Tag: عالمی ادارہ صحت

  • عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈ روس قرنطینہ میں چلے گئے

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈ روس قرنطینہ میں چلے گئے

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈ روس کے رابطے میں رہنے والا ایک شخص کرونا وائرس کا شکار ہوگیا جس کے بعد ڈاکٹر ٹیڈ روس بھی قرنطینہ میں چلے گئے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈ روس نے بتایا کہ حال ہی میں ان سے رابطے میں رہنے والے ایک شخص میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جس کے بعد انہوں نے احتیاطاً خود کو قرنطینہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ڈاکٹر ٹیڈ روس کا کہنا تھا کہ وہ خیریت سے ہیں اور ان میں کرونا وائرس کی کوئی علامات نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ عالمی ادارہ صحت کی طے کردہ تمام تر احتیاطی تدابیر اپنا رہے ہیں اور ساتھ ہی گھر سے کام کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ساتھی جانیں بچانے کے لیے کام جاری رکھیں گے۔

    دوسری جانب دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 4 کروڑ 68 لاکھ 23 ہزار 515 ہوگئی جبکہ کرونا وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 12 لاکھ 5 ہزار 321 ہوگئی۔

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے فعال کیسز کی تعداد 1 کروڑ 18 لاکھ 61 ہزار 347 ہے، ان میں سے 85 ہزار 362 کیسز تشویشناک ہیں جبکہ دنیا بھر میں اب تک 3 کروڑ 37 لاکھ 56 ہزار 847 کرونا مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔

    بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرس کے کلوزڈ کیسز میں سے 97 فیصد مریض وہ ہیں جو صحتیاب ہوچکے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں کی شرح 3 فیصد ہے۔

    اسی طرح فعال کیسز میں سے 99 فیصد معمولی بیمار ہیں جبکہ صرف 1 فیصد مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔

  • ریبیز کا عالمی دن: عالمی ادارہ صحت کے پاکستان کے حوالے سے تشویشناک اعداد و شمار

    ریبیز کا عالمی دن: عالمی ادارہ صحت کے پاکستان کے حوالے سے تشویشناک اعداد و شمار

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سگ گزیدگی سے ہونے والی مہلک بیماری ریبیز کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان ریبیز سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے جس میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ دنیا میں ہر سال 59 ہزار افراد ریبیز کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے سنہ 2030 تک ریبیز سے ہونے والی اموات کا خاتمہ ممکن بنانا۔

    ریبیز سے جاں بحق ہونے والے افراد کی بڑی تعداد ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھتی ہے جس کی بنیادی وجہ آبادی کا تناسب اور مرض کے مہلک ہونے کے بارے میں آگاہی کا فقدان ہے۔ ایک بار یہ بیماری جڑ پکڑ لے تو ناقابل علاج بن جاتی ہے، ریبیز کا شکار بہت کم افراد زندہ بچ پاتے ہیں۔

    ریبیز سے متعلق ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ محض کتے کے کاٹنے سے ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں بلکہ بندر، ریچھ یا بلی کے کاٹنے سے بھی ریبیز ہوسکتا ہے تاہم کتے کے کاٹنے سے اس کا تناسب 99 فیصد ہے۔

    ریبیز کا مرض لاحق ہونے سے مریض میں ہائیڈرو فوبیا ہوجاتا ہے، وہ پانی اور روشنی سے ڈرنے لگتا ہے، مریض پر جو گزرتی ہے وہ تو وہی جانتا ہے لیکن اسے دیکھنے والے بھی بڑی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔

    ایسے مریضوں کو اپنے ہی ہاتھوں تشدد سے بچانے کے لیے آخری چارہ کار کے طور پر رسیوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔

    کتے کے کاٹنے سے ہونے والے مرض کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، بعض اوقات متاثرہ شخص یا اس کے گھر والے زخم کی معمولی نوعیت کے سبب اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اس کے علاج کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے روایتی قسم کی مرہم پٹی یا زخم میں مرچیں بھر کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔

    جب مرض کی شدت بڑھتی ہے، مریض کو تیز بخار، کپکپی، جھٹکے اور رال ٹپکنا شروع ہوتی ہے تو اس وقت علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، تب تک یہ مرض لا علاج ہو چکا ہوتا ہے۔

    پاکستان ریبیز کے حوالے سے خطرناک ملک

    عالمی ادارہ صحت کے ریبیز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان ریبیز سے ہونے والی اموات کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے اور ہر سال ملک میں ریبیز کی وجہ سے 2 ہزار سے زائد اموات ہوتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ مرض پاکستان میں نظر انداز کیا جانے والا مرض ہے، باوجود اس کے کہ ملک میں کتے کے کاٹنے کے واقعات عروج پر ہیں۔

    سنہ 2010 میں پاکستان میں سگ گزیدگی کے 97 ہزار واقعات بنیادی صحت کے مراکز سے رپورٹ ہوئے تھے۔ نجی اسپتالوں، حکیموں اور روحانی علاج کے لیے جانے والے ریبیز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر آبادی کتے کے کاٹنے کے بعد کے خطرات سے یا تو بے خبر ہے، یا ایسے واقعات کے بعد درست علاج کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

    عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں ریبیز کے پھیلاؤ کی اہم وجوہات میں جدید ویکسین کی عدم فراہمی اور سیاسی عوامل کو قرار دیا ہے۔

  • کرونا ویکسین کی تیاری، عالمی ادارہ صحت نے بڑا خدشہ ظاہر کر دیا

    کرونا ویکسین کی تیاری، عالمی ادارہ صحت نے بڑا خدشہ ظاہر کر دیا

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے بڑا خدشہ ظاہر کر دیا ہے کہ جب تک کرونا وائرس کی ویکسین تیار ہوگی تب تک یہ موذی وائرس 20 لاکھ انسانوں کو لقمہ اجل بنا چکا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ ویکسین تیار ہونے تک کو وِڈ 19 سے 2 ملین انسان موت کے منہ میں جا سکتے ہیں، اس وقت کرونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتیں 10 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہیں، ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ عالم گیر وبا کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

    صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ جب تک ایک کام یاب اور مؤثر ویکسین تیار ہو کر وسیع سطح پر اس کا استعمال شروع ہوگا، بہت امکان ہے کہ موجودہ ہلاکتیں دگنی ہو چکی ہوں، اور اگر ٹھوس ایکشن نہیں لیا گیا تو تعداد دو ملین سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

    جمعے کو یو این ایجنسی کے ایمرجنسیز پروگرام کے سربراہ مائیک ریان نے ایک بریفنگ میں کہا کہ 20 لاکھ اموات محض ایک تصور نہیں ہے بلکہ افسوس ناک طور پر اس کا امکان موجود ہے۔

    چین نے تین ممالک کو کرونا ویکسین فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا دی

    واضح رہے کہ چین میں نمودار ہونے والے نئے کرونا وائرس کے آغاز سے اب تک کے 9 مہینوں میں عالمی سطح پر مصدقہ اموات کی تعداد 9 لاکھ 95 ہزار ہو چکی ہے، وائرس سے اب تک مجموعی طور پر 3 کروڑ 28 لاکھ لوگ متاثر ہو چکے ہیں، جب کہ 2 کروڑ 42 لاکھ مریض کرونا کی بیماری سے صحت یاب ہوئے ہیں۔

    ریان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایک ملین بہت خوف ناک تعداد ہے، اور اس سے قبل کہ ہم دوسرے ملین کو سوچنے لگ جائیں ضرورت ہے کہ موجودہ تعداد پر غور کریں۔

    عالمی ادارہ صحت کی یہ وارننگ اس وقت سامنے آئی ہے جب وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہو نے والے ملک امریکا میں کرونا کیسز کی تعداد 7 ملین سے بھی بڑھ گئی۔

  • ‘کرونا سے بھی زیادہ خطرناک وبا’ سے متعلق ماہرین نے خبردار کر دیا

    ‘کرونا سے بھی زیادہ خطرناک وبا’ سے متعلق ماہرین نے خبردار کر دیا

    جنیوا: کرونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک وبا سے متعلق عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے خبردار کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کرونا کا سامنا کرنے کے باوجود ہم مجموعی طور پر کسی بھی اگلی عالمی وبا کے لیے بالکل تیار نہیں اور یہ بات اگلی کسی بھی وبا کو زیادہ خطرناک بنا سکتی ہے۔

    گلوبل پریپیئر ڈنیس مانیٹرنگ بورڈ (جی پی ایم بی) کی رپورٹ میں کرونا کے پھیلاؤ روکنے کے لیے پوری دنیا میں کیے جانے والے اقدامات کو ناکافی اور غیر تسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہرین نے ابتدائی دنوں میں خبردار کیا تھا کہ کرونا وائرس کی بیماری بہت جلد عالمی وبا بن سکتی ہے لیکن اس کے باوجود بیشتر ملکوں نے اس تنبیہ کو نظر انداز کیے رکھا یہاں تک کہ ان ملکوں میں کرونا کا پھیلاؤ قابو سے باہر ہوگیا۔

    ماہرین نے کہا کہ اگر یہی رویہ رہا تو اگلی کوئی بھی عالمی وبا کرونا کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ گلوبل پریپیئر ڈنیس مانیٹرنگ بورڈ (جی پی ایم بی) عالمی ادارہ صحت کے ماتحت ادارہ ہے۔اس ادارے کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کا عنوان اے ورلڈ ان ڈس آرڈر ( بے ترتیب دنیا) ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی دوسری رپورٹ ہے جبکہ اس سلسلے کی پہلی رپورٹ گزشتہ سال منظر عام پر آئی تھی۔

  • بڑا اعزاز ، پاکستان کورونا سے بہترین اندازمیں نمٹنے والے 7 ممالک  میں شامل

    بڑا اعزاز ، پاکستان کورونا سے بہترین اندازمیں نمٹنے والے 7 ممالک میں شامل

    اسلام آباد : عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو کورونا سے بہترین اندازمیں نمٹنے والے سات ملکوں میں شامل کرلیا جبکہ  پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف بھی کیا۔

    تفصیلات کے مطابق کوروناوبا سےنمٹنےکیلئے وزیراعظم کی کامیاب حکمت عملی اور این سی اوسی کے بروقت ایکشن کی دنیا بھی معترف ہیں، ڈبلیو ایچ او  نے  پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا، جن سے دنیا مستقبل میں وبا سے کیسے نمٹا جائے سیکھ سکتی ہے، 7ممالک کی فہرست میں تھائی لینڈ، اٹلی، منگولیا،ماریشس اور یوراگوئے شامل ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس نے کورونا وبا کیلئے پاکستان کےاقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہا پاکستان نے کورونا سے نمٹنے کیلئے انفرا اسٹرکچر  کا بہترین استعمال کیا، انسدادپولیو کے وسائل،مہارت کورونا سے نمٹنے کیلئے استعمال کی گئی۔

    مزید پڑھیں : کورونا سے نمٹنے کی زبردست حکمت عملی، وزیراعظم کو بڑا اعزاز مل گیا

    ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا تھا کہ کمیونٹی ہیلتھ ورکرزنےٹریکنک اورمانیٹرنگ میں اہم کرداراداکیا، حکومتیں صحت عامہ اورعوامی بہبودپرزیادہ خرچ کریں، حکومت کے نقادین بھی سیاسی قیادت کی کوششوں کے معترف نظر آئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان نےکوروناپربھرپورانداز میں قابوپایا اور پاک فوج کے تعاون سے این سی اوسی کاصوبائی حکومتوں سے مثالی رابطہ رہا۔

    ورلڈاکنامک فورم رپورٹ میں کہا کہ میڈیا نےبھی عوامی آگہی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، کورونانےعوامی بہبود،صحت عامہ پرترجیحات بدلی ہیں۔

    خیال رہے  پاکستان  میں کورونا سے اموات اور کیسز میں کمی کا سلسلہ برقرار ہے ، چوبیس گھنٹے میں پانچ مریض  جاں بحق ہوئے ، جس کے بعد  ملک بھر میں مہلک وائرس سے اموات کی کل تعداد چھ ہزار تین سو ستر ہوگئی جبکہ کورونا کے فعال کیسز پانچ ہزار سات سو پچانوے رہ گئے اور  اب تک دو لاکھ اٹھاسی ہزار دو سو چھ افراد صحتیاب ہوچکے ہیں۔

  • کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کا اہم اعلان

    کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کا اہم اعلان

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے اہم اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویکسین کے مؤثر اور محفوظ ثابت ہونے تک اس کی منظوری نہیں دی جائے گی۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کسی ویکسین کی توثیق نہیں کرے گا جس کا محفوظ اور مؤثر ہونا ثابت نہ ہوگیا ہو، ادارے کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 کے وسط تک وائرس کی ویکسین آنے کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔

    اقوام متحدہ نے اس بات کا خیر مقدم کیا ہے کہ ویکسین جن افراد پر ٹیسٹ کی گئی ہے ان میں سے ہزاروں اس کے حتمی مراحل تک پہنچ گئے ہیں، تاہم ادارے کی ترجمان مارگریٹ ہیرس کا کہنا ہے کہ وقت کے حساب سے انہیں امید نہیں کہ اگلے سال کے وسط تک کوئی ویکسی نیشن کی جا سکے گی۔

    دوسری جانب روس میں منظور کی جانے والی ویکسین کی، دا لونسینٹ نامی میڈیکل جریدے میں تحقیق شائع ہوئی جس کے مطابق اس ویکسین کے شروع میں ہونے والے ٹیسٹوں میں شامل ہونے والے مریضوں میں بغیر کسی منفی ضمنی اثرات کے اینٹی باڈیز پیدا ہوئیں۔

    تاہم سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس ویکسین کے ٹرائلز میں حصہ لینے والوں کی تعداد صرف 76 تھی جو کہ بہت کم ہے اور اس سے ویکسین کا محفوظ اور مؤثر ہونا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

    امریکی حکومت نے بھی اپنی ریاستوں سے کہا ہے کہ 3 نومبر کو ہونے والے انتخابات سے قبل یعنی یکم نومبر تک ممکنہ طور پر ویکسین کی تقسیم کے لیے تیار رہیں۔ امریکا میں کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

    عام صورتحال میں ویکسین کا ٹیسٹ کرنے والوں کو ویکسین کے مؤثر اور محفوظ ہونے کے بارے میں جاننے کے لیے مہینوں یا برسوں انتظار کرنا چاہیئے، لیکن ویکسین کے جلدی آنے پر بہت زور دیا جا رہا ہے کیونکہ اس وبا سے بہت زیادہ نقصانات ہو رہے ہیں۔

    ادھر فرانس کی دوا ساز کمپنی صنوفی کے چیف اولیور بوگیو کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی مستقبل میں آنے والی ویکسین کی قیمت 10 یورو سے بھی کم ہوگی۔

    صنوفی کے شیف نے فرانس انٹر ریڈیو کو بتایا کہ ویکسین کے انجیکشن کی قیمت کا تعین ابھی نہیں کیا گیا، ہم آنے والے مہینوں کے لیے ویکسین بنانے کی قیمت کا تعین کر رہے ہیں۔

  • کورونا کی وبا،  عالمی ادارہ صحت کا 12 سال سے زائد عمر کے بچوں کو مشورہ

    کورونا کی وبا، عالمی ادارہ صحت کا 12 سال سے زائد عمر کے بچوں کو مشورہ

    نیویارک : ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے لئے بارہ سال سے زائد عمر کے بچوں کو بڑوں کی طرح ماسک پہننے کا مشورہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارے صحت (ڈبلیو ایچ او ) نے بارہ سال یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں کے لئے ماسک پہننے کے بارے میں نئے اصول جاری کر دیئے۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک میں بڑوں کے ماسک پہننے کے اصولوں کا اطلاق بچوں پر بھی ہونا چاہئے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس بڑوں کی طرح بچوں میں بھی پھیل سکتا ہے، پانچ سال سے کم عمرکے بچوں کو ماسک نہیں پہننا چاہئے، والدین اور گھر کے بڑے افراد چھ سے گیارہ سال کی عمر کے بچوں کی ماسک پہننے اور اتارنے میں مدد کریں ۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ساٹھ سال سے کم عمرکے صحتمند افراد کپڑے کا ماسک پہننیں جبکہ معمر اور دیگر امراض میں مبتلا افراد کو سرجیکل ماسک پہننا چاہئے۔

    خیال رہے برطانیہ میں کروناوائرس کے پیش نظر کئی ماہ تک بند رہنے کے بعد اسکول دوبارہ کھلنا شروع ہوگئے اور لاکھوں طلبا نے اپنی پڑھائی کا آغاز کردیا ہے۔

    نئے قوائد وضوابط کے تحت طلبا کو سماجی فاصلے قائم رکھنے کی ہدایات کی گئی ہے، اسکول میں ہاتھ ملانے اور گلے ملنے پر مکمل طور پر پابندی ہے، خلاف ورزی پر جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔

    تاہم کئی ڈاکٹرز کا ماننا ہے کہ اگر حفاظتی اقدامات کی خلاف ورزی کی گئی تو بڑی تعداد میں بچے کرونا کا شکار ہوسکتے ہیں۔

  • کرونا وائرس ویکسین سب سے پہلے کسے دی جائے گی؟ عالمی ادارہ صحت کا اہم بیان

    کرونا وائرس ویکسین سب سے پہلے کسے دی جائے گی؟ عالمی ادارہ صحت کا اہم بیان

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈ روس ایڈہنم کا کہنا ہے کہ اب تک 172 ممالک کرونا وائرس کی فراہمی یقینی بنانے والی مہم سے منسلک ہوچکے ہیںِ، کرونا وائرس ویکسین کی فراہمی سب سے پہلے طبی عملے کو بنائی جانی ضروری ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق پوری دنیا میں تیار کی جانے والی کرونا وائرس ویکسین کو جلد اور کم قیمت میں تمام ممالک تک پہنچانے کے لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی قائم کردہ ویکس فیسلیٹی سے 172 ممالک منسلک ہوگئے۔

    ڈبلیو ایچ او کی اس مہم میں ویکسین تیار کرنے والے 9 مینو فیکچررز بھی اس سے منسلک ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹید روس کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتہ انہوں نے تمام 194 رکن ممالک کو خط تحریر کر کے ان سے کوویکس فیسلیٹی سے منسلک ہونے کی درخواست کی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ انہیں یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ اب تک 172 ممالک کوویکس گلوبل ویکسین فیسیلیٹی کے ساتھ منسلک ہوچکے ہیں۔

    ٹیڈ روس کا کہنا تھا کہ ویکسین کی تیاری کے فوراً بعد اس کی سپلائی محدود رہے گی، اسی وجہ سے پوری دنیا میں پہلے یہ یقینی بنایا جائے کہ جو لوگ اس کے خلاف فرنٹ لائن پر ہیں، انہیں یہ پہلے مہیا کئی جائے۔

    ان کے مطابق طبی عملے کو سب سے پہلے ویکسین دی جانی چاہیئے کیونکہ وہ وبا کے خلاف فرنٹ لائن پر رہ کر کئی زندگیاں بچا رہے ہیں اور پورے طبی نظام کو مستحکم رکھے ہوئے ہیں۔

    ٹیڈ روس کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعد ازاں 65 برس سے زائد عمر کے لوگوں اور کسی بیماری سے متاثرہ لوگوں کو بھی ترجیح دینی چاہیئے، اس کے بعد جب سپلائی میں اضافہ ہوگا تو دیگر افراد کو ویکسین دی جانی چاہیئے۔

  • کرونا وائرس 2 سال تک جاری رہ سکتا ہے، عالمی ادارہ صحت

    کرونا وائرس 2 سال تک جاری رہ سکتا ہے، عالمی ادارہ صحت

    نیویارک: عالمی ادارہ صحت نے تمام ممالک کو خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس 2 سال تک جاری رہ سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس نے کرونا وائرس سے متعلق بریفنگ کے دوران بتایا کہ 1918 کے ہسپانوی فلو کی وبا کو ختم ہونے میں 2 سال لگے۔

    ڈی جی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا تھا کہ کچھ ممالک میں کرونا منتقلی کی شرح میں نمایاں کمی آ ئی ہے،کرونا منتقلی کی شرح میں کمی کا مطلب فتح نہیں ہے۔

    ڈاکٹر ٹیڈروس نے تمام ممالک کو خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس 2 سال تک جاری رہ سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام کو کرونا پھیلاؤ روکنے میں مدد کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔

    کرونا زیادہ خطرناک انداز سے حملہ آور ہونے والا ہے، عالمی ادارہ صحت

    اس سے قبل 19 اگست کو عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کی وبا کی نئی لہر کی وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وبا کی نوعیت اب تبدیل ہورہی ہے، وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہمیں اپنی کوششوں کو مزید بڑھانا ہوگا۔

  • دنیا کا مہلک ترین جانور آپ کے گھر میں موجود

    دنیا کا مہلک ترین جانور آپ کے گھر میں موجود

    ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا جانور جو نہایت مہلک ہو اور ہم اسے اپنے گھر میں پالنے لگیں؟ لیکن تشویش کی بات تو یہ ہے کہ اس جانور کو پالنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، یہ تو خود ہی بن بلائے گھر میں گھسا چلا آتا ہے اور آپ چاہے کہیں بھی چھپ جائیں یہ آپ کو ڈھونڈ کر اپنا وار کردیتا ہے۔

    یہاں دراصل بات ہورہی ہے ننھے سے دکھائی دینے والے مچھر کی جسے عالمی ادارہ صحت نے دنیا کا مہلک ترین جانور قرار دیا ہے۔

    مچھر بلاشبہ ایک خطرناک کیڑا ہے اور ہلاکت خیزی میں یہ بڑے بڑے جانوروں کو مات کردیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 10 لاکھ افراد مچھر کے کاٹنے (اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں) سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں سانپ کے کاٹے سے ہر سال 50 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں جبکہ خطرناک ترین شارک بھی سال میں بمشکل 10 افراد کا شکار کر پاتی ہے۔

    اور تو اور، دنیا بھر میں ہلاکت خیز ہتھیار بناتے اور مہلک ترین کیمیائی تجربات کرتے انسان بھی سال میں 4 لاکھ 75 ہزار اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ (جنگوں اور قدرتی آفات میں ہونے والی انسانی ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔)

    لیکن مچھر مذکورہ بالا تمام شکاریوں سے چار ہاتھ آگے ہے۔

    مچھر کا عالمی دن

    سنہ 1897 میں ایک برطانوی ڈاکٹر سر رونلڈ روز نے اس تاریخ کو دریافت کیا تھا کہ مادہ مچھر انسانوں میں ملیریا پیدا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ سر رونلڈ روز نے ہی تجویز دی کہ اس دن کو مچھروں کا عالمی دن منایا جائے جس کے بعد سے دنیا بھر میں یہ انوکھا دن منایا جانے لگا۔

    مچھروں اور ان کی ہلاکت خیزی سے بچنے کے لیے ان سے احتیاط ضروری ہے، جن میں سر فہرست گھر کے اندر اور باہر پانی جمع نہ ہونے دینا اور گھر میں ہوا کی آمد و رفت کو بہتر کرنا ہے۔

    گھر کے دروازے کھڑکیوں میں پولیسٹر کی جالیاں لگوانے سے ایک طرف تو مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، تو دوسری طرف ہوا اور روشنی کی آمد بھی برقرار رہتی ہے۔