Tag: عالمی ادب سے

  • اڑتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اڑتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’لو یہ تو بڑی جلدی مل گیا۔ یاد ہے نا ہم نے کس طرح کرنسی حاصل کی تھی۔ اب پھر ہمیں وہی دکھ بھری کہانی سنانی ہے۔ تو سب سے پہلے میں کوشش کرتی ہوں۔‘‘ فیونا نے مسکرا کر یاد دلایا اور بینک کے اندر چلی گئی۔ پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں آئس لینڈ کے کرنسی نوٹ تھے۔ وہ آتے ہی چہک کر بولی: ’’میں بہت شان دار اداکاری کرنے لگی ہوں۔ اچھا تم دونوں یہ رقم رکھ لو، جب ہم واپس جائیں گے تو انکل اینگس کو بقایا رقم واپس کر دیں گے۔‘‘ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم دے دی۔

    ’’میری دعا ہے کہ کوئی ہم سے پاسپورٹ نہ طلب کر لے۔ ویسے اگر ہمارے پاس پاسپورٹ ہوتے تو ہم اس پر ان سارے مقامات کی مہر لگوا لیتے۔‘‘ دانیال نے کہا۔

    فیونا نے آنکھیں گول گول گھماتے ہوئے کہا: ’’ایسا ظاہر کرو کہ تم یہیں رہتے ہو، ایسی حرکتیں نہ کرو کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور پھر چہک کر بولی: ’’واہ یہ کتنا پیارا ہوٹل ہے۔‘‘

    وہ تینوں وائی کنگ شپ نامی ہوٹل میں داخل ہو گئے۔ سامنے ہی قدیم بادبانی کشتی وائی کنگ کا ماڈل نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ ’’یہ کتنا خوب صورت ہے۔‘‘ جبران دوڑ کر اس کے قریب چلا گیا۔ کشتی میں وائی کنگ جنگجوؤں کے مجسمے کھڑے تھے اور ان کے ہاتھوں میں تلواریں اور بھاری ڈھالیں تھیں۔ وہ ایک بڑے کمرے میں کھڑے تھے، جس کی چھت کے قریب دیواروں پر چوبی ڈریگن یا سمندری عفریت چاروں طرف چکّر کاٹ رہا تھا۔ اس کے منھ سے شعلے نکلتے اور ہر چند فٹ کے بعد اس کی پشت میں ایک کوہان نما اٹھ کر چھت سے ٹکراتا۔ وائی کنگ جنگجو نہ صرف کشتی میں کھڑے تھے بلکہ پورے دالان میں چند قدم کے فاصلے پر ایستادہ تھے۔ ہوٹل کے کمرے کے وسط میں شیشے کے صندوق میں وائی کنگ ٹوپیاں، سکے، کھلونے، پیالے اور دوسری نوادرات رکھی ہوئی تھیں۔ فیونا نے سرگوشی کی: ’’تم دونوں یہ نوادرات دیکھو، میں اندر جا کر کوئی کمرہ کرائے پر لیتی ہوں۔‘‘

    ’’ذرا ٹھہرو فیونا، اگر انھوں نے تم سے پاسپورٹ کے متعلق پوچھا تو؟ ‘‘ جبران نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’ارے تم پریشان کیوں ہو گئے ہو، گھبراؤ نہیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ فیونا نے جواب دیا اور بغیر اس کی بات سنے چلی گئی۔ چند منٹ بعد جب اس کی واپسی ہوئی تو اس کی انگلی سے ایک چابی لٹک رہی تھی۔ اس نے چالاکی سے ہنستے ہوئے کہا: ’’انھوں نے مجھ سے پاسپورٹ مانگا لیکن میں نے کہہ دیا کہ میرے والدین بعد میں آئیں گے اس لیے انھوں نے مجھے کمرہ لینے کے لیے بھجوا دیا۔ اور یہ سن کر اس نے میری بات پر یقین کر لیا۔‘‘

    ’’تم تو بہت زبردست جا رہی ہو فیونا، تمھارا جواب نہیں۔‘‘ جبران خوش ہو کر بولا۔ اپنی تعریف سن کر فیونا کا سینہ فخر سے پھول گیا۔

    ’’ہمارے کمرے کا نمبر کیا ہے؟‘‘ دانیال نے پوچھا۔ ’’سیکنڈ فلور، روم نمبر 217.‘‘ فیونا نے بتایا۔

    وہ تینوں اپنے کمرے میں آ گئے۔ یہ اتنا اچھا خاصا کشادہ کمرہ تھا، جس میں تین عدد بستر بچھے تھے۔ تینوں ایک ایک بستر پر بیٹھ کر سستانے لگے۔ فیونا فوراً لیٹ گئی۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا سا ہوا اور وہ ایک منظر دیکھنے لگی۔ یہ ایک آتش فشاں پہاڑ کا منظر تھا جو ایک زبردست دھماکے سے پھٹا اور وہ آگ اور لاوا اگلنے لگا۔

    وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی، دونوں اس کی طرف دیکھنے لگے۔ فیونا نے کہا میں جان گئی ہوں کہ مرجان کہاں ملے گا ہمیں۔ وہ دونوں اس کے پاس آ گئے۔ فیونا نے کہا سب سے پہلے ہمیں یہاں کسی سے قریبی آتش فشاں کے بارے میں معلوم کرنا ہوگا، ہمیں وہیں جانا ہے۔

    ’’کیا… آتش فشاں … ‘‘ دونوں چونک اٹھے۔

    ’’ہاں، چلو ہوٹل کے دالان میں کسی سے پوچھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا۔ تینوں کمرے سے نکلنے لگے تو جبران نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر دیکھا۔ ’’ارے یہ دیکھو، یہ کتنا خوب صورت باتھ ٹب ہے۔‘‘

    فیونا اور دانیال نے بھی اندر جا کر دیکھا، تمام ٹائلوں پر وائی کنگ کشتی کی تصویر منقش تھی۔ ہر ٹائل پر کشتی کو مختلف رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ ٹاؤل ریک پر تین تولیے لٹک رہے تھے، یہ بھی مختلف رنگوں کے تھے اور ان پر بھی وائی کنگ جنگ کے مختلف مناظر کی چھپائی کی گئی تھی۔ باتھ ٹب عین وسط میں تھا اور اس پر اسکینڈے نیویا کے غار کی دیواروں والی لکیریں اور علامات بنائی گئی تھیں۔ انھیں دیکھ کر جبران کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

    ’’یہ تو رونک حروف تہجی ہیں۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔ فیونا حیران ہو گئی: ’’رونک حروف تہجی کیا ہیں؟‘‘

    ’’دراصل وائی کنگ لوگ اسی طرز تحریر میں لکھتے تھے۔ حیرت ہے تمھیں نہیں پتا، اسکول میں یہ ہمیں پڑھایا تو گیا ہے۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔

    ’’ہاں ٹھیک ہے پڑھایا ہوگا۔‘‘ فیونا نے جلدی سے کہا اور آگے بڑھ کر سبز رنگ کا تولیہ کھینچ کر بولی: ’’مجھے تو یہ والا پسند ہے، اس لیے یہ میری ہو گئی۔‘‘

    جبران نے جلدی سے خاکی رنگ کا تولیہ اتار لیا۔ آخری تولیہ بھورے رنگ کا تھا جو دانیال کے حصے میں آیا۔ دانیال نے تولیہ چہرے پر مل کر دیکھا اور کہا یہ تو بہت نرم ہے۔

    (جاری ہے)

  • تیتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اتوار کی صبح فیونا اور اس کی ممی نے باغیچے میں گزاری۔ انھوں نے زمین کھود کر گاجر، آلو اور شلجم نکالے اور مٹر کی بیلوں سے پھلیاں اتاریں۔

    ’’سبزیوں سے فارغ ہو کر، میں چاہتی ہوں، کہ تم سیب اتارنے میں بھی میری مدد کرو۔ میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ ایپل پائی بنا لوں۔‘‘ مائری مٹر کی پھلیاں ٹوکری میں ڈالتے ہوئے بولیں۔

    ’’ٹھیک ہے ممی لیکن کچھ دیر کے لیے میں اپنے دوستوں سے ملنا چاہتی ہوں، واپسی پر آپ کا ہاتھ بٹاؤں گی۔‘‘

    ’’کب جا رہی ہو تم؟‘‘ انھوں نے پوچھا تو فیونا نے ہاتھوں سے کیچڑ کی تہہ صاف کرتے ہوئے جواب دیا: ’’بس ابھی۔‘‘

    فیونا دوڑ کر اندر گئی اور شاور لینے کے بعد اتوار کے دن کے لیے اپنا پسندیدہ لباس پہنا اور ممی کو خدا حافظ کہہ کر جبران کے گھر کی طرف چل دی۔ فیونا جیسے ہی جبران کے گھر پہنچی، عین اسی وقت وہ اپنی مما اور بہن بھائی کے ہمراہ گھر سے نکلا۔ وہ تفریح کے لیے جا رہے تھے۔

    ’’ہیلو فیونا، کیسی ہو تم؟ ہم گھومنے جا رہے ہیں، تم بھی چلو ہمارے ساتھ۔‘‘ جبران اسے دیکھتے ہی بول اٹھا۔

    ’’نہیں، مجھے گھر پہنچنا ہے۔ دوپہر کو ہمارے گھر مہمان آ رہے ہیں۔ تم دونوں کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں آنا مت بھولنا۔‘‘ فیونا نے کہا اور واپس گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جب وہ گھر پہنچی تو وہاں جمی اور جونی پہلے ہی سے موجود تھے۔ جونی اسے دیکھ کر بولا: ’’ہیلو فیونا، ہم جلدی آ گئے ہیں، امید ہے تمھیں برا نہیں لگے گا۔ تمھاری ممی ہمارا بہت خیال رکھ رہی ہیں۔‘‘

    ’’میں ابھی آئی۔‘‘ فیونا نے کہا اور اوپر چلی گئی، اور ایک بار پھر لباس تبدیل کر کے آ گئی۔ اچانک اسے یاد آیا کہ ان کے مہمان بہت ساری روز مرّہ چیزوں سے واقف نہیں ہیں، اس لیے اس نے جونی کے بھائی کو مخاطب کیا۔

    ’’جمی انکل، کیا آپ میرے ساتھ آ کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دیکھنا پسند کریں گے؟‘‘

    ’’فیونا، یہ بری بات ہے۔‘‘ مائری نے اسے فوراً ٹوک دیا۔ ’’صرف جمی ہی کیوں، تمھیں دونوں بھائیوں کو چھتے دکھانے چاہیئں۔‘‘

    ’’دراصل میں زندگی میں بہت سے شہد کے چھتے دیکھ چکا ہوں۔ میرے بھائی نے نہیں دیکھے۔ اس لیے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ جونی نے مسکرا کر جواب دیا۔

    فیونا جمی کو لے کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دکھانے چلی گئی۔ ان کے جاتے ہی جونی نے مائری سے پوچھا: ’’تو آپ کا کہنا ہے کہ آپ اینور ڈروچٹ کی ہیں، مجھے ذرا اس جگہ کے بارے میں بتائیں کہ اب وہ کیسے لگتی ہے؟‘‘

    مائری نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو انھیں جونی کی آنکھوں میں یادوں کا بسیرا محسوس ہوا۔ وہ آنکھیں خلاؤں میں کہیں بھٹکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ ’’میں جب سے یہاں آئی ہوں، کوئی دو ماہ ہو رہے ہیں، پھر واپس نہیں جا سکی۔ حالاں کہ فیونا کہتی رہتی ہے کہ وہیں منتقل ہو جاتے ہیں یا پھر شہر چلے جاتے ہیں لیکن میں یہاں گیل ٹے میں مطمئن ہو گئی ہوں۔ اینور ڈروچٹ آج بھی وہی چھوٹا سا گاؤں ہے، تقریباً پچاس گھروں پر مشتمل۔ وہاں ایک پوسٹ آفس اور ایک ہی دکان ہے۔ اکثر لوگ یہاں گیل ٹے میں آ کر خریداری کرتے یا سیر کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کل وہاں کا ایک چکر لگا آئیں۔‘‘

    ’’اور قلعہ آذر!‘‘ جونی نے اچانک پوچھا۔ ’’کیا آپ وہاں کبھی گئی ہیں؟‘‘
    ’’نہیں کبھی نہیں۔‘‘ مائری نے جھرجھری سی لی۔ ’’پتا نہیں کیوں، مجھے وہاں سے خوف آتا ہے۔ اب میری بات پر ہنسیے گا مت۔ میرا مطلب ہے کہ ان دیواروں سے مجھے کسی دردناک سانحے کی لہریں نکلتی محسوس ہوتی ہیں۔‘‘

    جونی محسوس کیا کہ ماحول پر اداسی چھا رہی ہے تو اس نے جلدی سے مسکرا کر پوچھا: ’’کیا آپ کو مچھلی کا شکار پسند ہے؟ مجھے تو بہت پسند ہے۔ بلال صاحب نے ہمیں مچھلی کے شکار کے لیے کئی جگہیں دکھائیں۔‘‘ لیکن مائری نے اس کی بات کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی اور پوچھا: ’’آپ کون ہیں جونی تھامسن؟ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ وہ نہیں جو دکھائی دیتے ہیں۔ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ لندن سے سیاح کے طور پر آئے ہیں تو پھر اس جگہ، جھیل، گاؤں اور حتیٰ کہ قلعے کے متعلق کیسے جانتے ہیں؟‘‘

    ’’میں آپ سے سچ کہوں گا۔‘‘ جونی کہنے لگا: ’’میں یہاں پہلے بھی آیا ہوں، اور یہاں ایک گاؤں میں رہ چکا ہوں۔ جھیل میں مچھلیاں پکڑ چکا ہوں لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ میری سب سے خوب صورت اور سب سے بری یادوں کا تعلق بھی اسی جگہ سے ہے۔‘‘

    اس کی آنکھوں میں پھر ماضی کی یادوں کی چمک جھلکنے لگی تھی۔ وہ کچھ دیر تک ماضی کی یادوں میں کھویا رہا، پھر مائری چائے اور بسکٹ کا انتظام کرنے لگیں۔ اتنے میں فیونا اور جمی بھی لوٹ آئے۔ وہ باغیچے میں کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے تھے اور چائے کے ساتھ بسکٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دھیرے دھیرے شام کے سائے پھیلنے لگے۔ جونی نے آسمان پر چمکتے تاروں کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’صرف یہی چیز ہے جو یہاں ویسی کی ویسی ہی ہے، باقی سب کچھ بدل چکا ہے۔‘‘

    جمی کو حیرت ہوئی۔ اسے پتا نہیں تھا کہ اس کا بھائی کیا کہنا چاہ رہا ہے تاہم مائری صرف مسکرا دی۔ جونی نے کہا: ’’اب ہمیں جانا چاہیے کیوں کہ بلال صاحب کل ہمیں شکار پر لے جائیں گے اور ہم سارا دن اس میں گزاریں گے۔‘‘ جمی نے بھی کہا کہ کل میں بلال صاحب کے ہمراہ ایک روایتی پارٹی میں جائے گا۔‘‘

    وہ دونوں جبران کی گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا نے باغیچے سے اندر جاتے ہوئے کہا: ’’ممی، میں بھی کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں جاؤں گی۔ جبران اور دانی بھی وہاں آئیں گے۔ کھانا ہم وہیں پر کھائیں گے اس لیے دیر ہوگی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ مائری نے کہا اور روشنیاں بجھانے لگیں۔

    (جاری ہے…..)

  • بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جب دانیال اور جبران دوبارہ ساحل پر پہنچے تو گدھے کا مالک نکولس واقعی کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا، اور اس کے قریب ہی اس کا گدھا بندھا ہوا تھا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "چلو، پہلے رسی اور کھانا خریدتے ہیں، پھر گدھے کا کچھ کرتے ہیں۔” جبران بولا۔

    دونوں رسی کی تلاش میں وہاں موجود دکانوں میں پھرنے لگے، آخر کار ایک دکان سے انھیں رسی مل ہی گئی۔ کھانا خریدنے کے لیے دونوں واپس اسی ریستوراں پر جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، اس لیے وہ ایک چھوٹی سی غلیظ قسم کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک ہوٹل تھا۔ دیوار پر مینیو لٹکا ہوا تھا۔ دونوں اسے پڑھنے لگے۔ اسی وقت ایپرن پہنے ایک ادھیڑ عمر کا میلا کچیلا شخص ان کے قریب آیا، اس کا چہرہ تیل میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس نے دونوں سے آرڈر پوچھا تو جبران نے اسے تین عدد پیٹا برگر کا آرڈر دے دیا۔

    "یہاں اتنی گندگی ہے، کہیں یہ کھاتے ہی ہمارے پیٹ خراب نہ ہو جائیں۔” دانیال کو تشویش ہونے لگی۔

    ہوٹل کے مالک نے تین بیضوی ڈبل روٹیاں چکنے گرل پر ڈال دیں، پھر کوئی سفید چیز گوشت پر ڈال کر اسے پیٹا میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کاہو، ٹماٹر اور کھیرے کے ٹکڑے بھی بھر کر انھیں کاغذوں میں لپیٹ دیا۔ تیل اب بھی ان سے ٹپک رہا تھا۔ جبران نے پارسل سنبھال لیا اور دانیال نے قیمت ادا کر دی۔ ہوٹل سے پلٹنے کے بعد جبران کے کہنے پر وہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا اپنا پیٹا کھانے لگے۔

    "یار یہ تو بڑے مزے کا ہے۔” جبران کو اس کا ذائقہ بھا گیا۔

    دانیال نے سر ہلانے پر اکتفا کیا کیوں کہ اس وقت اس کا منھ بھرا ہوا تھا۔ پیٹا کھانے کے بعد دانیال بولا: "اب گدھا لینے کی باری ہے، ویسے ہم نے بہت دیر کر دی ہے اور فیونا ہمارے لیے پریشان ہوگی۔”

    دونوں تیزی سے اس طرف چل پڑے جہاں نکولس اب بھی چارپائی پر لیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ جبران نے دانیال کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ "ہم خاموشی سے رسی کھول کر گدھے کو لے چلیں گے۔ پہاڑ پر چڑھانے کے بعد ہم خانقاہ تک اس پر اطمینان سے سواری بھی کر سکتے ہیں۔”

    دانیال نے اثبات میں سر ہلاکر کہا: "تم نکولس پر نظر رکھنا، میں گدھے کی رسی کھول لوں گا، یہ بوڑھا ہو چکا ہے اس لیے ہمارا تعاقب نہیں کر سکے گا۔”

    اگلے لمحے دانیال نے بڑے مزے کے ساتھ گدھے کی پیٹھ سہلائی اور پھر اس کی رسی کھول لی۔ گدھا بغیر کسی مزاحمت اس کے پیچھے چل پڑا۔ "ارے یہ تو بہت آسانی کے ساتھ ہمارے ساتھ چل پڑا ہے۔” جبران خوش ہو گیا۔ وہ گدھے کو پہاڑ کے پاس تو آسانی سے لے گئے لیکن جیسے سیڑھیوں کے پاس پہنچے، گدھے نے قدم روک لیے۔ دونوں پریشان ہو گئے۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔

    "اُف یہ گدھے تو واقعی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں، آج پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے۔” جبران جھلا کر بول اٹھا۔

    "اے لڑکو! یہ تم میرے گدھے کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟” اچانک ان کے کانوں میں نکولس کی تیز آواز پڑی، جسے سن کر وہ سناٹے میں آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے وہ زمین پر کھڑے کھڑے بت بن گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ دونوں نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا۔ نکولس کا چہرہ غصے کے مارے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اس کی ناک کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔

    "بھاگو….!” جبران چلایا۔

    اس کے بعد وہ آگے اور دانیال اس کے پیچھے سر پٹ دوڑا۔ نکولس ان کے پیچھے چلایا: "تم دونوں میرا گدھا چوری کر کے لے جا رہے ہو، میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا۔”

    لیکن وہ دونوں سر پر پیر رکھ کر بھاگ رہے تھے۔ آن کی آن میں وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ تب جا کر انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیچے کھڑا اپنے پیارے گدھے کی پیٹھ سہلا رہا تھا اور ان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد نکولس نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور گدھے کو لے کر روانہ ہو گیا۔ جبران نے طویل سانس لے کر کہا: "اب کیا ہوگا؟ گدھا تو ہاتھ سے نکل گیا۔ ا ب اینٹ کس طرح اکھاڑیں گے ہم؟”

    "چلو، فیونا کے پاس واپس چلتے ہیں، یہ پیٹا کھا کر اسے ہم پر زیادہ غصہ نہیں آئے گا۔” دانیال نے مسکرا کر جواب دیا۔

    (جاری ہے…..)

  • اکیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی (اردو ویب) پر قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جس دیوار میں مطلوبہ اینٹ لگی ہوئی تھی وہ بہت خستہ ہو چکی تھی، اور ایسا لگتا تھا جیسے اب گری تب گری۔ فیونا اینٹ کے پاس رک گئی۔ "یہ واقعی ڈھیلی ہے اور بہ آسانی باہر نکل آئے گی۔”

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "فیونا، داموں کو مت بھولو۔” دانیال نے اسے پھر یاد دلایا۔ اس سے خاموش نہ رہا گیا تھا۔ وہ بے چینی سے فیونا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ "یہ کارنر اسٹون ہے، اس پر پوری دیوار ٹھہری ہوئی ہے۔”

    "میں داموں کو بھولی نہیں ہوں۔” اس نے مڑے بغیر تیز لہجے میں جواب دیا اور اینٹ کو جھٹکے سے کھینچ لیا۔ دیوار اچانک لرز کر رہ گئی۔ اوپر سے ان کے سروں پر ماربل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور خشک کیچڑ گرنے لگا۔ انھوں نے فوراً بازوؤں سے سر چھپا لیے۔ "یہ یقیناً پھندوں میں سے ایک ہے، اگر ہم نے اینٹ نکالی تو پوری دیوار ہم پر گر جائے گی۔” فیونا چلا کر بولی۔ دانیال نے اس کا جملہ پورا کر دیا: "اور ہم سب مر جائیں گے۔”

    ایسے میں جبران نے آئیڈیا پیش کیا: "کیوں نہ گدھے سے کام لیا جائے۔ ہم نکولس سے اس کے گدھے کو کرائے پر لے لیتے ہیں۔ سہ پہر کو وہ ویسے بھی آرام کرنے جائے گا۔ ہم گدھا یہاں لا کر اس سے ایک رسی باندھ لیں گے اور اس رسی کا دوسرا سرا اینٹ کے گرد لپیٹ دیں گے۔ ہم میں سے کوئی ایک اپنے ہاتھ میں ایک اور اینٹ لے کر کھڑا ہوگا۔ جیسے ہی گدھا اینٹ کھینچ لے گا، وہ فوراً اس جگہ پر دوسری اینٹ رکھ دے گا۔ کیسا ہے یہ آئیڈیا؟” جبران فخر سے سینہ پھلائے ان کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔

    "آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن اس کا مطلب ہے کہ ہمیں گدھا چوری نہیں، ادھار پر لینا پڑے گا۔ اور مجھے یقین نہیں ہے کہ نکولس ہمیں اپنا گدھا ادھار دینا پسند کرے گا۔ ویسے تم دوڑ کر ساحل پر جا کر گدھا لا سکتے ہو۔ میں یہاں کھڑے ہو کر سوچوں گی کہ اور کیا کر سکتی ہوں۔” فیونا نے اسے دیکھ کر کہا۔

    "ٹھیک ہے، مجھے پیاس بھی لگی ہے، ہم چلے جاتے ہیں۔” دانیال بولا۔ فیونا نے ڈریکما کے چند نوٹ ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا: "یہ لو مقامی کرنسی، کھانے پینے کی چیزیں خرید لو اور ہاں رسی بھی خرید کر لانا۔”

    جبران اور دانیال کے جانے کے بعد فیونا ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اس نے اسی کونے والی ماربل اینٹ ہی پر نظریں جمائے رکھیں۔ اسے پتا ہی نہیں چلا اور وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔ اس نے ایک جھٹکا کھایا اور مڑ کر دیکھنے لگی۔ اس کے سامنے دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ قلعۂ آذر کے ایک کمرے کی چھت کے قریب ہوا میں کسی تتلی کی طرح منڈلا رہی ہے۔ نیچے میز پر ایک اعلیٰ قسم کا فیتے والا خوب صورت میز پوش نظر آ رہا تھا۔ میز پر سنہری رنگ کا شمع دان رکھا تھا جس میں گلابی رنگ کی موم بتیاں جل رہی تھیں۔ گل دان گیندے، سوسن اور گلاب سے بھرے ہوئے تھے، جن میں گندم کی ڈنٹھل بھی دکھائی دے رہی تھی۔ میز پر طرح طرح کے کھانے سجے ہوئے تھے جن کی خوش بوؤں سے کمرا مہک رہا تھا۔ ماحول بے حد پر سکون تھا۔ اچانک فیونا کو آوازیں سنائی دینے لگیں اور پھر بہت سارے لوگ کمرے میں داخل ہوئے۔ ایسے میں فیونا نے منقش شیشے والی کھڑکی کو غور سے دیکھا۔ اس نے کمرے میں داخل ہونے والوں میں بادشاہ کیگان کو پہچان لیا۔ بادشاہ نے ترشے ہوئے سفید پشم کے ساتھ سرخ عبا پہن رکھا تھا اور اس کے سر پر خالص سونے کا تاج دھرا تھا جو، روبی، نیلم اور زمرد سے سجا ہوا تھا۔ اس کے دائیں طرف بادشاہ کی ملکہ تھی اور چند بچے چھوٹے چھوٹے قدموں سے اس کے آس پاس پھر رہے تھے۔ ان سب نے شاہی لباس پہن رکھا تھا۔ آتش دان کے پاس مسخرے اور شعبدہ باز کھڑے اس شاہی خاندان کو اپنے ہنر سے خوش کر رہے تھے۔ شاہی خاندان اور ان کے دوست کھانے کی میز کے گرد اکھٹے ہو گئے۔

    اچانک سارا محل خطرے کی گھنٹیوں سے گونج اٹھا۔ ملکہ نے فوراً خطرہ محسوس کر کے بچوں کو اکٹھا کیا اور کمرے سے باہر نکال کر ایک دوسرے کمرے میں لے گئی۔ اسی وقت چوبی ڈھالوں اور اسٹیل کی چمکتی تلواروں سے مسلح افراد اندھا دھند کھانے کے کمرے میں گھسے چلے آئے۔ ان کے سامنے جو بھی آیا، اسے ان حملہ آوروں نے تلواروں سے کاٹ کر رکھ دیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ کچھ ہوا جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ بادشاہ فرش پر تڑپ رہا تھا۔ اس کے اردگرد اس کے مہمان خون میں ڈوبے پڑے تھے۔ اسی لمحے فیونا کو کمرے کے باہر سے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سمجھ گئی کہ ملکہ اور بچے بھی ان ظالموں سے نہیں بچ سکے۔

    یہ اتنا دل دوز منظر تھا کہ فیونا شدت غم سے سسکیاں بھرنے لگی۔ عین اسی وقت اچانک بادشاہ کیگان نے گردن موڑ کر اوپر فیونا کی آنکھوں میں دیکھا۔ یکایک تلوار چمکی اور کسی نے بادشاہ کا سر تن سے جدا کر دیا۔ فیونا خوف کے مارے چھت کے ساتھ دُبک گئی۔ ایک شخص اندر داخل ہوا اور اس نے بادشاہ کیگان کی کٹی ہوئی گردن سے ہار کھینچ لیا۔ کئی اور افراد نے ملکہ اور بچوں کی لاشیں گھسیٹتے ہوئے اندر لا کر بادشاہ کے قریب ڈھیر کر دیں۔

    کمرے کو نذر آتش کرنے سے قبل ایک شخص نے شاہی خاندان کی لاشوں پر تیل چھڑک دیا۔ یہ منظر کہیں زیادہ تکلیف دہ تھا۔ فیونا اسے دیکھنے کی تاب نہ لا سکی اور ہوا میں تیرتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ کچھ ہی دیر میں کمرے میں آگ کے سرخ شعلے چھت کو چھونے لگے۔

    فیونا آنکھیں کھول کر اٹھی۔ اس کے گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں بنی ہوئی تھیں۔ اس نے گال صاف کیے۔ وہ یہ جان کر بڑی خوش ہوئی کہ وہ محض ایک خواب تھا۔ اس نے اپنے دل میں یہ عزم کیا کہ وہ تمام قیمتی پتھر حاصل کر کے انھیں جادوئی گیند پر واپس رکھ دے گی۔ وہ بڑبڑ انے لگی: "میں اپنے جد امجد بادشاہ کیگان کا اقبال مزید بلند کرنے کے لیے جادوئی گولے کو پھر سے مکمل کر کے رہوں گی۔”

    (جاری ہے….)

  • بیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    تینوں ساحل پر زیتون کے ایک قدیم ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے بیٹھ کر سامنے کا منظر دیکھنے لگے۔ ان کی نگاہیں پہاڑی پر مرکوز تھیں۔ دانیال نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا: "قیمتی پتھر اسی علاقے میں ہوگا، یہ ساحل اتنا پھیلا ہوا نہیں ہے۔”

    "یہ کتنا پیارا منظر ہے۔ وہ دیکھو، آرٹسٹ تصویریں بنا رہے ہیں۔” جبران نے چند لوگوں کی طرف اشارہ کیا جو ایزل کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔

    "ہاں، میں اور بھی بہت کچھ دیکھ رہی ہوں۔ بہت سارے لوگ فوٹو گرافی کررہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ لوگ سیاح ہوں گے۔” فیونا بے زاری سے بولی۔

    "میرے خیال میں یہ لوگ کلینڈر کے لیے فوٹو گرافی کر رہے ہیں۔” جبران نے سر کھجایا۔ "میری ممی نے گھر کے لیے ایک کلینڈر خریدا تھا، اس پر یونان کی تصاویر تھیں لیکن وہ اس ساحل کی نہیں تھیں۔ میرے خیال میں وہ سنتارینی کی تصاویر تھیں۔”

    فیونا نے گائیڈ بک کھول لی جو وہ خرید کر لائے تھے۔ "مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ہم کہیں قریب ہی ہیں۔” فیونا کسی سوچ میں گم بولی۔ دانیال اٹھ کر آرٹسٹ کے قریب چلا گیا۔ جبران نے بیٹھے بیٹھے آنکھیں بند کر لیں اور چند لمحوں بعد وہ تنے سے ٹیک لگا کر نیند کی دنیا میں کھو چکا تھا۔ فیونا نے بھی آنکھیں بند کر لیں۔ آنکھیں بند کرتے ہی وہ اونگھنے لگی اور اسی عالم میں اس نے دیکھا کہ وہ ایک سرسبز میدان میں کھڑی ہے۔ ایک پہاڑی پر ایک خانقاہ ہے اور زیتون کا ایک درخت کھڑا ہے۔ اسی لمحے وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔ اس نے جلدی سے جبران کو جگایا اور دانیال کو بھی آواز دی۔ "جلدی آؤ، میں نے جان لیا ہے کہ قیمتی پتھر کہاں ہے۔” جبران نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا: "میں بہت میٹھی نیند میں تھا، تم کیا کہہ رہی ہو؟”

    "میں کہہ رہی ہوں کہ پتھر جس جگہ موجود ہے میں وہ جگہ جانتی ہوں۔ اس تصویر کو دیکھو۔” فیونا نے گائیڈ بک آگے کر دی۔ "یہ سینٹ الیگزینڈر چرچ ہے، یہ سکندر اعظم کے نام پر ہے۔ یہاں سے ایک یا دو میل دور واقع ہے۔ چلو اپنا اپنا سامان سمیٹ لو۔”

    دانیال ہنسا۔ "ہمارے پاس سامان کہاں سے آگیا، چلو ہم تیار ہیں۔” تینوں ساحل چھوڑ کر شہر کی طرف چل پڑے۔ فیونا بولی: "دیکھو خیال رکھنا، ہم شہر کے اندر جا رہے ہیں، میں نہیں چاہتی کہ ہم کہیں راستہ بھٹک جائیں۔”

    وہ ایک سیدھ میں چلنے لگے۔ ابھی وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ جبران چونک اٹھا۔ "یہ تو کھنڈرات ہیں فیونا، پتا نہیں کتنے قدیم ہیں۔”

    "گائیڈ بک کے مطابق اس کی تعمیر 1200 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔” فیونا کتابچہ کھول کر دیکھنے لگی۔ "یہ تو واقعی بہت قدیم ہیں۔ اپنے وقت میں یہ بلاشبہ بہت خوب صورت تعمیر رہی ہوگی۔” اس نے کتابچہ بند کر دیا۔ جبران نے اچانک ایک خطرناک بات یاد دلا دی: "فیونا کیا تمھیں یاد ہے کہ انکل اینگس نے کیا کہا تھا؟ انھوں نے کہا تھا کہ پتھر کے آس پاس تین پھندے بچھائے گئے ہیں۔ پتا نہیں یہ کس قسم کے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ خانقاہ کے اندر شیر ہو، یا سانپوں والے سروں کا عفریت ہائیڈرا۔” جبران کی آواز میں انھوں نے خوف کی جھلک واضح محسوس کی۔

    جب وہ خانقاہ کے قریب پہنچے تو فیونا نے کہا: "میں نہیں سمجھتی کہ یہ قلعۂ آذر سے زیادہ خوف ناک جگہ ہوگی۔ یہاں روشنی ہے۔ میرے خیال میں خانقاہوں میں بھوت نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہمیں محتاط رہنا ہوگا۔”

    دانیال فیونا سے کتابچہ لینے کے بعد اسے پڑھنے میں مصروف ہو گیا تھا۔ آخر کار اس نے کتابچہ بند کر کے پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیا اور کہا: "کتابچے میں لکھا ہے کہ یہاں بھی کہیں پر منقش شیشے کی کھڑکی موجود ہے، جیسا کہ قلعۂ آذر میں تھی۔ یہاں اور بھی پچی کاری کے کام کی یادگاریں موجود ہیں۔”

    دونوں اس کی بات سن کر مڑے اور اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔ جبران نے کہا: "دانی کیا تم نے نہیں سنا، ہم نے ابھی کیا باتیں کیں؟” دانیال کے چہرے پر حماقت کے تاثرات چھا گئے، اور نفی میں سر ہلانے لگا۔ جبران بے بتایا: "ہم نے کہا کہ اگر یہاں پھندے کے طور پر کوئی عفریت ہوا تو…”

    "جبران! غلط بات ہے۔ اسے کیوں ڈرا رہے ہو۔ خانقاہ میں کوئی عفریت نہیں ہے، آؤ میرے ساتھ۔” فیونا نے اسے گھور کر دیکھا اور اندر داخل ہو گئی۔ "واؤ، پتھر تو ماربل کے لگ رہے ہیں، یہ گرینائٹ کے نہیں ہیں۔ بہت شان دار۔”

    "ہاں اچھے ہیں۔” جبران نے کوشش کی کہ اس کے لہجے سے خوف ظاہر نہ ہو، لیکن یہ سچ تھا کہ ڈر اس کے دماغ میں بیٹھ چکا تھا۔ انھوں ںے دیکھا کہ خانقاہ کی کئی دیواریں ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں اور اینٹیں فرش پر بکھری پڑی تھیں۔ دانیال اچانک پرجوش ہو کر چیخ جیسی آواز میں بول اٹھا: "وہ دیکھو، منقش شیشے کے ٹکڑے بھی پڑے ہیں۔” فیونا اور جبران کی نگاہیں خانقاہ کے دور کے ایک کونے پر پڑیں۔ وہاں ایک نوجوان جوڑا کھڑا تھا۔ نظریں ملتے ہی فیونا اخلاقاً مسکرائی اور جبران کے قریب ہو کر سرگوشی کی: "قیمتی پتھر ماربل کی ان ہی اینٹوں میں سے کسی ایک کے اندر ہے۔”

    "تم کیسے جانتی ہو یہ؟” جبران نے ماربل کی اینٹوں پر نظریں جما دیں۔ فیونا تفصیل بتانے لگی: "بس جانتی ہوں۔ جس نے قیمتی پتھر ماربل اینٹ میں چھپایا تھا، اس نے اس کے لیے کوئی طریقہ بھی ظاہر ہے کہ ڈھونڈا ہوگا۔ میں نے جب آنکھیں بند کی تھیں تو اسے صاف طور سے ماربل کی اینٹ میں دیکھا تھا۔”

    "لیکن یہاں تو ہزاروں ماربل اینٹیں ہیں فیونا، ہم کیسے جانیں گے کہ پتھر کس اینٹ میں ہے؟” دانیال نے پریشان ہو کر کہا اور ایک ٹوٹی اینٹ اٹھا لی۔ "یہ تو خاصی چمک دار ہے، میں اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔”

    "ماربل کی اینٹ اس جگہ پر ہے جہاں وہ نوجوان جوڑا کھڑا ہے۔ جب وہ جائے گا تو ہم وہاں جا کر اسے ڈھونڈیں گے۔” فیونا نے کہا اور ٹوٹے ماربل کے ایک بڑے ٹکڑے پر بیٹھ کر ہاتھوں کے پیالے میں ٹھوڑی رکھ لی۔ اس کی نگاہیں نوجوان جوڑے پر گڑی ہوئی تھیں۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ جوڑا کچھ بے چینی محسوس کر کے باہر چلا گیا۔ "اوہ شکر ہے وہ چلے گئے۔” جبران نے اچانک چھلانگ ماری اور اس جگہ کی طرف دوڑ پڑا۔ فیونا چلا کر بولی: "خبردار جبران، یہاں کوئی دام بھی بچھا ہو سکتا ہے۔”

    دانیال نے کہا: "ہاں کوئی دیوار بھی گر سکتی ہے جس کے نیچے دب کر ہم سب مر سکتے ہیں۔ کیا پتا یہاں نیچے انتہائی زہریلے چھوٹے سانپ بھی ہوں۔”

    "میں جانتا ہوں۔ وائپر اور ایسپ ہوتے تو چھوٹے ہیں لیکن انتہائی زہریلے ہوتے ہیں۔” جبران رک کر مڑا اور سانپوں کے متعلق اپنی معلومات جھاڑیں۔ فیونا کو غصہ آ گیا۔ "اوہ دانی، اتنا ڈرامائی ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر تم ڈرتے ہو تو باہر جا کر ہمارا انتظار کرو۔”

    "ٹھیک ہے، میں چپ رہوں گا۔” دانیال نے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیے اور ماربل کی اینٹوں کو گھورنا شروع کر دیا۔ فیونا اس کے سامنے سے گزر کر کونے کے قریب جا کر بولی۔ "پتھر اس اینٹ کے اندر ہے، یہ جو بالکل کونے میں لگی ہوئی ہے۔ میں جا کر اسے باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہوں، یہ مجھے ڈھیلی لگتی ہے۔”

    (جاری ہے…)

  • اٹھارھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھارھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    انھوں نے خود کو یونانی جزیرے ہائیڈرا پر بحر ایزن کے کنارے پایا۔ اینگس کمرے میں بُت بنے اس جگہ کو دیکھ رہے تھے جہاں چند لمحے قبل ان کی بھتیجی اور اس کے دوست کھڑے تھے اور اب وہاں کچھ نہیں تھا۔ ان کے چہرے کی جھریاں ایک دَم سے بڑھ گئیں۔ ان کی آنکھوں میں فکر اور اندیشوں کی بے شمار لہریں گڈ مڈ ہو رہی تھیں۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    سر کا چکرانا بند ہوا تو فیونا بولی۔ "آہا… ہم یہ کہاں آ گئے ہیں؟”

    وہ ارد گرد کا جائزہ لینے لگے۔ "ارے مجھے یاد آیا، میں اسے پہچان رہی ہوں، یہ جگہ تو میں اور میری ممی نے پرسوں رات کو خواب میں دیکھی تھی۔ کتنا عجیب ہے نا!”

    "یہ پانی دیکھو، کتنا نیلا ہے اور یہ آسمان بھی۔” دانیال بولا۔ اس بات پر جبران کے ساتھ ساتھ فیونا بھی حیرت کے مارے اچھل پڑی۔ "کک … کیا … ابھی تم نے کیا بولا تھا؟” فیونا تیزی سے اس کی طرف مڑنے پر مجبور ہو گئی تھی۔

    دانیال جھجکنے لگا۔ "مم … میں سمجھا نہیں، میں نے تو صرف اتنا کہا ہے کہ یہ پانی اور آسمان کتنے نیلے ہیں۔”

    "ارے دانی، تم سمجھے نہیں، ابھی تم نے جو کہا اسے میں نے آسانی سے سمجھ لیا ہے، جبران نے ترجمہ نہیں کیا۔” فیونا نے کہا۔ "اوہ، یہ…یہ کیسے ہو سکتا ہے۔” دانیال بھی اچھل پڑا۔ "میں بھی آسانی سے تمھاری باتیں سمجھ پارہا ہوں اب۔”

    "یہ تو معجزہ ہو گیا۔” جبران بے اختیار بولا۔

    "یہ جادو ہے۔” فیونا ایک دم بول اٹھی۔ سب سناٹے میں آ گئے۔ "تو کیا ہم جادو والے علاقے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ تب تو ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔” فیونا کے لہجے میں تشویش تھی۔

    انھوں نے ساحل پر چلتے ہوئے اپنے سامنے پھیلے منظر کو دیکھا۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں سفید گھر دھبوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ یہ اتنا خوب صورت منظر تھا کہ وہ مسحور ہو کر اسے دیکھ رہے تھے۔ تاحد نظر پھیلے ہوئے سبزے پر خوش رنگ پھول کھل کر لہلہارہے تھے۔ گل نسترن، سوسن اور گرم علاقوں میں پیدا ہونے والے رنگ رنگ کے پھول وہ پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے۔ فیونا بڑبڑا کر بولی۔ "ایسے پھول تو میں نے اسکاٹ لینڈ میں کبھی نہیں دیکھے۔”

    "تم لوگوں کو صرف پھول ہی نظر آ رہے ہیں۔” اچانک دانیال بولا "ان گدھوں کو بھی تو دیکھو۔”

    وہ گدھوں کی طرف دیکھنے لگے لیکن جبران نے ایک اور طرف توجہ دلا دی۔ "یہاں کوئی کار نظر نہیں آئی، کسی سائن بورڈ پر یونانی زبان کی تحریر بھی دکھائی نہیں دی۔”

    "لیکن تم یہ کیسے پہچانو گے کہ یہ یونانی زبان کی تحریر ہے؟” فیونا نے حیرت سے ناک پر انگلی رکھ دی۔ جبران مسکرا کر بتانے لگا "ہم نے اسکول میں پڑھی ہے، آخری چند ہفتوں میں ہم نے یونانی جزائر کے متعلق پڑھا تھا۔ ہم ایک جزیرے ہائیڈرا کے متعلق بھی پڑھ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی جزیرۂ ہائیڈرا ہے۔ ہاں وہ دیکھو، وہ سائن بورڈ یونانی زبان میں لکھا ہوا ہے، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ یہ کیا لکھا گیا ہے۔”

    "ایک مسئلہ ہے، ہم یونانی نہیں جانتے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ ہم کس طرح گفتگو کریں گے؟” فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔

    "یہ ایک سیاحتی مقام ہے فیونا، یہاں لوگ ضرور انگریزی بولتے ہوں گے۔” جبران نے جواب دیا۔ تینوں ساحل کے قریب آبادی کی طرف بڑھنے لگے۔ "تم ٹھیک کہتے ہو۔” فیونا کہنے لگی۔ "یہ یونان ہے، بالکل کسی تصویری پوسٹ کارڈ کی مانند۔ اب ہمیں سب سے پہلے اپنے پاس موجود رقم یونانی کرنسی میں تبدیل کروانی ہے۔ ویسے یونانی کرنسی کو کہتے کیا ہیں؟” اس نے جبران کی طرف دیکھا۔

    "ڈریکما کہتے ہیں…لیکن کیا تم یہ سوچ رہی ہو کہ وہ ہمیں پیسے دے دیں گے؟ ہمارے پاس کوئی شناخت اور پاسپورٹ تک نہیں۔” جبران نے جواب دیا۔

    "میں جلدی سے بہانا بنا دوں گی کہ میرا پاسپورٹ والدین کے پاس رہ گیا ہے، اور وہ تفریح کے لیے نکل گئے ہیں، اب ہمیں لنچ لینا اور پیسے نہیں ہیں۔” فیونا بولی۔ وہ خود کو ایک دم بہادر محسوس کرنے لگی۔ "یہ جگہ بہت خوب صورت ہے۔ یہاں واقعی کوئی کار، بس، موٹر سائیکل حتیٰ کہ سائیکل بھی نہیں ہے۔ لوگوں کو جہاں بھی جانا ہو، انھیں پیدل ہی جانا ہوتا ہے۔”

    "یا پھر گدھوں پر سواری کرتے ہوں گے۔” دانیال بولا۔ "وہ دیکھو ایک بوڑھا گدھے پر سوار ہے۔”

    "میرے خیال میں گدھوں سے بدبو آتی ہوگی، میں تو ان پر سواری نہیں کرنا چاہوں گی۔” فیونا نے ناک سکیڑ کر کہا۔

    "یہاں ہر طرف چرچ، خانقاہیں، اور محرابی راستے ہیں۔ ہمیں کوئی نقشہ خریدنا ہوگا تب ہی ہم راستہ ڈھونڈ سکیں گے۔ وہ رہی سیاحوں کی دکان، وہاں نقشے ضرور ملتے ہوں گے۔” جبران نے کہا۔

    "ہاں، لیکن پہلے مجھے بینک جانا ہوگا۔” فیونا بولی۔ "بینک بھی سامنے ہے، تم دونوں باہر ٹھہرنا۔ میں اکیلے اندر جاؤں گی۔ انھیں روتے ہوئے ایک دکھ بھری کہانی سناؤں گی۔ اگر وہ نہیں مانے تو پھر تم دونوں نے کوشش کرنی ہوگی۔”

    یہ کہ کر وہ اندر چلی گئی۔ چند ہی منٹ بعد وہ باہر نکلی تو دونوں چونک اٹھے، فیونا رو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ وہ تیزی سے اس کے پاس پہنچے۔ "کک … کیا ہوا فیونا، تم کیوں رو رہی ہو؟” جبران گھبرا کر بولا۔ لیکن فیونا نے یکایک قہقہ لگایا اور پھر ہنسنے لگی۔ "ارے یہ تو جعلی آنسو ہیں، دیکھا ان کی طرح تم بھی دھوکا کھا گئے۔” اس نے یونانی کرنسی ڈریکما کے نوٹ ان کے سامنے لہرائے۔

    "اوہ… فیونا، تم تو زبردست اداکارہ ہو۔” دانیال حیرت سے بولا۔ وہ واقعی اس کی صلاحیت سے متاثر ہوا تھا۔ فیونا اس کی طرف دیکھ کر جھینپ گئی اور بولی "میں نے کبھی اداکاری نہیں کی۔ دانیال نے بے اختیار کہا کہ تم خداداد صلاحیتوں کی مالک ہو اور فیونا نے شرما کر شکریہ ادا کیا۔

    وہ تینوں سیاحوں کی ایک دکان کی کھڑکی کے پاس کھڑے ہو گئے، وہاں ایک نقشہ لٹکا ہوا تھا۔

    (جاری ہے….)

  • ایک شہنشاہ ایسا، جس کا انت نہ کوئی

    ایک شہنشاہ ایسا، جس کا انت نہ کوئی

    ایک روز شہنشاہ گھوڑے پر سوار شہر میں وارد ہوا تو وہاں ہر سڑک کے کنارے، دائیں بائیں، لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے جو شہنشاہ کے دیدار کے آرزو مند تھے۔

    وہ اس کے گھوڑے کو بھی، جھلک بھر، دیکھنے کے تمنائی تھے۔ بہت سے لوگ بالکل ہی آگے گویا پہلی صف میں کھڑے تھے لیکن ان سے کہیں زیادہ لوگ دوسری، تیسری اور چوتھی صفوں میں ایستادہ تھے اور رہے وہ لوگ جو چوتھی صف کے پیچھے تھے، انھیں تو صف بستہ قرار دینا ہی خارج از بحث تھا۔

    چنانچہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ، درشن کو، نہ صرف پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے، نہیں بلکہ انہوں نے اپنی گردنیں بھی اچکائیں، اس قدر، بے تحاشہ اچکائیں کہ شہنشاہ ان کے پاس سے گزر کر اندھیرے میں غائب بھی ہو گیا اور ان کی گردنیں زندگی بھر کے لیے اسی طرح کھنچی کی کھنچی رہ گئیں۔

    لہٰذا اگر کبھی کسی لمبی گردن والے شخص سے ملنے کا اتفاق ہو تو ہمیں چاہیے کہ اسے نہ تو حقارت کی نظر سے دیکھیں، نہ حیران ہو کر گھوریں۔ وہ انھی لوگوں میں سے کسی کا پوتا پڑ پوتا ہے جن پر شہنشاہ کو دیکھنے کا انوکھا جنون سوار تھا جو بعد ازاں بالکل ہی ناپید ہو گیا اور جس کا محرم ہونا اب ممکن نہیں رہا۔

    (عالمی ادب سے انتخاب، مترجم محمد سلیم الرّحمٰن)

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    مائری سڑک پار کر کے مک ایوانز بچر شاپ کی طرف جانا چاہتی تھیں کہ اچانک ان کے سامنے ایک بس آکر رک گئی۔ بس کے پائیدان سے ایک وجیہ صورت آدمی اچھل کر ان کے سامنے آ رُکا۔

    "ذرا سنیے خاتون، کیا مجھے کسی ایسے شخص کا پتا دے سکتی ہیں جو مجھے بتائے کہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے بہترین جگہ کون سی ہے؟”

    مائری نے اس کی طرف دیکھا، اور سوچا کہ کیا اسے واقعی کسی شخص کی تلاش ہے۔ مائری نے کہا "میں آپ کو ایک ایسے شخص کا نمبر دے سکتی ہوں جو پڑوسی قصبے میں رہتا ہے، آپ حیران ہوں گے لیکن بلال احمد کو گیل ٹے کے باسیوں سے بھی زیادہ یہاں کے ماہی گیری پوائنٹس کے بارے میں معلومات ہیں۔ ہم ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں، وہ پاکستانی نژاد ہے، فارغ اوقات میں اس کا بہترین مشغلہ یہاں مچھلیوں کا شکار ہے۔”

    "شکریہ خاتون، میرا نام جونی تھامسن ہے، میں لندن سے آیا ہوں، اور آپ ؟” اجنبی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے پوچھا۔

    "میں مائری مک ایلسٹر ہوں۔”

    "معلوم ہوتا ہے آپ مسٹر بلال کو کافی عرصے سے جانتی ہیں۔”

    "جی ہاں، ہم ایک عرصے سے ایک ہی آفس میں کام کر رہے ہیں۔” مائری نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر بلال کا نمبر اور گھر کا پتا لکھ کر انھیں دے دیا۔ "ان سے کہنا مائری نے بھیجا ہے، کیا آپ یہاں زیادہ دن رہیں گے؟” مائری نے روانی میں پوچھا لیکن پھر حیران ہو گئیں، کہ اس نے یہ بات کیوں پوچھی۔

    جونی تھامسن نے کہا "میرے بھائی جمی آئندہ ایک دو دن میں مجھ سے ملیں گے، ہم یہاں ایک ہفتے تک رہیں گے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہمارا قیام طویل ہو جائے، مجھے امید ہے کہ ہم دوبارہ ملیں گے۔”

    اسی وقت بس کے ڈرائیور نے سیٹی بجا کر انھیں متوجہ کر دیا، تو وہ مائری سے رخصت ہو کر چلا گیا۔ مائری حیرت سے اس کے متعلق سوچنے لگیں، انھوں نے کئی برسوں سے یہاں اس جیسا وجیہ شخص نہیں دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ مائری نے سر جھٹک کر سڑک پار کیا اور دکان کی طرف بڑھنے لگیں۔

    جاری ہے……

  • ‘ایک شاہی پیغام…’

    ‘ایک شاہی پیغام…’

    بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فردِ واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصّہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔

    بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سَر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔

    اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

    قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔

    لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مکّے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔ لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔

    اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کام یاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔

    اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کام یاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔

    یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔

    یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔

    (جرمن زبان میں تحریر کردہ فرانز کافکا کی ایک تمثیل کا اردو ترجمہ)

  • ہیرے والا شتر مرغ

    ہیرے والا شتر مرغ

    "اگر تم پرندوں کی قیمت کی بات کرتے ہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ میں نے ایک ایسا شترمرغ بھی دیکھا ہے جس کی قیمت تین ہزار پاؤنڈ لگائی گئی تھی۔ تین ہزار پاؤنڈ، سمجھے….؟” اس نے مجھے چشمے کے اوپر سے گھورتے ہوئے کہا۔

    اس کا کام پرندوں کی کھال میں بھُس بھر کر اسے بیچنا تھا، اسی لیے وہ پرندوں اور ان کی قیمتوں کے قصّے سنایا کرتا تھا۔

    "تین ہزار پاؤنڈ؟” میں نے حیرت ظاہر کی۔ "کیا وہ شتر مرغ کسی نایاب نسل کا تھا؟”
    "نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ اور باقی چار شتر مرغ جن کا قصّہ سنانے والا ہوں پانچوں عام سے شترمرغ تھے، بلکہ ایک کی کھال کا رنگ بھی مناسب دانہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے اڑ گیا تھا، لیکن ان میں سے ایک شتر مرغ نے ایک نہایت قیمتی ہیرا نگل لیا تھا۔”

    "شتر مرغ نے ہیرا نگل لیا تھا؟”

    "ہاں۔” اس نے ہماری دل چسپی کو دیکھ کر پورا قصّہ سنانا شروع کیا جو یوں تھا: وہ ہیرا ایک ہندو بیوپاری کا تھا۔ اس کا نام موہن تھا۔ موہن ایک موٹا سا آدمی تھا۔ اس کی پگڑی میں وہ ہیرا لگا ہوا تھا۔ شتر مرغ نے اس کی پگڑی پر چونچ ماری اور ہیرا نگل لیا۔ جب موہن کو پتا چلا کہ کیا ہوگیا ہے تو اس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ یہ سب کچھ ذرا سی دیر میں ہو گیا۔ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو سب سے پہلے وہاں پہنچے۔ دراصل ہم لوگ لندن جانے کے لیے ایک بحری جہاز میں سوار ہو رہے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو موہن، دو ملاحوں اور شتر مرغ کے رکھوالے کے درمیان اچھی خاصی گرما گرمی ہو رہی تھی، بلکہ شتر مرغ کا رکھوالا تو ہنستے ہنستے دہرا ہوا جا رہا تھا۔

    یہ پانچوں شتر مرغ لندن جانے کے لیے بحری جہاز پر پہنچائے جا رہے تھے کہ ان میں سے ایک نے پاس کھڑے ہوئے ایک ہندو بیوپاری موہن کی پگڑی میں لگا ہوا ہیرا نگل لیا۔ اس وقت شتر مرغوں کا رکھوالا وہاں موجود نہیں تھا۔ وہ تھوڑی دیر بعد پہنچا۔ اس لیے اسے بھی پتا نہ تھا کہ کون سے شتر مرغ نے ہیرا نگلا ہے۔ بہرحال ہم سب بحری جہاز پر سوار ہو گئے اور جہاز لندن کے لیے روانہ ہو گیا۔ شتر مرغ بھی جہاز پر سوار تھے۔

    بحری جہاز پر اس قسم کی خبریں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد تمام مسافروں کو اس بات کا پتا لگ گیا کہ جہاز پر سوار شتر مرغوں میں سے ایک کے پیٹ میں ایک ہیرا موجود ہے جو اس نے ایک مسافر کی پگڑی سے اچک لیا تھا۔

    ہر شخص اسی کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ موہن اپنے جذبات چھپانے کے لیے اپنے کیبن میں چلا گیا، لیکن رات کے کھانے پر جب سب مسافر جہاز کے کھانے کے کمرے میں جمع ہوئے تو موہن ایک میز پر جہاز کے کپتان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔

    موہن نے کپتان پر زور دیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس کا ہیرا واپس دلوائے۔ اس کا کہنا تھا میں وہ شتر مرغ نہیں خریدوں گا بلکہ مجھے میرا قیمتی ہیرا دلوانا کپتان کا فرض ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر مجھے میرا ہیرا واپس نہ ملا تو میں لندن پہنچ کر پولیس میں شکایت درج کروں گا۔ لہذا بہتر ہے کہ شترمرغوں کو کوئی دوا کھلا کر ہیرا حاصل کیا جائے۔
    اُدھر شتر مرغوں کا رکھوالا بھی ایک ضدی آدمی نکلا۔ اس نے کہا کہ میں شتر مرغوں کو دوا دے کر ہیرا حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں شتر مرغوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ صرف رکھوالا ہوں اور مجھے سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ شتر مرغوں کو صرف فلاں فلاں چیز کھلائی جائے اور انھیں فلاں فلاں طریقے سے رکھا جائے۔ جب کہ موہن کا کہنا تھا کہ چوں کہ شتر مرغوں میں سے ایک نے اس کا ہیرا نگل لیا ہے، اس لیے اب وہ جس طرح چاہے ہیرا نکال سکتا ہے، چاہے ان کا پیٹ کاٹ کر ہی کیوں نہیں نکالا جائے۔

    اس طرح یہ مسئلہ ایک قانونی شکل اختیار کر گیا تھا، لیکن جہاز پر کوئی وکیل موجود نہ تھا، اس لیے ہر مسافر اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ مسافروں میں سے اکثر کا کہنا یہ تھا کہ موہن کو شتر مرغ خرید لینے چاہییں، پھر اس کا جو جی چاہے ان کے ساتھ کرے۔

    جہاز عدن کی بندرگاہ پر رکا اور جب وہاں سے چلا تو رات کے کھانے پر موہن نے مسافروں کی بات مان لی اور پانچ کے پانچ شتر مرغ خریدنے کے لیے تیار ہو گیا، لیکن اگلی صبح ناشتے پر صورتحال پھر بدل گئی، کیوں کہ شتر مرغوں کے رکھوالے نے اعلان کیا کہ وہ ان کا مالک نہیں ہے اس لیے وہ انہیں کیسے بیچ سکتا ہے؟ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مالک سے پوچھے بغیر شتر مرغ بیچنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔

    اس پر ایک مسافر کھڑا ہو گیا۔ اس کا نام پوٹر تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ شتر مرغوں کے رکھوالے کو میں نے بھی اچھی خاصی رقم کی پیشکش کی تھی، لیکن وہ شتر مرغ بیچنے پر تیار نہیں تھا، اس لیے جب جہاز عدن پر ٹھہرا تھا تو میں نے وہاں سے شتر مرغ کے مالک کو لندن میں تار دے کر تمام شتر مرغ خریدنے کی پیشکش کی تھی۔ اس کا جوابی تار مجھے جہاز کی اگلی منزل یعنی سویز پر مل جائے گا۔ یہ سن کر موہن نے پوٹر کو سب کے سامنے برا بھلا کہا۔ اس کی صورت دیکھنے والی تھی، لیکن باقی سب مسافر پوٹر کو ایک ہوشیار آدمی مان گئے۔

    جب جہاز سویز پہنچا تو پوٹر کے تار کا جواب لندن سے آ چکا تھا۔ شتر مرغ کے مالک نے انہیں پوٹر کے ہاتھ فروخت کرنے کی ہامی بھر لی تھی۔ اب پوٹر شتر مرغوں کا مالک بن چکا تھا۔ یہ خبر سن کر موہن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آخر اس نے پوٹر سے کہا میں شتر مرغ تم سے خریدنے کے لیے تیار ہوں۔ تم فی شتر مرغ پانچ سو پاؤنڈ کے حساب سے پانچ شتر مرغوں کے ڈھائی ہزار پاؤنڈ لے لو۔ اس پر پوٹر نے کہا کہ میں نے یہ شتر مرغ بیچنے کے لیے نہیں خریدے۔ میرا ارادہ ان کے پیٹ چاک کر کے ہیرا تلاش کرنے کا ہے۔
    لیکن بعد میں پوٹر کا ارادہ بدل گیا اور اس نے شتر مرغ نیلام کرنے کا اعلان کیا، لیکن اس نے ایک شرط بھی رکھی۔ وہ یہ کہ کسی شخص کے ہاتھ ایک سے زیادہ شتر مرغ فروخت نہیں کیے جائیں گے اور ایک شتر مرغ وہ اپنے لیے رکھے گا تاکہ قسمت آزما سکے۔ کیا پتا ہیرا اسی میں سے نکلے۔

    وہ ہیرا بہت قیمتی تھا۔ ہمارے ساتھ بحری جہاز پر ہیروں کا ایک یہودی تاجر بھی سفر کر رہا تھا۔ جب موہن نے اسے اس ہیرے کے بارے میں بتایا کہ کیسا تھا اور کتنا بڑا تھا تو اس نے اس کی قیمت اندازاً چار سے پانچ ہزار پاؤنڈ بتائی۔ جب جہاز کے مسافروں کو ہیرے کی قیمت کا پتا چلا تو وہ بے چینی سے نیلامی کا انتظار کرنے لگے جو اگلے دن ہونے والی تھی۔

    اب اتفاق کی بات کہ شتر مرغ کے رکھوالے سے مجھے باتوں باتوں میں پتا چلا کہ ایک شتر مرغ بیمار ہے اور اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔ اس شتر مرغ کی دُم کے پروں میں سے ایک پر بالکل سفید تھا جو شاید بیماری کی وجہ سے ہوگیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ وہی شتر مرغ ہے جس کے پیٹ میں ہیرا ہے اور اسی لیے اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔

    اگلے روز جب نیلامی شروع ہوئی تو سب سے پہلے یہی شتر مرغ لایا گیا۔ بولی آٹھ سو پاؤنڈ سے شروع ہوئی۔ موہن نے فورا ساڑھے آٹھ سو کی بولی دی جس کے جواب میں، مَیں نے نو سو پاؤنڈ کی آواز لگائی۔ مجھے یقین تھا کہ ہیرا اسی شتر مرغ کے پیٹ میں ہے اور اتنے زیادہ بھاؤ یعنی نو سو پاؤنڈ سے کوئی آگے نہیں بڑھے گا، لیکن موہن بالکل باؤلا ہو گیا تھا۔ اس نے اندھا دھند بولی بڑھانی شروع کی۔ ہیروں کا یہودی تاجر بھی بڑھ چڑھ کر بولی لگا رہا تھا۔ اس نے بولی ایک ہزار سات سو پاؤنڈ تک پہنچا دی۔ اس موقعے پر پوٹر نے اس کے حق میں بولی ایک دو تین کہہ کر ختم کر دی۔ موہن نے ایک ہزار آٹھ سو کی آواز لگائی، لیکن تب تک پوٹر تین کہہ چکا تھا۔ موہن ہاتھ ملتا رہ گیا۔

    یہودی تاجر نے پوٹر کو شتر مرغ کی قیمت ادا کی اور اسی وقت پستول نکال کر شتر مرغ کو گولی مار دی۔ اس پر پوٹر نے خوب شور مچایا اور کہا کہ اگر شتر مرغ کو اسی وقت کاٹا گیا تو اس سے نیلامی پر برا اثر پڑے گا، کیوں کہ اگر اس میں سے ہیرا نکل آیا تو میرے باقی شترمرغ کوئی نہیں خریدے گا، لیکن ہم سب ہیرا دیکھنے کے لیے اس قدر بے چین تھے کہ سب نے سنی ان سنی کر دی۔ شتر مرغ کو چیرا پھاڑا گیا، لیکن اس میں سے کچھ نہ نکلا۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ میرا نقصان ہوتے ہوتے رہ گیا، کیوں کہ میں خود اس شتر مرغ کی ایک ہزار چار سو پاؤنڈ قیمت لگا چکا تھا۔

    یہودی تاجر نے کسی خاص افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ البتہ پوٹر نے یہ کہہ کر نیلامی بند کر دی کہ جب تک سارے شترمرغ نہیں بک جاتے وہ کسی کو شتر مرغوں کی چیر پھاڑ نہیں کرنے دے گا، لیکن یہودی تاجر کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص ایک چیز خریدتا ہے تو اس کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ جب اور جیسا چاہے سلوک کرے۔ بات بڑھ گئی اور گرما گرمی ہونے لگی تو نیلامی اگلی صبح تک روک دی گئی۔ رات کو کھانے کی میز پر شتر مرغوں کی نیلامی کے بارے میں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کچھ نے تو جہاز کے کپتان سے یہ بھی کہا کہ اس نیلامی کو روک دیا جائے، کیوں کہ اس طرح سے ہیرا بیچنا ایک طرح کا جوا ہے، لیکن پوٹر کا کہنا تھا کہ ہیرا نہیں بیچ رہا۔ میں تو صرف شتر مرغ بیچ رہا ہوں۔

    آخر کپتان نے اعلان کیا کہ جہاز پر شترمرغ کی خرید و فروخت کی اجازت ہے، لیکن شتر مرغوں کے قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب کوئی شخص شتر مرغوں کو نہ تو جہاز پر ہلاک کرے گا اور نہ ان کی چیر پھاڑ کرے گا۔ لندن پہنچنے کے بعد جہاز سے اتر کر مسافروں کا جو جی چاہے شتر مرغوں کے ساتھ کریں۔

    اگلی صبح جب نیلامی شروع ہوئی تو ہر شخص کے ذہن میں یہ بات تھی کہ شتر مرغ پانچ کے بجائے اب چار رہ گئے ہیں، اس لیے کسی ایک شتر مرغ سے ہیرا نکلنے کا امکان اب پہلے سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بولی کل سے بھی زیادہ پر شروع ہوئی۔ میرے پاس پیسے کم تھے اس لیے میں تو پیچھے ہٹ گیا۔ ایک شتر مرغ دو ہزار پاؤنڈ کا بکا۔ ایک کی قیمت دو ہزار تین سو پاؤنڈ لگائی گئی۔ جب کہ تیسرا ڈھائی ہزار پاؤنڈ میں فروخت ہوا، لیکن عجیب بات تھی کہ موہن نے ان میں سے ایک بھی نہیں خریدا، بلکہ جب بولی لگائی جا رہی تھی تو وہ ایک کونے میں بیٹھا لندن پہنچ کر پولیس میں رپورٹ درج کرانے کی باتیں کر رہاتھا اور قانونی نکتے اٹھا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ ساری نیلامی غیرقانونی ہے۔

    فروخت ہونے والے تین شتر مرغوں میں سے ایک اُسی یہودی تاجر نے خریدا۔ ایک شتر مرغ ایک افسر نے خریدا جو جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ تیسرا اس جہاز کے انجینئروں نے آپس میں پیسے جمع کر کے خرید لیا۔

    جب نیلامی ختم ہوئی تو پوٹر اُداس ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے شتر مرغ بیچ کر بے وقوفی کی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے لیے جو شترمرغ رکھا تھا وہ بھی اس نے ایک مسافر کو تین ہزار پاؤنڈ میں رات ہی بیچ دیا تھا، لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس میں بے وقوفی کی کیا بات ہے۔ جو شتر مرغ اس نے زیادہ سے زیادہ آٹھ سو پاؤنڈ میں خریدے ہوں گے وہ اس نے ایک ایک کر کے ساڑھے گیارہ ہزار پاؤنڈ میں بیچ دیے۔

    آخر جہاز لندن کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ سارے مسافر اترنے شروع ہوئے۔ شتر مرغ بھی اتارے گئے۔ شتر مرغ خریدنے والوں نے انہیں وہیں چیرنے پھاڑنے کا ارادہ کیا لیکن بندرگاہ کے افسروں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ موہن پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑتا پھر رہا تھا۔ جن لوگوں نے شتر مرغ خریدے تھے وہ ان سے ان کے نام اور پتے پوچھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ان کے خریدے ہوئے شتر مرغ سے ہیرا نکل آئے تو مجھے خط لکھ کر بتائیں، لیکن کسی نے بھی اسے اپنا نام پتا نہیں دیا۔ موہن نے پوٹر کو بھی برا بھلا کہا لیکن پوٹر نے اپنا سامان اٹھایا اور چل پڑا۔ باقی مسافر بھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ شتر مرغ خریدنے والوں نے انہیں لدوایا اور وہ بھی چل پڑے۔

    یہ کہہ کر وہ چپ ہو گیا اور ایک پرندے کی کھال میں بھُس بھرنے لگا۔ میں نے بے صبری سے کہا، "پھر کیا ہوا؟ ہیرا کون سے شتر مرغ میں تھا؟”

    وہ مسکرایا اور بولا، "میرے خیال سے کسی میں بھی نہیں۔”

    "وہ کیوں؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔

    اس نے بتانا شروع کیا، "یہ بات مجھے کبھی معلوم نہ ہوتی اور میں یہی سمجھتا رہتا کہ موہن کا ہیرا کسی شتر مرغ نے نگل لیا تھا، لیکن اتفاق کی بات ہے کہ لندن پہنچنے کے ایک ہفتے بعد میں لندن کی ریجنٹ اسٹریٹ میں خریداری کر رہا تھا کہ مجھے موہن اور پوٹر نظر آئے۔ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، بہت خوش خوش، مسکراتے ہوئے جا رہے تھے۔ دونوں نے بہت عمدہ اور مہنگے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میں چُپ چاپ انہیں دیکھنے لگا۔ انہوں نے کوئی چیز خریدی۔ موہن نے پیسے دینے کے لیے بٹوا نکالا تو وہ نوٹوں سے ٹھنسا ٹھس بھرا ہوا تھا۔ لگ رہا تھا کہ دونوں کو کہیں سے بہت سا رُپیہ ہاتھ لگا ہے۔”

    میں نے ایک لمبی سانس لے کر کہا، "بہت خوب! تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی شتر مرغ نے کوئی ہیرا نہیں نگلا تھا۔ موہن اور پوٹر دونوں ساتھی تھے اور انہوں نے اس طرح نیلامی کے ذریعے سے ہزاروں پاؤنڈ بٹور لیے۔”

    اس نے مسکرا کر "ہاں” کہا اور سَر جھکا کر پرندوں کی کھال میں بھُس بھرنے لگا۔


    (مصنّف: ایچ جی ویلز​، ترجمہ: رؤف پاریکھ​)