Tag: عالمی ادب سے انتخاب

  • خدا سب کا ایک ہے!

    خدا سب کا ایک ہے!

    کسی ملک میں ابراہم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ ایک معمولی اوقات کا عیال دار تھا۔ مگر تھا بہت ایمان دار اور سخی۔ اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔

    اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سے سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو مسافر اسی سڑک سے آتے جاتے تھے۔

    رستے میں آرام کرنے کے لئے اور کوئی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تھا۔ ابراہم ان کی مناسب خاطر داری کرتا۔ مسافر ہاتھ منہ دھو کر جب ابراہم کے گھ روالوں کے ساتھ کھانے بیٹھتے تو کھانے سے پہلے ابراہم ایک چھوٹی سی دعا پڑھتا اور خدا کا اس کی مہربانی کے لئے شکر ادا کرتا۔ بعد میں باقی سب آدمی بھی اس دعا کو دہراتے۔

    مسافروں کی خدمت کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن سب کے دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ زمانے کے پھیر میں پڑ کر ابراہم غریب ہو گیا۔ اس پر بھی اس نے مسافروں کو کھانا دینا بند نہ کیا۔ وہ اور اس کے بیوی بچے دن میں ایک بار کھانا کھاتے اور ایک وقت کا کھانا بچا کر مسافروں کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس سخاوت سے ابراہم کو بہت اطمینان ہوتا، لیکن ساتھ ساتھ ہی اسے کچھ غرور ہو گیا اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں بہت بڑا ایمان دار ہوں اور میرا ایمان ہی سب سے اونچا ہے۔

    ایک دن دوپہر کو اس کے دروازے پر ایک تھکا ماندہ بوڑھا آیا۔ وہ بہت ہی کمزور تھا۔ اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی تھی اور کمزوری کے باعث اس کے قدم بھی سیدھے نہیں پڑ رہے تھے۔ اس نے ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابراہم اسے اندر لے گیا اور آگ کے پاس جا کر بٹھا دیا۔ کچھ دیر آرام کر کے بوڑھا بولا۔ ’’بیٹا میں بہت دور سے آ رہا ہوں۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ابراہم نے جلدی سے کھانا تیار کروایا اور جب کھانے کا وقت ہوا تو اپنے قاعدے کے مطابق دعا کی۔ اس دعا کو اس کے بیوی بچوں نے اس کے پیچھے کھڑے ہو کر دہرایا۔ ابراہم نے دیکھا وہ بوڑھا چپ چاپ بیٹھا ہے۔ اس پر اس نے بوڑھے سے پوچھا۔’’کیا تم ہمارے مذہب میں یقین نہیں رکھتے، تم نے ہمارے ساتھ دعا کیوں نہیں کی؟‘‘

    بوڑھا بولا۔ ’’ہم لوگ آ گ کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘

    اتنا سن کر ابراہم غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے کہا۔

    ’’اگر تم ہمارے خدا پر یقین نہیں رکھتے اور ہمارے ساتھ دعا بھی نہیں کرتے تو اسی وقت ہمارے گھر سے باہر نکل جاؤ۔‘‘

    ابراہم نے اسے کھانا دیے بغیر ہی گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کر لیا۔ مگر دروازہ بند کرتے ہی کمرے میں اچانک روشنی پھیل گئی اورایک فرشتے نے ظاہر ہو کر کہا۔

    ابراہم یہ تم نے کیا کیا؟ یہ غریب بوڑھا سو سال کا ہے۔ خدا نے اتنی عمر تک اس کی دیکھ بھال کی اور ایک تم ہو جو اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہو اس پر بھی اسے ایک دن کھانا نہیں دے سکے، صرف اس لئے کہ اس کا مذہب تمہارے مذہب سے الگ ہے۔ دنیا میں مذہب چاہے بے شمار ہوں۔ لیکن خدا سب کا سچا خالق ہے اور سب کا وہی ایک مالک ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر فرشتہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ابراہیم کو اپنی غلطی معلوم ہوئی اور وہ بھاگا بھاگا اس بوڑھے کے پاس پہنچا اور اس بوڑھے بزرگ سے معافی مانگی۔ بوڑھے نے اسے معاف کرتے ہوئے کہا ۔’بیٹا اب تو تم سمجھ گئے ہو گے کہ خدا سب کا ایک ہے۔‘‘

    یہ سن کر ابراہم کو بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ یہی بات اس سے فرشتے نے بھی کہی تھی۔

    (پیرس کی ایک لوک کہانی)

  • ایک کشتی کے چار مسافر (ترکی ادب سے ترجمہ)

    ایک کشتی کے چار مسافر (ترکی ادب سے ترجمہ)

    عرشے پر بجھے بجھے بلب کی روشنی میں چار آفراد بیٹھے تھے۔ ایک بھورے بالوں والی خاتون، ایک قصاب جس سے کچّے گوشت کی بساند آ رہی تھی، ایک گنجے سر والا پروفیسر، منہ میں پائپ تھامے ایک گورا چٹا نوجوان۔

    چاروں کے پہنچنے سے پہلے ہی آخری اسٹیمر چھوٹ چکا تھا۔ اس کشتی کے کپتان نے جو نیند میں دھت تھا، فی کس پانچ لیروں (رقم) کا مطالبہ کیا تو چاروں کود کر جھٹ کشتی میں سوار ہو گئے۔

    انجن سے چلنے والی یہ کشتی اندھیرے میں پانی کو چیرتے آگے بڑھ رہی تھی۔ بھورے بالوں والی عورت ٹانگ پر ٹانگ ٹکائے سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔ سگریٹ کے دھوئیں کو ایک شان دار انداز میں رات کی خنکی کی طرف چھوڑ رہی تھی۔

    گورے چٹے نوجوان کی نگاہیں خاتون کے گھٹنوں پر مرکوز تھیں۔ گو اس کا ذہن ابھی تک شراب خانے کی اس ویٹرس کی بھری بھری رانوں میں الجھا ہوا تھا جس سے وہ تھوڑی ہی دیر پہلے جدا ہوا تھا۔ پروفیسر کا دماغ اس مقالے میں پھنسا ہوا تھا جو وہ ٹرام میں سفر کے دوران پڑھ چکا تھا۔ قصاب ادھر مونگ پھلی کھا رہا تھا اور ادھر اس بل کے بارے میں سوچ رہا تھا جو بکروں کے تھوک کے بیوپاری نے اسے بھیجا تھا۔ چلو قرامانی بکرے کے ڈیڑھ سو لیرے مان بھی لو مگر اس ناہنجار نے پہاڑی بکروں کی قیمت ایک سو اسّی کے حساب سے کیسے لگائی ہے؟‘‘

    رات کے وقت آسمان پر ستاروں کا نام و نشان نہیں تھا۔ سمندر کی موجوں میں معمولی سا اضطراب دکھائی دیتا تھا۔ کشتی سے ٹکراتی چھوٹی چھوٹی لہروں کی پھوار کبھی کبھی تڑپال کے گدوں کو بھگو جاتی تھی۔ کشتی استنبول کے ساحلی قصبوں کو پیچھے چھوڑتی جزیروں کی جانب بڑھ رہی تھی۔

    بھورے بالوں والی خاتون کو سردی لگی ہو گی کہ وہ یکدم عرشے سی اٹھی اور ہوا سے اڑتی اسکرٹ کو تھامے تھامے کمرے کی طرف لپکی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس کا سر چکرانے لگا۔ کیونکہ کمرہ جلتے پٹرول اور دہکتے لوہے کی ملی جلی بُو سے بھرا ہوا تھا۔ خاتون نے فوراً ایک کھڑکی کھولی اور اس کے بالمقابل بیٹھ گئی۔ چاملی جا کی ڈھلانوں سے ہوائی جہاز مار گرانے والی توپوں کی دو عدد سرچ لائٹیں اندھیرے گھپ آسمان کو کھنگال رہی تھیں۔ ان میں سے ایک آہستہ آہستہ دائیں سے بائیں حرکت کر رہی تھی جب کہ دوسری بائیں سے دائیں سرک رہی تھی۔ دونوں شعاعیں وسط میں ایک جگہ پہنچ کر اکھٹی ہوتیں تو دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا جاتیں۔

    خاتون اسی نظارے سے لطف اندوز ہونے میں مگن تھی کہ قریب ہی سے جگنو کی طرح کی کوئی عجیب سی روشنی اڑ کر سمندر میں جا گری۔ اس کے بعد ایک اور پھر اور یکے بعد دیگرے روشنی کی چنگاریوں کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہو گیا۔ عورت اپنے خیالوں میں ڈوبی کچھ دیر ایک دوسرے کا پیچھا کرنے والے ان روشنی کے مکوڑوں کو ایک ایک کر کے کالے سیاہ سمندر میں گرتے اور پھر چینی سیاہی کی طرح پگھلتے دیکھتی رہی۔ پھر اچانک اسے پگھلتے لوہے کی وہ بُو یاد آئی جس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کا استقبال کیا تھا۔ وہ اچھل کر اپنی جگہ سے اٹھی اور کپتان کے کمرے کی طرف لپکی۔ اس کمرے کے دروازے میں سے ہلکا سے دھواں باہر آ رہا تھا۔ وہ گھبرا کر دروازے کے ساتھ چمٹ گئی۔ تب اس نے چہرہ جھلساتے دھوئیں میں سے دیکھا کہ اندر کپتان اور اس کا میٹ جو رسّے سے کشتی کو ساحل سے باندھنے کا کام کرتا ہے۔ دونوں خون پسینے سے تر زمین پر آلتی پالتی مارے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ بے ہوش ہونے کو ہے پھر آگ آگ بچاؤ بچاؤ چلاّتی کمرے سے باہر کود گئی، عورت کے چلّانے کی وجہ سے عرشے پر بھگدڑ مچ گئی۔

    وہ چونکہ کپتان کے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ آئی تھی اس لیے اب دھواں اتنا گاڑھا ہو گیا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ قصاب نے گھبراہٹ میں اپنی سیٹ کی گدی اٹھا کر سینے سے بھینچ رکھی تھی۔ پروفیسر صاحب کشتی کا واحد حفاظتی جیکٹ اٹھا کر زیب تن کر چکے تھے۔ نوجوان کے منہ سے بوکھلاہٹ کے باعث پائپ نیچے گر چکا تھا۔ بھورے بالوں والی خاتون نوجوان کی طرف بھاگی اور منت سماجت کرتے ہوئی بولی۔

    ’’مجھے بچا لو……….مجھے بچا لو…………مجھے تو تیرنا بھی نہیں آتا۔‘‘

    نو جوان تھر تھر کانپتی آواز میں بولا: ’’ میں بھی نہیں جانتا تیرنا۔‘‘ حالانکہ وہ تھوڑا بہت تیرنا جانتا تھا۔ کم از کم اتنا تو ضرور جانتا تھا کہ آدھ گھنٹے کے قریب پانی کی سطح پر رہ سکتا، مگر تنِ تنہا۔ اس سے مایوس ہو کر خاتون نے قصاب سے مدد کی امید باندھی۔ مگر وہ اس وقت دونوں ہاتھ پھیلا لا کر منت مان رہا تھا۔‘‘

    اگر اس مصیبت سے میں زندہ بچ جاؤں تو اپنی جان کا صدقہ تین بھیڑیں قربان کروں گا۔‘‘

    سب سے بری حالت پروفیسر کی تھی حالانکہ اسے اپنے بڑا بہادر ہونے کا دعوی تھا۔ ابھی اسی روز صبح یہ پڑھاتے ہوئے کہ سقراط نے کیسے زندگی کو حقیر جان کر ٹھکرا دیا تھا، اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ ایک حقیقی فلسفی کے لیے ایسی راہ عمل اختیار کرنا بالکل معمولی بات ہوتی ہے اور یہ کہ وہ خود بھی سقراط کی طرح ہنستے مسکراتے موت کا خیر مقدم کر سکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ طلبا کے ساتھ ساتھ وہ خود اپنے آپ کو بھی اپنے اس طرزِ عمل کے بارے میں یقین دلانے میں کام یاب ہو گیا تھا۔

    اس وقت میٹ بالٹی میں پانی بھر رہا تھا۔ عورت اس کے بالوں سے اٹے سینے سے چمٹ کر چلّائی۔

    ’’ خدا کا واسطہ ہے مجھے اکیلے چھوڑ کر نہ چلے جانا۔ ہرگز نہ جانا مجھے چھوڑ کر۔‘‘
    وہ یونہی شور مچا رہی تھی کہ ادھر سے کپتان کی آواز سنائی دی۔ ’’ ہنگامہ مت کرو۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ تم لوگ ضرور اس کشتی کو ڈبو کے رہو گے۔‘‘

    غصے میں ہونے کے باوجود کپتان کی آواز میں کوئی ایسا جادو تھا جس سے سب کو سلامتی کا پیغام مل رہا تھا۔ کیا آگ پر قابو پا لیا گیا تھا؟ جی ہاں، آگ بجھا لی گئی ہو گی ورنہ کپتان کو انہیں یوں جھڑکیں پلانے کی مہلت کیسے مل سکتی تھی۔ اور پھر میٹ بالٹی میں بچا ہوا پانی دوبارہ سمندر میں کیسے انڈیل سکتا تھا؟

    کپتان پھر بولا۔ ’’ خدا جانے کیسے لوگوں سے پالا پڑا ہے۔‘‘ پروفیسر کے مطابق کپتان کا غصہ بالکل جائز تھا۔ وہ اپنا کالر سیدھا کرتے ہوئے کھؤ کھؤ کر کے کھانسا اور ابھی کہنے ہی کو تھا کہ ’’ حضرات، یہ گھبراہٹ چہ معنی دارد؟ خاموش ہو جائیے۔‘‘ مگر اچھا ہی ہوا کہ وہ یہ الفاظ نہ کہہ پایا۔ کہتا بھی کیسے؟ ابھی تک حفاظتی جیکٹ اس کے جسم پر ہی رونق افروز تھا۔

    کشتی کا انجن ایک دو بار رکا اور پھر دوبارہ مزے مزے سے چلنے لگا۔ کپتان اب واپس اپنی جگہ پر پہنچ چکا تھا۔ وہ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے تک آگ کی وجہ سے لال سرخ ہو جانے والی کشتی کے انجن کو، اور شور و غوغا کرنے والے مسافروں کو جلی کٹی سنا رہا تھا۔ مگر کسی نے ذرا بھی برا نہ منایا۔ برا بھلا کہتا ہے تو کہتا رہے، گالیاں دیتا ہے تو دیتا رہے گا۔ چاہے تو بیشک سب کو پیٹ بھی لے۔ کیا یہی کچھ کم ہے کہ اس نے ہم سب کی جان بچا لی ہے۔

    میٹ اب اپنی قمیص کے بازو سے پسینہ خشک کر رہا تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اس پورے ہنگامے میں کپتان سے کہیں زیادہ یہ بچارا تھکن کا شکار ہوا تھا۔ کوئی پندرہ منٹ بعد ہر چیز اپنے معمول پر آ چکی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے ہوا گلا گھونٹتے کثیف دھوئیں کے ساتھ ساتھ موت کے خطرے کو بھی عرشے پر سے اچک کر اڑا لے گئی ہے۔

    عرشے پر بجھے بجھے بلب کی روشنی میں اب پھر وہی چار مسافر بیٹھے تھے۔ چار مسافر جو سب کے سب اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ خاتون بظاہر خاصے سکونِ قلب سے ہمکنار ہو چکی تھی۔ وہ سگریٹ بھی پی رہی ہوتی، اگر اس کے ہاتھ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی کانپنا نہ شروع کر دیتے۔

    نوجوان حسبِ سابق پائپ کے کش لگا رہا تھا البتہ اب اس کی نگاہیں خاتون کے گھٹنوں پر مرکوز نہیں تھیں۔ پروفیسر پیچھے گھر میں اپنی منتظر گول مٹول بیوی اور لال لال گالوں والے بچوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جنہیں اب وہ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ پیار کرنے لگا تھا۔

    جہاں تک قصاب کا تعلق ہے تو وہ تھوڑی دیر پہلے مانی گئی منت کی تین بھیڑوں کی تعداد گھٹا کر دو کرنے کی خاطر اپنے ضمیر کو بہکانے میں مصروف تھا۔ وہ اپنی اس کوشش میں کام یاب بھی ہو چکا تھا۔ اور کام یاب بھی اس حد تک کہ جونہی بڑے جزیرے کی روشنیاں دکھائی دینے لگیں، قصاب کی قربانی کی بھیڑوں کی تعداد گھٹ کر ایک ہو گئی۔ اس ایک بھیڑ کو بھی وہ عید قربان پر ذبح کرنے کا عہد کر چکا تھا۔

    منزلِ مقصود پر پہنچتے ہی کشتی پر سے کود کر نیچے اترنے والا پہلا شخص پروفیسر تھا۔ اس کے بعد گورا چٹا نوجوان جو سیٹیاں بجاتا، ڈانس میوزک کی دھنیں سناتا چلا جا رہا تھا۔ قصاب بھاگتا بھاگتا، اچھلتا کودتا، ایک بچّے کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے
    اوجھل ہو گیا۔ بھورے بالوں والی خاتون کی باری سب سے آخر میں آئی۔ اسے ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ ڈولتی کشتی میں سے چھلانگ لگا کر ساحل پر جا اترے۔ میٹ نے ہاتھ بڑھا کر اس کی مدد کرنے کی پیشکش کی مگر خاتون بھلا اس پسینے کی بو والے، میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس شخص کا بازو تھامنے پر کیسے راضی ہو سکتی تھی؟ اس نے ہچکچاتے ہوئے اناڑیوں جیسی جست لگائی اور خود کو ساحل پر پہنچا دیا۔ پھر اپنی جوتی کی ایڑیوں کے بل نہایت پُر وقار طریقے سے خراماں خراماں ساحل سے دور ہوتی چلی گئی۔

    (افسانہ نگار: یشار کمال، ترکی، اردو مترجم: مسعود اختر شیخ)

  • ہیرے کا ہار

    ہیرے کا ہار

    شارلٹ اتنی خوب صورت تھی کہ ہر کوئی کہتا اس کو تو کسی محل میں پیدا ہونا چاہیے تھا، لیکن وہ ایک سبزی فروش کے گھر پیدا ہوئی جہاں اس کی قسمت پر غربت کی مہر لگ چکی تھی۔

    بڑھتی جوانی نے شارلٹ کو اپنی خوب صورتی اور غربت کا شدید احساس دلایا۔

    وہ کتنی کتنی دیر آئینے کے سامنے کھڑی اپنے حسن کو سراہتی۔ پھر اپنی بدقسمتی پر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے نم ہو جاتیں۔ وہ تصور میں اس شہزادے کا انتظار کرتی جس کے بارے میں اس نے کہانیوں میں پڑھا تھا۔ لیکن یہ سب خواب دھرے رہ گئے جب اس کی شادی محکمہ تعلیم کے ایک کلرک سے ہو گئی۔

    الگزینڈر چاہتا تھا کہ شارلٹ کو ہر آسائش ملے۔ اس نے ایک لڑکی ملازم رکھ لی تھی جو ہر روز آ کر برتن دھوتی، کھانا پکاتی، اور باہر کے کام کاج کرتی۔

    شارلٹ اب پچیس سال کی ہو چکی تھی۔ اسے احساس تھا کہ اس کی زندگی غربت میں ضائع ہورہی ہے۔ وہ اونچی سوسائٹی کا حصہ بننا چاہتی تھی لیکن مجبور تھی۔

    شارلٹ کی واحد دوست اسکول کی ایک سہیلی جین تھی جس کی شادی ایک امیر گھرانے میں ہوئی اور جو مادام جیرارڈ کی حیثیت سے سوشل حلقوں میں بہت مقبول تھی۔

    ایک دن الگزینڈر بہت خوش خوش دفتر سے لوٹا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جو اس نے شارلٹ کو تھما دیا۔ شارلٹ نے اکتاہٹ سے اسے ڈریسر پر رکھ دیا۔

    ’’کم سے کم اسے دیکھ تو لو۔ یہ وزیر تعلیم کی طرف سے ایک ڈانس پارٹی کا دعوت نامہ ہے۔ کلرکوں میں بس مجھے ہی ملا۔ بڑی مشکل سے۔‘‘

    شارلٹ نے اداسی سے کہا۔ ’’میرے پاس پہننے کے لیے کوئی بھی مناسب کپڑے نہیں ہیں۔ کیسے جا سکتی ہوں۔‘‘

    ’’نیا ڈریس کتنے میں آ جائے گا؟‘‘ الگزینڈر نے پوچھا۔

    ’’چار سو فرینک سے کم میں تو نہیں آ سکتا۔‘‘

    وہ شانزے لیزے کی ایک دکان پر گئے جہاں شارلٹ نے ایک بہت خوب صورت ڈریس منتخب کیا۔ دونوں خوش خوش گھر لوٹے۔ شارلٹ نے دوبارہ ڈریس پہنا۔ دونوں ڈریسر کے آئینے کے سامنے کھڑے تھے۔ الگزینڈر نے دیکھا کہ شارلٹ اپنے آپ کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے اداس نظر آ رہی ہے۔

    الگزینڈر نے جھنجھلا کر پوچھا۔ ’’ابھی تو بہت خوش تھیں۔ اچانک کیا ہو گیا؟‘‘

    ’’وہاں اونچے خاندانوں کی بیگمات ہوں گی جو ہیرے جواہرات سے لدی ہوں گی اور میرے پاس ایک بھی زیور نہیں جو میں اس ڈریس کے ساتھ پہن سکوں، میری کتنی تضحیک ہو گی؟‘‘

    ’’تم بالوں میں پھول لگا کر جا سکتی ہو۔ بہت اچھے لگیں گے۔‘‘الگزینڈر نے مشورہ دیا۔

    ’’نہیں الگزینڈر۔ تم یہ دعوت نامہ اپنے دفتر کے کسی اور کلرک کو دے دو۔‘‘

    ’’اب تو چار سو فرینک کا ڈریس بھی خرید لیا۔ اب تو جانا ہی ہو گا۔ کیا ہو سکتا ہے؟ اوہ، ا یسا کرو وہ جو تمہاری سہیلی ہے نا، جین، تم اس سے کوئی زیور ادھار مانگ لو۔‘‘

    شارلٹ کو یہ خیال پسند آیا۔ ابھی پارٹی میں دو ہفتے باقی تھے۔ اگلے دن شارلٹ اپنی سہیلی کے پاس گئی۔ جین نے زیورات کے کئی ڈبّے شارلٹ کے سامنے رکھ دیے۔ شارلٹ نے انہیں پہن کر دیکھا مگر کوئی پسند نہیں آیا۔

    ’’ یہ سب بہت خوب صورت ہیں مگربات بن نہیں رہی۔ تمہارے پاس اور کچھ ہے؟‘‘
    جین نے دراز سے ایک اور ڈبہ نکالا۔ سنہرے ڈبے کے اندر سیاہ مخمل کی گدی پر جگمگاتے ہیروں کی ایک بہت خوب صورت مالا رکھی تھی۔

    ’’میں پارٹی کے لیے یہ ہار ادھار لے لوں۔ صرف ایک رات کے لیے؟‘‘

    ’’کیوں نہیں، ضرور لو۔ اپنی پیاری سہیلی کے لیے میں اتنا بھی نہیں کر سکتی؟‘‘
    شارلٹ نے جین کو گلے لگا کر کہا کہ وہ یہ احسان کبھی نہیں بھولے گی۔

    پارٹی کی رات شارلٹ انتہائی خوب صورت لگ رہی تھی۔ اعلیٰ افسران کی بیگمات اسے حسد اور ان کے شوہر اسے ہوس اور حسرت سے دیکھ رہے تھے۔ وزیر تعلیم تک اس کے ساتھ رقص میں شریک ہوا۔ ساری رات موسیقی، رقص اور مشروبات کے دور چلے۔ صبح چار بجے کے قریب پارٹی اختتام کو پہنچی۔

    وہ بہت دیر تک کپکپاتی سردی میں کرائے کی گاڑی ڈھونڈتے رہے۔ مشکل سے ایک پھٹیچر سی گھوڑا گاڑی ملی اور وہ صبح چھ بجے گھر پہنچے۔

    الگزینڈر کا تھکن سے برا حال تھا۔ وہ صوفے پر ہی سو گیا۔ لیکن شارلٹ پارٹی کے نشے میں ڈریسر کے سامنے کھڑی ہو کر اپنی خوب صورتی کو سراہنے میں مصروف ہو گئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ہیروں کی مالا نے اس کے حُسن کو کیسے چار چاند لگا دیے تھے۔

    اچانک ایک جگر چیر دینے والی ہول ناک چیخ نے الگزینڈر کو جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ وہ بھاگا ہوا کمرے میں آیا جہاں شارلٹ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا گلا پکڑا ہوا تھا۔ اس کی رنگت بالکل زرد پڑ چکی تھی۔

    ’’کیا ہواشارلٹ۔ تم نے اپنا گلا کیوں دبوچا۔‘‘ ابھی اس کا فقرہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس پر صورتِ حال آشکار ہو گئی۔ شارلٹ کے گلے سے ہار غائب تھا۔

    ’’اچھی طرح دیکھو، کیا پتہ کوٹ کے پھٹے ہوئے استر میں گر گیا ہو؟‘‘

    ’’دیکھا ہے میں نے، ہر جگہ دیکھا۔‘‘

    ’’تم نے کرائے کی گاڑی کا نمبر دیکھا تھا؟

    ’’نہیں‘‘

    ’’اب کیا کریں؟ ‘‘

    الگزینڈر دوبارہ کپڑے بدل کر پیدل ڈانس ہال کی طرف چل دیا۔ وہ ہرقدم پر دیکھ رہا تھا کہ شاید ہار وہیں پڑا مل جائے۔ وہ کرائے کی گاڑیوں کے دفتر میں گیا۔ پولیس کو رپورٹ لکھائی۔ اخبار میں اشتہار دیا۔ مگر سب لا حاصل۔

    جب شام گئے ناکام گھر لوٹا تو لگتا تھا کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ اسی تلاش میں تین دن گزر گئے۔

    شارلٹ نے جین کو پیغام بھجوایا کہ ہار کا کندہ ٹوٹ گیا تھا، اس کو جوہری کے پاس مرمت کے لیے چھوڑا ہے، ہفتے دس دن میں ٹھیک ہو جائے گا۔

    خالی ڈبّے پر جوہری کا نام لکھا تھا۔ دونوں جوہری کی دکان پر پہنچے مگر اس کے ریکارڈ میں ایسے ہار کی فروخت کا اندراج نہیں تھا۔ انھیں ایک اور دکان پر ہو بہو ویسا ہی ہیروں کا ایک ہار نظر آیا۔ ہار کی قیمت بتیس ہزار فرینک تھی۔

    الگزینڈر نے تنخواہ سے اٹھارہ ہزار فرینک پنشن فنڈ کے لیے بچائے تھے۔ باقی چودہ ہزار کے لیے اس نے گھر کی کئی چیزیں بیچیں۔ دوستوں، رشتے داروں اور کام پر ساتھیوں سے ادھار مانگا۔ قرضوں کے کاروباری بوڑھے سود خوروں کے اسٹامپ پیپر پر دستخط کر کے اپنی پوری زندگی ان کے ہاتھ گروی رکھوا دی۔ رقم جمع کی اور جوہری سے ہار خرید لیا۔

    شارلٹ ہار لے کر مادام جیرارڈ کے گھر پہنچی۔ جین نے ہار کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ ڈبّہ کھول کر تک نہیں دیکھا۔

    الگزینڈر کو اب قرضوں کی ادائیگی کرنا تھی۔ سب سے پہلے تو ملازمہ کو فارغ کیا۔ پھر اس نے دفتر کے کام کے ساتھ دکانوں پر بک کیپنگ شروع کر دی۔ شارلٹ کہاں تو نچلے متوسط طبقے کو منہ نہیں لگاتی تھی اور کہاں اب یہ نوبت آ گئی تھی کہ اسے خود گھریلو ملازمت کرنا پڑی۔ وہ گھر کے سارے کام خود کرتی۔ سودا سلف کے لیے دکان داروں سے پیسے پیسے پر لڑتی۔ اس کے چہرے پر غربت کے زیاں کار آثار نمایاں ہو گئے تھے۔ اس کے خد و خال بگڑ گئے تھے۔ چہرے پر حسن اور معصومیت کی بجائے ایک کرختگی برسنے لگی تھی اور گفتگو میں ایک بازاری پن آ گیا تھا۔

    اس واقعے کو اب دس سال گزر چکے تھے۔ آج اتوار کا دن تھا۔ ہفتے بھر کی مشقت کے بعد شارلٹ گھر سے تازہ ہوا کھانے کے لیے نکلی اور شانزے لیزے کے فٹ پاتھ پر چل رہی تھی کہ اسے ایک جانا پہچانا سا چہرہ نظر آیا۔ ایک متموّل خاتون پیاری سی بچّی کے ساتھ پارک کی سمت جا رہی تھی۔ شارلٹ کو اچانک احساس ہوا کہ یہ تو مادام جیرارڈ تھیں جو ابھی تک ویسی ہی خوب صورت تھی جیسی دس سال پہلے۔

    ’’جین‘‘ شارلٹ نے مادام جیرارڈ کو آواز دی۔ جین نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے سے حیرت اور خفگی نمایاں تھی کہ ایک نچلے طبقے کی عورت اسے نام لے کر مخاطب کرنے کی جرات کیسے کر رہی ہے۔

    ’’مادام، میرا خیال ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔’’‘‘ جین نے بڑی شائستگی سے کہا۔ ’’میں آپ کو پہچانی نہیں۔‘‘

    ’’میں شارلٹ ہوں جین۔ تمھاری پرانی سہیلی۔‘‘

    ’’اوہ شارلٹ، تم کس قدر بدل گئی ہو۔ اگر تم نہ بتاتیں میں تو بالکل نہ پہچان پاتی۔ کتنی مدت ہو گئی ہے ہمیں ملے ہوئے؟ کیا حال ہے تمہارا؟ زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ الگزینڈر کیسا ہے؟‘‘ جین نے بڑی گرم جوشی سے پوچھا۔

    ’’ہاں بہت مدّت ہو گئی۔ ہم اس دوران کافی سخت حالات سے گزرے۔ تمہیں گمان تک نہیں ہو گا کہ یہ سختیاں ہم پر تمہاری وجہ سے بیتیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اب حالات ٹھیک ہیں۔‘‘

    ’’میری وجہ سے؟‘‘ جین نے انتہائی حیرت سے کہا۔ ’’میں نے کیا کِیا شارلٹ؟ مجھ سے کیا خطا ہوئی؟‘‘

    ’’تمہیں یاد ہے میں نے تم سے ایک ہار ادھار مانگا تھا؟‘‘

    ’’ہاں، بڑی اچھی طرح سے۔‘‘

    ’’وہ ہار مجھ سے گم ہو گیا تھا۔‘‘

    ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ تم نے تو وہ ہار مجھے لوٹا دیا تھا۔‘‘

    ’’جو ہار میں تمھارے پاس واپس لائی تھی یہ وہ نہیں تھا جو تم نے مجھے دیا تھا۔ تمہارا ہار گم ہو گیا تھا۔ اس جیسا بتیس ہزار فرینک کا ہار خریدنے کے لیے ہمیں قرض لینا پڑا اور پچھلے دس سال سے ہم وہی قرض اتاررہے تھے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اسی سال وہ سارا قرض چکا دیا ہے۔ اب حالات ٹھیک ہیں۔ اب ہم قرض سے آزاد ہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر شارلٹ مسکرائی اور سر اٹھا کر بڑے فخر اور معصومیت سے مادام جیرارڈ کو دیکھا اور دوبارہ کہا۔ ’’شکر ہے اب ہم قرض سے آزاد ہیں۔‘‘

    جین کو جیسے ایک دھچکا سا لگا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ اس نے بڑھ کر شارلٹ کو گلے لگایا اور کہا۔

    ’’میری پیاری معصوم سہیلی۔ تمہیں کس کس دکھ سے گزرنا پڑا۔ صرف میری وجہ سے۔ مگر میرا ہار تو نقلی تھا۔ اس کی قیمت تو صرف تین سو فرینک تھی۔‘‘

    (فرانسیسی ادیب اور شارٹ اسٹوری رائٹر موپساں کی شاہ کار کہانی کا اردو ترجمہ)

  • چاندی کا فرشتہ

    چاندی کا فرشتہ

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسپین پر اہل فِنیشیا کی حکومت تھی اور اسپین کے باشندے زمین سے معدنیات نکالا کرتے تھے۔

    اسی اسپین کے ایک پہاڑی علاقے میں ایک خچر بان رہتا تھا جس کا نام انتونیو (Antonio) تھا۔ انتونیو خچروں کے ایک مال دار بیوپاری کے یہاں کام کرتا تھا جو خچروں کو شمالی علاقوں میں فروخت کرنے کے لیے بھیجا کرتا تھا جہاں اُن کی مانگ زیادہ تھی اور قیمت اچھی مل جاتی تھی۔

    انتونیو بہت ایمان دار اور ہوشیار آدمی تھا، اس لیے اُس کا مالک اس پر بہت اعتماد کرتا تھا اور اُسی کے ہاتھ خچر بازار بھیجا کرتا تھا لیکن اس کے محنتی اور ایمان دار ہونے کے باوجود وہ انتونیو کو اتنی کم تنخواہ دیتا تھا کہ اس کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا تھا۔

    انتونیو کے کئی کئی وقت فاقے بھی ہو جاتے تھے۔ اپنی غریبی کی وجہ سے وہ اپنی پیاری روزیتا (Rosita) سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ روزیتا اور انتونیو دونوں ملاگا (Malaga) کے زرخیز میدانوں کے رہنے والے تھے۔ روزیتا بہت خوب صورت لڑکی تھی مگر وہ بھی انتونیو کی طرح غریب تھی اور اس پر بھی فاقے گزرا کرتے تھے۔

    انتونیو خچروں کو بازار لے جاتا تو گرمیوں کی راتوں میں تاروں کی چھاؤں میں وہ خچروں کے پاس ہی سوتا تھا۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں کسی سرائے کی آگ کے سامنے رات کاٹنی ہوتی تھی، مگر اب ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ اسے جاڑے کے موسم میں رات گزارنے کے لیے کوئی سرائے نصیب ہو جائے۔ اکثر کسی جھاڑی کے نیچے بارش اور برف باری میں بھوکے انتونیو کو رات کاٹنی پڑتی تھی۔ بہت ہوتا تو کسی پہاڑ کا غار نصیب ہو جاتا جس کا فرش اور دیواریں گیلی ہوتی تھیں۔

    ایک مرتبہ گرمیوں کی ایک چاندنی رات تھی اور انتونیو خچروں کے ساتھ ایک کالے پہاڑ کے دامن میں ڈیرا ڈالے ہوئے تھا۔ قریب ہی ایک جھرنا بہہ رہا تھا۔ بڑا ہی خوش نما منظر تھا۔

    ایسے وقت میں انتونیو کا دھیان ملاگا کی طرف چلا گیا جہاں روزیتا رہا کرتی تھی۔ اس نے سوچا کہ نہ جانے روزیتا اُس وقت کیا کر رہی ہو گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اُس کی شادی روزیتا سے ہو جائے، پھر وہ اور زیادہ محنت کرے گا۔ دونوں کے لیے وہ چھوٹی سی جھونپڑی بنا لے گا جس میں وہ رہیں گے۔ وہ کسی محل سے کم نہ ہو گی اور کھانے کو جو بھی روکھا سوکھا مل جائے گا، اسے وہ نعمت سمجھ کر کھا لیں گے۔ یہ باتیں سوچتے سوچتے اُسے نیند آ گئی۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو چاند ڈوب رہا تھا لیکن رات ابھی بہت اندھیری تھی۔

    انتونیو کی نظر کالے پہاڑ کی طرف اُٹھ گئی۔ اُسے ایسا نظر آیا جیسے وادی میں چاندی کی ندی سی بہہ رہی ہو اور پہاڑوں کی ڈھلانوں سے چاندی کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر نیچے وادی میں جھما جھم گر رہے ہوں۔ پہاڑ کی چوٹی پر جب اُس کی نگاہ پڑی تو اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک بانکا بہادر شخص جگ مگ کرتا ہوا زرہ بکتر پہنے، چاندی کا نیزہ لیے کھڑا ہے۔ پھر وہ شخص پہاڑ سے اُتر کر آہستہ آہستہ اُس کی طرف آیا۔ انتونیو کو یقین تھا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ یوں بھی بہت تھکا ہارا تھا۔ اس لیے اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور نیند نے پھر اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

    پھر انتونیو نے سوتے سوتے ایک آواز سُنی ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔ میں چاندی کا فرشتہ ہوں اور سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہوں۔ مجھ کو صرف ایمان دار آدمی ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے یاد رکھنا۔ میں تمہیں اپنا دوست بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

    صبح جب انتونیو کی آنکھ کھلی تو اُس نے سب سے پہلے پہاڑ کی چوٹی کی طرف دیکھا جہاں پچھلی رات چاندی کا فرشتہ کھڑا تھا اور جس کی وادی میں چاندی کی ندی بہہ رہی تھی، لیکن وہ کالا پہاڑ دِن کی روشنی میں بھی پہلے کی طرح کالا بھجنگ ہی نظر آ رہا تھا۔ اب تو انتونیو کو بالکل یقین آ گیا کہ جو کچھ اُس نے رات کو دیکھا تھا وہ خواب ہی تھا۔ وہ اُٹھا اور اپنے خچروں کو لے کر بازار کی طرف چل دیا۔

    راستہ بہت لمبا اور سنسا ن تھا۔ انتونیو کو رات والا خواب بار بار یاد آ رہا تھا اور اُس کے کانوں میں چاندی کے فرشتے کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ چاندی کا فرشتہ اُسے کس طرح امیر بنا سکتا تھا۔ اُس فرشتے نے یہ بھی تو کہا تھا کہ وہ سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہے۔ انتونیو سارے ملک میں اپنے مالک کے خچر بیچنے جاتا تھا۔ اُسے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ اِس پہاڑ کی طرف کبھی پھر آئے گا، اور اگر آیا بھی تو اُسی دن آئے گا جب چاندی کا فرشتہ نظر آتا ہے۔ کیا وہ فرشتہ واقعی اُسے وہ جگہ دکھا دے گا جہاں چاندی کا خزانہ دفن ہے؟‘‘

    انتونیو کے دماغ میں یہ سوالات آتے رہے اور وہ پتھریلی پگڈنڈیوں پر چلتا رہا۔ خچروں کی ٹاپوں کی آوازیں چٹانوں سے ٹکر ا کر ہوا میں گونجتی رہیں یہاں تک کہ وہ اُس سڑک پر پہنچ گیا جو اُس بازار تک جاتی تھی جہاں اُس کو خچر بیچنے تھے۔

    راستے میں ایسے بہت سے لوگ اُس کے ساتھ ہو لیے جو بازار جا رہے تھے۔ وہ خچر بان بھی اُس سے دعا سلام کرتے ہوئے گزر گئے جن سے اُس کی ملاقات مختلف بازاروں میں ہوتی رہتی تھی۔

    لوگوں نے اُسے ان بازاروں کی خبریں سنائیں۔ اسے جا بجا خوب صورت لڑکیاں اُون اور انڈے لیے بازار کی جانب جاتی دکھائی دیں جہاں وہ ان چیزوں کو بیچتی تھیں۔ امیر بیوپاری اپنے خوب صورت گھوڑوں پر سوار جاتے ہوئے نظر آئے۔ اسی گہماگہمی میں انتونیو کے دماغ سے پچھلی رات والا واقعہ نکل گیا۔

    بازار میں انتونیو نے خچر اچھے داموں بیچے اور واپس ہونے سے پہلے راستے کے لیے کھانے پینے کا سامان اور اپنے مالک کی بتائی ہوئی بہت سی چیزیں خریدیں۔ جو روپے باقی بچے انہیں اُس نے ایک پیٹی میں رکھ کر اپنی کمر سے باندھ لیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بازار والی سرائے میں اور چند دن رک کر اپنے دوستوں سے ملے اور آتش بازی دیکھے، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کھیل تماشوں میں انہیں خرچ کرتا۔ پھر اُس کے مالک نے اُسے جلد لوٹ آنے کی تاکید بھی کی تھی اور اب وقت تنگ ہو چلا تھا۔

    انتونیو بازار میں رکنے کا خیال چھوڑ کر اپنے خچر پر بیٹھ کر واپس چل دیا۔ اندھیرا ہونے سے پہلے وہ اسی وادی میں جا پہنچا جہاں اس نے پچھلی رات گزاری تھی۔ ابھی دن کی روشنی باقی تھی لیکن وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر اُسے رات والا واقعہ یاد آ گیا۔ اُس نے سوچا ’’کیا آج بھی وہی چاندی کا فرشتہ نظر آئے گا؟‘‘وہ اپنے خچر کی زین کھول ہی رہا تھا تاکہ اُسے گھاس چرنے کے لیے چھوڑ دے اور اتنی دیر میں وہ بھی کچھ کھا لے کہ اُس نے ایک لمبے تڑنگے شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا۔

    وہ شخص مٹیالے رنگ کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا اور کسی درویش کی طر ح لگ رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا جس کا سہارا لے کر وہ چل رہا تھا۔ وہ شخص بہت تھکا ہارا نظر آ رہا تھا اور لنگڑا بھی رہا تھا۔

    اُس درویش نے انتونیو کے پاس آکر کہا، ’’بھائی ! کیا تم اس پہاڑ پر چڑھنے میں میری مدد کرسکتے ہو؟ میں پہاڑ پر رہنے والے ایک جوگی سے ملنا چاہتا ہوں، مگر میں بہت تھک گیا ہوں اور آگے جانے کی مجھ میں طاقت نہیں رہی ہے۔ کیا تم مجھے اپنا خچر دے سکتے ہو؟ میں تم کو اس خدمت کا اچھا انعام دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے جواب دیا ’’میں آپ کی مدد بغیر کسی لالچ کے کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن میں خود بے حد تھکا ہوا ہوں۔ اگر میں اپنا خچر آپ کے حوالے کر دوں گا تو مجھ کو بھی آپ کے ساتھ چلنا ہو گا کیوں کہ خچر میرا نہیں ہے بلکہ میرے مالک کا ہے۔‘‘

    درویش نے کہا ’’اگر تم بہت تھکے ہوئے نہیں ہو تو میرے ساتھ چلو۔ مجھے تمہاری رفاقت سے بہت خوشی ہو گی اور میں تمہیں اِس کا انعام بھی ضرور دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے سوچاکہ وہ ابھی ایک مضبوط جوان ہے۔ تھکا ہوا ہے تو کیا ہوا۔ ذرا سی دور تو اور چل ہی سکتا ہوں۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جس پہاڑ پر وہ درویش جانا چاہتا ہے وہ تو وہی پہاڑ ہے جس پر اُس نے چاندی کے جھرنے بہتے دیکھے تھے تو وہ جلدی سے راضی ہو گیا۔ اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا جھاڑیوں میں چھپا دیا تاکہ کوئی چور نہ اُٹھا لے جائے اور بوڑھے درویش کو خچر پر بٹھا کر اس کے ساتھ آہستہ آہستہ ہولیا۔

    جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو درویش نے خچر روک دیا اور اُتر کر بولا، ’’تم سویرے تک یہیں ٹھہرو۔ اگر میں صبح تک واپس نہ آؤں تو میرا انتظار نہ کرنا اور واپس لوٹ جانا کیوں کہ اس کے بعد مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ بوڑھا درویش پہاڑ کی چوٹی کی طرف چل دیا اور تھوڑی ہی دیر میں انتونیو کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    جب انتونیو کو خیال آیا کہ اُس نے انتونیو کی خدمت کی قیمت ادا نہیں کی تھی تو اس کا دل اُداس ہو گیا۔ بہرحال وہ اُسی جگہ کھڑا تھا جہاں سے اس نے رات کو چاندی کے جھرنے پھوٹتے دیکھے تھے۔ اُس نے سوچا، ’’ہو نہ ہو اس بوڑھے درویش کا چاندی کے خزانے سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ انتونیو نے پتھروں اور چٹانوں کے درمیان چھپے ہوئے خزانہ کی تلاش شروع کر دی۔ دیر تک وہ چٹانوں کے ٹکڑے توڑ کر دیکھتا رہا، مگر اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ آخر کار تھک کر وہ لیٹ گیا اور پھر اسے نیند آ گئی۔

    جب اُس کی آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا اور اُس درویش کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ وہ پہاڑ پر تھوڑی دور تک اور چڑھا اور درویش کو آوازیں دیتا رہا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ انتونیو کو اب احساس ہوا کہ اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ وہ مایوس ہو کر اُسی جگہ واپس چلا گیا جہاں اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا چھپائے تھے۔ جب اُس نے اپنا تھیلا اٹھایا تو وہ اُسے بہت بھاری لگا۔ تھیلا کھول کر دیکھا تو اس میں چٹانوں کے وہی ٹکڑے نظر آئے جو رات کو اُس نے توڑے تھے۔

    پتھروں کے وہ ٹکڑے بہت بھاری اور بے ڈول تھے۔ انتونیو انھیں پھینکنے ہی والا تھا کہ اسے درویش کے یہ الفاظ یاد آ گئے کہ وہ اُسے انعام دے گا۔ اس کو ایسا لگا جیسے چاندی کا فرشتہ اس کے کانوں میں کہہ رہا ہو کہ’’اِسے مت بھولنا! یہ ساری چاندی تمہارے لیے ہی ہے، تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ انتونیو نے پتھروں سے بھرا تھیلا خچر پر لادا اور گھر کی طرف چل پڑا۔

    جب انتونیو اپنے گھر پہنچا تو اس نے اپنے مالک کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ مالک نے انتونیو کے لائے ہوئے پتھروں کو غور سے دیکھا تو اسے سیاہ پتھروں میں سفید سفید چمکتی ہوئی نسیں سی نظر آئیں۔ وہ ان پتھروں کو اپنے ایک دوست کے پاس لے گیا جو چاندی کی ایک کھدان کا منیجر تھا۔

    منیجر نے مالک سے پوچھا کہ پتھروں کے یہ ٹکڑے اُسے کہاں سے ہاتھ آئے۔ مالک کو اس جگہ کا علم نہیں تھا اِس لیے اُس نے گھر آ کر انتونیو سے اُس جگہ کا اَتا پتا پوچھا۔ انتونیو کو اپنے مالک پر بھروسہ نہیں تھا۔ اُس نے مالک سے کہا کہ وہ چاندی کی کان اُس منیجر کو دکھا دے گا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ منیجر ایمان دار شخص ہے اور اُسے دھوکا نہیں دے گا۔

    منیجر نے انتونیو کو کچھ رقم دی اور بعد میں اور پیسے دینے کا وعدہ کیا۔ انتونیو اُسے ساتھ لے کر گیا اور جگہ دکھائی جہاں اسے درویش نے چھوڑا تھا، جہاں اس نے خزانے کی تلا ش میں چٹانوں کو توڑا تھا اور جہاں اس نے چاندی کے جھرنے نکلتے دیکھے تھے۔ منیجر نے اس جگہ زمین کھودی تو وہاں چاندی کی ایک بہت بڑی کان نکلی۔

    منیجر نے انتونیو کو بہت سے روپے دیے جن کو لے کر وہ ملاگا کے میدانوں میں چلا گیا اور وہاں اُس نے روزیتا سے شادی کر لی۔ دونوں نے وہاں ایک بڑا فارم خرید لیا اور وہ روزیتا کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگا۔

    انتونیو اب بوڑھا ہو گیا ہے اور چاندی کے فرشتے کی کہانی اپنے بچّوں، پوتے پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کو مزے لے لے کر سنایا کرتا ہے۔

    (اسپین کے لوک ادب سے انتخاب)

  • گدھ (ایک تمثیل)

    گدھ (ایک تمثیل)

    ایک گدھ میرے پاؤں پر اپنی چونچ سے تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا۔ میرے جوتے اور جرابیں وہ پھاڑ چکا تھا۔ اب اس کے حملوں کا ہدف میرے پاؤں تھے۔

    وہ بار بار میرے پاؤں کا گوشت ادھیڑنے کی کوشش کرتا، زمین سے کچھ ہی اوپر بڑی بے چینی سے پرواز کرتے ہوئے میرے ارد گرد ایک چکر لگاتا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔

    ایک شخص وہاں سے گزرا، تو پہلے اس نے کچھ دیر کے لیے یہ سارا منظر دیکھا، پھر مجھے پوچھنے لگا کہ میں اس گدھ کو کیوں برداشت کر رہا تھا۔

    ’’میں تو اپنا دفاع کر ہی نہیں سکتا،‘‘ میں نے کہا، ’’یہ آیا اور اس نے مجھ پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ میں ظاہر ہے اس کو یہاں سے بھگا دینا چاہتا تھا۔ میں نے تو اس کا گلا دبانے کی بھی کوشش کی لیکن ایسے کسی جانور میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ یہ تو چھلانگ لگا کر میرے چہرے تک آ جانا چاہتا تھا۔ تب میں نے اپنے پاؤں ہی کی قربانی دینا بہتر سمجھا۔ اب تو وہ بھی قریب قریب چیتھڑے بن چکے ہیں۔‘‘

    ’’آپ نے اجازت ہی کیوں دی کہ آپ کو اس طرح اذیت پہنچائی جائے۔‘‘ اس شخص نے کہا، ’’ایک گولی اور گدھ کا کام تمام۔‘‘

    ’’کیا واقعی؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیا آپ ایسا کرنا چاہیں گے؟‘‘

    ’’بڑی خوشی سے۔‘‘ اس شخص نے کہا۔ ’’مجھے صرف گھر جا کر اپنی بندوق لانا ہو گی۔ کیا آپ صرف آدھ گھنٹہ انتظار کر سکتے ہیں؟‘‘

    ’’یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ میں نے کہا اور کچھ دیر کے لیے کھڑا ہو گیا، جیسے میں درد سے پتھرا گیا تھا۔

    پھر میں بولا، ’’براہِ مہربانی، آپ یہ کوشش ضرور کیجیے۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ اس نے کہا، ’’میں بس گیا اور آیا۔‘‘

    گدھ یہ ساری گفتگو سکون سے سنتا رہا تھا اور اس دوران اس کی نظریں بار بار میرے اور اس شخص کے درمیان حرکت میں رہی تھیں۔ اسی لمحے مجھ پر آشکار ہوا کہ وہ سب کچھ سمجھ گیا تھا۔

    وہ اڑا، رفتار پکڑنے کے لیے تھوڑا سا نیچے ہو کر کافی پیچھے تک گیا اور نیزہ پھینکنے والے کسی کھلاڑی کی طرح اپنی چونچ سے وار کرتے ہوئے میرے منہ کے راستے میرے اندر دور تک اتر گیا۔

    پیچھے گرتے گرتے مجھے محسوس ہوا کہ جیسے مجھے رہائی مل گئی تھی۔ وہ میرے اندر کی تمام گہرائیوں کو بھر دینے اور تمام کناروں سے باہر تک پھیل جانے والے خون میں یوں ڈوب گیا تھا کہ وہ بچ ہی نہیں سکتا تھا۔

    (گزشتہ صدی کے بہترین ناول نگاروں میں سے ایک فرانز کافکا کی اس تمثیل کے مترجم مقبول ملک ہیں)