Tag: عالمی ادب کے تراجم

  • ستّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

    جمی نے فیونا کو بہلانے کی کامیاب کوشش کی، اور کہا کہ وہ اینگس کے ساتھ مل کر اُس چیز کو پکڑنے کے لیے ایک پھندا لگائیں گے، بس اتنی سی بات ہے اس لیے اسے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ پھر وہ تینوں جیزے کے ساتھ نکل گئے۔ بچوں کے جانے کے بعد اینگس نے جمی سے پوچھا: ’’کیا وہ بھاگ گیا ہے؟‘‘ جمی نے جواب دیا: ’’ہاں، میں نے اسے اپنی طاقت کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔‘‘

    وہ دونوں اندر چلے گئے تو جمی نے کہا: ’’جیسا کہ تم اب جادوئی گولے اور اس کے تمام رازوں سے آشنا ہو گئے ہو، اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں آپ کو اپنی اصلیت کے بارے میں بتا ہی دوں۔‘‘

    اینگس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے بتاؤ، تمھارے پاس کیا راز ہے؟‘‘

    جمی بھی ایک کونے میں پڑے صوفے پر دھم سے بیٹھ گیا: ’’جونی کا نام آپ نے سنا ہوگا، وہ دراصل آلرائے کیتھمور ہے۔‘‘ جمی نے بتانا شروع کر دیا۔ اینگس کو حیرت کا اتنا زور دار جھٹکا لگا کہ وہ کرسی سے گرتے گرتے بچے۔ ’’آلرائے کیتھمور … یعنی تاریخ نویس … یہ کک … کیسے ممکن ہے … میرے پاس تو اس کی قدیم کتاب ہے۔‘‘

    ’’ہاں میں جانتا ہوں کہ تمھارے ہی پاس ہے وہ اور جادوئی گولا بھی تمھارے قبضے میں ہے۔‘‘ جمی کہنے لگا: ’’قصہ یہ ہے کہ کنگ کیگان کا جادوگر زرومنا جادوگروں کی سرزمین زیلیا لوٹ رہا تھا تو میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں منتقل ہونے کا طریقہ بتا دے۔ جب بھی یہ کتاب کھولی جاتی ہے آلرائے اپنے زمانے سے مستقبل میں چلا جاتا ہے۔ یہ کسی کو نہیں پتا لیکن یہ کتاب خود جادوئی ہے۔ فلسطین میں جب کنگ کیگان کہیں بھی دکھائی نہیں دیے تو ہم برسوں تک وہاں حیران و پریشاں گھومتے رہے۔ وہ جونی یونی آلرائے کیتھمور ہی تھا جس نے ان بارہ آدمیوں کو ڈھونڈ نکالا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے بعد ہم سب مختلف راہوں پر نکل گئے۔ ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں منتقل ہونے کا جو راز ہے، اس کا مستقبل والا حصہ اس وقت قلعہ آذر ہی میں ہے۔ اسی کے ذریعے ہم آج یہاں موجود ہیں۔ پہلی مرتبہ جب بچوں نے وہ کتاب ڈھونڈ نکالی اور اسے کھولا تو جونی وہاں پہنچ گیا، لیکن وہ خاموشی کے ساتھ وہیں قلعہ آذر ہی میں ٹھہرا رہا اور دیکھتا رہا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ جب اگلے دن بچے پھر قلعے میں آئے اور انھوں نے جادوئی گولا بھی ڈھونڈ لیا تو جونی پھر بھی وہیں رہا۔ تب اس نے فیونا کے بارے میں جانا۔ پھر جب جادوئی گولے میں پہلا قیمتی پتھر رکھا گیا تو میری واپسی ہوئی۔‘‘

    جمی ایک لمحے کے لیے ٹھہرا اور پھر بولنے لگا: ’’میرا نام کووان ہے، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے سیاہ آبسیڈین ہائیڈرا میں چھپایا تھا۔ جونی یعنی آلرائے نے ایک بس میں چڑھ کر فیونا کی ماں مائری کے ساتھ ایک اتفاقی ملاقات کا ڈراما رچایا اور پھر یہیں سے کہانی شروع ہو گئی۔ اسے معلوم تھا کہ جلد ہی میں بھی اب نمودار ہو جاؤں گا۔ پتھر حاصل کرنے کے لیے فیونا نے بلاشبہ بہت بہادری دکھائی۔ جس طرح اس نے پھندوں پر قابو پایا وہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ میرے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ کوئی اس اینٹ سے قیمتی پتھر نکال بھی سکتا ہے۔ وہ پھندے تیار کرنے کے لیے میں نے اور جادوگر زرومنا نے بہت سخت محنت کی تھی۔ ان سے بچ نکلنا بلاشبہ فیونا اور اس کے دوستوں کا ایک کارنامہ ہے، یقین جانو، مجھے فیونا اور اس کے دوستوں پر فخر محسوس ہوا۔ پھر جب آئس لینڈ میں بچوں نے دوسرے پتھر مرجان کو بھی حاصل کر لیا تو پونڈ، میرا مطلب ہے کہ جیزے بھی اس زمانے میں پہنچ گیا۔ جیسے جیسے فیونا اور اس کے ساتھی باقی ہیروں کو ڈھونڈ نکالتے جائیں گے، ہم بارہ ایک ایک کر کے نمودار ہوتے جائیں گے۔ لیکن میں آپ کو تنبیہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے جو پھندے تخلیق کیے ہیں وہ نہایت ہی خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘

    جمی پوری کہانی سنا کر خاموش ہو گیا تو اینگس نے اپنے سینے میں کافی دیر سے قید سانس کو ایک دم سے آزاد کر دیا۔ اینگس نے کافی طویل سانس کھینچی اور کہا: ’’تو یہ ہے تمھاری داستان … ہووں … کافی دل چسپ اور حیرت انگیز ہے۔ لیکن تم سب یہاں پہنچے کیسے؟ اور اُس وقت کیا ہوگا جب بارہ کے بارہ ہیرے جادوئی گولے میں نصب کر دیے جائیں گے؟‘‘

    اینگس نے یہ کہہ کر ایک چاکلیٹ اٹھا کر اسے توڑا، آدھا جمی کو دیا اور آدھا خود کھانے لگا۔ جمی نے چاکلیٹ منھ میں رکھتے ہوئے جواب دیا: ’’ہم بھی جونی کی طرح اسی ٹائم پورٹل کے ذریعے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں سفر کرتے ہیں۔ جب ہم ہیرے چھپانے جا رہے تھے تو جادوگر زرومنا نے ہمیں ٹائم پورٹل کو استعمال کرنے کا طریقہ بتا دیا تھا۔ ہاں جب سارے ہیرے جمع ہو جائیں گے تو آلرائے اور ہم بارہ اسے لے کر فلسطین جائیں گے، جیسا کہ صدیوں پہلے کنگ کیگان نے ہمیں حکم دیا تھا۔ جب جادوئی گولا مکمل ہو جائے گا اور کنگ کیگان اسے اپنے قبضے میں لے لیں گے تو ان کا خاندان ایک بار پھر ان سے آن ملے گا۔ اگرچہ وہ مر چکے ہیں لیکن ان کی موت سے چند ہی دن قبل جادوگر زرومنا نے انھیں ٹائم پورٹل دے دیا تھا۔ زرومنا نے کچھ ایسا انتظام کیا تھا کہ جیسے ہی آخری پتھر جادوئی گولے میں نصب ہوگا، وقت کنگ کیگان اور اس کے خاندان کے لیے پیچھے چلا جائے گا، اور وہ واپس اسی زمانے میں پہنچ جائیں گے جب انھیں قتل کیا جا رہا تھا۔ یہ دراصل انھیں قتل ہونے سے بچانے کے لیے ہے۔ زرومنا بھی ایک بار پھر جادوئی سرزمین زیلیا سے نکل کر اپنے آقا کی خدمت میں پہنچ جائے گا، اور اس کے بعد جادوئی گولا اس کی اصل سرزمین پہنچا دیا جائے گا۔‘‘

    جمی نے بات مکمل کر دی تو اینگس نے حیرت سے پوچھا: ’’تمھارا مطلب ہے کہ گولا یمن پہنچایا جائے گا؟‘‘

    (جاری ہے)

  • گلِ داؤدی

    گلِ داؤدی

    مازی چھائی پئی چِنگ کا باشندہ تھا۔ اُس کا خاندان گو کئی نسلوں سے گلِ داؤدی کا پرستار چلا آرہا تھا، مگر اُس نے تو اُن پھولوں کی چاہت میں سب کو مات کر دیا تھا۔ اُس کے کان میں بھنک پڑتی کہ ہزار کوس پر گلِ داؤدی کا کوئی نایاب پودا موجود ہے، تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑکر اُسے خریدنے وہاں پہنچ جاتا۔

    ایک دن نانچنگ سے ایک مہمان آیا اور بتایا کہ اُس کے عم زاد کے پاس گلِ داؤدی کی ایک دو ایسی قسمیں ہیں، جو شمال میں کہیں نہیں پائی جاتیں۔ بس پھر کیا تھا۔ ما زی سامانِ سفر باندھ نانچنگ جا پہنچا اور بڑی منّتوں سماجتوں کے بعد دو قلمیں لے کر ہی ٹلا۔ اُس نے قلمیں بڑی حفاظت سے لپیٹیں اور واپسی کے سفر پر ہولیا۔

    راہ میں اُسے ایک خوب صورت نوجوان ملا جو گدھے پر سوار تھا اور ایک منقّش چھکڑے کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ دونوں میں گفتگو شروع ہوگئی۔ نوجوان نے اپنا نام تھاؤ بتایا۔ اُس کے انداز سے بڑی شائستگی ٹپکتی تھی۔ مازی نے اپنے مشغلے کا ذِکر کیا تو وہ کہنے لگا، ’’گلِ داؤدی بذاتِ خود تو بڑا معمولی پھول ہے۔ اصل چیز تو باغ باں ہے جو اُسے بناتا سنوارتا ہے۔‘‘ یوں گلِ داؤدی اُگانے کے طریقے بھی موضوعِ سخن رہے۔

    مازی اُس کی باتیں بڑی دل چسپی سے سنتا رہا اور باتوں باتوں میں پوچھنے لگا، ’’ آپ لوگ کدھر جارہے ہیں؟‘‘

    ’’میری بہن نانچنگ سے اُکتا گئی تھی۔ اب ہم شمال میں کہیں آباد ہونا چاہتے ہیں۔‘‘ نوجوان نے جواب دیا۔

    ’’میں گو تہی دست آدمی ہوں، پھر بھی، برُا نہ مانیں تو میرا غریب خانہ حاضر ہے۔ میں مکان کا ایک حصّہ آپ لوگوں کے لیے الگ کر دوں گا۔‘‘ مازی نے تجویز پیش کی۔

    نوجوان بہن سے مشورہ لینے چھکڑے کے پاس گیا اور اُس نے پردہ ہٹایا تو مازی نے دیکھا کہ وہ بیس بائیس سال کی من موہنی سی لڑکی تھی۔ وہ بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے بولی، ’’ کمرے بے شک معمولی ہوں، پَر صحن بڑا ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ چنانچہ وہ مازی کے ہمراہ پئی چِنگ آگئے۔

    مازی کے گھر کی جنوبی سمت ایک مکان اور بڑا سا احاطہ تھا۔ تھاؤ کو جگہ بھا گئی اور بہن بھائی نے وہاں ڈیرا ڈال لیا۔ تھاؤ روزانہ مازی کے صحن میں آکر اُس کے پودوں کی دیکھ بھال کرتا۔ وہ سوکھے پودوں کو جڑ سے اُکھاڑ کے دوبارہ لگاتا تو وہ دنوں میں پھر سے ہرے بھرے ہو جاتے۔ بہن بھائی بہت ہاتھ کھینچ کے گزر اوقات کرتے، اپنے گھر میں پکانے کے بجائے مازی کے ہاں ہی دونوں وقت کھانا کھاتے۔

    مازی کی بیوی کو لڑکی بڑی اچھی لگی اور دونوں میں خوب گاڑی چھننے لگی۔ وہ اکثر کھانے پینے کی چیزیں اُن کے ہاں بھجوا دیتی۔ لڑکی کا نام ہوانگ ینگ تھا۔ بڑی ہنس مکھ اور چلبلی۔ وہ اکثر مازی کی بیوی کے ہاں جاتی اور سلائی کے کام میں اُس کی مدد کرتی۔
    ایک دن تھاؤ نے مازی سے کہا، ’’ دوست، آپ کا کنبہ بھی کچھ زیادہ خوش حال نہیں۔ اُدھر ہمارا بوجھ بھی آن پڑا ہے۔ یوں سلسلہ کب تک چلے گا۔ سوچتا ہوں گزر اوقات کے لیے گلِ داؤدی بیچنا شروع کر دوں۔‘‘

    مازی کی خود داری کو سخت ٹھیس پہنچی۔ اُس نے کہا ، ’’میں تو تمہیں غریبی میں خوش رہنے والا آزاد منش عالم سمجھا تھا۔ گلِ داؤدی کو کاروبار کا وسیلہ بنانا میں اِس پھول کی توہین سمجھتا ہوں۔‘‘ مازی نے جواب دیا۔

    ’’روزی کمانے کی خاطر کوئی کام کرنا اور دولت کی حرص رکھنا، دو بالکل مختلف باتیں ہیں۔‘‘ تھاؤ مسکراتے ہوئے بولا، ’’ گل فروشی میں کوئی اہانت کی بات نہیں۔ مانا کہ انسان کو حریص نہیں ہونا چاہیے، مگر مفلسی کو ذریعۂ عزت سمجھنا بھی کوئی دانائی کی بات نہیں۔‘‘

    مازی نے کوئی جواب نہ دیا اور تھاؤ اُٹھ کر چلا گیا۔ مازی نے جو قلمیں اور پودے بیکار سمجھ کر پھینک دیے تھے، تھاؤ بعد میں وہ سب اٹھا لے گیا لیکن بِن بلائے آنے جانے سے احتراز کرنے لگا۔

    گلِ داؤدی کھلنے کا موسم آپہنچا۔ ایک دن مازی تھاؤ کے دروازے پر شور شرابا سُن کر باہر نکلا اور وہاں پھول خریدنے والوں کا ہجوم دیکھ کر حیرت سے دم بخود رہ گیا۔ لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ وہ ایسے ایسے نایاب پھول اور پودے خرید کر لے جارہے تھے جو مازی نے کبھی دیکھے تک نہ تھے۔ تھاؤ کا کاروباری انداز دیکھ کر مازی سخت دل برداشتہ ہوا اور اُس سے قطع تعلق کا سوچنے لگا، مگر ساتھ ہی دل میں یہ خواہش بھی چٹکیاں لے رہی تھی کہ کسی صورت کچھ نایاب پھول اور پودے حاصل کر لے۔ وہ کچھ جلی کٹی سُنانے کے خیال سے تھاؤ کے دروازے پر پہنچا تو تھاؤ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا۔

    عجیب منظر تھا، سارا صحن پھولوں اور گملوں سے اَٹا پڑا تھا، تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ رنگ رنگ کے پھول عجب بہار دکھا رہے تھے۔ مازی نے غور سے دیکھا تو ان میں سے بیشتر وہی قلمیں اور پودے تھے جو اس نے بیکار سمجھ کر اکھاڑ پھینکے تھے۔

    اتنے میں تھاؤ اندر سے شراب اور کھانے پینے کی چیزیں اُٹھا لایا اور پھولوں کے قریب میز بچھاتے ہوئے از راہِ تفنّن بولا، ’’مفلسی نے سارے کَس بل نکال دیے تھے۔ اب دیکھیے آج میں بھی آپ کی تواضع کے قابل ہوگیا۔ پچھلے چند دنوں میں کچھ آمدنی ہوگئی ہے۔‘‘

    تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ بہن نے اُسے پکار لیا۔ وہ اندر گیا اور لپک جھپک چند نفیس اور سلیقے سے پکی ہوئی چیزیں اُٹھا لایا۔

    مازی اُس سے پوچھنے لگا، ’’ تمہاری بہن نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟‘‘

    ’’ابھی وقت نہیں آیا۔‘‘ تھائو نے جواب دیا۔

    ’’وہ وقت کب آئے گا؟‘‘

    ’’آج سے ٹھیک تینتالیس مہینے بعد۔‘‘

    ’’یہ تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ رہے ہو؟‘‘ تھاؤ مسکراکر چپکا ہو رہا اور ہنسی خوشی کچھ وقت بتانے کے بعد مازی گھر لوٹ آیا۔

    اگلے روز مازی پھر آگیا اور یہ دیکھ کر مبہوت رہ گیا کہ تھاؤ نے پچھلے روز جو قلمیں لگائی تھیں، وہ کوئی بالِشت بالشت بھر لمبی ہوچکی ہیں۔ اُس نے سبب جاننا چاہا تو تھاؤ نے جواب دیا:

    ’’یہ ایک راز ہے۔ یوں بھی آپ پھولوں کو وسیلۂ روزگار تو بنائیں گے نہیں۔ پوچھنے یا بتانے سے کیا حاصل؟‘‘

    چند دن بعد تھاؤ نے پھول چٹائیوں میں لپیٹے اور چھکڑے بھر کے سفر پر نکل گیا اور اگلے سال وسطِ بہار میں جنوب سے عجیب و غریب پھول لیے لوٹ آیا۔ اُس نے دارالحکومت میں پھولوں کی دکان کھولی اور دس روز میں سارے پھول بیچ کر پھر سے پھول اُگانے میں مشغول ہوگیا۔ اُس کے دروازے پر پھر خریداروں کا ہجوم رہنے لگا۔ جن لوگوں نے پچھلے سال پودے خریدے تھے، وہ پھر سے پھول خریدنے آئے کیوں کہ موسم بیتتے ہی پودے سوکھ گئے تھے۔ تھاؤ خوب مال کمانے لگا۔

    سال بھر بعد انہوں نے مکان میں کچھ توسیع کرائی اور اُس سے اگلے ہی سال ایک حویلی بنوا لی۔ اب انہیں مازی کے سہارے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ صحن میں پھولوں کے تختوں سے جگہ رکنے لگی تو انہوں نے ایک اور قطعہ خرید کر اردگرد دیوار چنوائی اور اُسے بھی چمن زار بنا دیا۔ پت جھڑ میں تھاؤ نے پھر پودے چھکڑوں پر لادے اور جنوب کو چلا گیا۔

    اوائلِ بہار میں، جب وہ ہنوز جنوب ہی میں تھا، مازی کی بیوی بیمار ہوئی اور انتقال کرگئی۔ مازی تھاؤ کی بہن سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے مشاطہ کو بھیجا تو لڑکی یوں مسکرائی، گویا اُسے انکار نہ تھا، تاہم جواباً کہلوا بھیجا کہ وہ بھائی کی واپسی تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔

    سال بھر سے زیادہ عرصہ بیت گیا لیکن تھاؤ واپس نہ آیا۔ ہوانگ ینگ نوکروں کی مدد سے حسبِ معمول پھول اُگاتی رہی اور ہن برستا رہا۔ اُس نے سات سو ایکڑ زمین بھی خریدی اور حویلی کی ٹیپ ٹاپ کروا کے اُسے اور زیادہ خوب صورت بنا دیا۔ انہی دنوں کی بات ہے، مازی کا ایک دوست مشرقی کوانگ تونگ سے تھاؤ کا خط لے کر آیا۔

    خط میں اُس نے مازی کو تاکید کی تھی کہ ہوانگ ینگ سے شادی کر لے۔ خط پر تاریخ وہی تھی جس روز مازی کی بیوی کا انتقال ہوا تھا۔ ٹھیک تینتالیس مہینے! تھاؤ نے باغ میں کھانا کھاتے ہوئے تینتالیس مہینے ہی بتائے تھے! اُس نے کچھ حیرانی کی کیفیت میں خط ہوانگ ینگ کو دکھایا اور پوچھا، ’’ بری کہاں بھیجوں؟‘‘ ’’بری کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ لڑکی نے انکار کرتے ہوئے کہا اور چونکہ مازی کا مکان بھی یونہی سا تھا، لہٰذا اصرار کرنے لگی کہ وہ اُس کی حویلی میں منتقل ہو جائے۔ یہ بات مازی کو گوارا نہ تھی۔

    شادی کے بعد ہوانگ ینگ نے یہ کیا کہ اپنی حویلی اور مازی کے مکان کی سانجھی دیوار میں ایک دروازہ نکلوا لیا۔ مازی کو بیوی کے ٹکڑوں پر پڑے رہنا بہت کَھلتا تھا، چنانچہ بیوی پر زور دینے لگا کہ وہ دونوں گھروں کا حساب کتاب الگ الگ رکھے۔ لیکن وہ جب چاہتی اور جو چاہتی حویلی سے لے آتی، یوں کوئی چھ مہینے بھی نہ ہوئے تھے کہ مازی کا سارا گھر تھاؤ کی چیزوں سے بھر گیا۔ اُس نے اپنے نوکروں سے کہا کہ ساری چیزیں اُٹھا کر واپس حویلی میں رکھ آئیں اور خیال رکھیں کہ ایک بھی شے دوبارہ اِدھر نہ آنے پائے۔ مگر دس دن کے اندر اندر ہی پھر وہی کیفیت ہو گئی۔ جب کئی بار ایسا ہوچکا تو مازی جھِلّا اٹھا۔

    ہوانگ ینگ کھِلکھِلا کر ہنس دی اور چھیڑتے ہوئے بولی، ’’ تم ابھی تک اپنی غریبی اور ایمان داری سے اُوبے نہیں؟‘‘

    مازی آخر راضی برضا ہوگیا اور سارے معاملات بیوی پر چھوڑ دیے۔ ہوانگ ینگ نے کاری گر بلوائے اور مازی کا مکان ازسرِ نو بنوانا شروع کردیا اور چند ماہ کے اندر اندر حویلی اور مکان ایک ہوگئے۔ گو مازی کے کہنے پر اُس نے گُل فروشی ترک کردی، مگر وہ ہنوز امرا کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ زندگی کا یہ آرام و آسائش دیکھ کر مازی جھلا اٹھتا، ’’میں نے تیس برس فروتنی میں گزاردیے لیکن اب، اب میں تمہارا محتاج ہو کر رہ گیا ہوں۔ یہ زندگی مرد کے شایانِ شان نہیں! لوگ تو دولت مند بننے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں، لیکن میں پھر سے مفلسی کے اُسی عالم میں جانا چاہتا ہوں!‘‘

    ’’تم ایسی باتیں نہ سوچا کرو۔‘‘ ہوانگ ینگ جواب دیتی۔ ’’ میں کچھ پیسہ جمع کرنا چاہتی ہوں، ورنہ لوگ ٹھٹھا اڑاتے رہیں گے کہ تھاؤ یوان مینگ(چوتھی صدی عیسویں کا مشہور چینی شاعر جسے گلِ دائودی سے عشق تھا) کی اولاد، سو پیڑھیوں کے بعد بھی غریب کی غریب ہی رہی۔ میں نہیں چاہتی کہ لوگ ہمارے خاندان کے اس شاعر کا مذاق اُڑائیں۔ غریب کے لیے امیر بننا مشکل ہوتا ہے لیکن امیر کے لیے مفلسی کے گڑھے میں گرنا بے حد آسان ہوتا ہے۔ چاہو تو ہماری ساری دولت اللّے تللّوں میں اڑا دو۔ میں حرفِ شکایت زبان پر نہ لاؤں گی۔‘‘

    ’’اِس سے زیادہ ذِلت کی بات اور کیا ہوگی کہ آدمی دوسرے کے پیسوں پر عیاشی کرے۔‘‘
    ’’ تم دولت نہیں چاہتے اور مجھے مفلسی کی خواہش نہیں۔ تو پھر کیوں نہ ہم الگ ہو جائیں؟ تم اپنے اصولوں کے ساتھ سادہ زندگی گزارو اور یہ گھٹیا عیش و آرام میرے لیے چھوڑ دو…کیا خیال ہے؟‘‘

    اب مازی کے لیے باغ میں ایک جھونپڑا بنایا گیا اور ہوانگ ینگ نے کچھ حسین و جمیل باندیاں اُس کی خدمت پر مامور کر دیں۔ شروع شروع میں تو وہ خاصا خوش رہا، لیکن چند ہی دنوں بعد تنہائی اُسے ڈسنے لگی۔ بیوی کو بلواتا تو وہ اِدھر اُدھر کے بہانے کر دیتی اور مجبوراً اُسے خود بیوی کے پاس جانا پڑتا اور ہوتے ہوتے اُس نے ہر دوسرے دن حویلی میں جانا شروع کردیا۔

    ایک دن بیوی نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’ یہ کہاں کی شرافت ہے کہ آدمی کھائے تو ایک گھر میں اور رہے دوسرے میں۔‘‘مازی کھسیانا سا ہوگیا اور دونوں پھر اکٹھے رہنے لگے۔

    پت جھڑ میں جب گلِ داؤدی کے شگوفے کھِل رہے تھے، مازی کسی کام سے نانچنگ گیا۔ ایک صبح وہ بازار سے گزرا تو پھولوں کی ایک دکان دکھائی دی۔ دکان میں پھول اِس نفاست سے سجے تھے کہ مازی کے خیال کی رو تھاؤ کی طرف بہہ نکلی۔ اگلے ہی لمحے مالک باہر آگیا۔ وہ تھاؤ ہی تھا! دونوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ دونوں بیٹھے دیر تک باتیں کرتے رہے۔

    مازی نے رات اُسی کے ہاں گزاری اور اصرار کرتا رہا کہ وہ پئی چِنگ چلا چلے۔ تھاؤ نے جواب دیا، ’’نانچنگ میرا وطن ہے۔ میں یہیں شادی کرکے گھر بساؤں گا۔ میں نے کچھ رقم پس انداز کر رکھی ہے، وہ آپ لے جائیں اور میری بہن کو دے دیں۔ سال بعد آکر اُس سے ملوں گا۔‘‘

    لیکن مازی نے اُس کی ایک نہ سنی اور یہی کہتا رہا، ’’ ہمارا کنبہ اب کافی خوش حال ہے۔ زندگی کے باقی دن بڑے چین سے گزر جائیں گے ۔ تمہیں یہ دکان داری کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔‘‘ اُس نے نوکروں کو پھولوں کے دام گرانے کا حکم دیا اور دو تین دن میں ہی سارے پھول بک گئے۔ پھر تھاؤ کا اسباب بندھوایا اور وہ کشتی سے شمال کو چل دیے۔ گھر پہنچے تو ہوانگ ینگ نے کمرے، بچھونا، غرض ہر شے تیار کر رکھی تھی، گویا اُسے تھاؤ کی آمد کا پہلے ہی سے علم تھا۔

    تھاؤ نے آتے ہی باغ کو اور زیادہ خوب صورت بنایا اور پھر سارا وقت مازی کے ساتھ شطرنج اور مے نوشی میں بتانے لگا۔ مازی نے شادی پر زور دیا تو اُس نے انکار کر دیا۔ چنانچہ بہن نے دو باندیاں بھجوا دیں اور تین چار سال بعد اُس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔

    تھاؤ شراب کا رسیا تھا، ایک بار مازی کا ایک دوست زنگ جو بلا کا شرابی تھا، ملاقات کو آیا، تو مازی نے دونوں کو مقابلے پر اُکسایا۔ صبح سے رات ڈھلے تک دونوں میں سے کسی نے ہار نہ مانی۔ آخر زنگ پیتے پیتے میز پر ہی سوگیا اور تھاؤ مدہوشی کے عالم میں لڑکھڑاتا ہوا اپنے کمرے کو چل دیا، لیکن باہر نکلتے ہی پائوں رپٹا اور وہ گلِ داؤدی کے ایک تختے پر گر پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے گل داؤدی کے قدِ آدم پیڑ کا روپ دھار گیا، جس پر دس بارہ پھول کھلے ہوئے تھے۔ ہر پھول انسانی مٹھی جتنا بڑا تھا!

    یہ سارا منظر دیکھ کر مازی کے اوسان خطا ہوگئے اور ہوانگ ینگ کو بلا لایا۔ ہوانگ ینگ بھاگم بھاگ آئی اور درخت کو اکھاڑ کر زمین پر لٹاتے ہوئے بولی، ’’ تم اِس قدر نشے میں کیسے آگئے؟‘‘اُس نے درخت کو کپڑے سے ڈھانپا اور مازی کو ساتھ لیے وہاں سے ہٹ گئی۔ صبح مازی نے آکر دیکھا تو تھاؤ پھولوں کے تختے کے پاس ہی زمین پر چت لیٹا تھا۔ اُسے جب یہ علم ہوا کہ بہن بھائی گلِ داؤدی کی روحیں ہیں تو وہ انہیں اور بھی پیار اور احترام کی نظروں سے دیکھنے لگا۔

    تھاؤ کا بھید جو کھلا، تو وہ پہلے سے کہیں زیادہ بے احتیاطی سے شراب پینے لگا۔ وہ اکثر زنگ کو بلوا بھیجتا اور دونوں کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔ ’’ فصلِ گل‘‘ کے تہوار پر زنگ شراب کا بڑا سا مٹکا لیے آپہنچا، جس میں جڑی بوٹیاں بھی کشید کی ہوئی تھیں۔ دونوں میں مقابلہ شروع ہوگیا۔ مٹکا خالی ہونے لگا مگر اُن کی پیاس بڑھتی گئی۔ مازی نے مٹکے میں مزید شراب ڈال دی اور دونوں وہ بھی چڑھا گئے۔ آخر زنگ مدہوش ہو گیا اور اُس کے نوکر اُسے اُٹھا کر لے گئے۔ اُدھر تھاؤ زمین پر گرا اور ایک بار پھر گلِ داؤدی کے پیڑ کا روپ دھار گیا۔ مازی کو اب کے کوئی حیرت نہ ہوئی۔ اُس نے ہوانگ ینگ کی طرح درخت کو جڑ سے اُکھاڑا اور قریب ہی بیٹھ گیا۔ وہ آواگون کا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ پتّے مرجھانے لگے تو وہ گھبرا گیا اور ہوانگ ینگ کو بلانے چلا گیا۔

    ہوانگ ینگ سارا واقعہ سُن کر شدتِ غم سے رو دی،’’تم نے میرے بھائی کو مار ڈالا!‘‘ وہ بھاگم بھاگ باہر آئی تو جڑیں چرُمرانی شروع ہوچکی تھیں۔ اُس نے تنے کو کاٹا اور جڑ گملے میں دبا کر اپنے کمرے میں لے آئی۔ وہ ہر روز اُسے پانی دینے لگی۔ ادھر مازی اپنے کیے پر سخت پچھتا رہا تھا۔ اُسے زنگ پر بھی سخت غصّہ تھا، لیکن چند دن بعد ہی اطلاع مِلی کہ وہ کثرتِ شراب نوشی کے سبب مر گیا تھا۔ تھوڑے دنوں میں گملے سے کونپلیں پھوٹ نکلیں اور نویں مہینے کلیاں کھِل اٹھیں۔ اُس کا تنا چھوٹا سا تھا اور پھولوں میں شراب کی سی مہک تھی۔ لہٰذا انہوں نے پودے کا نام ’’ شرابی تھاؤ‘‘ رکھ دیا۔ اُسے پانی کے بجائے شراب دی جاتی تو خوشبو اور بھی مستانی ہوجاتی۔ وقت بیتتا گیا۔ تھاؤ کی بیٹی بیاہ کر ایک اعلیٰ نسب خاندان میں چلی گئی۔ ہوانگ ینگ نے بڑی لمبی عمر پائی۔ تاہم اُس کے بعد کوئی غیر معمولی واقعہ دیکھنے میں نہ آیا۔

    داستان گو لکھتا ہے: کوئی انسان جس کا اصل مقام شاداب پہاڑوں اور سفید اَبرپاروں میں ہو، شراب نوشی میں جان دے دے تو دنیا اُس کے لیے نوحہ گر ہو جاتی ہے، مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ خود اُس شخص نے ایسی موت میں لذّت پائی ہو؟ کسی کے صحن میں ایسے پھول کا وجود اچھے دوست یا کومل حسینہ کے قرُب سے کم نہیں۔ مجھے ایسے ہی پھول کی جستجو ہے!

    (چین کی ایک خوب صورت لوک کہانی جس کے مصنّف پھُوسونگ لینگ اور اور اس کہانی کا اردو ترجمہ رشید بٹ نے کیا ہے)

  • عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے جو سماجی برائیوں، خامیوں اور مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے نظام کو بدلنے میں‌ مددگار ثابت ہوا۔ اس عظیم تخلیق کار نے 9 جون 1870ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    باذوق قارئین اور ناول کے شیدائیوں‌ نے چارلس ڈکنز کے ناول اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز جیسی کہانیاں‌ ضرور پڑھی ہوں گی، یہ ناول عالمی ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں اور آج بھی کیمبرج کے نصاب کا حصّہ ہیں۔

    چارلس ڈکنز نے 7 فروری 1812ء کو انگلینڈ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کے والد بحریہ میں کلرک تھے جب کہ والدہ تدریس کے شعبے سے منسلک تھیں۔ اس کے باوجود اس کنبے کے مالی حالات کچھ بہتر نہ تھے اور 1822ء میں حالات اس وقت مزید بگڑے جب ڈکنز کے والد فضول خرچی اور عیّاشی کے ہاتھوں‌ مجبور ہو کر مقروض ہوگئے اور پھر انھیں‌ جیل جانا پڑا۔

    12 سالہ چارلس ڈکنز کو اس واقعے کے بعد فیکٹری میں ملازمت کرنا پڑی۔ اس کا بچپن فیکٹری میں دن رات کام کرتے گزرا، اسے کم اجرت ملتی تھی جب کہ جبر و استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اس کے ذہن پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ اس دور کی جھلکیاں اس کے ناول ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ‘‘ میں نظر آتی ہیں۔

    15 سال کی عمر میں‌ چارلس ڈکنز نے آفس بوائے کی حیثیت سے ایک ادارے میں ملازمت اختیار کر لی اور یہیں اس نے لکھنا شروع کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ وہ برطانیہ کا مقبول ترین فکشن نگار اور سماجی دانش وَر بنا۔ دنیا بھر کی زبانوں‌ میں‌ اس کے ناولوں‌ کا ترجمہ ہوا۔ چارلس ڈکنز نے اپنی کہانیوں کے لیے جو کردار تخلیق کیے وہ آج بھی مقبول ہیں۔ ان کے ناول پر ایک فلم Great Expectations بھی بنائی گئی تھی جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ چارلس ڈکنز کو ایک عظیم تخلیق کار ہی نہیں برطانوی سماج کا محسن بھی مانا جاتا ہے جس نے معاشرے میں سدھار لانے اور مثبت تبدیلیوں کا راستہ ہموار کیا۔

  • ترجمہ نام ہے ایک سعیِ نامشکور کا…

    ترجمہ نام ہے ایک سعیِ نامشکور کا…

    ”عالی ادب کو ایک ٹھوس حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے ترجمہ ایک ناگزیر وسیلہ ہے۔“

    یہ خیال تقابلی ادبیات کے فرانسیسی نژاد امریکی پروفیسر آلبیر ژیرار (Albert Gerard) نے اپنی عمدہ تصنیف ”مقدمۂ ادبِ عالم“ میں ظاہر کیا تھا، لیکن ساتھ ہی بڑی درد مندی سے یہ ٹھوس حقیقت بھی تسلیم کی تھی کہ ”ترجمہ نام ہے ایک سعیِ نامشکور کا جس کے صلے میں، شدید مشفقت کے بعد، صرف حقارت ملتی ہے۔“

    یہ فقرہ آج سے کوئی آدھی صدی پہلے لکھا گیا تھا، جب نوبیل انعام اور دوسرے بین الاقوامی امتیازات کے خواہش مند ادیب مترجمین کی تلاش میں سرگرداں نہیں پھرتے تھے، اور نہ عالمی ادب کے تراجم مقبولِ عام پیپر بیک ایڈیشنوں میں شائع ہوا کرتے تھے۔ تاہم دیکھا جائے تو اب بھی صورتِ حال میں نہایت معمولی سا فرق پڑا ہے۔

    مغرب میں ترجمے کا ”حقُ الخدمت“ پہلے سے زیادہ تسلیم کیا جا چکا ہے اور مترجم کا نام اب کتاب کے سرورق پر بھی چھپنے لگ گیا ہے۔ اس کے علاوہ تقابلی ادبیات کا مطالعہ دنیا کی بہت سی یونیورسٹوں میں شروع ہو چکا ہے (چناں چہ ”پاکستان ادب، بہ شکلِ ترجمہ“ ایک مضمون کے طور پر امریکا اور کناڈا میں پڑھایا جا رہا ہے)۔ ترجمے کا عام معیار بھی غالبًا پہلے سے بہتر ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود، کم سے کم تیسری دنیا کے اس حصے میں، جہاں اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، ترجمے کو اب تک حقارت ہی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، حالاں کہ یہی حقیر کام کم سے کم مغرب میں ایسے لوگوں نے بھی انجام دیا ہے جو اپنی اپنی زبانوں کی آبرو تھے۔

    انگریزی میں چوسر سے لے کر ڈرائیڈن، پوپ، کولرج اور براؤننگ تک، اور بیسویں صدی میں لارنس، ییٹس، پاؤنڈ، ایلیٹ، آڈن اور بیکٹ تک نے یہ کام کیا ہے۔ فرانسیسی میں بودلیر سے لے کر آندرے ژیدتک کتنے ہی بڑے فن کاروں نے خود کو مترجم کہلانے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کی (بلکہ ژید نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ہر ادیب کے لیے لازم ہے کہ عالمی ادب کا کم سے کم ایک شاہکار اپنی زبان میں منتقل کرے)۔ جرمن زبان میں گوئٹے کے علاوہ شلّر، اور روسی زبان میں پاسترناک کے تراجم کی اہمیت مسلم ہے۔ (گوئٹے نے آٹھ دس زبانوں سے ترجمہ کیا ہے اور پاسترناک کو شیکسپیئر کے عمدہ ترین مترجمین میں شمار کیا جاتا ہے۔) پھر یہ بھی نہیں کہ اتنے بڑے لکھنے والوں نے یہ کام محض پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیا ہو یا اس کو لڑکپن کا ایک مرحلہ تربیت سمجھا ہو، انہوں نے تو اپنی پوری شخصیت اور ادبی شہرت کو داؤ پر لگا کر یہ کام کیا ہے۔

    بیسویں صدی کے اردو ادب میں پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم سے لے کر اختر حسین رائے پوری، سعادت حسن منٹو، عزیز احمد، محمد حسن عسکری، قرةُ العین حیدر اور انتظار حسین تک نے نثری ادب کا ترجمہ کیا ہے اور اقبال سے لے کر فیض، راشد، فراق، میراجی، مجید امجد اور شان الحق حقّی جیسے شاعروں نے شعری ادب کے تراجم کیے ہیں۔

    ان میں سے کون ہے جس نے کسی بھی دوسری شخصیت کا ضمیمہ بننا قبول کیا ہو؟ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ تخلیقِ ادب کے مقابلے میں ترجمے کا کام نفیِ خودی کا مظہر ہے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ پھر یہ کام اثباتِ خودی کے پیغمبر حضرتِ علامہ نے کیوں انجام دیا؟ شاید اس لیے کہ اسرارِ خودی ہی سے نہیں، رموزِ بے خودی سے بھی ان کا رشتہ اتنا ہی گہرا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کا اصولِ حیات انفرادیت پرستی اور غیر جمہوری معاشرتوں کا فلسفۂ زندگی اجتماعیت پرستی ہے، اس کے باوجود مغربی یورپ اور امریکا میں علمی، ادبی اور اجتماعی ادارے صدیوں سے چل رہے ہیں اور مشرقی یورپ اور روس میں انفرادی کمال کا حصول ناممکن نہیں۔ اس کے برعکس تیسری دنیا کے بڑے حصّے میں نہ انفرادی جوہر درجہ کمال تک پہنچتے پاتا ہے، نہ تہذیبی تعاون کی صورت پیدا ہوتی ہے، بلکہ دونوں کی جگہ ایک ناپختہ انانیت پسندی اور غرض مندانہ بد انتظامی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں ترجمے کا کام کسی اعلیٰ پیمانے پر کہاں سے ہو؟

    ترجمے کا تو اصلُ الاصول ہی تعاون ہے: مصنف سے تعاون، قاری سے تعاون، اصل زبان سے تعاون، اپنی زبان سے تعاون، موضوعِ کتاب کے خصوصی ماہرین سے استمداد بلکہ مختلف قسم کے پیشہ وروں کے تعاون کے حصول بھی لازم ہے، تا کہ عمومی سطح پر استعمال ہونے والے اصطلاحی الفاظ کا زندہ مفہوم سمجھ میں آئے، ورنہ علم و ادب کا رابطہ زندگی سے کٹ کر رہ جائے گا۔ چناں چہ ترجمہ ایک نہایت مشقت طلب کام ہے اور جو طبیعتیں اس کے خلاف تعصب اور مزاحمت سے کام لیتی ہیں، در حقیقت محنت سے جان چُراتی ہیں۔ ایسے میں تخلیقی الہام اور آمد پرستی سے بہتر بہانہ کیا ہو سکتا ہے؟

    ترجمہ ایک فن ہے اور جملہ فنون کی طرح اس فن میں بھی کمال اور بے کمالی کے ہزاروں مدارج موجود ہیں۔ جورج اسٹاینر(George Steiner) کا کہنا ہے کہ ننانوے فی صد تراجم ناقص ہوتے ہیں۔ (اور طبع زاد تحریریں کتنے فی صد ناقص نہیں ہوتیں؟) پھر ترجمے کی بہت سی اقسام ہیں کہ یہ کام تو بازار سے لے کر اقوامِ متحدہ تک اور اخبار سے لے کر وی سی آر تک کسی نہ کسی شکل میں چلتا ہی رہتا ہے، چاہے محض چالو قسم کا ہو۔

    عام زندگی میں بھی ترجمے کا معیار قدرے بہتر ہو سکتا ہے اگر اس کو، فن کے طور پر نہ سہی، ایک روزمرہ ہُنر ہی کی طرح سیکھنے سکھانے کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔ فن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ محض تعلیم و تعلم سے نہیں آتا، اگرچہ اس میں بھی ایک عنصر ہنر کا ضرور ہوتا ہے جو ماہرانہ تربیت سے نکھر سکتا ہے، لیکن ترجمے کا ہنر اس لحاظ سے خاصا پیچیدہ ہے کہ اس میں دہری تہری صلاحیت کی ضرورت پڑتی ہے۔

    متن کی زبان اور اپنی زبان تو خیر آنی ہی چاہیے۔ اُس موضوع کے ساتھ بھی طبعی مناسبت درکار ہے جو متن میں موجود ہے۔ مصنف سے بھی کوئی نہ کوئی نفسیاتی مماثلت لازمی ہے، اور اُس صنفِ ادب یا شاخِ علم سے بھی جس سے متن پیوست ہے، مترجم کو پیوستگی حاصل ہو، تب شاید ترجمہ چالو معیار سے اوپر اٹھ سکے۔

    (مظفر علی سید کے مضمون ’ ترجمے کی جدلیات‘ سے اقتباس)