Tag: عالمی ادارہ صحت

  • دیر تک کام کرنے والے ہوشیار ہوجائیں

    دیر تک کام کرنے والے ہوشیار ہوجائیں

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران گھر سے کام کرنا اور دیر تک کام کرنا معمول کا حصہ بن چکا ہے، تاہم ماہرین نے دیر تک کام کرنے والوں کو خبردار کیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دیر تک کام کرنے کی وجہ سے دنیا میں ہر سال لاکھوں اموات ہوتی ہیں اور کرونا وائرس کے بعد جو معاشی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں زیادہ دیر تک کام کرنے کے رجحان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

    طویل اوقات کار کے زندگی پر پڑنے والے اثرات پر پہلی عالمی تحقیق میں ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ سنہ 2016 میں ایسے 7 لاکھ 45 ہزار افراد دل کے دورے اور فالج کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے جن کا براہ راست تعلق بہت دیر تک کام کرنے سے ہے۔

    سنہ 2000 کے مقابلے میں یہ شرح تقریباً 30 فیصد زیادہ ہے۔ تحقیق کے مطابق دیر تک کام کرنے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس وقت ایسے افراد عالمی آبادی کا تقریباً 9 فیصد ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے شعبہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی و صحت کی ڈائریکٹر ماریا نیرا کا کہنا ہے کہ ہفتے میں 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرنا صحت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

    ڈائریکٹر جنرل ٹیڈ روس کے مطابق کووِڈ 19 کی وبا نے کئی لوگوں کے کام کرنے کے انداز اور طریقے بدل دیے ہیں۔ اب کئی صنعتوں میں ٹیلی ورکنگ عام ہو چکی ہے اور گھر اور دفتر کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کوئی بھی کام ایسا نہیں جو آپ کی صحت سے بڑھ کر ہو، اس لیے حکومتوں، اداروں اور کام کرنے والوں کو صحت کے تحفظ کے لیے کچھ حدیں مقرر کرنی چاہئیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ ‏2000 سے 2016 کے دوران زیادہ دیر تک کام کرنے والوں میں دل کے امراض کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 42 فیصد اور فالج سے 19 فیصد تک بڑھی۔

    تحقیق کے مطابق ہفتے میں 55 گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کام کرنے سے فالج کے حملے کا خدشہ تقریباً 35 فیصد اور دل کے کسی مرض کے ہاتھوں مرنے کا خطرہ 17 فیصد ان افراد سے زیادہ ہوجاتا ہے جو مقررہ وقت میں کام کرتے ہیں۔

  • امیر اور غریب ممالک کے درمیان کرونا ویکسینز کی تقسیم میں تکلیف دہ عدم توازن

    امیر اور غریب ممالک کے درمیان کرونا ویکسینز کی تقسیم میں تکلیف دہ عدم توازن

    جنیوا: ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے امیر اور غریب ممالک کے درمیان کرونا وائرس ویکسینز کی تقسیم میں ’تکلیف دہ عدم توازن‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیدروس ایڈھانوم گیبریئسَس نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر کرونا ویکسینز کی ترسیل میں ’تکلیف دہ‘ عدم توازن برقرار ہے۔

    ایڈھانوم گیبریئسَس نے جنیوا میں تنظیم کے مرکزی دفتر سے جمعے کو آن لائن پریس کانفرس میں بتایا کہ 194 ممالک میں ویکسین لگانے کا عمل شروع ہو چکا ہے، تاہم 26 ممالک میں تا حال ویکسی نیشن کا عمل شروع نہیں ہو سکا، ان میں سے 7 تک ویکسین کی ترسیل ممکن بنا دی گئی ہے اور مزید 5 ممالک میں چند روز کےا ندر کرونا ٹیکے لگانے کا عمل شروع ہو جائے گا۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے بتایا کہ کرونا انفیکشن کے خلاف دنیا بھر میں 70 کروڑ سے زائد خوراکیں دی جا چکی ہیں، تاہم ان میں سے 87 فی صد خوراکیں امیر ممالک کو گئی ہیں، جب کہ کم آمدنی والے غریب ممالک کو صرف 0.2 فی صد حصہ گیا۔

    انھوں نے کہا ویکسین کی عالمی سطح پر تقسیم میں تکلیف دہ عدم توازن کا یہ عالم ہے کہ سب سے زیادہ آمدن والے ممالک میں تقریباً ہر 4 افراد میں سے 1 فرد کو کو وِڈ نائنٹین کی ویکسین دی جا چکی ہے، جب کہ کم آمدنی والے ممالک میں یہ تناسب 500 میں سے 1 فرد ہے۔

    گاوی ویکسین الائنس اور ڈبلیو ایچ او نے جمعرات کو کہا تھا کہ کوویکس (COVAX) ادارے کے تحت اب تک 6 براعظموں میں 102 ممالک کو 3 کروڑ 84 لاکھ کرونا ویکسین ڈوزز کی ترسیل کی جا چکی ہے، یہ ترسیل چھ ہفتے قبل شروع کی گئی تھی، جب کہ کوویکس کا عزم ہے کہ رواں سال 2 ارب خوراکیں پہنچائی جائیں گی، تاہم اس سلسلے میں تاخیر کا سامنا ہے۔

  • کرونا ویکسین: عالمی ادارہ صحت نے امیر ممالک سے اپیل کردی

    کرونا ویکسین: عالمی ادارہ صحت نے امیر ممالک سے اپیل کردی

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے امیر ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ غریب ممالک کے لیے کرونا وائرس ویکسین عطیہ کریں، تاحال دنیا کے 36 ممالک میں کرونا ویکسی نیشن شروع نہیں ہوسکی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے امیر ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ غریب اقوام و ممالک کو کرونا ویکسین کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر ایک کروڑ خوراکیں عطیہ کریں۔

    ادارہ صحت کی جانب سے یہ اپیل ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس اڈنہم کی جانب سے کی گئی ہے، انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپیل کی کہ فوری طور پر کویکس کو ایک کروڑ خوراکیں عطیہ کی جائیں۔

    ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا تھا کہ غریب اقوام کو ویکسین کی فراہمی کے لیے عالمی ادارہ صحت کو ہنگامی بنیادوں پر ایک کروڑ ویکیسن کی خوراکوں کی فوری ضرورت ہے، کویکس کو خوراکیں دی جائیں تاکہ سال رواں کے پہلے 100 دنوں کے اندر دنیا کا ہر ملک ویکسی نیشن مہم کا آغاز کر سکے۔

    انہوں نے کہا کہ ابھی تک دنیا کے 36 ممالک ایسے ہیں جہاں تاحال کرونا ویکسی نیشن شروع نہیں کی گئی، ان میں سے 16 ممالک کو کویکس کے تحت آئندہ 15 روز کے اندر ویکسین کی فراہمی کا پروگرام ہے۔ باقی 20 ممالک ویکسین سے اس کے باوجود محروم رہیں گے۔

    عالمی ادارہ صحت کی کویکس ویکسین شیئرنگ اسکیم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ دنیا کے 92 غریب ممالک کی کرونا ویکسین تک رسائی ہو اور اس کی قیمت ڈونرز ادا کریں۔

  • کرونا ویکسین: امیر اور غریب ممالک کے درمیان گہری خلیج

    کرونا ویکسین: امیر اور غریب ممالک کے درمیان گہری خلیج

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس ویکسین کی فراہمی کے حوالے سے امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہنم کا کہنا ہے کہ امیر ممالک میں استعمال کی جانے والی کووِڈ 19 ویکسین کی تعداد اور بین الاقوامی کووِڈ 19 ویکسین گلوبل فراہمی پروگرام کوویکس کی طرف سے غریب ممالک کو فراہم کردہ ویکسین کی تعداد کے درمیان خلیج ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع ہو رہی ہے۔

    جنیوا میں عالمی ادارہ صحت کے مرکزی دفتر سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا تاہم انہوں نے کہا کہ اپنے تمام شہریوں کو ویکسین لگانے کے لیے بعض ممالک کے درمیان حقیقی معنوں میں مقابلہ ہو رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس جب ہم پسماندہ ممالک پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہاں ابھی ویکسین مہم شروع ہی نہیں ہو سکی۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جنوبی کوریا خوشحال ملک ہونے کے باوجود ویکسین بنانے والوں کے ساتھ دو طرفہ سمجھوتے کرنے کے بجائے گلوبل ویکسین فراہمی پروگرام کوویکس کی طرف سے فراہم کی جانے والی ویکسین کا منتظر ہے۔

    انہوں نے کہا ہے کہ ایسٹرا زینیکا کی کووڈ 19 ویکسین نے امریکا میں جاری تیسرے مرحلے کے دوران 79 فیصد کامیابی دکھائی ہے، اس ویکسین کی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ یہ خون میں لوتھڑے بننے کے خطرے میں اضافہ نہیں کرتی۔

    اس دوران عالمی ادارہ صحت کی نائب ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ماریانگیلا سیمانو نے کہا کہ افریقہ میں کسی بھی ملک نے ایسٹرا زینیکا کو مسترد نہیں کیا۔

    اس ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات کے خاتمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر چیز معمول پر آگئی ہے، براعظم افریقہ میں کسی بھی ملک نے ایسٹرا زینیکا کو رد نہیں کیا۔

  • عالمی ادارہ صحت کا آکسفورڈ ویکسین کے حوالے سے مشورہ

    عالمی ادارہ صحت کا آکسفورڈ ویکسین کے حوالے سے مشورہ

    عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ایسٹرا زینیکا ویکسین کا استعمال جاری رکھا جائے، مختلف ممالک میں ویکسین کے استعمال کے بعد خون میں لوتھڑے جمنے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ فی الحال مختلف ممالک ایسٹرا زینیکا کی کرونا ویکسین کا استعمال جاری رکھیں۔

    دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے ایسٹرا زینیکا ویکیسن کا استعمال معطل کرنے کے بعد پیر کو عالمی ادارہ صحت کے چیف سائنسدان سومیا سوامیناتھن نے مشورہ دیا ہے کہ وہ فی الحال ایسٹرا زینیکا ویکسین کا استعمال جاری رکھیں۔

    سومیا سوامیناتھن کا کہنا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلے۔

    خیال رہے کہ ایسٹرا زینیکا کی ویکسین کو ایسے کچھ ممالک میں روک دیا گیا ہے جہاں اس ویکسین کے استعمال کے بعد کچھ افراد میں خون میں لوتھڑے بننے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق ادارے کے ویکسین سیفٹی کے ماہرین ایسٹرا زینیکا کے ڈیٹا کو دیکھ رہے ہیں۔

    پیر کو جرمنی، فرانس، اٹلی، ڈنمارک، ناروے، آئس لینڈ، تھائی لینڈ اور نیدر لینڈز نے بھی کرونا وائرس کی ویکسین آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا کے استعمال کو معطل کردیا ہے۔

    تاہم ابھی تک ویکسی نیشن معطل کرنے والے ممالک میں سے کسی میں بھی ابھی تک اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ خون جمنے کے واقعات کا تعلق ویکسین کے استعمال سے ہے۔

  • یورپ میں آسٹرا زینیکا ویکسین سے خون جمنے کے کیسز، عالمی ادارہ صحت کا بڑا بیان

    یورپ میں آسٹرا زینیکا ویکسین سے خون جمنے کے کیسز، عالمی ادارہ صحت کا بڑا بیان

    جنیوا: ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ آسٹرا زینیکا کی کرونا ویکسین کا استعمال روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اس ویکسین اور خون جمنے کے درمیان کوئی تعلق نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ادارے کی ویکسین ایڈوئزاری کمیٹی ویکسین کے حوالے سے موصول ہونے والے حفاظتی اعداد و شمار کی جانچ کر رہی ہے، اب تک دنیا بھر میں 260 ملین سے زیادہ کرونا ویکسین کی خوراکیں دی گئی ہیں اور اس سے کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔

    دوسری جانب آسٹرا زینیکا کمپنی کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس ویکسین سے خون جمنے کے خطرے سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملا ہے، اور یہ ویکسین محفوظ ہے۔

    برطانوی دوا ساز کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ 10 ملین سے زیادہ حفاظتی ڈیٹا کے تجزیے میں کسی بھی عمر، جنس اور کسی مخصوص ملک میں خون کے جمنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

    ویکسین لگنے کے بعد موت، آسٹریا نے کرونا ویکسینیشن روک دی

    واضح رہے کہ ڈنمارک، ناروے اور آئس لینڈ میں خون جمنے کی شکایات سامنے آنے کے بعد احتیاط کے طور پر آسٹرا زینیکا کی ویکسین کا استعمال روک دیا گیا ہے، اٹلی اور آسٹریا نے بھی آسٹرا زینیکا کی مخصوص بیچز کی خوراکوں پر پابندی عائد کی ہے، تھائی لینڈ اور بلغاریہ نے کہا ہے کہ وہ ویکسین کے لگانے کے عمل کو معطل کر دیں گے۔

    ڈبلیو ایچ او کی ترجمان مارگریٹ ہیرس نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ آسٹرا زینیکا کی ویکسین بہترین ہے، اور ہمیں اس کا استعمال جاری رکھنا چاہیے، تاہم حفاظت سے متعلق خدشات کی تحقیقات ہونی چاہیئں۔

    یورپیئن میڈیسن ایجنسی نے جمعرات کو کہا کہ ویکسین لگائے گئے 5 ملین افراد میں سے خون جمنے کے صرف 30 واقعات سامنے آئے ہیں، اس لیے یورپی ممالک یہ ویکسین اب بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ آسٹرا زینیکا کی ویکسین ان 2 ویکسینز میں سے ایک ہے، جن کی منظوری عالمی ادارہ صحت نے دی ہے۔

  • کیا سال 2021 بھی کرونا وائرس کی زد میں رہے گا؟

    کیا سال 2021 بھی کرونا وائرس کی زد میں رہے گا؟

    کوپن ہیگن: عالمی ادارہ صحت یورپ کے ڈائریکٹر ہینز کلوج کا کہنا ہے کہ رواں برس کرونا وائرس کی وبا جاری رہ سکتی ہے، اس کے خاتمے کا امکان سنہ 2022 کے آغاز تک ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے یورپ کے لیے ڈائریکٹر ہینز کلوج نے کہا ہے کہ کرونا وائرس وبا کو ختم ہونے میں 10 ماہ لگیں گے لیکن تب بھی یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوگا۔

    ہینز نے کہا کہ میرے خیال میں سنہ 2021 بھی کووِڈ 19 کا سال ہوگا، اس وقت ہمارے پاس وائرس کی تشخیص اور علاج کے لیے زیادہ بہتر وسائل موجود ہیں، میرے کام میں پہلے سے پلاننگ کرنے کو بہت اہمیت حاصل ہے، اس وجہ سے میرے اندازے کے مطابق یہ وبا سال 2022 کے آغاز تک ختم ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ وبا کا خاتمہ وائرس کے خاتمے کا مفہوم نہیں رکھتا لیکن امید ہے کہ سخت حفاظتی اقدامات کی ضرورت ختم ہو جائے گی، اس معاملے میں یورپ کا باہمی اتحاد کی حالت میں رہنا ضروری ہے۔

    ہینز کا کہنا تھا کہ وبا کے خلاف جدوجہد میں رواں سال کے دوران 3 موضوعات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، پہلا موضوع ویکسین مہم پروگرام میں تیزی لانا، دوسرا تبدیل شدہ وائرس کے مقابل ویکسین میں تبدیلی کرنا اور تیسرا سماجی فاصلے اور دیگر حفاظتی تدابیر کو برقرار رکھنا ہے۔

  • کرونا ویکسین: عالمی ادارہ صحت نے امیر ممالک کو خبردار کردیا

    کرونا ویکسین: عالمی ادارہ صحت نے امیر ممالک کو خبردار کردیا

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈ روس نے ایک بار پھر کرونا وائرس ویکسین کے حصول کے لیے امیر ممالک کے منفی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غریب ممالک کو دی جانے والی رقم بے فائدہ ثابت ہورہی ہے کیونکہ ان کے خریدنے کے لیے ویکسین ہی موجود نہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ امیر ممالک کرونا وائرس کی ویکسین نہ صرف جمع کر رہے ہیں بلکہ یہ غریب ممالک کی راہ میں رکاوٹیں بھی ڈال رہے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈ روس ایڈہنم کا کہنا ہے کہ بعض امیر ممالک کے براہ راست ویکسین بنانے والوں سے رابطے کا مطلب یہ ہے کہ کوویکس پروگرام کے تحت غریب ممالک کے لیے مختص کی جانے والی ویکسین کی تقسیم کو کم کیا جا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ غریب ممالک کو ویکسین فراہمی کے لیے امریکا، یورپی یونین اور جرمنی نے مالی مدد کی ہے لیکن یہ بے کار ثابت ہوئی جب خریدنے کے لیے کچھ ملا ہی نہیں۔

    ٹیڈروس نے امیر ممالک پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پہلے انہیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے کہ آیا فارماسوٹیکل کمپنیز سے ان کے رابطوں سے کوویکس پروگرام پر منفی اثر پڑ رہا ہے، جس کے تحت غریب ممالک اپنی پہلی خوراک کا انتظار کر رہے ہیں۔

    انہوں نے جرمن صدر فرینک والٹر کے ہمراہ ورچوئل پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس پیسے ہیں اور آپ نے ان کو ویکسین کی خریداری کے لیے استعمال نہیں کرنا تو پھر پیسوں کی موجودگی کا کوئی مطلب نہیں۔

    ٹیڈ روس کا کہنا تھا کہ ہم صرف ان ممالک کو ویکیسن دے سکتے ہیں جو کوویکس کے رکن ہیں، امیر ممالک کو کوویکس کے تحت ہونے والے معاہدوں کا احترام کرنا چاہیئے۔

    یاد رہے کہ کوویکس ویکسین کی پہلی کھیپ فروری کے آخر اور جون کے اختتام تک کے درمیانی عرصے میں بھجوائی جانی ہے، اس میں شامل 145 ممالک 337.4 ملین خوراکیں حاصل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جس سے ان کی مشترکہ آبادی کے 3 فیصد حصے کو ویکیسن ملے گی۔

  • عالمی ادارہ صحت کی یورپ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے وارننگ

    عالمی ادارہ صحت کی یورپ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے وارننگ

    عالمی ادارہ صحت نے یورپ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے خبردار کردیا اور کہا کہ یورپ میں لوگ کرونا وائرس کے خلاف تحفظ کے جعلی احساس میں مبتلا نہ ہوں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے جمعرات کو کہا ہے کہ یورپی ممالک میں کیسز کی تعداد میں کمی کے باوجود کرونا وائرس کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے یورپ کے ڈائریکٹر ہنس کلوج کا کہنا ہے کہ کیسز میں کمی وبا کی نئی اقسام اور کمیونٹی میں پھیلاؤ کو چھپاتی ہے۔

    یاد رہے کہ یورپی خطے کے 53 ممالک میں ہر ہفتے 10 لاکھ سے زائد کرونا وائرس کے کیسز سامنے آتے رہے ہیں لیکن گذشتہ 4 ہفتوں سے کیسز کی تعداد میں کمی آئی ہے، اموات کی تعداد میں بھی گذشتہ 2 ہفتوں سے کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

    اس صورتحال پر کلوج کا کہنا تھا کہ اس مرحلے پر یورپی ممالک کی اکثریت خطرے میں ہے اور اب ویکسین کی امید اور تحفظ کے احساس کے درمیان ایک پتلی لکیر موجود ہے۔

    یورپ میں اب کرونا ویکسین کی خوراکوں کی تعداد 4 کروڑ 10 لاکھ ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے ریجنل ڈائریکٹر کے مطابق ویکسی نیشن کا آغاز کرنے والے 37 ممالک میں سے 29 کے ڈیٹا کے مطابق 78 لاکھ لوگوں کو ویکسین کی دونوں خوراکیں لگ چکی ہیں۔

    انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعداد ان ممالک کی آبادی کا صرف 1.5 فیصد ہے، ویکسین ضروری ہے لیکن وہ ابھی تک وبا پر قابو پانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

  • عالمی ادارہ صحت نے کینسر کے حوالے سے خبردار کردیا

    عالمی ادارہ صحت نے کینسر کے حوالے سے خبردار کردیا

    عالمی ادارہ صحت نے کینسر کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر کہا کہ بریسٹ کینسر سرطان کی سب سے زیادہ تشخیص ہونے والی قسم بن گئی ہے۔

    انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر (آئی اے آر سی) کی جانب سے دسمبر 2020 میں جاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ سالوں میں بریسٹ کینسر سب سے زیادہ تشخیص ونے والی کینسر کی قسم بن چکی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران کینسر کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں لگ بھگ 2 گنا اضافہ ہوچکا ہے، ایک تخمینے کے مطابق یہ تعداد سنہ 2000 میں سالانہ 1 کروڑ تھی جو سنہ 202 تک 1 کروڑ 93 لاکھ تک پہنچ گئی۔

    اسی طرح کینسر سے اموات میں بھی اضافہ ہوا ہے جو 2000 میں 62 لاکھ تھیں مگر 2020 میں ان کی تعداد 1 کروڑ تک پہنچ گئی۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر 6 میں سے ایک موت کینسر کے نتیجے میں ہو رہی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس وقت دنیا بھر میں ہر 5 میں سے ایک شخص کینسر کا شکار ہورہا ہے اور یہ تعداد آنے والے برسوں میں مزید بڑھ جائے گی، یعنی 2040 تک اس میں 50 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کینسر کے عام ہونے کی وجہ ناقص طرز زندگی جیسے غیر صحت مند غذا، جسمانی سرگرمیوں سے دوری، تمباکو نوشی اور الکحل کا زیادہ استعمال ہے۔

    اسی طرح عمر میں اضافے کے ساتھ بھی کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے مگر طرز زندگی میں چند تبدیلیوں سے اس جان لیوا بیماری سے بچنا ممکن ہے۔

    ماہرین کے مطابق اپنی طرز زندگی میں چند معمولی تبدیلیوں سے کینسر سے بچا جاسکتا ہے۔

    سب سے پہلے موٹاپے سے نجات پائیں، موٹاپا یا زیادہ جسمانی وزن متعدد اقسام کے کینسر کا خطرہ بڑھاتا ہے جن میں غذائی نالی، لبلبے، قولون، گردوں اور تھائی رائیڈ گلینڈ کے کینسر شامل ہیں۔

    اس ضمن میں کینسر کے اسباب میں تمباکو نوشی کی شرح میں کمی آرہی ہے اور بہت جلد ہوسکتا ہے کہ موٹاپا کینسر کی سب سے بڑی وجہ بن جائے، اگر جسمانی چربی میں ایک فیصد بھی کمی لائی جائے تو لاکھوں نئے کیسز کی روک تھام ممکن ہے۔

    سرخ گوشت کے استعمال میں احتیاط کی جائے، سرخ گوشت کا بہت زیادہ استعمال معدے اور قولون کینسر کا خطرہ بڑھاتا ہے اور امریکن انسٹیٹوٹ فار کینسر ریسرچ نے مشورہ دیا ہے کہ ایک ہفتے میں آدھا کلو سے زیادہ سرخ گوشت کھانے سے گریز کرنا چاہیئے۔

    سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بھی جلد کے کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے، جو مختلف ممالک میں کینسر کی سب سے عام قسم بھی ہے۔

    جو لوگ سورج کی روشنی میں بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں ان میں کینسر کی اس قسم کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، لہٰذا سن اسکرین کا استعمال اس سے تحفظ میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔

    پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال بھی متعدد اقسام کے کینسر جیسے منہ، گلے، غذائی نالی اور سانس کی نالی کے سرطان کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    جو لوگ جسمانی طور پر کم سرگرم ہوتے ہیں، ان میں کینسر کی مختلف اقسام کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس کے مقابلے مین اپنی جگہ سے اٹھ کر ارگرد چہل قدمی کرنے سے جسم زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے، غذا ہضم ہوتی ہے اور ان ہارمونز کا اجتماع نہیں ہوتا جو کینسر سے منسلک کیے جاتے ہیں۔

    جسمانی طور پر متحرک رہنا امراض قلب اور ذیابیطس جیسے امراض سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    تمباکو نوشی سے پرہیز کریں، یہ پھیھڑوں کے کیسنر کی سب سے عام وجہ ہے۔

    کینسر کی اسکریننگ کو معمول کا حصہ بنایا جائے، سال میں ایک دفعہ اس طرح کی اسکریننگ کینسر کو جلد پکڑنے میں معاون ثابت ہوتی ہے جس سے اس کے جان لیوا بننے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔