Tag: عالمی ادارہ صحت

  • کیا کرونا وائرس 2022 میں ختم ہو جائے گا؟

    کیا کرونا وائرس 2022 میں ختم ہو جائے گا؟

    عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک خاتون اہل کار نے امید دلائی ہے کہ کرونا وائرس اگلے سال تک ختم ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارۂ صحت کے کرونا سے متعلقہ تکنیکی وفد کی سربراہ ماریا وان کرخوف نے کہا ہے کہ اس بات کا قومی امکان ہے کہ وائرس اگلے سال ختم ہو جائے گا۔

    انھوں نے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے منعقدہ خصوصی سیشن میں کرونا کی نئی قسم اومیکرون سے متعلق سوالوں کے جواب میں اس بات کا اظہار کیا۔

    انھوں نے کہا کہ ہمیں کافی امید ہے کہ یہ وائرس اگلے سال تک ختم ہو سکتا ہے جس کے لیے ہمارے پاس شرح اموات، وبائی اثرات اور اسپتالوں سے رجوع میں کمی کے مواقع دستیاب ہیں۔

    دوسری جانب یورپی مرکز برائے انسداد امراض کا کہنا ہے کہ اگلے سال کے ابتدائی دو مہینوں میں اومیکرون کے واقعات بڑھ سکتے ہیں۔

    مرکز نے اپنی جائزاتی رپورٹ میں اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ یہ نئی قسم تیزی سے یورپ میں پھیل سکتی ہے، ڈائریکٹر انڈریا آمون نے خدشہ ظاہر کیا کہ اموات اور مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

    باور رہے کہ عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریوسس نے بتایا تھا کہ اومیکرون اس وقت 77 ممالک میں پھیل چکا ہے جس سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

  • پاکستان پر عالمی سفری پابندیوں میں توسیع کا اعلان

    پاکستان پر عالمی سفری پابندیوں میں توسیع کا اعلان

    اسلام آباد : عالمی ادارہ صحت نے پولیو کے باعث پاکستان پر سفری پابندیوں میں 3 ماہ کی توسیع کردی اور کہا پاکستان اور افغانستان پولیو کے عالمی پھیلاؤ کیلئے بدستور خطرہ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے پاکستان پر سفری پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ کرلیا اور پولیو کے باعث پاکستان پر سفری پابندیوں میں 3 ماہ کی توسیع کردی۔

    ڈبلیو ایچ او نے کہا پاکستان، افغانستان پولیو کے عالمی پھیلاؤ کیلئے بدستور خطرہ ہیں، ڈبلیو ایچ او کی ایمرجنسی کمیٹی برائے پولیو کی پابندیوں میں توسیع کی سفارش کی تھی۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی ہنگامی پولیو کمیٹی کا تیسواں اجلاس 9 نومبر کو ہوا، جس میں چین، افغانستان، پاکستان میں پولیو صورتحال پر غور کیا گیا۔

    اجلاس میں ڈبلیو ایچ او نے پولیو صورتحال اور متاثرہ ممالک کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا۔

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی آئی ہے ، پاکستان کے سیوریج میں وائرس کی موجودگی میں نمایاں کمی آئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ پاکستان میں رواں برس پولیو کا ایک کیس سامنے آیا ہے ، پاکستان میں پولیو ویکسینیشن سے انکاری والدین اور پاکستانی حساس ایریاز میں پولیو ویکسین سے محروم بچے چیلنج ہیں۔

    اعلامیے کے مطابق پولیو ویکسین سے محروم بچوں کیلئے پاکستانی انتظامات تسلی بخش ہیں، پاکستان پولیو ویکسین سے محروم بچوں کیلئے خصوصی اقدامات کر رہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی پاکستان منتقلی پولیو کے پھیلائو کا زریعہ بن سکتی ہے، پاکستانی بے گھر افراد اور مہاجرین پولیو کے حوالے سے خطرہ ہیں جبکہ پولیو ویکسین سے محروم افغان بچے پاکستان کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ پاکستان کی پولیو بارے سرویلنس مزید تین ماہ جاری رہے گی، پاکستان سے بیرون ملک جانے والے افراد کی پولیو ویکسینیشن لازمی ہو گی، ڈبلیو ایچ او تین ماہ بعد انسداد پولیو کیلئے پاکستانی اقدامات جانچے گا۔

    خیال رہے پاکستان پر پولیو کی وجہ سے سفری پابندیاں مئی 2014 میں عائد ہوئی تھیں۔

  • کروڑوں افراد بینائی چھن جانے کے خطرے کا شکار

    کروڑوں افراد بینائی چھن جانے کے خطرے کا شکار

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں مناسب اقدامات نہ اٹھائے جانے کے باعث سنہ 2050 تک بینائی سے محروم افراد کی تعداد تین گنا ہونے کا خدشہ ہے۔

    سائٹ سیورز پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر منزہ گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد لوگوں کو اندھے پن سے بچایا جاسکتا ہے اور اگر فوری طور پر اس بیماری کو روکنے کے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو لاکھوں لوگ اس کا شکار ہو سکتے ہیںَ

    انہوں نے کہا کہ اندھا پن قابل علاج مرض ہے لیکن آنکھوں کے علاج کی سہولیات نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے اس مرض پر قابو پانے کی کوششوں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پوری دنیا میں 2.2 ارب سے زائد افراد آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں متاثرہ افراد کی تعداد ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے جبکہ متاثرہ افراد میں سے نصف کا مرض قابل علاج ہے۔

    پوری دنیا میں نابینا افراد کی تعداد 2050 تک 11 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جس کے سالانہ نقصان کا تخمینہ 410.7 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

    منزہ گیلانی نے کہا کہ پاکستان میں آنکھوں کے علاج کی سہولیات کو عالمی معیار کے مطابق بنانا ہوگا تاکہ اندھے پن کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

    ان کا کہنا کہ سائٹ سیورز نے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر آنکھوں کی بینائی کے مختلف منصوبوں پرکام کیا ہے اوران منصوبوں کے ذریعے ملک میں آنکھوں کے علاج کی سہولیات میں بہتری آئے گی۔

  • عالمی ادارۂ صحت کا روسی ویکسین سے متعلق اہم اعلان

    عالمی ادارۂ صحت کا روسی ویکسین سے متعلق اہم اعلان

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت روسی ویکسین کی منظوری دینے کے لیے دوبارہ جائزہ لے گا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کرونا کے لیے روس کی سپوتنک V ویکسین کی منظوری سے قبل اس کے تجزیے کا عمل دوبارہ شروع کرے گی۔

    دواؤں، ویکسینز اور دوا سازی تک رسائی کے لیے ڈبلیو ایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ماریانجیلا سماؤ نے کہا ہے کہ سپوتنک V کی منظوری کے عمل کو قانونی طریقہ کار کی کچھ کمی کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔

    تاہم عالمی ادارۂ صحت نے جمعرات کو کہا ہے کہ وہ روس کی سپوتنک V ویکسین کی منظوری کا عمل دوبارہ شروع کرنے والی ہے۔

    ماریانجیلا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ روسی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں یہ مسئلہ حل ہونے والا ہے، جیسے ہی قانونی طریقہ کار مکمل ہو جائے گا ، ہم اس عمل کو دوبارہ شروع کر سکیں گے۔

    یو اے ای نے اسپوتنک لائٹ ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی

    واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او کی ہنگامی استعمال کی لسٹنگ دراصل ایک گرین سگنل ہے جو ممالک، فنڈز، خریداری کرنے والی ایجنسیوں اور کمیونٹیز کو یقین دہانی کراتی ہے کہ ویکسین بین الاقوامی معیار پر پورا اترتی ہے۔

    اے ایف پی کے مطابق روس کے گمالیہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے تیار کردہ سپوتنک V کے لیے ایسے وقت میں ڈبلیو ایچ او کی اجازت طلب کی گئی ہے جب وہ پہلے ہی 45 ممالک میں استعمال ہو رہی ہے۔

  • ذہنی صحت پر کرونا کے اثرات سے متعلق عالمی ادارہ صحت کا تشویش ناک بیان

    ذہنی صحت پر کرونا کے اثرات سے متعلق عالمی ادارہ صحت کا تشویش ناک بیان

    برسلز: کرونا وائرس کے ذہنی صحت پر طویل المدت اثرات سے متعلق عالمی ادارہ صحت نے تشویش ناک بیان جاری کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت (WHO) نے خبردار کیا ہے کہ ذہنی صحت پر کووِڈ 19 کے اثرات طویل عرصے تک برقرار رہیں گے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق لاک ڈاؤن، قرنطینہ، بے روزگاری اور معاشی خطرات ایسے معاملات ہیں جن سے لوگوں کے ذہن پر طویل المدت اثرات مرتب ہوئے ہیں، ان اثرات کو ڈبلیو ایچ او نے ذہنی صحت کے لیے اہم قرار دیا ہے۔

    صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ مذکورہ صورت حال میں وبا کی وجہ سے ذہنی صحت پر پڑنے والے اثرات طویل المیعاد ہوں گے۔ ڈبلیو ایچ او کے یورپی ریجنل ڈائریکٹر ہنس کلوگی نے اس تناظر میں ذہنی صحت کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرنے پر زور دیا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق یورپ اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگ کووڈ نائنٹین کے نتائج سے نبردآزما ہیں، جب کہ چالیس لاکھ سے زائد لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، بے شمار کاروبار تباہ ہو گئے، جس کی وجہ سے وبا سے مینٹل ہیلتھ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

    ہنس کلوگی نے ایک انٹرویو کے دوران نئے کرونا وائرس کے لیبارٹری میں تیاری کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سارس 1 وائرس کے منبع کی تلاش میں ماہرین کو تقریباً 2 سال لگے تھے، اس کے بعد وائرس اور ابتدائی میزبان کے درمیان تعلق کا تعین کیا جا سکا تھا، اس لیے یہ نارمل ہے کہ اس میں وقت لگتا ہے۔

  • ریمڈیسیور اور ہائیڈراکسی کلوروکوئن سے متعلق عالمی ادارۂ صحت کا انکشاف

    ریمڈیسیور اور ہائیڈراکسی کلوروکوئن سے متعلق عالمی ادارۂ صحت کا انکشاف

    جینوا: عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس کو شکست دینے میں ریمڈیسیور اور ہائیڈراکسی کلوروکوئن دوائیں ناکام ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک نئی تحقیق کے بعد ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ نہ تو ریمڈیسیور اور نہ ہی ہائیڈراکسی کلوروکوئن کووِڈ 19 کے سبب اسپتال میں داخل مریضوں کو ٹھیک کرنے میں مدد کرتی ہے۔

    خیال رہے کہ کرونا وبا کے آغاز میں ریمڈیسیور اور ہائیڈراکسی کلوروکوئن کو لے کر لوگ بہت پُر امید نظر آ رہے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ ان دونوں دواؤں کا کرونا مریضوں پر کچھ خاص مثبت اثر نہیں ہوتا۔

    اب عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک تحقیق میں بھی اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ نہ تو ریمڈیسیور اور نہ ہی ہائیڈراکسی کلوروکوئن (ایچ سی کیو) کرونا کے سبب اسپتال میں داخل مریضوں کو ٹھیک کرنے میں مدد کرتی ہے۔

    کرونا کے علاج کے لیے دوائیوں کی فہرست سے اہم دوا خارج

    یہ تحقیق ناروے میں اوسلو یونیورسٹی اسپتال کے محققین کی قیادت میں کی گئی، نتائج میں دیکھا گیا کہ ریمڈیسیور اور ایچ سی کیو نے نظام تنفس کے ناکام ہونے یا سوزش پر کوئی اثر مرتب نہیں کیا، گلے میں سارس کووڈ 2 کے لوڈ میں ہر علاج گروپ میں پہلے ہفتے کے دوران قابل ذکر کمی آئی، تاہم مریض کی عمر، علامات کے دورانیے، وائرل لوڈ کی سطح اور کرونا کے خلاف اینٹی باڈیز کی موجودگی کے باوجود ان دو ادویات کا اینٹی وائرل اثر دکھائی نہیں دیا۔

    اس ریسرچ کے لیے محققین کی ٹیم نے ناروے کے 23 اسپتالوں میں داخل 181 مریضوں پر ریمڈیسیور اور ایچ سی کیو کے اثرات کا جائزہ لیا، محققین نے اسپتال میں داخل ہونے کے دوران شرح اموات میں علاج گروپ کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں پایا، یہ نتائج اینلز آف انٹرنل میڈیکل میں شائع ہوئے ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس نومبر کے آخر میں عالمی ادارہ صحت نے ریمڈیسیور کو دوائیوں کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔

  • 70 برس کی کوششوں کے بعد چین نے بڑی کامیابی حاصل کر لی، عالمی ادارے کی تصدیق

    70 برس کی کوششوں کے بعد چین نے بڑی کامیابی حاصل کر لی، عالمی ادارے کی تصدیق

    جنیوا: چین نے آخر کار 70 برس کی کوششوں کے بعد ملک سے ملیریا کی بیماری ختم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، عالمی ادارہ صحت نے بھی چین کی جانب سے اعلان کرتے ہوئے مبارک باد دے دی۔

    فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین سے متعلق بدھ کو اعلان کرتے ہوئے 70 برس بعد چین کو ملیریا سے پاک قرار دے دیا، 1940 کی دہائی میں چین میں ملیریا کے سالانہ 3 کروڑ کیسز رپورٹ ہوتے تھے، لیکن گزشتہ چار برسوں میں ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیدروس اڈہانوم نے کہا کہ ہم چین کے لوگوں کو ملیریا سے چھٹکارا حاصل کرنے پر مبارک باد دیتے ہیں، انھیں یہ کامیابی کئی دہائیوں کی کوشش سے اور بہت مشکل سے ملی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس اعلان کے بعد چین دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو گیا ہے جنھوں نے ملیریا پر قابو پایا، ان ممالک کی تعداد چین کے شامل ہونے سے 40 ہو گئی ہے، اس سے قبل گزشتہ تین برسوں کے دوران ایلسلواڈور، الجیریا، ارجنٹینا، پیرا گوئے اور ازبکستان نے ملیریا فری ممالک کا درجہ حاصل کیا ہے۔

    خیال رہے کہ جن ممالک میں مسلسل 3 برس تک ملیریا کا کوئی کیس سامنے نہیں آتا، وہ ڈبلیو ایچ او کی سرٹیفیکیشن حاصل کر سکتے ہیں، انھیں ٹھوس ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے اور وبا کو دوبارہ سر نہ اٹھانے دینے کی صلاحیت دکھانا ہوتی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق 1950 میں بیجنگ نے ملیریا کے خاتمے کے لیے دوائیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا، چین نے مچھروں کی افزائش کو روکا، اور گھروں میں مچھر مارنے والا اسپرے کیا گیا۔

    واضح رہے کہ نومبر میں شائع ہونے والی ملیریا رپورٹ 2020 کے مطابق 2000 میں ملیریا سے دنیا میں 7 لاکھ سے زائد اموات ہوئیں، جو 2018 میں 4 لاکھ کے قریب اور 2019 میں بھی 4 لاکھ سے زیادہ تھیں۔ 2019 میں عالمی سطح پر ملیریا کے 23 کروڑ سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ دنیا میں ملیریا سے ہونے والی 90 فی صد اموات افریقہ میں ہوئیں، ان میں بچوں کی تعداد 2 لاکھ 65 ہزار تھی۔

  • کرونا وائرس: ویکسی نیشن کے بعد بھی خطرہ ٹلا نہیں

    کرونا وائرس: ویکسی نیشن کے بعد بھی خطرہ ٹلا نہیں

    حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ لوگوں کو ویکسی نیشن کروانے کے بعد بھی فیس ماسک سمیت دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ لوگوں کو ویکسین استعمال کرنے کے بعد بھی فیس ماسک کا استعمال اور دیگر تدابیر پر عمل جاری رکھنا چاہیئے تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کی جاسکے۔

    ڈبلیو ایچ او نے یہ مشورہ اس وقت دیا جب کرونا کی نئی قسم ڈیلٹا دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ماریناگیلا سیمو کا کہنا ہے کہ لوگ صرف ویکسین کی 2 خوراکوں کے استعمال سے محفوظ نہیں ہوسکتے، انہیں تاحال اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ صرف ویکسین سے برادری کی سطح پر وائرس کے پھیلاؤ کو نہیں روکا جاسکتا، لوگوں کو گھر سے باہر فیس ماسکس کا استعمال جاری رکھنا چاہیئے، ہاتھوں کی صفائی، سماجی دوری اور ہجوم میں جانے سے گریز کرنا چاہیئے، یہ اب بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں، یہ اس وقت بہت ضروری ہے جب برادری کی سطح پر وائرس پھیل رہا ہو، چاہے آپ کی ویکسی نیشن ہوچکی ہو۔

    دنیا کے مختلف ممالک میں کیسز کی شرح میں کمی کے بعد فیس ماسک کے حوالے سے بھی پابندیاں نرم کی جارہی ہیں۔

    امریکا میں مئی میں سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے اپ ڈیٹ گائیڈ لائنز میں کہا تھا کہ مکمل ویکسی نیشن کے بعد لوگوں کے لیے گھر سے باہر یا چاردیواری کے اندر ماسک پہننے کی ضرورت نہیں۔

    بھارت میں سب سے پہلے دریافت ہونے والی کرونا کی قسم ڈیلٹا اب دیگر ممالک میں تیزی سے پھیل رہی ہے، ماہرین کے مطابق وائرس کی یہ قسم ایسے علاقوں میں بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے جہاں ویکسی نیشن کی شرح کم ہے۔

    یہ نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے والی قرار دی جارہی ہے بلکہ زیادہ ویکسی نیشن والے ممالک جیسے اسرائیل میں بھی اس سے متاثر افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

    ڈیلٹا قسم ایلفا کے مقابلے میں بظاہر 60 فیصد زیادہ متعدی ہے جو پہلے ہی دیگر اوریجنل وائرس کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ متعدی قرار دی گئی ہے۔ برطانوی ڈیٹا کے مطابق ڈیلٹا سے متاثر افراد میں اسپتال داخلے کا خطرہ دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔

    بھارت میں ڈیلٹا سے ہی بننے والی ایک اور قسم ڈیلٹا پلس کو بھی دریافت کیا گیا ہے جس کے کیسز کئی ریاستوں میں سامنے آئے ہیں، ڈیلٹا کی اس نئی قسم میں ایک میوٹیشن موجود ہے جو جنوبی افریقہ میں دریافت قسم بیٹا میں دیکھنے میں آئی تھی۔

    یہ میوٹیشن کے 417 این ویکسینز کے اثر کو کسی حد تک متاثر کرسکتی ہے تاہم حتمی تصدیق تحقیق سے ہی ممکن ہوسکے گی۔

  • کرونا وائرس: تمباکو نوشی کرنے والے افراد خطرے میں

    کرونا وائرس: تمباکو نوشی کرنے والے افراد خطرے میں

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی کرونا وائرس سے جڑے خطرات میں اضافہ کردیتی ہے، سگریٹ نوش افراد کو کووڈ 19 سے موت کا خطرہ 50 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ادہانم کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کی وجہ سے بیماری کے سنگین ہونے اور اموات کے خطرات سگریٹ نوشی کرنے والوں کو 50 فیصد زیادہ لاحق ہوتے ہیں، ضروری ہے کہ سگریٹ نوشی ترک کر کے کرونا وائرس کے خطرات کو کم کیا جائے۔

    عالمی ادارہ صحت کی تمباکو نوشی کے خلاف مہم نے ایک ارب سے زائد سگریٹ نوشوں کو ٹول کٹ سے وسائل میسر کیے ہیں۔ اس مہم میں 29 ممالک کو مرکزی توجہ دی گئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر ہیلتھ پروموشن ڈاکٹر روڈیگر کرچ کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے کی اس مہم میں تمام ممالک کو کردار ادا کرنا چاہیئے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 39 فیصد مرد اور 9 فیصد خواتین تمباکو نوشی کرتی ہیں، سگریٹ نوشی کی سب سے زیادہ شرح والے ممالک یورپ میں ہیں جہاں یہ شرح 26 فیصد ہے اور اندازوں کے مطابق اگر ان کی حکومتوں نے فوری اقدام نہ کیے تو سنہ 2025 تک ان کی تعداد میں صرف 2 فیصد کمی متوقع ہے۔

  • ایک اور عالمی اعزاز پاکستان کے نام

    ایک اور عالمی اعزاز پاکستان کے نام

    اسلام آباد: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے انسداد تمباکو نوشی ایوارڈ 2021 پاکستان کے نام کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق شعبہ صحت میں ایک اور عالمی اعزاز پاکستان کے نام ہو گیا ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے انسداد تمباکو نوشی ایوارڈ 2021 کا حق دار پاکستان کو قرار دے دیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے اس ایوارڈ کا اعلان عالمی ادارہ صحت ایمرو ریجن نے کیا ہے، پاکستان کو انسداد تمباکو نوشی کے کامیاب اقدامات پر ایمرو ریجن میں نمبر وَن قرار دیا گیا ہے۔

    پاکستان نے انسداد تمباکو نوشی کے مقررہ اہداف کے حصول میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، عالمی ادارہ صحت نے حکومت پاکستان کو بھی ایوارڈ سے متعلق آگاہ کر دیا ہے، وزارت صحت کے ٹوبیکو کنٹرول سیل نے بھی پاکستان کو ایوارڈ ملنے کی تصدیق کر دی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان کو یہ ایوارڈ 31 مئی کو ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے پر دیا جائے گا، ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کو یہ ایوارڈ ٹوبیکو اسموک فری سٹی منصوبے کی کامیابی پر ملا ہے۔

    ذرائع کے مطابق وزارت صحت کے زیر انتظام ٹوبیکو اسموک فری سٹی منصوبہ 12 اضلاع میں جاری ہے، اس منصوبے میں ضلعی سطح پر مانیٹرنگ سیل قائم کیے گئے ہیں، منصوبے کے تحت 12 اضلاع میں 304 مقامات اور پارک اسموک فری ہیں۔

    خیال رہے کہ پاکستان پبلک پارکس کو اسموک فری قرار دینے والا دنیا کا پہلا ملک ہے، اسموک فری سٹی کے اس منصوبے کے تحت ٹوبیکو پراڈکٹس بیچنے والے رجسٹر کیے گئے ہیں، اور اسلام آباد میں تمباکو مصنوعات کی فروخت لائسنس سے مشروط ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان 2025 تک تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں 30 فی صد کمی لائے گا۔