Tag: عالمی ادب سے

  • امبل میرو کا پُراسرار بھوت

    امبل میرو کا پُراسرار بھوت

    یہ واقعہ میری طویل شکاری زندگی کے اُن عجیب اور لرزہ خیز واقعات میں سے ہے جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس واقعے کی صحیح پوزیشن سمجھنے کے لیے آپ کو آندھرا پردیش کے جنگلوں میں جانا پڑے گا۔

    ضلع چتّوڑ میں بھاکر پت، چمالا اور مامندر کے تینوں جنگل قریب قریب واقع ہیں۔ ان کے کناروں پر بہت سے گاؤں اور بستیاں آباد ہیں۔ یہ جنگل اپنے قدرتی مناظر کے اعتبار سے جتنے حسین ہیں، اس سے کہیں زیادہ خطرناک بھی ہیں۔ درندوں کے علاوہ یہاں ریچھ بھی پائے جاتے ہیں۔

    ایک روز ہمارے چیتے کا پالتو بچّہ اچانک مَر گیا۔ میری بیوی نے اُسے بڑے شوق سے پالا تھا۔ بچّے کی موت سے میری بیوی کو سخت صدمہ پہنچا، لیکن میں نے کہا، فکر نہ کرو۔ ایک دو روز تک جنگل سے دوسرا بچّہ پکڑ لاؤں گا۔ چنانچہ آندھرا پردیش کے گنجان اور سیکڑوں میل میں پھیلے ہوئے جنگلوں میں میرے آنے کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس موسم میں مادہ اکثر بچّے دیتی ہے، اس لیے میرا خیال تھا کہ معمولی سی تلاش کے بعد کوئی بچّہ پکڑنے میں کام یاب ہو جاؤں گا اور بندوق چلائے بغیر یہاں سے چل دوں گا، لیکن کئی دن گزر گئے، بیس بیس میل جنگل میں پھرنے کے باوجود گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔

    ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ رنگام پت کا ایک شخص تھانڈا جو گزشتہ دو ہفتوں سے غائب تھا، اس کی ہڈیاں مِل گئی ہیں۔ یہ شخص اردگرد کے دیہات میں جنگلی بوٹیاں بیچتا اور جادو ٹونا بھی کرتا تھا۔ اس کے غائب ہونے سے بھوت پریت کے قائل دیہاتیوں نے قیاس کیا کہ تھانڈا کو کسی بھوت نے مار ڈالا ہے۔ تھانڈا کا تھیلا اور سامان فارسٹ گارڈوں نے ایک پہاڑی چشمے کے عقب میں پڑا پایا تھا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اس کی ہڈّیاں اور گلا سڑا گوشت بھی مَل گیا۔ پولیس کی رسمی تفتیش کے بعد یہ معاملہ ختم ہو گیا۔

    میں اسی وقت سمجھ گیا کہ ان آبادیوں پر بَلا نازل ہوا ہی چاہتی ہے، کوئی آدم خور درندہ اِدھر آ نکلا ہے۔ اگلے ہی روز سہ پہر کے وقت پولی بونو کے مقام پر ایک عجیب حادثہ پیش آیا۔ پولی بونو گاؤں، رنگام پت سے کوئی سات میل دُور تھا۔ جنگل میں سات بیل گاڑیاں گزر رہی تھیں، جب وہ نرشیا کے قریب پہنچیں، جہاں سڑک سے کوئی دو فرلانگ ہٹ کر ایک قدرتی تالاب تھا، تو گاڑی بانوں نے تالاب میں نہانے کا پروگرام بنایا۔ تھوڑی دیر بعد نہانے کے بعد وہ تالاب سے باہر نکلے، لیکن جب وہ گاڑیوں پر بیٹھے، تو دفعتاً انہیں احساس ہوا کہ ان کا ایک ساتھی غائب اور تعداد میں سات کے بجائے وہ چھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے سوچا شاید پُتّو رفع حاجت کے لیے کہیں رُک گیا ہے، وہ دیر تک انتظار کرتے رہے۔ لیکن وہ نہ پلٹا، تو انہیں سخت تشویش ہوئی۔ وہ دوبارہ گاڑیوں سے اُترے اور اِدھر اُدھر پھیل کر اپنے ساتھی کو آوازیں دینے لگے۔ کوئی جواب نہ ملا۔ تالاب پر دوبارہ جانے کی ہمّت کسی میں نہ تھی۔

    وہ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ پُتّو کو کسی بَدروح نے پکڑ لیا ہوگا، ناگ دیوتا نے ڈس لیا ہے اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ اسے کسی شیر یا چیتے یا ریچھ ہی نے مار ڈالا ہو۔ مایوس ہو کر انہوں نے پُتّو کی بیل گاڑی وہیں چھوڑی اور اپنی اپنی گاڑیاں تیز دوڑاتے ہوئے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔

    پُتّو کے بیل اپنے مالک کی راہ تکتے رہے۔ آدھی رات کو جب اوس پڑنے لگی، تو بیل سردی سے کانپنے لگے اور اپنے مالک کا خیال چھوڑ کر وہ بھی گاؤں کی طرف چل پڑے۔ اور صبح چار بجے وہ پُتّو کے گھر تک پہنچ گئے۔

    اس روز گاؤں والے دن بھر جنگل میں پھر کر پُتّو کی تلاش کرتے رہے۔ مگر بے سود۔ پُتّو کی پراسرار گم شدگی پر قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ دو دن بعد پھر ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔ اس مرتبہ گاؤں کا ایک بنیا غائب ہوا، وہ رنگام پت سے تیرہ میل دُور ایک دوسرے گاؤں میں اناج اور ضرورت کا دوسرا سامان لے کر جا رہا تھا۔ اس نے سامان گدھوں لاد رکھا تھا۔ پولی بونو کے مقام پر اس نے کھانا کھایا اور آگے چل پڑا۔ ساتویں میل پر جنگل میں بانس کاٹنے والے ایک لکڑہارے نے اسے کنوئیں میں سے پانی نکال کر پلایا، اس کے بعد بنیے کو دوبارہ کسی نے نہ دیکھا۔ اس کے گدھے جنگل میں بھٹکتے ہوئے پائے گئے۔ سامان بدستور ان کی پشت پر لدا ہوا تھا۔

    چوتھے روز پولی بونو کا وہ لکڑ ہارا بھی غائب ہو گیا جس نے بنیے کو پانی پلایا تھا۔ تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ البتّہ ایک درخت کے قریب اس کی کلہاڑی اور سفید پگڑی پڑی مل گئی۔

    اس قسم کے پُراسرار واقعات پے درپے رونما ہوئے۔ تو بھاکر پت،چمالا اور مامندر کی آبادیوں میں سنسنی پھیل گئی اور لوگ اعلانیہ کہنے لگے کہ یہ کسی درندے کا کام نہیں، بلکہ کوئی بھوت ہے جو انسانوں کی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ درندہ اگر ایسی حرکت کرتا، تو اس کے پنجوں کے نشان، خون کے دھبّے یا کھائی ہوئی لاش کے کچھ حصّے تو ملتے۔ مگر ان میں سے کوئی نشان نہ پایا گیا۔ لوگوں نے گاؤں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اکیلا دُکیلا آدمی تو جنگل کا رُخ کرنے کی جرأت ہی نہ کرتا تھا۔

    یہ صورتِ حال محکمۂ جنگلات کے لیے بڑی نازک تھی۔ افسروں نے پولیس کو خبردار کیا، پولیس کے کچھ آدمی آئے، انہوں نے بھی جنگل کا کونا کونا چھان مارا، مگر معمولی سا سراغ بھی نہ مِل سکا۔ بستیوں کے وہ لوگ جن کا گزارہ ہی جادو ٹونے پر تھا، بے چارے دیہاتیوں کو مسلسل ڈرا رہے تھے کہ اگر اتنا روپیہ دان نہ کیا گیا، اتنی بکریوں کا بلیدان نہ کیا گیا، اتنی شراب نہ پیش کی گئی، تو یہ نادیدہ بلا ایک ایک کر کے سب کو ہڑپ کر جائے گی۔ ایک جادُوگر نے تو یہاں تک کہا کہ گاؤں والے کسی بچّے کی قربانی دے دیں تو یہ بلا ٹل جائے گی۔ میں نے پولیس کے دفعدار سے کہا کہ اس منحوس جادوگر کو حوالات میں بند کیا جائے اور اگر گاؤں کا کوئی بچّہ گم ہو، تو کرشناپا (جادوگر) کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے، لیکن پولیس نے میرے مشورے پر عمل نہ کیا۔ آخر جس بات کا مجھے کھٹکا تھا، وہ ہو کر رہی، چند روز بعد چندرا گری کے مقام پر نو سال کا ایک اچھوت لڑکا گُم ہو گیا۔

    بچّے کی گمشدگی پر ماں دیوانی ہو گئی اور اسے کئی روز تک تلاش کرتی پھری۔ آخر یہ معاملہ پولیس کے علم میں لایا گیا۔ سب انسپکٹر نے سب سے پہلے کرشناپا جادوگر کے مکان کی تلاشی لی، لیکن پوری چھان بین کرنے کے باوجود لڑکے کا کوئی پتا نشان نہ ملا۔ پولیس انسپکٹر کو کرشناپا پر بہرحال شک تھا، اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ واردات میں اس بدمعاش کا ضرور ہاتھ ہے۔ چنانچہ وہ اسے ہتھکڑی لگا کر چوکی پر لے گیا، مگر جادوگر نے کچھ نہ اگلا۔ مایوس ہو کر کرشناپا کو چھوڑ دیا، لیکن اس تاکید کے ساتھ کہ وہ پولیس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہیں جائے گا۔ کرشناپا جادوگر نے چوکی سے نکلتے ہوئے پولیس انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:

    ‘لومڑی خواہ کتنی چالاک ہو، مگر گیدڑ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔’ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور انسپکٹر کئی دن تک سوچتا رہا کہ ان الفاظ کا آخر مطلب کیا ہے۔

    اگلے روز رنگام پت اور پولی بونو کے درمیانی علاقے کی رہنے والی ایک عورت غائب ہو گئی۔ اس کا خاوند صبح سویرے مویشیوں کو چرانے جنگل میں گیا۔ دوپہر کو اس عورت نے خاوند کے لیے روٹی تیار کی اور ایک برساتی نالے کے کنارے کنارے چلتی ہوئی پیپل کے ایک درخت تک جا پہنچی۔ پیپل کے بڑے درخت سے آدھ میل دُور مٹّی کے برتن ٹوٹے پائے گئے جن میں وہ روٹی لے کر گئی تھی، لیکن خود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔

    میں ان دنوں اپنے ایک ہندو دوست ویوا کے ساتھ ناگا پٹلا کے فارسٹ بنگلے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ان تمام واقعات کی اطلاع مجھے بنگلے کے چوکیدار سے ملتی رہتی تھی۔ ایک رات چوکیدار ہمارے پاس بیٹھا حسبِ معمول گاؤں والوں کے قصّے بیان کرتا رہا تھا کہ دریا کی طرف سے چیتے کے گرجنے کی آواز سنائی دی۔

    ‘صاحب، یہ چیتا بول رہا ہے۔’ چوکیدار نے سہم کر کہا۔ ‘ہاں ہمیں معلوم ہے۔ خاموش رہو۔’ ریوا نے اسے ڈانٹ دیا: ‘جاؤ، اپنی کوٹھڑی میں…’

    چوکیدار کے جانے کے بعد میں نے دیوا سے کہا: ‘چیتے کی آواز سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت سخت بھوکا ہے اور کسی شکار کی تلاش میں گھوم رہا ہے۔’ دیوا کے چہرے پر دہشت کی علامات نمودار ہوئیں۔ اس نے بنگلے کی چار دیواری کا جائزہ لیا اور بولا: چیتا ان دیواروں کو آسانی سے پھلانگ کر اندر آ سکتا ہے، ہمیں آج اندر کمرے میں سونا چاہیے۔’

    ہمارے بستر اندرونی کمرے میں بچھا دیے گئے۔ چیتا معمولی معمولی وقفوں کے بعد آدھی رات تک بولتا رہا۔ کمرے کے اندر حبس بہت تھا اور چوہے مسلسل پریشان کر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک موٹا سا چوہا چند لمحے تک چُوں چُوں کرنے کے بعد یکایک خاموش ہو گیا۔ چوہے کی آواز میں ایسا کرب تھا کہ دیوا کہنے لگا:

    ‘یہ چوہا اس طرح کیوں چیخ رہا تھا؟’

    شاید کسی سانپ نے اُسے منہ میں دبوچ لیا ہے۔’ میں نے جواب میں کہا۔ دیوا سانپ سے بے حد ڈرتا تھا، وہ فوراً بستر سے اُٹھا: میں تو برآمدے میں جاتا ہوں۔ اَب مجھ سے یہاں سویا نہیں جائے گا۔’

    پَو پھٹنے سے کچھ دیر پہلے دفعتاً میری آنکھ کھلی۔ میری چھٹی حِس کسی انجانے خطرے کا اعلان کر رہی تھی۔ میں نے جلدی سے سرہانے رکھی ہوئی ٹارچ روشن کی اور رائفل اٹھا لی۔ دیوا بے خبر سو رہا تھا۔ معاً ایسی آواز آئی جیسے کوئی شخص دیوار کھرچ رہا ہے۔ میں نے روشنی اِدھر اُدھر پھینکی تو آواز یک لخت بند ہو گئی۔ میں دبے پاؤں اٹھا اور رائفل سنبھال کر برآمدے سے باہر آیا۔ ٹارچ بجھا دی اور ایک ستون کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا۔

    چند منٹ بعد پھر دیوار کھرچنے کی آواز کان میں آئی۔ یہ اتنی واضح اور صاف تھی کہ کوئی شبہ نہ رہا۔ کوئی جانور اپنے پنجے دیوار پر تیز کر رہا تھا۔ میں پنجوں کے بَل چلتا ہوا آواز کی بڑھا۔ ابھی چند قدم ہی چلا ہوں گا کہ پیچھے سے دیوا کے کھانسنے کی آواز آئی اور پھر فوراً ہی چیتے کی غرّاہٹ فضا میں بلند ہوئی اور وہ دوڑتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔

    صبح ہم نے اس کے پنجوں کے گہرے نشان دیوار کے آس پاس دیکھے۔ ناشتے کے بعد میں نے دیوا کو ساتھ لیا اور جنگل میں ٹہلنے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم پیپل کے اس درخت کے نیچے کھڑے تھے جہاں چند روز پہلے وہ عورت غائب ہوئی تھی جو اپنے شوہر کو روٹی دینے جا رہی تھی۔ چیتے کے پنجوں کے نشان دریائے کلیانی کے بائیں کنارے پر دور تک پھیلے ہوئے تھے۔

    ان نشانوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ چیتا غیر معمولی طور پر قوی ہیکل اور بڑی جسامت کا ہے، لیکن مجھے جن نشانوں کی تلاش تھی، وہ کہیں نہ تھے۔ میں شیر کی تلاش میں تھا اور یہ کتنی حیرت کی بات تھی کہ جنگل کے تمام جانور پانی پینے دریا پر آتے تھے، مگر شیر اِدھر کا رخ نہ کرتا تھا۔

    بھوت پریت کے وجود کو عقل تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی اور آدم خور اگر ایسی حرکتیں کرتا، تو اپنا نشان ضرور چھوڑ جاتا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ ہے کیا بَلا؟ تمام واقعات کا اچّھی طرح جائزہ لینے کے بعد جو حقائق میرے سامنے آئے وہ یہ تھے:

    1۔ پانچوں افراد پُراسرار طور پر موت کا شکار ہوئے۔
    2۔ ہر شخص دوپہر یا سہ پہر کے وقت غائب ہُوا۔
    3۔ ان حادثوں کو کسی نے بچشمِ خود نہ دیکھا۔
    4۔ غائب ہونے والا ہر فرد تنِ تنہا تھا۔
    5۔ البتہ بنیے کے ساتھ اس کے گدھے بھی تھے جو بول نہیں سکتے، لیکن انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا، وہ اطمینان سے جنگل میں گھاس چرتے رہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ خوف زدہ نہ تھے، ورنہ ضرور اِدھر اُدھر منتشر ہو جاتے۔

    اس مسئلے پر دیوا کے ساتھ میں دیر تک بحث کرتا رہا، لیکن کسی رُخ سے بھی اس معاملے کی تہ تک پہنچنا مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا تھا، تاہم مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہو، میں یہ راز بے نقاب کر کے رہوں گا۔

    (چند روز جنگل میں‌ گھومنے اور بالخصوص ان جگہوں‌ پر جانے کے بعد جہاں سے اب تک ہلاک ہونے والے غائب ہوتے رہے تھے، ایک دن دیوا اور مصنّف سو کر اٹھے تو….) ایک شخص بنگلے پر آیا اور کہنے لگا کہ وہ پولی بونو سے آیا ہے۔ وہاں امبل میرو کے ایک پہاڑی ٹیلے پر بہت بڑا شیر دیکھا گیا ہے۔ جنگل میں کام کرنے والے مزدوروں نے ٹھیکیدار سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اس وقت تک کام پر نہ جائیں گے جب تک شیر کا قصّہ پاک نہیں ہو جاتا۔ ٹھیکیدار نے پیغام بھیجا تھا۔ ہم جلدی جلدی تیار ہو کر اس شخص کے ساتھ پولی بونو روانہ ہو گئے۔ ٹھیکیدار سے ملاقات ہوئی۔ کام رُک جانے سے اس کا ہزاروں روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ میں نے ٹھیکیدار کو دلاسا دیا، مزدوروں سے بات کی اور ان سے وعدہ کیا کہ شیر کو مارنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ سمجھانے بجھانے سے مزدور راضی ہوئے اور انہوں نے کام شروع کر دیا۔

    اگلے روز دوپہر کے وقت مزدوروں کے انچارج نے سیٹی بجا کر روٹی کھانے کے وقفے کا اعلان کیا۔ وہ مزدور، جس نے ایک روز پہلے شیر کو دیکھا تھا، نہایت خوف زدہ اور بدحواس تھا، وہ بار بار اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر درخت پر کلہاڑی سے اُلٹے سیدھے ہاتھ مارنے لگتا۔ اس سے صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر کچّے بانسوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا۔ دفعتاً اس جھنڈ میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ مزدور نے فوراً اُدھر دیکھا اور پھر کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چُھوٹ گئی۔ کچّے بانسوں کے اس جھنڈ میں وہی شیر اپنی زرد زرد چمکدار بُھوکی آنکھوں سے مزدور کو گھور رہا تھا۔ اس نے وہیں سے جست کی اور عین مزدور کے اوپر جا پڑا، لیکن اس شخص کی زندگی کے کچھ دن ابھی باقی تھے۔ اس کے حلق سے ایک لرزہ خیز چیخ نکلی، فوراً ہی دوسرے مزدور چیختے چلّاتے اُدھر لپکے اور شیر گرجتا غرّاتا چشم زدن میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    بہرحال یہ راز اب کھل چکا تھا کہ امبل میرو کا بھوت کون ہے؟ اور کس نے پانچ افراد کو ہلاک کر کے غائب کیا ہے۔ اَب سوال یہ تھا کہ ہم کیا کریں؟

    جب میں نے دیوا اور ساتھ آنے والے مزدوروں سے کہا کہ میں رات کو یہیں چُھپ کر آدم خور کا انتظار کروں گا، تو خوف سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔

    وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔ میں نے گھڑی پر نگاہ کی، رات کے پورے بارہ بجے تھے۔ اَب میری آنکھیں تالاب اور جنگل کا منظر کچھ فاصلے تک بخوبی دیکھ سکتی تھیں۔ یکایک چرخ پھر نمودار ہوا۔ اس مرتبہ وہ چیخے چلّائے بغیر نہایت مضطرب ہو کر چکّر کاٹ رہا تھا۔ جب چوتھی مرتبہ چرخ تالاب کے نزدیک گیا تو دوسرے کنارے سے اچانک شیر غرایا۔ شیر دوبارہ ہلکی آواز میں غُرّایا اور پھر اس کی آواز سنائی نہ دی۔

    معاً میری چھٹی حِس بیدار ہوئی اور اس نے خطرے کا اعلان کیا۔ میں نے بھری ہوئی رائفل کے ٹریگر پر انگلی رکھ دی اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اپنے دائیں جانب گھنی جھاڑیوں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ کی آواز سن لی تھی اور اب میں بے حس و حرکت اپنی جگہ بیٹھا آنکھیں گھما کر اُدھر ہی دیکھ رہا تھا۔ میں نے نگاہوں ہی نگاہوں میں جھاڑیوں کا فاصلہ ماپ لیا تھا۔ وہ مجھ سے تیس گز دور تھیں اور ان میں چھپا ہوا آدم خور نہایت مکّاری سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ اپنی فطرت کے مطابق مجھے بیخبری میں دبوچ لینا چاہتا تھا۔

    اب وہ مجھ سے بیس گز دور تھا۔۔۔ پندرہ گز۔۔۔ بارہ گز۔۔۔ دس گز۔۔۔ یکایک اس نے اپنا سَر اٹھایا اور میں نے دیکھا کہ وہ شیرنی ہے۔ پھر جبڑا کھول کر وہ آہستہ سے غرّائی، میں نے اس کے چمکتے ہوئے لمبے دانت دیکھے اور اس سے پیشتر کہ وہ مجھ پر چھلانگ لگائے، میری گولی اس کا جبڑا توڑتی ہوئی گردن میں سے نکل گئی، لیکن کس بلا کی قوّت اس کے اندر کام کر رہی تھی۔ وہ زخمی ہونے کے باوجود اندھا دُھند میری طرف جھپٹی، لیکن مجھ سے صرف دو گز کے فاصلے پر آن کر گری اور پھر دہاڑتی گرجتی الٹے قدموں بھاگی۔ میں نے یکے بعد دیگرے تین فائر کیے۔ اس کی گردن سے ابلتا ہوا خون صاف غمازی کر رہا تھا کہ وہ کدھر گئی۔

    مجھے اتنا یاد ہے میرے نشانے خالی نہیں گئے اور شیرنی آگے جا کر یقیناً گر گئی ہوگی۔ میں گرتا پڑتا اور جھاڑیوں میں سے لہولہان ہو کر اس درخت تک پہنچ گیا جہاں میرے ساتھی موجود تھے۔ چند لمحے آرام کرنے کے بعد ہم سب پھر قلعے کی طرف چلے اس مرتبہ میکٹوش آگے آگے تھا اور پیچھے گاؤں والے لالٹینیں لیے چل رہے تھے۔ ایک جگہ وہ اچانک رُکا اور پھر پیچھے ہٹ کر چند پتّھر اٹھائے اور جھاڑی کے اندر پھینکنے لگا۔ غالباً آدم خور شیرنی اس کے اندر چُھپی ہوئی تھی۔ پھر وہ رائفل تان کر آگے بڑھا اور میں نے ٹارچ روشن کی۔ اسی لمحے زخمی شیرنی نے کروٹ لی اور میکٹوش کے اوپر چھلانگ لگائی، لیکن چند فٹ کے فاصلے پر ہی آ کر گر پڑی اور جبڑا کھول کر غرّانے لگی۔ ہمارے ساتھی لالٹینیں پھینک کر بھاگ نکلے، لیکن اب ہمیں اس زخمی اور معذور شیرنی سے کوئی خطرہ نہ تھا، کیوں کہ وہ مرنے ہی والی تھی، مجھے حیرت تھی کہ تین گولیاں کھانے کے باوجود وہ اتنی دیر تک زندہ کیسے رہی۔ میکٹوش نے چند لمحے تک شیرنی کو غور سے دیکھا اور پھر اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔

    اور اس طرح چیتل درُوگ، ہوس دُرگا اور ہوللکر میں تباہی مچانے والی آدم خور شیرنی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

    (مصنّف اور مہم جُو کینتھ اینڈرسن کی اس روداد کے مترجم مقبول جہانگیر ہیں)

  • یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا بچّوں کے مقبول ترین ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔ آپ نے بھی اپنے بچپن میں تھمبلینا، اسنو کوئن، اگلی ڈکلنگ اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ یہ سبق آموز اور پُرلطف کہانیاں اسی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن 1875ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    اس عظیم لکھاری کا وطن ڈنمارک ہے جہاں اس نے دو اپریل 1805ء کو ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آج بھی ڈنمارک کے دارُالحکومت کوپن ہیگن میں اس کا مجسمہ نصب ہے جس کے ساتھ وہاں جانے والے تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔ بچّوں کے اس محبوب مصنّف کی کہانیوں پر کئی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس کی کہانیاں سچّائی اور ہمّت کا سبق دیتی ہیں۔

    ابتدا میں ہانز نے ایک اوپرا میں کام کیا مگر وہاں مایوسی اس کا مقدّر بنی اور پھر وہ شاعری اور افسانہ نویسی کی طرف مائل ہوگیا۔ تاہم ایک بڑے ادیب نے تخلیقی صلاحیتوں کو بھانپ کر ہانز کو بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا مشورہ دیا۔ اس نے کہانیاں لکھنا شروع کیں تو بچّوں ہی نہیں بڑوں میں بھی مقبول ہوتا چلا گیا۔ اس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835ء میں چھپا۔

    ہانز کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے تھے۔ غربت اور تنگ دستی کے انہی دنوں میں وہ والد کے سائے سے بھی محروم ہوگیا اور دس سال کی عمر میں معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    ہانز اینڈرسن نے اسکول میں چند ہی جماعتیں پڑھی تھیں، لیکن وہ مطالعے کا شوق رکھتا تھا اور کام کے دوران جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    بچّوں کے لیے مستقل مزاجی سے لکھنے کے ساتھ ہانز نے بڑوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ اس کی کہانیوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس لکھاری نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کو نہایت خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں پیش کیا اور یہ کہانیاں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    ہانز کے قلم کی طاقت اور جادوئی اثر رکھنے والی کہانیوں نے اسے وہ شہرت اور مقبولیت دی جس کا دنیا نے یوں اعتراف کیا کہ اب اس ادیب کے یومِ پیدائش پر بچّوں کی کتب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

  • یہ صرف کوّا ہے! (ایک مشہور حکایت)

    یہ صرف کوّا ہے! (ایک مشہور حکایت)

    کتنی ہی صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن ایسوپ کی حکایتوں، قصّے اور کہانیوں‌ کا سحر آج بھی برقرار ہے۔ اسے قدیم یونان کا باسی بتایا جاتا ہے جس کے مفصّل اور درست حالاتِ زندگی تو دست یاب نہیں‌، مگر اس قصّہ گو کی حکایتیں آج بھی مقبول ہیں۔ اس کی سبق آموز اور نہایت دل چسپ حکایتوں کا دنیا بھر کی زبانوں میں‌ ترجمہ کیا گیا ہے۔

    مرزا عصمت اللہ بیگ نے ایسوپ کی کئی حکایات کا اردو ترجمہ کیا تھا جو 1943ء میں کتابی شکل میں‌ شایع ہوئی تھیں۔ اسی کتاب سے ایک نصیحت آموز قصّہ پیشِ خدمت ہے۔

    ایک سرسبز میدان میں بہت سی بھیڑیں اور ان کے بچّے چرتے پِھر رہے تھے۔ کسی پہاڑ کی چوٹی سے عقاب اڑتا ہوا آیا اور ایک بچّے پر جھپٹ پڑا۔ وہ اسے پنجوں میں‌ دبا کر تیزی سے اڑ گیا۔

    ایک کوّا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے دل میں‌ خیال کیا کہ میں‌ بھی ایک جانور پر جھپٹ کر اور اسے اپنے پنجوں میں پکڑ کر کیوں نہ اڑ جاؤں۔

    یہ ارادہ کرکے وہ بھی بھیڑ کے ایک بچّے پر جھپٹا اور اس کے بالوں میں‌ اچّھی طرح اپنے پنجے گاڑ کر اڑنا چاہا، مگر وہ تو بھیڑ کے بالوں‌ میں‌ اس طرح الجھے کہ کوّے کو اپنے پنجے نکالنا مشکل ہو گیا۔ آخر کار بے دم ہو کر اپنے پَر مارنے لگا۔

    بھیڑوں کا مالک قریب ہی بیٹھا کوّے کی اس حرکت کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ وہ اٹھا اور کوّے کو پکڑ کر اس کی دُم اور پَر کاٹ ڈالے۔ شام کو اپنے گھر پہنچ کر اسے اپنے بچّوں کے حوالے کر دیا۔

    بچّوں نے پوچھا، "بابا یہ کیا جانور ہے؟”

    باپ نے جواب دیا، "اگر تم اس جانور سے پوچھو گے تو یہ اپنا نام عقاب بتائے گا، مگر میں‌ خوب جانتا ہوں کہ یہ صرف ایک کوّا ہے۔”

  • مستقبل کی ایمرجنسی ہیلپ لائن

    مستقبل کی ایمرجنسی ہیلپ لائن

    زخمی ہونے کے باوجود اُس نے فون سے 999 ملا لیا تھا۔

    "نئی ایمرجنسی ہیلپ لائن میں خوش آمدید” آواز آئی۔

    "ایمبولینس کے لیے ایک دبائیں
    آگ لگنے کی صورت میں دو دبائیں
    پولیس سے رابطے کے لیے تین
    سمندر میں حادثے کی صورت میں مدد کے لیے چار دبائیں
    اگر آپ کو ایمرجنسی مدد نہیں چاہیے تو پانچ دبائیے یا یہ ساری تفصیلات دوبارہ سننے کے لیے چھ دبائیں۔”

    پیٹ میں لگے چاقو کی وجہ سے خون ہر طرف پھیل چکا تھا۔ اُس نے لاشعوری طور پر ہمّت کرکے نمبر ایک دبا دیا۔

    ” پستول سے لگی گولی کے لیے ایک دبائیں، روڈ ایکسیڈنٹ کے لیے دو، تین، چار۔۔۔۔۔”

    لیکن اِس سے آگے وہ نہ سُن سکی!

    مصنّف: گورڈن لاری (Gordon Lawrie)
    مترجم: محمد جمیل اختر

  • خوشامد

    خوشامد

    کسی جنگل میں ایک پیڑ کے نیچے لومڑی آرام کررہی تھی کہ کہیں‌ سے ایک کوّا اڑتا ہوا آیا اور درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ گیا۔ لومڑی نے دیکھا کہ کوّے کی چونچ میں ایک بڑا سا گوشت کا ٹکڑا دبا ہوا ہے۔ اس کا جی بہت للچایا اور وہ ترکیب سوچنے لگی کہ اسے کیسے ہڑپ کرسکے۔

    ادھر کوّا اس بات سے بے خبر اپنا سانس بحال کررہا تھا کہ اس کے لائے ہوئے گوشت کے ٹکڑے پر لومڑی کی نیّت خراب ہوچکی ہے۔

    کوّا اس وقت چونکا جب لومڑی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک واہ وا شروع کردی۔ وہ ایک سانس میں‌ بولے جارہی تھی کہ سبحان اللہ جیسی تیری صورت ہے، ویسی ہی سیرت بھی تُو نے پائی ہے۔ تیرے پر کیا خوش رنگ ہیں اور اس کی سیاہی کیسی چمک دار ہے۔ تیرے گلے پر کیسا اجلا نشان ہے اور تیری چونچ کتنی مضبوط اور حسین ہے۔

    کوّا اپنی تعریف سن کر خوشی سے پھول گیا۔ پہلے کبھی کسی نے اس کی ایسی تعریف نہیں‌ کی تھی۔ ادھر لومڑی بولے ہی جارہی تھی۔‌ اے پرند تُو اپنی سیرت میں بھی یکتا ہے اور میں‌ نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ تُو بڑا دور اندیش بھی ہے، مگر قدرت نے ایک صفت سے تجھے محروم رکھا ہے تاکہ تُو اپنی اوقات میں رہے اور کسی میں کوئی کمی دیکھے تو اسے حقیر جان کر طعنہ نہ دے سکے۔ کوّا جس نے اب تک اپنے لیے صرف تعریفی کلمات سنے تھے، اچانک ایسی بات سن کر تڑپ اٹھا اور یہ جاننے کے لیے فوراً اپنا منہ کھول دیا کہ وہ کس صفت سے محروم ہے؟

    کوّے نے جیسے ہی منہ کھولا، اس کی چونچ سے گوشت کا ٹکڑا نکلا اور لومڑی کے سامنے آ گرا جس نے اسے ہڑپ کرنے میں‌ بس اتنی ہی دیر لگائی جتنی دیر میں‌ کوئی پلک جھپکتا ہے۔ کوّا سمجھ گیا تھا کہ لومڑی نے اسے بے وقوف بنایا ہے۔

    لومڑی نے کوّے سے کہا، اے کم عقل، تُو کس صفت سے محروم ہے، سچ پوچھ تو مجھے بھی اس کا کچھ علم نہیں‌، لیکن میں‌ یہ ضرور جانتی ہوں کہ خوشامد سے سو کام نکل سکتے ہیں۔

    (ماخوذ از حکایت)

  • کنگ سولومن مائنز: افریقا کی ایک مشہور مہمّاتی داستان

    کنگ سولومن مائنز: افریقا کی ایک مشہور مہمّاتی داستان

    "کنگ سولومن مائنز” ایک مشہور مہماتی ناول ہے جسے مشہور برطانوی مصنّف ہنری رائڈر ہیگرڈ نے اپنے پُراسرار اور تحیّر پسند قلم سے لکھا تھا۔ یہ ناول 1885ء میں شایع ہوا تھا۔

    اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ اسے مصنف نے افریقا کے ایک سفر کی داستان سے بُنا ہے، جسے اس زمانے میں‌ افریقا کی سرزمین کے پُراسرار واقعات کی پہلی تخیلاتی کاوش کہا گیا۔ تاہم اس ناول کے کرداروں‌ کی مہم افریقا کے نامعلوم مقامات تک محدود نہیں‌ بلکہ وہ دریائے یرموک کے قریب اور شمالی اردن اور شامی علاقوں تک بھی جاتے ہیں۔ اس مہم میں‌ شامل افراد کے سربراہ ایلن کواٹر مین تھے۔ یہ اپنے گروہ کے ایک ساتھی کے بھائی کی تلاش میں‌ نکلتے ہیں، جو ایک روز غائب ہوجاتا ہے۔

    یہاں‌ ہم اپنے قارئین کو سر ہنری رائڈر ہیگرڈ کے بارے میں مختصراً بتاتے چلیں کہ یہ ناول نگار 1856ء میں پیدا ہوا اور 1925ء میں دنیا سے رخصت ہوا۔ انگریزی زبان کے اس ناول نگار کی وجہِ شہرت وہ داستانیں ہیں‌ جو مہم جوئی، اسرار و تحیّر کو اپنے تخیل کی گرفت میں‌ لیتی اور انوکھی یا نامعلوم دنیاؤں کی سیر کراتی ہیں۔

    "کنگ سولومن مائنز” وہ ناول تھا جس کا اردو ترجمہ مظہر الحق علوی نے "گنجِ سلیمان” کے نام سے کیا تھا۔ ہندوستان کے اس معروف مترجم، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس نے انگریزی زبان کے اس ناول کو 1955ء میں اردو کے قالب میں‌ ڈھالا تھا۔

    سر رائڈر ہیگرڈ کے متعدد ناولوں‌ کو غیر معمولی مقبولیت اور ان کے اسلوب کو زبردست پزیرائی حاصل ہوئی۔

    برطانوی مصنف نے افریقا کی سیر و تفریح اور وہاں‌ قیام کے دوران اس برّاعظم کی تہذیب و تمدن کے ساتھ اس کے عجائب و اسرار کو کھوجتے ہوئے انھیں‌ اپنی کہانیوں‌ کا موضوع بنایا۔

    رائڈر ہیگرڈ نے افریقا کو کئی ناولوں کا موضوع بنایا۔ "کنگ سولومن مائنز” وہ لازوال مہماتی داستان ہے جس کے اردو میں پانچ سے زائد ایڈیشن شایع ہوئے۔

  • دستاویز

    دستاویز

    ہمارا خاندان نسلوں سے نیو یارک میں آباد ہے۔ میرا نام انتھونی پورٹر ہے، یہ نام میرے دادا کے نام پر رکھا گیا تھا۔

    21 دسمبر 1820 کی بات ہے۔ ویرک اسٹریٹ پر واقع مورٹیئر ہاؤس، چارلٹن کے آخری گوشے میں منتقل کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ اب نیو یارک کے وسط میں آگیا ہے۔ منتقلی کے موقع پر میرے دادا انتھونی پورٹر نے اپنے ملازموں کی خدمات مستعار دی تھیں۔

    اس پرانی حویلی کو ایک اعزاز حاصل تھا، یہ جون 1776 سے ستمبر 1776 تک جارج واشنگٹن کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کی گئی تھی۔ منتقلی کے موقع پر باورچی خانے کی چمنی کی ایک اینٹ اکھڑی ہوئی تھی، اس کے پیچھے سے ایک خط ملا تھا۔

    یہ خط لیفٹیننٹ جنرل سر ولیم ہوو کے نام تحریر کیا گیا تھا۔ خط پر 29 جولائی 1776 کی تاریخ پڑی تھی۔ سَر ولیم ان برطانوی فوجوں کے کمانڈر تھے جو نیویارک کے اطراف میں جمع تھیں۔

    نامعلوم وجوہ سے وہ انگریز قاصد یہ خط نکالنے سے قاصر رہا جو اسے خفیہ مقام سے نکال کر منزل تک پہنچانے کا ذمے دار تھا، اس طرح یہ خط کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکا۔

    میرے آبا و اجداد یہ خط ایک یادگار کے طور پر محفوظ کیے ہوئے تھے مگر بعد کی نسلیں ماضی کے بجائے مستقبل پر زیادہ نگاہ رکھتی تھیں۔ لہٰذا خاندان کے دیگر اہم کاغذات کے ساتھ اس خط پر بھی مٹی جمتی رہی۔

    میں چوں کہ اپنی نسل کا آخری فرد تھا اور میں نے شادی بھی نہیں کی تھی اس لیے میرا شجرہ آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اسی بنا پر میری دل چسپی اپنے بزرگوں کے ادوار اور ان کی نشانیوں سے بڑھتی رہی۔

    پہلی ہی بار اس خط کے متن نے مجھے متاثر بھی کیا تھا اور الجھن میں بھی ڈال دیا تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا۔

    عزت مآب، عالی جناب جنرل صاحب!

    جب یہ خط آپ تک پہنچے گا آپ اس خط کی ایک اہم اطلاع سے با خبر ہوچکے ہوں گے یعنی ہمارا دشمن جارج واشنگٹن مرچکا ہوگا اس کے مرنے کے بعد ان کی فوج کی حیثیت ایک ایسی ناگن جیسی رہ جائے گی جس کا سر قلم کردیا گیا ہو۔

    دشمن کو کچلنے کے لیے طاقت استعمال کرنی پڑے گی لیکن اس میں کیا مضائقہ ہے۔ امید ہے، سورج غروب ہونے تک دشمن کا بالکل صفایا کردیا جائے گا۔ اس وقت تک میں بھی مرچکا ہوں گا لیکن یہ بات میرے اور میرے خاندان کے سوا کسی کے لیے اہم نہیں ہوگی۔

    میں جنرل واشنگٹن کے ادارے میں باورچی کی حیثیت سے ملازم ہوں اور پہلے بھی آپ کو باغیوں کے منصوبوں اور ان کی صف بندی کے بارے میں خبریں بھیجتا رہا ہوں اور یہ میرے اور میری نسلوں کے لیے باعثِ صد افتخار ہے کہ مجھے تاجِ برطانیہ کے لیے ایک انتہائی اہم خدمت انجام دینے کا موقع میسر آرہا ہے۔

    جنرل واشنگٹن ایک تنہائی پسند شخص ہے اور اپنے دانتوں کی تکلیف کی وجہ سے اکثر تنہا کھانا کھاتا ہے۔ حال میں سردی لگنے سے اس کے سر میں بھی تکلیف شروع ہوگئی، سر درد نے اس کے ذائقے کی حس بری طرح متاثر کی ہے۔

    آج رات کے کھانے میں، میں نے اس کے لیے بچھیا کا گوشت پیاز اور آلو پکائے ہیں اور ساتھ ہی اپنا ایک خاص جزو بھی کھانے میں شامل کیا ہے۔ یہ ایک لال پھل ہے جو نائٹ شیڈ فیملی کے ایک زہریلے پودے پر اُگتا ہے۔

    جناب والا کو اندازہ ہوگا کہ یہ ایک بے حد مشکل کام ہے، میں ایک باعزت آدمی ہوں، میں نے آج تک کسی کو چوری چھپے یا عیاری سے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اس کے علاوہ میری دانست میں جنرل واشنگٹن ایک عظیم راہ نما ہے، اس کے بلند مرتبے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

    خطرات میں ہوش مندی سے کام لینا اس کا شیوہ ہے، اس کی دیانت داری کی داستانیں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں، اس کی ہمت اور باتدبیری سے آپ خود بھی بہ خوبی واقف ہیں لیکن …… لیکن چوں کہ وہ میرے ملک معظم تاج دار برطانیہ عظمیٰ جارج کی خداداد حکومت کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اس لیے تاج شاہی کے ایک ادنیٰ وفادار کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ میں اپنے طور پر جب بھی مناسب موقع میسر آئے اس کا قصہ پاک کردوں۔

    مجھے ہر چند افسوس بھی ہے کہ میں جارج واشنگٹن، ایک بڑے آدمی کی موت کا ذمے دار ہوں گا، لیکن یہ احساس میرے افسوس پر غالب آجائے گا کہ میں نے یہ کام خدا، ملکِ معظم اور اپنے عظیم ملک کے لیے انجام دیا ہے۔

    یہاں سے چند سطریں خالی تھیں جیسے خط نا مکمل چھوڑ دیا گیا ہو۔ اس کے بعد خط دوبارہ لکھا گیا تھا۔

    شکر ہے میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ میں نے جنرل کی موت اس کے خاص خادم کے ہاتھوں میں پہنچا دی ہے اور اس طرح میں نے اپنے بادشاہ (خدا اسے تا قیامت سلامت رکھے) سے کیا ہوا عہد پورا کر دیا ہے۔ اب مجھے اپنے کام کا آغاز کرنا ہے۔ میں یہ خط مقرر کردہ جگہ پر رکھ دوں گا۔

    چوں کہ مجھے جنرل کے حامیوں کی جانب سے وحشیانہ انتقام کا خطرہ ہے چناں چہ اپنی جان خود لے رہا ہوں۔ زہر کھانے پر میری طبیعت مائل نہیں ہے۔ اپنے فربہ جسم کی وجہ سے میں گلے میں پھندا ڈال کر لٹکنے سے بھی قاصر ہوں البتہ چاقو کے استعمال میں مجھے خاصی مہارت حاصل ہے لہٰذا اسی کو ترجیح دے رہا ہوں۔

    الوداع، میری درخواست ہے کہ میرے بعد میرے بیوی بچوں کو کوئی مشکل پیش نہ آنے پائے۔ میں انھیں تاج دار برطانیہ جارج کی سخاوت کے نام پر اور سر ولیم آپ کی پناہ میں چھوڑے جارہا ہوں۔ میرے بعد میری شہرت اس بات کا ثبوت ہوگی کہ میں نے آپ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، میں بہ صمیم قلب و دماغ اپنے ملک، اپنے بادشاہ اور آپ کی اقبال مندی کے لیے دعا گو ہوں۔

    مجھے فخر ہے کہ میں ہمیشہ آپ سب کا وفادار رہا ہوں۔

    آپ کا حقیر ترین تابع
    جیمز بیلی

    اس خط میں جولیس سیزر کے قتل کی تاریخ کے سب سے اہم قتل کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ واقعہ کبھی پیش نہیں آیا، ہم سب جانتے ہیں کہ جارج واشنگٹن اس کے بعد پورے تئیس برس یعنی 1799 تک زندہ رہا اور اس بات کا کہیں کوئی نشان نہیں ہے کہ 1776 میں اس کی جان لینے کی کوئی ناکام کوشش بھی کی گئی ہو۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جیمز بیلی نے اس مفروضہ قتل کی انتقامی کارروائی کے خوف اور ندامت کے باعث خود کو ہلاک کرلیا تھا۔

    اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے جرم کی سزا دے ڈالی جو اس نے کیا ہی نہیں تھا، میں نے خود کو اس تناقص کی توجہیہ کے لیے وقف کردیا کب کوئی قتل، قتل نہیں ہوتا؟

    یہ سوال بچوں کی پہیلیوں کے مانند میرے ذہن میں گردش کرتا رہاکہ کب کوئی زہر، زہر نہیں ہوتا؟ پھر میں نے اپنی توجہ اس پھل پر مرکوز کردی جس کا تذکرہ جیمز بیلی نے اپنے خط میں کیا تھا۔

    لال پھل؟ میری نگاہ میں یہی ایک کلید تھی، میں نے اپنی تحقیق کا آغاز اسی سے کیا۔

    آخر میں نائٹ شیڈ فیملی کا ایک ایسا پودا اور دریافت کرنے میں کام یاب ہوگیا جس پر لال پھل اُگتے تھے۔

    امریکا میں یہ پھل 1882 تک زہریلا سمجھا جاتا تھا۔ یہ پھل جب بھی موجود تھا اور آج بھی دنیا کے ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔ اسے ہم سب ٹماٹر کے نام سے جانتے ہیں۔

    (رچرڈ ایم گورڈن کی اس کہانی کو رابعہ سلطانہ نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے)

  • سمندر کنارے دو بوڑھوں‌ کی بھیگی ہوئی یادیں

    سمندر کنارے دو بوڑھوں‌ کی بھیگی ہوئی یادیں

    سرما کی شام تھی۔ بندرگاہ پہلوی کے کہر آلود اور اُداس ساحل پر میں اور محمود چہل قدمی کر رہے تھے۔ موجوں کا شور اور پرندوں کی آوازیں چاروں طرف گونج رہی تھیں۔ وہ دور سمندر کی سطح سے ملے پَر مارتے چلے جاتے تھے۔ مزید آگے بڑھے تو سمندر تاریک ہو گیا۔ کالے بادل اس پر یوں جھک آئے کہ خیال ہوتا وہاں آسمان اور سمندر ایک ہو گئے ہیں۔

    ایک بہت بڑی موج سفید چادر کے مانند ہمارے پیروں کے آگے بچھ گئی۔ کچھ دیر زمین پر سفید سفید جھاگ ٹکا رہا، پھر وہیں جذب ہو گیا۔ ہمارے پیروں تلے ریت دب کر سخت ہو گئی اور اس میں سمندر کا پانی اکٹھا ہونے لگا۔ ہم پلٹے، مڑ کر دیکھا تو موجوں نے ہمارے قدموں سے پڑنے والے نشانوں کو بھر دیا تھا۔ گویا ہم وہاں تھے ہی نہیں، کبھی کسی نے وہاں قدم ہی نہیں رکھا تھا۔

    اسی دم محمود اپنی داستان سنانے لگا۔

    عجیب دنیا ہے۔ چند سال پہلے تک میں اس شہر میں توپ خانے کا افسر تھا۔ جنگ چھڑی تو سب کچھ الٹ پلٹ ہوا۔ میں روسی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر اسی شہر میں سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ روسیوں نے توپوں پر قبضہ کیا اور افسروں کو جیل میں ڈال دیا۔ سپاہی بھی اِدھر اُدھر ہوئے، بس گھوڑے باقی رہ گئے۔ میرا گھوڑا ابلق (سیاہ و سفید) تھا۔ بڑا خوش رنگ جوان اور چلبلا۔ خوب گردن اکڑا کر چلتا۔ اس کی آنکھوں کی رنگت بھی انوکھی تھی، نیلی نیلی سی معلوم ہوتی۔ فوجی بیرکوں میں اس کا نام کاسی پڑ گیا تھا۔

    کاسی میری سواری کا گھوڑا تھا۔ جوانی کے دن تھے۔ اِس پر سوار ہوتا تو مزہ آ جاتا۔ افسر کا گھوڑا تھا اسی لیے اس کی خیال داری بھی دوسرے گھوڑوں سے زیادہ ہوتی اور وہ ہمیشہ چاق چوبند رہتا۔ میں جیسے ہی اس پر سوار ہوتا وہ گردن اکڑا کر اگلی ٹاپوں پردُلکی چلنے لگتا۔ راستے کی پتھریلی زمین پر اس کے نعل پڑنے کی آواز سے فضا گونجنے لگتی۔ لوگ کاسی کی مستانہ چال دیکھنے چلتے چلتے رک جاتے۔ میں اس پر سینہ تانے بیٹھا گردن بھی اکڑا لیتا اور ترنگ میں آ کر جھومنے لگتا۔

    میں اور کاسی شہر بھر میں مشہور تھے۔ کاسی مجھ سے اتنا مانوس تھا کہ اگر میں دور سے اُسے پکارتا تو وہ فوراً گردن گھماتا اور جواب میں ہنہنا کر مجھے دیکھنے لگتا۔ جب میں جیل میں قید ہوا تو سب سے زیادہ فکر مجھے کاسی ہی کی تھی کہ معلوم نہیں اس کے دانے پانی اور گھاس کی خبر گیری ہو رہی ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کا کیا حشر ہو گا۔

    جنگی قیدیوں کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سننے میں آ رہی تھیں، مختصر یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ جیل میں ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا۔ میں ایک کونے میں جا بیٹھتا اور سوچتا رہتا۔ دل چاہتا تھا آزاد ہو جاؤں اور جا کر کاسی کو دیکھوں، اس کی گردن تھپتھپاؤں، اس کی تھوتھنی پر ہتھیلی رکھ کر سانس کی گرمی محسوس کروں۔ یہ سارے خیالات دن ہی دن میں رہتے، مگر راتیں۔۔۔

    راتیں وحشت ناک ہوتیں۔ قیدیوں کے سونے کی اپنی ادائیں تھیں۔

    میرے خوابوں کی دنیا کے زیادہ حصے پر کاسی کا عمل تھا۔ مجھے اس کی نیلگوں آنکھیں نظر آتیں کہ اندھیرے میں چمکتی ہوئی میری طرف ٹکٹکی باندھے ہیں۔ ان نگاہوں میں التجا ہوتی اور ملامت بھی۔

    ایک دن جیل میں خبر پھیل گئی کہ کل روسی توپیں اور گھوڑے جہازوں میں لے جا رہے ہیں۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ کاسی کا کیا ہوا؟ اسے بھی لیے جا رہے ہیں؟ اگر یہی ہوا تو میں اکیلا رہ جاؤں گا۔ یہ آس بھی ٹوٹ جائے گی کہ کاسی کو پھر دیکھ سکوں گا۔ وہ میرا دوست تھا۔ ہم دونوں ہی جنگ کی لپیٹ میں آئے تھے۔

    میں نے ساتھی قیدیوں کے سامنے توپوں اور گھوڑوں کا ذکر چھیڑا اور کاسی کے بارے میں ان کا خیال دریافت کیا۔ سب قیاس آرائیاں کرنے لگے۔ آخر ایک قیدی نے کہا کہ کاسی سواری کا گھوڑا ہے توپ گاڑی کھینچنے کے کام کا نہیں۔ پھر لڑائی کا زمانہ ہے رسد کی یوں بھی کمی ہے۔ اس لیے یقینی ہے کہ کاسی کو کھا لیا جائے گا۔

    گویا کاسی کو ذبح کرکے اس کا گوشت فوجیوں کو کھلادیا جائے گا۔

    جب یہ خبر اڑی کہ کل گھوڑوں کو لے جائیں گے، مجھے سارا دن کاسی ہی کا خیال آتا رہا۔ رات کوبھی بڑی بے چین نیند سویا۔ دوسری صبح ہم سب قیدی وقت سے پہلے جاگ اٹھے تاکہ جیل کی کھڑکیوں سے توپیں اور گھوڑے جانے کا منظر دیکھیں۔

    ہم کھڑکیوں کے قریب جا کھڑے ہوئے۔ وہاں سے بیرکوں کا احاطہ اور اصطبل دکھائی دیتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد بارش کی ہلکی دھند میں دور سے گھوڑوں کے سَر نظر آئے۔ ایک ایک روسی سپاہی دو گھوڑوں کو دہانوں سے پکڑے کھینچتا لا رہا تھا۔ اُنھیں دیکھ کر مجھ پر عجیب ناامیدی سی چھا گئی۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا، ٹانگوں میں دَم نہ رہا اور منہ خشک ہو گیا۔ پھر بھی میں نے گردن آگے بڑھائی کہ اِن میں کاسی کو تلاش کروں۔ ہماری فوج کے سب گھوڑے گہرے رنگ کے سرنگ اور کمیت تھے۔ صرف کاسی کے رنگ میں سفیدی اور اجلا پن تھا۔ اس کے بدن پر چھوٹی چھوٹی بھوری اورکتھئی چتیاں تھیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سفید رنگ پر ان دو رنگوں کا چھینٹا دیا گیا ہو۔

    آخر میں نے اس کا چتکبرا رنگ دیکھا۔ میرا دَم گھٹنے لگا۔ یہ وہی تھا۔ اس کے تیوروں کا تیکھا پن اور گردن کا کھنچاؤ رخصت ہو چکا تھا۔ سَر لٹکا اور کنوتیاں گری ہوئی تھیں۔ چھل بل اور طراروں کا کہیں نشان نہ تھا۔ میلا چکٹ ہو رہا تھا۔

    وہ جیل کے سامنے پہنچا تو میری زبان کو قفل لگ گیا۔ چاہتا تھا پکاروں، اُسے بلاؤں، چوکی داروں سے کہوں کہ اسے ذرا میری طرف گھما دیں۔ میں نے کسی طرح خود کو سنبھالا اور سوکھے گلے سے دو تین بار صرف ایک لفظ نکال پایا

    کاسی، کاسی۔۔۔۔کاسی

    یہ آواز سن کر ابلق گھوڑے میں جان سی پڑ گئی۔ یقین کرو، اس نے گردن تان لی۔ پھر سَر گھمایا اور جہاں سے میں نے اسے پکارا تھا، اس طرف دیکھنے لگا اور زور سے ہنہنایا۔ نہیں معلوم قیدیوں کے جھرمٹ میں کھڑکی کے پیچھے میں اُسے دکھائی دیا کہ نہیں، مگر چند لمحوں کے لیے اس کے پیروں میں وہی رقص کی سی چلت پھر نظر آئی۔ پھر سپاہی نے اس کے دہانے کی آہنی ڈنڈی کو منہ کے اندر زور سے کھٹکھٹایا۔ تکلیف کی شدت سے اس کی حالت پھر اسی طرح ردی ہو گئی۔

    وہ کاسی کو لے گئے۔ دوسرے گھوڑوں کے ساتھ اسے بھی جہاز پر چڑھا دیا گیا۔ ہم دیکھتے رہے کہ وہ دور ہوتے جا رہے ہیں۔

    ہم دونوں سنسان پشتے پرچل رہے تھے۔ سمندر کی جانب سے تیز ہوا کے جھونکے آ رہے تھے۔ موجیں پشتے سے ٹکرا ٹکرا کرپانی اُڑا رہی تھیں۔ ہلکی ہلکی پھوار بھی پڑرہی تھی۔ میں نے محمود کی طرف دیکھا،اس کی آنکھوں کے نیچے اور رخساروں پہ نمی تھی۔ میں نے پوچھا۔

    کیا روئے ہو؟ وہ بولا۔ نہیں، ہماری عمر کے آدمی روتے نہیں۔ آنسو ہی نہیں نکلتے، بارش ہوئی ہے۔

    اندھیرا پھیل رہا تھا۔ سمندر سیاہ ہوتا جا رہا تھا۔ ہم واپس آنے لگے۔ راستے میں محمود کو میں نے یہ قصہ سنایا۔

    میں فوج میں نیا نیا افسر ہوا تھا۔ روزانہ صبح اپنے گھر کی گلی کے آگے سڑک پر جا کھڑا ہوتا۔ میری رجمنٹ کی بس آتی اور میں اس پر کیمپ چلا جاتا۔ ایک دن میں ذرا جلد سڑک پرآ گیا۔ کچھ بس نے بھی دیر لگائی۔ میرا ایک دوست ادھر آ نکلا اور ہم وہیں کھڑے باتیں کرنے لگے۔ وہ بھی فوج میں افسر تھا۔

    باتوں باتوں میں اس نے بتایا، میرے پاس ایک خوب صورت سَمند (بادامی) گھوڑا ہے۔ وہ اُسے بیچنا چاہتا تھا۔ میں اس دوست سے بخوبی واقف تھا۔ وہ معاملت کا کھرا ہے اور سَمند گھوڑے مجھے پسند بھی تھے۔ لہٰذا میں نے دیکھے بغیر خرید لیا اور سودا وہیں کا وہیں پکا ہو گیا۔ دوست یہ کہہ کر رخصت ہوا کہ اسی دن گھوڑے کو میری رجمنٹ میں بھجوا دے گا۔

    ہماری رجمنٹ کا پڑاؤ شہر سے فاصلے پر تھا اور دوپہر کو ہم وہیں رہ جاتے۔ اُس دن میں کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا کہ ایک سپاہی خبر لایا، گھوڑا آ گیا ہے۔

    وہ بڑے قد کاٹھ اور بلند گردن کا گھوڑا تھا۔ جسامت ایسی کہ اس کے زین پر بیٹھا سپاہی چھوٹا سا معلوم ہوتا تھا۔ قریب آیا تو دیکھا کہ عجب خو ش انداز اور خوش رنگ گھوڑا ہے۔ اس کے رونگٹے سنہری مائل اور جھل مل جھل مل کر رہے تھے۔ چھوٹا سَر، نرم چمکیلی آنکھ، مضبوط جوڑ بند اور بھاری سُم، اونچی گردن، کشادہ سینہ، چلنے رکنے میں سَر کو تانے ہوئے۔ اس چھب کا گھوڑا آج تک میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ خصوصاً یکساں اور شوخ بادامی رنگ کا۔

    آزمائش کے لیے اس کی رکاب میں پیر ڈال زین پر بیٹھ گیا۔ گھوڑا آگے بڑھا تو میں نے اسے پویا چلایا پھر دُلکی۔ اس کے بعد کیمپ کی سڑک پر دور تک بڑے اطمینان کے ساتھ سرپٹ دوڑایا۔ اس کی سواری ایسی ہم وار اور آرام دہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا نرم گدے پر بیٹھا فضا میں تیر رہا ہوں۔

    میں نے اُسے اصطبل پہنچا دیا۔ وہاں سپاہی کو لوٹانے کے لیے اس کا زین اتارا گیا تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ خوب صورت گھوڑا زین پشت ہے۔ زین پشت اُسے کہتے ہیں جس کی کمر میں خم ہو۔ یہ گھوڑے کا عیب سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں اس خم کے زیادہ ہونے سے گھوڑے کا دَم کم ہو جاتا ہے۔ اس گھوڑے کی کمر میں زیادہ خم تھا۔ اس کی پیٹھ کا وہ حصہ جہاں زین رکھتے ہیں کمان کی طرح جھکا ہوا تھا۔

    لمحہ بھر کو مجھے خیال آیا کہ اسے واپس پھیر دوں، لیکن میرا جی نہ مانا۔ وہ بہت خوب صورت تھا۔ اس کی اصالت، تیور اور جمال سے کیوں کر آنکھیں پھیر لیتا؟ دوسرے دن سے وہ میری سواری میں رہنے لگا۔ میرا بلند قامت زین پشت سمند، جو گردن اٹھا کر چلتا اور بن بن کر زمین پر پاؤں رکھتا بہت جلد مشہور ہو گیا۔

    دو سال گزرے تھے کہ توپ گاڑیاں پٹرول سے چلنے لگیں۔ پرانی چال کی گاڑیاں کباڑخانوں میں ڈھیر ہوتی گئیں۔ انھیں کھینچنے والے گھوڑے گلوں میں بھیجے جانے لگے۔ فوج سے اصطبل اور گھوڑوں کا صیغہ ہی ختم ہوا تو میں بھی مجبور ہوا کہ اپنے سمند کو وہاں سے ہٹا لے جاؤں۔ چوں کہ میرے پاس رکھنے کا ٹھکانا نہیں تھا لہٰذا اِسے بیچنے کے سوا چارہ نہ رہا۔

    میری رجمنٹ کا سائیس ایک خریدار کو لے آیا۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ اس لاڈلے گھوڑے کو تکلیف نہ دینا۔ اگر اسے بیچے تو کسی ایسے آدمی کو دے جو اس کو فٹن یا چھکڑے میں نہ جوتے۔

    کئی مہینے گزر گئے۔ مجھے اپنے زین پشت سمند کی یاد آتی رہتی، جیسا کہ تم نے بتایا میرا بھی دل چاہتا کہ کسی صورت اسے دیکھوں تھپ تھپائوں، اس بے زبان کے منہ کے آگے ہاتھ کروں اور گرم اور نرم سانسوں کومحسوس کروں۔

    ایک دن خیابان شمیران کی چڑھائی پر مجھے ایک اونچا لاغر سمند گھوڑا دکھائی دیا۔ کوچوان نیچے اتر کر اس پر چابک برسا اور کھڑکھڑے کو دھکا لگا کر چڑھائی چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ وہی تھا!

    اس کا سنہرا بدن میل کچیل اور پسینے کے لیپ سے چکٹ کر کالا ہو چکا تھا۔ میرا بہت جی چاہا کہ قریب جا کر دیکھوں، اسے پکاروں اور اس کا بدن سہلاؤں، لیکن مجھے شرم سی آ رہی تھی۔ وہ ایسے حال میں نہ تھا کہ میں اس کے سامنے جا سکتا،اس کی رگیں ابھر آئی تھیں۔ میں نے سوچا کوچوان سے بات کر کے اِس کی کچھ سفارش کروں، لیکن اس سے کیا ہونا تھا؟ وہ شکستہ حال قیدی، تھکا ہارا زین پشت سمند جو اب میرا نہیں تھا، اپنے مقدر کا لکھا پورا کر رہا تھا۔ میں خود سمجھ سکتا تھا کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہو گا۔

    بارش تیز برسنے لگی اور تاریکی پھیل گئی۔ میں اور محمود اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔ بلب کی روشنی میں محمود نے مجھے دیکھا اور بولا۔

    تمھارا چہرہ بھیگا ہوا ہے۔ روئے ہو؟

    اس عمر کو پہنچ کر آدمی نہیں روتا… میں نے کہا، پانی برس رہا ہے۔

    نوٹ: اس فارسی کہانی کا عنوان باران و اشک ہے جس کے مصنف بابا مقدم ہیں‌ اور اسے اردو کے قالب میں‌ نیّر مسعود نے ڈھالا ہے