Tag: عالمی ادب سے ترجمہ

  • کرسیاں بننے والی

    کرسیاں بننے والی

    ’بیغ تغاں‘ کے نواب صاحب کے ہاں شکار کے موسم کے آغاز پر افتتاحی ڈنر ختم ہونے کے قریب تھا۔ گیارہ شکاری، آٹھ (بھرپور) جوان خواتین اور علاقے کے ڈاکٹر صاحب ایک بڑی سی میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے جو روشن (موم بتیوں) پھلوں اور پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔

    باتوں باتوں میں وہ محبت کے موضوع پر آ گئے اور پھر یہ جاننے کے لیے ایک عظیم الشان اور لافانی بحث شروع ہو گئی کہ ’’کیا انسان ایک ہی مرتبہ سچی محبت کرتا ہے یا بارہا ایسا کر سکتا ہے۔‘‘

    اُن لوگوں کی مثالیں دی گئیں کہ جنہوں نے زندگی میں صرف ایک ہی سنجیدہ محبت کی اور اُن کا بھی تذکرہ ہوا کہ جنہوں نے بڑی شدت کے ساتھ کئی مرتبہ محبت کی۔ مرد حضرات عموماً اس نکتۂ نظر کے حامی تھے کہ یہ جذبہ بھی (مختلف) بیماریوں کی طرح ایک ہی شخص پر بارہا حملہ آور ہو سکتا ہے اور اگر اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے تو مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ نکتۂ نظر ایک سنجیدہ بحث کا متقاضی تھا، لیکن خواتین کہ جن کی رائے مشاہدے سے زیادہ شاعری پر مبنی تھی، بڑی شد و مد سے کہہ رہی تھیں کہ محبت، سچی محبت، عالی شان محبت ایک فانی انسان پر ایک ہی مرتبہ اُترتی ہے۔

    نواب صاحب جو خود محبت کا کھیل کئی مرتبہ کھیل چُکے تھے اس عقیدے کو سختی سے رد کر رہے تھے۔ گویا ہوئے، ’’میں آپ سے کہتا ہوں کہ انسان ایک سی شدت اور روح کی گہرائیوں کے ساتھ بار بار محبت کر سکتا ہے۔ آپ نے مجھے دوسری محبت کے ناممکن ہونے کے حق میں بطورِ ثبوت اُن لوگوں کی مثالیں دیں کہ جنہوں نے عشق میں خود کشی کر کے اپنی زندگی کو ختم کر لیا تھا۔ اس کے جواب میں میں یہ کہوں گا کہ اگر وہ خود کشی کرنے کی حماقت نہ کرتے کہ جس نے اعادے کے تمام تر امکانات کو ختم کر دیا تھا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انہوں نے اس عارضے سے بچ نکلنا تھا اور اپنی طبعی موت تک یہی کچھ کرتے رہنا تھا۔

    (بحث کے طول پکڑنے پر) انہوں نے عمر رسیدہ ڈاکٹر صاحب سے جو پیرس سے ریٹائر ہو کر مضافات میں آن بسے تھے، اس قضیے میں اپنی رائے دینے کی درخواست کی۔

    اُن کی کوئی واضح رائے نہ تھی لیکن وہ بولے: ’’جیسا کہ نواب صاحب نے کہا کہ یہ انسان کے اپنے مزاج کا معاملہ ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے ایک جذباتی رومان کا علم ہے جو پورے پچپن سال تک چلا، اس میں ایک دن بھی پچھتاوے کا نہ تھا اور یہ سلسلہ صرف موت کے ہاتھوں ختم ہوا۔‘‘

    نواب صاحب کی بیگم نے (خوشی سے) تالیاں بجائیں (اور کہا) ’’واہ!۔۔۔ اس طرح چاہے جانا کتنا خواب ناک لگتا ہے۔ پچپن سال تک یوں جینا کہ ایک شدید تر سَر خوشی اور دل میں اُتر جانے والی محبت آپ کے گرد ہالہ کیے ہوئے ہے۔ اِس سے بڑھ کر خوش قسمتی اور کیا ہو گی! کتنی خوش (نصیب) اور مبارک ہو گئی وہ جسے یوں چاہا جائے!‘‘

    ڈاکٹر صاحب مسکرائے، ’’ در حقیقت، مادام۔ اِس بات کو مت بھولیے کہ اِس قصے میں محبوب ایک مرد ہے اور آپ اُسے جانتی بھی ہیں۔ وہی۔۔۔ نواحی بستی کے دوا ساز فارماسسٹ، ’موسیو شُو کے‘ اور آپ اُس عورت کو بھی جانتی ہیں، وہ کرسیاں بننے والی بوڑھی عورت، جو سال کے سال کرسیوں کی بیٹھی ہوئی گدیوں کو دوبارہ بھرنے اور مرمت وغیرہ کرنے کے لیے آپ کی حویلی میں آیا کرتی تھی۔ میں ذرا وضاحت کرتا ہوں۔ ‘‘

    خواتین کا جوش و خروش ماند پڑ چکا تھا اور اُن کے چہروں پر ناگواری عیاں تھی۔ ’’ہونہہ‘‘ گویا محبت صرف خواص اور شائستہ اطوار لوگوں کو ہو سکتی تھی اور صرف اُنہی کے شایانِ شان تھی۔ غریب غربا کی محبت سے انہیں کوئی دل چسپی نہ تھی۔

    ڈاکٹر صاحب دوبارہ گویا ہوئے، ’’ قریباً تین ماہ ہوئے مجھے اُس بوڑھی عورت کو بسترِ مرگ پر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ بڑھیا میرے ہاں ایک گھوڑا گاڑی میں آئی تھی، وہی اُس کا گھر تھا اور اُسے ایک مریل سا ٹٹو کھینچ رہا تھا۔ اُس کے ساتھ دو بڑے بڑے سیاہ رنگ کے کتے بھی تھے جو اُس کے دوست اور محافظ تھے۔ جناب پادری صاحب بھی وہاں پہلے سے موجود تھے۔ اُس (عورت) نے ہمیں حلفاً کارِ مختار مقرر کیا اور اپنی آخری وصیت کی حقیقتِ حال کو سمجھانے کے لیے اپنی ساری زندگی ہمارے سامنے کھول کر رکھ دی۔ میرے علم میں اس سے زیادہ منفرد اور دل خراش داستان کوئی اور نہیں۔‘‘

    اُس کے ماں باپ دونوں (گھوم پھر کر) کرسیاں بننے اور مرمت کا کام کرتے تھے سو اُن کا کوئی مستقل گھر نہ تھا۔

    جب وہ چھوٹی سی تھی تو بے ترتیب(بالوں کے ساتھ)، گندے مندے چیتھڑوں میں ملبوس ادھر ادھر گھومتی رہتی۔ وہ گاؤں کے داخلی راستے پر رُکتے اور گاڑی سے گھوڑے کو کھول دیتے جو یہاں وہاں چرتا رہتا۔ کتا اپنی تھوتھنی پنجوں پر رکھے اُونگھتا رہتا اور وہ چھوٹی (سی لڑکی) لمبی لمبی گھاس میں بھاگتی پھرتی جب کہ (اُس کے) ماں باپ راستے کے کنارے لگے دیوداروں کے سائے میں گاؤں بھر کی کرسیوں کی پرانی گدیوں کو پھر سے نیا بنانے میں مصروف رہتے۔

    وہ اپنے اس کھلے ٹھکانے میں بمشکل ہی کوئی بات کرتے۔ چند ضروری الفاظ کے تبادلے کے بعد وہ فیصلہ کرتے کہ کون گاؤں کے گھروں میں جا کر جانی پہچانی صدا لگائے گا، ’’کُرسیاں مرمت کرا لو‘‘ پھر وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے یا پہلو بہ پہلو بیٹھ کر پیال کی رسیاں بٹنے لگ جاتے۔ جب وہ (کھیلتے کھیلتے ) دور چلی جاتی یا گاؤں کے کسی آوارہ لونڈے کے ساتھ ملنے جُلنے لگتی تو اُس کے باپ کی غصے بھری آواز اُسے بُلاتی، ’’ادھر مَر، واپس آ کمینی‘‘ صرف یہی ’’ نرم و ملائم‘‘ الفاظ تھے کہ جو اُس کے کانوں میں پڑتے تھے۔

    جب وہ کافی بڑی ہو گئی تو اُس کے ماں باپ نے اُسے خستہ حال کرسیوں کی گدیوں کی مرمت کی اُجرت وصول کرنے کے لیے گھروں میں بھیجنا شروع کر دیا۔ یوں اُس کی گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ جان پہچان (شروع) ہو گئی مگر اُس کے نئے دوستوں کے والدین اپنے بچوں کو غُرّا کر کہتے۔ ’’ادھر مرو بدمعاشو! تم اس پھٹیچر اور بدحال لڑکی سے باتیں کرتے ہو۔‘‘

    اکثر چھوٹے بچے اُس پر پھتر پھینکنے سے بھی نہ چُوکتے۔ (رحم دل) عورتیں (کبھی کبھار اُجرت کے علاوہ) چند تانبے کے چھوٹے سکے بھی دے دیتی جنہیں وہ احتیاط سے علیحدہ رکھ لیتی۔

    جب وہ گیارہ برس کی ہوئی تو ایک دن اُس کا سامنا گاؤں کے قبرستان کے پچھواڑے میں چھوٹے ’شُو کے ‘ سے ہو گیا جو مسلسل روئے چلا جا رہا تھا۔ اُس کے ایک دوست نے اُس کی دو چونیاں چُرا لی تھیں۔ اُس چھوٹے سے شہری بابو کے آنسو اُس سے دیکھے نہ گئے اور ایسے ہی کسی شہری بابو کا تصور اُس غریب کی کھوپڑی میں (بسا ہوا) تھا، وہ جو ہمیشہ مطمئن اور خوش رہا کرتی تھی لیکن ( اُس لڑکے کے آنسوؤں نے اُس کے دل میں) ہلچل مچا دی۔

    وہ اُس کے قریب گئی اور جب اُس کے دُکھ کا سبب معلوم ہوا تو اُس نے اپنی ساری جمع پونچی جو کَل سات آنے تھی اُس کی ہتھیلیوں پر رکھ دی جسے شُو کے نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بلا تکلف قبول کر لیا۔

    اُس لڑکی نے خوشی سے پاگل ہو کر اُسے گلے لگا کر چومنے کی جرأت کر ڈالی۔ وہ چونکہ سکے گننے میں مصروف تھا سو اُس نے اُسے ایسا کرنے دیا۔

    (اللہ جانے ) اُس بیچاری کے سَر میں کیا سمایا؟ اُس کا دل اُس چھوکرے کے ساتھ کیوں لگ گیا؟ کیا اس لیے کہ اُس نے اپنی خانہ بدوشی کی کمی اُس کی نذر کر دی تھی یا اِس لیے کہ اُس نے اپنا پہلا مکمل بوسہ اُسے دان کیا تھا؟ یہ معاملہ چھوٹوں بڑوں کے لیے یکساں اَسرار کا حامل ہے۔

    اُس لڑکی نے کئی مہینوں تک قبرستان کے پچھواڑے کی اُس نکڑ اور اُس لڑکے کو اپنے خوابوں میں بسائے رکھا۔ اُسے دوبارہ دیکھنے کی اُمید میں اپنے والدین کی اُجرت سے بھی پیسہ دو پیسہ ادھر اُدھر کرنے لگی اور گھر کا سودا سلف خریدنے میں بھی دوچار پیسے مار لیتی۔

    وہ جب اُس چھوٹے فارماسسٹ سے دوبارہ ملی تو اُس کی جیب میں دو فرانک کی (غیر معمولی) رقم تھی لیکن وہ اُسے بمشکل ہی دیکھ پائی۔ وہ اُس کے والد کی دکان کے کاؤنٹر پر رکھے ایک سرخ رنگ کے مرتبان اور ایک فیتہ نما کیڑے (والے مرتبان) کے درمیان سے دکھائی دینے والی اُس کی ایک جھلک سے ہی خوش ہو گئی۔ وہ بے حد صاف ستھرا لگ رہا تھا۔

    وہ مختلف رنگوں کی دواؤں اور دوا فروشی کے شفاف پیمانوں کی چمک دمک کے سحر میں گرفتار ہو گئی۔ اُس کے دل میں محبت کے سوتے اُبلنے لگے اور وہ اس جذبے کی شدت سے وجد میں آ گئی اور اُس کی انمٹ یاد کو دل سے لگائے رکھا۔

    جب وہ اُسے اگلے برس ملی تو وہ (گاؤں کے ) اسکول کے عقب میں اپنے دوستوں کے ساتھ کنچے کھیلنے میں مصروف تھا۔ اُس نے لپک کر اُسے اپنی بانہوں میں بھر لیا، وہ ڈر کے مارے چلّانے لگا۔ پھر اُسے چپ کرانے کے لیے اپنی تمام رقم جو تین فرانک اور بیس سُو تھی اُسے دے دی۔ اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں یہ واقعی اُس کے لیے ایک بہت بڑا ’’خزانہ‘‘ تھا اُس نے وہ رقم رکھ لی۔

    اگلے چار سال تک وہ اپنا تمام اندوختہ اُس کے ہاتھ پر رکھتی رہی جسے وہ اپنی جیب میں ڈال لیتا۔ ایک مرتبہ تین (تانبے کے سُو تھے ایک مرتبہ دو (طلائی) فرانک اور ایک دفعہ بارہ سکے اور اُس مرتبہ تو وہ دُکھ اور مہجوری سے رو دی تھی کیوں کہ وہ سال کڑکی کا تھا۔ آخری بار پانچ فرانک کا ایک بڑا گول سکہ جسے دیکھ کر وہ بڑے مطمئن انداز سے مسکرا دیا تھا۔

    وہ صرف اُس کے خیال میں رہتی اور وہ بھی ایک خاص بے چینی کے ساتھ اُس کی آمد کا منتظر رہتا۔ اُسے دیکھتے ہی وہ اُس کی طرف لپک کر جاتا اور اُس بے چاری کا دل (بلیوں) اچھلنے لگتا۔ پھر وہ (اچانک ) غائب ہو گیا۔

    اُس نے بڑی چالاکی سے یہ بات معلوم کر لی کہ اُسے کالج میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد تو اُس نے کیا کیا جتن نہ کیے تاکہ اُس کے ماں باپ گاؤں کا (سالانہ) پھیرا اُس وقت لگائیں کہ جب (اسکول، کالج) میں چھٹیاں ہوں وہ سارا سال مختلف حیلے بہانوں میں لگی رہی اور بالآخر اپنے مقصد میں کام یاب ہو گئی لیکن پورے دو سال تک اُسے دیکھنے سے محروم رہی تھی اور جب دو سال بعد اسے دیکھا تو وہ اُسے بمشکل پہچان پائی۔ وہ بالکل تبدیل ہو چُکا تھا، (اُس کا قد) اور لمبا ہو چُکا تھا، وہ اور زیادہ خوب صورت ہو گیا تھا اور اُس کی قمیض پر سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ وہ اُس کے پاس سے تفاخرانہ گزرا یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ اُس نے اُسے نہیں دیکھا۔

    وہ اِس بات پر دو دن تک روتی رہی اور اُس دن سے اُسے (ایک) مسلسل روگ لگ گیا۔ وہ (یونہی) ہر سال آتی اور اُس کے سامنے سے گزرتے ہوئے اُسے سلام تک کرنے کی ہمت نہ کر پاتی اور اُسے بھی توفیق نہ ہوتی کہ وہ اُس پر از راہِ کرم ایک نظر ہی ڈال لے۔ وہ اُسے ٹوٹ کر چاہتی رہی۔ اُس نے مجھے بتایا، ’’ یہ واحد مرد ہے جسے میں نے روئے ارض پر دیکھا ہے، جناب ڈاکٹر صاحب مجھے علم نہیں کہ اور مرد بھی اس دنیا میں موجود ہیں یا نہیں۔‘‘

    اُس کے والدین فوت ہو گئے تو اُس نے اُن کا کام سنبھال لیا لیکن اُس نے ایک کے بجائے دو کُتے رکھ لیے، دو خوف ناک کتے کہ جن کا مقابلہ کرنا مشکل تھا۔

    ایک دن اُس گاؤں سے لوٹتے ہوئے کہ جہاں اُس کا دل اٹکا ہوا تھا، ایک نوجوان عورت کو دیکھا جو اُس کے محبوب ’شُو کے ‘کی بانہوں میں بانہیں ڈالے اُس کی دکان سے نکل رہی تھی۔ وہ اُس کی بیوی تھی (اور) اُس کی شادی ہو چکی تھی۔

    اُسی شام اُس نے یونین کونسل کے دفتر کے پاس ( گہرے ) تالاب میں چھلانگ لگا دی۔ ایک دیر سے گھر آتے ہوئے شرابی نے اُسے ڈوبنے سے بچا لیا اور اُسے نیم بے ہوشی کی حالت میں میڈیکل اسٹور تک لے گیا۔ ’شُو کے ‘ لباسِ شب خوابی میں نیچے اُترا۔ اُس نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ اُسے پہچانتا ہے۔ اُس نے ابتدائی طبی امداد کے لیے گیلے کپڑے اُتارے اور ہوش آنے پر اُس نے ایک تحکمانہ آواز میں کہا، ’’ تم پاگل تو نہیں ہو گئیں؟ اس طرح کی حماقت نہیں کیا کرتے۔‘‘ اُس کے زخمی دل پر مرہم رکھنے کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اُس سے مخاطب ہوا تھا۔ وہ بہت دنوں تک شاداں و فرحاں رہی۔

    ’شُو کے‘ اِس علاج معالجے کا کوئی معاوضہ لینے کو تیار نہ تھا لیکن اُس نے ادائیگی پر شدت سے اصرار کیا۔

    اُس کی تمام زندگی ایسے ہی گزری۔ وہ کرسیاں بنتے ہوئے ’شُو کے ‘ کے بارے میں سوچتی رہتی۔ ہر سال وہ اُسے دکان کے شیشوں کے پار بیٹھا ہوا دیکھتی۔ اُس نے ’ شُو کے ‘ کے میڈیکل اسٹور سے چھوٹی موٹی دوائیں خریدنے کی عادت سی بنا لی۔ اس بہانے (نہ صرف) وہ اُسے قریب سے دیکھ سکتی تھی بلکہ بات بھی کرسکتی تھی اور ہاں، اُسے پیسے بھی دے سکتی تھی۔

    جیسا کہ میں نے شروع میں آپ کو بتایا کہ وہ اس موسمِ بہار کے آغاز میں مر گئی لیکن اِس سے پہلے اُس نے اپنی اُداس کر دینے والی کہانی سُنانے کے بعد مجھ سے درخواست کی کہ میں اُس کی زندگی بھر کی جمع پونچی اُس کے محبوب کے حوالے کر دوں کہ جسے اُس نے دل و جان سے چاہا تھا۔ اُس نے بتایا کہ وہ صرف اُسی کے لیے کام کرتی تھی اور زیادہ بچت کرنے کے لیے فاقے بھی کر لیتی۔ اُسے یقینِ کامل تھا کہ وہ کم از کم ایک مرتبہ تو اُسے یاد کرے گا، اُسے کے مرنے کے بعد ہی سہی۔‘‘

    اُس نے مبلغ دو ہزار تین سو ستائیس فرانک میرے حوالے کیے۔ میں نے ستائیں فرانک جناب پادری صاحب کو کفن دفن کے اخراجات کے لیے دے دیے اور باقی رقم میں اپنے پاس رکھ لیتا کہ اُس کے آخری سانس لینے کے بعد میں ’ شُو کے ‘ کے حوالے کر سکوں۔ اگلے دن میں ’ شُو کے ‘ کے گھر گیا۔ وہ اور اُس کی موٹی تازی بیوی ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، اُنہوں نے ناشتہ ابھی ختم ہی کیا تھا۔ اُن کے گھر میں دواؤں کی بُو پھیلی ہوئی تھی اور وہ آسودہ اور مطمئن لگ رہے تھے۔

    انہوں نے مجھے بٹھایا۔ پھر میں نے بھرّائی ہوئی آواز میں مدعا بیان کرنا شروع کیا مجھے یہ گمان تھا کہ شاید وہ رو پڑیں گے۔

    جُونہی اُسے معلوم ہوا کہ وہ خانہ بدوش لڑکی اُسے اپنے خوابوں میں بسائے ہوئے تھی تو ’ شُو کے ‘ غیظ و غضب سے اُچھل پڑا کہ جیسے کسی نے اُس کی ساکھ اور عزتِ نفس پر حملہ کیا ہو، وہ عزتِ نفس جو اُس کی اپنی جان سے بھی زیادہ قیمتی تھی۔

    اُس کی بیوی بھی اُتنی ہی مشتعل تھی جتنا کہ وہ خود تھا اور مسلسل کہے جا رہی تھی ’’وہ سؤرنی۔ وہ سؤرنی۔۔ ۔ وہ سؤرنی۔۔‘‘ ان الفاظ کے علاوہ اُس کے منہ سے کچھ نہ نکلتا تھا۔

    وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور میز کے گرد لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ٹہلنے لگا۔ اُس کی یونانی ٹوپی کا چھجہ ایک کان کی طرف ڈھلکا ہوا تھا۔ وہ بُڑبڑا رہا تھا، ’’ دیکھیے ڈاکٹر صاحب! ایک (معزز) آدمی کے لیے اس طرح کی باتیں کتنی خوف ناک ہیں، لیکن کیا کیا جائے؟ اگر یہ بات مجھے اُس کی زندگی میں معلوم ہو جاتی تو میں اُسے پولیس کے ذریعے جیل میں ڈلوا دیتا جہاں سے وہ مرتے دم تک نہ نکل سکتی۔ ‘‘

    میں اپنی اس نیک مہم کے نتائج پر حیران ہو رہا تھا۔ مجھے کچھ نہ سوجھ رہا تھا کہ کیا کہنا ہے اور کیا کرنا ہے لیکن مجھے اپنے کام کو بہرحال انجام تک پہچانا تھا۔ میں دوبارہ گویا ہوا، ’’ مرحومہ نے مجھے یہ کام سونپا ہے کہ اُس کی تمام جمع پونجی جو مبلغ دو ہزار تین سو فرانک ہے تم تک پہنچا دوں، لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ یہ بات تم لوگوں کو سخت ناگوار گزری ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ یہ رقم غریب غربا کو دے دی جائے؟‘‘

    وہ دونوں میاں بیوی مبہوت ہو کر میری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے اپنی جیب سے اُس خستہ حال کی (مذکورہ) رقم نکالی جو اُس نے گاؤں گاؤں گھوم کر جمع کی تھی جس میں کچھ سونے کے سکّے تھے، کچھ چاندی کے اور کچھ تانبے کے سکے ملے جُلے تھے۔ پھر میں نے اُن سے پوچھا۔ ’’ آپ لوگوں کا کیا فیصلہ ہے ؟‘‘

    شُو کے خجالت اور شرمندگی سے گول مول الفاظ میں بولا،’’ہم اس سے اپنے بچوں کے لیے کچھ خرید سکتے ہیں۔‘‘

    میں نے خشک لہجے میں کہا،’’جیسی تمہاری مرضی‘‘ اُس نے پھر کہا، ’’ ٹھیک ہے اُس نے جو ذمہ داری آپ کے سپرد کی ہے آپ اُسے پورا کریں ہم کسی نیک کام کے لیے اس کا بہتر مصرف تلاش کر لیں گے۔ ‘‘ میں نے رقم اُن کے حوالے کی، سلام کیا اور واپس چلا آیا۔

    اگلی صبح شُوکے مجھے تلاش کرتا ہوا آیا اور چھوٹتے ہی بولا، ’’اُس۔۔ ۔ اُس عورت کی ایک گھوڑا گاڑی بھی تھی۔ آپ نے اُس کا کیا کیا؟‘‘ ’’کچھ نہیں۔ کھڑی ہے، لے جاؤ۔‘‘ ’’ٹھیک ہے۔ مجھے اس کی ضرورت ہے، میں اِس کی لکڑی سے اپنے باغیچے کے لیے ایک کیبن بناؤں گا۔‘‘

    وہ واپس جانے کے لیے مُڑا، تو میں نے اُسے آواز دی،’’ اُس عورت نے ( وراثت میں ) ایک ناکارہ گھوڑا اور دو کتے بھی چھوڑے ہیں۔ کیا تم اُن کو بھی لے جانا پسند کرو گے ؟‘‘

    وہ حیران ہو کر رُک گیا اور بولا، ’’نہیں تو۔ مثلاً آپ کیا چاہتے ہیں۔ میں انہیں لے کر کیا کروں گا؟ آپ جیسے چاہیں انہیں ٹھکانے لگا سکتے ہیں۔‘‘ اور وہ ہنس رہا تھا پھر اُس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا میں نے اُس سے ہاتھ ملایا۔

    ’’آپ کی کیا مرضی ہے جناب! ایک ہی مقام پر ڈاکٹر اور فارمسسٹ کو آپس میں شکر رنجی نہیں رکھنی چاہیے۔‘‘

    میں نے کتوں کو اپنے گھر رکھ لیا ہے، پادری صاحب کا صحن کافی بڑا تھا وہ گھوڑے کو لے گئے اور گھوڑا گاڑی کا شُوکے نے کیبن بنا لیا اور اُس رقم سے اُس محکمہ ریلوے کے پانچ حصص خرید لیے۔

    میری تمام زندگی میں صرف یہ ایک شدید محبت کی داستان تھی جو میرے علم میں آئی۔ ڈاکٹر صاحب خاموش ہو گئے۔ نواب صاحب کی بیگم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انہوں نے ایک آہ بھری اور کہا، ’’یقیناً صرف عورتیں ہی محبت کر سکتی ہیں۔‘‘

    (شہرہ آفاق ادیب موپاساں کی کہانی جس کا ترجمہ ڈاکٹر کوثر محمود نے کیا ہے)

  • گُم شدہ رجمنٹ

    گُم شدہ رجمنٹ

    ایک طاقت وَر فوج کی ایک رجمنٹ کو شہر کی گلیوں میں پریڈ کرنا تھی۔ دستے صبح ہی سے بیرک کے احاطے میں پریڈ کی ترتیب میں کھڑے ہونا شروع ہو گئے۔

    سورج بلند ہوتا گیا اور اب سائے احاطے میں اگنے والے نوخیز پودوں کے قدموں تلے مختصر ہونے لگے۔ اپنے تازہ پالش کردہ ہیلمٹوں کے اندر فوجی اور حکام پسینے سے شرابور ہونے لگے۔ سفید گھوڑے پر سوار کرنل نے اشارہ کیا، نقاروں پر ضربیں پڑیں، بینڈ نے مل کر ساز بجانا شروع کر دیے اور بیرک کے دروازے اپنی چُولوں پر آہستگی سے ہلنے لگے۔

    اب آپ دور کہیں کہیں نرم بادلوں کی دھاریوں والےنیلے آسمان کے تلے شہر دیکھ سکتے تھے جس کی چمنیاں دھویں کے لچھے چھوڑ رہی تھیں، اس کی بالکونیاں جہاں کپڑے سکھانے والی چٹکیوں سے اٹی تاریں، سنگھار میزوں کے آئینوں میں منعکس ہوتی سورج کی جگمگ کرنیں، مکھیاں دور رکھنے والے جالی دار پردوں میں خریداری کے سامان سے لدی خواتین کی الجھتی بالیاں، ایک چھتری والی آئس کریم گاڑی کے اندر کون رکھنے والا شیشے کا بکس، اور ایک لمبی ڈور کے سرے پر بچوں کا ایک گروہ سرخ کاغذی چھلوں پر مشتمل دُم والی پتنگ کھینچتے ہوئے جو زمین کو چھوتے ہوئے ڈگمگاتی ہے، پھر جھٹکوں جھٹکوں میں اٹھ کر آسمان کے نرم بادلوں کے مقابل بلند ہو جاتی ہے۔

    رجمنٹ نے نقاروں کی تھاپ میں پیش قدمی شروع کی، سڑکوں پر بوٹ بجنے لگے اور توپ خانے کی گھرگھراہٹ گونجنے لگی، لیکن اپنے سامنے خاموش، شریف طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شہر دیکھ کر فوجی خود کو تھوڑا بدلحاظ اور دخل انداز محسوس کرنے لگے، اور دفعتاً پریڈ بےمحل لگنے لگی۔ جیسے کوئی ساز کا غلط تار چھیڑ دے۔ جیسے اس کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔

    پری جیو باتا نامی ایک نقارچی نے ظاہر کیا جیسے وہ اسی تاب سے نقارہ بجا رہا ہے حالانکہ وہ صرف نقارے کی سطح کو چھو رہا تھا۔ اس سے جو آواز نکل رہی تھی وہ ایک مغلوب سی دھم دھم تھی، لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔ کیوں کہ عین اسی لمحے دوسرے تمام نقارچی اسی کی پیروی کررہے تھے۔ پھر بگل والے گزرے لیکن ان کے بگلوں سے محض ایک آہ نکل رہی تھی کیوں کہ کوئی بھی ان میں زور سے نہیں پھونک رہا تھا۔ سپاہی اور حکام بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ کر ایک ٹانگ ہوا میں اٹھاتے، پھر اسے بہت نرمی سے نیچے رکھ دیتے اور یہ پریڈ گویا پنجوں کے بل آگے بڑھتی گئی۔

    سو کسی کے حکم دیے بغیر ایک لمبی، بہت لمبی قطار پھونک پھونک کر قدم رکھتی، پنجوں کے بل دبی دبی چال سے چلی۔ شہر کے اندر توپیں اس قدر بےجوڑ لگنے لگیں کہ ان کے ساتھ چلنے والے توپچیوں پر یکایک خجالت طاری ہو گئی۔

    بعض نے بےاعتنائی کا وطیرہ اپنایا اور توپوں کی طرف دیکھے بغیر چلتے گئے، جیسے وہ وہاں محض اتفاق سے آ گئی ہوں۔ دوسرے توپوں سے لگ کر چلنے لگے، جیسے وہ انھیں چھپانا چاہتے ہوں، تاکہ لوگوں کے ان کے اکھڑ اور ناگوار نظارے سے بچایا جا سکے۔ کچھ نے ان پر غلاف ڈال دیے تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے، یا کم از کم وہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف نہ کھینچیں۔

    کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے توپوں کی نال یا توپ گاڑی پر ہاتھ مار کر یا ہونٹوں پر نیم مسکراہٹ لا کر کچھ ایسے شفقت آمیز تمسخر کا رویہ اختیار کیا گویا یہ دکھانا چاہتے ہوں کہ ان کا ان چیزوں کو مہلک مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، بس ذرا ہوا لگانا مقصود ہے۔

    یہ پریشان کُن احساس کرنل کلیلیو لیون تومینی کے دماغ میں بھی سرایت کر نے لگا جنھوں نے بےاختیار سر اپنے گھوڑے کی طرف جھکا دیا، جب کہ خود گھوڑے نے بھی ہر قدم کے درمیان وقفہ ڈالنا شروع کر دیا اور اب وہ کسی ریڑھے والے گھوڑے کی سی احتیاط سے چل رہا تھا۔ لیکن کرنل اور ان کے گھوڑے کو دوبارہ جنگی چال اختیار کرنے میں بس ایک لمحے کا غور و فکر ہی کافی تھا۔ صورتِ حال کا تیزی سے جائزہ لے چکنے کے بعد کرنل نے تیز حکم دیا: ’پریڈ چال!‘

    نقارے متوازن تال پر بجنا شروع ہوئے۔ رجمنٹ نے تیزی سے اپنی دل جمعی دوبارہ حاصل کی اور اب وہ جارحانہ خوداعتمادی سے آگے قدم بڑھانے لگی۔

    ’یہ ہوئی نا بات،‘ کرنل نے صفوں پر تیزی سے نظریں دوڑاتے ہوئے خود سے کہا، ’اس کو کہتے ہیں مارچ کرتی ہوئی اصل رجمنٹ۔‘

    چند راہ گیر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر قطار بنا کر کھڑے ہو گئے اور ایسے لوگوں کے انداز سے پریڈ دیکھنے لگے جو اس قدر طاقت کی صف آرائی میں دل چسپی رکھتے ہوں اور شاید انھیں اس میں مزہ بھی آتا ہو، لیکن کوئی ناقابلِ تفہیم احساس انھیں ستا رہا ہو۔ ایک مبہم خطرے کا احساس۔ اور ویسے بھی ان کے ذہنوں میں پہلے ہی سے کئی اہم چیزیں گردش کر رہی تھی کہ وہ تلواروں اور توپوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے۔

    خود پر نظریں جمی دیکھ کر سپاہی اور حکام ایک بار پھر ناقابلِ توجیہہ گھبراہٹ کا شکار ہونے لگے۔ وہ پریڈ چال کے بےلچک قدموں سے چلتے تو گئے، لیکن انھیں اس خیال سے دامن چھڑا پانا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ ان بھلے شہریوں کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی کے باعث بدحواسی سے بچنے کے لیے سپاہی مارانگون ریمیگیو نے نظریں جھکائے رکھیں۔ جب آپ صفوں میں مارچ کرتے ہیں تو آپ کو صرف سیدھی لکیر میں رہنے اور قدم ملانے کی فکر ہوتی ہے، دستہ باقی ہر چیز کا خیال خود رکھتا ہے۔ لیکن سیکڑوں سپاہی وہی کچھ کر رہے تھے جو سپاہی مارانگون کر رہا تھا۔

    درحقیقت آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب، حکام، پرچم بردار، خود کرنل اپنی نظریں زمین سے اٹھائے بغیر، صف کا پیچھا کرتے چلے جا رہے تھے۔ بینڈ کے پیچھے پریڈ چال چلتے چلتے رجمنٹ ایک طرف کو کنی کھا گئی اور پارک کے اندر پھولوں کے تختے میں جا گھسی، اور پھر استقامت سے گلِ اشرفی اور بنفشے کے پھول روندتی چلی گئی۔

    باغبان گھاس کو پانی دے رہے تھے اور انھوں نے کیا دیکھا؟ ایک رجمنٹ آنکھیں بند کیے، نازک گھاس میں ایڑیاں پٹختے ان پر چڑھی چلی آ رہی ہے۔ ان بے چاروں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اپنے فوارے کس طرح تھامیں کہ پانی کہیں سپاہیوں پر چھڑکاؤ نہ کر دے۔ آخرکار ہوا یہ کہ انھوں نے اپنے فوارے سیدھے اوپر کر لیے، لیکن طویل دھاریں دوبارہ بے قابو سمتوں میں آ، آ کر نیچے گرنے لگیں۔ ایک نے آنکھیں میچے کمر سیدھی رکھے مارچ کرتے ہوئے کرنل کلیلیو لیون تومینی کو سر سے پاؤں تک شرابور کر دیا۔
    پانی سے نچڑ کر کرنل اچھل کر پکارے:

    ’سیلاب! سیلاب! بچاؤ کی کارروائی شروع کی جائے!‘ پھر انھوں نے فوری طور پر خود پر قابو پایا اور رجمنٹ کی کمان سنبھال کر اسے باغات سے باہر لے گئے۔ تاہم وہ تھوڑے سے بے دل ہو گئے تھے۔

    ’سیلاب! سیلاب!‘ کی پکار نے ایک راز اور ایک لاشعوری تمنا کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ قدرتی آفت اچانک آ سکتی ہے، اور کسی کو ہلاک کیے بغیر اس قدر خطرناک ہو سکتی ہے کہ پریڈ منسوخ کرا دے اور رجمنٹ کو لوگوں کے لیے ہر قسم کے مفید کام کرنے کا موقع مل سکے، مثلاً پلوں کی تعمیر یا بچاؤ کی کارروائیوں میں حصہ لینا۔ صرف اسی بات سے ان کا ضمیر مطمئن ہو سکتا تھا۔

    پارک سے نکلنے کے بعد رجمنٹ شہر کے ایک مختلف حصے میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ وہ کھلی سڑکیں نہیں تھیں جہاں انھیں پریڈ کرنا تھی، بلکہ یہ علاقہ تنگ، خاموش اور بل کھاتی ہوئی گلیوں پر مشتمل تھا۔ کرنل نے فیصلہ کیا کہ وہ ان گلیوں کو عبور کر کے سیدھا چوک تک جا پہنچیں گے تاکہ مزید وقت ضائع نہ ہو۔

    اس علاقے میں ایک انوکھا جوش و خروش بیدار ہو گیا۔ الیکٹریشن لمبی سیڑھیوں پر چڑھے گلی کے بلب ٹھیک کر رہے تھے اور ٹیلی فون کی تاریں اوپر نیچے کر رہے تھے۔ سول انجینیئرنگ کے سرویئر آلات اور فیتوں سے سڑکیں ناپ رہے تھے۔ گیس والے فٹ پاتھ پر بڑے گڑھے کھود رہے تھے۔ اسکول کے بچے ایک طرف قطار میں چلے جا رہے تھے۔ راج مزدور کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف ’یہ لو! یہ لو!‘ کہتے ہوئے اینٹیں اچھال رہے تھے۔ سائیکل سوار اپنے کندھوں پر لکڑی کی گھوڑیاں اٹھائے، تیز آواز میں سیٹیاں بجاتے گزرے۔ ہر کھڑکی میں ایک ایک لڑکی برتن دھو رہی تھی اور بڑی بالٹیوں میں کپڑے نچوڑ رہی تھی۔

    چنانچہ رجمنٹ کو ان بَل کھاتی گلیوں میں ٹیلی فون کی تاروں کے گچھوں، فیتوں، لکڑی کی گھوڑیوں، سڑک میں گڑھوں، پُر شباب لڑکیوں اور ہوا میں اڑتی اینٹیں– ’یہ لو! یہ لو!‘ – پکڑ کر اور ہیجان زدہ لڑکیوں کے چوتھی منزل سے گرائے ہوئے بھیگے کپڑوں اور بالٹیوں سے بچ بچا کر اپنی پریڈ جاری رکھنا پڑی۔

    کرنل کلیلیو لیون تومینی کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بھٹک گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے گھوڑے سے نیچے جھک کر ایک راہ گیر سے پوچھا: ’معاف کیجیے گا، کیا آپ جانتے ہیں کہ مرکزی چوک کو جانے والا سب سے مختصر راستہ کون سا ہے؟‘

    راہ گیر، جو ایک معنک اور دبلا پتلا شخص تھا، تھوڑی دیر سوچتا رہا۔ ’راستہ پیچیدہ ہے۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کو ایک احاطے سے ایک اور گلی کے راستے لے جاؤں گا جس سے آپ کا کم از کم چوتھائی گھنٹہ بچ جائے گا۔‘

    ’کیا تمام رجمنٹ اس احاطے سے گزر پائے گی؟‘ کرنل نے پوچھا۔

    آدمی نے رجمنٹ پر ایک نظر دوڑائی اور ہچکچاتے ہوئے کہا: ’خیر، کوشش کی جا سکتی ہے،‘ اور انھیں ایک بڑے دروازے سے گزرنے کا اشارہ کیا۔

    عمارت کے تمام خاندان بالکونیوں کے زنگ آلود جنگلوں کے پیچھے کھڑے ہو کر احاطے میں سے توپ خانے اور گھوڑوں سمیت گزرنے کی کوشش کرتی رجمنٹ کو دیکھنے کے لیے جھک گئے۔

    ’باہر نکلنے کا دروازہ کہاں ہے؟‘ کرنل سے دبلے آدمی سے پوچھا۔

    ’دروازہ؟‘ آدمی نے کہا۔ ’شاید میں اپنی بات واضح نہیں کر سکا۔ آپ کو اوپری منزل تک چڑھنا پڑے گا، وہاں سے آپ سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے دوسری عمارت میں داخل ہو جائیں گے اور اُس عمارت کا دروازہ گلی میں کھلتا ہے۔‘

    کرنل ان تنگ سیڑھیوں میں بھی اپنے گھوڑے پر سوار رہنا چاہتے تھے لیکن دو تین منزلوں کے بعد انھوں نے گھوڑے کو جنگلے سے باندھ کر پیدل آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ توپوں کو بھی احاطے میں چھوڑ دیا جائے جہاں ایک موچی نے وعدہ کیا کہ وہ ان پر نظر رکھے گا۔ سپاہی ایک قطار میں چلتے گئے اور ہر منزل پر دروازے کھلتے اور بچے چلاتے:’اماں، جلدی آؤ، دیکھو۔ سپاہی گزر رہے ہیں۔ فوج پریڈ کر رہی ہے!‘

    پانچویں منزل پر ان سیڑھیوں سے بالاخانے کو جانے والی سیڑھیوں تک پہنچنے کے لیے انھیں باہر کی طرف بالکونی کے اوپر چلنا پڑا۔ ہر کھلی کھڑکی میں سے سادہ کمرے نظر آتے جن میں جھلنگا چارپائیاں بچھی ہوتیں جہاں بچوں سے بھرے خاندان مقیم تھے۔

    ’اندر آؤ، اندر آؤ،‘ باپ اور مائیں سپاہیوں سے کہتے۔ ’تھوڑا آرام کرو، تم لوگ بہت تھکے ہوئے ہو گے!‘ ادھر سے آؤ، یہ راستہ چھوٹا ہے! لیکن اپنی بندوقیں باہر رکھ دو۔ اندر بچے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں نا۔۔۔‘

    سو راہداریوں اور گزرگاہوں میں رجمنٹ کی ترتیب ٹوٹ گئی۔ اور اس افراتفری میں وہ دبلا شخص کہیں ادھر ادھر ہو گیا جس نے کہا تھا کہ وہ راستہ جانتا ہے۔

    شام پڑ گئی اور رسالے اور پلٹنیں اب بھی سیڑھیوں اور بالکونیوں میں بھٹکتی پھر رہی تھیں۔ سب سے اوپر، چھت کے چھجے پر کرنل لیون تومینی بیٹھے تھے۔ انھیں نیچے بکھرا ہوا شہر دکھائی دے رہا تھا، وسیع و عریض اور تند و تیز، سڑکیں شطرنج کی بساط کی مانند اور خالی چوک۔ ان کے ساتھ ہی رنگین جھنڈیوں، پیغام رسانی والے پستولوں اور رنگ برنگے پردوں سے مسلح دستہ کھپریل پر ہاتھ اور گھٹنے ٹکائے بیٹھا تھا۔

    ’پیغام بھیجو،‘ کرنل نے کہا۔ ’جلدی، پیغام بھیجو: علاقہ ناقابلِ عبور۔۔۔ آگے بڑھنے سے قاصر۔۔۔ حکم کا انتظار۔۔۔‘


    (اٹلی کے معروف ناول نگار اور صحافی اٹالو کالوینو کی اس کہانی کو ظفر سیّد نے انگریزی سے اردو زبان میں‌ ترجمہ کیا ہے)