Tag: عالمی ادارہ صحت

  • کیا چین میں سانس کی بیماریوں میں اضافے سے عالمی خطرہ ہے؟ ڈبلیو ایچ او کا اہم بیان

    کیا چین میں سانس کی بیماریوں میں اضافے سے عالمی خطرہ ہے؟ ڈبلیو ایچ او کا اہم بیان

    گزشتہ برس دسمبر میں کرونا سے متعلق تمام تر پابندیاں اٹھانے کے بعد چین میں یہ پہلی سردیاں ہیں اور اس دوران بچوں میں سانس لینے کی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    سوشل میڈیا پر متاثرہ بچوں کی تصاویر پوسٹ کی گئیں جنھیں اسپتال میں ڈرپ لگائی جا رہی ہیں، شمال مغربی شہر شیان سے بھی ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں اسپتالوں میں رش لگا ہوا ہے، چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے بھی 13 نومبر کو نیوز کانفرنس میں سانس کی بیماریوں کے کیسز میں اضافے کی تصدیق کی تھی۔

    جب اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے چین سے سانس کی بیماریوں اور نمونیا کے کیسز میں اضافے سے متعلق مزید معلومات کی درخواست کی گئی تو اس معاملے نے عالمی توجہ حاصل کر لی۔ تائیوان نے عمر رسیدہ افراد، نوجوانوں اور کمزور قوت مدافعت رکھنے والوں کو چین کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا۔

    تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اب کہا ہے کہ کسی قسم کے غیر معمولی پیتھوجنز کی شناخت نہیں ہوئی ہے، لہٰذا عالمی سطح پر کسی قسم کے ممکنہ خطرے کے شواہد نہیں ملے، ماہرین نے کہا کہ اس سلسلے میں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

    چین کے محکمہ صحت کے حکام نے ڈبلیو ایچ او کو بتایا کہ سانس کی بیماریوں کے کیسز کی تعداد کرونا کی عالمگیر وبا سے قبل کی تعداد سے زیاد نہیں ہے، ڈیٹا کے مطابق کیسز میں اضافے کی وجہ کرونا پابندیوں کا اٹھایا جانا اور ’مائیکو پلازمہ نمونیا‘ نامی پیتھوجن کا پھیلاؤ ہے جو ایک عام بیکٹیریل انفیکشن ہے اور مئی سے بچوں کو متاثر کر رہا ہے، جب کہ زکام کی قسم کا ریسپائریٹری سنسیٹیئل وائرس اکتوبر سے پھیلا ہوا ہے۔

  • غزہ میں بمباری سے زیادہ اموات بیماریوں سے ہونے کا خدشہ، ڈبلیو ایچ او نے خبردار کر دیا

    غزہ میں بمباری سے زیادہ اموات بیماریوں سے ہونے کا خدشہ، ڈبلیو ایچ او نے خبردار کر دیا

    عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بمباری سے زیادہ اموات بیماریوں سے ہونے کا خدشہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں صحت کا نظام تباہ ہے، بجلی اور پانی نہ ہونے سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے، اور بچوں اور خواتین میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے بھی وارننگ جاری کر دی ہے، اور کہا ہے کہ غزہ میں بدترین غذائی بحران کا خطرہ ہے، بڑی آبادی کھانے پینے کی اشیا سے محروم ہے۔

    ڈبلیو ایف پی کے مطابق اشیائے خور و نوش کی کمی کے سبب غزہ کی آبادی خصوصاً خواتین اور بچے قحط کے بدترین خدشات سے دو چار ہیں، شہر میں اب تک ایک لاکھ 21 ہزار 161 افراد کو کھانا فراہم کیا گیا ہے۔

    غزہ متاثرین کیلئے 23 واں سعودی طیارہ روانہ

    دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے حماس اور اسرائیل کی جانب سے مزید دو دن کی عارضی جنگ بندی کا دورانیہ انتہائی کم قرار دے دیا ہے۔

    یورپی یونین کا کہنا ہے کہ اسرائیل امداد غزہ بھیجنے کی اجازت نہیں دے رہا، انسانی بنیاد پر ایندھن کی فراہمی پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔

  • ”تنہائی“ یا 15سگریٹ پینا برابر، عالمی ادارہ صحت نے خبر دار کردیا

    ”تنہائی“ یا 15سگریٹ پینا برابر، عالمی ادارہ صحت نے خبر دار کردیا

    جس طرح نیند کا پورا نہ ہوا، متوازن غذا ؤں کا استعمال نہ کرنا اور سگریٹ نوشی کرنا صحت کے لئے انتہائی مضر ہے، اسی طرح ”تنہائی“ بھی آپ کی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ”ڈبلیو ایچ او“ نے تنہائی کو صحت کے لیے سب بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے اثرات اسی طرح جان لیوا ثابت ہوتے ہیں جس طرح آپ کی صحت پر دن میں 15 سگریٹ پینے کے اثرات پڑتے ہیں۔

    افریقی یونین کے یوتھ ایلچی چیڈو مپیمبا کے مطابق تنہائی دنیا بھر میں صحت، تندرستی اور ترقی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہی ہے اسی لیے اب یہ صحت عامہ کی عالمی تشویش کا باعث بن رہی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کا دعویٰ ہے کہ نوعمر افراد میں تنہائی کا یہ تناسب ہر پندرہ میں سے پانچ ہے جبکہ ہر چار میں سے ایک ضعیف فرد سماجی تنہائی کا شکار ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے اس نئے کمیشن بنانے کے اصل وجہ اسکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف گلاسگو کی ایک نئی تحقیق ہے جس میں اس بات کا پتہ چلا ہے کہ دوستوں یا خاندان کے ساتھ مل جل کر نہ رہنے سے جلد موت کا خطرہ 39 فیصد بڑھ سکتا ہے۔

    اس تحقیق میں تقریباً 458,000 درمیانی عمر کے شرکاء کا تقریباً 12 سال تک جائزہ لیا گیا، جبکہ اس تحقیق کے دوران تقریباً 33,000 افراد کا انتقال ہوگیا۔

    تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ مہینے میں کم از کم ایک بار دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ ملنا بہت ضروری ہے، جبکہ محض فون پر بات یا سطحی گفتگو کرنے سے قبل از وقت موت کے خطرے کو ٹالا نہیں جاسکتا۔

    سابقہ کی جانے والی تحقیق سے اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ تنہائی اضطراب، افسردگی، کمزور قوت مدافعت، قلبی مسائل، اور یہاں تک کہ دماغ سکڑنے کا خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔

    ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس کے لیے اسی طرح کے اقدامات کرنا ضروری ہے جس طرح تمباکو کے استعمال، موٹاپا، اور مختلف لت سے نمٹنے کے لیے کیے گئے ہیں۔

  • غزہ کے سب سے بڑے  اسپتال میں  لاشیں سڑ رہی ہیں، دفنانے کی اجازت نہیں، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کردیا

    غزہ کے سب سے بڑے اسپتال میں لاشیں سڑ رہی ہیں، دفنانے کی اجازت نہیں، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کردیا

    نیویارک : عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال کے اندراور باہر بڑی تعداد میں لاشیں موجود ہیں، ڈاکٹروں نے بتایا لاشیں سڑ رہی ہیں، قابض فوجی لاشیں دفنانے کی اجازت نہیں دے رہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کا سب سے بڑا الشفا اسپتال قبرستان میں تبدیل ہو رہا ہے، اسپتال کے اندراور باہر بڑی تعداد میں لاشیں موجود ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں نے بتایا لاشیں سڑ رہی ہیں اور قابض فوجی لاشیں دفنانے کی اجازت نہیں دے رہے جبکہ آکسیجن کی کمی کے باعث مزید سات نومولود دم توڑچکے ہیں۔

    دوسری جانب فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے الشفا اور القدس اسپتال میں تمام آپریشنز بند ہوگئے ہیں، جنگ بندی نہ ہوئی تو اڑتالیس گھنٹے میں غزہ کے تمام اسپتال بند ہوجائیں گے۔

    الشفا اسپتال میں آئی سی یو کے تمام مریض دم توڑگئے اور انکیوبیٹرمیں موجود بچے ایک ایک کرکے دم توڑنے لگے ہیں، انتقال کر جانے والوں میں چھ بچے اور چھبیس مریض شامل ہیں۔

    ہر گھنٹے نومولود بچےاورمریض انتقال کررہے ہیں، جس کے باعث اسپتالوں میں میتوں کےڈھیر لگے ہیں، جن کو دفنانے والاکوئی نہیں۔

    غزہ میں صہیونی فوج کی دہشت گردی انتالیسویں دن بھی جاری ہے، رات بھر بمباری سے گونجتا رہا، جبالیہ کیمپ میں حملے میں مزید تیس فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ خان یونس میں اسرائیلی طیاروں نےبارہ گھروں کونشانہ بنایا۔

  • سمندری طوفان  ‘بپر جوائے’ سے پاکستان کے 11 اضلاع شدید متاثر ہونے کا خدشہ

    سمندری طوفان ‘بپر جوائے’ سے پاکستان کے 11 اضلاع شدید متاثر ہونے کا خدشہ

    اسلام آباد: عالمی ادارہ صحت نے سمندری طوفان بپر جوائے سے پاکستان کے 11 اضلاع شدید متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا، طوفان کیٹی بندر، بھارتی گجرات کی وسطی پٹی سے ٹکرائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے سمندری طوفان کی رپورٹ حکومت کوبھجوا دی ، جس میں کہا ہے کہ سمندری طوفان کی شدت میں کمی آئی ہے اور سمندری طوفان کی شدت کیٹگری تھری میں داخل ہو چکی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ طوفان سے پاکستان کے 11 اضلاع شدید متاثر ہونے کا امکان ہے، ساحلی پٹی سے 70 ہزار سے زائد افراد کا انخلا کرایا گیا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ سمندری طوفان کیٹی بندر، بھارتی گجرات کی وسطی پٹی سے ٹکرائے گا، ڈٹھٹھہ، سجاول، بدین میں محکمہ صحت کا اضافی عملہ تعینات ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ 9 ہائی رسک اضلاع میں 300 ریسیکو 1122 اہلکار تعینات ہیں اور ضافی 80 ایمبولینسز بھجوائی گئی ہیں جبکہ بدین،ٹھٹھہ، سجاول، ملیر، کورنگی، کیماڑی میں 75 ریلیف کیمپس قائم کردیئے گئے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت نے سمندری طوفان کیلئے اسٹریٹجک ہیلتھ آپریشنل سینٹرقائم کر دیا ہے، اسٹریٹجک ہیلتھ آپریشنل سینٹرصبح8تا رات8بجے تک کام کرے گا اور اداروں کے درمیان کوآرڈینیشن کرے گا۔

  • عالمی ادارہ صحت نے دنیا کو پھر خبردار کردیا

    عالمی ادارہ صحت نے دنیا کو پھر خبردار کردیا

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے دنیا کو پھر خبردار کیا ہے کہ دنیا کرونا وائرس سے بھی مہلک وبا کے لیے تیار رہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹیڈروس نے دنیا کو ایک اور عالمی وبا سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اگلی وبا کے لیے تیار ہوجائیں، کیوں کہ اگلی وبا کرونا وائرس سے زیادہ مہلک ہوسکتی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر نے حال ہی میں کہا تھا کہ کویڈ 19 وبائی بیماری کی شدت میں کمی آئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب عالمی صحت کو اس سے خطرہ نہیں ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹیڈروس نے سالانہ اجلاس میں کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اگلی وبائی بیماری کو روکنے کے لیے بات چیت سے آگے بڑھا جائے، اس مہلک وائرس کو  قومی ریاستیں نظر انداز نہیں کرسکتیں۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر نے کہا کہ وقت پر کچھ تبدیلیاں کرنا ضروری ہے، اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو کون کرےگا؟ اور اگر اب اقدام نہیں کیے گئے تو کب کیے جائیں گے؟۔

    انہوں نے مزید کہا کہ وبا کی ایک اور قسم کے دینا میں پھیلنے کا خطرہ ہے جو بیماری اور موت کے نئے اضافے کا سبب بنے گا۔

  • انسانوں میں برڈ فلو پھیلنے کی شرح خطرناک ہوگئی

    انسانوں میں برڈ فلو پھیلنے کی شرح خطرناک ہوگئی

    پرندوں میں پھیلنے والی بیماری برڈ فلو انسانوں میں بھی خطرناک شرح سے پھیلنا شروع ہوگئی ہے جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ برڈ فلو کے انسانوں میں بڑھتے کیسز تشویش ناک ہیں، ڈبلیو ایچ او نے یہ بیان کمبوڈیا میں وائرس سے متاثرہ 11 سالہ لڑکی کی موت کے بعد جاری کیا ہے۔

    کمبوڈیا کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ مرنے والی لڑکی کے والد کا وائرس کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے جس سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ برڈ فلو انسانوں کو ایک دوسرے سے لگ سکتا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے وبا اور اس سے نمٹنے کی تیاریوں کے پروگرام کے ڈائریکٹر سلوی بریانڈ نے بتایا کہ ان کا ادارہ کمبوڈیا میں حکام سے قریبی رابطے میں ہے اور مرنے والے لڑکی کے قریبی افراد کے ٹیسٹ کروائے گئے ہیں۔

    جنیوا میں پریس کانفرنس میں ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس وقت یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ انسانوں میں ایک دوسرے سے پھیلا یا پھر متاثرہ تمام افراد اس خاص ماحول کا حصہ رہے جہاں وائرس تھا۔

    ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انسانوں میں یہ وائرس پایا جائے، عام طور پر متاثرہ پرندوں سے براہ راست رابطے میں آنے والے افراد برڈ فلو کا شکار ہوتے ہیں۔

    سنہ 2021 کے اواخر میں جب یہ وائرس دنیا بھر میں پھیلا تھا اور دسیوں لاکھ مرغیوں کو تلف کیا گیا، اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں جنگلی پرندے ہلاک ہوئے۔ یہ وائرس بعد ازاں دیگر دودھ پلانے والوں جانوروں تک بھی پھیلتا گیا۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ عالمی طور پر برڈ فلو کا پھیلاؤ پریشان کن ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں پرندوں کے بعد اب دیگر جانوروں اور انسانوں میں بھی پایا جا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او اس خطرے کو سنجیدگی سے دیکھتا ہے اور دنیا کے تمام ملکوں کی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے، ان کا کہنا تھا کہ انسانوں میں اس وائرس سے اموات کی شرح 50 فیصد ہے۔

  • عالمی ادارہ صحت کا کرونا وائرس کے حوالے سے اہم بیان

    عالمی ادارہ صحت کا کرونا وائرس کے حوالے سے اہم بیان

    گزشتہ 3 سال سے دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے بے شمار پابندیاں نافذ ہیں جن میں اب نرمی ہورہی ہے، اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے اہم اعلان کیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے واضح کیا ہے کہ تین سال گزر جانے کے باوجود اب بھی کرونا وائرس عالمی ایمرجنسی ہے مگر رواں سال کے اختتام تک اس کے ایمرجنسی کے خاتمے کا امکان ہے۔

    دنیا بھر میں کرونا کے کم ہوتے کیسز کے پیش نظر حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے اس کے ہنگامی حالات کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے سے متعلق اہم اجلاس بلایا، جس میں صورتحال کی سنگینی کا جائزہ لیا گیا۔

    کرونا کا آغاز دسمبر 2019 میں چین سے ہوا تھا، جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے جنوری 2020 میں کورونا کو گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا تھا۔

    بعد ازاں وبا میں تیزی کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے کرونا کو مارچ 2020 میں عالمی وبا قرار دیا تھا، جس کے بعد دنیا بھر میں اس سے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کیے گئے، لاک ڈاؤن نافذ کیے گئے، سفری پابندیاں عائد کی گئیں اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے پر مجبور کیا گیا۔

    گزشتہ تین سال سے تاحال دنیا کے متعدد ممالک میں کرونا سے تحفظ کے لیے لاک ڈاؤن سمیت دیگر بعض پابندیاں نافذ ہیں مگر دنیا بھر کے لوگوں کا خیال ہے کہ اب کرونا ختم ہوچکا۔

    تاہم اب عالمی ادارہ صحت نے واضح کیا ہے کہ کرونا اب بھی عالمی ایمرجنسی ہے مگر اس میں ماضی کے مقابلے میں بہت تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں اور انہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ رواں سال کے اختتام تک کرونا عالمی ایمرجنسی نہیں رہے گا۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ اب بھی کرونا عالمی ایمرجنسی ہی ہے۔

    ادارے کے مطابق کرونا اس وقت تبدیلی کے مراحل سے گزر رہا ہے، جس وجہ سے اس پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ مزید نہ پھیلے۔

    حکام کے مطابق کورونا پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر میں اٹھائے گئے اقدامات اور اس سے بچاؤ کی ویکسینز کی فراہمی کے بعد اس میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور اس کی حالیہ تبدیلیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ رواں سال کے اختتام تک کرونا عالمی ایمرجنسی نہیں رہے گا۔

    ادارے نے واضح کیا کہ کرونا کے عالمی ایمرجنسی رہنے یا نہ رہنے سے متعلق فوری طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا، تاہم اس وقت اسے پھیلنے سے روکنا اہم ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کرونا سے متعلق حالیہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں کرونا کی قسم اومیکرون کی مزید نئی قسمیں سامنے آئی ہیں۔

    اس وقت کرونا سب سے زیادہ چین میں پھیل رہا ہے جبکہ امریکا میں حالیہ کچھ ہفتوں میں وہاں کرونا کی قسم اومیکرون کی نئی قسم کے پھیلنے میں تیزی دیکھی گئی ہے۔

    کرونا سے اس وقت دنیا بھر میں 70 لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ اس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک جا پہنچی ہے۔

  • اومیکرون کی نئی قسم سب سے زیادہ پھیلنے والی قرار

    اومیکرون کی نئی قسم سب سے زیادہ پھیلنے والی قرار

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا اومیکرون کی نئی قسم ایکس بی بی 1.5 کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے واضح کیا ہے کہ کرونا اومیکرون کی نئی قسم ایکس بی بی 1.5 اب تک کی سب سے تیزی سے پھیلنے والی قسم ہے، تاہم یہ لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    ایکس بی بی 1.5 اومیکرون کی قسم ایکس بی بی ون سے تبدیل شدہ قسم ہے جو چند ماہ سے دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    اس وقت ایکس بی بی 1.5 کی قسم سب سے زیادہ امریکا میں پھیل رہی ہے، تاہم یہ قسم دنیا کے دیگر 29 ممالک میں بھی موجود ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے عہدیداروں کے مطابق اب تک کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایکس بی بی 1.5 تیزی سے پھیلنے والی اومیکرون کی نئی قسم ہے مگر ڈیٹا سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہ قسم لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    ساتھ ہی ادارے نے واضح کیا کہ جلد ہی ایکس بی بی 1.5 کے اثرات اور اس کے کیسز کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جاری کی جائے گی مگر دستیاب ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم میں مبتلا افراد زیادہ بیمار نہیں ہو رہے۔

    ساتھ ہی ڈبلیو ایچ او کے عہدیداروں نے کرونا سے ہونے والی انتہائی کم اموات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ممکنہ طور پر نئی قسم سے بھی اموات کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا، کیوں کہ کرونا سے بچاؤ کے اقدامات کام کر رہے ہیں۔

    ادارے کے عہدیداروں کے مطابق اب تک ایکس بی بی 1.5 کے کیسز 29 ممالک میں رپورٹ ہو چکے ہیں، تاہم یہ قسم سب سے زیادہ امریکی ممالک میں پھیل رہی ہے اور امریکا میں ہر ہفتے اس کے کیسز میں دگنا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایکس بی بی 1.5 اومیکرون کی دو قسموں یعنی ایکس بی بی اور ایکس بی بی ون کی تبدیل شدہ قسم ہے۔ ایکس بی بی اور ایکس بی بی ون کے کیسز پاکستان میں بھی رپورٹ ہو چکے ہیں، تاہم تاحال پاکستان میں ایکس بی بی 1.5 کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

    اس وقت دنیا بھر میں ایکس بی بی کی تینوں اقسام کے علاوہ چین میں بی بی ایف سیون کی قسم بھی پھیل رہی ہے۔

    بی بی ایف سیون اومیکرون کی پہلے سے موجود بی اے 5.2.1.7 اور بی اے فائیو قسموں کی تبدیل شدہ قسم ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں اومیکرون کی متعدد قسمیں سامنے آ چکی ہیں، جن میں عام قسمیں درج ذیل ہیں۔

    بی اے ون ۔ بی اے ٹو ۔ بی اے تھری ۔ بی اے فور ۔ بی اے فائیو

    بی اے ۔4 ۔ بی اے ۔5 ۔ بی اے ۔3

    بی کیو ون ۔ بی کیو 1۔1 ۔ ایکس ای

    بی اے 12۔2 ۔ بی اے 75۔2 ۔ بی اے 2۔75۔2 ۔ بی بی ایف سیون

    ایکس بی بی ۔ ایکس بی بی ون ۔ ایکس بی بی 1.5

  • کرونا وائرس کم ہونے کے بعد ایک اور مرض تیزی سے پھیلنے لگا

    کرونا وائرس کم ہونے کے بعد ایک اور مرض تیزی سے پھیلنے لگا

    کرونا وائرس کے کم ہونے کے بعد دنیا بھر میں تپ دق کے مرض میں تشویش ناک اضافہ دیکھا جارہا ہے، گزشتہ برس 1 کروڑ افراد ٹی بی سے متاثر ہوئے۔

    اے پی کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ٹی بی (ٹیوبر کلوسس) یا تپ دق کے حوالے سے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کرونا کی وبا کو ٹی بی کے بڑھنے کا بڑا سبب قرار دیا۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق سال 2019 میں عالمی سطح پر ٹی بی کے کیسز میں نمایاں کمی ہونے لگی تھی اور اس وقت دنیا بھر میں 70 لاکھ لوگ اس سے متاثر تھے مگر 2020 میں یہ کم ہوکر 55 لاکھ تک رہ گئے تھے۔

    تاہم کرونا وائرس کی وبا آنے کے بعد ٹی بی میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا گیا اور 2021 میں دنیا بھر میں اس سے ایک کروڑ لوگ متاثر ہوئے جبکہ اس سے 16 لاکھ اموات بھی ہوئیں۔

    ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کرونا کی وبا کے بعد جہاں ٹی بی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، وہیں پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری کے خلاف طویل جدوجہد بھی ناکام ہوگئی اور سالوں بعد پھر سے ٹی بی ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آئی ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں ٹی بی کے کیسز میں ساڑھے فیصد تک اضافہ دیکھا گیا جب کہ اسی سال ہونے والی 16 لاکھ میں سے ساڑھے 4 لاکھ اموات وہ تھیں جو خطرناک ٹی بی کے باعث ہوئیں۔

    ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں ساڑھے 4 لاکھ اموات ادویات سے بھی کنٹرول نہ ہونے والی ٹی بی سے ہوئیں۔

    ادارے کے ماہرین نے ٹی بی میں خطرناک اضافے کو جہاں کرونا وائرس سے جوڑا، وہیں دنیا کی معاشی تنگ دستی اور دنیا بھر میں جاری کشیدگیوں کو بھی اس کے بڑھنے کے اسباب قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر کرونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ٹی بی کے مریض علاج سے پرہیز کرتے رہے، جس سے یہ بیماری خطرناک حد تک پھیل گئی۔

    عالمی ادارہ صحت نے یوکرین پر روسی جنگ کو بھی ٹی بی کے بڑھنے کا ایک سبب قرار دیا اور کہا جنگ سے قبل یوکرین میں ٹی بی تیزی سے پھیل رہا تھا اور وہاں کے لوگ جنگ کے بعد اس کے علاج سے محروم رہ جائیں گے۔

    عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کے ممالک کو ٹی بی سے نمٹنے کے لیے بر وقت انتظامات کرنے اور اس کی ادویات سستی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔