھی سنجیدہ اور باوقار قارئین کی توجہ حاصل کرتی رہی ہیں۔ آج بھی اردو ادب میں ان کی اہمیت اور افادیت برقرار ہے۔ منٹو کے دوسرے افسانوں کے علاوہ سنجیدہ قارئین میں ان کی مختصر کہانیاں بھی مقبول ہوئیں اور یہ سب جان دار اور نہایت پُر اثر تھیں۔ اردو میں منٹو کے بعد مختصر کہانیوں کا مزید تجربہ کیا گیا۔ سیاہ حاشیے‘‘ کی شکل میں دراصل منٹو کے سنجیدہ اور بامقصد افسانچے منظرعام پر آئے۔ ان میں سے دو یہاں آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش ہیں۔

    ‘‘خبردار’’

    بلوائی مالک مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے، کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔ مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’ ‘‘

    ‘‘دعوتِ عمل’’

    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔ صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا۔

    ‘‘یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے۔’’

    اس کے علاوہ جوگندرپال، ابراہیم جلیس اور دیگر متعدد لکھاریوں نے بھی خوب مختصر نویسی کی، مگر جب عام قارئین نے اپنے جذبات، خیالات کا چند سطری اظہار چاہا تو کچھ الگ ہی ڈھب اپنایا۔ عوامی سطح پر یہ اظہار ‘‘افسانچہ’’ کی شکل میں اتنا مقبول ہوا کہ اکثر اخبارات اور جرائد اس سے کنارہ نہ کر سکے۔ یہ بات کہنا کچھ مشکل نہیں کہ افسانچہ قطعی عوامی ثابت ہوا۔ وقت بدلا تو سماج کے مسائل اور عوام کا مزاج بھی بدل گیا۔ آج مختصر نویسی یا شارٹ اسٹوری ایک اور ہی انداز سے ہمارے سامنے ہے۔ یہ زیادہ تر سنجیدہ اور نہایت اہم موضوعات کا احاطہ کرتی کہانیاں ہیں جو واقعاتی، مشاہدے اور تجربے کے ساتھ تاثراتی ہو سکتی ہیں۔ آج تحریری اور تصویری شکل میں کہانی اپنے قارئین تک تو پہنچ رہی ہے، مگر افسانچہ، یعنی وہ تحریری اظہار جس کا آغاز سنجیدہ اور پُر تجسس جب کہ انجام نہایت لطیف اور گدگداتا ہوتا تھا، اب بہت کم نظر آتا ہے۔