Tag: عالمی ادب سے انتخاب

  • ننانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ننانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    فیونا چیخ کر بولی: ’’اندر غوطہ لگاؤ، لہر کی واپسی تک پانی کے اندر ہی رہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے غوطہ لگا لیا۔ ذرا دیر بعد وہ سطح پر ابھرے اور سانس لینے لگے۔
    دانیال بولا: ’’مجھے غار کا دہانہ اب نظر نہیں آ رہا ہے۔ غار پانی سے مکمل طور پر بھر چکا ہے، اب تو ہمیں پانی کے اندر ہی اندر تیر کر باہر نکلنا ہے۔‘‘ جبران نے پریشان ہو کر پوچھا: ’’اور اس صدفے کا کیا کروں، میں تو اس کے ساتھ تیر نہیں سکتا۔‘‘
    ’’یہ مجھے دے دو۔‘‘ فیونا نے کہا۔ ’’میں خود کو پھر بڑا کرنے والی ہوں، تم دونوں میری شرٹ مضبوطی سے پکڑ لینا۔ وہ دیکھو ایک اور لہر آ رہی ہے، جب یہ واپس ہونے لگے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ ہی باہر نکلنا ہے … سنبھل جاؤ اب!‘‘
    فیونا نے جیسے ہی جملہ پورا کیا، لہر نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دونوں نے لمبی سانس لی اور فیونا کی شرٹ پکڑ لی۔ انھیں محسوس ہوا کہ فیونا کا قد تیزی کے ساتھ بڑا ہونے لگا ہے۔ لہر واپس ہونے لگی تو فیونا بھی ان دونوں کو ساتھ لے کر دہانے کی طرف تیرنے لگی۔ دہانے پر پہنچ کر دونوں کو اچانک ایسا لگا کہ انھیں پھر کسی عظیم الجثہ آکٹوپس نے گھیر لیا ہے۔ جبران چیخا: ’’فیونا، لہر آ رہی ہے اور یہ تو بہت ہی بڑی ہے۔‘‘
    ’’گھبراؤ نہیں۔‘‘ فیونا نے اطمینان سے کہا: ’’اب ہم غار سے نکل آئے ہیں اور میں خود کو جتنا چاہوں بڑا کر سکتی ہوں۔‘‘ دونوں نے دیکھا کہ فیونا کی ٹانگ آکٹوپس کی ٹانگ سے بھی بڑی ہو گئی ہے۔ اس نے اطمینان سے چند ہی قدم اٹھائے اور وہ ساحل پر پہنچ گئے۔ جب وہ لہروں کی پہنچ سے دور ہو گئے تو فیونا نے دونوں کو نیچے اتارا اور اپنی عام جسامت میں آ گئی۔
    ’’اوہ فیونا، تم تو کسی وھیل جتنی بڑی ہو گئی تھی۔‘‘ جبران نے ریت پر اترتے ہی حیرت کا اظہار کیا۔ انھوں نے مڑ کر غار کی طرف دیکھا لیکن اب وہاں پانی ہی پانی تھا، غار پانی کے اندر مکمل طور پر ڈوب چکا تھا۔
    ’’ٹھیک ہے فیونا۔‘‘ جبران کہنے لگا: ’’اب اس صدفے کو توڑو اور اس میں سے موتی نکال لو، تاکہ ہم یہاں سے جلد از جلد روانہ ہو سکیں، ہمیں جیکس کو بھی ڈھونڈنا ہے۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • بیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    جیزے اچھل کر بولا: ’’ارے یہ تو ایسی بو ہے جیسے آگ لگی ہوئی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکلا، باہر چھت میں آگ لگی ہوئی تھی، وہ چلا کر بولا: ’’بالٹیوں میں پانی لاؤ، جلدی کرو۔‘‘

    فیونا، جبران اور دانیال باہر کی طرف دوڑے۔ جبران خوف زدہ ہو کر چیخا: ’’انکل اینگس کے گھر کو آگ لگ گئی ہے، باہر نکلو سب۔‘‘

    وہ تینوں گھر سے باہر نکل گئے تھے جب کہ اندر جمی، جیزے اور اینگس بالٹیوں میں پانی بھر بھر کر آگ پر پھینکنے لگے، اور پھر کچھ ہی دیر میں آگ پھیلنے سے پہلے ہی بجھ گئی۔ لیکن سیاہ پانی نے دیواروں کا ستیاناس کر دیا تھا۔ اینگس یہ دیکھ کر دکھی ہو گئے۔ ’’ان نشانات کو صاف کرنا تو ناممکن ہے، مجھے لازماً دوبارہ پینٹ کروانا پڑے گا۔‘‘

    تینوں واپس اندر آ گئے تھے، فیونا کا خیال تھا کہ آگ آتش دان سے لگی ہوگی، اس لیے اس نے آتے ہی پوچھا: ’’انکل، ہوا کیا ہے، آگ چھت تک کیسے پہنچی؟‘‘

    اینگس کی آنکھوں میں تشویش کے سائے دوڑنے لگے تھے، انھوں نے دھیمے لہجے میں کہا: ’’میں یہاں ایک طویل عرصے سے رہتا آ رہا ہوں، ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جمی اور جیزے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگے۔ چند لمحے یوں ہی گزر گئے، آخر کار جمی نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: ’’جی ہاں، یہ وہی دشمن ہے، اب ہمیں مزید احتیاط کرنی ہوگی، اس گولے میں جتنے ہیرے آئیں گے، اتنی ہی پریشانیاں ہمارے ارد گرد بڑھیں گی۔‘‘

    وہ تینوں پریشان کھڑے تھے، اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، لیکن اتنا وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ تینوں بڑے وہ کچھ جانتے ہیں جو انھیں معلوم نہیں تھا۔ ایسے میں دانیال نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا: ’’آخر یہاں ہو کیا رہا ہے؟‘‘

    اینگس اچانک ان کی طرف مڑے: ’’میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں تم سب کو کھل کر ساری بات بتا دوں۔‘‘ انھوں نے ایک طویل سانس لی اور پھر جمی اور جیزے سے مخاطب ہوئے: ’’براہِ مہربانی آپ دونوں یہاں صفائی کر دیں، میں ابھی آ کر آپ دونوں کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ تینوں بچوں کو اندر کمرے میں لے گئے اور بتانے لگے: ’’جمی، جیزے اور جونی وہ نہیں ہیں جو وہ بتاتے ہیں، لیکن پہلے مجھ سے وعدہ کرو کہ یہ باتیں کسی کو نہیں بتاؤ گے۔‘‘

    تینوں نے وعدہ کر لیا تو اینگس نے کہا: ’’جمی کا اصل نام کوآن، جیزے کا پونڈ اور جونی کا کیتھور ہے، آلرائے کیتھمور…‘‘

    اتنا سنتے ہی تینوں بے اختیار اچھل پڑے۔ ’’یعنی کنگ کیگان کا مؤرخ، جس نے وہ قدیم کتاب لکھی؟‘‘ جبران کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ اینگس نے مضبوط لہجے میں کہا: ’’جی ہاں ۔۔۔ آلرائے کیتھمور۔‘‘

    ’’نہیں یہ ناممکن ہے، وہ تو صدیوں پہلے کا انسان تھا۔ کوئی بھی شخص اتنی طویل عمر نہیں جی سکتا۔‘‘ جبران نے سر انکار میں ہلاتے ہوئے کہا اور باقی دونوں کی طرف تصدیق کے لیے دیکھا۔ فیونا اور دانیال نے بھی سر ہلا دیا۔

    اینگس نے سر زور زور سے ہلاتے ہوئے کہا: ’’یاد کرو، میں نے تم سے کنگ کیگان کے جادوگر زرومنا کا ذکر کیا تھا، اس نے آلرائے کیتھمور پر ایک منتر پڑھا تھا۔ یعنی جب بھی، کسی بھی زمانے میں قدیم کتاب کھول لی جاتی ہے، وہ ٹائم پورٹل کے ذریعے سفر کرتے ہوئے مستقبل میں پہنچ جاتا ہے۔‘‘

    ’’اوہ …‘‘ تینوں کے منھ حیرت سے کھل گئے۔ دانیال کو ابھی یقین نہیں آ رہا تھا، وہ بولا: ’’آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جونی ماضی سے آیا ہے … ایک قدیم دور سے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘ اینگس نے سنجیدگی سے جواب دیا: ’’جب کہ جمی یا کوآن وہ شخص ہے جس نے سیاہ آبسیڈین کو ہائیڈرا میں چھپایا اور وہاں پھندے لگائے۔ اسی طرح جیزے یا پونڈ نے مرجان کو آئس لینڈ میں چھپایا تھا۔ جب تم کوئی ہیرا حاصل کرتے ہو اور ہم اسے واپس جادوئی گولے میں رکھ دیتے ہیں تو یہ لوگ بھی ایک ایک کر کے اس دور میں چلے آتے ہیں۔ زرومنا کا منتر ان پر بھی ویسے ہی کام کرتا ہے جیسا کہ آلرائے کیتھمور پر کرتا ہے۔‘‘

    تینوں ششدر ہو کر یہ عجیب و غریب کہانی سن رہے تھے۔ اتنی عجیب و غریب کہانی انھوں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ اور یہ سب تو خود ان کے ساتھ ان کی زندگی میں حقیقتاً ہو رہا تھا۔ جبران بولا: ’’تو یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے بچھو اور ہائیڈرا کی بلائیں تخلیق کیں؟‘‘
    دانیال بھی بول اٹھا: ’’اور انھوں نے وائیکنگز اور زلزلہ پیدا کیا تھا!‘‘

    (جاری ہے)

  • پہاڑی پر جلتی آگ

    لوگوں کا کہنا ہے کہ پرانے زمانے میں ادیس ابابا کے شہر میں ارہا نامی ایک نوجوان رہا کرتا تھا۔ وہ لڑکپن میں گاؤں سے شہر چلا آیا تھا۔ اور ایک مال دار تاجر ہسپٹم ہسیائی کے ہاں ملازم ہو گیا تھا۔

    ہسپٹم ہسیائی اتنا مال دار تھا کہ اس نے وہ تمام چیزیں خرید لی تھیں جو دولت خرید سکتی تھی۔ اس کا دل زندگی کی عیاشیوں سے بھر چکا تھا اسی لیے کبھی کبھار وہ اپنی زندگی میں بوریت محسوس کرنے لگتا۔

    ایک سرد رات جب چاروں طرف ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چل رہے تھے ہسپٹم نے ارہا کو حکم دیا کہ وہ آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کر کے لائے۔ جب ارہا آگ جلا چکا تو ہسپٹم گویا ہوا، ایک انسان کتنی سردی برداشت کر سکتا ہے؟ وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انسان انٹوٹو کی پہاڑی کی چوٹی پر تمام رات بغیر کمبل، کپڑوں اور آگ کے گزارے اور نہ مرے؟

    مجھے خبر نہیں، ارہا بولا، لیکن کیا وہ بے وقوفی کی بات نہ ہوگی؟

    شاید اگر انسان کو اس کا اجر نہ ملے۔ لیکن میں شرط لگانے کے لیے تیار ہوں، مجھے یقین ہے کہ ایک ہمت والا انسان پہاڑی کی چوٹی پر رات بھر کھڑا رہ سکتا ہے لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میرے پاس شرط لگانے کو کچھ نہیں۔ ہسپٹم بولا، اگر تمہیں یقین ہے کہ انسان ایسا کرسکتا ہے تو میں تمہارے ساتھ شرط لگانے کو تیار ہوں۔ اگر تم ساری رات انٹوٹو کی چوٹی پر بغیر کپڑوں اور آگ کے گزار دو تو میں تمہیں دس ایکڑ زمین، ایک گھر اور مویشی انعام کے طور پر دوں گا۔

    کیا تم مذاق کر رہے ہو یا سنجیدہ ہو؟ ارہا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں جو وعدہ کرتا ہوں اسے پورا بھی کرتا ہوں۔ ہسپٹم بولا اگر ایسا ہی ہے تو میں کل رات قسمت آزماؤں گا اور پھر ساری عمر آرام کرتا رہوں گا۔

    ارہا وعدہ تو کر بیٹھا لیکن بہت پریشان تھا۔ اسے اپنی جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ پہاڑی کی چوٹی پر رات گزارنا بچوں کا کھیل نہ تھا اور اس سردی میں زندہ رہنا معجزے سے کم نہ تھا۔ ارہا اس شہر میں ایک مردِ جہاندیدہ کو جانتا تھا جو بہت دانا تھا۔ وہ اس دانا مرد سے ملنے گیا۔ بوڑھے شخص نے ارہا کی باتیں اور شرط سنی اور کہنے لگا، میں تمہاری مدد کروں گا۔ انٹوٹو کی پہاڑی سے چند میل دور ایک اونچی چٹان ہے جو انٹوٹو کی پہاڑی کی چوٹی سے نظر آتی ہے۔ کل شام جب سورج غروب ہوگا تو میں اس چٹان پر آگ جلاؤں گا تا کہ تمہیں وہ انٹوٹو کی چوٹی سے نظر آئے۔ تم تمام رات اس آگ کو دیکھتے رہنا اور اس کی گرمی، حرارت اور میرے بارے میں، جو تمہارا دوست ہے، سوچتے رہنا۔ میں تمہاری خاطر آگ کے قریب ساری رات بیٹھا رہوں گا۔ اگر تم سردی اور تاریکی کے باوجود یہ کام کر سکے تو صبح بھی زندہ سلامت پائے جاؤ گے۔

    ارہا نے بڑی گرم جوشی سے اس بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور ہلکے دل سے گھر چلا گیا۔ اگلے دن ہسپٹم نے سہ پہر کو ارہا کو اپنے ملازموں کے ہمراہ انٹوٹو کی چوٹی پر بھیج دیا۔ جونہی رات آئی ارہا نے کپڑے اتار دیے اور پہاڑی کی چوٹی پر ٹھنڈی ہوا میں برہنہ کھڑا ہو گیا۔ وادی کی دوسری طرف ارہا کو وہ آگ نظر آئی جو اس کے بزرگ دوست نے اس کے لیے جلا رکھی تھی۔ وہ آگ تاریکی میں ایک ستارے کی طرح جل رہی تھی۔

    جوں جوں رات گہری ہوتی گئی ٹھنڈک ارہا کے گوشت پوست سے گزرتی ہوئی اس کی ہڈیوں تک پہنچ گئی۔ پہاڑ کی چوٹی برف کی طرح سرد ہو گئی۔ ہر گھنٹہ وہ بے حس ہوتا گیا۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ اسے ڈر لگنے لگا کہ وہ سردی سے مر جائے گا لیکن اس نے آگ سے اپنی توجہ نہ ہٹائی اور سوچتا رہا کہ اس کا بزرگ دوست اس کی ہمت بندھا رہا ہے۔

    کبھی کبھار دھند چند لمحوں کے لیے آگ کے شعلے کے آگے آ جاتی لیکن وہ اس وقت تک گھورتا رہتا جب تک دھند چھٹ نہ جاتی اور اسے آگ دوبارہ نظر آنے لگتی۔ ساری رات وہ سردی سے کانپتا، کھانستا اور ٹھٹھرتا رہا لیکن اپنی جگہ پر ثابت قدم رہا۔ جب صبح طلوع ہوئی تو وہ کپڑے پہن کر پہاڑی کی چوٹی سے نیچے اترا۔

    ہسپٹم ارہا کو زندہ دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اس نے نوکروں سے سوال کیا۔ کیا ارہا ساری رات کپڑوں اور آگ کے بغیر کھڑا رہا؟

    ہاں، سب نوکروں نے مل کر جواب دیا۔ تم بہت دلیر آدمی ہو، ہسپٹم نے ارہا کی عظمت کا اقرار کیا۔

    لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے یہ سب کچھ کیا کیسے؟

    میں ساری رات ایک چٹان پر جلتی آگ پر اپنی توجہ مرکوز کیے رہا۔

    کیا کہا تم نے۔ تم آگ کو دیکھتے رہے۔ تم شرط ہار گئے۔ تم اب میرے نوکر ہی رہو گے۔ تمہیں کوئی انعام نہ ملے گا، لیکن وہ آگ تو بہت دور تھی۔ وہ وادی کے دوسری طرف تھی۔ مجھ تک اس کی حرارت بالکل نہیں آئی۔

    نہیں میں کچھ نہیں مانتا، تم شرط ہار گئے۔ تمہیں اس آگ نے زندہ رکھا۔ ارہا بہت رنجیدہ ہوا۔ وہ اپنے بوڑھے دوست کے پاس گیا اور اسے ساری کہانی سنائی۔

    تم یہ معاملہ شہر کے قاضی کے پاس لے جاؤ، بوڑھے دوست نے مشورہ دیا۔
    ارہا شہر کے قاضی کے پاس گیا اور شکایت کی۔ قاضی نے ہسپٹم اور اس کے نوکروں کو عدالت میں طلب کیا۔ جب ہسپٹم نے اپنی کہانی سنائی اور نوکروں نے کہا کہ ارہا دور چٹان پر جلتی آگ کو ساری رات دیکھتا رہا تو قاضی بولا، ارہا تم شرط ہار گئے۔ ہسپٹم نے یہ شرط لگائی تھی کہ تم آگ کے بغیر رات گزارو گے۔

    ارہا ایک دفعہ پھر مایوس ہوا اور اپنے بوڑھے دوست کے پاس مشورہ کرنے گیا اور کہنے لگا کہ اس کی ساری محنت اکارت گئی۔ اس کی قسمت میں ہی نوکروں کی سی زندگی گزارنا ہے۔

    امید کا سہارا نہ چھوڑو، دانا دوست نے کہا۔ شہر کی عدالتوں سے زیادہ تو جنگلوں میں انصاف پایا جاتا ہے۔

    بوڑھا شخص اٹھا اور ہائلو نامی شخص کے پاس پہنچ گیا۔ یہ وہ آدمی تھا جس کے گھر میں وہ لڑکپن میں نوکروں کی طرح کام کیا کرتا تھا۔ اس نے ہائلو کو ارہا کی درد بھری کہانی سنائی اور مدد چاہی۔

    ہائلو بھی ایک دانا انسان تھا۔ اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا، تم فکر نہ کرو میں اس مسئلے کا حل نکالوں گا۔

    چند دن کے بعد ہائلو نے ایک شان دار دعوت کا انتظام کیا اور شہر کے تمام رؤسا کو دعوت دی۔ اس دعوت میں ہسپٹم اور قاضی بھی مدعو تھے۔

    دعوت کے دن سب امیر شاندار لباس میں ملبوس اپنے گھوڑوں اور خچروں پر سوار ہو کر آئے جب کہ ان کے نوکر ان کے پیچھے پیچھے پیدل چل رہے تھے۔ ہسپٹم بھی بیس ملازموں کے ساتھ آیا۔ انہوں نے ہسپٹم کے سر پر ریشمی چھتری تانی ہوئی تھی تاکہ اسے دھوپ کی شدت کا احساس نہ ہو۔ اس کی سواری کے آگے چار نوکر ڈھول بجا کر اس کی آمد کی خبر دے رہے تھے۔

    سب مہمان ریشمی قالینوں پر بیٹھ کر گپیں لگانے لگے۔ باورچی خانے سے لذیذ کھانوں کی خوشبو آنے لگی۔ اس خوشبو نے مہمانوں کی بھوک کو اور تیز کر دیا۔ وقت گزرتا گیا لیکن کھانا نہ آنا تھا نہ آیا۔ صرف کھانے کی خوشبو آتی رہی۔ جب شام ہو گئی تو مہمانوں میں آپس میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ وہ حیران تھے کہ ان کا معزز میزبان اتنی دیر کیوں کر رہا ہے۔

    آخر ایک مہمان نے سب کی طرف سے ہائلو سے پوچھا۔ اے میزبان! تم ایسا کیوں کر رہے ہو۔ ہمیں گھر بلا کر بھوکا رکھ رہے ہو۔

    کیا آپ لوگوں کو کھانے کی خوشبو نہیں آ رہی؟ ہائلو نے حیرانی سے پوچھا۔

    ہاں آرہی ہے، لیکن خوشبو کا کھانے سے کیا تعلق۔ خوشبو میں غذائیت تو نہیں ہوتی۔

    تو کیا ایسی آگ میں تپش ہوتی ہے جو میلوں دور جل رہی ہو۔ اگر ارہا دور سے آگ کو دیکھ کر گرم رہ سکتا ہے تو آپ لوگ بھی باورچی خانے سے آنے والی خوشبو سے غذائیت حاصل کر سکتے ہیں۔

    لوگوں کو ہائلو کا اشارہ سمجھ میں آ گیا۔ قاضی کو اپنے فیصلے پر ندامت ہوئی اور ہسپٹم بھی اپنے کیے پر شرمسار ہوا۔ اس نے ہائلو کا شکریہ ادا کیا اور اعلان کیا کہ ارہا کو زمین، گھر اور مویشی مل جائیں گے۔

    اس فیصلے کے بعد ہائلو نے نوکروں کو حکم دیا اور مہمانوں کے آگے لذیذ کھانے پیش کیے گئے۔

    (مترجم: ڈاکٹر خالد سہیل)

  • اَسّی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ڈریٹن کافی دیر سے ایلسے کے چھوٹے سے سرائے خانے بیڈ اینڈ بریک فاسٹ کے غسل خانے میں گھسا ہوا تھا۔ وہ پینٹ سے لتھڑے ہاتھ دھو رہا تھا اور سارے غسل خانے کو گندا کر رہا تھا، ساتھ ساتھ بڑبڑاتا جا رہا تھا۔

    ’’مائری کو دیواریں اور ساری چیزیں صارف کرتے ہوئے یقیناً خوب مزا آیا ہوگا، اور اب ایلسے کو بھی آئے گا۔ ویسے بھی لوگ اسے رقم دیتے ہیں تو یہ اسے صاف کرنا ہی ہوگا، ہاں بے چاری کو مجھ سے کچھ نہیں ملے گا۔ امید ہے کہ آج رات کے کھانے کے لیے اس نے کوئی زبردست قسم کی ڈش تیار کی ہوگی۔ اگر کوئی بے مزا چیز پکی ہو گی تو میں اس سرائے خانے کو نیا رنگ دے دوں گا۔‘‘

    ہاتھ دھو کر جب وہ نیچے اترا تو ایلسے کو کنٹربری سے آئے ہوئے ایک جوڑے کے ساتھ محو گفتگو پایا۔ ایلسے کی نظر اس پر پڑی تو فوراً بول اٹھی: ’’ہیلو ڈریٹن… میں ذرا ان براؤنز صاحبان کو بتا رہی تھی کہ آج جو میں ٹی پارٹی میں گئی تھی، وہ کیسی رہی۔‘‘ ڈریٹن نے اس کی بات نظر انداز کر کے پوچھا: ’’رات کے کھانے میں کیا ہے؟‘‘

    ایلسے نے گردن گھما کر بڑی بڑی آنکھوں سے اسے گھورا اور جواب دینے کی بجائے اپنی بات جاری رکھی: ’’میں براؤنز صاحبان کو یہ بتا رہی تھی کہ شاہانہ نے ایک شان دار پارٹی دی تھی مائری مک ایلسٹر کے اعزاز میں، لیکن کوئی شیطان اس کے گھر میں گھس گیا تھا اور بہت گندگی پھیلائی۔‘‘

    ڈریٹن نے چونکنے کے اداکاری کی: ’’اوہ، یہ تو بہت شرم کی بات ہے، میں ضرور مائری کے گھر جاؤں گا۔‘‘

    ایلسے نے بات جاری رکھی: ’’میں کیا بتاؤں، شاہانہ نے کتنی خوب صورت پارٹی دی تھی۔ میز پوش اتنے حسین تھے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، شاید وہ پاکستان سے لائی ہیں۔ فنگر سینڈوچ، ڈبل روٹیاں، بسکٹ، کیک، چائے اور جانے کیا کچھ تھا، بہت مزا آیا۔‘‘

    ڈریٹن دل ہی دل میں تلملا رہا تھا، غصّے کو دباتے ہوئے بولا: ’’اگر آپ کہہ رہی ہیں تو واقعی بہت اچھی پارٹی رہی ہو گی، لیکن رات کے لیے یہاں کھانے میں کیا ہے؟‘‘

    ایک بار پھر وہ مطلب کی بات پر آ گیا تھا لیکن ایلسے نے اسے پھر گھورا اور لمبی سانس لے کر کہا: ’’تم بہت اکھڑ مزاج ہو … بہرحال رات کے کھانے میں پودینے کی چٹنی کے ساتھ بھنی ہوئی بھیڑ، آلو کا بھرتا، مٹر اور ڈبل روٹی اور اس کے بعد پنیر کا کیک ہوگا۔ تمھیں تو یہ پسند ہوں گے نا ڈریٹن؟‘‘ کہتے کہتے آخر میں ایلسے نے برا سا منھ بنا لیا۔

    ڈریٹن خوش ہو کر بولا: ’’اوہو … زبردست … میرے خیال میں پہلے میں باہر کا ایک چکر ضرور لگا آؤں تاکہ بھوک خوب بڑھ جائے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے براؤنز فیملی کی جانب دیکھا اور مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا: ’’آپ دونوں سے مل کر خوشی ہوئی۔‘‘ اس کے بعد اس نے برطانوی جوڑے کا جواب سننے کا انتظار بھی گوارا نہیں کیا اور چلا گیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے دانت کچکچائے: ’’ہونہہ … احمق انگریز … دیکھ لوں گا رات کو ان سے بھی۔ ابھی پہلے تو مجھے قلعہ آذر جانا ہے تاکہ وہ زیلیا کا عظیم جادوگر، عزت مآب پہلان مجھ پر پھر خفا نہ ہو۔‘‘ ڈریٹن نے قہقہہ لگایا اور قلعہ آذر کی طرف چل پڑا۔ درختوں کے جھنڈ سے ہوتے ہوئے جب وہ جھیل پہنچا تو اسے مخصوص مقام پر کشتی نظر نہیں آئی۔ وہ چونک اٹھا۔ اس نے آس پاس تلاش کیا لیکن کشتی نہیں ملی۔ وہ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ اب قلعے سے کیسے پہنچے۔ پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ اس میں تیر کر جانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک پتھر اٹھایا اور غصے سے جھیل میں پھینک دیا۔ اسی عالم میں وہ حسب عادت بڑبڑانے لگا: ’’پہلان سوچے گا کہ میں کہاں مر گیا ہوں۔ ٹھیک ہے، تو پھر میں اس اینگس کے بچے کی گردن ناپوں گا۔‘‘

    وہ غصے سے پھنکارتا ہوا اینگس کے گھر کی جانب چل پڑا۔

    (جاری ہے…)

  • انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    ٹرال خود کو روشنی سے بچا رہے تھے۔ غار کے فرش پر ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ چند ہڈیوں پر ابھی تک گوشت باقی تھا۔ دانیال ان ہڈیوں کو دیکھ کر بری طرح دہشت زدہ ہو گیا، اسے متلی آ گئی اور جلدی سے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ فیونا بھی سامنے دیکھ رہی تھی، تینوں ٹرال غار کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’میرے خیال میں یہ آگ جلانے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا، اس کی حالت بھی دانیال سے کچھ کم نہ تھی۔ کلیجہ اس کے منھ کو آ رہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن جبران نظر نہیں آ رہا تھا، اس نے دانیال کو آواز دے کر پوچھا کہ کیا اسے جبران نظر آیا۔ دانیال نے بھی نظریں دوڑائیں اور پھر خوشی سے چلایا: ’’وہ رہا … دیوار کے ساتھ کوئی لیٹا ہے، اور وہ جبران ہی کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔‘‘

    تب انھیں نظر آیا کہ ایک چوتھے ٹرال نے جبران کے ہاتھ پیر اپنے موٹے بالوں سے باندھ دیے تھے۔ یہ موٹے بال رسیوں کا کام کر رہے تھے۔ فیونا نے کہا: ’’یہاں بہت ساری سرنگیں ہیں اگر ہم جبران کو چھڑا لیں تو یہاں سے نکل سکتے ہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے لیکن جبران کو ہم کس طرح ان سے چھین سکتے ہیں؟ پہلے تو ہمیں ان تین درندوں کے پاس سے گزرنا ہو گا اور پھر اس ٹرال کو بھی چکمہ دینا ہوگا جو عین جبران کے سامنے بیٹھا ہے اور جس نے اپنے جسم کے گندے بالوں سے اسے باندھ رکھا ہے۔ ہمارے پاس یہ رسی نما بال کاٹنے کے لیے چاقو بھی نہیں۔‘‘ دانیال نے پریشان ہو کر کہا۔

    فیونا نے آنکھیں بند کر لیں، اس خیال سے کہ ہو سکتا ہے اس کے دماغ میں کوئی تصور آ جائے جو یہ بتائے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور اس نے مقامی پرندے پفن کے ایک غول کو دیکھا۔ اس نے جلدی سے آنکھیں کھول کر کہا: ’’میں جان گئی ہوں کہ ان درندوں کو یہاں سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’کیسی ترکیب ہے؟‘‘ دانیال نے خوش ہو کر پوچھ لیا۔ فیونا دانیال کو سرنگ میں پیچھے کی طرف لے گئی اور بولی: ’’دانی، تم یہاں کھڑے ہو کر ٹرالز پر نظر رکھو۔ اگر وہ جبران کو کھانے لگے تو تم دوڑ کر ایک دم چیخنا شروع کر دو۔ اس طرح تم میرے آنے تک انھیں پریشان رکھنا، یا ان کی توجہ ہٹانے کے لیے جو کچھ تم کر سکتے ہو کرنا۔‘‘

    ’’کک… کیا… تم کہاں جا رہی ہو؟ نہیں تم مجھے یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ تم جبران کو یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔‘‘ دانیال نے لپک کر اسے بازو سے پکڑ لیا۔

    دیکھو دانی، مجھے پتا ہے کہ تم خوف زدہ ہو لیکن اب معاملہ حل ہونے جا رہا ہے۔ جبران کو کچھ نہیں ہوگا، اور تمھیں بھی کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے کچھ پرندوں کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی کے ساتھ مڑی اور اندھیرے میں گم ہو گئی۔

    ’’پرندے … کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘ اس کے جاتے ہی دانیال بولا لیکن اس کی آواز سرنگ میں گونج کر رہ گئی۔ وہ دیوار کے پاس بیٹھ کر ٹرالز کو دیکھنے لگا اور دل ہی دل میں کہنے لگا: ’’جبران بہادر بنو …. جبران بہادر بنو!‘‘

    (جاری ہے)

  • سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط یہاں پڑھی جاسکتی ہیں

    فیونا اور اس کی ممی چند گھنٹے بعد جبران کے گھر کی طرف جارہے تھے۔ ’’کتنی عجیب بات ہے، ہمارے درمیان اس سے قبل ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ چند ہی دن میں ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب آ گئے ہیں، کہ اب ان کے ہاں رات کے کھانے کی دعوت پر جا رہے ہیں۔‘‘ مائری نے چلتے چلتے کہا۔

    ’’کیا اس میں ہماری دوستی کا کوئی کردار نہیں ہے؟‘‘ فیونا نے پوچھا۔

    ’’بہت اہم کردار ہے بیٹی۔ بچوں کی دوستی سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خاندانوں میں پکی دوستی ہو جاتی ہے، اور بعض اوقات دوستی کا تعلق رشتہ داری میں بدل جاتا ہے۔‘‘

    ’’اب تو مسٹر تھامسن بھی ہمارے درمیان آ گئے ہیں۔‘‘ فیونا نے کن اکھیوں سے اپنی ممی کے چہرے کے تاثرات دیکھے۔ ’’ممی، کیا یہ سب عجیب سا نہیں لگتا آپ کو؟ ابھی چند دن پہلے تک ہم کتنی بوریت محسوس کرتے تھے اور اب کتنے پرجوش ہو گئے ہیں۔ کیا ہماری زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے؟‘‘

    چلتے چلتے مائری ایک دم رک گئیں۔ انھوں نے گھوم کر فیونا کو حیرت اور خوشی سے دیکھا اور کہا: ’’مجھے حیرت ہے تم ایسی باتیں کر رہی ہو، کل تک تم یہاں سے بور ہو گئی تھی۔ خیر میں بتاؤں کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ تمھیں اپنے دماغ پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے۔‘‘

    کچھ دیر بعد وہ جبران کے گھر پہنچ گئے۔ ان کے لیے دروازہ جبران ہی نے کھولا اور انھیں مہمان خانے لے گیا۔ وہاں تھامسن اور اس کا بھائی پہلے سے موجود تھے۔ دونوں ان کے استقبال کے لیے اٹھ گئے اور پھر چاروں صوفوں پر بیٹھ گئے۔

    ’’ہم دوسری مرتبہ مل رہے ہیں مائری مک ایلسٹر، یہ آپ کی بیٹی فیونا ہے نا؟‘‘ جونی تھامسن نے بیٹھتے ہی مسکرا کر کہا۔

    ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کا تعلق اینور ڈروچٹ سے ہے، یہ ایک پیارا گاؤں ہے۔‘‘ تھامسن نے اپنے بھائی جمی کو کن اکھیوں سے دیکھا۔ مائری نے کہا: ’’میں نے بھی آپ کے بارے میں سنا ہے مسٹر تھامسن، یہ کہ آپ کا تعلق لندن سے ہے۔‘‘

    ’’پلیز آپ مجھے یہ مسٹر تھامسن بلانا چھوڑ دیں، میرا نام جون ہے لیکن آپ مجھے جونی پکار سکتی ہیں۔ یہ میرا بھائی جیمز ہے، اسے جمی کہلوانا پسند ہے۔‘‘ جونی تھامسن بولا۔ ’’ویسے ہم لندن سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

    ایسے میں جبران کے پاپا بلال کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ وہ آتش دان کے قریب بیٹھے سگار سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سب مڑ کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ’’لیکن آپ کا لہجہ تو لندن والوں جیسا ہرگز نہیں ہے، آپ کے لہجے سے لگتا ہے کہ آپ یورپی ہیں۔‘‘

    جمی نے کھانس کر تھوک نگلا۔ جونی نے جواب میں کہا: ’’دراصل ہماری ماں اسکاٹ لینڈ کی تھیں، اور باپ کا تعلق مشرق وسطیٰ سے تھا، ویسے ہم دونوں لندن ہی کے ہیں۔‘‘

    بلال نے مطمئن ہو کر اثبات میں سر ہلایا اور سگار کا دھواں اڑانے لگے۔ اسی وقت شاہانہ نے آ کر اطلاع دی کہ کھانا تیار ہے۔ سب اٹھ کر بلال کی رہنمائی میں کھانے کے کمرے کی طرف چلے۔ سب ایک بڑی سی میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھ گئے تو شاہانہ کھانے کے ساتھ آ گئیں۔ اگلے لمحے گلابی لکیروں والا میز پوش سلور کی پلیٹوں سے چھپ گیا۔ میز پر انواع و اقسام کے کھانے چُنے گئے۔

    ’’ارے اتنا سب کچھ، یہ تو کسی بادشاہ کی فوج کے لیے بھی کافی رہے گا۔‘‘ بلال کے چہرے پر واقعی حیرت تھی، کیوں کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ کھانے کے لیے کیا انتظام کیا گیا ہے۔ عین اسی لمحے فیونا کی نظر جونی کی طرف اٹھ گئی۔ وہ اپنے بھائی جمی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہہ رہے تھے۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ دونوں بھائی کر کیا رہے ہیں، یہ تو واقعی عجیب طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں۔ یعنی جبران نے درست کہا تھا۔

    ’’دراصل آپ میز پر جو اتنے سارے کھانے دیکھ رہے ہیں ان میں اکثر مائری کے لائے ہوئے ہیں۔ وہ آج اپنے باغیچے سے تازہ سبزیاں لائی تھیں۔ مہمان خانے میں جس گل دان میں آپ رنگ رنگ کے پھول دیکھ کر آئے ہیں، وہ بھی مائری لائی ہیں۔ ایسے پھول آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔‘‘ شاہانہ نے راز سے پردہ اٹھایا۔

    کھانا کھانے کے بعد فیونا، جبران اور دانیال دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ فیونا بولی: ’’جبران تم نے نوٹ کیا کہ وہ دونوں بھائی آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہتے رہے۔ جمی نے ایسا ظاہر کیا جیسے اس کے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہو لیکن میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کو اشارے کر رہے تھے۔‘‘

    ’’تو کیا یہ دونوں قاتل اور کسی جیل سے بھاگے قیدی ہیں، اور رات کو جب ہم سو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل کر دیں گے؟‘‘ جبران کی آنکھوں میں تشویش کے سائے تیرنے لگے۔

    (جاری ہے…)

  • پُراسرار درویش

    پُراسرار درویش

    قریبی واقع تکیہ (خانقاہ) کی محراب اور قبرستان کے احاطہ کے درمیان چوک پر کھیلنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ خانقاہ کے باغ میں لگے شہتوت کے درخت بہت بھاتے ہیں۔ باغ کے پیڑوں کے ہرے بھرے پتے ہمارے محلہ کی رونق ہیں۔ ان کے کالے کالے شہتوت ہمارے ننھے دلوں کو خوب لبھاتے ہیں۔

    یہ خانقاہ گویا ایک چھوٹا سا قلعہ ہے جو باغ سے گھرا ہوا ہے۔ اس کا باغ کی جانب کھلنے والا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا۔ اس کی کھڑکیاں بھی بند رہتی تھیں۔ اس طرح پوری عمارت اداسی اور تنہائی میں ڈوبی جدائی کی تصویر بن کر رہ گئی تھی۔

    ہمارے ہاتھ اس خانقاہ کی فصیل نما چہار دیواری کی طرف اس طرح لپکتے، جس طرح شیرخوار بچوں کے ہاتھ چاند کی طرف۔ باغ کی دیوار پر چڑھتے تو ایسا لگتا کہ ہم قلعے کے اندر پہنچ گئے ہوں۔

    اس باغ میں کبھی کبھی کوئی درویش بھی نظر آجاتا تھا جس کی ڈاڑھی لمبی ہوتی تھی، اس کا چغہ ڈھیلا ڈھالا ہوتا اور ٹوپی کشیدہ کاری سے آراستہ۔ جب اس درویش کی نظر ہم بچوں پر پڑتی تو وہ مسکرا کر ہماری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتا۔ ہم سب بچّے بھی بیک زبان دعائیہ آواز سے پکارتے، ‘‘درویش! خدا تمہاری عمر دراز کرے۔’’ مگر وہ درویش کوئی جواب دیے بغیر گھاس سے لدی زمین کو گھورتے ہوئے یا چشمے کے قریب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے خاموشی سے وہاں سے گزر جاتا، تھوڑی دیر میں وہ خانقاہ کے اندرونی دروازے کے پیچھے گم ہوجاتا ہے۔

    میں اکثر اپنے والد سے یہ پوچھتا ہوں، ‘‘بابا! یہ کون لوگ ہیں؟’’
    ‘‘یہ اللہ والے لوگ ہیں۔’’ جواب ملتا ہے اور پھر وہ تنبیہ کے انداز میں معنی خیز لہجہ سے کہتے، ‘‘جو انہیں تنگ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا، بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ان کو پریشان کرتے ہیں۔’’

    میں چپ ہوجاتا ہوں کیونکہ میرا دل تو صرف وہاں لگے شہتوتوں کا دیوانہ تھا۔
    ایک دن میں کھیلتے کھیلتے بہت تھک گیا۔ کھیل کے بعد میں زمین پر لیٹا اور میری آنکھ لگ گئی۔ جب میں جاگا تو مجھے احساس ہوا کہ اب میں وہاں تنہا تھا۔ سورج پرانی فصیل کے پیچھے غروب ہوچکا تھا، آسمان پر خوب صورت شفق پھیل چکی تھی اور بہار کی بھیگی بھیگی مہک سے شام کی ہوا کے جھونکے مجھے سرشار کرنے لگے تھے۔ اندھیرا پھیلنے سے پہلے مجھے محلے میں واپس جانے کے لیے قبرستان کے راستہ سے ہو کر گزرنا تھا۔ میں دفعتاً چھلانگ لگا کر کھڑا ہوا۔ اچانک ایک ہلکا سا احساس مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔ اس پر میں ایک لطیف محویت میں ڈوب جاتا ہوں۔

    میں محسوس کرنے لگتا ہوں کہ میرا دل نامعلوم برکتوں سے بھر گیا ہے۔ کسی کی نظر نے مجھے محصور کیا ہوا تھا، میرے دل کو اپنی گرم نگاہ کی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ میں نے اپنا رخ خانقاہ کی طرف کیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی باغ کے درمیان والے شہتوت کے درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ وہ کوئی درویش تو لگتا ہے مگر اُن دوسرے درویشوں کی طرح نہیں تھا جن کو ہم گاہ بہ گاہ دیکھتے ہیں۔

    وہ کافی بوڑھا تھا، خاصے ڈیل ڈول کا دراز قامت، اس کا چہرہ چمک دمک سے پُر تھا۔ گویا نور کا سرچشمہ ہو، اس کے چغے کا رنگ سبز، اس کی لمبی ڈاڑھی، سفید پگڑی، وہ ایک پُرعظمت شخص نظر آتا تھا۔ اسے گھورتے رہنے سے مجھے جیسے نشہ سا ہوگیا۔ ایک خوب صورت خیال مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ اس جگہ کا مالک یہی ہے۔ دوسرے درویشوں کے برعکس اس کے چہرے میں دوستی اور اپنائیت کی جھلک نظر آئی ۔ میں چہار دیواری کے قریب آتا ہوں اور اسے خوشی سے کہتا ہوں….‘‘مجھے شہتوت اچھے لگتے ہیں….’’ لیکن وہ صاحب نہ تو کچھ بولے اور نہ ہی کوئی جنبش کی۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید انہوں نے سنا ہی نہیں۔ پھر میں نے تھوڑی اونچی آواز سے دوبارہ اپنا جملہ دہرایا۔ ‘‘مجھے شہتوت بہت پسند ہیں۔’’ مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے مجھے شفیق نظروں سے دیکھا اور نرم اور دھیمی آواز سے کہا۔

    بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد
    ( بلبل نے اپنے جگر کا خون پیا اور پھول حاصل کیا)

    مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے میری طرف کوئی پھل پھینک دیا ہے۔ میں پھل کو ڈھونڈنے اور اٹھانے کے لیے جھکا مگر مجھے وہاں کچھ نہ ملا۔ میں سیدھا ہو کے کھڑا ہوا تو وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔ خانقاہ کا اندرونی دروازہ اندھیرے کی وجہ سے نظر نہیں آیا۔ اس واقعے کو میں نے والد صاحب سے بیان کیا۔ میری بات سن کر وہ مجھے شکی نظروں سے دیکھنے لگے، میں نے زور دے کر اپنی بات کی سچائی کا یقین دلایا تو وہ بول اٹھے، ‘‘یہ نشانیاں اور اوصاف تو صرف شیخ اکبر ہی کے ہوسکتے ہیں….مگر وہ اپنی خلوت سے کبھی باہر ہی نہیں آتے….’’

    میں نے اپنا مشاہدہ صحیح ہونے پر اصرار کیا تو والد صاحب نے پوچھا:‘‘انہوں نے کیا الفاظ کہے تھے’ میں نے طوطے کی طرح وہ الفاظ رٹ دیے: ‘‘بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد’’

    والد صاحب نے پوچھا۔ ‘‘کیا تم نے اجنبی زبان کی جس عبارت کو یاد کیا اسے سمجھتے بھی ہو….؟ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے؟’’

    ‘‘خانقاہ سے آنے والی درویشوں کی دعاؤں کی آوازوں میں یہ عبارت میں نے پہلے بھی کئی بار سنی ہے۔’’ میں جواب دیتا ہوں۔ میرے والد کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر انہوں نے مجھ سے کہا: ‘‘کسی کو اس کے بارے میں مت بتانا۔’’

    اس واقعے کے بعد سے میں ہر روز سارے بچوں سے پہلے چوک پہنچ جاتا اور بچوں کی واپسی کے بعد اکیلا رہ جاتا اور باغ کے احاطے میں جاکر شیخ اکبر کا انتظار کرنے لگتا، مگر وہ نظر نہیں آتے۔ میں اونچی آواز میں کہتا:‘‘بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد’’

    مجھے کوئی جواب نہ ملتا۔ میں عجیب اذیت میں مبتلا رہتا۔ میں اس واقعہ کو یاد کرتا رہتا اور اس کی حقیقت کو جاننا چاہتا، سوچتا اور اپنے آپ سے پوچھتا کہ کیا میں نے واقعی شیخ اکبر کو دیکھا تھا؟ یا میں نے محض اسے دیکھنے کا دعوٰی کیا تھا تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کر سکوں؟

    کیا وہ میرا کوئی ایسا تصور تھا۔ شیخ کے بارے میں جو باتیں ہمارے گھر میں ہوتی تھیں وہ مشاہدہ کیا اس وجہ سے تھا؟ نیند کی غنودگی اور گھر میں جھنجھٹ کی وجہ سے میں نے اپنے خیال میں ایک ایسی چیز کو ذہن میں بسا لیا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے….؟ یہ سوالات میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑتے رہتے۔ میں نے سوچا کہ وہ مشاہدہ محض میرا تصور ہی ہوگا ورنہ شیخ اکبر دوبارہ نمودار کیوں نہیں ہوئے؟ ہر کوئی یہ کیوں کہتا تھا کہ شیخ اکبر اپنی خلوت سے باہر نہیں آتے؟ شاید میں نے یہ افسانہ تخلیق کیا اور اسے پھیلا دیا۔

    مگر شیخ کا وہ خیالی وجود بھی کہیں میرے اندر جا کے جم چکا ہے۔ یہ خیال میری یادوں کو معصومیت سے بھر دیتا ہے، اور میرے دل و دماغ میں اس طرح چھایا رہا جس طرح شہتوت کا شوق۔

    عرصے بعد والد کے ایک دوست شیخ عمر فکری والد صاحب سے ہمارے گھر ملنے آئے۔ وہ ایک ریٹائرڈ وکیل اور مصنف ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ہمارے محلے میں پبلک سروس کے نام سے ایک ایجنسی کھول رکھی ہے۔ ایجنسی کا آفس محلہ کی مسجد اور مدرسے کے بیچ واقع ہے۔ یہ ایجنسی محلے کے لوگوں کی مختلف خدمات انجام دیتی ہے، کرائے پر مکان دلانا، سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرانا، تجہیز و تدفین کا انتظام کرنا اور شادی و طلاق اور خرید و فروخت۔ جب ان کو میں نے اپنے والد سے فخر کے ساتھ کہتے سنا کہ ‘‘وہ اپنے طویل تجربوں کی بدولت زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کی خدمت کرسکتے ہیں تو میرے دل میں دبی خواہش پھر سے ابھر آئی۔ میں نے پوچھا۔
    ‘‘کیا آپ میرا ایک کام کرسکتے ہیں….؟’’
    مسکرا کر انہوں نے مجھے دیکھا اور پوچھا۔
    ‘‘بتاؤ بیٹے….! تمہیں کیا چاہیے….؟’’
    ‘‘میں خانقاہ کے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہتا ہوں۔’’ میں نے کہا
    شیخ عمر نے زور کا قہقہہ لگایا، ان کا ساتھ والد صاحب نے بھی دیا اور پھر شیخ عمر نے کہا: ‘‘میں جو کام انجام دیتا ہوں وہ زندگی سے متعلق اور ذرا سنجیدہ قسم کے ہوتے ہیں۔’’

    ‘‘لیکن آپ نے تو کہا کہ آپ زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کے کام انجام دیتے ہیں۔’’ میں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان میں نہیں آتی۔’’انہوں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان سے باہر کیسے ہوسکتی ہے….؟’’ میں نے سوال کیا اور والد صاحب نے وہ شعر سنانے کو کہا جسے میں نے خانقاہ میں سن کر یاد کرلیا تھا۔ میں نے وہ شعر خوشی سے پڑھ کر سنایا۔

    یہ سن کر شیخ عمر نے والد صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ‘‘لوگ اس شعر کو بلا سمجھے پڑھا کرتے ہیں۔’’ انہوں نے مجھ سے کہا ‘‘کیا میں اس کے کسی لفظ کو سمجھتا ہوں۔’’ انہوں نے کہا ‘‘یہ لوگ اجنبی ہیں اور ان کی زبان اجنبی ہے لیکن محلے والے ان پر فریفتہ ہیں۔’’
    میں نے کہا ‘‘مگر آپ تو ہر کام انجام دینے پر قادر ہیں۔’’
    یہ بات سن کر والد صاحب نے ‘‘استغفر اللہ’’ پڑھا اور شیخ عمر نے مجھ سے پوچھا
    ‘‘میں خانقاہ کے شیخ کو کیوں دیکھنا چاہتا ہوں۔’’
    میں نے جواب دیا، ‘‘صرف اس لیے کہ جو تجربہ بچپن میں مجھے ہوا تھا اس کو پھر پرکھوں اور بس۔’’
    والد صاحب نے ان کو شیخ اکبر کو میرے دیکھنے کا واقعہ سنایا تو شیخ فکری ہنسے اور بولے‘‘میں نے بھی شیخ اکبر کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔’’
    ‘‘سچ مچ۔ ’’میں نے سوال کیا۔
    انہوں نے کہا، ‘‘ایک دن میں نے اپنے دل میں سوچا کہ سارا محلہ شیخ اکبر کا نام لیتا رہتا ہے، کسی نے بھی ان کو نہیں دیکھا ہے اس لیے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہیے۔ میں خانقاہ گیا اور کسی ذمہ دار آدمی سے ملنا چاہا۔ خانقاہ کے درویشوں نے مجھے پریشانی، حیرانی اور ناراضی سے دیکھا اور کسی قسم کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ عمر فکری صاحب کو افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ ان کو پریشان کیا۔ درویشوں کے رویے سے وہ جان گئے کہ خانقاہ کے اندر جائز طریقہ سے جانا ممکن نہیں اور ناجائز طریقہ قانون شکنی ہے اور اس لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔
    ‘‘اس لیے آپ اپنی خواہش کی تکمیل سے باز آگئے؟’’ میں نے سوال کیا۔
    انہوں نے جواب دیا، ‘‘یہ بات نہیں۔ میں نے محلے کے معمر اور جانے مانے لوگوں سے پوچھا۔ ان میں سے کچھ نے کہا کہ وہ شیخ اکبر کو دیکھ چکے ہیں، لیکن ہر ایک نے ان کا حلیہ مختلف بتایا جو ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہوا کہ کسی نے بھی شیخ اکبر کو نہیں دیکھا ہے۔’’
    ‘‘لیکن میں نے شیخ اکبر کو دیکھا ہے۔’’ میں نے پُرجوش لہجے میں کہا۔
    شیخ عمر نے کہا ‘‘تم لوگ جھوٹ تو نہیں بولتے لیکن اپنے اپنے خیال کے مطابق دیکھتے ہو۔’’
    میں نے کہا ‘‘شیخ اکبر کو دیکھنا محال نہیں۔ کیا وہ گاہ بہ گاہ خانقاہ کے باغ میں گھوم نہیں سکتے۔’’
    انہوں نے کہا ‘‘لیکن تم کو کیا معلوم کہ جس کو تم نے دیکھا ہے وہ شیخ اکبر ہی تھے، کوئی دوسرا درویش بھی تو ہوسکتا ہے۔’’
    میں نے کہا ‘‘ٹھیک ہے۔ اس طرح آپ نے سوچ لیا کہ شیخ اکبر کو کسی نے دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔’’
    انہوں نے کہا ‘‘نہیں، ہرگز نہیں۔ میں تو ان کو دیکھنے کا بے حد مشتاق تھا۔
    ‘‘کیا شیخ اکبر کو دیکھنے کے لیے دوسرے وسیلے نہیں ہوسکتے۔’’
    شیخ فکری نے کہا، ‘‘ہاں، عقل نے مجھے جان لیوا خواہش سے آزاد کیا۔ عقل نے باور کرایا کہ خانقاہ کو ہم دیکھتے ہیں۔ درویشوں کو ہم دیکھتے ہیں لیکن شیخ اکبر کو ہم کیوں نہیں دیکھتے؟’’
    یہ بات سن کر میرے والد صاحب نے کہا ‘‘اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ شیخ اکبر کا وجود ہی نہیں؟’’
    جواب ملا ‘‘نہیں، بات یہ نہیں۔’’
    ‘‘بات تو صرف یہی ہے۔’’ میں نے کہا لیکن بلاشک کوئی وسیلہ تو ضرور ہوگا جس سے شیخ اکبر کے وجود اور ان کی روایت ثابت ہو۔’’
    جواب ملا ‘‘دراصل میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کوئی وسیلہ خلافِ قانون ہے اور میں قانون شکنی کرنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر وہ بولے شیخ اکبر کو دیکھنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔’’
    ‘‘آخر وہ لوگ خانقاہ کے دروازے بند کیوں رکھتے ہیں؟ میں نے سوال کیا۔
    شیخ فکری نے جواب دیا ‘‘دراصل خانقاہ آبادی سے دور بنائی گئی تھی کیونکہ صوفیائے کرام لوگوں سے الگ تھلگ پرسکون ماحول میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وقت گزرتا گیا، آبادی بڑھتی گئی اس لیے یہ خانقاہ آبادیوں میں گھر گئی۔ اب وہ درویش تنہائی کے لیے خانقاہ کے دروازے بند رکھنے لگے۔’’
    یہ بتا کر شیخ فکری نے مایوس کن مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ‘‘میں نے تم کو کئی باتیں بتا دی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شیخ سے ملنا عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان سے ملنے کی اجازت نہیں گویا ان سے ملنا ہے تو بغیر اجازت ہی خانقاہ میں داخل ہونا پڑے گا۔

    ‘‘شیخ اکبر کی یاد بھلائی نہیں جاسکتی۔ آج تک مجھ میں بغیر اجازت خانقاہ میں چلے جانے کی ہمت نہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ بغیر شیخ اکبر کے خانقاہ کے وجود کو بھی تصور نہیں کرسکتا۔ اب حال یہ ہے کہ میں خانقاہ کو صرف مقبرے کی زیارت کے دنوں ہی میں دیکھتا ہوں۔ جب میں خانقاہ کو دیکھتا ہوں تو مسکراتا ہوں اور شیخ یا جس کو میں نے کبھی شیخ سمجھا تھا کی تصویر کو یاد کرتا ہوں اور تنگ راستہ سے قبرستان کی طرف گزر جاتا ہوں۔’’

    بھائی پڑوسی، میں تمہیں صاف صاف بتائے دیتا ہوں، بات یہ نہیں کہ مجھے اس کی تعلیمات پر کوئی اعتراض نہیں، قطعاً نہیں، میں نے ایک بار اسے تبلیغ کرتے سنا تھا اور تمہیں کیا بتاؤں، میں خود اس کے مریدوں میں شامل ہونے سے بال بال بچا۔’’

    (نوبل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ کی کہانیوں کے مجموعہ ‘‘حکایاتِ حارتنا’’ (محلّہ کی کہانیاں) سے ایک منتخب کہانی کا اردو ترجمہ)

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ دونوں ایک پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے پہاڑی بکرے کو بے تحاشا دوڑا رہے تھے، اس کے باوجود کہ انھیں معلوم تھا کہ وہ اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔ بکرا تنگ آ کر پہاڑ پر موجود چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر زقند بھرتا، ذرا دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دونوں نے پتھر اٹھا کر اس کے پیچھے پھینکے اور ہنستے ہوئے، پہاڑ کے دامن میں ایک چٹان پر بیٹھ گئے۔

    ان میں سے ایک نے پھولی سانسوں کے درمیان دوسرے سے پوچھا "جبران! اسے بوجھو، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے ….. بتاؤ، کیا ہے؟”

    جبران جھٹ سے بولا "شروع ہو گئی تمھاری پہیلیاں، لیکن یہ تو بہت آسان ہے، میں بتاتا ہوں ایرو پلین۔”

    پہلا لڑکا ہنس کر بولا "بے وقوف، ہوائی جہاز بھاگتا نہیں اڑتا ہے۔”

    "تو پھر…..” جبران نے چٹان پر بیٹھے بیٹھے آگے کی طرف جھک کر کنپٹی سہلائی اور دوسری کوشش کی "پہاڑی بکرا”۔

    "دھت تیرے کی” لڑکے نے قہقہ لگایا۔

    "تو پھر تم ہی بتا دو۔” جبران نے جھنجھلا کر کہا۔

    "وقت” اس نے جواب دیا۔ لیکن یہ سن کر جبران اچانک اچھل کر چٹان سے کود پڑا اور بولا "ارے، میں تو بھول گیا تھا، مما نے جلدی آنے کو کہا تھا، چلو دیر ہو گئی ہے۔”

    جبران گول گول پتھروں پر چھلانگیں مارتا گھر کی جانب دوڑا، دوسرا لڑکا بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ درختوں کے جھنڈ کی دوسری طرف ایک چھوٹے مگر سلیقے سے بنے نہایت خوب صورت گھر کے کھلے دروازے میں داخل ہو کر جبران رک گیا۔ صحن میں ایک پُروقار خاتون تار پر سے سوکھے کپڑے اتار رہی تھیں، چہرے مہرے سے وہ چالیس سال کی لگ رہی تھیں، اور اس نے اس پہاڑی گاؤں کی روایت کے برعکس سادہ لیکن جاذب نظر شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔ پاؤں میں غیر ملکی چپل تھی، یہ بات نہیں تھی کہ انھیں اپنی روایات پسند نہیں تھیں، بلکہ وہ ایک طویل عرصہ اسکاٹ لینڈ میں گزارنے کے باعث اپنے خوب صورت ترین شہر اور پُر فضا مقام گلگت کی ثقافت سے دور ہو گئی تھیں۔ لیکن یہاں کی ثقافت اب بھی ان کے دل میں زندہ تھی، وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھیں، یہ اور بات تھی کہ یہاں کا روایتی لباس اب ان سے پہنا نہیں جاتا تھا۔ وہ ہلکا پھلکا لباس پہننے کی عادی ہو گئی تھیں۔ ان کا نام شاہانہ تھا۔

    شاہانہ نے مڑ کر اپنے بیٹے جبران کی طرف دیکھا اور کلائی میں بندھی سنہری گھڑی پر نظر ڈالی، پھر تیز آواز میں بولیں۔ ” جبران ، تم دس منٹ لیٹ ہو۔”

    "سوری ممی، قصور اس پہاڑی بکرے کا ہے۔” جبران کوئی بات بنا رہا تھا کہ منھ سے بکرے کا ذکر نکل گیا۔

    "پہاڑی بکرا…. تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟” ممی نے اسے گھور کر دیکھا۔

    "وہ ممی، دراصل ہم پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔” جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ اسے پتا تھا کہ اب ممی غصہ ہوں گی، اور اسے ایک عدد لیکچر سننے کو ملے گا ، لیکن خلاف توقع انھوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔”بے وقوفی والی باتیں مت کرو، کمرے میں جاؤ اور اپنا سامان سمیٹ لو۔”

    "ٹھیک ہے ممی۔” جبران نے کہا اور پیچھے مڑ کر دوسرے لڑکے سے پوچھا "کیا تم تیاری کر چکے ہو؟”

    ابھی وہ جواب دینے ہی والا تھا کہ خاتون نے اسے مخاطب کیا "دانیال بیٹا، تم بھی جاؤ، امی تمھارا انتظار کر رہی ہو گی، کل صبح ہماری فلائٹ ہے، اپنی ساری چیزیں سمیٹنے میں امی کی مدد کرو۔”

    "جی آنٹی۔” دوسرے لڑکے دانیال نے سَر ہلایا اور جبران کے کندھے کو ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے نکل گیا۔

    اگلی صبح اسکاٹ لینڈ کے لیے ان کی فلائٹ تھی۔ جبران کے والد بلال احمد بیس سال سے اسکاٹ لینڈ میں کام کے سلسلے میں مقیم تھے۔ شاہانہ کی پیدائش اسکاٹ لینڈ ہی میں گلگت کے ایک خاندان میں ہوئی تھی، لیکن ان کے والدین نے انھیں بچپن میں گلگت بھجوا دیا، تاکہ وہ اپنے آبائی گاؤں کے ماحول میں پروان چڑھے۔ بیس سال کی عمر میں وہ واپس اسکاٹ لینڈ گئیں، اور پھر تیس سال کی عمر میں ان کی شادی بلال احمد سے ہوئی۔ شاہانہ ایک عرصے بعد گلگت آئی تھیں، اور جبران نے پہلی مرتبہ آبائی گاؤں دیکھا جو اسے بہت پسند آیا تھا۔ واپس جانے کو ابھی اس کا جی نہیں کر رہا تھا لیکن وہ اپنے کزن دانیال کو اسکاٹ لینڈ دکھانے کے لیے بے چین تھا۔ دانیال اس کے چچا کا بیٹا تھا اور گیارہ سال کا تھا، یعنی اس سے ایک سال بڑا۔ دونوں ایک دوسرے کے پکے دوست بن گئے تھے۔ یہ جبران ہی کی ضد تھی جو اس کے والد نے دانیال کے لیے بڑی مشکلوں سے وزٹ ویزا بھجوایا۔

    صبح نو بجے انھوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اپنے رشتے داروں اور سرزمین پاک کو الوداع کہا، اور جزیروں کی سرزمین کی طرف محو پرواز ہو گئے۔ دانیال نے پہلی مرتبہ ہوائی جہاز میں قدم رکھا تھا، اس لیے وہ با ت بات پر حیران ہو رہا تھا اور جبران اسے ہر چیز کی تفصیل پُر جوش انداز میں بتاتا جا رہا تھا۔

    دونوں دوران پرواز کبھی باتوں میں مگن ہوتے، کبھی کچھ کھاتے، کبھی سوتے ، یہاں تک کہ جہاز گلاسگو کے ایئرپورٹ پر اتر گیا۔ تیرہ چودہ گھنٹوں کے طویل فضائی سفر نے انھیں تھکا دیا تھا۔ ایئرپورٹ پر جبران کے والد بلال احمد ان کے منتظر تھے۔ جبران انھیں دیکھ کر دوڑا اور ان سے لپٹ گیا۔ "پپا، میں نے آپ کو بہت مس کیا۔”

    "مجھے بھی تم لوگ بہت یاد آ رہے تھے۔” انھوں نے جبران کو پیا ر کیا۔

    "پپا، یہ دانیال ہے، پتا ہے دانی اب میرا بیسٹ فرینڈ بن چکا ہے۔” جبران نے اپنے نئے دوست کا تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ بلال احمد مسکرائے اور دانیال کو بھی گلے لگا لیا۔ "کیسے ہو بیٹا، ہوائی جہاز کا سفر کیسا لگا؟”

    "بہت زبردست، بہت مزا آیا۔” دانیال نے فوراً جواب دیا۔

    وہ ایئرپورٹ سے نکل کر گاڑی کے پاس آ گئے، تو کار سے پانچ سالہ عرفان اور دو سالہ سوسن بھی نکل کر ممی اور بھائی جان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ گاڑی میں بیٹھ کر جبران کی ممی نے سوسن کو گود میں بٹھا لیا اور ایک بازو عرفان کے گرد حمائل کر کے ان سے باتیں کرنے لگیں۔ ان دونوں کو انھوں نے اپنے پاپا کے پاس ہی اسکاٹ لینڈ میں چھوڑا تھا۔

    گلاسگو، اسکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر… دانیال اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ اسے پہلی نظر میں یہ شہر پسند آ گیا تھا اور اس لیے وہ بہت خوش تھا۔

    گلاسگو کے مضافات می بلال احمد نے ایک چھوٹا سا لیکن خوب صورت گھر خریدا تھا، جس کے سامنے ایک پیارا سا باغیچہ تھا۔ باغیچے کے سامنے انھوں نے گاڑی روک دی اور اعلان کیا۔ "یہ ہے ہمارا چھوٹا سا پیارا گھر۔”

    جبران تیزی سے دروازہ کھول کر اترا، اور باغیچے کے درمیان بنے تنگ راستے میں دوڑا، جس کے اختتام پر گھر کا دروازہ تھا۔ دورازہ بند تھا، وہ مڑا اور بولا "پپا پلیز، چابی مجھے دیں۔”

    بلال احمد ڈگی سے سوٹ کیس نکال رہے تھے، ذرا ٹھہر کر انھوں نے چابی نکالی اور جبران کی طرف اچھال دی۔ جبران نے چابی کیچ کر لی اور دروازہ کھول دیا۔پھر مڑ کر دیکھا اور بولا۔ "دانی، بھاگ کر آؤ، میں تمھیں اپنا گھر دکھاتا ہوں۔”

    دانیال بھی اس کی طرف دوڑا۔ گھر کو اندر سے اتنی نفاست سے سجایا گیا تھا کہ دانیال حیران رہ گیا۔ جبران نے ذرا دیر میں سارا گھر اسے دکھا دیا، وہ بے حد متاثر ہوا، پھر وہ ایک کمرے میں آ کر بیٹھ گئے۔ بلال احمد شاہانہ سے گاؤں کے حالات پوچھنے لگے، اور دونوں دوست اپنی گپ شپ میں محو ہو گئے۔ رات کا کھانا انھوں نے مل کر کھایا، اور پھر کچھ دیر بعد وہ سونے کے لیے چلے گئے۔

    اگلی صبح ناشتے کے بعد جبران کے پاپا تو آفس چلے گئے، جب کہ جبران، دانیال کو لے کر چھت پر آ گیا۔

    "جبران، کیا تمھارا یہاں کوئی دوست نہیں ہے؟” دانیال نے پوچھا۔ جبران نے جواب میں کہا "یہاں محلے میں تو کوئی خاص نہیں البتہ اسکول میں ڈینئل میرا بہت اچھا دوست ہے، ایک آن لائن فرینڈ بھی ہے۔ فیونا…. تمھاری ہی ہم عمر ہے، یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے گیل ٹے کے نام سے، وہاں اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔”

    دانیال نے کبھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا تھا، اس لیے اسے انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے بارے میں کچھ پتانہیں تھا، اس لیے اس نے پوچھا "یہ آن لائن فرینڈ سے کیا مطلب ہے؟”

    جبران کو پہلے تو اس کی بے خبری پر حیرت ہوئی لیکن پھر اس نے تفصیل سے بتا دیا کہ وہ کس طرح اس کی دوست بنی۔ "تو تم آج تک فیونا سے نہیں ملے ہو؟” دانیال نے حیران ہو کر کہا۔

    "نہیں۔” جبران بولا۔ "لیکن چلو، ابھی اس سے رابطہ کرتے ہیں، اس نے کہا تھا کہ میں جیسے ہی واپس آؤں اسے ضرور بتاؤں۔”

    جبران اسے لے کر اپنے کمرے میں آیا، اور کمپیوٹر آن کر کے فیونا کو انباکس میسج کر دیا،کچھ ہی دیر میں فیونا کا جواب آ گیا، اس نے جبران کو اسکاٹ لینڈ واپس آنے پر خوش آمدید کہا تھا، اور پھر پاکستان اور گلگت کے سفر سے متعلق تفصیلات پوچھنے لگی۔ جبران نے اسے دانیال سے متعلق بھی بتا دیا۔ فیونا یہ جان کر خوش ہوئی اور کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چیٹنگ کرے، لیکن جبران نے بتایا کہ دانی کو انگریزی نہیں آتی۔ فیونا کو مایوسی ہوئی، لیکن پھر اس نے دونوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی۔ جبران نے کہا اگر ممی پاپا نے اجازت دی تو وہ ضرور دانی کو لے کر آ جائے گا۔

    دوپہر کو کھانے کی میز پر جبران نے ممی سے فیونا کا ذکر کر دیا، اور جانے کی اجازت مانگی۔ چوں کہ فاصلہ زیادہ نہیں تھا اس لیے انھوں نے اجازت دے دی۔ شام کو پپا نے بھی بہ آسانی اجازت دے دی اور دونوں نے اگلے دن صبح ہی گیل ٹے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

    صبح سویرے دونوں بس میں بیٹھ کر دس منٹ میں گیل ٹے پہنچ گئے۔ فیونا کا گھر ڈھونڈنا کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ تھوڑی ہی دیر میں درست پتے پر پہنچ گئے۔ ایک بہت ہی پیاری لڑکی …. فیونا کھڑکی میں کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔ وہ دراصل ان ہی کا انتظار کر رہی تھی۔ انھیں آتے دیکھ کر وہ دوڑ کر باہر آئی اور ان کے سامنے رک گئی۔ خوش آمدید کہ کر دونوں سے ہاتھ ملایا۔

    جاری ہے…..

  • باغ میں‌ تتلی

    باغ میں‌ تتلی

    نہال خوش تھا۔ بہار آئی ہوئی تھی۔ باغیچے میں پھول ہی پھول کِھلے تھے۔

    اُسے رات جلدی سونے کی عادت تھی کیوں کہ اس سے نیند برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اِدھر کھانا کھاتا اور اُدھر اس کی آنکھیں بوجھل ہونا شروع ہوجاتیں۔ پاپا بڑی مشکل سے اسے تھوڑی سی واک کراتے اور پھر وہ دوڑ کر بستر پر گر جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صبح سویرے ابھی ممی پاپا اور گڑیا سو رہے ہوتے اور نہال جاگ جاتا۔ پھر وہ سارے گھر میں اِدھر اُدھر پھرتا یا کمپیوٹر پر گیم کھیلنے لگ جاتا یا پھر باہر اپنے گھر کے باغیچے میں نکل جاتا۔

    اُس دن جب وہ سویرے سویرے باغیچے میں گیا تو بہت حیران ہوا۔ پودوں پر بہار ایسی اُتری تھی کہ پھول ہی پھول کِھل گئے تھے۔ باغیچے میں ہلکی سی سفید دھند پھیلی تھی۔ اُفق پر سورج نے ابھی سَر نہیں اٹھایا تھا۔ فضا بے حد خوش گوار تھی اور ہلکی ہلکی سردی تھی۔ اسے بڑا مزا آیا۔ رنگ برنگے پھول دیکھ کر وہ خوش ہوا اور دوڑ کر ایک ایک پھول کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگا۔ سارا باغیچہ خوش بو سے مہکا ہوا تھا۔ وہ گہری سانسیں لے کر خوش بو اپنے پھیپھڑوں میں اُتارنے لگا۔

    اسے یاد آیا کہ انگلش بُک کے ایک سبق میں پارک، بہار اور پھولوں کا ذکر اس نے پڑھا تھا۔ اس نے پودوں، درختوں اور پھولوں پر نگاہ دوڑائی تو اسے یہ منظر بالکل اُسی تصویر جیسا لگا جو کتاب میں شامل تھی اور کسی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی شوق سے ڈرائنگ کرتا تھا۔

    کیاری سے گزرتے گزرتے وہ سفید اور ملائم پتیوں والے پھولوں کے پاس رک گیا۔ یہ چنبیلی تھی۔ اس نے زور سے سانس کھینچی۔ یہ خوش بو اسے بہت پسند تھی۔ یکایک وہ چونکا۔

    ارے تتلی… نارنجی، سیاہ اور سفید رنگ کے پروں والی تتلی چنبیلی سے اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

    ”ارے رُکو کہاں جارہی ہو۔“ نہال بولا اور سبز گیلی گھاس پر تتلی کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔ وہ ننگے پاؤں تھا۔ ٹھنڈی گھاس اس کے تلوؤں پر گدگدی کرتی تھی۔ تتلی تھی کہ پھولوں پر سے ہوا کی طرح سرسراتی اڑتی جارہی تھی۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ نہال اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا رہا۔ تتلی آسانی سے کسی کے ہاتھ نہیں آتی۔ اس نے نہال کو دوڑا دوڑا کر تھکا دیا۔ آخر کار وہ بے حال ہوکر رُک گیا اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔

    رنگین پروں والی بڑی تتلی بھی قریبی گلاب پر بیٹھ گئی اور نہال کو دیکھنے لگی۔ ”ٹھیک ہے‘ میں اب تمھیں نہیں پکڑوں گا۔“ نہال نے سانسیں بحال کرتے ہوئے کہا۔

    ”تم بھی اب مت اُڑنا۔ تم مجھے اچھی لگتی ہو۔ کتنے پیارے، رنگین پر ہیں تمھارے۔ یہ پیلا رنگ کتنا پیارا ہے۔“ نہال نے سَر آگے کر کے اُسے قریب سے دیکھنے کی کوشش کی۔

    ”میرے قریب مت آؤ۔“ تتلی نے اچانک اسے ٹوکا اور وہ یہ باریک آواز سن کر اچھل پڑا۔
    ”ارے تم بول سکتی ہو۔“ نہال حیران ہوا۔

    ”ہاں‘ لیکن مجھے تم پر غصہ آرہا ہے‘ تم اچھے نہیں ہو۔“ تتلی پیاری سی باریک آواز میں بولی۔

    نہال نے کہا‘ تتلی کو بھی غصّہ آتا ہے۔ تتلی تو اتنی نازک ہوتی ہے۔ غصّہ کیسے سہتی ہے؟

    تتلی بولی کہ اس کے پَروں کا رنگ پیلا نہیں نارنجی ہے۔ اچھے بچّے تتلی کے پیچھے نہیں دوڑتے۔ اور وہ تتلی کے نارنجی پروں کو پیلا بھی نہیں کہتے۔

    ”اچھا میں سوری کرتا ہوں بس۔“ نہال نے جلدی سے غلطی مان لی۔

    تتلی خوش ہوئی اور بولی۔ ”میرا نام مونارک ہے۔ تمھارا نام مجھے معلوم ہے۔ پاپا نے تمھارا نام نہال رکھا تھا۔“

    ”تمھیں میرا نام کیسے معلوم ہوگیا؟“ نہال مزید حیران ہوا۔

    ”بس ہوگیا معلوم، یہ تمھیں نہیں بتا سکتی۔“ مونارک اِترا کر بولی۔

    ”میں نے تمھیں پہلے یہاں نہیں دیکھا۔“ نہال کہنے لگا۔ ”تم کتنی بڑی ہو، تتلی تو چھوٹی ہوتی ہے۔“

    وہ بتانے لگی کہ مونارک بڑی تتلی ہوتی ہے اور یہاں بس کبھی کبھی آجاتی ہے، وہ بھی سویرے سویرے، اور پھر چلی جاتی ہے۔

    ”تو کیا تم ابھی چلی جاؤ گی۔“ نہال اُداس ہوگیا۔

    ”ہاں۔“ مونارک نے اپنے سَر پر موجود دو انٹینا لہرا کر کہا۔ ”میں جتنی خوب صورت ہوں، اُتنی زہریلی بھی ہوں۔ مجھے کوئی جانور پکڑ کر کھاتا ہے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔ پتا ہے میں آج بہت اداس ہوں۔“

    ”ارے تمھیں کیا ہوا، تم کیوں اداس ہو؟“ نہال نے پریشان ہوکر پوچھا۔

    ”میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں کہ تم زہریلی ہو، ہم تمھارے ساتھ نہیں کھیلیں گے۔“ مونارک بولی۔

    نہال نے یہ سن کر جلدی سے کہا کہ آج سے میں تمھارا دوست ہوں، ہم دونوں کھیلیں گے اور میں تمھیں پکڑنے کی کوشش بھی نہیں کروں گا۔ ٹھیک ہے اب۔ لیکن تتلی نے اسے بتایا کہ اسے ابھی ضرور جانا ہے۔ وہ ہر سال ہزاروں میل کا سفر کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے۔ آج جب وہ یہاں سے گزر رہی تھی تو اس کو ایک تتلی نے بتایا کہ اس کے ماں باپ اس کے پیدا ہوتے ہی مرگئے تھے۔ سبھی مونارکوں کے ماں باپ اسی طرح مرتے ہیں۔ اسے اپنے ماں باپ بہت یاد آتے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے مونارک رونے لگی۔ ننھے ننھے آنسو اس کی آنکھوں میں جھلملانے لگے۔ نہال بھی اُداس ہوا اور اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔

    مونارک کہنے لگی۔ ”نہال‘ میرے دوست، تم کتنے اچھے ہو۔ تم میرے لیے دکھی ہوگئے ہو۔“

    ”ہاں‘ میں تمھیں کبھی بھی زہریلی نہیں کہوں گا، پکّا وعدہ۔“ نہال نے کہا۔

    مونارک اپنی چھے ٹانگوں میں سے دو چھوٹی ٹانگوں سے اپنا پیٹ کھجانے لگی۔

    نہال کو ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے۔ اور پھر کہا۔ ”مونارک‘ تم نے سچ مچ اپنے ممی پاپا کو نہیں دیکھا۔“

    ”ہاں۔“ اس نے اداسی سے اپنا چھوٹا سا سر ہلایا۔ ”مونارک اپنے ماں باپ کو کبھی نہیں دیکھ پاتے۔ وہ انڈوں سے مونارک کے نکلنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔

    نہال نے بوجھل دل سے کہا۔ ”اچھی تتلی، اب تو میں تمھارا دوست ہوں۔ اب تم مت روؤ۔“

    ”ٹھیک ہے میرے دوست۔ لیکن اب مجھے جانا ہوگا۔“ تتلی بولی اور اپنے پَر پھڑ پھڑانے لگی۔ وہ اُڑنے کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ ”مجھے بہت دور، دوسرے ملک جانا ہے۔ اب تمھارے ممی پاپا بھی جاگنے والے ہیں۔ وہ تمھیں تلاش کرنے ادھر آئیں گے۔“

    نہال نے پوچھا کہ کیا وہ پھر آئے گی اس باغیچے میں۔ تتلی نے کہا کہ تتلیاں بس ایک بار سفر کرتی ہیں اور پھر مر جاتی ہیں۔ پھر شاید اس کے بچّے یہاں چکر لگائیں۔

    نہال پریشان ہوگیا۔ ”تو کیا تم اپنے ننھے بچّوں کے ساتھ نہیں ہوگی‘ وہ اکیلے ہوں گے؟“

    ”ہاں۔“ وہ بولی۔ ”مونارک کے بچے یتیم پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ گھبراتے نہیں ہیں۔ اپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے رنگین پَروں سے دنیا کو خوب صورت بناتے ہیں۔“ یہ کہہ کر مونارک اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

  • گیارہ بیٹے…

    گیارہ بیٹے…

    میرے گیارہ بیٹے ہیں۔ پہلا بیٹا بظاہر بہت سیدھا، مگر سنجیدہ اور چالاک ہے۔ اگرچہ میں اسے اپنے دوسرے بچوں کی طرح ہی پیار کرتا ہوں۔ لیکن میں اسے شخصی اعتبار سے اعلیٰ درجہ نہیں دیتا۔ اس کی سوچ کا عمل مجھے بہت سادہ معلوم ہوتا ہے۔ ہر وقت حرکت میں رہتا ہے یا بس ایک ہی نقطے کے گرد گھومتا ہے، اپنی ہی سوچ کے ننھے دائروں میں۔

    دوسرا بیٹا خوش شکل اور دبلا پتلا ہے۔ اسے تیغ زنی کی مشق کرتے ہوئے دیکھنا ایک سانس روک دینے والا منظر ہے۔ وہ چالاک بھی ہے، لیکن جہاں دیدہ بھی۔ اس نے سیاحت بہت کی ہے، اور اسی لیے حتیٰ کہ ہمارا قصبہ بھی اسے اپنے اتنے رازوں میں شریک کرلیتا ہے، جتنے رازوں سے یہاں رہنے والے بھی آگاہ نہیں ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اس کی یہ خوبی صرف اس کی سیاحتوں یا لازمی طور پر صرف انھی کے باعث نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس کی اپنی قابلِ تقلید فطرت کا ایک جوہر ہے جس کی توصیف مثال کے طور پر ہر وہ شخص کرتا ہے جس نے کبھی اس کی نقل اتارنے کی کوشش کی ہو۔ یوں کہیے کہ جیسے وہ پانی میں نہایت شان دار اونچی چھلانگ لگاتا ہے لیکن کبھی کبھی چھلانگ لگانے کے بجائے اچانک نیچے بیٹھ جاتے اور معذرت کے انداز میں بازو ہوا میں پھیلا لیتے ہیں۔اس سب کچھ کے باوجود کہ مجھے ایسے بیٹے کا باپ ہونے پر خوشی محسوس ہونی چاہیے اس کے ساتھ میرا تعلق خوش گوار نہیں ہے۔

    اس کی بائیں آنکھ داہنی آنکھ سے کچھ چھوٹی ہے اور مسلسل جھپکتی رہتی ہے۔ یقینا ایک معمولی نقص۔ لیکن اس سے اس کے چہرے پر دلیری کا تاثر ابھرتا ہے جو کسی اور طرح سے ممکن نہیں۔ نہ ہی خود پر انحصار کرنے کی اس کی ناقابلِ تقلید عادت کے پیشِ نظر کسی نے کبھی اس کی چھوٹی آنکھ اور اس کے جھپکنے کے انداز کو دیکھا یا اس پر غور کیا ہے۔ لیکن میں، اس کا باپ، اس عیب کو شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ میری پریشانی کا سبب اس کا جسمانی عیب نہیں ہے بلکہ روح میں در آنے والا اس عیب سے جڑا انتشار ہے۔ خون میں شامل ہوجانے والا زہر، اپنی فطری اہلیتوں کی معراج حاصل کرنے کی نااہلیت جسے صرف میں محسوس کر سکتا ہوں۔ لیکن یہی بات اسے پھر سے میرا بیٹا ثابت کرتی ہے۔ کیوں کہ اس کا یہ عیب ہمارا خاندانی عیب ہے۔ بس اس میں یہ بہت نمایاں ہے۔

    میرا تیسرا بیٹا بھی خوب صورت ہے لیکن اس کی خوب صورتی میرے معیار کے مطابق نہیں۔ وہ کسی گلوکار کی طرح حسین ہے۔ خم دار ہونٹ، خواب ناک آنکھیں، ایک متناسب سر جو مؤثر ہونے کے لیے پس منظر میں اسٹیج کے پردے کا متقاضی ہوتا ہے، ٹانگیں جو نفاست سے حرکت کرتی ہیں اور بوجھ اٹھانے کی اہل نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں اس کی آواز کا زیر و بم جو مکمل اور گونج دار ہے۔ یہ فوری آپ کو اپنے اثر میں لیتا ہے۔ ماہرِ فن اسے بغور سنتا ہے۔ لیکن پھر اچانک ہی اس کا سانس ٹوٹ جاتا ہے۔ اگرچہ عمومی طور پر مجھے پر بات ترغیب دیتی ہے کہ اپنے اس بیٹے کو شہرت کی دنیا میں لاؤں۔ لیکن میں اسے پس منظر میں رکھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ وہ خود بھی اپنی حالت پر قانع ہے، اپنے نقائص کے ادراک کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی معصومیت کے باعث وہ موجودہ زمانے سے مطمئن بھی نہیں ہے۔ وہ اکثر اداس رہتا ہے اور کوئی بات اسے خوش نہیں کرپاتی۔

    میرا چوتھا بیٹا شاید سب سے زیادہ یار باش آدمی ہے۔ اپنے دور کا صحیح ترین نمائندہ۔ وہ ہر کسی کی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ وہ عام درجے پر کھڑا ہو کر آسانی سے عام لوگوں سے مکالمہ کر سکتا ہے اور ہر کوئی اس سے متفق ہو جانے کی ترغیب محسوس کرتا ہے۔ اس کی حرکات آزادانہ ہیں اور اس کے فیصلے بے بنیاد ہوتے ہیں۔ اس کے بہت سے مقولے بار بار دہرائے جانے کے لائق ہوتے ہیں، اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو حیرت انگیز انداز میں زمین سے بلند ہو، ایک چڑیا کی طرح ہوا کو چیرتا جائے۔ لیکن اس سب کچھ کے بعد کسی بے کار شے کی مانند کسی ویرانے میں واپس آ گرے۔ ایسے ہی خیالات مجھے دق کرتے ہیں جب میں اس کی طرف دیکھتا ہوں۔

    میرا پانچواں بیٹا مہربان اور نرم گفتار ہے۔ جتنا ہونہار ہے، اس سے زیادہ ہی اس نے زندگی میں پایا۔ کبھی اتنا منکسر المزاج ہوجاتا ہے کہ اس کی موجودگی میں دوسرا شخص خواہ مخواہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے۔ معاشرے میں اس نے کچھ شہرت بھی کمائی۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ یہ کیسے ممکن ہوا تو میں کوئی واضح جواب نہیں دے پاؤں گا۔ شاید اس کی معصومیت نے اس دنیا کے بنیادی انتشار میں اپنے لیے راہ ہموار کی۔ معصوم تو وہ ہے۔غالباً حد سے زیادہ معصوم۔ ہر کسی کا دوست۔ شاید حد سے زیادہ دوست۔ مجھے اعتراف ہے کہ مجھے اچھا نہیں لگتا جب اس کی تعریف کی جا رہی ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تعریف کرنا شاید دنیا کا گھٹیا ترین مشغلہ ہے کہ اس سے کسی کو بھی سرفراز کیا جا سکتا ہے جو اتنا ہی تعریف کے قابل ہو جتنا میرا یہ بیٹا ہے۔

    میرا چھٹا بیٹا پہلی نظر میں بظاہر سب بیٹوں سے زیادہ سمجھ دار معلوم ہوتا ہے۔ وہ بہت باتونی بھی ہے۔ اسی لیے اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔ اگر اسے نظر انداز کیا جائے تو وہ ناقابل فہم اداسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر وہ مرکزِ توجہ رہے تو اپنی بے تکان باتوں سے اس کا خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ اس میں خود فراموشی کا گہرا رجحان موجود ہے۔ دن کی روشنی میں وہ اکثر اپنے خیالات کے الجھاؤ سے لڑتا ہے جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔ بیمار ہوئے بغیر، اگرچہ اس کی صحت بہت اچھی ہے، وہ کبھی کبھار خاص طور پر شام کے جھٹ پٹے میں ڈگمگا جاتا ہے۔ لیکن اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ کبھی نہیں گرتا۔ شاید اس کی جسمانی افزائش اس مظہر کی وجہ ہے۔ وہ اپنی عمر کی نسبت دراز قد ہے۔ یوں وہ دیکھنے میں عام طور پر بہت بے ڈھنگا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ اور پیر غیر معمولی طور پر خوب صورت ہیں۔ اس کی پیشانی بھی بد ہیئت ہے۔ اس کی جلد اور ہڈیوں کی ساخت اپنی نمو میں کہیں نامکمل رہ گئی ہے۔

    میرا ساتوں بیٹا غالباً باقی بیٹوں میں میرے سب سے قریب ہے۔ لوگوں کو اس کی قدر کرنی نہیں آتی۔ وہ میرے بیٹے کی حسِ مزاح کا فہم نہیں رکھتے۔ میں اس کی بے جا تعریف نہیں کر رہا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ بہت اہم شخص نہیں ہے۔ اگر دنیا میں اس کی قدر نہ کرسکنے کے سوا اور کوئی خامی نہ ہو تو پھر بھی وہ بے قصور ہے۔ اپنے خاندانی حلقے میں مجھے اس کے بغیر رہنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی ، وہ روایتوں کے لیے بیک وقت بے اعتباری اور عقیدت محسوس کرتا ہے اور ان دونوں جذبوں کو جیسا کہ کم از کم مجھے محسوس ہوتا ہے، ایک ناقابلِ مسابقت اکائی میں یکجا کر دیتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ کسی بھی عام انسان کی نسبت کم جانتا ہے کہ اس کام یابی کو کیسے استعمال کرے۔

    میری خواہش ہے کہ وہ عیال دار ہو۔ اس کے بچّوں کے بچّے ہوں لیکن بد قسمتی سے اس کے طرزِ زندگی سے لگتا ہے وہ شاید کبھی میری خواہش پوری نہیں کر پائے گا۔ خود اطمینانی کے ساتھ جسے میں جانتا اور اس بات پر کفِ افسوس بھی ملتا ہوں، اور جو لوگوں کی اس کے بارے میں رائے سے غیر معمولی طور پر مختلف ہے، وہ ہر جگہ اکیلا ہی جاتا ہے۔

    میرا آٹھوں بیٹا غم کا پروردہ ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کیوں؟ ہمیشہ مجھ سے دور رہتا ہے۔ لیکن میری پدرانہ محبت مجھے اس سے باندھے رکھتی ہے۔ اس کے دکھ میں وقت کے گزران سے کافی تخفیف ہوئی ہے۔ وہ ایک بہت مختلف انداز میں زندگی گزارتا ہے۔ اس نے مجھ سے اپنا ہر تعلق منقطع کر رکھا ہے۔ اور خاص طور پر اپنے سخت سَر، چھوٹے کسرتی جسم کے ساتھ ، کہ اس کی ٹانگیں بچپن میں بہت نحیف تھیں جو شاید اس دوران میں بہتر ہوچکی ہیں، وہ زندگی کے جس میدان میں جائے گا، کام یاب ہوگا۔ کئی مواقع پر میں نے اسے واپس بلانے کا سوچا، تاکہ پوچھوں کہ اس کی زندگی کیسے گزر رہی ہے، کیوں اس نے خود کو اپنے باپ سے مکمل جدا کر رکھا ہے اور زندگی میں اس کا مقصد کیا ہے؟لیکن وہ اتنا دور جا چکا ہے اور اس دوران میں اتنا وقت گزر چکا ہے کہ جیسا سب کچھ ہے۔

    میرا نواں بیٹا بہت باوقار ہے اور، جنھیں عورتیں محبت آمیز آنکھیں کہتی ہیں، ویسی آنکھیں اس کی ہیں۔ اتنی محبت آمیز کہ ایسے مواقع آتے ہیں جب وہ مجھے بھی اپنا اسیر کر لیتی ہیں۔ حالاں کہ میں جانتا ہوں کہ ایک گیلا اسفنج اس غیر زمینی عظمت کو دھو ڈالنے کے لیے کافی ہوگا۔ لیکن اس لڑکے کے متعلق عجیب بات یہ ہے کہ وہ کبھی کسی کو جھانسہ دینے کی کوشش نہیں کرتا۔

    میرے دسویں بیٹے کو ایک خود غرض انسان تصور کیا جاتا ہے۔ میں اس مفروضے کو یکسر ردّ یا قبول نہیں کروں گا۔ خاص طور پر جو کوئی اسے خود سے دگنی عمر کے شخص کے تکلف کے ساتھ آتا دیکھتا ہے۔ ذرا اس کی گفتگو سنیے۔ فہم و فراست، اعلیٰ بصیرت اور پاکیزہ صاف گوئی، طنزیہ گرم جوشی کے ساتھ واضح سوالات، کائنات سے مکمل ہم آہنگ، ایسی موافقت جو ناگزیر طور پر گردن کو اکڑا دیتی اور جسم کو غرور سے بھر دیتی ہے۔

    میرا گیارھواں بیٹا ایک نفیس الطبع انسان ہے، شاید میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ نحیف۔ لیکن اس کی کم زوری پُرفریب ہے۔ کیوں کہ کبھی کبھار وہ بہت مضبوط اور متحرک ہو جاتا ہے۔ بہرحال یہ ایسی خصوصیات نہیں ہیں جو ایک باپ کے دل کو راحت دیں۔ یہ خاندانوں کو تباہ کرنے کے درپے ہوتی ہیں۔ بعض اوقات وہ مجھے یوں دیکھتا ہے جیسے کہنا چاہ رہا ہو، ’’ابو میں آپ کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

    تب میں سوچتا ہوں ’’تم آخری شخص ہو گے جس پر میں کبھی اعتماد کروں گا۔‘‘

    یہ میرے گیارہ بیٹے ہیں۔

    (’’کافکا کہانیاں‘‘ سے انتخاب، مترجم: محمد عاصم بٹ)