Tag: عالمی ادب

  • موامبا کی یاد

    موامبا کی یاد

    جب سے موسم انتہائی ابرآلود رہنے لگا تھا، جب سے مضحکہ خیز اور نشے کی حد تک مصرف پسند انگریز پورٹ سعید میں اترے تھے، ہمارے لیے دن بہت طویل ہو گئے تھے۔ تب بحری جہاز پر گزارے جانے والے بہت سے دنوں اور ہفتوں کے دوران ایک فضول سی بلاوجہ اداسی اور شوریدگی کی ایک غیر واضح سی عادت کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی سر اٹھانے لگا تھا کہ جیسے دنیا بھر کا سفر کرنے والے بیٹھے بیٹھے ضائع ہونے لگے ہوں۔ میں ان دو یا تین ہفتوں کے بارے میں کبھی سوچوں بھی تو ناخوشی سے اور مجبوری میں ہی سوچتا ہوں۔

    ایک روز ہم ایک بار پھر کچھ کچھ کانپتے، سمندر میں پیدا ہونے والی آوازوں اور انجن کی چھک چھک کو سنتے عرشے پر ادھر ادھر کھڑے تھے۔ آسمان سیسے کی طرح سرمئی رنگ کے روئی جیسے بادلوں کی ایک دوسرے کے بہت قریب تک سرکتی جا رہی ٹکڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ سمندر ہمیں ہر طرف سے اپنے حصار میں لیے ہوئے اور کم آواز تھا، ریت کے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں جیسی اس کی لمبی لہریں دور تک جانے کے باوجود کافی نیچی رہتی تھیں اور وہ ہلکا پیلا اور افسردہ تھا۔

    ہمارے سامنے ایک ڈرم پر موامبا بیٹھا تھا، وہ سیاہ فام جس کا جہاز پر کام یہ تھا کہ وہ بوریت کے اوقات میں داستان گوئی، ہلکے پھلکے مزاح اور شرارتوں کے ساتھ ہماری تفریح کا سامان کرے۔ وہ یہ کام اپنی مضحکہ خیز نیگرو انگریزی میں کرتا تھا، جس دوران وہ جگہ جگہ زبان کی چبھنے والی لیکن دانستہ غلطیاں کر کے اپنے بیان کو بہت دلچسپ بھی بنا دیتا تھا۔ وہ بیٹھا ہوا سگار پی رہا تھا اور جہاز کے انجن کی چھک چھک سے ہم آہنگ ہو کر دائیں بائیں جھومتا، اپنی آنکھیں گھماتا، چھوٹے چھوٹے حصوں میں اپنا پرجوش بیان جاری رکھے ہوئے تھا۔

    ہر کہانی سنانے کے بعد اسے ایک سگار دیا جاتا، جو دیکھا جائے تو اس کے کام کی کافی اچھی اجرت تھی۔ اس لیے کہ اس کی سنائی ہوئی کئی کہانیاں بالکل دلچسپ نہیں ہوتی تھیں اور کئی مرتبہ تو کوئی اسے سن بھی نہیں رہا ہوتا تھا۔ لیکن پھر بھی بوریت اور بیزاری کا شکار ہو کر ہم سب اس کے قریب جگہ جگہ کھڑے اس کو سنتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔ “اور سناؤ!” ہر چند منٹ بعد ہم میں سے کوئی ایک یہ کہتا اور ایک سگار اس کی طرف بڑھا دیتا۔ “شکریہ، میرے آقا۔ میں سناتا ہوں۔”

    “ایک آدمی تھا، جو بیمار تھا۔ اس کے پیٹ میں درد تھا، دائیں پہلو میں بھی اور بائیں میں بھی۔ وہ بہت تکلیف میں تھا اور بار بار درد سے چیخنے لگتا۔ بڑا شدید درد تھا جو محسوس ہوتا تھا اس آدمی کو۔ پھر ایک دوسرا آدمی اس کے پاس آیا اور اپنے ساتھ دو پاؤنڈ سفید کاڑھا لایا، سؤر کی چربی سے بنا ہوا۔ بیمار آدمی وہ چربی والا کاڑھا پی گیا۔ اس کے بعد اسے متلی ہونے لگی تو اسے قے بھی کرنا پڑی۔ لیکن پھر وہ دوبارہ بالکل صحت مند ہو گیا۔” اس کے بعد موامبا خاموش ہو گیا۔ اس کی کہانی مکمل ہو چکی تھی۔

    “کیا فضول باتیں کر رہے ہو،” ہم میں سے ایک بولا۔ “یہ لو، پکڑو اسے۔ اور اب ہمیں کوئی ڈھنگ کی بات سناؤ، تمہاری اپنی، کوئی مزیدار سی بات، سمجھے کہ نہیں؟”

    “ٹھیک ہے۔ میں سناتا ہوں۔ طویل عرصہ پہلے، جب میں ابھی ایک برا انسان تھا۔ میں نے، موامبا نے، کچھ برے کام بھی کیے تھے۔ اب موامبا ایک اچھا انسان ہے، اور سفید فام مردوں کو طرح طرح کی کہانیاں سناتا ہے۔ جب میں ابھی ایک لڑکا ہی تھا، تو میں نہ تو چکی میں مکئی پیسنا چاہتا تھا اور نہ ہی بوریاں اٹھانا چاہتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کام کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ میرا باپ مجھ سے مطمئن نہیں تھا اور مجھے کھانے کو کچھ نہ دیتا تھا۔ تب میں گاؤں میں ادھر ادھر گھومتا رہتا اور جو کچھ بھی کہیں سے ملتا، کھا لیتا۔ میں چھپ کر لوگوں کے برتنوں سے میٹھا دودھ بھی پی لیتا تھا یا دیہاتیوں کی بکریوں کے تھنوں سے۔ لوگوں کے برتنوں سے تو میں دودھ بڑی چالاکی سے دور سے ہی پی لیتا تھا۔ میں دودھ کے کسی برتن میں بہت لمبے سے کھوکھلے تنکے کا ایک سرا ڈال کر کہیں قریب ہی چھپ پر بیٹھ جاتا اور دودھ پی جاتا۔ جب میں گیارہ سال کا ہوا، تو میرے باپ نے ایک ایسے چور کے بارے میں کچھ سنا، جو ایک دوسرے گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ بڑا ماہر چور تھا، اپنے پیشے کی مشہور شخصیت، اور میرے باپ نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس چور کے پاس جانا چاہیے اور اس سے اس کے پیشے کے تربیت لینا چاہیے۔ میرا باپ مجھے لے کر اس کے پاس گیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر اس نے مجھے ایک اچھا چور بنا دیا، تو اسے معاوضے کے طور پر رقم بھی ادا کی جائے گی۔ یوں ان کا آپس میں اتفاق رائے ہو گیا، انہوں نے زمین پر تھوکا، ایک دوسرے کو کمر پر تھپکی دی اور مجھے اس آدمی کے پاس ہی چھوڑ دیا گیا۔”

    موامبا کچھ دیر کے لیے رکا اور اپنی ٹانگوں کو کسی جھومتے ہوئے درخت کی طرح دائیں بائیں حرکت دیتے ہوئے ہمیں دیکھنے لگا۔ “آگے!” ہم میں سے چند ایک اس سے اونچی آواز میں مخاطب ہوئے۔ “آپ بھی تو مزید کچھ کیجیے،” وہ بولا اور اس نے اپنا ایک ہاتھ آگے کر دیا۔ اس پر میں نے ایک چھوٹا سکہ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ “شکریہ، میرے آقا! موامبا آپ کا شکر گزار ہے۔ تو میں اس ماہر چور کی کہانی سنا رہا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ بڑا مشہور چور تھا۔ میں اس کے پاس ٹھہر گیا اور وہ مجھے سکھانے لگا کہ چوری کیسے کی جاتی ہے۔ لیکن میں نے اس سے کچھ نیا تو سیکھا ہی نہیں تھا۔ ہم ادھر ادھر جاتے اور چوریاں کرتے۔ لیکن اکثر ہمارے حالات خراب ہی ہوتے اور ہمارے پاس کھانا بھی کم ہی ہوتا۔ ایک بار ہم ادھر ادھر گھوم رہے تھے کہ چلتے چلتے ایک ایسے راستے پر آ نکلے، جو جنگل کو جاتا تھا۔ ہم نے دور سے ایک آدمی کو آتے دیکھا، جس کے پیچھے رسی سے بندھی ایک بکری بھی چلی آ رہی تھی اور رسی کا سرا اس آدمی کے ہاتھ میں تھا۔ ہم اس راستے پر ایک طرف کو ہو کر چھپ گئے تھے۔
    “تب میرے استاد نے ایک آہ بھری اور کہا، اگر یہ بکری کسی طرح مجھے مل جائے۔ لیکن یہ میرے ہاتھ آ کیسے سکتی ہے؟ یہ بکری تو کبھی بھی میری نہیں ہو سکتی! اس پر میں اس کا مذاق اڑانے لگا اور میں نے اسے کہا، یہ تو میں کر دوں گا کہ یہ بکری تمہاری ہو جائے۔ اس بات پر وہ خوش ہو گیا اور اسے کچھ حوصلہ بھی ہو گیا۔ تب میں نے اسے کہا، اس آدمی کے پیچھے پیچھے اس راستے پر چلتے رہو، یہاں تک کہ تم دیکھو کہ وہ اس جانور کو کہیں باندھ کر کھڑا کر دیتا ہے۔ پھر تم اسے چوری کر کے جلدی سے جنگل سے باہر لے جانا۔ استاد میری بات بڑے دھیان سے سنتا رہا تھا۔ اسی وقت میں جنگل میں اندر تک چلا گیا اور وہاں چھپ گیا۔ جب وہ بکری والا آدمی قریب پہنچا، تو میں نے زور زور سے ویسی آوازیں نکالنا شروع کر دیں، جیسی کوئی بکرا نکالتا ہے۔ اس آدمی نے یہ آوازیں سن کر سوچا کہ شاید جنگل میں کوئی بکرا راستہ بھول گیا تھا۔ اس بکرے کو پکڑنے کے لیے اس نے اپنی بکری کو ایک درخت کے ساتھ باندھا اور راستے سے ہٹ کر جنگل کے اندر چلا گیا۔

    “پھر میں نے ممیاتے ہوئے اس آدمی کو تب تک جنگل میں بکرے کی تلاش میں مصروف رکھا، جب تک میرا استاد درخت سے بندھی بکری کھول کر اسے جنگل سے باہر نہ لے گیا۔ اس کے بعد کافی دور ایک جگہ پر میں اپنے استاد اور ماہر چور سے ملا۔ ہم نے بکری کو ذبح کیا اور اس کی کھال اتار لی۔ تب مجھے افسوس ہوا کہ میں نے بکری چوری کرنے کو کام اپنے استاد پر چھوڑ دیا تھا اور اسے خود چوری نہ کیا۔ موامبا جو کچھ کہہ رہا ہے، سب سچ ہے، حرف بہ حرف۔ پھر میرے استاد نے مجھے سامنے دریا کی طرف بھیج دیا تاکہ میں گوشت اور کھال دھو لاؤں۔ تب تک شام ہو چکی تھی اور اندھیرا پھیل چکا تھا۔ میں پیدل دریا تک گیا۔ وہاں میں نے ایک ڈنڈا تلاش کیا اور اسے بکری کی کھال پر اس طرح برسانا شروع کر دیا کہ یوں آوازیں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ ساتھ ہی میں نے زور زور سے چیخ و پکار بھی شروع کر دی تھی۔ کیا آپ سننا چاہتے ہیں کہ موامبا تب کس طرح چیخنے لگا تھا؟ ۔۔ نہیں؟ اچھا ٹھیک ہے!

    “میرے استاد نے میری چیخ و پکار سنی، تو دور سے ہی چلا کر پوچھنے لگا کہ ہوا کیا تھا۔ میں نے اسے جواب تو دیا لیکن ساتھ ہی منت سماجت کرتے ہوئے اس سے مدد کی درخواست بھی کر دی، اونچی آواز میں یہ کہتے ہوئے کہ بکری کا مالک ایک آدمی کو ساتھ لیے وہاں آ گیا تھا اور اس نے مجھ پر حملہ کرتے ہوئے دھمکی بھی دے دی تھی کہ وہ مجھے جان سے مار دے گا۔ ساتھ ہی میں نے بہت اونچی آواز میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میرے استاد کو فوراً میری مدد کو آنا اور مجھے بچانا چاہیے۔ لیکن استاد نے جب میری آواز سنی، تو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ پھر میں بکری کا گوشت اور کھال لے کر اپنے باپ کے پاس گھر چلا گیا۔”
    اس کے بعد موامبا خاموش ہو گیا۔ ہم اس پر دباؤ ڈالنے لگے کہ وہ کہانی سنانا جاری رکھے۔ “مجھے پیاس لگی ہے،” اس نے کہا۔ اس سے ایک وہسکی کا وعدہ کیا گیا تو وہ بولا، “مجھے وہسکی ملے گی۔ میں کہانی کا باقی حصہ سناتا ہوں۔ تو حضرات! اگلے روز وہ ماہر چور ہمارے گھر پہنچ گیا تاکہ میرے بارے میں دریافت کر سکے۔ جب میں نے اسے آتا دیکھا تو میں نے جلدی سے بکری کا خون اپنے چہرے پر ملا اور چٹائی پر لیٹ گیا۔ وہ آیا اور پوچھنے لگا کہ ہوا کیا تھا اور میں کیسا تھا۔ میں نے بھی جی بھر کر شکایتیں کر دیں۔ گوشت تو ہم نے پہلے ہی چھپا دیا تھا۔ میرے باپ نے اسے کہاکہ وہ مجھے دوبارہ اپنے ساتھ لے جائے۔ مگر استاد بولا کہ وہ اس حالت میں نہیں تھا کہ مجھے کھانے کے لیے کچھ دے سکے اور پھر ویسے بھی میں کافی کچھ سیکھ چکا تھا۔ لیکن یہ کہ میں بکری کے معاملے میں اسے دھوکا دے چکا تھا، یہ بات وہ نہیں جانتا تھا۔ میرے باپ نے میری تربیت کرنے پر اسے کچھ رقم ادا کی، لیکن طے شدہ معاوضے سے آدھی۔ بکری کا گوشت اور کھال ہمارے پاس تھے اور میرا استاد واپس اپنے گاؤں چلا گیا۔” “موامبا! کیا یہ کہانی پوری ہو گئی؟” “ہاں، اتنی ہی تھی۔ میں سنا چکا۔ اب مجھے ایک وہسکی ملے گی۔”
    اس طرح سیاہ فام موامبا نے ہمیں کہانی سنائی، جسے ہم نے دھیان سے سنا، تھوڑا سا اس کی اس بکری والی کہانی پر ہنسے بھی اور پھر اسے پینے کے لیے ایک وہسکی بھی دے دی۔ وہ جب اظہار تشکر کے لیے ہمیں دانت نکال کر دیکھتا، اپنا باؤلر ہیٹ سر سے تھوڑا سا اوپر اٹھا کر احترام کا اظہار کرتا اور اپنی زرد اور بھورے رنگ کی دھاریوں والی ٹانگوں سے ڈرم بجانے لگتا تھا، تو بڑا مضحکہ خیز لگتا تھا۔ اس کے جوتے رنگین پٹیوں والے سرخ بادبانی کپڑے کے بنے ہوئے تھے۔ اس نے گھٹنوں سے اوپر تک آنے والی موٹی جرابیں نہیں پہنی ہوئی تھیں۔ مجھے اس کو دیکھ کر اکثر افسوس ہوتا۔ کئی بار تو میں اس کی وجہ سے شرمندگی بھی محسوس کرتا تھا اور تقریباً اتنی ہی مرتبہ مجھے ہم سب کی وجہ سے بھی شرمندگی محسوس ہوتی۔ وہ کئی مرتبہ واضح طور ہر ہم سب ہر ہنستا بھی تھا۔ اے موامبا، میں بعد میں کتنی مرتبہ تمہارے بارے میں سوچتا رہا ہوں۔ میری بے چینی بعد ازاں مجھے مزید کتنی ہی مرتبہ دور پار کے ملکوں میں لے گئی۔ کتنی ہی مرتبہ پھر ایسا بھی ہوا کہ مجھے ایک ہی طرح کی ناامیدی ہوئی؛ جس بیماری کی وجہ وطن بنا ہو، اس کا علاج بار بار کے سفر اور نت نئے اجنبی مناظر کیسے کر سکتے ہیں؟

    ہم نے اپنے نیگرو (تب سفید فام باشندوں کی طرف سے عمومی حقارت کے باعث افریقی باشندوں کو “نیگرو” یا “نِگر” کہہ کر بلایا جانا عام تھا، جو اب بجا طور پر بہت برا سمجھا جاتا ہے: مترجم) کو دیکھ کر اپنے سروں کو تھوڑا تھوڑا آگے کی طرف جھکایا اور ہم میں سے شاید ہر ایک کا دل میں تو اس سے مطلب کچھ اچھا ہی تھا۔ ہم میں سے ہر ایک نے کوشش کی کہ اچھے موامبا کے ساتھ گفتگو میں نفرت کا مظہر کوئی ایسا لہجہ اختیار نہ کیا جائے، جس لہجے میں سفید فام اپنی نوآبادیوں میں سیاہ فام باشندوں سے بات کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے سست ہو چکے ہاتھ پاؤں پھیلا دیے، کبھی کبھی تھوڑا سا عرشے پر ادھر ادھر بے مقصد گھومتے رہے، اپنے ٹھنڈے ہو چکے ہاتھوں کو رگڑتے ہوئے طویل خاموشی سے لیکن عدم اطمینان کی کیفیت کے ساتھ دیر تک اپنے سامنے پھیلی بنجر وسعتوں کو دیکھتے رہے، روئی جیسے نرم بادلوں سے بھرے آسمان کو اور غروب آفتاب کے وقت کسی سرمئی شیشے کی طرح اس ہلکے زرد سمندر کو جو ہمارے سامنے دور تک پھیلا ہوا تھا۔

    (نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب ہیرمان ہَیسے کی برطانوی نوآبادیاتی دور کے عروج پر 1905ء میں لکھی گئی کہانی، جرمن سے براہ راست اردو ترجمہ: مقبول ملک)

  • کالی بھیڑ (اطالوی ادب سے انتخاب)

    کالی بھیڑ (اطالوی ادب سے انتخاب)

    ایک ملک ایسا تھا، جس کا ہر باسی چور تھا۔ اس کا ہر باسی، رات میں تالا شکن اوزار اور اندھے شیشے والی لالٹین لیے گھر سے نکلتا اور اپنے کسی ہمسائے کے گھر میں نقب لگاتا۔ وہ جب پَو پھٹتے سمے، لُوٹا ہوا مال لیے اپنے گھر لوٹتا تو اسے پتہ چلتا کہ اس کا اپنا گھر لُٹ چکا ہے۔

    یوں سب ایک دوسرے سے جھگڑے بغیر سکون سے رہ رہے تھے۔ کسی کو بھی برا نہ لگتا کہ اس نے ایک بار دوسرے کو لوٹ لیا ہے۔ ایک سے دوسرا لُٹتا، دوسرے سے تیسرا، تیسرے سے چوتھا….لُوٹ کا یہ سلسلہ چلتا رہتا، یہاں تک کہ آخری بندہ پھر سے پہلے بندے کو لوٹنا شروع کر دیتا۔

    اِس ملک کا سارا کاروبار فریب پر مبنی تھا، چاہے بندہ خریدنے والا تھا یا پھر بیچنے والا۔ اس ملک کی حکومت بھی مجرموں کا ایسا دَل تھا، جو بنا ہی اس لیے تھا کہ لوگوں کا مال ہتھیا سکے، جبکہ لوگ تھے کہ سارا وقت کوشاں رہتے کہ حکومتی دَل کو دغا دے سکیں۔ اس ملک میں سب کی زندگی کسی مشکل کا سامنا کیے بغیر گزر رہی تھی اور اس کے باسی نہ امیر تھے اور نہ ہی غریب۔

    پھر ایک دن، نجانے کیسے کیوں اور کہاں سے، ایک ایماندار شخص اس دیس میں آیا۔ وہ، بجائے اس کے، کہ بوری اور لالٹین لیے نقب زنی کے لیے نکلتا، گھر میں ہی رہتا، سگریٹ پھونکتا اور قصے کہانیاں پڑھتا رہتا۔ جب چور آتے، اس کے گھر میں روشنی دیکھتے تو لوٹ جاتے۔ یہ معاملہ دیر تک نہ چل سکا۔

    ایماندار آدمی کو یہ بتا دیا گیا: ”یہ تو ٹھیک ہے، تم بیشک تن آسانی سے رہو لیکن تمہیں دوسروں کے کام میں حارج ہونے کا کوئی حق نہیں۔ تمہاری گھر میں گزاری ہر رات کا مطلب ہے کہ ایک گھر میں فاقہ رہے۔“

    ایماندار اپنے دفاع میں کچھ نہ کہہ سکا۔۔۔ اور اس نے بھی صبح تک اپنی راتیں، گھر سے باہر گزارنی شروع کر دیں۔ وہ، لیکن، خود کو چوری کرنے پر راضی نہ کر سکا۔ بات صرف اتنی تھی کہ وہ ایک ایماندار شخص تھا۔ وہ پُل پر جا کھڑا ہوتا اور نیچے بہتے پانی کو تَکتا رہتا۔ دن چڑھنے پر جب وہ گھر لوٹتا تو اسے پتا چلتا کہ اس کا گھر لُٹ چکا ہے۔

    ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایماندار شخص کنگال ہو گیا، اس کے گھر سے سارا سامان جاتا رہا اور اس کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ بچا۔ وہ کسی دوسرے کو قصوروار بھی نہ ٹھہرا سکا کیونکہ قصور تو خود اس کا اپنا تھا۔ اس کی ایمانداری ہی اصل وجہ تھی، جس نے اس ملک کے سارے نظام کی ترتیب توڑ اور توازن بگاڑ دیا تھا۔ وہ لُٹتا رہا لیکن اس نے خود کسی دوسرے کو نہ لُوٹا۔ یہ سبب تھا کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا کہ جب وہ اپنے گھر لوٹتا تو اس کا مال و متاع محفوظ ہوتا جبکہ اس کے گھر ایماندار بندے نے رات میں صفائی کرنی ہوتی تھی۔ جلد ہی اُن لوگوں نے خود کو دوسروں کے مقابلے میں امیر پایا، جن کے گھر لٹنے سے بچ گئے تھے۔ نتیجتاً اُن کا من نہ کیا کہ وہ چوری کریں اور وہ جو ایماندار شخص کے گھر چوری کرنے جاتے، وہ خالی ہاتھ لوٹتے اور غریب ہوتے گئے کہ اس کے گھر کچھ بھی نہ بچا تھا۔

    اس دوران یہ ہوا کہ جو امیر ہو گئے تھے، انہوں نے بھی ایماندار شخص کی طرح پُل پر جانا اور نیچے بہتے پانی کو تکنا شروع کر دیا اور اِسے اپنی عادت بنا لیا۔ ان کی اس حرکت نے صورت حال میں مزید الجھاؤ پیدا کر دیا کیونکہ مزید لوگ امیر ہو رہے تھے اور بہت سے دوسرے غریب سے غریب تر۔ امیروں کو لگا کہ اگر وہ یونہی پُل پر کھڑے راتیں بِتاتے رہے تو انہوں نے بھی غریب ہو جانا تھا۔ انہوں نے سوچا: ’کیوں نہ ہم کچھ غریبوں کو پیسے دیں کہ وہ ہمارے لیے چوری کرنے جائیں؟‘

    مُک مکا کیے گئے، معاوضے اور حصے طے کیے گئے۔ اس میں بھی ایک دوسرے کو داؤ لگائے گئے کیونکہ لوگ تو ابھی بھی چور تھے۔ نتیجہ بہرحال یہی نکلا کہ امیر مزید امیر ہوتے گئے اور غریب مزید غریب۔

    امیروں میں سے کئی اتنے امیر ہو گئے کہ نہ تو انہیں چوری کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی چوری کرانے کے لیے دوسروں کو معاوضہ دینے کی، لیکن یہ خطرہ موجود تھا کہ اگر وہ چوری سے تائب ہو جائیں تو غربت ان کا مقدر ہوتی، غریبوں کو بھی اس بات کا پتہ تھا۔ انہوں نے، چنانچہ، غریب ترین لوگوں کو، دیگر غریبوں سے اپنے مال و متاع کی حفاظت کے واسطے، رکھوالی کے لیے رکھ لیا۔ پولیس کے جتھے کھڑے ہوئے اور بندی خانے بننے لگے۔

    یہ سب ہوا اور پھر ایماندار شخص کی آمد کے چند سال بعد ہی کوئی بھی چوری کرنے یا لُٹ جانے پر بات نہ کرتا، بات ہوتی تو بس اتنی کہ وہ کتنے امیر یا غریب تھے، یہ الگ بات ہے کہ وہ اب بھی چور ہی تھے۔

    وہاں بس ایک ہی ایماندار آدمی تھا، جو جلد ہی فاقہ کشی سے مر گیا تھا۔

    (اطالوی ادیب ایتالو کیلوینو کا افسانہ جس کے مترجم قیصر نذیر خاورؔ ہیں)

  • ستتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ’’ارے فیونا، یہ دیکھو، دروازے میں یہ دعوت نامہ پڑا ملا۔‘‘ مائری بولیں، فیونا اس وقت ناشتہ کر رہی تھی، اس نے پوچھ لیا کہ کیسا دعوت نامہ۔ مائری نے کہا: ’’یہ تو جبران کی امی شاہانہ کی طرف سے ہے، انھوں نے ہمارے اعزاز میں ٹی پارٹی دی ہے دوپہر کو۔‘‘ وہ ایک لمحہ کو ٹھہریں اور پھر بولنے لگیں: ’’اسکول میں ویسے بھی ہاف ڈے ہے، واپسی پر دیر مت کرنا، میں تمھارے بہترین کپڑے نکال کر رکھ دوں گی، میں بھی کام سے جلدی آ جاؤں گی۔‘‘
    فیونا نے ناشتہ مکمل کر لیا تو کتابیں بیگ میں ڈال کر اسکول کے لیے چل دی۔
    ۔۔۔۔

    دوسری طرف جب جونی جبران کے گھر پہنچا تو وہ اور اس کے والد بلال گھر سے نکل چکے تھے، شاہانہ نے کہا کہ آج جونی برادرز کو تھوڑا سا وقت کہیں اور بِتانا پڑے گا کیوں کہ یہ خواتین کی پارٹی ہے۔

    جونی وہاں سے اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، جب کہ شاہانہ کافی دیر تک کھانے کی چیزیں تیار کرتی رہیں۔ گوٹا کناری والے میز پوش نکال کر گول میزوں پر بچھائے اور باغیچے سے تازہ پھول توڑ کر گل دانوں میں سجائے اور پھر باقی انتظامات کرنے لگ گئیں۔
    ۔۔۔۔

    اسکول سے واپسی پر فیونا نے اپنا پسندیدہ، سفید رنگ کا لباس پہنا، جس پر بینگنی رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول کاڑھے گئے تھے، اور گلے اور کناروں پر زیتون کے سبز پتے بنے ہوئے تھے۔ فیونا کو بستر پر سفید دستانے اور ایک ٹوپی بھی دکھائی دی، وہ فوراً بولی: ’’اوہ ممی، میں ہیٹ نہیں پہنوں گی۔‘‘

    مائری نے آنکھیں گھما کر کہا: ’’فیونا… سمجھا کرو… یہ ٹی پارٹی ہے۔ دستانے اور ہیٹ پہن لو، میں بھی تو پہن رہی ہوں۔‘‘

    فیونا نے ہیٹ اٹھا کر سر پر رکھا اور آئینے میں خود کو دیکھا، پھر منھ بنا کر بولی: ’’دیکھو کتنا برا لگ رہا ہے، احمق لگ رہی ہوں۔‘‘
    ۔۔۔۔

    جونی اینگس کے گھر پہنچا تو وہاں جمی اور جیزے پہلے ہی سے موجود تھے۔ اینگس بولے: ’’آپ کے بھائیوں نے مجھے آپ کی جنم بھومی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘ جونی چونکا: ’’اوہ، تو آپ سب جان گئے ہیں، اچھی بات ہے، لیکن میں یہاں زیادہ دیر نہیں رک سکتا، مائری کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنی ہے۔‘‘ اینگس نے کہا کیا آپ قدیم کتاب دیکھنا چاہیں گے اور یہ کہہ کر انھوں نے دراز سے کتاب نکال لی۔ ’’یہ رہی وہ کتاب جو صدیوں پہلے آپ ہی نے لکھی تھی۔ اسے دیکھ کر آپ کو پرانی یادیں تازہ ہو جائیں گی۔‘‘

    جونی نے کتاب ہاتھوں میں جیسے ہی لی، اس کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا۔ اس کا چہرہ جوش اور مسرت سے تمتمانے لگا تھا، اور بولتے وقت آواز بھی جذبات سے لرزنے لگی: ’’یہ … یہ … میری کتاب … اوہ … یہ آج بھی سلامت ہے … اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی… حیرت انگیز!‘‘

    وہ کتاب لے کر جلدی سے بیٹھ گیا اور ایک ایک ورق الٹ کر دیکھنے لگا۔ ’’مجھے اب بھی یاد ہے جب میں اسے لکھ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ کل کی بات ہو۔‘‘ وہ صدیوں پرانی یادوں میں کھو گیا تھا کہ اچانک اسے اینگس کی آواز نے چونکایا۔

    ’’آپ نے مجھے تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ کتاب کا ایک حصہ آپ نے فونیزی اور عربی زبانوں میں لکھا ہے اور پھر اسکاٹ لینڈ آمد کے بعد گیلک میں لکھنے لگے، یہ ایک ملغوبا بن گیا ہے۔‘‘

    جونی یعنی آلرائے کیتھمور مسکرا دیا اور بولا: ’’میں دراصل بہت تیزی سے زبانیں سیکھنے لگتا ہوں۔ ہمارا ایک ملازم ایک مقامی دیہاتی تھا جس کا نام بروس تھا۔ جب وہ اپنا کام ختم کرتا تھا تو میں اسے لے کر اپنے کمرے میں آ جاتا اور پھر اس سے میں گیلک زبان سیکھتا۔ وہ بہت شان دار آدمی تھا، مجھے آج بھی یاد آتا ہے۔‘‘

    باقی لوگوں نے اسے قدیم کتاب اور اس سے وابستہ یادوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا اور اینگس کے ساتھ باہر نکل کر ایک قدیم شاہ بلوط کی شاخوں کے نیچے کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔

    (جاری ہے…)

  • بہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    جمی نے کہا: ’’وہ اس قابل ہو جائے گا کہ جادوگر پہلان کو آزاد کر سکے، جو ایک شیطان ہے۔ وہ اس وقت موت کی قید میں ہے، اور وہ صرف اپنی روح کے ذریعے اُس سے رابطہ کر سکتا ہے۔ گولا حاصل کرنے کے بعد وہ مل کر خوف و دہشت اور خون خرابے کے ساتھ دنیا پر حکومت کرنے لگیں گے۔ کوئی بھی ان کو روک نہیں پائے گا۔ پہلان اسے تمام شیطانی کام کرنے پر اکسائے گا، حتیٰ کہ قتل کرنے پر بھی آمادہ کرے گا۔ اس طرح وہ روح کی قید سے آزاد ہو کر جسمانی صورت میں پھر نمودار ہو جائے گا اور اس کے پاس اپنی ساری طاقتیں واپس آ جائیں گی۔ وہ بات جو اس نوجوان کو معلوم نہیں ہے وہ یہ ہے کہ پہلان کی خواہش کے مطابق کام ہو جائے گا تو وہ اس نوجوان کو مار دے گا کیوں کہ وہ اس کے کسی کام کا نہیں ہے۔‘‘

    یہ سن کر اینگس نے کہا: ’’میرے خیال میں یہ ٹھیک رہے گا کہ آپ یا آپ کا بھائی جیزے یہاں رہے۔‘‘ اینگس کہتے کہتے مسکرائے۔ ’’ٹھیک ہے اس کا نام پونڈ ہے لیکن میں اسے جیزے ہی کہوں گا۔‘‘

    جمی نے کہا کہ ٹھیک ہے، اس طرح بات دوسروں پر نہیں کھلے گی، کیوں کہ رازداری ضروری ہے، ورنہ یہ معلومات غلط لوگوں کے ہاتھ لگی تو ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ جیزے پہنچ گیا، اس نے آتے ہی کہا: ’’بچّے بہ حفاظت گھر پہنچ گئے۔ آلرائے مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے اسے فیونا کی ماں کے گھر رہنے کی ضرورت سے آگاہ کیا، کیوں کہ یہاں اب سبھی متعلقہ لوگوں خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔‘‘

    جمی نے کہا: ’’ہم یہ بات جانتے ہیں کہ فیونا اپنی ماں کی طرف سے اصل وارث ہے لیکن یہاں جو شخص جھانک رہا تھا وہ بھی معمولی نہیں ہے۔ اس کی رگوں میں بھی کیگان اور دوگان کا خون دوڑ رہا ہے۔‘‘

    اچانک اینگس نے پوچھا کہ جمی فیونا اور مائری سے متعلق کیا جانتا ہے۔ جمی نے کہا: ’’جب دوگان نے شہزادی آنا اور ازابیلا کو اغوا کیا تو اس نے دونوں سے زبردستی شادی رچائی۔ ازابیلا کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام ہیگر رکھا گیا۔ دوگان نے بچہ اس سے لے لیا اور پھر دونوں شہزادیوں کو در بہ در ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔ بدقسمتی سے ہیگر اپنے باپ کی طرح ظالم اور بد کردار نکلا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نسل کا ہر وارث ایسا ہی ظالم اور بد کردار تھا۔ اگرچہ شہزادی ازابیلا نے انتقام کی قسم کھا لی تھی لیکن وہ کبھی انتقام نہ لے سکی۔ ہیگر نے اس بات کو یقینی بنا لیا تھا کہ اس کی ماں کسی بھی صورت سلطنتِ زناد میں قدم ہی نہ رکھ سکے۔ لیکن دوگان کو ایک بات کا علم نہیں تھا، وہ یہ کہ شہزادی آنا بھی اس کے ایک بچے کی ماں بننے والی تھی۔ جب دونوں شہزادیوں کو زناد سے نکالا گیا تو دوران سفر وہ بھی بیٹے کی ماں بنی۔ جب وہ قلعہ آذر پہنچیں تو اس وقت بچے کی عمر دو سال تھی۔ دونوں شہزادیوں نے دو مقامی بھائیوں کے ساتھ شادی کر لی۔ انھوں نے اپنے اس بچے کی حقیقت کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ آنا کا شوہر رابرٹ فرگوسن ایک بہت اچھا انسان تھا، اس نے آنا کے بچے کو اپنے بیٹے کی طرح پالا، اور بچّے کا نام انھوں نے جوربی رکھ لیا۔ اس کو کبھی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کا اصل باپ کون تھا۔ چناں چہ اس ساری کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ مائری اور فیونا بھی دونوں بادشاہوں کیگان اور دوگان کی مشترکہ وارث ہیں۔ انھیں خود اس رشتے کا علم نہیں ہے اور بہتر بھی یہی ہوگا کہ انھیں اس حقیقت کا پتا نہ چلے۔‘‘

    ’’تو شہزادی ازابیلا نے کس سے شادی کی؟‘‘ اینگس نے اگلا سوال کیا۔

    (جاری ہے)

  • پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    انھوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ چھوڑ دیے۔ وہ اینگس کے گھر پر کھڑے تھے۔ جبران نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’وہ سو رہے ہیں، ہمیں دھیمے قدموں سے یہاں سے جانا چاہیے، کہیں ان کی نیند میں خلل نہ آ جائے۔‘‘

    ’’ہم ایسا نہیں کر سکتے، مرجان کو گولے میں رکھنا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے اینگس کو جگا دیا۔ وہ اچھل کر کھڑے ہو گئے، انھیں یقین نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی واپس آ جائیں گے۔ اینگس نے کہا کہ انھیں شاید اونگھ آ گئی تھی اور یہ کہ وہ سو نہیں رہے تھے۔ فیونا نے مرجان ان کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ’’ہمیں یہ بہت مشکل سے حاصل ہوا ہے، کبھی ٹرالز، کبھی زلزلہ تو کبھی وائی کنگز … بس سارا وقت دوڑتے بھاگتے ہی گزرا۔‘‘

    جبران نے بتایا کہ انھیں ایک موقع پر پفن نے بچایا: ’’مجھے تو ٹرالز پکڑ کر زندہ بھون کر کھانا چاہ رہے تھے، لیکن بچت ہوگئی۔‘‘

    ایسے میں دانیال بھی حالات کا ایک حصہ بتانے لگ گیا: ’’ہم ایک کشتی میں گئے، نیلی جھیل میں تیراکی کی، اور پتا ہے ایک بھتنے اور روشنی کی پری سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔‘‘

    یہ سن کر جبران اور فیونا حیرت کے مارے اچھل پڑے۔ وہ کسی جادوئی دنیا میں نہیں بلکہ حقیقی دنیا میں کھڑے تھے۔ لیکن دانیال نے بڑی روانی سے انگریزی میں بات کی تھی۔

    ’’اوہ … اس کا مطلب ہے کہ اب تم انگریزی مکمل طور پر سیکھ چکے ہو۔‘‘ فیونا نے دانیال کی طرف حیرت سے دیکھا۔ دانیال خود بھی اچھل پڑا تھا۔ اس کے منھ سے نکلا …. ارے … یہ …. یہ کیسے ہو گیا؟ جبران نے خوش ہو کر کہا چلو اچھا ہوا، اب مجھے ترجمانی کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ وہ دونوں اس بات پر مسکرا دیے۔ تب انھیں اینگس نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ’’تم لوگوں نے بلاشبہ کئی مہمات سر انجام دی ہوں گی، کیوں نہ اس مرتبہ دانیال ساری تفصیل بیان کرے، کیوں کہ پچھلی مرتبہ فیونا نے تفصیل سنائی تھی۔‘‘

    جبران نے ایک قدم آگے بڑھ کر کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ اینگس نے اس کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ہاں جبران، تم اگلی مرتبہ سناؤ گے۔‘‘

    ’’اوہو … میری باری تو ہمیشہ آخر میں آتی ہے۔‘‘ دانیال کہانی سنانے لگا۔ ایک دشوار سفر کی کہانی سن کر اینگس نے کہا: ’’تم لوگ واقعی بہت ساری مشکلات سے گزر کر آئے ہو، یہ اتنی بڑی ہیں کہ تمھاری عمر کے بچوں کا ان سے سامنا کرنے کی توقع بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘

    دانیال نے کہا کہ وہ ان واقعات کو اپنی ڈائری میں لکھے گا، ٹرالز، پفن اور میگنس کی تصاویر بھی بنائے گا۔ اینگس نے بھی اس کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ شام کو یہ کہانی لکھیں گے۔

    جادو کا گولا ان کے سامنے میز پر دھرا تھا۔ اینگس نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ والا ہیرا، پہلے والے ہیرے سے قطار میں پہلے آئے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اینگس نے ہیرا پہلی سوراخ میں رکھ دیا، عین اسی لمحے دونوں ہیرے چمک اٹھے۔

    جبران نے کہا: ’’ارے ڈریگن چمک اٹھے ہیں۔‘‘ اینگس پراسرار لہجے میں بولا: ’’فیونا … کیا تم جانتی ہو کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ میں بتاتا ہوں، اب تمھارے پاس دوسری طاقت بھی آ گئی ہے، ایک ایسی پراسرار طاقت جس کی مدد سے تم خود کو چھوٹا اور بڑا کر سکتی ہو۔‘‘ یہ سن کر تینوں ایک دم سناٹے میں آ گئے۔

    وہ اینگس کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بات تو سیدھی طرح ان کی سمجھ میں آ گئی تھی لیکن اس بات پر یقین کرنا ذرا مشکل ہی تھا کہ کوئی شخص خود کو اپنی مرضی سے چھوٹا یا بڑا کر سکتا ہے۔ وہ بے یقینی کے عالم میں اینگس کو اس انداز سے دیکھ رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں کہ آپ نے ابھی کیا کہا تھا!

    اینگس ان کا رد عمل دیکھ کر مسکرا دیے، اور بولے: ’’میرے کہنے کا سیدھا سادہ مطلب ہے، یعنی فیونا اب خود کو اپنی مرضی کے مطابق سکیڑ کر چھوٹا بھی کر سکتی ہے اور پھیلا کر بڑا بھی … اتنا بڑا کہ مجھ سے بھی …!‘‘

    ’’واؤ …‘‘ تینوں کے منھ سے بے اختیار چیخ نما نعرہ نکلا۔ ’’مم … میں … اب نہ صرف آگ لگا سکتی ہوں بلکہ خود کو چھوٹا بڑا بھی کر سکتی ہوں …. اوہ … یہ … یہ … بالکل خواب جیسا ہے … پر مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ فیونا پرجوش ہو کر بولی۔

    لیکن اس سے قبل کہ جبران یا دانیال کچھ بولتے، اینگس نے نہایت سنجیدہ لہجے میں فیونا کو خبردار کیا: ’’میں نے تم سے جو کہا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھنا۔ اگرچہ یہ سب کچھ بہت شان دار ہے اور تمھیں بے حد مزا بھی آ رہا ہے لیکن یہ مت بھولو کہ یہاں شیطانی قوتیں بھی موجود ہیں۔ زیادہ خود اعتمادی ٹھیک نہیں ہے بلکہ ہر لمحے چوکنا رہو۔‘‘

    اینگس کہتے کہتے ایک لمحے کے لیے ٹھہرے اور پھر بولے: ’’چلو اب دیکھتے ہیں کہ قدیم کتاب میں اور کیا لکھا ہے، اور … آگے کیا کچھ ہونے والا ہے؟‘‘

    (جاری ہے….)

  • دو بیٹے

    دو بیٹے

    جنوری 1945ء میں جب ہٹلر کی جنگ اپنے اختتام کے نزدیک آرہی تھی، تھورنگیا میں ایک دہقان کی بیوی نے خواب دیکھا کہ اس کا بیٹا فرنٹ پر اسے پکار رہا ہے۔

    اور نیند کے خمار کی حالت میں صحن میں جانے پر اس نے یوں خیال کیا کہ وہ پمپ پر پانی پینے کھڑا ہے۔ جب اُس نے اس سے بات کی، وہ جان گئی کہ وہ ان نوجوان جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی ہے جو کھیت پر بیگار میں کام کر رہے تھے۔ چند دن بعد اس کے ساتھ ایک عجیب واردات ہوئی۔

    وہ ایک قریب کے جھنڈ میں قیدیوں کے لیے ان کا کھانا لے کر گئی جہاں وہ درختوں کے ٹھنٹھ اکھاڑ رہے تھے۔ لوٹتے وقت اس نے گردن پھیر کر دیکھا تو اُس کی نظر پھر اسی جنگی قیدی پر پڑی (مریض سا جوان لڑکا) جو ایک مایوس کیفیت سے اپنے چہرے کو ایک کھانے کے ڈبے کی طرف موڑے تھا، جسے کوئی اس کے ہاتھ میں دے رہا تھا….. اور یکبارگی اس قیدی کی شکل اس کے بیٹے کی شکل ہو گئی۔ پھر اگلے چند دنوں کے دوران وہ متعدد بار اس نوجوان کے چہرے کو اپنے بیٹے کے چہرے میں بدلنے اور فوراً اپنی اصلی شکل پر آجانے کے تجربے سے دوچار ہوئی۔

    پھر یہ قیدی بیمار پڑگیا اور باڑے میں بغیر دیکھ بھال کے پڑا رہا۔ دہقان کی بیوی کے جی میں خواہش اُبھری کہ وہ بیمار لڑکے کے لیے کچھ قوت بخش غذا لے کر جائے لیکن اسے اس کے بھائی نے روک دیا جو جنگ میں معذور ہوجانے کے بعد کھیت کا انتظام چلاتا تھا۔ اور خاص طور پر اُن دنوں جب کہ ہر ایک چیز ٹوٹ پھوٹ رہی تھی اور گاؤں والے قیدیوں سے خائف ہونے لگے تھے، قیدیوں سے وحشیانہ برتاؤ کررہے تھے، دہقان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے دلائل کے آگے اپنے کان بند نہیں رکھ سکتی تھی۔ وہ ان نیچ انسانوں کی مدد کرنا درست نہیں سمجھتی تھی جن کے بارے میں اس نے خوفناک باتیں سنی تھیں۔

    اسے ہروقت اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ خدا جانے دشمن اس کے بیٹے سے کیا سلوک کریں جو مشرقی فرنٹ پر لڑ رہا تھا۔ اس طرح وہ اس مصیبت زدہ جوان قیدی کی مدد کرنے کے اپنے ڈگمگاتے ارادے کو عملی جامہ پہنا نہ پائی تھی۔

    ایک شام وہ اتفاقاً قیدیوں کی ایک ٹولی کے پاس سے گزری۔ وہ برف سے ڈھکے باغیچے میں سرگرمِ گفتگو میں محو تھے اور اس میں کوئی شک نہ تھاکہ وہ وہاں اسے خفیہ رکھنے کی خاطر سردی میں اکٹھے ہوئے تھے۔ نوجوان قیدی بھی ان میں بخار سے تھرتھراتا موجود تھا اور اپنی غایت درجہ کمزوری کی حالت کی وجہ سے وہی اس کے اچانک آجانے پر سب سے زیادہ چونکا۔ دہشت سے اس کا چہرہ پھر اسی عجیب تبدیلی کا مظہر ہوگیا اور عورت کو یوں لگا کہ وہ اپنے بیٹے کے چہرے کو دیکھ رہی ہے اور وہ بڑا خوف زدہ ہے۔ اس پر اس کا بڑا اثر ہوا اور گو اُس نے کارِ فرض جان کر اس گفتگو کے ہونے کا حال اپنے بھائی کو جا بتایا، اس نے اپنے دل میں ٹھانی کہ اپنے منصوبے کے مطابق وہ چوری چھپے جوان قیدی کو گوشت کا قتلہ پہنچا آئے گی۔

    ہٹلر کی "تیسری رائش” کے دور میں بہت سے نیک کاموں کی طرح یہ کام بھی انتہائی مشکل اور پُر ظفر ثابت ہوا۔ یہ ایک ایسی دلیری کا کام تھا جس میں اس کا اپنا بھائی اس کا دشمن تھا اور وہ قیدیوں پر بھی اعتبار نہیں کرسکتی تھی۔ بایں ہمہ وہ اس میں کام یاب ہوگئی۔ ہاں، اس سے یہ پتا چل گیا کہ قیدی حقیقتاً فرار ہونے کی فکر میں نہیں، کیونکہ ہر روز سرخ فوجوں کی پیش قدمی سے قیدیوں کا یہ خدشہ بڑھ گیا تھا کہ ان کو مغرب کی سمت کو منتقل کر دیا جائے گا یا ختم کر دیا جائے گا۔

    دہقان کی بیوی ان التجاؤں پر دھیان دیے بغیر نہیں رہ سکتی تھی جو نوجوان قیدی (جس سے وہ اپنے عجیب تجربے کی وجہ سے بندھی ہوئی تھی) ہاتھ کے اشاروں اور جرمن زبان کے ٹوٹے لفظوں سے اس سے کرتا تھا اور اس طرح وہ آپ ہی آپ قیدیوں کے فرار کے منصوبے میں الجھتی چلی گئی۔ اس نے جوان قیدی کو ایک جیکٹ اور ایک بڑی قینچی مہیا کی۔ عجیب طور سے اس کے بعد سے وہ "تبدیلی” پھر نہ ہوئی۔ وہ اب محض ایک جوان اجنبی کی مدد کررہی تھی۔ سو اس کے لیے یہ اچھا خاصا جھٹکا تھا جب فروری کے آخری دنوں میں ایک صبح کسی نے کھڑکی پر دستک دی اور شیشے میں سے جھٹپٹے میں اس نے اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھا۔ اور اس دفعہ وہ واقعی اس کا بیٹا تھا۔ وہ وافن ایس ایس کی پھٹی ہوئی وردی پہنے تھا۔ اس کے یونٹ کی تکا بوٹی ہوگئی تھی اور اس نے مضطرب لہجے میں بتایا کہ روسی اب گاؤں سے چند ہی کلو میٹر دور رہ گئے ہیں۔ اس کی گھر واپسی کو سربستہ راز رہنا چاہیے۔

    ایک نوع کی جنگی مشاورت میں، جو اوپر کی کوٹھری کے گوشے میں دہقان کی بیوی، اس کے بھائی اور اس کے بیٹے کے مابین ہوئی، یہ فیصلہ کیا گیا کہ سب سے پہلے انھیں قیدیوں سے جان چھڑانی چاہیے کیونکہ اس کا امکان تھا کہ انھوں نے ایس ایس والے آدمی (دہقان کی بیوی کے بیٹے) کو دیکھ لیا ہو اور بہرحال وہ اپنی فوج کے سامنے بدسلوکی کا رونا روئیں گے۔ قریب میں ہی ایک کان تھی۔ ایس ایس والا بیٹا بضد ہوا کہ راتوں رات وہ ایک ایک کرکے قیدیوں کو ورغلا کر باڑے سے باہر لے جائے گا اور مار ڈالے گا۔ اس نے کہا کہ لاشوں کو پھر کان میں ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے سے پہلے انھیں الکحل کا کچھ راشن دینا ہوگا۔ بھائی کا خیال تھا کہ یہ بات قیدیوں کو زیادہ عجیب یا خلافِ معمول نہیں لگے گی کیونکہ چند دنوں سے وہ اور کھیت کے دوسرے ملازم روسیوں سے نہایت دوستانہ برتاؤ کرتے رہے تھے تاکہ وہ آخری وقت بھی منسئی سے ان کے دام میں آجائیں اور کوئی گل نہ کھلائیں۔

    جب نوجوان ایس ایس والا بیٹا اپنی تجویز کی وضاحت کررہا تھا، اس نے اچانک اپنی ماں کو کپکپاتے دیکھا۔ مردوں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی حالت میں اسے پھر باڑے کے قریب نہ جانے دیا جائے۔ اس طرح خوف سے سرد، وہ رات پڑنے کا انتظار کرتی رہی۔ روسیوں نے بظاہر برانڈی کے راشن کو شکریے سے قبول کرلیا اور دہقان کی بیوی نے انھیں بدمستی کے عالم میں اپنے غمناک گیت گاتے سنا۔ لیکن جب رات کو گیارہ بجے کے لگ بھگ اس کا بیٹا باڑے میں گیا تو قیدی جا چکے تھے۔ انھوں نے بدمست ہونے کا مکر کیا تھا۔ کھیت کے لوگوں کے انوکھے، غیر قدرتی مہربانی کے سلوک سے وہ حقیقتِ حال کو بھانپ گئے کہ سرخ فوج بہت قریب آچکی ہوگی۔ روسی رات کے پچھلے پہر کے دوران آپہنچے۔ بیٹا اوپر کی کوٹھری میں نشے میں دھت لیٹا ہوا تھا اور دہقان کی بیوی نے دہشت زدہ ہو کر اس کی ایس ایس والی وردی جلا دینے کی کوشش کی۔ اس کا بھائی بھی غین ہوا پڑا تھا۔ عورت کو ہی روسی سپاہیوں کا استقبال کرنا اور انھیں کھانا کھلانا پڑا۔ اس نے یہ سب کچھ ایک پتھر کے چہرے کے ساتھ کیا۔ روسی صبح سویرے چلے گئے۔

    روسی فوج نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ بیٹے نے، جو بے خوابی سے بد حال ہورہا تھا ، مزید برانڈی مانگی۔ اس نے اپنے پختہ ارادے کا علان کیا کہ وہ لڑتے رہنے کی خاطر پسپا ہوتی جرمن فوج کے یونٹوں تک پہنچنے کے لیے جا رہا ہے۔ دہقان کی بیوی نے اسے یہ سمجھانے کی کوشش نہ کی کہ اب لڑتے چلے جانا موت اور مکمل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ بے خوفی سے وہ اس کا رستہ روک کر کھڑی ہوگئی اور اس نے جسمانی طاقت کو بروئے کار لا کر اسے باز رکھنے کی کوشش کی۔ بیٹے نے اسے پیچھے بھوسے پر دے پٹکا۔ جب وہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی کا کھنجا آگیا ہے اور اُس نے کھنجے کے بھرپور وار سے جنون زدہ آدمی کو زمین پر گرا دیا۔

    اسی صبح ایک دہقان کی بیوی پڑوس کی بستی میں روسی ہیڈ کوارٹر پر ایک چھکڑا ہنکا کر لائی اور ا س نے اپنے بیٹے کو، جو بیل باندھنے کی رسیوں میں جکڑا تھا، ایک جنگی قیدی کے طور پر روسیوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ (جیسا کہ اس نے ایک ترجمان کو سمجھانے کی کوشش کی) جیتا رہ جائے۔

    (کہانی: برتولت بریخت (جرمنی)، مترجم: محمد خالد اختر)

  • جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    سترھویں صدی کا جان ملٹن اپنی شاعری کے سبب انگریزی ادب میں ممتاز اور دنیا بھر میں اپنے افکار اور تخلیقات کی وجہ سے پہچانا گیا۔ تنقید نگار تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کے دس بڑے شعرا کی فہرست بنائی جائے اور اس میں ملٹن کا نام شامل نہ ہو تو اسے نامکمل سمجھا جائے گا۔

    ملٹن نے جس فضا میں پرورش پائی وہ علمی اور فنی شوق اور تہذیبی نفاستوں کی فضا تھی جو حق پرستی اور حریّت پسندی کے جذبے سے بھی معمور تھی۔ اُس کے گھر کا ماحول اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں‌ معاون ثابت ہوا اور ایک مثبت اور نہایت تعمیری فضا میں ملٹن کی پرورش ہوئی۔ اس کے والد کو لوگ ایک راست گو، دیانت دار اور نہایت سمجھ دار شخص مانتے تھے اور والدہ کی شہرت ایک سخی اور دردمند عورت کے طور پر تھی۔ اپنے علم و ادب اور شعور و آگاہی کے سفر کی بابت خود ملٹن کا کہنا تھا کہ یہ سب اس کے باپ کی بدولت ممکن ہوا جس نے اس کے رجحان اور صلاحیتوں کو پہچان کر نہ صرف اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی بلکہ اسے ہر سہولت بھی فراہم کی۔

    جان ملٹن لکھتا ہے کہ مجھے علم کا ایسا ہوکا تھا کہ بارہ سال کی عمر سے میں مشکل ہی سے کبھی آدھی رات سے پہلے مطالعہ چھوڑ کر بستر پر گیا ہوں گا۔

    جان ملٹن عمر کے ایک حصّے میں‌ اپنی بینائی سے محروم ہوگیا تھا۔ اس بابت وہ لکھتا ہے کہ شروع ہی سے میری آنکھیں‌ کم زور تھیں اور میں اکثر دردِ سَر میں‌ مبتلا رہتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں نے ہرگز مطالعے کا شوق، تحقیق کی لگن اور غور و فکر کی عادت کو ترک نہیں کیا۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں ملٹن اپنی علمی فضیلت، وسعتِ مطالعہ اور اچھوتے خیالات کی وجہ سے ہم جماعتوں‌ میں‌ نمایاں‌ رہا۔ کالج کے دور مین ملٹن کو خدا اور مذہب سے متعلق اپنے خیالات، عقائد اور بعض نظریات کی وجہ سے ناپسندیدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا اور ڈگری لینے میں کام یاب رہا۔ اس وقت تک وہ شاعری کا سلسلہ شروع کرچکا تھا جب کہ متعدد زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔

    اسے انگریزی زبان کا عظیم شاعر مانا گیا اور وہ انگلستان میں ادب کا روشن ستارہ بن کر ابھرا۔ 17 ویں صدی کے اس مشہور شاعر کی نظم "فردوسِ گم گشتہ” اور "فردوسِ باز یافتہ” دنیا بھر میں مقبول ہیں اور متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے جاچکے ہیں۔

    اس کی یہ رزمیہ شاعری انگریزی ادب کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔اس نظم میں ملٹن انسان کی نافرمانی اور جنت سے نکالے جانے کا احوال بیان کرتا ہے۔ اس نظم میں اس نے خدا، انسان اور شیطان سے مکالمہ کیا ہے۔

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی ملٹن کی نظم فردوسِ گم گشتہ سے بے حد متاثر تھے اور انھوں نے اسی طرز پر رزمیہ نظم لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس بابت وہ اپنے ایک مکتوب بنام منشی سراج الدین میں لکھتے ہیں کہ: ‘‘ملٹن کی تقلید میں لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے۔ اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔ پانچ چھے سال سے اس آرزو کی دل میں پرورش کر رہا ہوں، مگر جتنی خوہش آج کل محسوس کر رہا ہوں اس قدر کبھی نہ ہوئی۔ مگر روزگار سے نجات ملتی ہے تو اس کام کو باقاعدہ شروع کروں گا۔’’

    جان ملٹن 9 دسمبر 1608ء کو لندن میں پیدا ہوا۔ وہ انگریزی اور لاطینی زبانوں کا ماہر تھا۔ ذخیرۂ الفاظ سے مالا مال جس کا شاعری میں مخصوص طرزِ بیان، جذبات اور اچھوتے خیالات کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ سترھویں صدی کی غنائیہ نظموں میں شاید ہی کسی نے ایسا انگریزی ادب تخلیق کیا ہو۔ اُس نے شیکسپیئر کی رومانی مثنوی، ڈرامائی عناصر اور طنز و مزاح کا گہرا مطالعہ کیا اور وہ ادبی ماحول پیدا کیا جو اسی سے منسوب ہے۔

    ملٹن کی 1646ء میں جب کتاب شائع ہوئی تو وہ 38 سال کا تھا۔ کئی جلدوں پر مشتمل اپنی رزمیہ شاعری میں ملٹن نے قدیم داستانوں، روایت اور مافوق الفطرت کے کارناموں کا جو تذکرہ ہے، اس میں مذہبی عقائد اور روزِ ازل سے متعلق تصورات کو اس نے موثر اور دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ملٹن نے انگریزی کے علاوہ لاطینی زبان میں بھی نظمیں تخلیق کیں۔

    وہ ایک مصلح اور سیاست کار بھی تھا جس نے مختلف اصولوں، ضابطوں کو نام نہاد اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے فرد کی آزادی کو سلب کرنے والے قوانین کے خلاف بھی لکھا۔ اس نے نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بیک وقت مذہبی اور سیاسی انقلابات پر لکھا۔

    جان ملٹن نے 1674 میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

  • چوالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

    پیر کی صبح گیل ٹے میں بڑی مصروفیت بھری ہوتی ہے، بچے اسکول کی طرف جا رہے ہوتے ہیں، اور ان کے والدین کام کی جگہ کو محو سفر ہوتے ہیں، کسی کا رخ گاؤں کی طرف تو کسی کا شہر کی طرف ہوتا ہے۔ اکثر لوگ ریل گاڑی سے سفر کرتے ہیں۔ ایسے میں ڈریٹن پر جب سورج کی شعاعیں پڑنے لگیں تو اس نے انگرائی لیتے ہوئے اٹھنے ہی میں غنیمت جانی۔ سستی اتارتے ہوئے اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔

    ’’شکر ہے بارش نہیں ہو رہی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور لیپ ٹاپ نکال کر تمام تصاویر اپ لوڈ کر لیں جو اس نے اینگس کے گھر میں قدیم کتاب کی اتاری تھیں۔ کمرے میں ٹیلی فون لائن دیکھ کر اور خوش ہوا، اور ساری تصاویر انٹرنیٹ کے ذریعے ایک پرانے دوست کو بھیج دیں، اور ہدایات کے ساتھ یہ پیش کش بھی کی کہ اگر وہ چوبیس گھنٹوں میں یہ تصویریں اس کے پاس پہنچا دے تو اسے بڑا انعام ملے گا۔ اس کے بعد وہ نیچے اترا، اسے اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں تھی کہ ٹیلی فون لائن سے انٹرنیٹ منسلک کرنے پر جو بھاری بل آئے گا وہ ایلسے کے گلے میں پڑے گا۔ جیسے ہی وہ نیچے اترا، اس کا سامنا ایلسے سے ہوا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔

    ’’اوہ تم کیسے ہو ڈریٹن۔ افسوس یہاں کوئی چور گھس آیا تھا۔ آپ کا بٹوہ تو محفوظ ہے نا، یا آپ کا بھی چوری ہو گیا؟‘‘

    ’’نہیں، میرا بٹوہ میری جیب میں ہے۔‘‘ اس نے کہا اور شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلنے لگی۔ اس نے رات ہی کو تمام بٹوے خالی کر کے انھیں کچرے میں پھینک دیا تھا۔ ’’صرف اتنا ہی نہیں ڈریٹن۔‘‘ ایلسے کہنے لگی: ’’کوئی چور اکثر لوگوں سے زیورات بھی کر چکا ہے۔ اب جب تک چور نہ پکڑا جائے کوئی بھی شے محفوظ نہیں ہے۔‘‘

    اس نے رات ہی کو چرایا ہوا زیور ایک درخت کی جڑ میں دبا دیا تھا، اور فی الحال محفوظ تھا۔ اس نے اداکاری کرتے ہوئے کہا: ’’یہ تو بہت برا ہوا ہے ایلسے، اگر میں آپ کے کسی کام آ سکتا ہوں تو مدد کے لیے ضرور کہیے گا۔‘‘

    ناشتے کی میز پر اسے چاروں طرف ایک ہی موضوع پر گفتگو سننے کو ملی۔ بیڈ اینڈ بریک فاسٹ میں آنے والے سب ہی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ وہ جلدی جلدی ناشتہ کر کے اٹھا اور وہاں سے نکلنے لگا۔ دروازے کے قریب اس نے ایلسے کو روک کر پوچھا: ’’آپ کو یہ پوچھے جانے پر بڑی حیرت ہو گی لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اینگس اپنے رشتہ داروں میں کس کے ساتھ زیادہ محبت کرتا ہے، خصوصاً کوئی چھوٹی لڑکی؟ دراصل میں اس کے لیے ایک تحفہ خریدنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’اس کی بھتیجی فیونا۔‘‘ ایلسے نے جواب دیا۔ ’’وہ زیادہ تر وقت اس کے ساتھ ہی گزارنا پسند کرتا ہے۔ جب سے فیونا کے ڈیڈی دنیا سے گزر گئے ہیں، تب سے وہی اس کی سرپرستی کر رہا ہے۔ کیا آپ اینگس کے گھر جائیں گے؟‘‘

    ’’میں کل گیا تھا لیکن وہ گھر پر نہیں تھے، جیسا کہ آپ نے پیشگوئی کی تھی۔ میں نے ان کے لیے پیغام چھوڑا۔ ویسے آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟‘‘ ڈریٹن بولا۔
    ’’بس ایسے ہی۔‘‘ ایلسے کہتے کہتے رک گئی۔

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ ڈریٹن نے کہا۔ ’’فیونا کہاں رہتی ہے، میں اس سے ملنے کے لیے بے تاب ہوں۔‘‘ اس نے جھوٹ بولا۔

    ’’وہ اپنی ممی مائری کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘ ایلسے نے اس کے گھر کا پتا بتا دیا۔
    ’’بہت بہت شکریہ ایلسے۔ آپ میری بہت کام آئی ہیں۔‘‘ اس نے کہا اور طے کر لیا کہ واپسی میں اسے گل دستہ تحفے میں دے گا، تاکہ بڑھیا اور بھی اس کے کام آ سکے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد وہ فوراً اس درخت کے نیچے پہنچ گیا، اور زمین کھود کر زیور نکالا اور پوسٹ آفس جا کر اسے ٹرورو میں اپنے گھر بھیج دیا۔ اس نے لفافے کے اوپر اپنی ماں کے لیے لکھا کہ وہ اسے کھولنے کی کوشش نہ کرے ورنہ یہ اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا، اور وہ چند ہفتوں میں گھر پہنچ جائے گا۔
    فیونا کا گھر ڈھونڈنا مشکل نہ تھا۔ ڈریٹن گلیوں میں گھوم پھر کر تلاش کرنے لگا۔ جلد ہی اسے وہ گھر مل گیا۔ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ وہ ایک کھڑکی کے پاس جا کر اندر جھانکنے لگا۔

    (جاری ہے)

  • اونٹوں والا علاج…

    اونٹوں والا علاج…

    ”حُسن اور سفاکی کی سرزمینیں“ اُن مضامین کے اردو تراجم پر مشتمل ہے جو دنیا میں انسانی بستیوں‌ اور لوگوں پر ٹوٹنے والی آفات اور مختلف النّوع ابتلاؤں کی داستان سناتے ہیں۔

    اسی کتاب میں ایک مضمون ‘ایک غلام نیویارک میں’ (A Slave in New York) بھی شامل ہے جس کے مترجم اجمل کمال ہیں۔ یہ مضمون ولیم فنیگن (William Finnegan) کا تحریر کردہ ہے اور نیویارکر کے 24 جنوری 2000ء کے شمارے کا حصّہ تھا۔ ستّر سالہ ولیم فنیگن امریکی صحافی ہیں اور مشہور جریدے نیویارکر سے بطور اسٹاف رائٹر وابستہ رہے ہیں۔ وہ افریقی ممالک سے متعلق کئی کتابوں کے مصنّف بھی ہیں۔ یہاں ہم اس مضمون سے ایک اقتباس پیش کررہے ہیں۔

    اس مضمون میں مصنّف نے موریتانیہ کے ایک غلام کی کہانی بیان کی ہے۔ ایک ہی رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان آقا اور غلام کا یہ روایتی نسبی رشتہ ہمارے فیوڈل سماج کے اس رواج سے قریبی مماثلت رکھتا ہے جس کے تحت انسانی خاندانوں کی ایک کثیر تعداد کو ”کم اصل“ ، ”کمّی“ ، ”نیچ ذات“ یا ”خدمتی قومیں“ قرار دے کر زمین کے مالک "اصیل” گھرانوں کی ہر طرح کی خدمت پر زندگی بھر مامور رکھا جاتا ہے۔

    ”مجھے ”اونٹوں والا علاج“ یاد آیا جس کے بارے میں مَیں نے پڑھا تھا؛ یہ اذیت دینے کا ایک طریقہ تھا جو سرکشی پر آمادہ غلاموں کے لیے مخصوص تھا۔“

    ”موریتانیہ کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ نامی تنظیم کی ایک رپورٹ میں اس طریقے کی تفصیل بیان کی گئی تھی: غلام کی ٹانگیں ایک ایسے اونٹ کے پہلو سے باندھ دی جاتی ہیں جسے کوئی دو ہفتوں تک پانی سے محروم رکھا گیا ہو۔ پھر اونٹ کو پانی پینے کے لیے لے جایا جاتا ہے اور جوں جوں اونٹ کا پیٹ پھولتا ہے غلام کی ٹانگیں، رانیں اور جانگھیں آہستہ آہستہ چرتی چلی جاتی ہیں۔“

    رپورٹ میں ایک مقامی اطلاع دہندہ کے حوالے سے کہا گیا تھا: ”میں ایک ایسے غلام سے واقف ہوں جو بوغے کے مغرب میں شرت کے مقام پر 1988ء میں اس اذیت سے گزرا تھا۔ اس کے آقا کو شک تھا کہ وہ فرار ہونا چاہتا ہے، کیونکہ وہ ایک سڑک پر دیکھا گیا جہاں اس کا کوئی کام نہ تھا۔ علاوہ ازیں، وہ منھ پھٹ جوان آدمی تھا جو اپنے آقا اور اس کے گھر والوں کو جواب دیتا تھا اور اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ اسے غلاموں والی زندگی پسند نہیں۔“

    ”اسے پکڑ کر اونٹوں والے علاج سے گزارا گیا۔ اُس وقت اس کی عمر سولہ سال تھی۔ وہ اب بھی اپنے آقا کے خاندان کے ساتھ رہتا ہے، لیکن اب اتنا اپاہج ہو چکا ہے کہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔“

  • خدا سب کا ایک ہے!

    خدا سب کا ایک ہے!

    کسی ملک میں ابراہم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ ایک معمولی اوقات کا عیال دار تھا۔ مگر تھا بہت ایمان دار اور سخی۔ اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔

    اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سے سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو مسافر اسی سڑک سے آتے جاتے تھے۔

    رستے میں آرام کرنے کے لئے اور کوئی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تھا۔ ابراہم ان کی مناسب خاطر داری کرتا۔ مسافر ہاتھ منہ دھو کر جب ابراہم کے گھ روالوں کے ساتھ کھانے بیٹھتے تو کھانے سے پہلے ابراہم ایک چھوٹی سی دعا پڑھتا اور خدا کا اس کی مہربانی کے لئے شکر ادا کرتا۔ بعد میں باقی سب آدمی بھی اس دعا کو دہراتے۔

    مسافروں کی خدمت کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن سب کے دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ زمانے کے پھیر میں پڑ کر ابراہم غریب ہو گیا۔ اس پر بھی اس نے مسافروں کو کھانا دینا بند نہ کیا۔ وہ اور اس کے بیوی بچے دن میں ایک بار کھانا کھاتے اور ایک وقت کا کھانا بچا کر مسافروں کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس سخاوت سے ابراہم کو بہت اطمینان ہوتا، لیکن ساتھ ساتھ ہی اسے کچھ غرور ہو گیا اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں بہت بڑا ایمان دار ہوں اور میرا ایمان ہی سب سے اونچا ہے۔

    ایک دن دوپہر کو اس کے دروازے پر ایک تھکا ماندہ بوڑھا آیا۔ وہ بہت ہی کمزور تھا۔ اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی تھی اور کمزوری کے باعث اس کے قدم بھی سیدھے نہیں پڑ رہے تھے۔ اس نے ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابراہم اسے اندر لے گیا اور آگ کے پاس جا کر بٹھا دیا۔ کچھ دیر آرام کر کے بوڑھا بولا۔ ’’بیٹا میں بہت دور سے آ رہا ہوں۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ابراہم نے جلدی سے کھانا تیار کروایا اور جب کھانے کا وقت ہوا تو اپنے قاعدے کے مطابق دعا کی۔ اس دعا کو اس کے بیوی بچوں نے اس کے پیچھے کھڑے ہو کر دہرایا۔ ابراہم نے دیکھا وہ بوڑھا چپ چاپ بیٹھا ہے۔ اس پر اس نے بوڑھے سے پوچھا۔’’کیا تم ہمارے مذہب میں یقین نہیں رکھتے، تم نے ہمارے ساتھ دعا کیوں نہیں کی؟‘‘

    بوڑھا بولا۔ ’’ہم لوگ آ گ کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘

    اتنا سن کر ابراہم غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے کہا۔

    ’’اگر تم ہمارے خدا پر یقین نہیں رکھتے اور ہمارے ساتھ دعا بھی نہیں کرتے تو اسی وقت ہمارے گھر سے باہر نکل جاؤ۔‘‘

    ابراہم نے اسے کھانا دیے بغیر ہی گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کر لیا۔ مگر دروازہ بند کرتے ہی کمرے میں اچانک روشنی پھیل گئی اورایک فرشتے نے ظاہر ہو کر کہا۔

    ابراہم یہ تم نے کیا کیا؟ یہ غریب بوڑھا سو سال کا ہے۔ خدا نے اتنی عمر تک اس کی دیکھ بھال کی اور ایک تم ہو جو اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہو اس پر بھی اسے ایک دن کھانا نہیں دے سکے، صرف اس لئے کہ اس کا مذہب تمہارے مذہب سے الگ ہے۔ دنیا میں مذہب چاہے بے شمار ہوں۔ لیکن خدا سب کا سچا خالق ہے اور سب کا وہی ایک مالک ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر فرشتہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ابراہیم کو اپنی غلطی معلوم ہوئی اور وہ بھاگا بھاگا اس بوڑھے کے پاس پہنچا اور اس بوڑھے بزرگ سے معافی مانگی۔ بوڑھے نے اسے معاف کرتے ہوئے کہا ۔’بیٹا اب تو تم سمجھ گئے ہو گے کہ خدا سب کا ایک ہے۔‘‘

    یہ سن کر ابراہم کو بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ یہی بات اس سے فرشتے نے بھی کہی تھی۔

    (پیرس کی ایک لوک کہانی)