Tag: عالمی ادب سے تراجم

  • ایک سو اڑتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اڑتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    دریائے ڈِنجک تک جانے والی سڑک سانپ کی مانند بل کھاتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ شَین نے انھیں سینٹ الیاس پہاڑی سلسلے اور کینیڈا کی اونچی چوٹی ماؤنٹ لوگان کے بارے میں بتایا، پھر کہا: ’’میں نے تمھارے سامان میں چھوٹے کیمرے بھی رکھے ہیں، انھیں نکال کر یہ خوب صورت مناظر اپنے پاس محفوظ کر سکتے ہو، تم نے ایسی جگہیں پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی۔‘‘
    دانیال نے جبران سے اینگس والا کیمرہ مانگا تو اس نے سامان سے نکال کر دے دیا۔ دانیال نے گاڑی کے فرنٹ کے شیشے سے سامنے دیکھا، گاڑی نے ابھی ابھی ایک موڑ لیا تھا۔ ’’کیا یہ گلیشیئر ہے؟‘‘ وہ برف کے ایک بہت بڑے ٹکڑے کو مگن ہو کر دیکھنے لگا۔ ’’ہاں ڈِنجک گلیشیئر، کتنا شان دار ہے نا!‘‘ یہ کہہ کر اس نے گاڑی روک دی اور وہ سب باہر نکلے۔ تینوں کے منھ سے بے ساختہ حیرت کے کلمات نکلے۔ شَین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، اس نے کہا کہ اب اپنا اپنا سامان سنبھال لو کیوں کہ آگے چڑھائی چڑھنی تھی۔ جبران نے نیلی برف کو حیرت سے دیکھا جو بہت خوب صورت دکھائی دے رہی تھی لیکن اس پر گندگی بھی نظر آ رہی تھی۔ شین نے بتایا کہ جب گلیشیئرز حرکت کرتے ہیں تو گندگی اس پر جمع ہونے لگتی ہے۔ شَین برف کے دریا کے کنارے ایک چٹان پر چڑھا اور کہا: ’’ہمیں ایک طویل راستے پر چڑھتے جانا ہے اس لیے سب پانی پی لیں۔‘‘
    فیونا ایک چٹان پر بیٹھ گئی اور بوتل نکال کر پانی پی لیا، پھر آنکھیں بند کر کے جیسے مراقبے میں چلی گئی۔ بند آنکھوں کے سامنے اسے تصور میں زمرّد ایک گلیشیئر کے اندر دکھائی دینے لگا۔ اس جگہ پتھروں سے بنی ایک نشانی بھی موجود تھی۔ ذرا دیر بعد اس نے آنکھیں کھول کر جبران اور دانیال کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہی۔ وہ اٹھ کر جبران کے پاس آئی اور سرگوشی میں کہا: ’’میں جان گئی ہوں کہ زمرّد کہاں ہے، جب ہم اس کے قریب پہنچیں گے تو تم اور دانی مل کر شَین کی توجہ کہیں اور کر دینا اور اس دوران میں اسے کھود کر نکال لوں گی۔‘‘
    جبران نے کن اکھیوں سے شین کی طرف دیکھ کر جوابی سرگوشی کی: ’’فیونا، کیا تم جان لیوا پھندوں کو بھول گئی ہو؟ کیا وہ ان کا شکار نہیں ہو سکتا؟‘‘
    ’’ارے ہاں میں تو بھول گئی تھی۔‘‘ فیونا کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آنے لگے۔ ’’ایک ہی راستہ ہے، ہمیں اس سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ ہم آرام کرنے کے بہانے رک جائیں گے، پھر جیسے ہی اس کی آنکھیں بند ہوں گی، ہم دوڑ کر اس سے چھپ جائیں گے۔ جب تک وہ ہمیں ڈھونڈ نکالے گا، ہم اپنا کام کر چکے ہوں گے۔‘‘
    جبران کو اس کی یہ ترکیب کچھ زیادہ کارگر نہیں لگی تاہم اس نے ہامی بھرلی۔ اس کا خیال تھا کہ شَین بہت ہوشیار شخص معلوم ہوتا ہے۔ اور اگر اس نے آنکھیں ہی بند نہیں کیں تو ایسی صورت میں کیا کرنا ہوگا؟ فیونا نے کندھے اچکا کر کہا: ’’تب پھر مجبوری ہوگی!‘‘ یہ سن کر جبران چونک اٹھا اور اس بات کا مطلب پوچھنے لگا۔ فیونا نے کہا: ’’ظاہر ہے مجھے اسے ضرب لگا کر بے ہوش کرنا پڑے گا، بھلا ہم اس کا اور کیا علاج کریں گے؟‘‘
    (جاری ہے….)
  • چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    میگنس نے خاکی سوٹ پہن رکھا تھا، لیکن اب وہ گہرے نیلے میں بدل چکا تھا۔ ٹوپی ہلکے نیلے رنگ کی ہو گئی تھی اور یہی رنگ جوتوں کا تھا۔ اس کی آنکھیں قمقموں کی طرح چمک اٹھی تھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ تینوں جہاں کھڑے تھے، وہیں بت بن کر کھڑے رہ گئے۔ انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کے سامنے ایک زندہ بھتنا کھڑا ہے۔ جبران کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’تت … تت … تم سچ مچ بھتنے ہو؟‘‘

    فیونا بھی یہ دیکھ کر تھوڑی سی گھبرا گئی تھی: ’’تت … تم … تو بالکل نیلے گلیشیئر کی طرح چمک رہے ہو۔‘‘

    بھتنا بولا: ’’میں جانتا ہوں کہ تم اپنے والدین کے ساتھ نہیں آئے ہو، اور میں ہیمے میں ٹرالز کے بارے میں بھی جانتا ہوں، میں نے تم تینوں کی نگرانی کے لیے اپنی ننھی دوست انیکا کو بھیجا تھا۔‘‘

    تینوں بے اختیار اچھل پڑے۔ فیونا حیران ہو کر بولی: ’’اوہ … تو وہ انیکا تھی، جس نے ہماری مدد کی تھی۔ وہ دھن بھی انیکا کی تھی اور پفن پرندوں کو بھی اس نے ہمارے ساتھ بھیجا۔‘‘

    میگنس نے پراسرا مسکراہٹ کے ساتھ خاموشی سے سر ہلا دیا۔ ’’واؤ … یہ سب کتنا شان دار لگ رہا ہے۔ میں یہاں آئس لینڈ میں کھڑا ایک بھتنے سے بات کر رہا ہوں۔ میں اس سے قبل کبھی کسی بھتنے سے نہیں ملا۔ دراصل مجھے ان کے وجود پر یقین ہی نہیں تھا۔‘‘ جبران پرجوش ہو کر بولا۔ اس کے بعد تینوں نے باری باری میگنس بھتنے سے مصافحہ کیا، فیونا نے کہا کہ چھوٹی سے روشنی پری کو ہماری مدد کرنے پر شکریہ کہہ دینا، اور آپ کا بھی بہت شکریہ۔ میگنس نے کہا: ’’آئس لینڈ ایک جادوئی جگہ ہے۔ یہاں بھتنے، بونے، پریاں اور حتیٰ کہ ٹرالز بھی ہیں۔ اکثر ٹرالز اپنے آپ میں گم رہتے ہیں لیکن وہ والے دراصل شیطان کے زیر اثر تھے۔‘‘

    ایسے میں جبران نے اس کے عجیب جوتوں پر ایک نظر ڈال کر پوچھا: ’’کیا میگنس آپ کا اصل نام ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ بھتنے نے جواب دیا کہ اس کا اصل نام تھوری ہیلا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہاں کے لوگ جان گئے کہ میں بھتنا ہوں تو مجھے کبھی بھی کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اسی لمحے ہلکی سی روشنی اس کے گرد جھلملانے لگی۔ وہ چونک کر بولا: ’’اوہ… انیکا… تم عین وقت پر آ گئی ہو، دیکھو تمھارے دوست رخصت ہو رہے ہیں یہاں سے۔‘‘

    اگلے لمحے ان کے سامنے ایک ننھی سی ہلکی نیلی پری نمودار ہو گئی، ظاہر ہے کہ اس کے دو پر تھے اور اس کے بال سنہری تھے۔ دانیال بول اٹھا: ’’اس پری کی آنکھیں بھی تمھاری طرح نیلی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں یہی تو ہماری پہچان ہے۔ ہم انسانوں کا روپ بھی دھار سکتے ہیں، لیکن جو ہمارے بارے میں جانتے ہیں وہ ہمیں ان آنکھوں سے پہچان لیتے ہیں۔‘‘ بھتنا مسکرا کر بولا۔

    ’’ہیلو انیکا …‘‘ فیونا نے اسے مخاطب کیا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ انیکا فوراً بھتنے کے پیچھے چھپ گئی۔ میگنس بولا: ’’روشنی کی پریوں کو کبھی مت چھونا، ورنہ جل جاؤ گی، اچھا اب میں اپنے کام پر جاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر پہلے والے لباس میں آ گیا۔ تینوں نے ان کی طرف ہاتھ ہلایا اور رخصت ہو گئے۔ میگنس نے جاتے جاتے ہانک لگائی: ’’مجھے مت بھولنا۔‘‘

    وہ تینوں سڑک پر آ گئے، اور نیلی جھیل کے لیے بس پکڑ لی۔ جھیل کا پانی گہرا نیلا تھا، اوپر سے ٹھنڈا لگ رہا تھا لیکن حقیقت میں خاصا گرم تھا اور اس سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس کی حرارت ایک سو چار فارن ہائٹ تھی۔ دراصل اس میں ایک میل گہرائی میں بجلی پیدا کرنے والے پمپ لگے ہوئے تھے۔ وہ پمپ سمندر کے پانی سے بجلی پیدا کر کے باقی پانی کو جھیل میں چھوڑ دیتے تھے۔ تینوں اس میں نہانے کے بعد پھر بس میں بیٹھ کر ٹاؤن پہنچ گئے۔ فیونا نے ایک بار پھر آئس لینڈ کی کرنسی تبدیل کروا لی اور پھر ان ہی پہاڑیوں کی طرف چل دیے جہاں وہ پہلی مرتبہ نمودار ہوئے تھے۔ تینوں عین اسی مقام پر پہنچ کر رک گئے۔ وہ خاموشی سے آئس لینڈ کو دیکھنے لگے۔

    دانیال بولا: ’’مجھے آئس لینڈ بہت یاد آئے گا، خصوصاً پفن اور میگنس۔ مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ ہم آئس لینڈ کے ایک بھتنے کو جانتے ہیں۔‘‘

    فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’کیا تم دونوں تیار ہو … ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔‘‘

    اس کے ساتھ ہی وہ واپسی کا منتر پڑھنے لگی۔ ’’دالث شفشا یم بِٹ!‘‘ ان کی سماعتوں سے جبران کی آواز ٹکرائی: ’’الوداع اے آئس لینڈ۔‘‘

    لیکن ابھی اس کے منھ سے پورا جملہ ادا نہیں ہو پایا تھا کہ انھوں ںے خود کو اینگس کے گھر میں پایا۔

    (جاری ہے)

  • دو بیٹے

    دو بیٹے

    جنوری 1945ء میں جب ہٹلر کی جنگ اپنے اختتام کے نزدیک آرہی تھی، تھورنگیا میں ایک دہقان کی بیوی نے خواب دیکھا کہ اس کا بیٹا فرنٹ پر اسے پکار رہا ہے۔

    اور نیند کے خمار کی حالت میں صحن میں جانے پر اس نے یوں خیال کیا کہ وہ پمپ پر پانی پینے کھڑا ہے۔ جب اُس نے اس سے بات کی، وہ جان گئی کہ وہ ان نوجوان جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی ہے جو کھیت پر بیگار میں کام کر رہے تھے۔ چند دن بعد اس کے ساتھ ایک عجیب واردات ہوئی۔

    وہ ایک قریب کے جھنڈ میں قیدیوں کے لیے ان کا کھانا لے کر گئی جہاں وہ درختوں کے ٹھنٹھ اکھاڑ رہے تھے۔ لوٹتے وقت اس نے گردن پھیر کر دیکھا تو اُس کی نظر پھر اسی جنگی قیدی پر پڑی (مریض سا جوان لڑکا) جو ایک مایوس کیفیت سے اپنے چہرے کو ایک کھانے کے ڈبے کی طرف موڑے تھا، جسے کوئی اس کے ہاتھ میں دے رہا تھا….. اور یکبارگی اس قیدی کی شکل اس کے بیٹے کی شکل ہو گئی۔ پھر اگلے چند دنوں کے دوران وہ متعدد بار اس نوجوان کے چہرے کو اپنے بیٹے کے چہرے میں بدلنے اور فوراً اپنی اصلی شکل پر آجانے کے تجربے سے دوچار ہوئی۔

    پھر یہ قیدی بیمار پڑگیا اور باڑے میں بغیر دیکھ بھال کے پڑا رہا۔ دہقان کی بیوی کے جی میں خواہش اُبھری کہ وہ بیمار لڑکے کے لیے کچھ قوت بخش غذا لے کر جائے لیکن اسے اس کے بھائی نے روک دیا جو جنگ میں معذور ہوجانے کے بعد کھیت کا انتظام چلاتا تھا۔ اور خاص طور پر اُن دنوں جب کہ ہر ایک چیز ٹوٹ پھوٹ رہی تھی اور گاؤں والے قیدیوں سے خائف ہونے لگے تھے، قیدیوں سے وحشیانہ برتاؤ کررہے تھے، دہقان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے دلائل کے آگے اپنے کان بند نہیں رکھ سکتی تھی۔ وہ ان نیچ انسانوں کی مدد کرنا درست نہیں سمجھتی تھی جن کے بارے میں اس نے خوفناک باتیں سنی تھیں۔

    اسے ہروقت اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ خدا جانے دشمن اس کے بیٹے سے کیا سلوک کریں جو مشرقی فرنٹ پر لڑ رہا تھا۔ اس طرح وہ اس مصیبت زدہ جوان قیدی کی مدد کرنے کے اپنے ڈگمگاتے ارادے کو عملی جامہ پہنا نہ پائی تھی۔

    ایک شام وہ اتفاقاً قیدیوں کی ایک ٹولی کے پاس سے گزری۔ وہ برف سے ڈھکے باغیچے میں سرگرمِ گفتگو میں محو تھے اور اس میں کوئی شک نہ تھاکہ وہ وہاں اسے خفیہ رکھنے کی خاطر سردی میں اکٹھے ہوئے تھے۔ نوجوان قیدی بھی ان میں بخار سے تھرتھراتا موجود تھا اور اپنی غایت درجہ کمزوری کی حالت کی وجہ سے وہی اس کے اچانک آجانے پر سب سے زیادہ چونکا۔ دہشت سے اس کا چہرہ پھر اسی عجیب تبدیلی کا مظہر ہوگیا اور عورت کو یوں لگا کہ وہ اپنے بیٹے کے چہرے کو دیکھ رہی ہے اور وہ بڑا خوف زدہ ہے۔ اس پر اس کا بڑا اثر ہوا اور گو اُس نے کارِ فرض جان کر اس گفتگو کے ہونے کا حال اپنے بھائی کو جا بتایا، اس نے اپنے دل میں ٹھانی کہ اپنے منصوبے کے مطابق وہ چوری چھپے جوان قیدی کو گوشت کا قتلہ پہنچا آئے گی۔

    ہٹلر کی "تیسری رائش” کے دور میں بہت سے نیک کاموں کی طرح یہ کام بھی انتہائی مشکل اور پُر ظفر ثابت ہوا۔ یہ ایک ایسی دلیری کا کام تھا جس میں اس کا اپنا بھائی اس کا دشمن تھا اور وہ قیدیوں پر بھی اعتبار نہیں کرسکتی تھی۔ بایں ہمہ وہ اس میں کام یاب ہوگئی۔ ہاں، اس سے یہ پتا چل گیا کہ قیدی حقیقتاً فرار ہونے کی فکر میں نہیں، کیونکہ ہر روز سرخ فوجوں کی پیش قدمی سے قیدیوں کا یہ خدشہ بڑھ گیا تھا کہ ان کو مغرب کی سمت کو منتقل کر دیا جائے گا یا ختم کر دیا جائے گا۔

    دہقان کی بیوی ان التجاؤں پر دھیان دیے بغیر نہیں رہ سکتی تھی جو نوجوان قیدی (جس سے وہ اپنے عجیب تجربے کی وجہ سے بندھی ہوئی تھی) ہاتھ کے اشاروں اور جرمن زبان کے ٹوٹے لفظوں سے اس سے کرتا تھا اور اس طرح وہ آپ ہی آپ قیدیوں کے فرار کے منصوبے میں الجھتی چلی گئی۔ اس نے جوان قیدی کو ایک جیکٹ اور ایک بڑی قینچی مہیا کی۔ عجیب طور سے اس کے بعد سے وہ "تبدیلی” پھر نہ ہوئی۔ وہ اب محض ایک جوان اجنبی کی مدد کررہی تھی۔ سو اس کے لیے یہ اچھا خاصا جھٹکا تھا جب فروری کے آخری دنوں میں ایک صبح کسی نے کھڑکی پر دستک دی اور شیشے میں سے جھٹپٹے میں اس نے اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھا۔ اور اس دفعہ وہ واقعی اس کا بیٹا تھا۔ وہ وافن ایس ایس کی پھٹی ہوئی وردی پہنے تھا۔ اس کے یونٹ کی تکا بوٹی ہوگئی تھی اور اس نے مضطرب لہجے میں بتایا کہ روسی اب گاؤں سے چند ہی کلو میٹر دور رہ گئے ہیں۔ اس کی گھر واپسی کو سربستہ راز رہنا چاہیے۔

    ایک نوع کی جنگی مشاورت میں، جو اوپر کی کوٹھری کے گوشے میں دہقان کی بیوی، اس کے بھائی اور اس کے بیٹے کے مابین ہوئی، یہ فیصلہ کیا گیا کہ سب سے پہلے انھیں قیدیوں سے جان چھڑانی چاہیے کیونکہ اس کا امکان تھا کہ انھوں نے ایس ایس والے آدمی (دہقان کی بیوی کے بیٹے) کو دیکھ لیا ہو اور بہرحال وہ اپنی فوج کے سامنے بدسلوکی کا رونا روئیں گے۔ قریب میں ہی ایک کان تھی۔ ایس ایس والا بیٹا بضد ہوا کہ راتوں رات وہ ایک ایک کرکے قیدیوں کو ورغلا کر باڑے سے باہر لے جائے گا اور مار ڈالے گا۔ اس نے کہا کہ لاشوں کو پھر کان میں ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے سے پہلے انھیں الکحل کا کچھ راشن دینا ہوگا۔ بھائی کا خیال تھا کہ یہ بات قیدیوں کو زیادہ عجیب یا خلافِ معمول نہیں لگے گی کیونکہ چند دنوں سے وہ اور کھیت کے دوسرے ملازم روسیوں سے نہایت دوستانہ برتاؤ کرتے رہے تھے تاکہ وہ آخری وقت بھی منسئی سے ان کے دام میں آجائیں اور کوئی گل نہ کھلائیں۔

    جب نوجوان ایس ایس والا بیٹا اپنی تجویز کی وضاحت کررہا تھا، اس نے اچانک اپنی ماں کو کپکپاتے دیکھا۔ مردوں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی حالت میں اسے پھر باڑے کے قریب نہ جانے دیا جائے۔ اس طرح خوف سے سرد، وہ رات پڑنے کا انتظار کرتی رہی۔ روسیوں نے بظاہر برانڈی کے راشن کو شکریے سے قبول کرلیا اور دہقان کی بیوی نے انھیں بدمستی کے عالم میں اپنے غمناک گیت گاتے سنا۔ لیکن جب رات کو گیارہ بجے کے لگ بھگ اس کا بیٹا باڑے میں گیا تو قیدی جا چکے تھے۔ انھوں نے بدمست ہونے کا مکر کیا تھا۔ کھیت کے لوگوں کے انوکھے، غیر قدرتی مہربانی کے سلوک سے وہ حقیقتِ حال کو بھانپ گئے کہ سرخ فوج بہت قریب آچکی ہوگی۔ روسی رات کے پچھلے پہر کے دوران آپہنچے۔ بیٹا اوپر کی کوٹھری میں نشے میں دھت لیٹا ہوا تھا اور دہقان کی بیوی نے دہشت زدہ ہو کر اس کی ایس ایس والی وردی جلا دینے کی کوشش کی۔ اس کا بھائی بھی غین ہوا پڑا تھا۔ عورت کو ہی روسی سپاہیوں کا استقبال کرنا اور انھیں کھانا کھلانا پڑا۔ اس نے یہ سب کچھ ایک پتھر کے چہرے کے ساتھ کیا۔ روسی صبح سویرے چلے گئے۔

    روسی فوج نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ بیٹے نے، جو بے خوابی سے بد حال ہورہا تھا ، مزید برانڈی مانگی۔ اس نے اپنے پختہ ارادے کا علان کیا کہ وہ لڑتے رہنے کی خاطر پسپا ہوتی جرمن فوج کے یونٹوں تک پہنچنے کے لیے جا رہا ہے۔ دہقان کی بیوی نے اسے یہ سمجھانے کی کوشش نہ کی کہ اب لڑتے چلے جانا موت اور مکمل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ بے خوفی سے وہ اس کا رستہ روک کر کھڑی ہوگئی اور اس نے جسمانی طاقت کو بروئے کار لا کر اسے باز رکھنے کی کوشش کی۔ بیٹے نے اسے پیچھے بھوسے پر دے پٹکا۔ جب وہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی کا کھنجا آگیا ہے اور اُس نے کھنجے کے بھرپور وار سے جنون زدہ آدمی کو زمین پر گرا دیا۔

    اسی صبح ایک دہقان کی بیوی پڑوس کی بستی میں روسی ہیڈ کوارٹر پر ایک چھکڑا ہنکا کر لائی اور ا س نے اپنے بیٹے کو، جو بیل باندھنے کی رسیوں میں جکڑا تھا، ایک جنگی قیدی کے طور پر روسیوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ (جیسا کہ اس نے ایک ترجمان کو سمجھانے کی کوشش کی) جیتا رہ جائے۔

    (کہانی: برتولت بریخت (جرمنی)، مترجم: محمد خالد اختر)

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشمتل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "افوہ مما … ایک تو یہاں ہر وقت بارش ہوتی رہتی ہے۔” فیونا نے ممی سے شکایت کی، جیسے وہ اس کا کوئی حل نکال لیں گی۔ "مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پورے سال ایک بھی پورا دن ہم نے خشک دیکھا ہو۔”

    فیونا کی مما مائری مک ایلسٹر کھڑی کے شیشے کے پار دیکھنے لگیں۔ وہ دونوں مک ڈونی کے چائے خانے، جس کی پیشانی پر ٹی روم کا بورڈ آویزاں تھا، میں بیٹھی تھیں۔ چائے خانے کے باہر آس پاس سبزہ نظر آ رہا تھا، یہ سر سبز منظر نگاہوں کو بے حد بھلا محسوس ہوتا تھا۔ مائری نے طویل سانس کھینچ کر کہا۔ "فیونا، تمھیں یہ جگہ پسند ہے تو پھر اس طرح کی شکایتیں کیوں کرتی رہتی ہو۔ان گلابی پھولوں والی سدا بہار جھاڑیوں کو تم کہیں اور دیکھ سکو گی کیا؟” فیونا کی مما نے کرسی سے باقاعدہ اٹھ کر گلی میں ایک طرف روندراں کی جھاڑیوں کی طرف اشارہ کیا تھا، جس میں گلابی رنگ کے بڑے بڑے پھول کھلے تھے۔

    "اوہ مما پلیز، بیٹھ جائیں، ویٹرس چائے لا رہی ہے۔” فیونا نے قدرے غصے سے کہا، اسے ممی کا اس طرح اٹھ کر جھاڑی کی طرف اشارہ کرنا عجیب لگا۔ مائری بیٹھ گئیں۔ ویٹرس نے انگلش چائے کی دو پیالیاں میز پر رکھ دیں جن سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔

    "شکریہ فلورا” فیونا نے ویٹرس کا خوش دلی سے شکریہ ادا کیا اور ممی کی طرف دیکھ کر بیزاری سے کہنے لگی۔ "وہ تو ٹھیک ہے، پر ممی، میں بے حد بور ہو جاتی ہوں۔ ہر وقت بارش…بارش…کوئی بھی کام نہیں ہو پاتا۔”

    فیونا نے چائے کا گھونٹ بھرااور مکھن لگے کیک Scone سے ایک ٹکڑا کاٹ کر منھ میں رکھا۔ کیک کا ٹکڑا لینے کے بعد اس نے مک ڈونی کا اپنا تیار کردہ نارنگی کے مربے کے ڈبا اپنی طرف کھسکایا۔

    مائری نے نیپکن سے ہونٹ صاف کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ "جیسا ذائقہ اس مربے اور سکون کا ہے، ویسا تمھیں کسی بڑے شہر میں بھی نہیں ملے گا۔ میری بھی ساری زندگی یہاں گیل ٹے سے زیادہ دور نہیں گزری، اور دیکھو ہشاش بشاش ہوں، تم بھی یہاں خوش رہو گی۔”

    فیونا نے شیشے کے پار آسمان پر پھیلے ہوئے بادلوں کو دیکھا، جن سے مسلسل بارش کے موٹے موٹے قطرے برس رہے تھے اور ان میں کوئی کمی نہیں آ رہی تھی۔ اس نے کہا "مجھے غلط مت سمجھیں ممی، گیل ٹے میں رہنا مجھے بھی پسند ہے، لیکن اتنی چھوٹی سی جگہ میں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں، اگر میں کسی بڑے شہر میں رہوں گی تو نئے لوگوں سے ملاقات ہوگی۔” فیونا نے کیک سے ایک اور ٹکڑا لیا اور بولنے لگی "اپنے ارد گرد دیکھو نا، یہاں ہم دونوں ہی ہیں، کوئی تیسرا شخص ہمارے ساتھ نہیں، میں بیزار ہو جاتی ہوں مما۔”

    اسی وقت چائے خانے کے دروازے کے سامنے ایک خاتون رُکی، جس کا چہرہ سیاہ چھتری میں چھپا ہوا تھا۔ چھتری تہ ہو گئی تو مائری نے اسے پہچان لیا۔ نیلی مک ایلسٹر کرافورڈ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئیں۔

    "فیونا، آپ کو میری طرف سے گڈ ڈے اور آپ کو بھی مائری۔” انھوں نے آتے ہی کہا۔ "اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا میں آپ کے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں؟”

    "کیوں نہیں۔” مائری نے مسکرا کر کہا اور میز کے اندر سے تیسری کرسی کھینچ کر نکال لی۔نیلی نے چھتری میز کے سہارے ٹکا دی اور برساتی اتار کر کرسی کی پشت پر ڈال دی۔کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس نے گرما گرم چائے اور چھوٹی ڈبل روٹی کا آرڈر دے دیا۔ چائے آئی تو نیلی نے فیونا کی طرف جھک کر کہا۔ "یہاں کی چھوٹی ڈبل روٹی اچھی ہے لیکن اتنی بھی نہیں جیسا کہ میں بناتی ہوں۔” فیونا ہنس پڑی۔”میں جانتی ہوں۔”

    نیلی نے ڈبل روٹی کھاتے ہوئے پوچھا "آج کل کیسا محسوس ہو رہا ہے فیونا؟” اس سے پہلے کہ فیونا جواب دیتی، مائری نے مداخلت کر دی۔ "فیونا یہاں کی مسلسل بارش سے تنگ آ چکی ہے اور اب سوچ رہی ہے کہ کسی بڑے شہر میں جا کر رہا جائے۔”

    نیلی نے چونک کر کہا "ہاں، ہم نے بھی وقتاً فوقتاً ایسا ہی محسوس کیا ہے لیکن پھر وقت گزر ہی گیا، میں بہت سفر کر چکی ہوں اور ہر مرتبہ جب یہاں گیل ٹے لوٹ آئی تو بے انتہا مسرت ملی۔” یہ سن کر فیونا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "آپ بہت سفر کر چکی ہیں، کیا آپ افریقا یا آسٹریلیا یا امریکا بھی گئی ہیں؟”

    نیلی مک ایلسٹر کرافورڈ بتانے لگیں "افسوس میں ان ممالک کے سفر پر کبھی نہیں جا سکی، دراصل میں اسکول ٹیچر تھی اس لیے زیادہ سفر نہ کر سکی لیکن پھر میرے پیارے شوہر گیون کی وفات کے بعد میں نے بہت سفر کیے۔ میں برطانیہ کا زیادہ تر حصہ دیکھ چکی ہوں، حتیٰ کہ آئرلینڈ بھی جا چکی ہوں لیکن افریقا نہیں جا سکی۔ اس زمین کے سب سے دور کے گاؤں کارن وال اپنی بہن پینی لوپ سے کئی مرتبہ ملنے گئی ہوں، لیکن ہاں فیونا، آپ کے نانا نانی نے ان علاقوں کا سفر کیا تھا۔” یہ کہ کر انھوں نے مائری کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر اداسی کے سائے پھیل گئے تھے۔ وہ جلدی سے بولیں "معذرت خواہ ہوں، میں نے آپ کے والدین کا ذکر کر دیا ہے، میں جانتی ہوں کہ ایان اور ہیتھر کی کشتی کے اندوہ ناک حادثے میں موت آپ کے لیے بے انتہا دکھ کا باعث ہے۔”

    "کوئی بات نہیں نیلی، اب تو انھیں گزرے بہت وقت ہو چکا ہے، انھیں سفر بہت پسند تھا، ممی ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ ان کا پسندیدہ مقام مصر ہے، جب کہ ڈیڈ کہا کرتے تھے کہ انھیں جنوبی افریقا پسند ہے۔”

    اگلے ایک گھنٹے تک نیلی اور مائری گفتگو کرتے رہے، انھوں نے دنیا کے ہر موضوع پر باتیں کیں، یہاں تک کہ فیونا بے زار ہو گئی۔ اس کے والد کا انتقال پانچ برس قبل ایک حادثے میں ہوا تھا، اس نے اچانک ممی کو مخاطب کیا۔ "مما، آپ کے دیگر سارے رشتے دار کہاں ہیں؟ نانا نانی کے انتقال کا تو مجھے پتا ہے لیکن آپ کے خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ کیا ہوا؟ یہاں تو ہر رشتے دار کا تعلق ڈیڈ ہی سے ہے۔ آخر آپ کے کزنز کے ساتھ میری ملاقات کب ہوگی؟”

    "ہو جائے گی کسی دن۔” مائری نے چائے کا آخری گھونٹ بھر کر کہا جو بالکل ٹھنڈی پڑ چکی تھی، لیکن انھیں ٹھنڈی چائے ہی پسند تھی۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ فیونا یہاں بیٹھے بیٹھے بے زار ہو چکی ہے، اس لیے بولیں۔ "میرا خیال ہے بارش رک چکی ہے۔” انھوں نے اٹھ کر باہر جھانک کر دیکھا تو بارش واقعی رک چکی تھی۔ مائری نے بل ادا کیا اور نیلی کو خدا حافظ کہہ کر فیونا کے ساتھ باہر نکل گئیں۔

    "دیکھو فضا کتنی مہک اٹھی ہے، دور دور سے سیاح یہاں آکر ہماری جھیلوں اور دریا میں مچھلیاں پکڑتے ہیں، پھولوں سے ڈھکے پہاڑوں کی سیر کرتے ہیں۔” یہ کہ کر مائری نے گہری سانس لی، اور اسکاٹ لینڈ کے اس بلند علاقے کی مہکی ہوا کو اپنے پھیپھڑوں میں بھرا، جو اسکاٹش ہائی لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔ انھوں نے کہا ” ذرا دریائے ٹے کو دیکھو، ٹراؤٹ مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے، اور سورج کی روشنی ان پر پڑتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے دریا میں موتی تیر رہے ہیں، اور ذرا یاد کرو، تم کتنی مرتبہ جھیل لوچ ڈرول میں تیراکی کر چکی ہو، اور نہ جانے کتنی مرتبہ تم وہاں مچھلیاں بھی پکڑنے جا چکی ہو۔ یہ سب کیا ہے، محض اس لیے کہ تمھیں یہ سب پسند ہے، تمھیں یہاں رہنا پسند ہے۔”

    وہ دونوں اس وقت ڈینڈ لون پُل پر کھڑے نیچے دریائے ٹے کے بہتے پانی کو دیکھ رہے تھے۔ مائری پھر بولنے لگیں” اس پُل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سات سو سال سے قائم ہے، یہ پُل اس وقت بنایا گیا تھا جب قلعہ آذرکی تعمیر عمل میں آئی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ یہ روایت درست نہیں، یہ پل اتنا قدیم نہیں ہو سکتا۔”

    فیونا نے پُل کی قدامت کے حوالے سے کچھ نہیں کہا اور بولی "میں تو اتنا جانتی ہوں کہ جو حسن یہاں ہے وہ کہیں اور نہیں۔” اس نے دور نظر آنے والی جھیل لوچ نس پر نظر ڈالی، چھوٹے جزیروں نے اس کے آبنوی پانی پر جگہ جگہ دھبے ڈال دیے تھے۔ یہ جزیرے شاہ بلوط، برچ، صنوبر اور سفیدے سے ڈھکے ہوئے تھے، رنگوں کی ایک بہار جوبن پر تھی۔

    "فیونا، ذرا ان پرندوں کی طرف دیکھو، کیا تم نے اس جیسی نغمگی سنی ہے؟” مائری پرندوں کی بولیوں میں گم سی ہو گئی تھیں۔ فیونا نے ہنستے ہوئے کہا "گھبراؤ نہیں ماں، میں بھی مانتی ہوں کہ گیل ٹے رہنے کے لیے سب سے بہترین جگہ ہے۔” دونوں ماں بیٹی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دریائے ٹے کے کنارے چلتے چلے جا رہے تھے۔ فیونا نے دور ایک بڑے سے جزیرے پر قدیم کھنڈرات پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا "ممی ، کیا آپ قلعہ آذر کبھی گئی ہیں؟”

    "پتا ہے اس جزیرے پر موجود گاؤں سکارا برے تقریباً چھ ہزار سال پرانا ہے۔” ممی بتانے لگیں "قلعہ آذر میں پتا نہیں ایسی کیا بات ہے کہ میں اس کے اندر قدم رکھنے سے گھبراتی ہوں۔ یہ سوچ کر ہی میرے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں جب سے یہاں ہوں، وہاں کبھی نہیں گئی اور میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ تم وہاں جاؤ، وہ ایک پراسرار جگہ ہے، اس سے دور ہی رہو تو بہتر ہے۔”

    فیونا نے اس پر کچھ نہیں کہا، لیکن چند لمحوں بعد اچانک بولی۔ "ممی، میرے چند دوست آنے والے ہیں ابھی، میں آپ کو بتانا بھول گئی تھی۔ جبران پاکستانی نژاد ہے، پڑوسی گاؤں میں اپنے ممی پاپا کے ساتھ رہتا ہے، اس کا ایک کزن پاکستان سے وزٹ پر آیا ہے، میں نے ان کو گھر پر آنے کی دعوت دے دی ہے۔”

    "یہ تو تم نے بہت اچھا کیا ہے فیونا، بہت اچھی بات ہے، تمھیں یہاں نئے دوست مل گئے ہیں۔ مائری نے خوش ہو کر کہا تو فیونا بولی "ممی کیا آپ مہمانوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا انتظام کر سکتی ہیں؟”مائری نے مسکرا کر کہا "کیوں نہیں، راستے میں مک ایوانز بچر کی دکان سے کچھ چیزیں لے لیتے ہیں۔”

    "لیکن ممی، وہ آنے ہی والے ہوں گے، میں گھر چلی جاتی ہوں، آپ خریداری کر کے آئیں۔” فیونا نے ممی کا ہاتھ پیار سے سہلاتے ہوئے کہا۔ ممی نے کہا "ٹھیک ہے بھئی، ایسا ہی کرتی ہوں۔” فیونا نے ممی سے اجازت لی اور تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف چل پڑی۔

    جاری ہے …..

  • ہیرے والا شتر مرغ

    ہیرے والا شتر مرغ

    "اگر تم پرندوں کی قیمت کی بات کرتے ہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ میں نے ایک ایسا شترمرغ بھی دیکھا ہے جس کی قیمت تین ہزار پاؤنڈ لگائی گئی تھی۔ تین ہزار پاؤنڈ، سمجھے….؟” اس نے مجھے چشمے کے اوپر سے گھورتے ہوئے کہا۔

    اس کا کام پرندوں کی کھال میں بھُس بھر کر اسے بیچنا تھا، اسی لیے وہ پرندوں اور ان کی قیمتوں کے قصّے سنایا کرتا تھا۔

    "تین ہزار پاؤنڈ؟” میں نے حیرت ظاہر کی۔ "کیا وہ شتر مرغ کسی نایاب نسل کا تھا؟”
    "نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ اور باقی چار شتر مرغ جن کا قصّہ سنانے والا ہوں پانچوں عام سے شترمرغ تھے، بلکہ ایک کی کھال کا رنگ بھی مناسب دانہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے اڑ گیا تھا، لیکن ان میں سے ایک شتر مرغ نے ایک نہایت قیمتی ہیرا نگل لیا تھا۔”

    "شتر مرغ نے ہیرا نگل لیا تھا؟”

    "ہاں۔” اس نے ہماری دل چسپی کو دیکھ کر پورا قصّہ سنانا شروع کیا جو یوں تھا: وہ ہیرا ایک ہندو بیوپاری کا تھا۔ اس کا نام موہن تھا۔ موہن ایک موٹا سا آدمی تھا۔ اس کی پگڑی میں وہ ہیرا لگا ہوا تھا۔ شتر مرغ نے اس کی پگڑی پر چونچ ماری اور ہیرا نگل لیا۔ جب موہن کو پتا چلا کہ کیا ہوگیا ہے تو اس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ یہ سب کچھ ذرا سی دیر میں ہو گیا۔ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو سب سے پہلے وہاں پہنچے۔ دراصل ہم لوگ لندن جانے کے لیے ایک بحری جہاز میں سوار ہو رہے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو موہن، دو ملاحوں اور شتر مرغ کے رکھوالے کے درمیان اچھی خاصی گرما گرمی ہو رہی تھی، بلکہ شتر مرغ کا رکھوالا تو ہنستے ہنستے دہرا ہوا جا رہا تھا۔

    یہ پانچوں شتر مرغ لندن جانے کے لیے بحری جہاز پر پہنچائے جا رہے تھے کہ ان میں سے ایک نے پاس کھڑے ہوئے ایک ہندو بیوپاری موہن کی پگڑی میں لگا ہوا ہیرا نگل لیا۔ اس وقت شتر مرغوں کا رکھوالا وہاں موجود نہیں تھا۔ وہ تھوڑی دیر بعد پہنچا۔ اس لیے اسے بھی پتا نہ تھا کہ کون سے شتر مرغ نے ہیرا نگلا ہے۔ بہرحال ہم سب بحری جہاز پر سوار ہو گئے اور جہاز لندن کے لیے روانہ ہو گیا۔ شتر مرغ بھی جہاز پر سوار تھے۔

    بحری جہاز پر اس قسم کی خبریں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد تمام مسافروں کو اس بات کا پتا لگ گیا کہ جہاز پر سوار شتر مرغوں میں سے ایک کے پیٹ میں ایک ہیرا موجود ہے جو اس نے ایک مسافر کی پگڑی سے اچک لیا تھا۔

    ہر شخص اسی کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ موہن اپنے جذبات چھپانے کے لیے اپنے کیبن میں چلا گیا، لیکن رات کے کھانے پر جب سب مسافر جہاز کے کھانے کے کمرے میں جمع ہوئے تو موہن ایک میز پر جہاز کے کپتان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔

    موہن نے کپتان پر زور دیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس کا ہیرا واپس دلوائے۔ اس کا کہنا تھا میں وہ شتر مرغ نہیں خریدوں گا بلکہ مجھے میرا قیمتی ہیرا دلوانا کپتان کا فرض ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر مجھے میرا ہیرا واپس نہ ملا تو میں لندن پہنچ کر پولیس میں شکایت درج کروں گا۔ لہذا بہتر ہے کہ شترمرغوں کو کوئی دوا کھلا کر ہیرا حاصل کیا جائے۔
    اُدھر شتر مرغوں کا رکھوالا بھی ایک ضدی آدمی نکلا۔ اس نے کہا کہ میں شتر مرغوں کو دوا دے کر ہیرا حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں شتر مرغوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ صرف رکھوالا ہوں اور مجھے سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ شتر مرغوں کو صرف فلاں فلاں چیز کھلائی جائے اور انھیں فلاں فلاں طریقے سے رکھا جائے۔ جب کہ موہن کا کہنا تھا کہ چوں کہ شتر مرغوں میں سے ایک نے اس کا ہیرا نگل لیا ہے، اس لیے اب وہ جس طرح چاہے ہیرا نکال سکتا ہے، چاہے ان کا پیٹ کاٹ کر ہی کیوں نہیں نکالا جائے۔

    اس طرح یہ مسئلہ ایک قانونی شکل اختیار کر گیا تھا، لیکن جہاز پر کوئی وکیل موجود نہ تھا، اس لیے ہر مسافر اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ مسافروں میں سے اکثر کا کہنا یہ تھا کہ موہن کو شتر مرغ خرید لینے چاہییں، پھر اس کا جو جی چاہے ان کے ساتھ کرے۔

    جہاز عدن کی بندرگاہ پر رکا اور جب وہاں سے چلا تو رات کے کھانے پر موہن نے مسافروں کی بات مان لی اور پانچ کے پانچ شتر مرغ خریدنے کے لیے تیار ہو گیا، لیکن اگلی صبح ناشتے پر صورتحال پھر بدل گئی، کیوں کہ شتر مرغوں کے رکھوالے نے اعلان کیا کہ وہ ان کا مالک نہیں ہے اس لیے وہ انہیں کیسے بیچ سکتا ہے؟ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے مالک سے پوچھے بغیر شتر مرغ بیچنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔

    اس پر ایک مسافر کھڑا ہو گیا۔ اس کا نام پوٹر تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ شتر مرغوں کے رکھوالے کو میں نے بھی اچھی خاصی رقم کی پیشکش کی تھی، لیکن وہ شتر مرغ بیچنے پر تیار نہیں تھا، اس لیے جب جہاز عدن پر ٹھہرا تھا تو میں نے وہاں سے شتر مرغ کے مالک کو لندن میں تار دے کر تمام شتر مرغ خریدنے کی پیشکش کی تھی۔ اس کا جوابی تار مجھے جہاز کی اگلی منزل یعنی سویز پر مل جائے گا۔ یہ سن کر موہن نے پوٹر کو سب کے سامنے برا بھلا کہا۔ اس کی صورت دیکھنے والی تھی، لیکن باقی سب مسافر پوٹر کو ایک ہوشیار آدمی مان گئے۔

    جب جہاز سویز پہنچا تو پوٹر کے تار کا جواب لندن سے آ چکا تھا۔ شتر مرغ کے مالک نے انہیں پوٹر کے ہاتھ فروخت کرنے کی ہامی بھر لی تھی۔ اب پوٹر شتر مرغوں کا مالک بن چکا تھا۔ یہ خبر سن کر موہن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آخر اس نے پوٹر سے کہا میں شتر مرغ تم سے خریدنے کے لیے تیار ہوں۔ تم فی شتر مرغ پانچ سو پاؤنڈ کے حساب سے پانچ شتر مرغوں کے ڈھائی ہزار پاؤنڈ لے لو۔ اس پر پوٹر نے کہا کہ میں نے یہ شتر مرغ بیچنے کے لیے نہیں خریدے۔ میرا ارادہ ان کے پیٹ چاک کر کے ہیرا تلاش کرنے کا ہے۔
    لیکن بعد میں پوٹر کا ارادہ بدل گیا اور اس نے شتر مرغ نیلام کرنے کا اعلان کیا، لیکن اس نے ایک شرط بھی رکھی۔ وہ یہ کہ کسی شخص کے ہاتھ ایک سے زیادہ شتر مرغ فروخت نہیں کیے جائیں گے اور ایک شتر مرغ وہ اپنے لیے رکھے گا تاکہ قسمت آزما سکے۔ کیا پتا ہیرا اسی میں سے نکلے۔

    وہ ہیرا بہت قیمتی تھا۔ ہمارے ساتھ بحری جہاز پر ہیروں کا ایک یہودی تاجر بھی سفر کر رہا تھا۔ جب موہن نے اسے اس ہیرے کے بارے میں بتایا کہ کیسا تھا اور کتنا بڑا تھا تو اس نے اس کی قیمت اندازاً چار سے پانچ ہزار پاؤنڈ بتائی۔ جب جہاز کے مسافروں کو ہیرے کی قیمت کا پتا چلا تو وہ بے چینی سے نیلامی کا انتظار کرنے لگے جو اگلے دن ہونے والی تھی۔

    اب اتفاق کی بات کہ شتر مرغ کے رکھوالے سے مجھے باتوں باتوں میں پتا چلا کہ ایک شتر مرغ بیمار ہے اور اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔ اس شتر مرغ کی دُم کے پروں میں سے ایک پر بالکل سفید تھا جو شاید بیماری کی وجہ سے ہوگیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ وہی شتر مرغ ہے جس کے پیٹ میں ہیرا ہے اور اسی لیے اس کے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔

    اگلے روز جب نیلامی شروع ہوئی تو سب سے پہلے یہی شتر مرغ لایا گیا۔ بولی آٹھ سو پاؤنڈ سے شروع ہوئی۔ موہن نے فورا ساڑھے آٹھ سو کی بولی دی جس کے جواب میں، مَیں نے نو سو پاؤنڈ کی آواز لگائی۔ مجھے یقین تھا کہ ہیرا اسی شتر مرغ کے پیٹ میں ہے اور اتنے زیادہ بھاؤ یعنی نو سو پاؤنڈ سے کوئی آگے نہیں بڑھے گا، لیکن موہن بالکل باؤلا ہو گیا تھا۔ اس نے اندھا دھند بولی بڑھانی شروع کی۔ ہیروں کا یہودی تاجر بھی بڑھ چڑھ کر بولی لگا رہا تھا۔ اس نے بولی ایک ہزار سات سو پاؤنڈ تک پہنچا دی۔ اس موقعے پر پوٹر نے اس کے حق میں بولی ایک دو تین کہہ کر ختم کر دی۔ موہن نے ایک ہزار آٹھ سو کی آواز لگائی، لیکن تب تک پوٹر تین کہہ چکا تھا۔ موہن ہاتھ ملتا رہ گیا۔

    یہودی تاجر نے پوٹر کو شتر مرغ کی قیمت ادا کی اور اسی وقت پستول نکال کر شتر مرغ کو گولی مار دی۔ اس پر پوٹر نے خوب شور مچایا اور کہا کہ اگر شتر مرغ کو اسی وقت کاٹا گیا تو اس سے نیلامی پر برا اثر پڑے گا، کیوں کہ اگر اس میں سے ہیرا نکل آیا تو میرے باقی شترمرغ کوئی نہیں خریدے گا، لیکن ہم سب ہیرا دیکھنے کے لیے اس قدر بے چین تھے کہ سب نے سنی ان سنی کر دی۔ شتر مرغ کو چیرا پھاڑا گیا، لیکن اس میں سے کچھ نہ نکلا۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ میرا نقصان ہوتے ہوتے رہ گیا، کیوں کہ میں خود اس شتر مرغ کی ایک ہزار چار سو پاؤنڈ قیمت لگا چکا تھا۔

    یہودی تاجر نے کسی خاص افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ البتہ پوٹر نے یہ کہہ کر نیلامی بند کر دی کہ جب تک سارے شترمرغ نہیں بک جاتے وہ کسی کو شتر مرغوں کی چیر پھاڑ نہیں کرنے دے گا، لیکن یہودی تاجر کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص ایک چیز خریدتا ہے تو اس کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ جب اور جیسا چاہے سلوک کرے۔ بات بڑھ گئی اور گرما گرمی ہونے لگی تو نیلامی اگلی صبح تک روک دی گئی۔ رات کو کھانے کی میز پر شتر مرغوں کی نیلامی کے بارے میں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کچھ نے تو جہاز کے کپتان سے یہ بھی کہا کہ اس نیلامی کو روک دیا جائے، کیوں کہ اس طرح سے ہیرا بیچنا ایک طرح کا جوا ہے، لیکن پوٹر کا کہنا تھا کہ ہیرا نہیں بیچ رہا۔ میں تو صرف شتر مرغ بیچ رہا ہوں۔

    آخر کپتان نے اعلان کیا کہ جہاز پر شترمرغ کی خرید و فروخت کی اجازت ہے، لیکن شتر مرغوں کے قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب کوئی شخص شتر مرغوں کو نہ تو جہاز پر ہلاک کرے گا اور نہ ان کی چیر پھاڑ کرے گا۔ لندن پہنچنے کے بعد جہاز سے اتر کر مسافروں کا جو جی چاہے شتر مرغوں کے ساتھ کریں۔

    اگلی صبح جب نیلامی شروع ہوئی تو ہر شخص کے ذہن میں یہ بات تھی کہ شتر مرغ پانچ کے بجائے اب چار رہ گئے ہیں، اس لیے کسی ایک شتر مرغ سے ہیرا نکلنے کا امکان اب پہلے سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بولی کل سے بھی زیادہ پر شروع ہوئی۔ میرے پاس پیسے کم تھے اس لیے میں تو پیچھے ہٹ گیا۔ ایک شتر مرغ دو ہزار پاؤنڈ کا بکا۔ ایک کی قیمت دو ہزار تین سو پاؤنڈ لگائی گئی۔ جب کہ تیسرا ڈھائی ہزار پاؤنڈ میں فروخت ہوا، لیکن عجیب بات تھی کہ موہن نے ان میں سے ایک بھی نہیں خریدا، بلکہ جب بولی لگائی جا رہی تھی تو وہ ایک کونے میں بیٹھا لندن پہنچ کر پولیس میں رپورٹ درج کرانے کی باتیں کر رہاتھا اور قانونی نکتے اٹھا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ ساری نیلامی غیرقانونی ہے۔

    فروخت ہونے والے تین شتر مرغوں میں سے ایک اُسی یہودی تاجر نے خریدا۔ ایک شتر مرغ ایک افسر نے خریدا جو جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ تیسرا اس جہاز کے انجینئروں نے آپس میں پیسے جمع کر کے خرید لیا۔

    جب نیلامی ختم ہوئی تو پوٹر اُداس ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے شتر مرغ بیچ کر بے وقوفی کی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے لیے جو شترمرغ رکھا تھا وہ بھی اس نے ایک مسافر کو تین ہزار پاؤنڈ میں رات ہی بیچ دیا تھا، لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس میں بے وقوفی کی کیا بات ہے۔ جو شتر مرغ اس نے زیادہ سے زیادہ آٹھ سو پاؤنڈ میں خریدے ہوں گے وہ اس نے ایک ایک کر کے ساڑھے گیارہ ہزار پاؤنڈ میں بیچ دیے۔

    آخر جہاز لندن کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ سارے مسافر اترنے شروع ہوئے۔ شتر مرغ بھی اتارے گئے۔ شتر مرغ خریدنے والوں نے انہیں وہیں چیرنے پھاڑنے کا ارادہ کیا لیکن بندرگاہ کے افسروں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ موہن پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑتا پھر رہا تھا۔ جن لوگوں نے شتر مرغ خریدے تھے وہ ان سے ان کے نام اور پتے پوچھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ان کے خریدے ہوئے شتر مرغ سے ہیرا نکل آئے تو مجھے خط لکھ کر بتائیں، لیکن کسی نے بھی اسے اپنا نام پتا نہیں دیا۔ موہن نے پوٹر کو بھی برا بھلا کہا لیکن پوٹر نے اپنا سامان اٹھایا اور چل پڑا۔ باقی مسافر بھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ شتر مرغ خریدنے والوں نے انہیں لدوایا اور وہ بھی چل پڑے۔

    یہ کہہ کر وہ چپ ہو گیا اور ایک پرندے کی کھال میں بھُس بھرنے لگا۔ میں نے بے صبری سے کہا، "پھر کیا ہوا؟ ہیرا کون سے شتر مرغ میں تھا؟”

    وہ مسکرایا اور بولا، "میرے خیال سے کسی میں بھی نہیں۔”

    "وہ کیوں؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔

    اس نے بتانا شروع کیا، "یہ بات مجھے کبھی معلوم نہ ہوتی اور میں یہی سمجھتا رہتا کہ موہن کا ہیرا کسی شتر مرغ نے نگل لیا تھا، لیکن اتفاق کی بات ہے کہ لندن پہنچنے کے ایک ہفتے بعد میں لندن کی ریجنٹ اسٹریٹ میں خریداری کر رہا تھا کہ مجھے موہن اور پوٹر نظر آئے۔ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، بہت خوش خوش، مسکراتے ہوئے جا رہے تھے۔ دونوں نے بہت عمدہ اور مہنگے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میں چُپ چاپ انہیں دیکھنے لگا۔ انہوں نے کوئی چیز خریدی۔ موہن نے پیسے دینے کے لیے بٹوا نکالا تو وہ نوٹوں سے ٹھنسا ٹھس بھرا ہوا تھا۔ لگ رہا تھا کہ دونوں کو کہیں سے بہت سا رُپیہ ہاتھ لگا ہے۔”

    میں نے ایک لمبی سانس لے کر کہا، "بہت خوب! تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی شتر مرغ نے کوئی ہیرا نہیں نگلا تھا۔ موہن اور پوٹر دونوں ساتھی تھے اور انہوں نے اس طرح نیلامی کے ذریعے سے ہزاروں پاؤنڈ بٹور لیے۔”

    اس نے مسکرا کر "ہاں” کہا اور سَر جھکا کر پرندوں کی کھال میں بھُس بھرنے لگا۔


    (مصنّف: ایچ جی ویلز​، ترجمہ: رؤف پاریکھ​)

  • لومڑی کا صبر

    لومڑی کا صبر

    ایک سوداگر جو ایک قلعے میں زندگی بسر کرتا تھا، اس کا پیشہ پوستین دوزی تھا۔ وہ گاؤں کے قصّابوں سے بھیڑ، گائے کی کھالیں خریدتا۔ انھیں رنگتا اور پھر پوستینیں بناتا اور بیچتا۔

    ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بھوکی لومڑی قلعے کے پاس سے گزر رہی تھی کہ اچانک بھیڑ کی کھال کی بُو اس کی ناک میں دَر آئی اور وہ خوراک کے لالچ میں قلعے کے نزدیک کی ایک بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوگئی، بُو سونگھتی سونگھتی پوستین دوز کی دکان تک جا پہنچی اور کھالوں کے سراغ میں مصروف ہوگئی۔ وہ کھالوں کی بُو سے سرشار اور خوش ہو گئی تھی۔

    اس نے چند کھالوں پر اپنے دانت صاف کیے اور ان سے کُچھ تکّے نوچ کھائے، بعض کھالوں کو جگہ جگہ سے پھاڑ ڈالا اور جب دیکھا کہ یہ تو صرف کھالیں ہیں اور ان میں گوشت نام کو نہیں تو جس راستے سے آئی تھی، اسی سے لوٹ گئی اور صحرا کی طرف بھاگ نکلی۔

    اگلی کئی راتوں تک اس کا یہی وتیرہ رہا۔ کھالوں کی بُو اور گوشت کے لالچ میں وہ بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوتی، سوداگر کی دکان کے اندر جاتی اور اُسی طرح کھالوں کو چیرتی پھاڑتی اور پھر لوٹ آتی۔

    بیچارہ سوداگر لومڑی کے پاؤں اور پنجوں کے نشان دیکھ کر حقیقتِ حال کو جان گیا تھا۔ لومڑی کے ہاتھوں اس کا ناک میں دَم آگیا تھا۔ اُس نے اپنے آپ سے کہا: بہتر ہے کہ میں کچھ راتیں بے خوابی میں گزاروں اور چالاک لومڑی کو اس کے کیے کا مزہ چکھاؤں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔

    اسے معلوم تھا کہ قلعے کی دیواریں بہت بلند ہیں اور اس کے دروازے بھی رات کو بند ہو جاتے ہیں۔ اسے یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ کتّوں کے ڈر سے لومڑی دن کے وقت قلعے میں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر وہ یہ راز پا گیا کہ لومڑی بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوتی ہے۔

    ایک رات سوداگر نے اپنے اوپر نیند کو حرام کیا۔ وہ بدر رو کے سوراخ کے قریب گھات میں بیٹھ گیا۔ بیٹھا رہا، بیٹھا رہا حتّٰی کہ صبح ہونے سے کچھ پہلے لومڑی حسبِ معمول بدر رو کے رستے اندر آئی اور اس نے کھالوں کے ذخیرے کی جانب رخ کیا۔ سوداگر نے بھی اپنی جگہ سے حرکت کی اور اس تختے سے، جسے وہ ساتھ لیتا آیا تھا، بدر رو کا رستہ بند کردیا اور اس کے ساتھ مٹی کا پشتہ لگا کر اسے خوب مضبوط کر دیا۔ پھر اس نے لاٹھی ہاتھ میں لی اور لومڑی کے کھوج میں چل پڑا۔

    جب وہ اپنی دکان کے قریب پہنچا، لومڑی اپنے کام سے فارغ ہوکر واپس جارہی تھی۔
    جونہی لومڑی کی نگاہ اس شخص پر پڑی جو ہاتھ میں لاٹھی تھامے اس کے درپے تھا، اس نے راہِ فرار اختیار کی۔ سوداگر بھی اس کے پیچھے تیزی سے دوڑا۔

    جب لومڑی بدر رو کے سوراخ کے نزدیک پہنچی تو اُسے بند پایا۔ اس نے چاہا کہ دروازے کے رستے بھاگ لے، مگر قلعے کا دروازہ بھی بند تھا۔ اسے خیال آیا کہ گلی کوچوں میں داخل ہوکر بھاگ نکلے، مگر کتّوں کی عَو عَو نے اسے خوف میں مبتلا کر دیا۔ ناچار اس نے سوچا کہ سوداگر کو خوف زدہ کرنے کے لیے اس پر حملہ کرے۔ اس سے پہلے کہ وہ ایسا کرتی، سوداگر نے لاٹھی سے اس کے سَر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ درد سے بے حال ہوکر زمین پر گر پڑی۔

    لومڑی نے بھانپ لیا تھا کہ اس کے فرار کے سارے رستے بند ہوچکے ہیں۔ اب اگر وہ زیادہ دوڑ دھوپ کرتی ہے تو یا تو وہ لاٹھیاں کھا کر ماری جائے گی یا اس شور غوغے سے کتّوں کو خبر ہو جائے گی اور معاملہ اور بگڑ جائے گا، لہٰذا اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ یونہی بے حس و حرکت پڑی رہے، گویا مرچکی ہے۔

    جب سوداگر کو اندازہ ہوا کہ اس کی پہلی ضرب ہی کاری ثابت ہوئی اور اس نے لومڑی کو ادھ موا کردیا تو اس کے دل میں رحم آیا اور وہ خود سے کہنے لگا: بس کافی ہے۔ اگر وہ مرنے کے لائق تھی تو قریبِ مرگ ہے۔ اگر ایسا نہیں تو بھی وہ بہرحال تائب ہو جائے گی اور دوبارہ اس قلعے کے نزدیک نہیں پھٹکے گی۔

    جاتے جاتے اس نے اُسے پاؤں سے ایک ٹھوکر بھی لگائی، مگر اسے بے حس و حرکت پاکر اپنے گھر لوٹ آیا۔ اسی اثناء میں اندھیرا چھٹنے لگا تھا اور لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر آنا جانا شروع ہوگئے تھے۔

    بدفطرت لومڑی جس وقت زمین پر پڑی خود کو جھوٹ موٹ مردہ ظاہر کررہی تھی، اسے خیال آیا کہ قلعے کا دروازہ اور بدر رو کا رستہ تو بند ہے، اب اگر میں حرکت کرتی ہوں اور کوئی مجھے دیکھ لے تو داد فریاد شروع ہو جائے گی، کتّوں کو خبر ہو جائے گی اور وہ میری تِکّہ بوٹی کر ڈالیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ میں اسی طرح مچلی بنی پڑی رہوں تاکہ دھوپ نکل آئے، قلعے کا دروازہ کھُل جائے اور میں فوراً اٹھوں اور فرار کر جاؤں۔

    آہستہ آہستہ فضا زیادہ روشن ہوتی گئی۔ لوگ آنے جانے لگے اور ان کی نگاہیں لومڑی پر پڑنے لگیں۔ ان میں سے ایک قریب آیا اور اسے مردہ سمجھ، ٹھوکر مار کر آگے بڑھ گیا۔ ایک اور شخص نے اسے دیکھا، بُرا بھلا کہا اور چل دیا۔ اُدھر سے کچھ بچّوں کا بھی گزر ہوا۔ انھوں نے لومڑی کی دُم پکڑ کر ادھر اُدھر کھینچنا شروع کر دی، بڑی عمر کے لوگوں نے ان کی سرزنش کی۔

    لومڑی یونہی چپکی پڑی رہی اور اس نے کسی قسم کا ردِّعمل ظاہر نہ کیا اور یہی سوچتی رہی کہ جب تک کتّے قلعے کے اندر ہیں اور جب تک دروازہ بند ہے، راہِ فرار کی کوئی صورت نہیں۔ سو صبر کرنا چاہیے کیوں کہ صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    رفتہ رفتہ کچھ بیکار اور آوارہ منش لوگ لومڑی کے گرد آن اکٹھے ہوئے اور لگے اس کے بارے میں باتیں کرنے۔ ہر کوئی اپنی اپنی ہانک رہا تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ کہاں سے آٹپکی اور یہاں موت سے کیسے دوچار ہوئی۔

    ایک بولا: اسے یقیناً کتّوں نے مارا ہے۔ دوسرے نے جواب دیا: نہیں اگر کتّوں کی نگاہ اس پر پڑی ہوتی تو وہ اتنی آسانی سے اُسے چھوڑ نہ دیتے۔ اتنے میں ایک بوڑھا، جو دراصل قلعے کا دروازہ کھولنے پر مامور تھا، موقع پر آن پہنچا اور گویا ہوا: میں نے ایک فال گیر سے سنا ہے کہ اگر لومڑی کے بال آگ میں جلائے جائیں تو جادو ٹونے کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور لومڑی کے جسم سے تھوڑی سی پشم کاٹ کر کاغذ میں رکھ، جیب میں اُڑس لی اور قلعے کا دروازہ کھولنے چل دیا۔

    ایک اور شخص جو وہاں کھڑا تھا بولا: یہ فضول باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جادو ٹونا جھوٹ ہے اور اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ لومڑی کے بالوں کا سحر اور جادو سے کیا تعلق؟

    لومڑی کہ اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کی بھانت بھانت کی بولیاں سن رہی تھی، اپنے دل میں کہنے لگی: یہ جو کہتے ہیں کہتے رہیں، پروا نہ کر۔ بہتر ہے صبر کر اور جب بھیڑ چَھٹ جائے، فرار ہو جا۔ وہ بوڑھا جو میرے جسم کی تھوڑی سی پشم کاٹ لے گیا، توجہ کے قابل نہیں۔ اِس وقت صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اتنے میں ایک بڑھیا بھی موقعے پر آپہنچی۔ اس نے لوگوں کے ہجوم کو چیر کر اپنا راستہ بنایا اور کہنے لگی: میں نے بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ لومڑی کا کان چشمِ بد سے محفوظ رہنے کے لیے اچھا ہے۔ اس نے بھی آگے بڑھ کر لومڑی کے کان کا ذرا سا حصہ کاٹا اور ساتھ لیے چل پڑی۔ لومڑی کو کان کے کٹنے سے بڑی تکلیف پہنچی اور اس کا دل چاہا کہ روئے پیٹے، مگر لوگوں کے ہجوم سے ڈر کر اس نے چُپ سادھے رکھی اور خود سے کہنے لگی: کان کے ذرا سے حصّے کے کٹ جانے کا کیا مضائقہ۔ جانے دے، بڑھیا بھی اس سے خوش ہوئی ہوگی۔ میرے لیے صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اس موقع پر ایک اور شخص وہاں آدھمکا۔ لومڑی کو دیکھا اور کہا: واہ واہ! میں نے سنا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس لومڑی کا دانت ہو تو کتّا اس پر حملہ آور نہیں ہوتا۔ یہ کہا اور ایک پتھر سے لومڑی کا ایک دانت توڑا اور اپنے ساتھ لے کر چلتا بنا۔

    اب لومڑی کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی اور وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی: کیسے احمق لوگ ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اگر میرے ایک دانت سے یہ معجزہ ممکن ہے تو پھر میں خود، جو منہ میں سولہ دانت رکھتی ہوں، کتّوں سے کیوں خوف کھاتی ہوں۔ خیر کوئی بات نہیں ایک دانت کے چلے جانے کا کیا غم۔ جلد بازی میں حرکت کرنا خطرناک ہے اور جب تک چھری میری ہڈیوں تک نہیں جاپہنچتی، صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اسی اثنا میں قلعے سے باہر کا کوئی شخص گھومتا گھامتا وہاں آپہنچا۔ لومڑی کو دیکھا اور گویا ہوا: تعجب ہے، کیا یہ لومڑی مرچکی ہے؟ کتنا اچھا ہوا کہ میں یہاں چلا آیا۔ میرے شہر میں لوگ لومڑی کی دُم خریدتے ہیں اور اسے اپنے لباس پر مڑھ لیتے ہیں۔ بہت خوب، میں اس لومڑی کی دُم لے جاتا ہوں۔ یہ کہا اور چھری جیب سے نکالی کہ اس کی دُم کاٹ لے۔

    لومڑی نے دل میں کہا: میں کس مصیبت میں آن پھنسی ہوں۔ یہ لوگ جب تک میرے جسم کی بوٹی بوٹی نہ کرلیں گے، ٹلیں گے نہیں۔ جب تک معاملہ میری پشم تک تھا، میں نے پروا نہ کی، جب بات میرے کان کی ہورہی تھی، میں نے پروا نہ کی اور سست اور ساکت پڑی رہی، جب میرا دانت لے اُڑنے کے لیے سوچا جارہا تھا، میں نے جی کڑا کر کے صبر سے کام لیا مگر اب جب چھری میری ہڈیوں تک پہنچنے کو ہے، صبر اور خاموشی ہر چیز سے بدتر ہے۔

    مجھے چاہیے کہ اٹھوں اور خود کو نجات دلاؤں۔ اگر میں اب بھی یہاں پھنسی رہی تو میرے ساتھ بہت بُرا ہوگا۔ سو جونہی مذکورہ شخص چھری ہاتھ میں لیے نزدیک آیا، اچانک لومڑی نے جست لگائی اور لوگوں کے ٹانگوں اور پاؤں کے بیچ سے، جو اس کے اچانک حرکت کرنے سے وحشت زدہ ہوگئے تھے، نکلی اور قلعے سے فرار ہوگئی۔

    (فارسی ادب سے کہانی جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے کیا ہے)

  • مسافر کا لاشہ

    مسافر کا لاشہ

    (صحرا) بیچوں بیچ ایک کنواں جس کے گرد خار دار تار کی باڑ کھنچی ہوئی ہے۔ اس کے سلاخچے کے پاس ایک بڑا سا ڈول رکھا ہوا ہے۔ ڈول پر موٹی رسّی لپٹی ہوئی ہے۔

    (مسافر) تھکا ہارا اور ننگے پاؤں، پتلون قمیص پہنے، پسینے میں تربتر، اسٹیج پر آتا ہے۔ بہت پیاسا ہے، زبان باہر لٹکی پڑ رہی ہے۔ کنویں کی طرف لپکتا ہے۔ باڑ کے گرد کئی چکر کاٹتا ہے اور گردن بڑھا بڑھا کر کنویں کو دیکھتا ہے۔ تاروں کے بیچ سے گزرنا چاہتا ہے۔ نہیں گزر پاتا۔ تاروں کو پکڑتا ہے اور کھینچتا ہے۔ اس کی انگلیاں زخمی ہوجاتی ہیں۔ پھر کنویں کے گرد دوڑ لگاتا ہے اور کنویں کو دیکھتا ہے۔ پھر تاروں کو پکڑتا ہے اور کھینچتا ہے۔ پھر کنویں کے گرد دوڑتا ہے اور ہانپتا ہے۔

    (وہ) رک جاتا ہے اور کچھ سوچنے لگتا ہے۔ ایک سلاخچے کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور ناخنوں سے سلاخچے کے اردگرد کی مٹی کھودتا ہے۔ سلاخچے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتا ہے اور زور لگاتا ہے۔ سلاخچہ اکھڑ جاتا ہے۔ دوسرے اور تیسرے سلاخچے کو بھی اکھاڑ لیتا ہے۔ تار زمین پر گر جاتے ہیں۔ ایک طرف سے کنویں کا راستہ کھل جاتا ہے۔

    خالی ڈول کو اٹھاتا ہے اور کنویں میں ڈالتا ہے۔ کنواں گہرا ہے۔ مسافر کے ہاتھ میں رسّی کا سرا رہ جاتا ہے۔ بھاری ڈول کو اوپر کھینچتا ہے۔ بھری ہوئی بڑی سی مشک ڈول میں رکھی ہے۔ مشک کو تعجب سے دیکھتا ہے، ڈول میں سے نکالتا اور ہلاتا ہے۔ پانی کی آواز آتی ہے۔ جلدی جلدی مشک کا دہانہ کھولتا اور اسے ڈول میں انڈیلتا ہے۔ مشک ہوا سے پھولی ہوئی ہے۔

    کنویں کی تہ میں قہقہے لگتے ہیں۔ مسافر ڈر جاتا ہے اور مشک کو کنویں میں پھینک دیتا ہے۔ مشک اوپر اچھال دی جاتی ہے۔

    ڈول کنویں میں ڈالتا ہے اور رسّی کو جھٹکے دیتا ہے اور اوپر کھینچتا ہے۔ ایک بڑی سی پرانی کتاب باہر آتی ہے۔ کتاب کو اٹھا لیتا ہے اور اس کے ورق پلٹتا ہے۔ بڑے شوق سے اس کی تصویریں دیکھنے لگتا ہے۔ کنویں کی تہ میں رونا ہوتا ہے۔ کتاب مسافر کے ہاتھ سے نکل کر کنویں میں گر جاتی ہے۔ انتظار کرتا ہے۔ کتاب اوپر نہیں آتی۔

    پھر ڈول کنویں میں ڈالتا ہے، رسّی کو جھٹکے دیتا ہے، اوپر کھینچتا ہے۔ کٹا ہوا ایک ہاتھ اور ایک پیر ڈول میں رکھ دیا گیا ہے۔ دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔ کنویں کے اندر قہقہے لگتے ہیں۔ مسافر ڈول کو کنویں میں الٹ دیتا ہے۔ کٹے ہوئے ہاتھ اور پیر کو پھر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔

    کنویں میں ڈول کو ڈالتا ہے اور رسّی کو جھٹکے دیتا ہے۔ اوپر کھینچتا ہے اور دیکھتا ہے۔ ایک بہت بڑا ہیرا ڈول میں سے نکالتا ہے۔ خوشی خوشی ہیرے کو انگلیوں میں گھماتا ہے۔ کنویں کے اندر رونا ہوتا ہے۔ مسافر کچھ سوچتا ہے اور ہیرے سے کھیلتا رہتا ہے۔ ہیرا اس کی انگلیوں سے چھوٹتا ہے اور کنویں میں گر جاتا ہے۔ ہیرے کو دوبارہ اوپر نہیں پھینکا جاتا۔

    جِھلّا کر ڈول کو کنویں میں ڈالتا ہے، رسّی کو جھٹکے دیتا ہے اور اوپر کھینچتا ہے۔ ایک گلا ہوا مردہ سانپ ڈول میں رکھ دیا گیا ہے۔ دہل جاتا ہے۔ کنویں کے اندر قہقہے لگتے ہیں۔ ڈول کو کنویں میں پلٹ دیتا ہے۔ مردہ سانپ کو پھر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔

    مسافر زمین پر بیٹھ جاتا ہے اور کچھ سوچنے لگتا ہے۔ مردہ سانپ اور کٹے ہوئے ہاتھ پیر اور خالی مشک کو برابر برابر رکھتا اور دیکھتا ہے۔ کٹے ہوئے ہاتھ پیر کو اپنے ہاتھ پاؤں سے ملا کر دیکھتا ہے۔ اٹھتا ہے اور ڈول کنویں میں ڈالتا ہے۔ رسی کو جھٹکے دیتا ہے اور اوپر کھینچتا ہے۔ ایک بڑا انار باہر آتا ہے۔ کنویں کے پاس سے ہٹ جاتا ہے اور انار پر منھ مارتا ہے۔ انار پلپلا ہوچکا ہے۔ کنویں کی تہ میں رونا ہوتا ہے۔ مسافر طیش کھا کر قریب جاتا ہے اور انار کو کنویں میں پھینک دیتا ہے۔

    رونے کی آواز یک دم رک جاتی ہے۔ مسافر پچھتاتا ہے۔ انتظار کرتا ہے۔ لجاجت کے ساتھ کنویں کو دیکھتا ہے۔ اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔ انار کو باہر نہیں پھینکا جاتا۔

    مسافر ڈول کو ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے سر تھامے ہوئے کئی مرتبہ کنویں کے گرد دوڑ لگاتا ہے۔ آسمان کو اور افق کو دیکھتا ہے۔ کچھ نہیں ہوتا۔

    کنویں کے کنارے بیٹھ جاتا ہے اور سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ ایک مذہبی مرقع آہستہ آہستہ کنویں سے ابھرتا ہے۔ مسافر ہاتھ پھیلا کر مرقع کو پکڑ لیتا ہے اور سینے سے لگاتا ہے، بھنچی بھنچی آواز میں روتا ہے۔ کنویں کے اندر بہت سے لوگوں کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ مسافر کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگتے ہیں۔ چند لمحے گزرتے ہیں۔ کنویں کے اندر رونے کا انداز دھمکانے کا سا ہوجاتا ہے۔ مسافر مرقع کو کنویں کے حوالے کردیتا ہے۔ انتظار کرتا ہے۔

    مرقع دوبارہ اوپر نہیں آتا۔ کچھ دیر سوچتا رہتا ہے۔

    وہ پھر ڈول کو اٹھاتا ہے اور سوچتا ہے۔ پھر اس کو کنویں میں ڈالتا ہے اور سوچتا ہے۔ اوپر کھینچتا ہے۔ ڈول میں ایک پستول رکھ دیا گیا ہے۔ پستول کو اٹھا لیتا ہے۔ کنویں میں سے ہنسنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ پستول کو کنویں میں ڈال دیتا ہے۔ اسے دوبارہ اوپر اچھال دیا جاتا ہے اور قہقہے لگتے ہیں۔ پھر پستول کو ٹھوکر مار کر کنویں میں گرا دیتا ہے۔ تیسری بار قہقہے لگتے ہیں اور پستول اوپر اچھال دیا جاتا ہے۔

    مسافر پستول ہاتھ میں لیتا ہے اور کنویں کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔ پستول کو اور کنویں کو دیکھتا ہے۔ زبان سے پستول کے فولاد کی ٹھنڈک کو محسوس کرتا ہے۔ اس کی نال کو منھ میں لیتا ہے اور بے خیالی میں لبلبی دبا دیتا ہے۔

    گولی کا ٹراقا اسٹیج پر گونجتا ہے۔ مسافر کا جسد کنویں میں گر جاتا ہے۔ کنویں میں سے زور دار قہقہوں کی آواز بلند ہوتی ہے۔

    کچھ دیر تک خاموشی رہتی ہے۔ مسافر کا لاشہ اوپر اچھال دیا جاتا ہے۔

    (اس کہانی کا اصل عنوان ‘گدا’ ہے جس کے مصنّف غلام حسین ساعدی (ایران) اور مترجم نیّر مسعود ہیں)

  • فرشتۂ اجل اور دو آرزوئیں

    فرشتۂ اجل اور دو آرزوئیں

    لبنانی نژاد امریکی خلیل جبران کو دنیا ایک ایک عظیم مفکر اور تخلیق کار کی حیثیت سے جانتی ہے جس نے نثر اور شاعری دونوں اصناف میں اپنی تخلیقات اور اختراع سے نام کمایا۔

    لبنان کے اس نوجوان نے اپنے خاندان کے ساتھ امریکا ہجرت کی تھی جہاں فنونِ لطیفہ کی تعلیم مکمل کی اور ادبی سفر شروع کیا۔ خلیل جبران کے فلسفیانہ خیالات اور تخلیقات کا مغرب میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بعد میں ان کے مضامین اور شاعری کا کئی زبانوں‌ میں‌ ترجمہ کیا گیا، انھیں‌ دنیا کے چند سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے۔

    خلیل جبران کی یہ تمثیل ان کی کتاب آنسو اور ایک مسکراہٹ (1914) سے لی گئی ہے جو آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    دو آرزوئیں
    رات کی گہری خاموشی میں فرشتۂ اجل، خداوند کے حضور سے زمین کی طرف اترتا ہے۔ شہر پر منڈلاتے ہوئے، وہ گھروندوں پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑاتا ہے۔ اور خوابوں کے دوش پر اڑتی ہوئی روحوں کی پرواز ملاحظہ کرتا ہے اور نیند کے مزے لوٹتے فانی انسانوں کو دیکھتا ہے۔

    جب ماہتاب افق پر سے روپوش ہوتا ہے اور شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے تو فرشتۂ اجل گھروں میں سے اس بات کا خیال رکھتے ہوئے گزرتا ہے کہ کسی شے کو بھی نہ چھوئے، بالآخر وہ ایک عالی شان محل میں آن پہنچتا ہے۔

    مقفل دروازوں کو بغیر چھیڑے عبور کرتے ہوئے وہ ایک امیر آدمی کے سرہانے جا کھڑا ہوتا ہے۔ اور پھر اپنی پیشانی پر موت کے سرد ہاتھ کا لمس محسوس کرتے ہی نیند میں ڈوبا ہوا شخص دہشت کے عالم میں اپنی آنکھیں کھول دیتا ہے۔

    اور جب اس نے اپنے سرہانے اس عفریت کو دیکھا، تو وہ خوف اور غصہ کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ بولا،” دفعہ ہو جاؤ، میرے ڈراؤنے خواب؛ میرا پیچھا چھوڑ دو اے بھیانک بھوت۔

    کون ہو تم ؟ اور اس جگہ پر گھسے کیسے ہو؟ کیا چاہیے ہے تمہیں؟ میرے گھر سے فورا نکل جاؤ۔ میں اس گھر کا مالک ہوں اور میں اپنے غلاموں اور محافظوں کو بلا لوں گا اور انہیں تمہیں مارنے کا حکم دے دوں گا۔

    فرشتۂ اجل نرم لیکن گرج دار آواز میں بولا، ” میں موت کا فرشتہ ہوں، اٹھو اور چلو میرے ساتھ!”

    وہ شخص بولا، کیا چاہتے ہو تم؟

    ابھی تک جب کہ میں نے اپنے دنیاوی کام دھندے ختم نہیں کیے ہیں تم کس لیے یہاں آن دھمکے ہو؟

    میرے جیسے طاقت ور شخص کے پاس تم کیوں کر آئے ہو، جاؤ اور کسی کم زور اور لاچار شخص کے پاس جاؤ اور اسے اپنے سنگ لے جاؤ۔

    ”مجھے تمہارے خونی پنجوں اور کھوکھلے چہرے سے گھن آتی ہے، اور میری آنکھیں تمہارے مہیب استخوانی پروں اور مردار جسم کو دیکھنے کی روادار نہیں ہیں۔”

    خوف و اضطراب کی اسی کیفیت میں تھوڑی دیر بعد وہ پھر گڑگڑایا، نہیں، نہیں، اے مہربان موت! میری اول فول باتوں کا برا نہ ماننا، کہ خوف کے عالم میں وہ سب بھی عیاں ہو جاتا ہے جس کو ہمارا دل چھپانا چاہتا ہے۔

    میرے سونے چاندی کے خزانوں میں سے جو دل چاہے لے لو، یا میرے کچھ غلاموں کی روحیں قبض کر لو، پر خدارا! میری جاں بخشی کر دو۔ ابھی میری زندگی میں بہت سے کام کرنے باقی ہیں؛ ابھی بہت سے لوگوں نے میرے مال و اسباب لوٹانے ہیں؛ میرے جہاز میرا سامان لے کر ابھی بندرگاہ پر نہیں اترے؛ میری بس اتنی سی خواہش ہے کہ میری جان بخش دو۔”

    اے موت! میرے حرم میں دنیا کی حسین ترین عورتیں موجود ہیں؛ ان میں سے تمہاری پسند کی کنیز میری طرف سے تمہارے لیے ایک تحفہ ہوگا۔ سنو اے موت میرا بس ایک ہی بیٹا ہے اور میں اسے بے حد چاہتا ہوں کہ زندگی میں میری خوشی صرف اسی سے وابستہ ہے۔میں اپنی سب سے قیمتی شے قربان کرتا ہوں۔ یوں کرو، میری جگہ اسے اپنے ساتھ لے جاؤ، پر مجھے چھوڑ دو۔

    موت کا فرشتہ بولا،” تم امیر نہیں بلکہ قابلِ رحم حد تک غریب ہو۔”

    پھر موت نے دنیا کے اس غلام کا ہاتھ پکڑا، اس کو فرشتوں کے حوالے کیا کہ وہ اسے اصل حقیقت کا مزہ چکھائیں۔

    اور پھر فرشتۂ اجل غریبوں کی جھونپڑ پٹیوں میں سے چلتا ہوا سب سے مفلس شخص کے مکان پر پہنچا۔ گھر میں داخل ہو کر وہ ایک جوان کے بستر کے قریب پہنچا جو کہ دہرا ہو کر اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ موت نے اس کی آنکھوں کو چھوا، جب اس جوان نے موت کو اپنے سرہانے دیکھا تو وہ اچھل کر اٹھ بیٹھا اور بھرپور محبت سے بولا،

    ” اے حسین موت! میں حاضر ہوں۔ میری رو ح کو قبول کرو۔

    کیوں کہ تم میرے خوابوں کی آس ہو۔ ان کی تکمیل بنو! مجھے اپنے سینے سے لگا لو،
    اے میری محبوب موت! تم بہت مہربان ہو؛ مجھے چھوڑ کے مت جاؤ۔

    تم خداوند کی نامہ بر ہو، مجھے اس کے پاس لے چلو۔ تم صداقت کا سیدھا رستہ ہو اور دردمندی کا قلب ہو؛ مجھ سے غافل مت بنو۔

    ” میں نے بیسیوں بار تمہاری تمنا کی ، لیکن تم نہ آئیں؛ میں نے تمہاری چاہت کی مگر تم مجھ سے گریزاں ہی رہیں؛ میں تمہیں صدائیں لگاتا رہا مگر تم نے میری ایک نہ سنی لیکن اب تم نے میری عرض سن لی ہے- میری روح کو اپنے سینے سے لگا لو، محبوب موت!”

    موت نے اپنے مہربان ہاتھ اس کے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پر رکھے، اس کی تمام تلخیوں کا خاتمہ کیا اور حفاظت سے لے جانے کے لیے اسے اپنے پروں میں سمیٹ لیا۔ اور آسمان کی طرف جاتے ہوئے ایک خاموش نصیحت کی۔

    ”صرف وہ لوگ ہی ابدیت حاصل کر پاتے ہیں ، جو زمین پر ابدی زندگی کے خواہاں ہوتے ہیں۔”

    (اس تمثیل کے مترجم خلیل الرحمان ہیں)