Tag: عالمی ادب سے انتخاب

  • ڈاکیے کا تھیلا

    ڈاکیے کا تھیلا

    کولیا ایک خوش مزاج، مگر غائب دماغ لڑکا تھا۔ اس نے پیٹرزبرگ میں اپنی دادی کو ایک بہت اچھا خط لکھا۔ جس میں انہیں برائٹ ہالیڈے کی مبارکباد دی، اپنے گاؤں کی زندگی کے بارے میں بتایا، اور یہ کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے، وہ اپنا وقت کیسے گزارتا ہے، سب تفصیل سے بیان کیا۔

    ایک جملے میں بس یہ کہا جا سکتا تھا کہ خط بہت اچھا لکھا گیا تھا، لیکن کولیا نے خط کے بجائے خالی کاغذ کی آدھی شیٹ لفافے میں ڈال دی اور خط اسی کتاب میں رہ گیا، جہاں اس نے رکھا تھا۔ اس نے لفافے پر ٹکٹ لگائے، صاف ستھری لکھائی میں پتہ لکھا اور ڈاک خانے کا رخ کیا، جہاں لفافے پر مہر لگائی گئی اور کاغذ کی ایک خالی آدھی شیٹ، کولیا کی دادی کو چھٹی کی مبارکباد دینے سینٹ پیٹرزبرگ روانہ ہوگئی۔

    کولیا کے خط نے پانچ سو میل کا فاصلہ سرپٹ دوڑتے ہوئے طے کیا جیسے کسی اہم کام کے لئے جلدی میں ہو۔ ابھی وہ یہاں ہے، ابھی سینٹ پیٹرزبرگ میں اور کچھ دیر بعد ڈاکیے کے تھیلے میں، جو سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا، داخلی راستوں پر گھنٹی بجاتا اور گھروں پر خط بانٹتا چلا جا رہا تھا، لیکن کولیا کا لفافہ تھیلے میں خاموش نہیں تھا۔ وہ تمام خالی مخلوقات کی طرح بہت باتونی اور متجسس تھا۔

    ”آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ اور آپ میں کیا لکھا ہے؟“ کولیا کے خط نے اپنے پڑوسی سے پوچھا جو ویلم پیپر (چمڑے کی جھلی) سے بنا ایک موٹا اور خوبصورت لفافہ تھا۔ وہ ایک سرکاری مونو گرام سے آراستہ تھا، جس پر ایک شاہی تاج اور نقرئی سجاوٹ تھی۔

    خوش نما خط نے فوری طور پر جواب نہیں دیا۔ اس نے پہلے یہ جانچا کہ اس کا مخاطب کس حیثیت کا مالک ہے، اور یہ دیکھ کر کہ جس گستاخ نے اس کے ساتھ بات کرنے کی جسارت کی ہے وہ ایک صاف اور خوبصورت لفافہ ہے۔ اس نے جواب دینے کا فیصلہ کیا۔

    ”میرے پیارے بچے! مجھ پر لکھے گئے پتے سے آپ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ میں ایک بہت ہی اہم شخص کے پاس جا رہا ہوں۔ ذرا تصور کریں کہ میرے لیے اس اندھیرے اور بدبو دار تھیلے میں لیٹنا کتنا دشوار ہے، خاص طور پر اس طرح کے لفافوں کے ساتھ جیسا میرا بایاں پڑوسی ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ آپ اس خاکی اور گندے بدصورت لفافے کو نہیں دیکھ سکتے، جسے موم کے بجائے بریڈ کرمب جیسی کسی چیز سے بند کیا گیا ہے اور ڈاک ٹکٹ کے بجائے اس پر فوجی مہر ہے اور اِس پر پتہ کیا ہے؟ …. یہ کہاں جا رہا ہے؟ بڑی بدخط تحریر ہے….ہاں پیٹرزبرگ کی طرف، کچی گلی تک، اور یہاں تک کہ تہ خانے تک، افف… کیسی بے بسی ہے۔ ایسے پڑوسی کے پاس خود کو گندا ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا۔“

    ”یہ میری غلطی نہیں ہے کہ انہوں نے ہمیں ایک ساتھ رکھ دیا ہے۔ “ سپاہی کے خط نے غصیلے لہجے میں جواب دیا۔ ”اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ آپ جیسے شاندار، لیکن خالی اور احمق لفافے کا قرب میرے لیے بیزار کن ہے۔ آپ کا اوپری پیرہن اچھا ہے، لیکن اندر کیا ہے؟ تمام بناوٹی جملے جن میں ایک لفظ بھی سچائی نہیں ہے۔ جس نے آپ کو لکھا، وہ اس شخص کی دل سے عزت نہیں کرتا، جس کے لیے آپ کو لکھا گیا ہے، پھر بھی نیک تمنائیں، دلی مبارکباد اور آخر میں گہرا احترام اور عقیدت۔ حالاں کہ یہ سب بکواس ہے۔ یہاں نہ عزت ہے اور نہ عقیدت، اگر آپ اس عاجز بندے سے کوئی کام کہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس فرض شناسی اور احترام کی خوشبو کیسی ہے۔“

    ”بدتمیز! جاہل! تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے کی؟ میں حیران ہوں کہ ڈاکیا تم کو اتنا بے غیرت ہونے کی وجہ سے سڑک پر کیوں نہیں پھینک دیتا، ذرا میرے کوٹ آف آرمز کو دیکھو۔ “

    ”کیا ہتھیاروں کا کوٹ؟“ سپاہی کے خط نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔ ”آپ کا کوٹ اچھا ہے، لیکن ہتھیاروں کے کوٹ کے نیچے کیا ہے؟ بے روح اور بناوٹی جملے، سچ کا ایک قطرہ بھی نہیں، سب جھوٹ، نخوت اور تکبر ہے۔“ مہر والا لفافہ غصے سے پھٹنے کے لیے تیار تھا اور شاید وہ پھٹ جاتا۔ اگر اسی لمحے ڈاکیہ اسے تھیلے سے نکال کر ایک عالیشان سنہرے دروازے پر کھڑے دربان کے حوالے نہ کر دیتا۔

    ”خدا کا شکر ہے کہ ایک بیوقوف کم ہوا۔ “ سپاہی کے خط نے بات جاری رکھی۔ ”وہ گاؤدی اور مغرور اس بات پر ناراض ہو رہا ہے کہ وہ میرے ساتھ پڑا ہے… کاش اسے معلوم ہوتا کہ میرے اندر کیا لکھا ہے۔ “

    کولیا کے خط نے جب خود کو اس خاکی لفافے کے ساتھ پایا جس پر فوجی مہر لگی تھی تو تجسس سے پوچھا۔ ”تم میں کیا لکھا ہے؟“

    ”میرے پیارے ملنسار دوست! میں بتاتا ہوں کہ مجھ میں کیا لکھا ہے۔ میں ایک غریب اور خستہ حال بوڑھی عورت کو یہ خبر پہنچانے جارہا ہوں کہ اس کا بیٹا زندہ ہے۔ جب سے وہ فوج میں بھرتی ہوا ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ دس سال ہوگئے ہیں۔ وہ زندہ ہے، خیریت سے ہے اور جلد ہی چھٹی پر گھر آئے گا۔ یہ سچ ہے کہ میں بری سگ ماہی موم سے بند ہوں، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس مہر بند موم کو توڑتے ہوئے بوڑھی عورت کا ہاتھ کیسے کانپے گا۔ یہ سچ ہے کہ میں خراب لکھائی میں تحریر کیا گیا ہوں، لیکن اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، مجھے ایک سپاہی نے لکھا ہے جس نے یہ فن خود ایک خراب قلم سے سیکھا اور سب سے گھٹیا خاکی کاغذ استعمال کیا، لیکن اگر آپ دیکھ سکتے کہ اس کی آنکھوں سے کیسے ایک گرم آنسو نکلا اور مجھ پر آگرا۔ ایک شاندار آنسو، میں اسے احتیاط سے اس کی ماں کے پاس لے جا رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ایک پرجوش استقبال میرا منتظر ہے۔ اس مغرور آدمی کی طرح نہیں جو خدا کا شکر ہے کہ چلا گیا ہے۔ وہ بمشکل اسے دیکھتے ہیں، پھر اسے پھاڑ کر پہلے میز کے نیچے اور پھر کچرے کے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں۔ اس مکتوب نگار کی ماں میرے ہر ہر لفظ پر گرم آنسو بہائے گی۔ وہ مجھے ہزار بار پڑھے گی، ہزار بار پیار سے اپنے سینے سے لگائے گی، پھر وہ مہربان ماں مجھے اپنے سینے میں چھپالے گی۔ اوہ یہ بے صبرا ڈاکیا! …. مجھے کتنی جلدی لے جارہا ہے۔“

    ”تم کہاں جا رہے ہو اور تم میں کیا لکھا ہے؟“ متجسس کولیا کے خط نے اپنے نئے پڑوسی سیاہ مہر والے خط کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: ”میری مہر کے رنگ سے اندازہ کرو۔ “اس نے جواب دیا۔ ”تم دیکھ رہے ہو کہ میں ایک افسوسناک خبر لایا ہوں۔ غریب لڑکا جو ہسپتال میں ہے مجھے پڑھ کر جانے گا کہ اس کا باپ مرگیا ہے۔ میں بھی آنسوؤں میں بھیگا ہوا ہوں، لیکن یہ خوشی کے آنسو نہیں ہیں۔ میں ایک عورت کے کانپتے ہاتھ سے لکھا گیا جس نے اپنے پیارے شوہر کو کھو دیا ہے، ایک ماں کا ہاتھ جو اپنے بیمار بیٹے کو بتا رہا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو کھو دیا ہے۔ بیچارہ وانیا! وہ اس جاں گسل خبر کو کیسے برداشت کر پائے گا؟ میں تصور کرتا ہوں کہ جب وہ میری منحوس مہر کو دیکھے گا تو کتنا خوفزدہ ہوگا، جب وہ مجھ میں لکھی خوفناک خبر پڑھے گا تو وہ کتنا کانپے گا، کیسے تکیے پر منہ کے بل گرے گا اور آنسو بہائے گا۔ آہ! اس طرح کی خبروں کے ہمراہ جانے سے بہتر ہے کہ میں زمین میں دفن ہوجاؤں۔ “

    کسی تعلیمی ادارے کے قریب رک کر ڈاکیے نے اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈالا اور کالی مہر والا اداس خط نکال لیا۔ کولیا نے اپنے آپ کو ایک نئے پڑوسی کے ساتھ پایا جو بالکل مختلف نوعیت کا تھا۔

    ”ہاہاہا۔ ۔ ۔ ۔ “ اس نے کولیا کے خط کا قہقہہ لگا کر جواب دیا۔ ”کاش تم کو معلوم ہوتا کہ مجھ میں کیا مزاحیہ باتیں لکھی گئی ہیں؟ میرا مکتوب نگار ایک خوش مزاج آدمی ہے۔ میں جانتا ہوں جو مجھے پڑھے گا وہ ضرور ہنسے گا۔ اگرچہ مجھ میں تمام الم غلم باتیں لکھی ہوئی ہیں، لیکن وہ سب مضحکہ خیز ہیں۔ “

    دوسرے خطوط نے بھی ان کی گفتگو سن کر اس میں فرداً فرداً حصہ لیا۔ ہر کوئی اس بات کا اظہار کرنے کی جلدی میں تھا کہ وہ کیا خبر لے جارہا ہے۔

    ’’میں ایک امیر سوداگر کے لیے خبر لا رہا ہوں کہ اس کا سامان گراں قدر نرخوں پر فروخت ہوا ہے۔ “

    ”میں دوسرے کو بتا رہا ہوں کہ وہ دیوالیہ ہو گیا ہے۔“

    ”میں واسیا کو سرزنش کرنے جا رہا ہوں کہ اس نے اتنے عرصے سے اپنے والدین کو خط کیوں نہیں لکھا۔“

    بہرکیف وہ سب خطوط ڈاکیے کے تھیلے میں آپس میں باتیں کرتے رہے۔ اس دوران وہ سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا رہا اور خوشی اور غم، ہنسی اور اداسی، محبت اور غصہ، دوستی اور نفرت، سچ اور جھوٹ، اہم اور احمقانہ خبریں، اور بے روح جملے گھر گھر پہنچاتا رہا۔

    آخر کار کولیا کے خط کی باری بھی آگئی۔ ڈاکیے نے چوکیدار کو، چوکیدار نے نوکرانی کو، نوکرانی نے بوڑھی دادی کو خط دیا، جو کھڑکی کے پاس بیٹھی تھیں اور آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک لگائے جرابیں بن رہی تھیں۔ دادی نے خط کھولا، ایک خالی شیٹ نمودار ہوئی، انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا احمقانہ مذاق کس نے کیا ہے۔

    (روسی ادب سے ترجمہ)

  • بد قسمت(غیرملکی ادب سے منتخب افسانہ)

    بد قسمت(غیرملکی ادب سے منتخب افسانہ)

    وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی بدقسمت بھی۔ کم از کم اپنی نظروں میں۔ اس کا شوہر اچھے عہدے پر فائز تھا۔ وہ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی ماں تھی۔ بظاہر کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ لیکن اسے ہمیشہ اپنی کم مائیگی کا احساس رہتا۔ یہی سوچتی کہ اگر تھوڑا سا پیسہ اور آ جائے تو زندگی بن جائے۔ اس کے سر پر بس یہی ایک دھن سوار ہتی۔ ”پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے۔“

    ”امی ہمارے پاس کار کیوں نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ انکل آسکر سے لفٹ کیوں مانگتے ہیں۔“ ایک دن پال، اس کے سات سال کے بیٹے نے ماں سے سوال کیا۔

    ”اس لئے بیٹا کہ ہمارے پاس جتنا ہونا چاہیے اتنا پیسہ نہیں ہے۔“

    ”وہ کیوں؟ “

    ”اس لئے کہ ہم بد قسمت ہیں۔“

    ”لیکن امی میں توخوش قسمت ہوں۔“

    ماں نے پیار اور تجسس بھری نظروں سے پال کو دیکھا اور پوچھا کہ اسے کیسے معلوم ہے کہ وہ خوش قسمت ہے۔

    ”اس لئے کہ مجھے خدا نے خود بتایا ہے“

    ”ضرور بتایا ہوگا بیٹا“

    ماں نے مصنوعی مسکراہٹ سے جوا ب دیا۔ اس مسکراہٹ میں ایک تلخی شامل تھی۔ بیٹے کو احساس ہو گیا تھا کہ ماں نے اس کا دل رکھنے کو اس کی بات سے اتفاق کیا ہے۔ جس پر اسے دکھ بھی ہوا اورغصہ بھی آیا۔ وہ مزید بات کیے نرسری میں چلا گیا جہاں اس کی چھوٹی جڑواں بہنیں گڑیوں سے کھیل رہی تھیں۔

    نرسری میں اس کا پسندیدہ کھلونا رکھا تھا۔ یہ کھلونا لکڑی کا ایک گھوڑا تھا اتنا بڑا کہ بچے اس پر سواری کر سکیں۔ سموں کے نیچے کمان دار لکڑی لگی ہوئی تھی جس سے تیز تیز جھولے آتے۔ پال غصے میں گھوڑے پر بیٹھ کر زور زور سے جھولے لینے لگا۔

    ماں کی باتیں سن سن کر پال اس فکر میں رہتا کہ وہ اپنی ماں کی قسمت کو کیسے بدل سکتا ہے۔ اکثر سوچتے سوچتے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا جنوں جھلکنے لگتا۔ وہ کاٹھ کے گھوڑے سے پر اسرار آواز میں مخاطب ہو کر اس سے کہتا۔

    ”مجھے وہاں لے چل جہاں اچھی قسمت ملتی ہے۔ “

    ایک دن وہ اسی جنونی کیفیت میں گھوڑے کو دڑکی لگوا رہا تھا کہ اس کی ماں اور ماموں، انکل آسکر، کمرے میں داخل ہوئے۔

    ”پال اب تم اس کھیل کے گھوڑے کے لئے کچھ بڑے نہیں ہو گئے؟ “ انکل آسکر نے پوچھا۔
    پال نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    ”تمہارے اس گھوڑے کا نام کیا ہے؟ “

    ”اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ کل اس کا نام گڈ لک تھا۔ اور اس سے پہلے ہفتے میں گولڈن ایرو۔“

    ”یہ تو اسکاٹ ریس کورس میں دوڑنے والے گھوڑوں کے نام ہیں۔ تمھیں یہ نام کیسے معلوم ہوئے؟“

    ”مجھے مالی نے یہ نام بتائے ہیں۔“ پال نے جواب دیا

    مالی کو انکل آسکر نے پال کے والدین کے پاس ملازم رکھوایا تھا۔ مالی ریسز کا شیدائی تھا۔ اسے اکثر گھوڑوں کے شجرے زبانی یاد ہوتے تھے۔ پال کی ماں اور انکل آسکر کو فکر ہوئی کہ کہیں مالی بچے کو بگاڑ تو نہیں رہا۔ وہ مالی کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ وہ پال سے کیا گفتگو کرتا ہے۔

    مالی نے بتایا کہ پال فارغ وقت میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھ کر گھوڑوں کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ انکل آسکر نے پوچھا کہ کہیں پال اپنا جیب خرچ گھوڑوں پر تو نہیں لگاتا۔ لیکن مالی نے کہا کہ سرکار میں گستاخی نہیں کر سکتا مگر یہ بات اگر آپ ماسٹر پال سے خود ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔

    اگلے دن انکل آسکر نے پال کو اپنی نئی گاڑی میں بٹھایا اور لمبی ڈرائیو کے لئے لے گئے۔ انکل آسکر نے پوچھا کہ اس نے کبھی گھوڑوں پر شرط لگائی ہے؟ جب پال نے جواب دینے میں کچھ تامل کیا تو انکل آسکر نے کہا کہ وہ خود ریسز کے شوقین ہیں اور دراصل پال سے پوچھنا چاہتے تھے کہ اگلے ہفتے اسکاٹ کی ریس میں کس گھوڑے کے جیتنے کی امید ہے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پال نے بتایا کہ وہ اور مالی پارٹنر شپ میں شرطیں لگاتے ہیں اور اس کے خیال میں اگلی ریس میں ڈیفوڈل کی جیت یقینی ہے۔

    ”ہم کافی عرصے سے پارٹنرز ہیں۔ میں اپنا جیب خرچ مالی کو دے دیتا ہوں اور وہ میری طرف سے شرط لگاتا ہے۔“

    پال کبھی ریس کورس نہیں گیا تھا۔ انکل آسکر نے پال کو اگلی ریس میں ساتھ لے جانے کا وعدہ کیا جس میں ڈیفوڈل دوڑ رہا تھا۔ انکل آسکر نے پال کے اصرار پر پانچ پاؤنڈ ڈیفوڈل پر اور بیس دوسرے گھوڑوں پر لگائے۔ پال نے تین سو ڈیفوڈل پر لگا دیے۔ خلافِ توقع ڈیفوڈل جیت گیا۔

    ”تم ان تین ہزار پاوْنڈ کا کیا کرو گے؟ “ انکل آسکر نے پوچھا۔

    ”میں سب پیسے مالی کے پاس جمع کرا دیتا ہوں۔ یہ ملا کر اب اس کے پاس پانچ ہزار پاونڈ ہو جائیں گے۔ “

    اگلے ہفتے انکل آسکر نے پال اور مالی سے دوبارہ اس بات پر گفتگو کی اور پال سے پوچھا کہ اسے کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا گھوڑا جیتے گا۔

    پال کی بجائے مالی نے جواب دیا۔ ”سر یوں لگتا ہے جیسے ماسٹر پال کوکسی غیبی طاقت کی طرف سے اشارے ہوتے ہیں۔ “

    اب انکل آسکر نے بھی اس پارٹنر شپ میں شرکت کر لی تھی۔ اس کے بعد اگلی ریس میں پال نے ہزار، مالی نے پانچ سو اور انکل آسکر نے دو سو پاؤنڈ ایک اور گھوڑے پر لگائے جس کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ لیکن وہی گھوڑا اوّل آیا اور پال دس ہزار پاؤنڈ جیت گیا۔

    ریس کے بعد انکل آسکر نے ایک اندیشے کا اظہار کیا۔ ”دیکھو بیٹا سچی بات یہ ہے کہ مجھے اب کچھ گھبراہٹ شروع ہو گئی ہے۔ اس عمر میں تم اتنے پیسے کا آخر کیا کرو گے؟ “

    ” میں یہ سب صرف اپنی امی کے لئے کر رہا ہوں۔ اور شاید اسی بہانے وہ خوفناک آوازیں بھی بند ہو جائیں۔“

    ”کون سی خوفناک آوازیں؟ “

    ”مجھے یوں لگتا ہے جیسے گھر کی دیواروں سے آوازیں آ رہی ہوں۔ بد قسمت، بد قسمت، پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے۔ یہ آوازیں مجھے پاگل بنا رہی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ امی کو اتنا پیسہ مل جائے کہ وہ اپنے آ پ کو بد قسمت سمجھنا بند کر دیں۔ اور یہ آوازیں آنی بھی بند ہو جائیں۔“

    ” تو پھر تم اب کیا کرنا چاہتے ہو پال؟“

    ”میں امی کو یہ رقم دینا چاہتا ہوں لیکن بغیر بتائے۔

    پال نے دس ہزار پاؤنڈ انکل آسکر کو دے دیے جو اس نے فیملی اٹارنی کو اس ہدایت کے ساتھ دیے کہ وہ دینے والے کا نام نہ بتائے۔ صرف یہ کہے کہ ایک دور کے رشتے دار نے یہ رقم چھوڑی ہے اور وہ اگلے دس سال تک اپنے یوم پیدائش پر ایک ایک ہزار پاؤنڈ وصول کرتی رہے گی۔

    وکیل نے اہل خانہ کو اکٹھا کر کے یہ ہدایات دہرائیں۔ لیکن پال نے محسوس کیا کہ اس کی ماں کچھ خوش نہیں تھی۔ وہ مقروض تھی اور چاہتی تھی کہ اسے ساری رقم یک مشت مل جائے۔ کچھ دن کے بعد وکیل نے سب پیسے اس کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیے۔

    اب اچانک گھر کے حالات میں ایک خوش گوار تبدیلی آئی۔ مخملیں پردے، نئے صوفے، ڈائننگ سیٹ، حتیٰ کہ ایک نئی کار تک آ گئی۔ گھر سے ”بد قسمت۔ پیسہ کہاں سے آئے“ کی آوازیں بھی ختم ہو گئیں۔

    لیکن پل جھپکنے میں ماں کی فضول خرچیوں میں سب پیسہ ختم ہو گیا اور پھر سے قرض پر نوبت آ گئی۔ وہی آوازیں دو بارہ آنی شروع ہو گئیں۔ لیکن اب وہ اور بھی زیادہ بھیانک ہو گئی تھیں۔

    اب پال کی بڑی بڑی نیلی آنکھوں سے وحشت ٹپکنے لگی تھی۔ آوازوں سے بچنے کے لئے پال اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا لیکن آوازیں ایسے گونجتیں کہ لگتا تھا اس کا سر پھٹ جائے گا۔

    ڈربی کی ریس چند ہفتوں میں ہونے والی تھی۔ یہ انگلینڈ کی بہت بڑی ریس سمجھی جاتی تھی۔ پال کے سر پر اس ریس کی دھن سوار تھی۔ ماں حیران تھی کہ ڈربی کی ریس میں ایسی کیا خاص بات ہے جس کا پال اتنی شدت سے انتظار کر رہا ہے۔

    پال کے ریس جیتنے کے راز میں ایک اور راز پوشیدہ تھا جو اس نے نہ تو مالی کو بتایا تھا نہ انکل آسکر کو۔

    جب پال ذرا بڑا ہوا تو نرسری سے اس کا بستر ایٹک میں پہنچا دیا گیا تھا۔ پال نے اصرار کیا کہ وہ لکڑی کے گھوڑے کو بھی اپنے نئے کمرے میں لے جائے گا۔ انکل آسکر اور مالی سمجھتے تھے کہ پال کو کوئی غیبی اشارہ ہوتا ہے جس سے اسے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا گھوڑا جیتے گا۔ لیکن ہوتا یہ تھا کہ پال جب گھوڑے پر بیٹھتا تو اس پر جیسے کسی آسیبی قوت کا غلبہ ہو جاتا۔ اس کی آنکھوں میں ایک وحشت چھا جاتی۔ چہرہ اور بال پسینے سے تر ہو جاتے۔ وہ اس فرضی سواری پر پورا زور لگا کر نڈھال ہو جاتا۔ گھوڑے کو چابک مارتا اور اسے تیز دوڑنے کی شہ دیتا اور ریس میں دوڑنے والے گھوڑوں کے نام دہراتا رہتا۔ ایک ایک کر کے باقی نام غائب ہو جاتے صرف ایک نام رہ جاتا۔ وہی گھوڑا ریس جیت جاتا تھا۔

    ماں کے ساری رقم لٹانے کے بعد سے پال بہت پریشان رہنے لگا تھا۔ وہ کسی بات کا جواب نہ دیتا۔ اس کی نظریں دور افق کے پار دیکھتی رہتیں۔ اس کی ماں کا فکر سے برا حال تھا۔ وہ پال کی وجہ سے اب ہر وقت ذہنی اذیت میں مبتلا رہنے لگی تھی۔

    ڈربی سے ایک رات پہلے وہ ایک ڈانس پارٹی میں گئی ہوئی تھی۔ آدھی رات کو جب پارٹی عروج پر تھی اس پر اچانک جیسے اضطراب کا دورہ پڑا۔ گھبرا کر اس نے گھر فون کیا جہاں آیا بچوں کی نگہبانی کر رہی تھی۔ آیا نے بتایا کہ وہ دونوں چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ ہے جو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ پال کافی پہلے سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔

    پارٹی ختم ہونے میں ابھی دیر تھی لیکن ماں نے شوہر سے کہا کہ وہ ابھی گھر جانا چاہتی ہے۔ گھر پہنچتے ہی اس نے دبے پاؤں پال کے کمرے کا رخ کیا۔ جب وہ ایٹک جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اسے کچھ عجیب سی آوازیں پال کے کمرے سے آتی سنائی دیں۔ اس نے دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو لگا جیسے کوئی بھاری بھاری سانس لے رہا ہے اور ایک ہی لفظ دہرائے جا رہا ہے۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ کھڑکی کی روشنی میں اسے ایک سایہ سا نظر آیا۔

    یہ سایہ لکڑی کے گھوڑے کا تھا جس پر پال سوار تھا۔ ماں کا دل خوف اور تجسس سے ایسے دھڑک رہا جیسے پھٹ جائے گا۔ اب اس نے دروازہ پورا کھول دیا لیکن پال کو کچھ احساس نہیں ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ ماں نے بجلی کا سوئچ آن کیا اور روشنی میں دیکھا کہ پال پسینے میں شرابور گھوڑے پر بیٹھا جیسے اسے سر پٹ دوڑا رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں لگام اور دوسرے میں چابک جس کو وہ پوری قوت سے گھوڑے کی گردن پر مار رہا تھا۔

    اس کی زبان پر صرف ایک لفظ کی تکرار تھی ”مالا بار، مالا بار، مالا بار۔“ ماں لپک کر پال کی طرف بڑھی۔ جیسے ہی اسے ہاتھ لگایا، پال ایک پتھر کی طرح فرش پر گر پڑا۔ ماں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن اٹھا نہ سکی۔ ہولناک چیخ سن کر شوہر کمرے میں آیا اور پال کو اٹھا کر بستر پر لٹا دیا۔

    ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ پال بخار میں تپتا رہا۔ ماں باپ گیلی پٹیاں اس کے ماتھے پر رکھتے رہے۔ انکل آسکر کو فون کیا۔ ڈاکٹر کو بلایا لیکن بخار کی تپش ویسی ہی رہی۔ دوپہر کے وقت پال نے پھر مالا بار، مالا بار، مالا بار کی رٹ شروع کر دی۔ اتنے میں مالی خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے سرگوشیوں میں انکل آسکر کو بتایا کہ مالا بار جیت گیا ہے اور ایک کی بازی پر بیس کے حساب سے پال کو شرط پر بیس ہزار پاؤنڈ ملے ہیں۔

    پال کی آنکھیں بند تھیں لیکن وہ ماں سے مخاطب تھا۔ ”امی، مالا بار ڈربی جیتے گا۔ وہ پہلے نمبر پر آئے گا۔ سب سمجھ رہے ہیں اس کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس پر بہت کم لوگ پیسے لگائیں گے۔ اس لئے مالا بار کی جیت کا انعام بہت بڑا ہو گا۔ میں نے اس پر ایک ہزار پاؤنڈ لگائے ہیں۔ امی اب آپ کو پیسے کی کوئی فکر نہیں رہے گی۔ اب بد قسمت۔ بد قسمت۔ پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے کی خوفناک آوازیں آنی بند ہو جائیں گی۔ اب مکان خاموش ہو جائے گا۔ آپ خوش قسمت ہو جائیں گی امی۔ آپ کی قسمت جاگ جائے گی۔ اب آپ کو پیسے کی کمی نہیں رہے گی۔“

    یہ کہ کر نئی نئی دولت مند لیکن بد قسمت ماں کے بیٹے نے آخری سانس لی اور ماں کے بازؤں میں دم توڑ دیا۔

    (ڈی ایچ لارنس کی کہانی کا ترجمہ از شاہد اختر)

  • پھسلتے ہوئے چہرے (عالمی ادب سے منتخب افسانہ)

    پھسلتے ہوئے چہرے (عالمی ادب سے منتخب افسانہ)

    اگر یہ بات اصولی طور پر تسلیم کر لی جائے کہ محبت کرنا، محبت کیے جانے سے بہتر ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ کامیاب ترین قسم کی محبت وہ ہے جس کی جوابی کارروائی کی کوئی توقع ہو نہ امید، یعنی یک طرفہ محبت اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس سے مزید استخراج یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہماری محبت کے لطیف ترین جذبات صرف ایسے چہروں کے لیے ہونے چاہئیں جن سے ہماری کبھی ملاقات ہی نہ ہو سکتی ہو یا ہم ان سے گفتگو نہ کر سکتے ہوں۔

    بازار سے گزرتی ہوئی مناسب خد و خال والی لڑکی کا وہ خوبصورت چہرہ جو ایک جھلک دکھا کر بھیٹر میں گم ہو جاتا ہے یا ریلوے اسٹیشن پر کھڑی گاڑی کی کھڑ کی سے جھانکنے والی لڑکی یا بس کے سفر میں برابر والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی کسی نو خیز کلی کا عکس ذہنوں پر مرتسم ہو کر رہ جاتا ہے جس کے پارہ پارہ بدن سے بجلیاں چمک رہی ہوتی ہیں لیکن افسوس کہ اس سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ چند منٹ میں بس سٹاپ آ جائے گا اور وہ اتر کر کہیں کھو جائے گی۔ وہ آنکھیں دوبارہ نہیں آئیں گی۔ وہ چہرہ بھی اور وہ بدن بھی دکھائی نہ دے گا۔ کبھی دکھائی نہ دے گا۔

    وہ بھی یقیناً ایک ایسی ہی اچانک ملاقات تھی جس نے ہیری کی کہانی کو جنم دیا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ہیری نے اس لڑکی کو یخ بستہ فضاؤں میں برف پر اسکیٹنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا اور پھسلتی ہوئی اس لڑکی کی جھلک دیکھتے ہی وہ خود بھی پھسل گیا تھا۔ یہ اوائلِ جنوری کی خنک دو پہر تھی جب ہیری سیرِ تنہائی سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ ہاگا کے علاقے میں سفید قالینوں نے زمین کو پوری طرح ڈھانپ رکھا تھا اور ہر طرف نوجوانوں کے گروہ لکڑی کے لیے لمبے جوتے پہنے مناسب ڈھلوانوں پر اسکیٹنگ میں مشغول تھے۔ سورج دن کا طویل سفر طے کرنے کے بعد اب خاصا تھک چکا تھا اور دور افق کے دامن میں شب بسری کے لیے مناسب جگہ تلاش کر رہا تھا۔ نوجوان لڑکے اور من چلی لڑکیاں اس ابدی توانائی کی آخری کرنوں سے زندگی کی خوشیاں نچوڑتے ہوئے ہنسی خوشی اپنے اپنے کھیل میں مصروف تھیں۔ ہیری بھی ان کھلی فضاؤں میں گہرے گہرے سانس لیتا ہوا آہستہ آہستہ ٹہل رہا تھا۔ گردن گھما کر سورج کی جانب آخری مرتبہ دیکھتے ہوئے ہیری نے سوچا کہ زمین پر تمام رنگ روشنی کے دم قدم سے ہیں اور پھر اسے محسوس ہوا کہ لوگ بھی انسان نہیں بلکہ چلتے پھرتے سائے ہیں جو سورج غروب ہوتے ہی اپنے اپنے سایوں کی طرح غائب ہو جائیں گے۔

    نگاہیں نیچی کیے ہیری ابھی انہی خیالات میں مگن تھا کہ اچانک اسے اپنے قدموں میں ایک اجنبی سا سایہ دکھائی دیا اور پھر یہ سایہ اس کے اپنے سائے کے متوازی تیز تیز آگے کی جانب دوڑنے لگا۔ ہیری لمحے بھر کو چونکا اور اس نے مڑ کر سورج دیوتا کی جانب دیکھا جو اس کی پشت پر تھا اور اپنی زرتشتی روشنی سے ایک سائے کو آگے کی جانب دھکیل رہا تھا۔ ہیری کی نگاہیں پل بھر کو اس سائے کی مالکہ کی نظروں سے ٹکرائیں اور ابھی وہ اس لمحے سے پوری طرح حظ اندوز بھی نہ ہو پایا تھا کہ خوب صورت چہرہ اس کی نگاہوں سے پھسل مسل کر اس کے شعور کی حدوں کو چھونے لگا۔ اسکیٹنگ بھی عجیب دلچسپ کھیل ہے۔ بعض اوقات تو اسکیٹر سلوموشن میں اپنی ٹانگوں کو حرکت دیتا ہے لیکن اکثر اوقات لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ہوا ہو جاتا ہے۔ ہیری نے بھی آگے نکل جانے والے نسوانی سائے کے تعاقب میں اپنی رفتار تیز کر دی لیکن آہ بیچارہ ہیری! جسے بس کے سفر کا بھی کوئی خاص تجربہ نہ تھا، اسکیٹنگ کے پیچیدہ عمل سے کیسے واقف ہو سکتا تھا۔ اس ایک لمحے کے انمٹ نقوش، اُس کے ذہن پر ثبت ہو چکے تھے اور اب وہ دیدار کی بجائے حسرت دیدار کا مرقع بنا کھڑا تھا۔

    جذب ہوتے ہوئے سایوں کے عکس اس کی نگاہوں میں آہستہ آہستہ دھندلانے لگے اور اس کے تپتے ہوئے جسم سے نکلنے والی ٹھنڈی آہیں خنک موسم سے ہمکنار ہونے لگیں۔

    وہ کیا شے تھی جو ابھی ابھی اُس کے قریب سے گزری تھی۔ حسنِ مجّسم، تصورات کی دیوی، اس کے علاوہ اور کوئی لفظ صحیح مفہوم ادا نہیں کر سکتا۔ اس کے ہونٹ، آنکھیں، پیشانی، بال بلکہ جسم کے تمام اعضا ہی تکمیل کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ اس نے سوچا کیا اس کی نظریں آرٹ کے اس نادر نمونے کو پھر کبھی نہ چھو سکیں گی۔

    کیا تمام عمر بس اسی عکس پر گزارا کرنا پڑے گا جو اس کے ذہن پر مرتسم ہو چکا ہے۔ سوچتے سوچتے اسے ایک شدید دھچکا لگا، مایوسی کے عالم میں اس نے اپنے ارد گرد کے ماحول پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی، وہ کب کی گزر چکی ہے اور وہ کب کا یہاں کھڑا ہے، اُسے کچھ یاد نہ تھا۔ خوف کے پھیلتے ہوئے سائے ہیری کی سوچوں کو منجمد کرنے لگے اور اگلے لمحے اُس نے اپنے قدموں کو متحرک محسوس کیا۔ اس نے نیم شعوری حالت میں اس برفانی علاقے کو خدا حافظ کہا اور واپسی کا سفر اختیار کیا۔ ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر بھی اس کے تذبذب میں کمی نہ آسکی۔ احساس شدید تھا اور جذبہ سچا۔ کبھی وہ اپنے کمرے کی تمام روشنیاں گل کر دیتا اور کبھی اسے بقعٔہ نور بنا دیتا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ تنگ آ کر اس نے پرانی وضع کے ایک ایسے ریسٹورنٹ میں جانے کا ارادہ کیا جو اپنی گونا گوں رنگینیوں کے باعث خاصا مشہور تھا۔

    ریسٹورنٹ کے بڑے ہال میں مختلف الاقسام میزوں پر مختلف النوع جوڑے راز و نیاز میں مصروف تھے۔ اس نے بھی اپنے لیے خالی میز کا انتخاب کیا اور آرکسٹرا کی مدھم سروں سے وقت کی رفتار ماپنے لگا۔ سفید وردیوں میں ملبوس بیروں کی ایک ٹیم پورے ہال میں پھیلی ہوئی تھی۔ ان میں سے چند بیروں نے اُس کی میز کا رخ کیا تو اُسے یوں محسوس ہوا جیسے روحیں کفن پہن کر اس کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ساتھ والے میز پر بیٹھا ہوا بوڑھا جوڑا ایام جوانی کی یادداشتیں باآوازِ بلند دہرا رہا تھا۔ گاہے گاہے کھوکھلے قہقہوں اور کھسیانی ہنسی کی آوازیں بھی اس کی سماعت سے آ ٹکراتیں لیکن ان سب رنگینیوں کے باوصف وہ تنہا تھا۔ بالکل تنہا اور خالی۔ اپنے من کے مندر میں مگن۔ بنیادی طور پر وہ رومانوی مزاج کا حامل تو نہیں تھا لیکن آج اسے یہ کیا ہو گیا تھا۔ وہ خود بھی حیران تھا۔ شاعرانہ تخیلات اس کی سوچوں کو مہمیز لگا ر ہے تھے اور وہ نیلی آنکھوں … دراز پلکوں والی اس لڑکی کے بارے میں مسلسل سوچے چلا جارہا تھا جس کا دھنگ رنگ عکس اس کی نگاہوں کی پتلیوں میں ابھی تک رقصاں تھا۔ اس لڑکی نے مجھے حسن کا ایک زندہ معیار دے کر تمام عمر کے لیے حسین لڑکیوں سے محروم کر دیا ہے۔ بلاشبہ تکمیل حسن کا دعوٰی اُسے ہی زیب دیتا ہے۔ دنیا کی کوئی اور لڑکی اس دعوے کی دلیل فراہم نہیں کر سکتی۔ میرے خدا! اب میں کیا کروں۔ کاش میں ہاگا کے علاقے میں نہ گیا ہوتا!!

    پکّی عمر کا ہیری ان سب تو ہمات کے باوجود ناامید ہرگز نہیں تھا۔ عورت ایک ایسی منزل ہے جس کو پانے کے لیے مرد تمام عمر مسافر بنا رہتا ہے۔ "شاید وہ بھی کل صبح کی ٹرین سے مالم جا رہی ہو۔” اس کے ذہن نے مفروضے گھڑ نے شروع کر دیے تاہم یہ طے ہے کہ میں کل صبح مالم ضرور روانہ ہو جاؤں گا اور اب بقایا زندگی۔ یقیناً اس کے تصور میں گزرے گی۔

    دوپہر کو جب گاڑی نارنگ کے پرانے سے بے رونق ریلوے سٹیشن پر رکی تو مسافروں میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ کوئی سوار ہو رہا تھا تو کوئی اپنا سامان اتارے لیے جا رہا تھا۔ ریلوے کینٹین کے ملازم مسافروں کو ان کی مرضی کے کھانے فراہم کر کے اپنی مرضی کے دام وصول کرنے میں مشغول تھے۔ ہیری کو بھوک تو نہیں تھی تاہم لنچ کے نام پر تھوڑا بہت کھا لینے میں کچھ حرج نہ تھا۔ اس نے کھانا منگوایا اور چند لقمے حلق میں دھکیل کر واپس کر دیا۔ گارڈ نے وِسل دی اور گاڑی آہنی سڑک پر آہستہ آہستہ رینگنے لگی۔ ہرے بھرے کھیتوں کے پاس کھڑے ہوئے چند دیہاتی لڑکے ہاتھ ہلا ہلا کر مسافروں کو الوداع کہہ رہے تھے۔ انھیں دیکھنے والے مسافر بھی جواباً اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہرانے لگے۔ ہیری نے زانوؤں پر پڑے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بے بسی کے عالم میں دیکھا اور سوچا ان ہاتھوں کو کیا ہو گیا ہے۔ الوداع کہنے والوں کے جواب میں یہ ہاتھ کیوں نہیں اٹھے۔ یقیناً اب مجھے کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اپنے آپ کو جگانے کے لیے اپنے جسم سے انتقام لینا ہو گا۔ آئندہ سے شراب کی مقدار میں اضافہ تیز، کام کم اور خرچ زیادہ۔ ایسے ہے تو ایسے ہی سہی اور یہ منشور اسی لمحے سے نافذ العمل ہوگا اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔

    ان سنہری اصولوں پر عمل کرنے سے عادت میں کچھ تبدیلیاں تو آئیں گی مگر یہ تبدیلیاں مثبت ہوں گی اور زندگی کا سفر خوب سے خراب کی طرف نہیں خوب سے خوب تر کی طرف ہوگا۔

    ابھی وہ نئے پروگرام کی پہلی ممکن العمل آئٹم کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ ڈبے میں ایک فقیر داخل ہوا اور خیرات کے عوض من کی مرادیں تقسیم کرنے لگا۔ ہیری نے اپنے پروگرام کے آخری حصے "خرچ زیادہ ” کے پیشِ نظر پینٹ کی داہنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جو کچھ ہاتھ لگا وہ فقیر کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ فقیر نے پیسے سمیٹ کر دعاؤں کی ایک طویل فہرست ہیری کے سپرد کی اور زیادہ دیر ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔ ہیر ی اب اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا لیکن چند ہی لمحوں بعد جب گاڑی اسٹیشن پر رکی تو اس کی طبیعت پھر خراب ہونے لگی۔ وہ اسٹیشن پر اتر گیا اور شہر جا کر اپنے چند پرانے دوستوں سے ملا، جنھوں نے اسے اس حالت میں دیکھا تو مصنوعی ذرائع سے خوش کرنے کی کوشش کرنے لگے اور وہ بظاہر خوش نظر آنے لگا۔ پرانے دوستوں سے مل کر کسے خوشی نہیں ہوتی لیکن اندرونی طور پر وہ بالکل نروس ہو چکا تھا اور پوری طرح اعصابی تناؤ کا شکار۔

    اگلی صبح اس نے لندن کے لیے بحری سفر اختیار کیا۔ اس کا خیال تھا کہ شاید ذریعۂ سفر کی تبدیلی سے مزاج میں کچھ خوشگوار تبدیلی آ جائے۔ دراصل وہ ایک ایسا بے وقوف شخص تھا جو لمحے بھر کے لیے دیکھی ہوئی عورت کے بارے میں عمر بھر کے لیے پریشان رہنا چاہتا تھا۔ وہ ایک ایسے جذبے کا اسیر ہو چکا تھا جسے باآسانی دوسرے جذبوں سے تبدیل کیا جا سکتا تھا لیکن یہ بات کم از کم ہیری کے بس میں نہ تھی، وہ بالکل بے بس تھا۔ اس نے بحری سفر اختیار کیا حالانکہ ٹرین کے مقابلے میں بحری سفر کہیں زیادہ بور ہوتا ہے اور کچھ نہیں تو ٹرین میں بیٹھا ہوا آدمی کھڑکی سے باہر جھانک کر ہر آن متحرک اور سرسبز زندگی کا نظارہ تو کر سکتا ہے جب کہ بحری جہاز میں سوائے لہراتے ہوئے نیلے پانی کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ دور دور تک گہرا سمندر اور پانی کو چیرتی ہوئی واحد آواز بحری مسافر کا مقدر ہوتی ہے۔ جہاز کے روانہ ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی۔ ہیری نے مسافروں کی لسٹ اُٹھائی اور حقیقت گزاری کے لیے اسے پڑھنے لگا۔ لسٹ میں درج پہلے نام نے ہی اسے چونکا دیا کیونکہ وہ ایک خاتون کا نام تھا۔ کیا یہ وہی لڑکی تو نہیں؟ ممکن ہے وہی ہو بلکہ یقیناً وہی ہے کیونکہ اس کا ایڈریس بھی ہاگا کا ہے۔ اُس نے لسٹ دوبارہ انکوائری ٹیبل پر رکھ دی اور ایک سگریٹ سلگا کر دھوئیں کے لمبے لمبے کش لینے لگا۔ شدتِ جذبات سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور اگلے چند لمحوں میں کسی کی متوقع آمد سے پریشان کیے جارہی تھی۔

    اب بحری جہاز کی روانگی کا وقت قریب آچکا تھا اور ساحلِ سمندر پر کھڑے مسافر جلدی جلدی جہاز پر سوار ہو رہے تھے۔ اچانک ہیری کی نگاہوں میں ایک بجلی سی چھپکی۔ وہی لڑکی، یقیناً وہی جو گزشتہ کئی دنوں سے اس کے اعصاب پر سوار تھی۔ فرطِ جذبات سے ہیری کا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا۔ بزدل، ڈرپوک، کم گو اور شرمیلے عاشقوں کی طرح ساتھ ہی اُسے اپنے سینے میں سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔

    اس نے کیبن کی دیوار سے ٹیک لگا کر اپنے کپکپاتے ہوئے جسم کو سہارا دیا اور رومان پسندوں کی طرح سوچنے لگا کہ تمام لوگ اُسے دیکھ دیکھ کر ہنس رہے ہیں۔

    وہ چند لمحوں کے لیے جہاز کے ڈیک پر رکی اور ایک لطیف جھٹکے کے ساتھ سَر کے بالوں کو درست کرتے ہوئے جہاز پر چڑھنے لگی۔ اکیلی لڑکی نگاہیں نیچے کیے سب سے الگ تھلگ چلی آ رہی تھی اور پھر وہ جہاز کے پنچ سیلون کی جانب مڑ گئی۔ ہیری بھی آہستہ آہستہ اس کے تعاقب میں ہولیا۔ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بظاہر وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ کسی اور کو تلاش کر رہا ہے لیکن اُس کی نگاہیں بار بار اس مجسم حسن پر آ ٹکتیں۔

    اس نے اس اچانک ملاقات پر اپنے آپ کو مبارک باد دی اور سوچنے لگا کہ اب کامیابی کی دولت یقیناً اس کے قدموں پر نچھاور ہونے والی ہے۔ حسین جسم کا ایک اور نظارہ چرانے کی غرض سے جب ہیری نے نظریں گھمائیں تو یہ دیکھ کر اس کی توانائی سلب ہونے لگی کہ وہ لڑکی اپنی سیٹ پر بیٹھی اُسے گھور رہی ہے۔ لڑکی کا اس طرح دیکھنا اُس کے لیے بے حد پریشان کن ثابت ہوا اور وہ خوفزدہ ہو کر پاس کی ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جہاز اپنی پوری رفتار سے منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ زیادہ سگریٹ پی لینے کے باعث اُسے گلے میں خراش محسوس ہو رہی تھی۔ دماغ میں تھکاوٹ کے آثار بھی نمایاں تھے اور وہ اپنے فطری شرمیلے پن کو کوس رہا تھا۔ اسے اس دوسرے چانس کے مس ہو جانے کا بے حد افسوس تھا۔ کاش اس میں ہمت ہوتی اور وہ بڑھ کر اُس سے گفتگو کر سکتا۔ سمندری لہریں جہاز کو بار بار رقص پر مجبور کر رہی تھیں اور مسافر اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہچکولے کھا رہے تھے لیکن ہیری کا دماغ مناسب بہانوں کی تلاش میں تھا۔ اخبار پڑھتے ہوئے بھی وہ کسی ایسی صورت حال کا متلاشی تھا جس کے باعث بے وقوف بنے بغیر اس کی ایک آدھ مسکراہٹ وصول کر سکے۔ جہاں تک اس لڑکی کا تعلق تھا تو وہ بڑے سکون سے بیٹھی خط لکھنے میں مصروف تھی۔ پنچ سیلون میں بیٹھے ہوئے دوسرے مسافر بھی اپنی اپنی گفتگو میں مگن تھے اور ہیری سوچ رہا تھا کہ اسے گفتگو کا اس سے بہتر موقع پھر کبھی نہیں مل سکتا۔ اب یا کبھی نہیں۔ اس نے حیلے ایجاد کرنے شروع کر دیے اور اپنے آپ سے دریافت کیا۔ کیا یہی وہ لڑکی ہے جس نے مجھے بے وقوف بنا رکھا ہے۔ یہ چاہتے ہوئے بھی کہ میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ اس کی شخصیت میچ نہیں کرتی، میں کچھ نہیں کر سکتا۔ بات کرنے کا کیا ہے میں اس سے بات تو کر لوں لیکن اس کی ضمانت کون دے گا کہ وہ آگے سے میری بے عزتی نہیں کرے گی۔ خدانخواستہ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوگئی تو میں ہمیشہ کے لیے اس تجربے کے حظ سے محروم ہو جاؤں گا جو میرے رگ وپے میں سرایت کر چکا ہے۔ مکمل انکار کے بجائے خوش فہمی میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔ ہیری نے دوبارہ اس لڑکی کو اپنی نگاہوں کا مرکز بناتے ہوئے سوچا۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ انتہائی شائستگی سے پیش آئے اور پھر خیالوں ہی خیالوں میں ہیری کے کانوں نے وہ میٹھی میٹھی گفتگو سنی جو ایسی صورت حال میں متوقع تھی۔

    ہیری ہمت کر کے اٹھا اور لڑکی کی جانب قدم بڑھانے لگے۔ ابھی اس کا چوتھا قدم فرش پر نہ پڑا تھا کہ جہاز نے ایک زبردست ہچکولا لیا۔ اس نے اپنے جسم کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔ جہاز مسلسل طوفانی لہروں کی زد میں تھا اور ہر نیا لمحہ ایک نئے خوف کو جنم دے رہا تھا۔ ہیری نے کھڑکی میں سے باہر کھلے سمندر کی جانب دیکھا اور پھر کیپٹن کی آواز گونجی کہ جہاز ایک بہت بڑے طوفان میں پھنس چکا ہے۔ خوف کا ایک مہیب سایہ اس کے پورے جسم کا احاطہ کر چکا تھا۔ خوف، موت کا خوف۔ وہ جلدی جلدی لنچ سیلون سے نکلا اور اپنے کیبن میں آ گیا جہاں بہت زیادہ آرام تھا۔ چند لمحوں میں وہ سب کچھ فراموش کر چکا تھا اور گہری نیند اس کی آنکھوں میں ڈورے ڈال رہی تھی۔

    بیری جب صبح اٹھا تو اسے ہلکی ہلکی بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ سفر ختم ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا لہٰذا اس نے ناشتے کے لیے لنچ سیلون کا رخ کیا۔ سیلون میں داخل ہوتے ہی یہ دیکھ کر اس کا دل ڈوبنے لگا کہ وہی لڑکی دو نوجوانوں کے درمیان بیٹھی کافی سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ ہیں! یہ کیا کیا، واقعی نہیں، نہیں اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہے؟ جونہی وہ اس ناقابلِ تردید حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لیے واپس مڑا، فضا میں تین قہقہوں کی آواز گونجی۔ وہ لوگ آہستہ آہستہ کچھ گفتگو کر رہے تھے لیکن شور کے باعث مفہوم ہیری کے پلے نہیں پڑ رہا تھا لیکن یہ سب فراڈ ہے۔ ایک فلرٹ ہے، چند ثانیے قبل تو وہ خاموش بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی ہنسنے لگے آخر اس ہنسی کا مطلب کیا ہے۔ سچ ہے محبت صرف دل والوں کا حصہ نہیں اس میں دلیری بھی چاہیے اور میں ٹھہر اطبعاً بزدل۔ ہوئی نا وہی بات جو لوگ باتونی تھے وہ سرِ منزل پہنچ گئے۔

    ہیری اُن دونوں نوجوانوں کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتا ہوا باہر نکل گیا۔ اب وہ آخری تیاریاں کر رہا تھا۔ جہاز ساحل کے قریب پہنچ چکا تھا اور لنگر انداز ہونے ہی والا تھی۔ اس نے جلدی جلدی اپنا سامان وغیرہ پیک کیا اور ایک بیگ بنا کر عرشے پر آگیا۔ زمین کو اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کرنا کتنا خوشگوار ہو سکتا ہے یہ تو بحری سفر کے بعد ہی پتا چلتا ہے۔ ہیری بھی انہی محسوسات کو ذہن میں سمیٹے بیرونی دروازے سے آہستہ آہستہ گزرا اور جب وہ پلیٹ فارم پر مالم کے لیے ٹکٹ خرید نے لگا تو اُسے پھر وہی لڑکی دکھائی دی۔ وہ ایک بوڑھے آدمی کا بازو تھامے آ رہی تھی۔ ہیری ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر کچھ پریشان سا ہوا اس نے اس بوڑھے کو ہوائی جہاز میں تو کہیں نہیں دیکھا تھا پھر یہ کہاں سے آ ٹپکا۔ دوسرے لمحے اس کی پریشانیاں سمٹنے لگیں۔ لڑکی کولھے مٹکا مٹکا کر چل رہی تھی اور اپنی آنکھوں کو ادھر ادھر گھماتے ہوئے ہر بار ہیری کی طرف ضرور دیکھتی تھی۔ اُمید کی معصوم کی کرن ہر لمحے ہیری کو اس لڑکی کے قریب کیے چلی جا رہی تھی تا آنکہ فاصلہ سمٹ کر چند قدموں تک محدود ہو گیا۔ لڑکی نے ہیری کی جانب دیکھا اور پہلی بار دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے میں پیوست ہو گئیں۔ وہ مسکرائی اور ایک محبت بھری مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے دھیمے سروں میں بولی:

    "اوہ سویڈش۔۔۔۔ معاف کیجیے ۔۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے آپ کو ایک مرتبہ ہاگا میں دیکھا تھا۔ آپ سویڈش جانتے ہیں؟ میں نے مالم تک اپنی اور ڈیڈی کی ریزرویشن کرائی تھی لیکن اب ٹکٹیں کہیں کھوگئی ہیں، کیا آپ کچھ رہنمائی کر سکتے ہیں، ہم یہاں بالکل اجنبی ہیں۔“

    یقیناً یقینا ً! ہیری بولا اور اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اسٹیشن پر چمکتے قمقموں کی روشنی کچھ اور تیز ہوگئی اور وہ انہیں اسٹیشن پر کھڑی ہوئی گاڑی کے آخری ڈبے میں لے گیا جہاں اُسے پتا تھا کہ تقریباً تمام سیٹیں خالی ہوتی ہیں۔ انہوں نے لندن تک ایک ساتھ سفر کیا اور راستہ بھر ان کی گفتگو ایک لمحے کے لیے بھی نہ رکی۔

    ہیری اور وہ لڑکی آج کل گزشتہ سات سال سے میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہ رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہیری اب بھی اپنے آپ کو ہی اس افسانے کا ہیرو سمجھتا ہے۔

    (ولیم سیمسن کے اس افسانے کا اردو ترجمہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کیا ہے)

  • موامبا کی یاد

    موامبا کی یاد

    جب سے موسم انتہائی ابرآلود رہنے لگا تھا، جب سے مضحکہ خیز اور نشے کی حد تک مصرف پسند انگریز پورٹ سعید میں اترے تھے، ہمارے لیے دن بہت طویل ہو گئے تھے۔ تب بحری جہاز پر گزارے جانے والے بہت سے دنوں اور ہفتوں کے دوران ایک فضول سی بلاوجہ اداسی اور شوریدگی کی ایک غیر واضح سی عادت کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی سر اٹھانے لگا تھا کہ جیسے دنیا بھر کا سفر کرنے والے بیٹھے بیٹھے ضائع ہونے لگے ہوں۔ میں ان دو یا تین ہفتوں کے بارے میں کبھی سوچوں بھی تو ناخوشی سے اور مجبوری میں ہی سوچتا ہوں۔

    ایک روز ہم ایک بار پھر کچھ کچھ کانپتے، سمندر میں پیدا ہونے والی آوازوں اور انجن کی چھک چھک کو سنتے عرشے پر ادھر ادھر کھڑے تھے۔ آسمان سیسے کی طرح سرمئی رنگ کے روئی جیسے بادلوں کی ایک دوسرے کے بہت قریب تک سرکتی جا رہی ٹکڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ سمندر ہمیں ہر طرف سے اپنے حصار میں لیے ہوئے اور کم آواز تھا، ریت کے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں جیسی اس کی لمبی لہریں دور تک جانے کے باوجود کافی نیچی رہتی تھیں اور وہ ہلکا پیلا اور افسردہ تھا۔

    ہمارے سامنے ایک ڈرم پر موامبا بیٹھا تھا، وہ سیاہ فام جس کا جہاز پر کام یہ تھا کہ وہ بوریت کے اوقات میں داستان گوئی، ہلکے پھلکے مزاح اور شرارتوں کے ساتھ ہماری تفریح کا سامان کرے۔ وہ یہ کام اپنی مضحکہ خیز نیگرو انگریزی میں کرتا تھا، جس دوران وہ جگہ جگہ زبان کی چبھنے والی لیکن دانستہ غلطیاں کر کے اپنے بیان کو بہت دلچسپ بھی بنا دیتا تھا۔ وہ بیٹھا ہوا سگار پی رہا تھا اور جہاز کے انجن کی چھک چھک سے ہم آہنگ ہو کر دائیں بائیں جھومتا، اپنی آنکھیں گھماتا، چھوٹے چھوٹے حصوں میں اپنا پرجوش بیان جاری رکھے ہوئے تھا۔

    ہر کہانی سنانے کے بعد اسے ایک سگار دیا جاتا، جو دیکھا جائے تو اس کے کام کی کافی اچھی اجرت تھی۔ اس لیے کہ اس کی سنائی ہوئی کئی کہانیاں بالکل دلچسپ نہیں ہوتی تھیں اور کئی مرتبہ تو کوئی اسے سن بھی نہیں رہا ہوتا تھا۔ لیکن پھر بھی بوریت اور بیزاری کا شکار ہو کر ہم سب اس کے قریب جگہ جگہ کھڑے اس کو سنتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔ “اور سناؤ!” ہر چند منٹ بعد ہم میں سے کوئی ایک یہ کہتا اور ایک سگار اس کی طرف بڑھا دیتا۔ “شکریہ، میرے آقا۔ میں سناتا ہوں۔”

    “ایک آدمی تھا، جو بیمار تھا۔ اس کے پیٹ میں درد تھا، دائیں پہلو میں بھی اور بائیں میں بھی۔ وہ بہت تکلیف میں تھا اور بار بار درد سے چیخنے لگتا۔ بڑا شدید درد تھا جو محسوس ہوتا تھا اس آدمی کو۔ پھر ایک دوسرا آدمی اس کے پاس آیا اور اپنے ساتھ دو پاؤنڈ سفید کاڑھا لایا، سؤر کی چربی سے بنا ہوا۔ بیمار آدمی وہ چربی والا کاڑھا پی گیا۔ اس کے بعد اسے متلی ہونے لگی تو اسے قے بھی کرنا پڑی۔ لیکن پھر وہ دوبارہ بالکل صحت مند ہو گیا۔” اس کے بعد موامبا خاموش ہو گیا۔ اس کی کہانی مکمل ہو چکی تھی۔

    “کیا فضول باتیں کر رہے ہو،” ہم میں سے ایک بولا۔ “یہ لو، پکڑو اسے۔ اور اب ہمیں کوئی ڈھنگ کی بات سناؤ، تمہاری اپنی، کوئی مزیدار سی بات، سمجھے کہ نہیں؟”

    “ٹھیک ہے۔ میں سناتا ہوں۔ طویل عرصہ پہلے، جب میں ابھی ایک برا انسان تھا۔ میں نے، موامبا نے، کچھ برے کام بھی کیے تھے۔ اب موامبا ایک اچھا انسان ہے، اور سفید فام مردوں کو طرح طرح کی کہانیاں سناتا ہے۔ جب میں ابھی ایک لڑکا ہی تھا، تو میں نہ تو چکی میں مکئی پیسنا چاہتا تھا اور نہ ہی بوریاں اٹھانا چاہتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کام کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ میرا باپ مجھ سے مطمئن نہیں تھا اور مجھے کھانے کو کچھ نہ دیتا تھا۔ تب میں گاؤں میں ادھر ادھر گھومتا رہتا اور جو کچھ بھی کہیں سے ملتا، کھا لیتا۔ میں چھپ کر لوگوں کے برتنوں سے میٹھا دودھ بھی پی لیتا تھا یا دیہاتیوں کی بکریوں کے تھنوں سے۔ لوگوں کے برتنوں سے تو میں دودھ بڑی چالاکی سے دور سے ہی پی لیتا تھا۔ میں دودھ کے کسی برتن میں بہت لمبے سے کھوکھلے تنکے کا ایک سرا ڈال کر کہیں قریب ہی چھپ پر بیٹھ جاتا اور دودھ پی جاتا۔ جب میں گیارہ سال کا ہوا، تو میرے باپ نے ایک ایسے چور کے بارے میں کچھ سنا، جو ایک دوسرے گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ بڑا ماہر چور تھا، اپنے پیشے کی مشہور شخصیت، اور میرے باپ نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس چور کے پاس جانا چاہیے اور اس سے اس کے پیشے کے تربیت لینا چاہیے۔ میرا باپ مجھے لے کر اس کے پاس گیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر اس نے مجھے ایک اچھا چور بنا دیا، تو اسے معاوضے کے طور پر رقم بھی ادا کی جائے گی۔ یوں ان کا آپس میں اتفاق رائے ہو گیا، انہوں نے زمین پر تھوکا، ایک دوسرے کو کمر پر تھپکی دی اور مجھے اس آدمی کے پاس ہی چھوڑ دیا گیا۔”

    موامبا کچھ دیر کے لیے رکا اور اپنی ٹانگوں کو کسی جھومتے ہوئے درخت کی طرح دائیں بائیں حرکت دیتے ہوئے ہمیں دیکھنے لگا۔ “آگے!” ہم میں سے چند ایک اس سے اونچی آواز میں مخاطب ہوئے۔ “آپ بھی تو مزید کچھ کیجیے،” وہ بولا اور اس نے اپنا ایک ہاتھ آگے کر دیا۔ اس پر میں نے ایک چھوٹا سکہ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ “شکریہ، میرے آقا! موامبا آپ کا شکر گزار ہے۔ تو میں اس ماہر چور کی کہانی سنا رہا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ بڑا مشہور چور تھا۔ میں اس کے پاس ٹھہر گیا اور وہ مجھے سکھانے لگا کہ چوری کیسے کی جاتی ہے۔ لیکن میں نے اس سے کچھ نیا تو سیکھا ہی نہیں تھا۔ ہم ادھر ادھر جاتے اور چوریاں کرتے۔ لیکن اکثر ہمارے حالات خراب ہی ہوتے اور ہمارے پاس کھانا بھی کم ہی ہوتا۔ ایک بار ہم ادھر ادھر گھوم رہے تھے کہ چلتے چلتے ایک ایسے راستے پر آ نکلے، جو جنگل کو جاتا تھا۔ ہم نے دور سے ایک آدمی کو آتے دیکھا، جس کے پیچھے رسی سے بندھی ایک بکری بھی چلی آ رہی تھی اور رسی کا سرا اس آدمی کے ہاتھ میں تھا۔ ہم اس راستے پر ایک طرف کو ہو کر چھپ گئے تھے۔
    “تب میرے استاد نے ایک آہ بھری اور کہا، اگر یہ بکری کسی طرح مجھے مل جائے۔ لیکن یہ میرے ہاتھ آ کیسے سکتی ہے؟ یہ بکری تو کبھی بھی میری نہیں ہو سکتی! اس پر میں اس کا مذاق اڑانے لگا اور میں نے اسے کہا، یہ تو میں کر دوں گا کہ یہ بکری تمہاری ہو جائے۔ اس بات پر وہ خوش ہو گیا اور اسے کچھ حوصلہ بھی ہو گیا۔ تب میں نے اسے کہا، اس آدمی کے پیچھے پیچھے اس راستے پر چلتے رہو، یہاں تک کہ تم دیکھو کہ وہ اس جانور کو کہیں باندھ کر کھڑا کر دیتا ہے۔ پھر تم اسے چوری کر کے جلدی سے جنگل سے باہر لے جانا۔ استاد میری بات بڑے دھیان سے سنتا رہا تھا۔ اسی وقت میں جنگل میں اندر تک چلا گیا اور وہاں چھپ گیا۔ جب وہ بکری والا آدمی قریب پہنچا، تو میں نے زور زور سے ویسی آوازیں نکالنا شروع کر دیں، جیسی کوئی بکرا نکالتا ہے۔ اس آدمی نے یہ آوازیں سن کر سوچا کہ شاید جنگل میں کوئی بکرا راستہ بھول گیا تھا۔ اس بکرے کو پکڑنے کے لیے اس نے اپنی بکری کو ایک درخت کے ساتھ باندھا اور راستے سے ہٹ کر جنگل کے اندر چلا گیا۔

    “پھر میں نے ممیاتے ہوئے اس آدمی کو تب تک جنگل میں بکرے کی تلاش میں مصروف رکھا، جب تک میرا استاد درخت سے بندھی بکری کھول کر اسے جنگل سے باہر نہ لے گیا۔ اس کے بعد کافی دور ایک جگہ پر میں اپنے استاد اور ماہر چور سے ملا۔ ہم نے بکری کو ذبح کیا اور اس کی کھال اتار لی۔ تب مجھے افسوس ہوا کہ میں نے بکری چوری کرنے کو کام اپنے استاد پر چھوڑ دیا تھا اور اسے خود چوری نہ کیا۔ موامبا جو کچھ کہہ رہا ہے، سب سچ ہے، حرف بہ حرف۔ پھر میرے استاد نے مجھے سامنے دریا کی طرف بھیج دیا تاکہ میں گوشت اور کھال دھو لاؤں۔ تب تک شام ہو چکی تھی اور اندھیرا پھیل چکا تھا۔ میں پیدل دریا تک گیا۔ وہاں میں نے ایک ڈنڈا تلاش کیا اور اسے بکری کی کھال پر اس طرح برسانا شروع کر دیا کہ یوں آوازیں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ ساتھ ہی میں نے زور زور سے چیخ و پکار بھی شروع کر دی تھی۔ کیا آپ سننا چاہتے ہیں کہ موامبا تب کس طرح چیخنے لگا تھا؟ ۔۔ نہیں؟ اچھا ٹھیک ہے!

    “میرے استاد نے میری چیخ و پکار سنی، تو دور سے ہی چلا کر پوچھنے لگا کہ ہوا کیا تھا۔ میں نے اسے جواب تو دیا لیکن ساتھ ہی منت سماجت کرتے ہوئے اس سے مدد کی درخواست بھی کر دی، اونچی آواز میں یہ کہتے ہوئے کہ بکری کا مالک ایک آدمی کو ساتھ لیے وہاں آ گیا تھا اور اس نے مجھ پر حملہ کرتے ہوئے دھمکی بھی دے دی تھی کہ وہ مجھے جان سے مار دے گا۔ ساتھ ہی میں نے بہت اونچی آواز میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میرے استاد کو فوراً میری مدد کو آنا اور مجھے بچانا چاہیے۔ لیکن استاد نے جب میری آواز سنی، تو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ پھر میں بکری کا گوشت اور کھال لے کر اپنے باپ کے پاس گھر چلا گیا۔”
    اس کے بعد موامبا خاموش ہو گیا۔ ہم اس پر دباؤ ڈالنے لگے کہ وہ کہانی سنانا جاری رکھے۔ “مجھے پیاس لگی ہے،” اس نے کہا۔ اس سے ایک وہسکی کا وعدہ کیا گیا تو وہ بولا، “مجھے وہسکی ملے گی۔ میں کہانی کا باقی حصہ سناتا ہوں۔ تو حضرات! اگلے روز وہ ماہر چور ہمارے گھر پہنچ گیا تاکہ میرے بارے میں دریافت کر سکے۔ جب میں نے اسے آتا دیکھا تو میں نے جلدی سے بکری کا خون اپنے چہرے پر ملا اور چٹائی پر لیٹ گیا۔ وہ آیا اور پوچھنے لگا کہ ہوا کیا تھا اور میں کیسا تھا۔ میں نے بھی جی بھر کر شکایتیں کر دیں۔ گوشت تو ہم نے پہلے ہی چھپا دیا تھا۔ میرے باپ نے اسے کہاکہ وہ مجھے دوبارہ اپنے ساتھ لے جائے۔ مگر استاد بولا کہ وہ اس حالت میں نہیں تھا کہ مجھے کھانے کے لیے کچھ دے سکے اور پھر ویسے بھی میں کافی کچھ سیکھ چکا تھا۔ لیکن یہ کہ میں بکری کے معاملے میں اسے دھوکا دے چکا تھا، یہ بات وہ نہیں جانتا تھا۔ میرے باپ نے میری تربیت کرنے پر اسے کچھ رقم ادا کی، لیکن طے شدہ معاوضے سے آدھی۔ بکری کا گوشت اور کھال ہمارے پاس تھے اور میرا استاد واپس اپنے گاؤں چلا گیا۔” “موامبا! کیا یہ کہانی پوری ہو گئی؟” “ہاں، اتنی ہی تھی۔ میں سنا چکا۔ اب مجھے ایک وہسکی ملے گی۔”
    اس طرح سیاہ فام موامبا نے ہمیں کہانی سنائی، جسے ہم نے دھیان سے سنا، تھوڑا سا اس کی اس بکری والی کہانی پر ہنسے بھی اور پھر اسے پینے کے لیے ایک وہسکی بھی دے دی۔ وہ جب اظہار تشکر کے لیے ہمیں دانت نکال کر دیکھتا، اپنا باؤلر ہیٹ سر سے تھوڑا سا اوپر اٹھا کر احترام کا اظہار کرتا اور اپنی زرد اور بھورے رنگ کی دھاریوں والی ٹانگوں سے ڈرم بجانے لگتا تھا، تو بڑا مضحکہ خیز لگتا تھا۔ اس کے جوتے رنگین پٹیوں والے سرخ بادبانی کپڑے کے بنے ہوئے تھے۔ اس نے گھٹنوں سے اوپر تک آنے والی موٹی جرابیں نہیں پہنی ہوئی تھیں۔ مجھے اس کو دیکھ کر اکثر افسوس ہوتا۔ کئی بار تو میں اس کی وجہ سے شرمندگی بھی محسوس کرتا تھا اور تقریباً اتنی ہی مرتبہ مجھے ہم سب کی وجہ سے بھی شرمندگی محسوس ہوتی۔ وہ کئی مرتبہ واضح طور ہر ہم سب ہر ہنستا بھی تھا۔ اے موامبا، میں بعد میں کتنی مرتبہ تمہارے بارے میں سوچتا رہا ہوں۔ میری بے چینی بعد ازاں مجھے مزید کتنی ہی مرتبہ دور پار کے ملکوں میں لے گئی۔ کتنی ہی مرتبہ پھر ایسا بھی ہوا کہ مجھے ایک ہی طرح کی ناامیدی ہوئی؛ جس بیماری کی وجہ وطن بنا ہو، اس کا علاج بار بار کے سفر اور نت نئے اجنبی مناظر کیسے کر سکتے ہیں؟

    ہم نے اپنے نیگرو (تب سفید فام باشندوں کی طرف سے عمومی حقارت کے باعث افریقی باشندوں کو “نیگرو” یا “نِگر” کہہ کر بلایا جانا عام تھا، جو اب بجا طور پر بہت برا سمجھا جاتا ہے: مترجم) کو دیکھ کر اپنے سروں کو تھوڑا تھوڑا آگے کی طرف جھکایا اور ہم میں سے شاید ہر ایک کا دل میں تو اس سے مطلب کچھ اچھا ہی تھا۔ ہم میں سے ہر ایک نے کوشش کی کہ اچھے موامبا کے ساتھ گفتگو میں نفرت کا مظہر کوئی ایسا لہجہ اختیار نہ کیا جائے، جس لہجے میں سفید فام اپنی نوآبادیوں میں سیاہ فام باشندوں سے بات کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے سست ہو چکے ہاتھ پاؤں پھیلا دیے، کبھی کبھی تھوڑا سا عرشے پر ادھر ادھر بے مقصد گھومتے رہے، اپنے ٹھنڈے ہو چکے ہاتھوں کو رگڑتے ہوئے طویل خاموشی سے لیکن عدم اطمینان کی کیفیت کے ساتھ دیر تک اپنے سامنے پھیلی بنجر وسعتوں کو دیکھتے رہے، روئی جیسے نرم بادلوں سے بھرے آسمان کو اور غروب آفتاب کے وقت کسی سرمئی شیشے کی طرح اس ہلکے زرد سمندر کو جو ہمارے سامنے دور تک پھیلا ہوا تھا۔

    (نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب ہیرمان ہَیسے کی برطانوی نوآبادیاتی دور کے عروج پر 1905ء میں لکھی گئی کہانی، جرمن سے براہ راست اردو ترجمہ: مقبول ملک)

  • قرقاش زندہ باد!

    قرقاش زندہ باد!

    عدالت کی کارروائی ایک دورافتادہ گاؤں کے ایک چھوٹے سے کمرے میں شروع ہوئی۔ یہ کمرہ مستطیل شکل کا تھا اور اس میں ایک گول میز اور چند کرسیوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔

    کمرے میں موجود واحد میز پر قرآن مجید اور بائبل کا ایک ایک نسخہ رکھا تھا۔ کمرے کی عقبی دیوار پر پیتل کی ایک تختی آویزاں تھی جس پر جلی حروف میں درج تھا: ”اعلیٰ حکومت کا ایک اصول: عدل اور انصاف۔ “

    اس اجلاس کی کارروائی خفیہ رکھی گئی تھی۔ کمرۂ عدالت میں موجود سبھی مشتبہ لوگ تھے۔ سیکیورٹی زون کے قریب ہونے کی وجہ سے گاؤں کے عام لوگوں میں سے کسی کو یہاں آنے کی اجازت نہ تھی۔ یوں لگتا تھا عدالتی اہل کار حاضرین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔ وہ ایک عربی کہاوت ہے کہ ”تماشائی بھی ایک تماشا ہوتا ہے۔ “ کسی ایک کی مصیبت دوسرے کے گلے بھی پڑ سکتی ہے۔ ملزمان کے نام پکارے گئے:
    ”شلومو بن ہیم! گدالیہ شیمتوو! حاضر ہوں !“

    کمرے میں موجود لوگوں کے لئے یہ خاصی حیرت انگیز بات تھی، اب تک تو یہ عدالتوں میں صرف عربوں کے نام سننے کے عادی تھے اور اب یہاں ایک نہیں بلکہ دو دو ملزم یعنی یک نہ شد دو شد، یہ تو کمال ہوگیا۔

    جج نے ملزمان سے سوال پوچھا: ”تم کہاں سے ہو؟“

    ”گوتاڈا سے“ ملزم نے جواب دیا۔

    ”تمہیں پتہ تو ہے، اس علاقے میں بغیر اجازت کے داخل ہونے کی اجازت نہیں، پھر تم پرمٹ کے بغیر یہاں کیوں آئے؟“ جج نے پھر سوال کیا۔

    ”ہماری گائے گم ہوگئی تھی، اسی کو تلاش کرتے ہوئے غلطی سے اس علاقے میں آگئے ہیں جناب۔ ہمیں خوف تھا، گائے کہیں غلطی سے آپ کے علاقے میں نہ داخل ہو جائے، لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔“ ملزمان نے ایک ساتھ جواب دیا۔

    ”ایک ایک کر کے بات کرو، پہلے تم بولو شلومو! کیا تمہاری گائے دودھ دیتی ہے؟“ جج نے ڈانٹ پلائی۔

    ”بالکل دودھ دیتی تھی جی، اس کا گم ہو جانا بہت نقصان دہ ہے۔“

    ”گائے کے دودھ سے ڈیری کی اشیاء بنتی ہیں، آپ یہ بھی جانتے ہیں، دودھ کے بغیرہمارے بچوں کی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہوگا۔ “

    ”میں سمجھ گیا، مارشل کوڈ کی ساتویں شق کے مطابق عدالت حکومتی قانون کے مطابق گائے کو تو کوئی سزا نہیں دے سکتی البتہ ملزمان کو ان کی ذمہ داریوں سے بری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ “

    ”تمہیں ایک سو پنس جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔“ عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو شلومو اور گدالیہ کے چہروں پرخوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جرمانے کی رقم ادا کرتے ہوئے انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ خفیف اور پراسرار سی مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ اسی دوران عدالتی اہل کار نے آواز لگائی۔

    ”احمد حسین سعید! احمد حسین سعید الفہماوی!“ عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہوئے ملزم کو ہلکی سی ٹھوکر لگی۔ اسے پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

    ”ہاں بھئی! کیاعمر ہے تمہاری؟“ جج نے سوال کیا۔

    ”جی حضور، پندرہ سال۔ “ ملزم کے چہرے پر خوف کے آثار تھے۔

    ”تمہیں ذکرون الیعقوب کے علاقے میں داخلے کی ہمّت کیسے ہوئی؟ کیا تم نے سنا نہیں تھا، دو سال پہلے یہاں تمہارے جیسے ایک مزدور کی آنکھ ضائع ہو گئی تھی، اگر ایسا کوئی حادثہ تمہارے ساتھ بھی پیش آجاتا تو؟“ جج عدالتی اہل کار کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا: ”اس کے باپ کو بلاؤ۔ “ اسّی پچاسی سال کا ایک بزرگ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آگے بڑھا۔ اس سے پہلے کہ وہ عدالت کے کٹہرے میں آکر کھڑا ہوتا، جج نے غصیلے انداز میں سوال کیا: ”تم نے اسے کیوں جانے دیا؟“

    ”میں ایک ضعیف اور معذور آدمی ہوں، میرا خاندان سات افراد پر مشتمل ہے، یہ لڑکا جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، عمر میں سب سے بڑا ہے۔ یہ کام نہ کرے تو گھرکا چولھا نہیں جلتا جناب۔“

    جج نے اس کی بات بڑے غور سے سنی۔ اس کے بعد اس نے حکومتی قانون کی رو سےعدالت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا: ”عدالت سمجھتی ہے کہ ملزم کا باپ بے قصور ہے، اس لئے بیٹے کو چالیس پاؤنڈ جرمانے یا بیس دن قید بامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے“ چاروں طرف خاموشی اور سناٹا چھا گیا۔

    ”خالد قاسم ملاہا حاضر ہو!“ یہ آج کی عدالتی کارروائی میں تیسرا کیس تھا۔ جج نے ملزم کے بجائے اس کے باپ کو آواز دی۔ باپ حاضر ہوا تو جج نے اس سےمخاطب ہوتے ہوئے کہا: ”تمہارا بیٹا پرمٹ کے بغیرحیدرہ میں کیا کرنے گیا تھا؟“

    ”میں ایک معذور شخص ہوں، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں میری ایک ٹانگ نہیں ہے۔ میں کوشش کے باوجود اسے روک نہیں سکتا۔“ باپ نے جواب دیا ”ہاں ہاں، تم اسے کیسے روک سکتے ہو، بالکل سچ کہتے ہو تم، شاباش! اچھا تمہیں چالیس پاؤنڈ جرمانے یا دس دن قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے، ٹھیک؟“

    اس وقت دوپہر کے بارہ بج کر پینتالیس منٹ ہو چکے تھے، جج کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے۔ ”اب ہم ام لقطف کے حسن طاہر حسن کا کیس دیکھیں گے۔“

    ”می لارڈ! میرا گائے کی گم شدگی کا مسئلہ تھا، وہ کہیں کھو گئی تھی۔ “ حسن بولا ”میں اپنے نقصان کے بارے میں پولیس اسٹیشن کے علاوہ اور کہاں شکایت کر سکتا تھا، ہماری آبادی تھانہ کرکور کی حد میں شامل ہے۔ آپ جانتے ہیں، یہ پولیس اسٹیشن ممنوعہ علاقے میں ہے لیکن وہاں جانے کے لئے اجازت نامے کی ضرورت نہیں۔ میں گیا اور وہاں گرفتار کر لیا گیا۔“

    ”تو کیا تمہاری گائے مل گئی تھی؟“ جج نے سوال کیا۔

    ”جی مل گئی تھی، اسے انتظامیہ نے کانجی ہاؤس میں بند کر دیا تھا۔ “ حسن نے جواب دیا۔

    جج نے تھوڑے توقف کے بعد فیصلہ سنایا:”دس دن قید یا بیس پاؤنڈ جرمانہ۔“

    اس سے تو بہتر تھا کہ حسن کی گائے اسے نہ ہی ملتی کیوں کہ اس کی قیمت جرمانے کی رقم سے آدھی تھی، حسن سے کھل کر اپنے غم کا اظہار بھی نہ ہوسکا کیوں کہ یہاں قرقاش کا قانون چلتا تھا۔

    (مصری ادب سے اںتخاب، قرقاش ایک قدیم مصری حاکم جو اپنی ناانصافی کے لیے مشہور تھا اور عوام میں بدنام ہوا)

  • ملکہ اولگا کا انتقام (عالمی ادب سے انتخاب)

    ملکہ اولگا کا انتقام (عالمی ادب سے انتخاب)

    کئی سال پہلے ملک کیف پر ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ اس کا نام اغور تھا۔ وہ ہر وقت سیر و تفریح میں مصروف رہتا تھا۔ اسے ملک کے انتظام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوگ اغور کو بہت ناپسند کرتے تھے۔

    اس کی ملکہ اولگا بہت خوبصورت، عقلمند اور ہوشیار عورت تھی۔ اس نے ملک کا سب انتظام سنبھالا ہوا تھا۔ مظلوم لوگ ظلم و ستم کی فریاد لے کر ملکہ کے پاس پہنچتے۔ وہ ان کی فریاد سنتی، ظالموں کو سخت سزا دیتی اور مظلوموں کو جو نقصان پہنچا تھا اسے خزانے سے پورا کر دیتی۔ وہ غریبوں اور حاجت مندوں کی امداد کرتی رہتی تھی۔ رعایا کے سب لوگ چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، سبھی ملکہ کو بے حد چاہتے تھے۔

    ایک دن بادشاہ اغور شکار کھیلتا ہوا اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور بدقسمتی سے ایک ایسے علاقے میں جا نکلا جہاں ایک دشمن قبیلے ڈرالون کی حکومت تھی۔ یہ وحشی اور جنگجو قبیلہ تھا۔ ان کی گزر اوقات لوٹ مار اور غارت گری پر تھی۔ وہ قافلوں کو لوٹ لیتے یا آس پاس کی بستیوں میں لوٹ مار کر قتل اور غارت گری کرتے۔ ان کی دہشت دور دور تک بیٹھی ہوئی تھی۔ ڈرالون کے سردار نے بادشاہ اغور کو بہت تکلیفیں پہنچائیں۔ آخر اسے مار ڈالا اور لاش کو ایک صندوق میں بند کر کے ملکہ اولگا کے پاس بھیج دیا۔ جب ملکہ نے صندوق کھولا اور لاش کو دیکھا تو اسے بے حد رنج اور شدید صدمہ پہنچا۔ ملکہ اولگا بہت ہمت اور حوصلے والی تھی۔ اس نے اپنے رنج و غم کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ دربار میں موجود سب لوگوں کا یہی مطالبہ تھا کہ بادشاہ کے قتل کا انتقام لیا جائے اور ڈرالون قبیلے کو سخت سزا دی جائے۔

    ملکہ نے بہت تحمل سے جواب دیا، "میرے معزز درباریو! میں بادشاہ کے قتل کا انتقام ضرور لوں گی لیکن میں چاہتی ہوں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی میں ڈرالون والوں سے انتقام بھی لے لوں اور ہمارا کوئی نقصان بھی نہ ہو۔”

    شاہ اغور کو قتل کرنے کے بعد ڈرالون کے سردار کا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ اس نے سوچا اگر میں ملکہ اولگا سے شادی کر لوں تو اس طرح ملک کیف بھی ہمارے قبضے میں آ جائے گا۔ چنانچہ اس نے بیس آدمیوں کا ایک وفد ملکہ اولگا کی خدمت میں بھیجا اور ان کی معرفت شادی کا پیغام ملکہ کو پہنچایا۔ ملکہ اولگا، ڈرالون سردار کی اس جسارت پر بے حد ناراض ہوئی۔ وہ بہت ہوشیار اور عقلمند عورت تھی، اس لیے اس نے اپنے غیظ و غضب کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور بولی، "تم لوگوں نے میرے دل کی بات کہہ دی، میں خود بھی تمہارے سردار سے شادی کرنے کی آرزو رکھتی تھی۔ اب تم اپنے ڈیرے واپس جاؤ۔ کل میں اپنے امیروں اور وزیروں کو تمہارے پاس بھیجوں گی تاکہ وہ تمہیں عزت و احترام سے اپنے ساتھ لائیں۔”

    ملکہ اولگا نے وفد کے سربراہ کو بہت سے تحفے تحائف دے کر ڈرالون سردار کے پاس اسی وقت روانہ کر دیا اور کہلوایا کہ میں شادی کے لیے تیار ہوں۔

    جب ڈرالون والے اپنے ڈیرے پر جا چکے تو ملکہ نے اپنے امیروں اور وزیروں سے کہا، "انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ خبردار، میرے حکم کی تعمیل میں کوئی اعتراض نہ کرنا۔ میں جیسا کہوں ویسا ہی کرنا۔”

    اگلے دن صبح سویرے وزیر اور امیر وفد کے استقبال کے لیے جا پہنچے۔ انہوں نے کہا، "آپ تشریف لے چلیے، ملکہ حضور نے آپ لوگوں کو یاد فرمایا ہے۔”

    ڈرالون کے لوگ وحشی ہونے کے ساتھ ساتھ احمق بھی تھے۔ انہوں نے کہا، "ہم نہ گھوڑوں پر سوار ہو کر جائیں گے اور نہ کسی اور سواری پر بیٹھیں گے۔ ہم تمہارے کندھوں پر سوار ہو کر جائیں گے تاکہ لوگوں پر ہمارا رعب بیٹھ جائے اور وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب ہم ان کے حاکم ہوں گے۔”

    یہ بیہودہ فرمائش سن کر کیف کے امیروں کو بےحد غصہ آیا۔ ایک وزیر نے کہا، "ہماری ملکہ کا حکم ہے کہ ہم آپ لوگوں کو عزت و احترام سے لے کر جائیں۔ اگر آپ لوگوں کی یہ مرضی ہے تو ہمیں آپ کی یہ شرط منظور ہے۔” یہ کہہ کر انہوں نے ڈرالون والوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور محل کی طرف لے چلے۔ جب وہ محل کے نزدیک پہنچے تو ایک دربان انہیں محل کی پچھلی طرف لے گیا۔ وہاں ایک گہرا کنواں کھدا ہوا تھا۔ انہوں نے ڈرالون والوں کو یہاں اتار دیا۔ دربان نے کہا، "ملکہ کا حکم ہے کہ ان معزز مہمانوں کو زندہ دفن کر دیا جائے۔”

    اب ڈرالون والے بہت گھبرائے اور انہوں نے ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کی لیکن ملکہ اولگا کے امیروں نے انہیں دھکیل کر کنویں میں گرا دیا۔
    اس کام سے فارغ ہو کر ملکہ اولگا نے اپنے کچھ ہوشیار امیروں کو ڈرالون کے سردار کے پاس بھیجا۔ انہوں نے سردار کی خدمت میں بہت قیمتی تحفے پیش کیے اور کہا، "ہماری ملکہ کو آپ سے شادی کرنا منظور ہے۔ آپ نے جو لوگ بھیجے تھے وہ ملکہ نے اپنے پاس ٹھہرا لیے ہیں تاکہ وہ آپ کے آداب اور رسوم سے واقف ہو جائیں۔ ہماری ملکہ کی خواہش ہے کہ آپ اپنے اعلی شہہ سواروں، فوجی افسروں اور معزز لوگوں کو بھیجیں تاکہ وہ انہیں دھوم دھام سے یہاں لائیں۔”

    ڈرالون کا سردار یہ خوش خبری سن کر پھولا نہ سمایا۔ اس نے اپنے سب معزز سرداروں، فوجی افسروں، امیروں اور وزیروں کو ملکہ اولگا کے پاس بھیجا تاکہ وہ ملکہ کو شان و شوکت سے اپنے ساتھ لے کر آئیں۔ ملکہ اولگا نے ان لوگوں کی خوب خاطر و مدارت کی۔ اس نے کہا، "معزز مہمانو! آپ لوگ لمبے سفر سے تھک گئے ہوں گے، اس لیے پہلے غسل کر کے اپنے کپڑے تبدیل کر لیجیے۔”

    انہیں غسل کے لیے حمام بھیج دیا گیا۔ یہ گرم حمام یا غسل خانے خاص طرح کے ہوتے ہوتے تھے۔ ان کے فرش کے نیچے دھیمی دھیمی آنچ ہوتی تھی تاکہ غسل خانہ گرم رہے۔

    جب یہ لوگ حمام میں داخل ہوئے تو اس کے دروازے بند کر دیے گئے اور فرش کے نیچے آگ تیز کر دی گئی۔ تھوڑی دیر میں حمام میں سخت گرمی ہو گئی۔ ڈرالون کے لوگ گرمی سے بے تاب ہو کر چیخنے چلانے لگے لیکن کسی نے دروازہ کھول کر نہیں دیا۔ آخر وہ سب لوگ حمام کے اندر دم گھٹ کر مر گئے۔

    اب ملکہ اولگا نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ پہلے اس نے ایک قاصد ڈرالون سردار کے پاس بھیجا۔ اس نے اطلاع دی کہ ہماری ملکہ روانہ ہو چکی ہیں۔ وہ شہر کے باہر قیام کریں گی۔

    پہلے وہ سب سرداروں، معزز لوگوں اور فوج کے سب سپاہیوں کی دعوت کریں گی۔ اس کے بعد وہ ان سب لوگوں کے ہمراہ محل میں داخل ہوں گی۔ شادی کی رسم محل کے اندر ادا کی جائے گی۔

    ڈرالون سردار بہت خوش ہوا۔ جب اسے ملکہ کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ کی ہزاروں بہادر سپاہیوں، سرداروں اور امیروں کے ساتھ ملکہ کے استقبال کے لیے نکلا۔ ملکہ اولگا نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ سردار نے پوچھا، "میں نے جو فوجی افسر اور سردار آپ کے استقبال کے لیے بھیجے تھے وہ کہاں ہیں؟”

    ملکہ اولگا نے کہا، "وہ پورے لشکر کے ساتھ پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔” یہ جواب سن کر ڈرالون کا سردار مطمئن ہو گیا۔

    رات کے وقت ملکہ نے ڈرالون سردار اور اس کے ساتھیوں کی پُرتکلف دعوت کی۔ طرح طرح کے کھانے دستر خوان پر چنے گئے۔ سب لوگوں نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔ اس کے بعد شراب کا دور چلا۔ شراب میں کوئی تیز نشہ اور دوا ملائی گئی تھی۔ اس لیے دو چار جام پی کر سب لوگ مدہوش ہو گئے۔ جب ملکہ کو یقین ہو گیا کہ اب انہیں کسی بات کا ہوش نہیں رہا ہے تو اس نے اپنے سپاہیوں کو اشارہ کر دیا۔ ڈرالون والوں کی یہ حالت تھی کہ وہ بھاگنا چاہتے تھے مگر نشے کی وجہ سے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ اٹھ اٹھ کر گرتے اور گرنے کے بعد پھر اٹھنے کی کوشش کرتے۔ ملکہ اولگا کے سپاہیوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا۔

    ڈرالون سردار کسی نہ کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے ملکہ کی چال بازی کی سب کو اطلاع دی۔ اسی وقت شہر کے سب دروازے بند کر دیے گئے۔ ہر طرف ایک افراتفری مچ گئی۔ لوگ حیران پریشان تھے۔ ان کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟

    ملکہ نے ڈرالون والوں کی قوّت بالکل توڑ دی تھی۔ اب ان میں مقابلے کی سکت بالکل نہ رہی تھی۔ وہ قلعہ بند کر کے بیٹھ گئے۔ ملکہ نے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ اس نے قلعہ فتح کرنے کے لیے کئی حملے کیے، لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکی۔

    آخر ملکہ نے چالاکی سے کام لیا۔ اس نے اپنے سفیر کے ذریعے پیغام بھیجا، "میں نے قسم کھائی تھی کہ میں یہ قلعہ فتح کیے بغیر واپس نہیں جاؤں گی۔ لیکن اگر تم صلح کرنا چاہو تو میں تمہارا قصور معاف کر دوں گی۔ میں تم سے معمولی جرمانہ وصول کروں گی جو تم آسانی سے ادا کر سکتے ہو۔”

    ڈرالون سردار نے کہلوایا، "مجھے صلح کرنی منظور ہے۔ آپ جو جرمانہ طلب کریں گی میں ادا کروں گا۔”

    بچوں کی کہانیاں

    ملکہ نے کہلوایا، "ہمارے ملک میں کبوتر اور چڑیاں نہیں ہوتے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر گھر سے دو چڑیاں اور دو کبوتر بھیجے جائیں۔ میں اس جرمانے کو وصول کر کے واپس چلی جاؤں گی۔”

    ڈرالون سردار نے یہ پیغام سن کر کہا، "یہ کون سی مشکل بات ہے؟ ہم ایسی آسان شرط پر ملکہ سے صلح کرنے کو تیار ہیں۔”

    دو تین دن کے اندر ہر گھر سے چڑیا اور کبوتر اکھٹے کر کے ملکہ کی خدمت میں روانہ کر دیے گئے۔

    ملکہ نے حکم دیا جتنے کبوتر اور چڑیاں ہیں، اتنی ہی لوہے کی چھوٹی چھوٹی سلائیاں تیار کی جائیں۔ ان کے ایک سرے پر روئی کی گولی تیل میں ڈبو کر باندھ دی جائے۔ ان سلائیوں کا دوسرا سرا چڑیاؤں اور کبوتروں کی دموں سے باندھ دیا جائے۔

    سپاہیوں نے ملکہ کے حکم کی تعمیل کی۔ شام کے وقت روئی کی گولیوں میں آگ لگا کر ان چڑیاؤں اور کبوتروں کو چھوڑ دیا گیا۔ پرندوں کے اڑنے سے آسمان پر ایک عجیب قسم کی آتش بازی کا تماشا نظر آیا۔ ڈرالون کے لوگ یہ تماشا دیکھنے کے لیے اپنے کوٹھوں پر چڑھ گئے۔ ہر طرف پھلجڑیاں سی چھوٹ رہی تھیں۔ لوگ اس تماشے کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ ذرا دیر بعد یہ چڑیاں اور کبوتر اپنے اپنے گھونسلے میں جا پہنچے۔

    وہ جہاں پہنچے اور جس گھر میں اترے، اس میں آگ لگ گئی۔ قلعے کے ہر کونے اور آبادی کے ہر گھر سے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ ہر طرف آگ کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس میں جل کر مر گئے۔ لوگوں نے گھبرا کے قلعے کا پھاٹک کھول دیا اور ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ لیکن یہاں ملکہ اولگا کے سپاہی ان کی گھات میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ ہزاروں لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا اور ڈرالون کی پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیا۔ اور ان کے قلعے اور آبادی کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔

    اس طرح ملکہ اولگا نے بادشاہ کے قتل کا انتقام لیا۔ اس پورے معرکے میں اس کا ایک بھی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • معصومیت کا استحصال (غیر ملکی ادب سے انتخاب)

    معصومیت کا استحصال (غیر ملکی ادب سے انتخاب)

    چند دن پہلے کی بات ہے، میں نے اپنے بچّوں کی آیا (یولیا واسیلیونا) کو اپنے دفتر میں مدعو کیا تاکہ اس کی تنخواہ کی ادائیگی کی جا سکے۔

    میں نے یولیا واسیلیونا کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: بیٹھو، تمھیں تنخواہ دینے سے پہلے تمھارے سامنے کچھ حساب رکھنا چاہتا ہوں… تمھیں شاید پیسوں کی ضرورت ہے، لیکن دو ماہ کی میرے ذمہ واجب الادا تنخواہ تم خود مانگتے ہوئے شرماتی کیوں ہو، سنو تمھیں یاد ہے نا کہ تمھیں ملازمت دینے سے پہلے ہم نے اتفاق کیا تھا کہ میں تمھیں ماہانہ تیس روبل ادا کروں گا۔

    یولیا واسیلیونا نے منمناتے ہوئے کہا چالیس روبل…

    نہیں، تیس… یہ دیکھو میرے پاس معاہدے کی تمام دستاویزات موجود ہیں جن پر تم نے انگوٹھا ثبت کر رکھا ہے۔ چالیس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، کیونکہ میں نے خادموں کو ہمیشہ بطور ماہانہ اجرت تیس روبل ہی دیے ہیں… ٹھیک ہے، تم نے ہمارے لیے دو مہینے کام کیا ہے… یولیا واسیلیونا نے کمزور سے لہجے میں کہا دو مہینے پانچ دن۔

    نہیں ٹھیک دو مہینے، یہ دیکھو تمھارا حاضری کارڈ۔ میرے پاس ہر چیز ریکارڈ میں موجود ہے، اس طرح طے شدہ تنخواہ کے حساب سے تو تم ساٹھ روبل کی مستحق ہو۔

    ہم اس میں سے نو اتوار کی چھٹیاں کاٹ لیتے ہیں، کیونکہ اتوار کو کولیا میری بیٹی کی چھٹی ہوتی تھی تو تم اس دن اسے لکھانے پڑھانے کی بجائے صرف اس کے ساتھ صبح اور شام کی سیر کے لیے جاتی تھی۔ پھر تم نے ذاتی کام کاج کے لیے تین دن کی چھٹیاں کی تھیں۔

    یولیا واسیلیونا کا چہرہ بے بسی کے مارے زرد ہوچکا تھا، اور وہ اپنی انگلیوں سے قمیص کے کناروں کو لپیٹ رہی تھی، لیکن اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

    نو اتوار کی چھٹیاں اور تمھاری اپنی تین چھٹیاں کاٹ لیں، تو بارہ ایام کے کل بارہ روبل بنتے ہیں… کولیا چار دن سے بیمار تھی اور اس دوران اسے کوئی سبق نہیں پڑھایا گیا… تم نے صرف وریا کو پڑھایا تھا… اور تین دن تمہارے دانتوں میں درد تھا، اس لیے میری بیوی نے تمہیں اجازت دی کہ دوپہر کے کھانے کے بعد پڑھانے کی بجائے آرام کرو۔

    تو بارہ جمع سات… انیس… کو منہا کیا، بقیہ… اکتالیس ۔۔۔ روبل.. ٹھیک ہے؟ یولیا واسیلیوینا کی بائیں آنکھ سرخ ہو گئی اور آنسوؤں سے بھر گئی، اور اس کے چہرے کے عضلات سکڑ گئے۔ وہ اچانک زور سے کھانسی اور الٹے ہاتھ کی پشت سے ناک کو پونچھا، لیکن… اس نے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکالا۔

    نئے سال کی شام سے پہلے، تم نے ایک کپ اور ایک پلیٹ توڑ دی۔ اس کے لیے زیادہ نہیں میں صرف دو روبل کاٹ رہا ہوں حالانکہ کپ اس سے کہیں زیادہ مہنگا تھا، یہ وراثت میں ملا تھا، لیکن خیر خدا تمھیں معاف کرے! ہمیں ہر چیز کا معاوضہ تو دینا پڑتا ہے… ہاں، اور تمھاری لاپروائی کی وجہ سے، کولیا درخت پر چڑھ گئی اور اس کی جیکٹ پھٹ گئی۔
    قیمتی جیکٹ کے بدلے دس روبل کاٹ رہا ہوں… تمھاری غفلت کی وجہ سے نوکرانی نے وریا کا ایک جوتا چرا لیا، حالانکہ بچوں کے سامان کی حفاظت کرنا تمھارا فرض ہے جس سے تم نے کوتاہی برتی، اور تم اپنا فرض نبھانے کی ہی تنخواہ لیتی ہو۔

    اور اس طرح میں نے جوتوں کے بھی پانچ روبل کاٹ لیے۔ 10 جنوری کو تم نے مجھ سے دس روبل ادھار لیے۔ یولیا واسیلیونا نے سرگوشی کے انداز میں کمزور سا احتجاج کیا: نہیں میں نے نہیں لیے!- لیکن یہ دیکھو اس تاریخ کو میرے حساب میں لکھا ہوا ہے، تم جانتی ہو حساب کتاب میں، مَیں کتنا اصول پسند ہوں۔

    اچھا ٹھیک ہے، لیے ہوں گے ،اب؟

    اکتالیس میں سے، ستائیس کاٹے تو… باقی چودہ بچ گئے ہیں۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور اس کی لمبی، خوبصورت ناک پر پسینے کے قطروں سے موتیوں کی مالا بن گئی تھی۔

    میں غریب لڑکی ہوں! اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا: میں نے فقط ایک بار ادھار لیا… وہ بھی میں نے آپ کی بیوی سے تین روبل لیے… اس کے علاوہ میں نے اور کچھ نہیں لیا۔

    کیا واقعی؟ دیکھو، مجھے تو ان تین روبل کا علم ہی نہیں تھا، نہ ہی حساب کتاب کے گوشواروں میں ان کا ذکر ہے۔ چودہ میں سے تین کاٹتے ہیں، اور باقی بچتے ہیں گیارہ روبل… یہ رہی تمھاری تنخواہ!

    تین.. تین.. تین.. ایک.. ایک.. آؤ آگے بڑھو، اور انہیں وصول کر کے تصدیقی انگوٹھا ثبت کر دو۔ اور میں نے گیارہ روبل اس کی طرف بڑھائے تو اس نے انہیں لے کر کانپتی انگلیوں سے اپنی جیب میں ڈالا اور سرگوشی کی: شکریہ جناب!

    تو میں اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا، اور غصے نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں نے اس سے پوچھا: کس چیز کے لیے تم شکریہ ادا کر رہی ہو؟

    یولیا واسیلیونا نے جواب دیا: تنخواہ کی ادائیگی پر…

    لیکن میں نے تمھیں لوٹ لیا، تمھارا حق جو بنتا تھا اس سے میں نے اپنی مرضی سے کٹوتی کر لی! اس واضح ناانصافی پر بھی تم میرا شکریہ ادا کر رہی ہو؟

    یولیا واسیلیونا گویا ہوئی: دراصل اس سے پہلے جس کے پاس میں ملازمہ تھی، اس نے تو مجھے کچھ بھی نہیں دیا تھا۔

    کیا کہا؟ اس نے تمھیں کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کی؟ یہ تو عجیب بات نہیں ہے؟

    یولیا واسیلیونا سنو! میں نے تمھارے ساتھ مذاق کیا ہے، میں دراصل تمھیں مشکل سبق سکھانا چاہ رہا تھا۔

    میں تمھیں تمھاری مکمل تنخواہ ادا کروں گا، پورے اسّی روبل! وہ دیکھو تمھارے لیے، تنخواہ کی رقم لفافے میں موجود ہے! لیکن کیا تم اتنی ناانصافی کے بعد بھی اپنا حق مانگنے سے قاصر ہو؟ احتجاج کیوں نہیں کرتی؟ ظلم پر خاموشی کیوں؟ کیا اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم سے لاتعلق رہے، اور جوابی وار نہ کرے؟ کیا اس حد تک سادہ لوح ہونا ممکن ہے؟

    وہ بے بسی سے مسکرائی اور اس کے چہرے پر واضح لکھا تھا: شاید!

    میں نے اسے سخت سبق سکھانے کے لیے اس سے معذرت کی اور پورے اسّی روبل اس کے حوالے کر دیے۔ اس نے بے یقینی اور حیرت کے ساتھ شرماتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا اور چلی گئی۔

    اس کو جاتے ہوئے دیکھ کر میں نے سوچا: واقعی، اس دنیا میں کمزوروں کو کچلنا کتنا آسان ہے!

    (مصنّف: انتون چیخوف، عربی سے اردو ترجمہ: توقیر بُھملہ)

  • ایک سو چودہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چودہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس دل چسپ ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    ’’مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ آپ اس اوزار کو ساتھ لے آئے ہیں، یہ تو بہت کارآمد معلوم ہوتا ہے۔‘‘ جیک نے سلنڈر نما اوزار کو ہاتھوں میں الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اینگس نے مسکرا کر کہا: ’’اسے ٹارچ کہتے ہیں، تم اسے سوئچ کے ذریعے جلا سکتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اینگس نے اس کی ٹارچ کو روشن کر دیا۔ ’’حیرت انگیز!‘‘ جیک بے اختیار بولا: ’’اس نے تو سارا کمرہ روشن کر دیا ہے۔‘‘ جیک نے بڑی دل چسپی کے ساتھ اس کی روشنی دیواروں پر ڈالنی شروع کر دی۔ پہلے تو وہ بڑا خوش دکھائی دیا لیکن پھر یکایک اس نے کمرے کو پہچان لیا۔ مسکراہٹ اس کے چہرے سے غائب ہو گئی۔ اس نے بے تابی سے ٹارچ کی روشنی فرش پر ڈالی: ’’کنگ کیگان کو اسی کمرے میں قتل کیا گیا تھا۔۔۔ میں اس درد اور خوف کو ابھی بھی محسوس کر رہا ہوں!‘‘ جیک کے لہجے میں واقعی درد جھلکنے لگا تھا۔
    ’’تم ٹھیک کہتے ہو جیک۔‘‘ جمی نے افسردہ لہجے میں کہا: ’’اگرچہ اس واقعے کے وقت ہم موجود نہیں تھے لیکن میں بھی اس درد اور خوف کو محسوس کر سکتا ہوں، جو اس عظیم شاہی خاندان کو آخری لمحات میں محسوس ہوا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اینگس کی طرف مڑ کر پوچھا: ’’ہم یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟‘‘
    اینگس نے فکر سے بھری اپنی نگاہیں قدیم دیواروں پر جما کر جواب دیا: ’’یہاں کوئی بہت ہی پراسرار کھیل کھیلا جا رہا ہے، اور میرے خیال میں اس کھیل کی کلید قلعے کی دیواروں میں چھپی ہے!‘‘
    جمی کو ان کی بات سمجھ نہیں آئی، اس نے استفسار کیا: ’’ہم جادوئی گولہ حاصل کر چکے ہیں اور اب ایک ایک کر کے قیمتی پتھر جمع کر رہے ہیں، جب تک بارہ کے بارہ اپنی جگہ نہ پہنچیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ایسے میں ہمیں یہاں سے کیا ملنے کی توقع ہو سکتی ہے؟‘‘
    جمی جیسے ہی چپ ہوا، اسے کوئی آواز سنائی دی۔ اس نے جلدی سے کمرے کے دروازے پر ٹارچ کی روشنی ڈالی۔ ’’خاموش… وہاں کوئی ہے!‘‘ اس نے سب کو اشارہ کیا۔ سب خاموشی سے اوپر سے کمرے میں اترنے والی سیڑھیوں پر نظریں جما کر دیکھنے لگے۔ سیڑھیوں پر ٹارچ کی روشنیاں جھلملانے لگی تھیں۔ اگلے لمحے انھوں ںے جونی، جیزے، فیونا اور مائری کو دیکھ کر سکون کی سانس لی۔ ان سب کے ہاتھوں میں اپنی اپنی ٹارچ تھی۔ اینگس نے مائری کو دیکھا تو حیران ہو گئے اور چونک کر فیونا سے مخاطب ہوئے کہ وہ اپنی ماں کو بھی لے آئی۔
    ’’اینگس، میں سب کچھ جان گئی ہوں۔‘‘ مائری نے انھیں ڈانٹنے والے لہجے میں کہا۔ ’’تم ان کے ساتھ شامل تھے اور مجھے اس سے معاملے سے بالکل بے خبر رکھا، تم نے آخر ایسا کیسے کیا؟‘‘
    اینگس نے شرمندہ ہو کر کہا: ’’میں معذرت خواہ ہوں مائری، لیکن سچ یہ ہے کہ ایسا میں نے تمھاری بہتری ہی کے لیے کیا۔‘‘
    ’’میری بہتری…؟‘‘ مائری نے ڈپٹ کر کہا۔ ’’تمھیں اس سے متعلق وضاحت کرنی ہے بعد میں۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ اینگس نے زور زور سے سر ہلا کر جان چھڑائی۔ مائری نے پوچھا کہ وہ سب یہاں کیوں آئے ہیں۔ جیک نے جواب میں کہا کہ کسی چیز کی تلاش میں ہیں۔ اس بار فیونا نے کمرے کی دیواروں پر نگاہیں دوڑا کر کہا: ’’لیکن ایسی کیا چیز ہے؟‘‘
    جیک نے کہا کہ اس کا تو نہیں پتا لیکن جب ملے گی چیز تو سب جان جائیں گے۔ ایسے میں جونی، جو اس سے پہلی بار مل رہا تھا، بانہیں پھیلا کر آگے آ گیا: ’’آرٹر، میرے دوست، ہم ایک طویل عرصے بعد مل رہے ہیں، مجھے بہت خوشی ہو ر ہی ہے۔‘‘
    دونوں گلے ملے تو جونی نے مائری کا تعارف کرایا: ’’یہ مائری ہے، فیونا کی ممی، کنگ کیگان اور بدقسمتی سے کنگ دوگان کی مشترکہ وارث۔‘‘
    ’’تمھارا مطلب ہے کہ شہزادی ازابیلا کے واسطے سے وارث!‘‘ جیک بولا: ’’مجھے معلوم ہوا تھا کہ دوگان نے شہزادی ازابیلا سے اس کا بیٹا ہیگر چھین لیا تھا، اور اسے پال پوس کر اپنی ہی ماں کا دشمن بنا دیا تھا۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • سنتری کی لاش (عالمی ادب سے انتخاب)

    سنتری کی لاش (عالمی ادب سے انتخاب)

    کروڑ پتی مجرم کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اس سزا پر عمل درآمد کے لیے اسے شہر سے دور دراز ایک گمنام جزیرے کی جیل میں قید کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی دولت یا اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے فیصلے پر اثر انداز نہ ہوسکے۔

    کروڑ پتی مجرم نے اس جزیرے پر ہی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے اس نے جیل کے سنتری کو رشوت دینے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی قیمت پر جیل کے جزیرے سے باہر وہ فرار ہو سکے۔

    سنتری نے اسے بتایا کہ یہاں پر حفاظتی اقدامات بہت سخت ہیں اور کوئی بھی قیدی جزیرے سے باہر نہیں نکل سکتا سوائے ایک صورت کے، جو کہ… موت ہے!
    لیکن لاکھوں کے لالچ نے سنتری کو قیدی کا ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا۔ اس کے لیے سنتری نے ایک عجیب و غریب طریقہ نکالا اور اس کروڑ پتی مجرم کو بتا دیا، جو درج ذیل ہے…

    "سنو: جیل کے جزیرے سے صرف ایک چیز جو بغیر کسی حفاظتی انتظامات اور تفتیش کے باہر آتی ہے وہ ہے مُردوں کا تابوت۔ جب کبھی کسی کو پھانسی دے دی جائے یا وہ طبعی موت مر جائے تو ان کی لاشوں کو مردہ خانے سے تابوت میں ڈال کر بحری جہاز پر منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں پر غیر مسلح چند محافظوں کی نگرانی میں کچھ سادہ رسومات ادا کرنے کے بعد ان تابوتوں کو قبرستان میں دفن کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، وہ محافظ ان تابوتوں کو بحری جہاز سے خشکی پر منتقل کرنے اور پھر دفنانے کے بعد واپس لوٹ آتے ہیں۔ اس کارروائی پر روزانہ صبح دس بجے اس صورت میں عمل درآمد کیا جاتا ہے کہ وہاں مردہ خانے میں مردہ اور تابوت موجود ہوں، آپ کے فرار کا واحد حل یہ ہے کہ اختتامی لمحات سے پہلے آپ کسی طرح کسی ایک تابوت میں پہلے سے مردہ شخص کے ساتھ لیٹ جائیں، معمول کی کارروائی اختتام پذیر ہو، بحری جہاز سے آپ زمین اور زمین سے قبرستان پہنچ جائیں، وہاں جا کر تابوت کو دفن کر دیا جائے، اور جیسے ہی عملہ وہاں سے واپسی کے لیے نکلے تو میں ہنگامی رخصت لے کر آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہاں پہنچ کر آپ کو قبر اور تابوت سے باہر نکال لوں۔ پھر آپ مجھے وہ رقم دے دیں جس پر ہم نے اتفاق کیا ہے، اور میں چھٹی کا وقت ختم ہوتے ہی واپس جیل چلا جاؤں گا اور آپ غائب ہو جائیں گے۔ یوں آپ کی گمشدگی ایک معمہ ہی رہے گی، اور اس معمے سے ہم دونوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا… آپ کا کیا خیال ہے؟

    کروڑ پتی نے سوچا کہ یہ ایک جنونی قسم کا منصوبہ ہے، لیکن پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے یہ پھر بھی ہزار درجے بہتر ہے… کروڑ پتی نے تگڑی رقم دینے کا وعدہ کیا اور پھر دونوں نے اسی طریقہ کار پر اتفاق کر لیا۔

    سنتری کے منصوبے کے مطابق اس قیدی نے اتفاق کیا کہ وہ مردہ خانے میں چپکے سے جائے گا اگر وہ خوش قسمت رہا اور وہاں کسی کی موت واقع ہوگئی تو وہ اپنے آپ کو بائیں طرف کے پہلے نمبر والے تابوت میں بند کر لے گا جس کے اندر پہلے سے ایک لاش موجود ہوگی۔

    اگلے دن حسبِ منصوبہ سنتری کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے وہ کروڑ پتی شخص مردہ خانے کے اندر گھسنے میں کام یاب ہوگیا، وہاں مردہ خانے کے فرش پر دو تابوت رکھے ہوئے تھے۔ پہلے تو وہ تابوت میں کسی مردے کے ساتھ لیٹنے کے خیال سے گھبرا گیا لیکن ایک بار پھر زندہ رہنے کی جبلت اس عارضی خوف پر غالب آگئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے احتیاط سے تابوت کو کھولا تاکہ لاش کو دیکھ کر خوفزدہ نہ ہو، اور اپنے آپ کو تیزی سے تابوت کے اندر مردے کے اوپر گرا دیا اور اس وقت تک بے چینی اور پکڑے جانے کے خوف کے ساتھ وہ انتظار کرتا رہا جب تک کہ اس نے محافظوں کی آواز نہ سن لی۔ وہ تابوت کو جہاز کے عرشے پر لے جانے کے لیے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔

    مردہ خانے سے لے کر جہاز پر پہنچنے تک اسے قدم بہ قدم جگہ کی تبدیلی کا احساس ہوتا رہا۔ جہاز کا لنگر اٹھنے سے لے کر پانی پر اس کی حرکت کو اس نے محسوس کیا، سمندری پانی کی مہک جب تک اس کے نتھنوں سے ٹکراتی رہی تب تک اس کا عدم تحفظ کا احساس برقرار رہا۔ جہاز ساحل پر پہنچ کر لنگر انداز ہوا۔ محافظوں نے کھینچ کر تابوت کو خشکی پر اتارا تو اس کے کانوں سے محافظوں کی گفتگو کے چند الفاظ ٹکرائے، وہ اس تابوت کے عجیب و غریب وزن کے بارے میں ایک دوسرے سے تبصرہ کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اتنے وزنی تابوت سے زندگی میں پہلی دفعہ پالا پڑا ہے۔ اس گفتگو سے اس کروڑ پتی قیدی نے عجیب سا خوف اور تناؤ محسوس کیا۔ وہ ڈر گیا تھا کہ کہیں یہ محافظ اس تابوت کو کھول کر دیکھ ہی نہ لیں کہ اندر کیا ہے۔ لیکن یہ تناؤ اس وقت ختم ہو گیا جب اس نے ایک محافظ کو لطیفہ سناتے ہوئے سنا جس میں وہ زیادہ وزن والے قیدیوں کا مذاق اڑا رہا تھا۔ مردہ خانے سے لے کر قبرستان پہنچنے تک شاید یہ پہلا لمحہ تھا جب اس نے تھوڑی سی راحت محسوس کی۔

    اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ تابوت کو گڑھے میں اتارا جا رہا ہے، چند لمحوں بعد اسے تابوت کے اوپری حصے پر مٹی کے بکھرنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی، اور محافظوں کے بولنے کی آواز آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوئے ختم ہوگئی تھی۔ اور اب اس اندھیری قبر میں وہ ایک عجیب صورت حال سے دوچار تھا، انسانی لاش کے ساتھ تین میٹر کی گہرائی میں وہ زندہ دفن تھا، اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے لیے سانس لینا دوبھر ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے سوچا یہ بات درست ہے کہ وہ اس سنتری پر بھروسہ نہیں کرتا تھا، لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دولت سے محبت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے اور وہ سنتری وعدے کے مطابق لاکھوں کی رقم لینے کے لیے دولت سے اپنی محبت کی بدولت ضرور آئے گا۔

    انتظار طویل ہوتا جارہا تھا.. جسم پر پسینہ بہنے کا احساس یوں ہو رہا تھا جیسے ہزاروں چیونٹیاں دھیرے دھیرے رینگ رہی ہوں۔ سانسیں دھونکنی کی مانند تیز تیز چلنے لگی تھیں اور حبس سے دم گھٹ رہا تھا۔

    خود کو مطمئن کرتے ہوئے وہ کہنے لگا، بس مزید دس منٹ کی بات ہے، اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اور وہ دوبارہ آزاد فضاؤں میں سانس لے گا اور ایک بار پھر روشنی دیکھے گا۔

    سانس لینے میں دقت کے باعث اب وہ مسلسل کھانسنے لگا تھا۔ مزید دس منٹ گزر گئے۔ اس قبر میں آکسیجن ختم ہونے والی ہے، اور وہ سنتری ابھی تک نہیں آیا۔ اسی سوچ میں تھا کہ اس نے بہت دور سے قدموں کی آہٹ سنی۔ ان آوازوں کے ساتھ ہی اس کی نبض تیز ہو گئی۔ ضرور یہ وہ سنتری ہی ہوگا۔ آخر وہ آ ہی گیا۔ آواز قریب پہنچ کر پھر دور ہوتی چلی گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اسے ہسٹیریا کا دورہ پڑ رہا ہے۔ اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے لاش حرکت رہی ہو۔ ساتھ ہی اس نے تصور میں دیکھا کہ اس کے نیچے دبا ہوا مردہ آدمی اس کی حالت پر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا ہے۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کی جیب میں ماچس کی ڈبیہ ہے اور تیلی سلگا کر وہ اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھ سکتا ہے کہ سنتری کے وعدے کے مطابق کتنا وقت گزر گیا تھا اور کتنا باقی ہے۔ اسے امید تھی کہ سنتری کے بتائے ہوئے وقت میں سے ابھی چند منٹ باقی ہوں گے۔

    جب اس نے تیلی سلگائی تو آکسیجن کی کمی کے باعث مدھم سی روشنی نکلی۔
    شعلے کو گھڑی کے قریب لاکر اس نے دیکھا تو پتا چلا کہ پینتالیس منٹ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ گھڑی میں وقت دیکھ کر اب وہ حقیقی معنوں میں خوف زدہ ہو چکا تھا۔ ملگجی روشنی میں اسے محسوس ہوا کہ اس کا چہرہ مردے کے چہرے کے بالکل قریب ہے۔ اس نے خود سے سوال کیا، کیا مردہ شخص کا چہرہ دیکھنا اسے مزید خوف میں مبتلا کرے گا؟

    تجسّس اور خوف کے ساتھ اس نے اپنی گردن موڑی ، شعلے کو لاش کے چہرے کے قریب کیا اور دہشت کے مارے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔

    مرنے سے پہلے اس نے دیکھا کہ یہ تو اس شخص کا چہرہ ہے جسے زندہ دیکھنے کی امید میں وہ یہاں زندہ دفن تھا۔ وہ اُسی سنتری کی لاش تھی۔

    (عالمی ادب سے انتخاب، مترجم: توقیر بُھملہ)

  • مطمئن آدمی شور نہیں مچاتا

    مطمئن آدمی شور نہیں مچاتا

    طمانیت نہ کہ انبساط’ طمانیت، نفسِ مطمئنہ، ایک اندازِ نظر، ایک اساسی اندازِ نظر جسے اپنا کر عین ممکن ہے آدمی پر کبھی کوئی آنچ نہ آ سکے۔

    آدمی اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے اور پھر اسے دوبارہ حاصل کر لیتا ہے۔ اسے پتا ہے کہ دنیا اسی کا نام ہے۔ وہ اپنی غلطی سے یا کسی اور کی غلطی سے ٹھوکر کھاتا ہے اور گر جاتا ہے اور پھر خدا یا دنیا کو قصور وار ٹھہرائے بغیر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

    وہ اپنی بدولت یا دوسروں کی وجہ سے دکھ اٹھاتا ہے، لیکن اپنے حال زار پر قابو پا لیتا ہے۔مایوسیوں کو پی جاتا ہے اور زیادتیوں کو برداشت کرتا ہے، معمولی حیثیت کے لوگوں کی معمولی باتوں کا چڑھتا دھارا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور وہ اپنے میں ان سب باتوں کی اہلیت طیش میں آئے بغیر دل سخت کئے بغیر پیدا کر لیتا ہے۔

    اس طمانیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر کسی کو اور ہر بات کو شفقت سے کام لے کر معاف کر دیا جائے۔ اس سے یہ مراد بھی نہیں کہ آدمی چپ چاپ مار کھاتا رہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ طمانیت اس کے حق میں نہیں کہ آدمی آنکھیں میچ کر بیٹھا رہے۔ اس کے برعکس اس اندازِ نظر کو اپنانے والا آدمی ہر چیز پر نظر رکھتا ہے۔ انسانیت کی طفلانہ غیر اصلاح پذیری اور اس کی غفلت۔ ہولناکیوں کی تہی مغزانہ تکرار اور مدتوں کے گلے سڑے تصورات کے احیا کو تو بالخصوص کبھی اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ خود کو کھیل سے الگ تھلگ کیے بغیر ہی وہ اس کی تہ تک پہنچ جاتا ہے، وہ اعتماد کرتا ہے لیکن حزم کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ وہ محبت کرتا ہے لیکن اس کی ذات کا ایک حصہ دیکھنے بھالنے کی غرض سے آزاد رہتا ہے۔ وہ زیادہ کی توقع نہیں رکھتا اور غیر مترقبہ یافت کو سوغات سمجھتا ہے۔ اس کے دوستانہ رویے میں مسکینی کا شائبہ نہیں ہوتا۔ وہ نہ کسی پر مربیانہ انداز میں دستِ شفقت رکھتا ہے، نہ گھٹنوں کے بل جُھک جانے کے لئے آمادہ رہتا ہے۔ اس کی طمانیت کو خدا رسیدہ اولیاء کے مطمئن توکل اور رنج و غم کے اندر مال سے قطعاً کوئی سروکار نہیں۔ اس طمانیت کا جواز بس اسی دنیا تک ہے اور اسے نہ یہاں کوئی جزا ملے گی نہ اگلے جہاں میں۔ وہ اپنے دوستوں پر اسی طرح بھروسا کرتا ہے جس طرح وہ اس پر بھروسا کرتے ہیں، لیکن کبھی ان کے بھید لینے کی کوشش نہیں کرتا اور نہ کبھی بعض زخموں کے بارے میں کسی قسم کی پوچھ گچھ کرتا ہے، وہ پیچھے پڑ جانے والوں میں سے نہیں۔

    اس طمانیت کی بدولت یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ کسی بھی لحاظ سے حتیٰ کہ ایسے دور میں بھی جو اپنی تیغ بکف عدم رواداری اور بھانت بھانت کی دہشت گردیوں کے لئے بدنام ہے، عقائد کے معاملے میں خود رائے ہو سکے۔ اسے کسی قسم کی قوم پرستی کی فرصت نہیں، خواہ وہ دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہو یا بائیں سے اور یوں وہ آدمی اپنے سماج بدر ہونے کا اعلان کرتا ہے۔

    وہ اپنے زمانے کی تمام نام نہاد، سیاہ و سفید نو و کہن اساطیر کی تہ کو پہنچ جاتا ہے۔ مطمئن آدمی شور نہیں مچاتا۔ وہ خواہ مخواہ بول بول کر خود کو ہلکان کرنے کا قائل نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں وہ ان گیتوں کو گانے میں بھی پس و پیش کرتا ہے جنہیں عوام النّاس گاتے پھر رہے ہوں۔ وہ قدم سے قدم ملا کر چلنے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ ایک بار اس نے ایسا کیا تھا اور بڑا نقصان اٹھایا تھا۔ وہ قدم سے قدم ملا کر جو چلا تو لاشوں سے بھرے ہوئے ایک گڑھے میں جا پہنچنے سے بال بال بچا۔ اسے یوٹو پیاﺅں پر ایمان لانے سے انکار ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ حرارتِ ایمانی سے محروم ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ انسانیت کس قدر مائل بہ بدی ہے اور وہ اس کی طرف سے بدگمان ہے۔ وہ لمبے چوڑے وعدوں کے جھانسوں میں نہیں آتا۔

    اصل نکتہ یہی ہے۔ وہ دھوکا نہیں کھاتا۔ میں مکرر کہتا ہوں جو آدمی طمانیت کے اساسی اندازِ نظر کا حامل ہو، وہ کھیل سے الگ تھلگ رہے بغیر اس کی تہ کو پہنچ جاتا ہے۔ اس پر کوئی فریب کارگر نہیں ہوتا۔ وہ کھیل میں حصّہ لیتا ہے، لیکن اس قدر اندھا دھند طریقے سے نہیں کہ اسی میں مست ہو کر رہ جائے۔ وہ شراکت اور لاتعلقی کے مابین آزادی سے حرکت کرتا رہتا ہے اور ان دونوں کیفیتوں کو جدا رکھنے والی لکیروں کا خود تعین کرتا ہے۔

    (والٹر باؤیر، مترجم محمد سلیم الرحمٰن)