Tag: عالمی ادب

  • چرواہے کی دانش مندی

    چرواہے کی دانش مندی

    کچھ لوگ ایک گمشدہ اونٹ کو تلاش کرتے ہوئے جب ایک نخلستان سے گزرے تو وہاں‌ انہیں وہاں ایک بوڑھا چرواہا ملا۔

    انہوں نے اس سے کہا۔ ’’بھائی ہمارا اونٹ یہاں چر رہا تھا۔ کیا تم نے دیکھا ہے؟‘‘

    چرواہے نے پوچھا۔ ’’کیا تمہارا اونٹ بائیں آنکھ سے کانا ہے؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’کیا وہ ایک پیر سے لنگڑا ہے؟‘‘

    ’’ہاں ۔۔۔ ہاں!!‘‘

    ’’کیا اس کے آگے کے دو دانت ٹوٹے ہوئے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، ہاں۔۔۔بتاؤ وہ کہاں ہے؟‘‘

    ’’میں نے اسے نہیں دیکھا۔‘‘

    ان لوگوں کو چرواہے کی بات کا یقین نہیں آیا۔ کیوں کہ وہ ان کے اونٹ کی جو نشانیاں بتا رہا تھا، وہ بالکل درست تھیں۔ انہیں‌ یقین تھا کہ اس نے ان کے اونٹ کو دیکھا ہے یا وہ یہ جانتا ہے کہ اونٹ کہاں‌ ہے مگر اب بتانا نہیں‌ چاہتا۔ چنانچہ وہ اسے پکڑ کر قاضی کے پاس لے گئے اور سارا ماجرا کہا۔ قاضی صاحب نے بھی حیرت سے پوچھا ۔

    ’’جب تم نے اونٹ نہیں دیکھا تو اس کے بارے میں اتنی باتیں کیسے بتا دیں؟‘‘

    چرواہے نے جواب دیا۔ ’’حضور اونٹ نے دائیں طرف کی گھاس کھائی تھی اور بائیں جانب کی چھوڑ دی تھی۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ بائیں آنکھ سے محروم تھا۔ پھر جہاں اس نے گھاس کھائی تھی وہاں تھوڑی تھوڑی گھاس رہ گئی تھی جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے دو دانت ٹوٹے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے چاروں پیروں کے نشانات میں سے ایک پاؤں کا نشان ہلکا تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لنگڑا تھا۔

    (مشہور عربی لوک کہانی کا اردو ترجمہ)

  • 2021 ادب کے لیے کیسا رہا؟

    2021 ادب کے لیے کیسا رہا؟

    تخلیق ہر دور کے انسان کا جوہر اور ادب ہر تہذیب کا خاصہ رہا ہے۔

    دنیا کی کسی بھی زبان میں اہلِ قلم جب اپنے افکار و خیالات، زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو تخلیقی وفور اور جمالیاتی حس کے ساتھ الفاظ میں ڈھالتے ہیں تو ادب تشکیل پاتا ہے۔ آج گلوبل ولیج میں ادیب اور شاعر کی خوشیاں اور دکھ مشترک ہیں اور انھیں کئی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ اب انگلیوں کی پوروں میں‌ سمٹی ہوئی دنیا کا جیتا جاگتا انسان مصنوعی ذہانت کا اسیر اور ڈیجیٹل ورلڈ کا شیدائی ہے۔ ٹیکنالوجی کی اسی اثرپذیری نے ادبی مذاق، میلانِ طبع اور رجحان کو بھی تبدیل کیا ہے جس کے مطابق ادب تخلیق کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

    اگر آج کا ادیب اور شاعر اُن موضوعات کا بہتر ادراک کرسکے جو کسی مخصوص تہذیب، خطّے یا معاشرے کے کسی ایک گروہ سے متعلق نہیں بلکہ ان کی نوعیت آفاقی ہے اور وہ جدید دور میں اپنے قاری کے ذوق کی تسکین کے ساتھ انھیں معیاری ادب پڑھنے پر آمادہ کرلے تو یہ اس کی بڑی کام یابی ہوگی۔

    اس وقت دنیا کرونا کی وبا سے لڑ رہی ہے جس نے ادب شناسی اور کتاب کلچر کے فروغ کی کوششوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ 2021ء کے ادبی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں اور بین الاقوامی سطح‌ پر کئی اہم اور قابلِ ذکر تقریبات کا حسبِ روایت اور بصد اہتمام انعقاد ممکن نہیں‌ ہوسکا۔ اکثر ادبی جلسوں اور میلوں میں حاضرین کی تعداد کم رہی جب کہ مشاہیر بھی ان تقاریب میں بہ نفسِ نفیس شرکت نہیں‌ کرسکے اور آن لائن اپنے موضوع پر اظہارِ خیال کیا۔

    یہاں ہم اس سال کی اہم ادبی تخلیقات اور قابلِ‌ ذکر تقاریب کی مختصر روداد پیش کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    جنّت (Paradise) اور عبدالرّزاق گرناہ
    اس سال ادب کا نوبل انعام عبدالرّزاق گرناہ کے نام کیا گیا جو برطانیہ میں مقیم ہیں۔

    اسٹاک ہوم میں سویڈش اکیڈمی کی جانب سے ان کے نام کا اعلان سات اکتوبر کو کیا گیا تھا۔ 72 سالہ گرناہ کو ایسا ادیب کہا گیا ہے جس نے دردمندانہ انداز میں مصلحت پسندی کے بغیر نوآبادیاتی نظام کے اثرات اور ایک مہاجر کی قسمت کو انتہائی متاثر کن انداز میں پیش کیا ہے۔

    تنزانیہ نژاد برطانوی ادیب عبدالرّزاق گرناہ کو یہ انعام ان کے ناول جنّت کے لیے دیا گیا جس کی کہانی پہلی عالمی جنگ کے نوآبادیاتی مشرقی افریقہ کی ہے۔ فکشن کے زمرے میں ان کا یہ ناول بکر پرائز کے لیے بھی شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔

    وہ تنزانیہ کے باسی ہیں اور پچھلے 14 برسوں میں افریقی ادب سے اس انعام کے لیے منتخب ہونے والے پہلے ادیب ہیں۔ عبدالرّزاق گرناہ نے 1960ء کی دہائی میں افریقہ سے اُس وقت ہجرت کی تھی جب زنجبار میں عرب نسل کے شہریوں کا تعاقب کیا جارہا تھا۔ گرناہ زنجبار میں اس دور میں پروان چڑھے تھے، جب برطانوی نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور آزادی کے ساتھ وہاں انقلابی تبدیلی آگئی تھی۔

    تنزانیہ میں اپنا آبائی علاقہ چھوڑنے کے بعد گرناہ 1984ء میں صرف ایک بار اپنے والد کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل زنجبار جاسکے تھے۔ اس سے قبل افریقی ادب میں نوبل انعام زمبابوے کی سفید فام مصنّفہ ڈورس لیسنگ کو دیا گیا تھا۔

    اس سال نوبل انعام کی دوڑ میں جن تخلیق کاروں کو مضبوط تصوّر کیا جارہا تھا، ان میں کینیا سے اینگوگی وا تھیئونگو، فرانس کی اینی اَیرنو، جاپان سے ہاروکی موراکامی، کینیڈا کی مارگریٹ ایٹ وُڈ اور اینٹی گوئن اور امریکا کی جمیکا کِن کیڈ شامل تھیں۔

    ڈیمن گالگوٹ کا دی پرامس (The Promise)
    بکر پرائز کی بات کریں تو اس کی اوّلین فہرست کا اعلان 27 جولائی کو کیا گیا اور 14 ستمبر کو نام شارٹ لسٹ ہوئے اور تین نومبر کو فکشن کا یہ معتبر انعام ایک تقریب کے دوران ڈیمن گالگوٹ کے نام ہوا۔ وہ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے گئے تھے۔

    جنوبی افریقہ کے ادیب ڈیمن گالگوٹ کو ان کے ناول دی پرامس پر بکر پرائز سے نوازا گیا ہے۔ انھوں نے اپنے اس ناول میں جنوبی افریقہ کے مضافات کے ایک سفید فام کسان کے مادر شاہی خاندان کے حالات کو پیش کیا ہے۔ یہ کسان اپنی والدہ سے اُس کی موت کے وقت کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ وعدے کے مطابق اسے اپنی خاندانی خدمت گار سیاہ فام خاتون کو اپنی ملکیتی زمین پر مکان دینا تھا، لیکن مرحومہ کے خاندان کی یہ نسل اس معاملے میں اپنے بزرگوں کا مان رکھنے میں تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔ انھیں جائیداد میں اس نوکرانی کو کچھ حصّہ دینے میں بڑی الجھن محسوس ہوتی ہے۔ دی پرامس ڈیمن گالگوٹ کا انیسواں ناول ہے جو اسی برس شایع ہوا تھا۔

    مصنّف نے 17 سال کی عمر سے لکھنے کا آغاز کیا تھا اور اب تک وہ متعدد ادبی اعزازات اپنے نام کرچکے ہیں۔ ڈیمن گالگوٹ ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ ان کی کتاب دی کیوری پر دو فلمیں بھی بنائی جا چکی ہیں۔

    بکر پرائز کے فاتح ڈیمن گالگوٹ بچپن میں لاحق ہونے والے ایک مرض کے بعد کتب بینی کی طرف راغب ہوئے اور اسی شوق اور مطالعے نے انھیں لکھنے کی تحریک دی۔

    ادب کے اس عالمی انعام کے لیے چھے ناول شارٹ لسٹ کیے گئے تھے جن میں امریکی ناول نگار میگی شپسٹیڈ کا ناول گریٹ سرکل، سری لنکا کے تمل ناول نگار انوک اروند پراگسم کا ناول نارتھ پیسیج، امریکی شاعر اور ناول نگار پیٹریشیا لاک ووڈ کا پہلا ناول نوون از ٹاکنگ اباؤٹ دس، صومالی نژاد برطانوی ندیفہ محمد کا ناول دی فورچون مین، امریکی مصنّف رچرڈ پاورزن کا ناول بیولڈرمنٹ اور انعام یافتہ ناول شامل تھا۔

    بکر پرائز کا سلسلہ 1968ء میں شروع ہوا تھا اور فکشن کا یہ انعام انگریزی زبان میں اس کتاب پر دیا جاتا ہے جو برطانیہ میں شائع ہوئی ہو۔ انعام یافتہ کتاب کے مصنّف کو 50 ہزار پاؤنڈ کی رقم دی جاتی ہے۔

    At Night All Blood Is Black کا انگریزی ترجمہ
    2021ء میں انگریزی ترجمے پر انٹرنیشنل بکر پرائز At Night All Blood Is Black کو دیا گیا جو فرانسیسی زبان میں پہلی بار 2018ء میں شایع ہوا تھا۔ ڈیوڈ ڈیوپ کے اس ناول نے قارئین اور ناقدین کی توجہ حاصل کر لی تھی۔ ناول نگار کا تعلق فرانس سے ہے۔ ان کے اس ناول کو Anna Moschovakis نے انگریزی زبان میں ڈھالا ہے جسے برطانیہ اور امریکہ میں اشاعت کے بعد رواں‌ سال انٹرنیشنل بکر پرائز دیا گیا۔

    فکشن کا پلٹزر پرائز
    The Night Watchman وہ ناول ہے جسے اس سال فکشن کے زمرے میں پلٹزر پرائز دیا گیا ہے۔ اس کی مصنّف Louise Erdrich ہیں۔ یہ ناول 1950ء کی دہائی میں متعدد امریکی قبائل کی نقل مکانی کے بعد پیدا ہونے والی ہمہ رنگی کے خاتمے کو روکنے کی کوششوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس ناول میں تخیّل اور فنی مہارت متاثر کُن ہے۔

    ناول نگار امریکا کی باسی ہیں۔ ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں جن میں ناولوں اور شعری مجموعے شامل ہیں جب کہ بچّوں کے لیے بھی انھوں نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ مصنّفہ کا نام اس سے قبل بھی پلٹزر پرائز کے لیے سامنے آچکا ہے۔ انھوں نے اسی سال نیشنل بک ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔

    محبّت اور پیار کے جذبوں کی عکاسی کرنے والی نظمیں
    Natalie Diaz نے اپنی نظموں کو Postcolonial Love Poem کے عنوان یکجا کیا تھا جو امریکی نوآبادیات اور تنازعات میں گھرے دور میں محبّت اور پیار کے جذبوں کی عکاس ہیں۔ اس شعری کاوش پر انھیں اس سال پلٹزر پرائز دیا گیا۔

    شاعرہ کا تعلق امریکا کی ریاست کیلیفورنیا سے ہے۔ ان کی نظمیں دل موہ لینے والی اور نہایت متاثر کُن ہیں۔ Natalie Diaz ایک معلّمہ اور زبانوں کی ماہر بھی ہیں اور باسکٹ بال کی کھلاڑی بھی رہ چکی ہیں۔

    ویمنز پرائز کا تذکرہ
    اس سال فکشن کا ویمنز پرائز انگریزی زبان کی ناول نگار Susanna Mary Clarke کے نام کیا گیا۔ ان کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ انھیں یہ انعام Piranesi کے لیے دیا گیا ہے۔ ان کا یہ ناول پچھلے سال شایع ہوا تھا۔ Jonathan Strange & Mr Norrell ان کا وہ ناول تھا جس کا 2004ء میں خاصا چرچا ہوا تھا۔

    وہ جو دامِ اجل میں آئے
    اس سال دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجانے والے مشاہیر میں اردو کے بلند پایہ نقّاد، ادیب اور ڈرامہ نگار شمیم حنفی بھی شامل ہیں۔ انھوں نے 6 مئی کو دہلی میں وفات پائی۔

    شمیم حنفی کی تحریر، تقریر اور گفتگو کو ان کی تہذیبی اور ثقافتی بصیرت کی مثال سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنی تدریسی مصروفیات کے ساتھ اردو ادب کی خوب خدمت کی اور کئی تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    وہ 17 مئی 1938ء کو بھارت کے شہر سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھیں بھارت میں جامعات اور اکیڈمیوں میں لیکچر دینے کے علاوہ بیرونِ ملک علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا جاتا تھا۔ شمیم حنفی پاکستان بھی تشریف لائے اور یہاں علمی و ادبی محافل میں شرکت کی۔

    تنقیدی کتب ’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس،‘ ’جدیدیت اور نئی شاعری،‘ ’کہانی کے پانچ رنگ،‘ ’میرا جی اور ان کا نگار خانہ،‘ ’میر اور غالب،‘ ’اردو کلچر اور تقسیم کی روایت،‘ اور ’خیال کی مسافت‘ کے نام سے کتابوں کے علاوہ ان کا ایک شعری مجموعہ ’آخری پہر کی دستک‘ کے نام سے شایع ہوا۔ شمیم حنفی کے ڈرامے ’مجھے گھر یاد آتا ہے،‘ ’آپ اپنا تماشائی،‘ ’مٹی کا بلاوا‘ اور ’بازار میں نیند‘ کے نام سے کتابی شکل میں سامنے آئے۔ انھوں نے تہذیب و ثقافت، سماجی موضوعات اور حالاتِ حاضرہ پر بھی کئی مضامین سپردِ قلم کیے۔ نام وَر شخصیات کے تذکرے اور سوانح کے علاوہ بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کے علاوہ شمیم حنفی نے کئی اہم کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا۔

    جولائی کی پانچ تاریخ کو معروف افسانہ نگار، مترجم اور کالم نویس مسعود اشعر انتقال کرگئے۔ 70 کی دہائی میں انھوں نے اپنے افسانوں کی بدولت اپنی پہچان بنائی اور ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ اور ’’اپنا گھر‘‘ وہ کتابیں تھیں جن کے اسلوب اور موضوعات نے قارئین اور ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔

    مسعود اشعر 1931ء کو رام پور اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ملتان اور بعد میں لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ان کا اصل نام مسعود احمد خان تھا۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    اردو ادب اور فکشن کی دنیا کا جدید ذہن بھی اس سال ‘ساکت’ ہو گیا۔ مشرف عالم ذوقی نے یکم اپریل کو دلّی شہر میں وفات پائی۔ ان کا تعلق بہار سے تھا جہاں وہ 1962ء میں پیدا ہوئے۔

    مشرف عالم ذوقی کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے متنوع موضوعات پر مسلسل اور خوب جم کر لکھا۔ تین دہائیوں پر محیط اپنے تخلیقی سفر میں ذوقی نے اردو فکشن کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔

    فکشن پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شایع ہوئیں۔ ان کی نظر ڈیجیٹل ورلڈ کے مشہورِ زمانہ کردار پوکے مان پر بھی پڑی جس پر انھوں نے ’پو کے مان کی دنیا‘ جیسا ناول لکھا۔ ’مرگِ انبوہ‘ بھی ان کا ایک مشہور ناول ہے۔ اس کے علاوہ ’نالۂ شب گیر‘، ’نیلام گھر‘، ’شہر چپ ہے‘، ’عقاب کی آنکھیں‘، ’آتشِ رفتہ کا سراغ‘، ’لے سانس بھی آہستہ‘ نے انھیں پاک و ہند میں نام و پہچان دی۔ تنقید پر مبنی ان کی تحریریں، خاکے اور مختلف ادبی مضامین بھی کتابی صورت میں شایع ہوچکے ہیں۔ ذوقی کے ناول ’مردہ خانے کی عورت‘ کو ادبی حلقوں نے بہت سراہا۔

    وہ برصغیر کی اقلیتوں کے مسائل اور سماجی حالات یا انسانی المیوں کی جذباتی منظر کشی اور بھرپور ترجمانی کرنے والے ایسے تخلیق کار تھے جس نے زندگی کو ہر رنگ میں دیکھنے اور انسان کے ہر روپ کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    عالمی شہرت یافتہ ادیب ولبر اسمتھ بھی 13 نومبر 2021ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی عمر 88 برس تھی۔ جنوبی افریقہ کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اس مصنّف کے ناولوں کا دنیا کی تیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

    ولبر اسمتھ نے افریقی ملک زیمبیا میں آنکھ کھولی۔ 1946ء میں ان کا پہلا ناول
    When the Lion Feeds منظرِ عام پر آیا اور بعد میں ان کے 48 ناول شایع ہوئے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ناول Shout at the Devil اور Gold Mine بہت مشہور ہیں جن پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔

    اگر یہاں ادبِ عالیہ سے ہٹ کر ہمیں کسی ایسی ہستی کا تذکرہ کرنا ہو جس نے اسکرین پر ڈرامے کے ذریعے اپنا زورِ قلم دکھایا اور تخلیقی شعور کا ثبوت دیا تو ان میں حسینہ معین بھی شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے رسالے بھائی جان سے اپنے لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ حسینہ معین نے ریڈیو پاکستان کے لیے خاکے لکھے اور ملک میں ٹی وی نشریات کا آغاز ہوا تو ڈرامہ نویس کے طور پر شہرت حاصل کی۔ وہ 26 مارچ کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔ اسی سال 15 مئی کو معروف فن کار اور مزاح نگار فاروق قیصر بھی انتقال کرگئے جنھیں پاکستان بھر میں انکل سرگم (کٹھ پتلی) کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ ان کی عمر 75 برس تھی۔

    جرمنی کا مشہورِ زمانہ کتب میلہ
    پچھلے سال کی طرح فرینکفرٹ کے مشہور کتاب میلے کی گہماگہمی اور رونق پر کرونا کی وبا کا خوف حاوی رہا۔ تاہم 20 اکتوبر سے 24 اکتوبر تک جاری رہنے والے اس میلے میں بک اسٹال سجائے گئے تھے اور نام ور تخلیق کاروں اور ناشروں نے بھی آن لائن سیشن میں اظہارِ خیال کیا۔ اس میلے کے آخری روز جرمنی کی کتابی صنعت کا امن انعام زمبابوے کی معروف ادیبہ سِتسی دانگاریمبوآ (Tsitsi Dangarembga) کو دیا گیا۔

    62 سالہ اس ناول نگار، ڈرامہ نویس اور فلم میکر کو 25 ہزار یورو کی نقد رقم دی گئی۔ جیوری کے مطابق سِتسی دانگاریمبوآ اپنے ملک کے اہم ادیبوں اور فن کاروں میں شامل ہیں۔ ان کی تخلیقات نہ صرف اہم سماجی اور اخلاقی تنازعات کی نشان دہی کرتی ہیں، بلکہ دنیا کے تمام معاشروں کو انصاف اور سماجی بہتری کی جانب متوجہ کرتی ہیں۔

    14 ویں عالمی اردو کانفرنس
    پاکستان میں علم و ادب، تہذیب و ثقافت سے وابستہ شخصیات اور اردو زبان کے شیدائی کراچی میں 14 ویں عالمی اردو کانفرنس میں اکٹھے ہوئے۔ آرٹس کونسل میں 9 دسمبر کو شروع ہونے والی چار روزہ اس کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعلٰی سندھ سید مرادعلی شاہ بھی شریک ہوئے۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ادب کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ادیبوں اور دانش وروں کی بات اثر رکھتی ہے، ملک کے موجودہ حالات میں قلم کا ساتھ دینا ہوگا۔

    آرٹس کونسل آف پاکستان کے صدر احمد شاہ نے استقبالیہ خطبے میں کہا کہ جب کسی قوم کی ثقافت ختم ہوجائے تو وہ معاشرہ مردہ ہوجاتا ہے، ہم اپنی تہذیب کے بے غرض سفیر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مہینے بھر سے اس کانفرنس کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ادب و ثقافت اور تہذیب سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ عید سے کم نہیں ہے، تہذیب و ثقافت کے دشمنوں سے ادب کے ذریعے لڑنا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ رواں سال عالمی اردو کانفرنس میں کرونا کی وبا کے باعث سرحد پر سفری پابندیوں کے باوجود دنیا اور اندرونِ ملک سے 250 سے زائد دانش ور، اسکالرز، ادیب اور شاعر شرکت کریں گے جب کہ بھارت کے تمام بڑے شاعر اور ادیب آن لائن سیشنوں میں شریک ہوں گے۔

    اہلِ علم و دانش نے اس کانفرنس کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان کی آواز اور چاشنی ان سب تک پہنچتی ہے جو دل اور احساس رکھتے ہیں۔

    نام ور تخلیق کاروں نے چار روزہ کانفرنس میں ادبی نشستوں اور اجلاسوں کی صدارت کی۔ عالمی اردو کانفرنس میں بہ نفسِ نفیس اور آن لائن شرکت کرنے والوں میں انور مقصود، اسد محمد خان، محمود شام، زہرا نگاہ، مستنصر حسین تارڑ، گوپی چند نارنگ، گلزار، اخلاق احمد، محمد حمید شاہد، امجد طفیل، نور الہدیٰ شاہ، کشور ناہید، زاہدہ حنا، افتخار عارف، اخلاق احمد، محمد حمید شاہد، امجد طفیل، خالد جاوید و دیگر شامل تھے۔

    کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں بھارت سے آن لائن خطاب کے دوران گوپی چند نارنگ نے کہا کہ مجھے اردو کا جادو جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں کا فیضان بعد میں نصیب ہوا مگر اردو میرے ڈی این اے میں شامل ہے۔ اردو زبان میرے لیے رازوں بھرا بستہ ہے اور یہ زبان میرے وجود کا حصہ بنتی چلی گئی ہے۔ اردو جیسی زبان اور شیرینی جس میں عربی اور فارسی کی لطافت اور شائستگی کے ساتھ ساتھ ہماری مٹی کی خوشبو بھی موجود ہے، ہماری دھرتی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

    کانفرنس کے پہلے دن ایک شام فیض صاحب کے نام کی گئی تھی۔ دوسرے روز حسبِ پروگرام مختلف نشستیں ہوئیں جب کہ بھارت کے شاعر اور کہانی کار جاوید صدیقی کی کتاب ’’مٹھی بھر کہانیاں‘‘ کی تقریبِ اجرا بھی منعقد ہوئی، جسے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے شائع کیا ہے۔ جاوید صدیقی کے علاوہ اس تقریب میں مشہور شاعر گلزار نے بھی آن لائن شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    عالمی اردو کانفرنس میں تیسرے روز مختلف پروگراموں کے ساتھ ’’تعلیم کے پچھتّر سال‘‘ پر سیشن اور اردو افسانے پر نشست جمی۔ ’’اردو نظم کی صورت و معنی‘‘ کے موضوع پر سیشن ہوا اور افتخار عارف کے تازہ شاعری مجموعے ’باغِ گلِ سرخ‘ کی رونمائی بھی ہوئی۔

    کانفرنس کے آخری روز ’’عورت اور پاکستانی سماج‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں عارفہ سیدہ زہرا، نورالہدیٰ شاہ، انیس ہارون اور وسعت اﷲ خان نے گفتگو کی۔ اُردو ناول کی عصری صورتِ حال، بچوں کا ادب اور نئی دنیا، اردو افسانے کا منظر نامہ، اردو افسانہ آزادی کے بعد اور اس کے امکانات، پون صدی کے اردو افسانے میں ہیئت و اسلوب کے تجربات وہ عنوانات تھے جن پر مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    ادیبوں اور شعرا کے علاوہ محققین اور ماہرینِ تعلیم نے بھی اس کانفرنس میں حسبِ‌ پروگرام اپنے مقالے پیش کیے۔ ادب، صحافت، تاریخ و ثقافت، زبان اور معاصر منظر نامے اور رفتگاں کی یاد تازہ کرتے ہوئے عالمی اردو کانفرنس 12 دسمبر کو تمام ہوئی۔

    کتابوں‌ کی دنیا
    عالمی ادب میں موجودہ اور رائج صولوں کے مطابق، دنیا کا پہلا ناول ”گینجی مونوگتاری“ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ ”مورا ساکی شیکیبو“ کا جاپانی زبان میں تخلیق کیا گیا ناول ہے۔ جاپانی زبان میں”مونوگتاری“ کا مطلب ”کہانی“ ہے جب کہ”گینجی“ ناول کا مرکزی کردار ہے، جس کے معنیٰ ”روشنی“ ہیں۔ یہ ناول ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے اور دنیا کی 32 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ 2021 میں یہ ناول اردو زبان میں شایع ہوا ہے۔

    اسے باقر نقوی نے اردو زبان میں ڈھالا اور ڈیڑھ برس کے عرصے میں روزانہ کئی گھنٹوں کی ریاضت کے بعد اس کے ترجمے کا اوّلین بنیادی خاکہ مکمل کیا۔ ان کی اچانک رحلت کے بعد خرم سہیل نے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اس ناول کے لیے زبان و بیان، رموزِ اوقاف، قواعد کے معاملات سمیت مختلف تحقیقی پہلوﺅں سے بہت کام کیا گیا۔

    اس ناول کے اردو ترجمے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ صرف اردو ترجمے کے لیے 821 حواشی بھی تحریر کیے گئے، جو کسی اور زبان میں اتنی تعداد میں نہیں لکھے گئے۔ خرم سہیل یہ کام لگ بھگ ڈھائی برس کے عرصے میں مکمل کر پائے۔

    اردو زبان میں یہ ناول پہلی مرتبہ مکمل طور پر شائع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ (مسودہ) جاپان میں اردو زبان کے دو ممتاز اساتذہ پروفیسر سویامانے اور پروفیسر کین ساکو مامیا اور کراچی میں موجود جاپان کے قونصل جنرل جناب توشی کازو ایسومورا، جو اردو زبان پر عبور رکھتے ہیں، کی نظر سے بھی گزرا۔

    یہ ناول بڑے سائز میں ساڑھے گیارہ سو صفحات پر مشتمل ہے جس کی اسلام آباد میں جاپانی سفارت خانے اور کراچی میں جاپانی قونصل خانے میں تقریبِ رونمائی بھی منعقد کی گئی۔

    ممتاز ادیب اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کے بہاؤ کو اردو کا شاہ کار ناول کہا جاتا ہے۔ اس سال اکادمی ادبیات نے بہاؤ کو نمائندہ ناول کے طور پر منتخب کرکے اس کا انگریزی ترجمہ شایع کیا۔

    ستّار طاہر 1993 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ اس سال ‘دنیا کی سو عظیم کتابیں’ کی دوبارہ اشاعت نے ان کی یاد بھی تازہ کردی۔ 250 سے زائد کتابیں مرتب کرنے اور تراجم کے علاوہ اُنھیں اپنا قائداعظم ایک، اور مارشل لاء کا وائٹ پیپر سمیت متعدد کتابوں نے پہچان دی۔

    ممتاز ادیب، محقّق، مدیر اور ماہر مترجم ستّار طاہر کی کتاب دنیا کی سو عظیم کتابیں پہلی بار 1986 میں شایع ہوئی تھی۔ ستّار طاہر نے چند باتیں کے عنوان سے کتاب کے اوّلین ایڈیشن میں لکھا تھا، یہ سو کتابیں وہ ہیں جنھوں نے انسانی فکر کو بدلا ہے۔ اختلافات اور دائمی مباحثے کا سرچشمہ ٹھہری ہیں، لیکن ان کی ہمہ گیری اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

    سو عظیم کتابوں کی فہرست میں القرآن، صحیح بخاری، عہد نامہ عتیق، عہد نامہ جدید، گیتا، اقوال کنفیوشس اور دیگر شامل ہیں۔

    ممتاز ڈرامہ نگار اور شاعر اصغر ندیم سیّد کا ناول دشتِ امکاں بھی رواں سال منظرِ عام پر آیا اور عالمی اردو کانفرنس میں اپنے اجرا پر یہ ناول ادیبوں اور نقاّدوں کے درمیان گفتگو کا موضوع رہا۔

    خودنوشت سوانح حیات ادب کی وہ تخلیقی صنف ہے جو کسی فردِ واحد کی زندگی کے اہم ادوار پر محیط ہوتی ہے اور اسی کے قلم کی رہینِ منت ہوتی ہے جس کے آئینے میں اس فرد کی داخلی اور خارجی زندگی کا عکس براہِ راست نظر آتا ہے اور اس کا عہد بھی جلوہ گر ہوتا ہے۔

    کشور ناہید کی خود نوشت سوانح بُری عورت کی کتھا بھی اس برس شایع ہوئی۔ کشور ناہید ترقی پسند شاعرہ اور ادیب ہی نہیں سماجی کارکن اور عورتوں کے مساوی حقوق کی جدوجہد کے لیے بھی مشہور ہیں۔ یہ ان کی تازہ کتاب ہے۔ اس سے پہلے ان کے تراجم، یادداشتوں اور مضامین پر مشتمل کتابیں بھی شایع ہوچکی ہیں۔

    روس‌ کے شہرۂ آفاق ادیب لیو ٹالسٹائی کے ناول وار اینڈ پیس کا اردو ترجمہ بھی 2021ء میں شایع ہوا جس کے مترجم پروفیسر شاہد حمید ہیں۔ یہ ترجمہ ریڈنگز کے اشاعتی ادارے القا پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔

    شمیم حنفی نے اس بارے میں لکھا تھا، دنیا کے اس سب سے بڑے ناول کا یہ ترجمہ کسی بھی زبان اور کسی بھی زمانے کے لیے قابلِ فخر سمجھا جائے گا۔ تقریباً دو ہزار صفحوں پر پھیلی ہوئی اس کتاب میں طالسطائی (ٹالسٹائی) کے شاہ کار جنگ اور امن کے ترجمے کے علاوہ ناول کو پس منظر فراہم کرنے والی روسی تاریخ، تفصیلی فرہنگ جس میں عسکریت، مذہب ،موسیقی اور دیگر متعلقہ دائروں میں آنے والے حوالوں کی وضاحتیں پیش کی گئی ہیں، حقیقی اور غیر حقیقی کرداروں سے متعلق ضروری باتیں، نقشے، طالسطائی کی زندگی اور سوانح کا ایک خاکہ، ترجمے کے مسائل اور ترجمے کے فن پر بہت بصیرت آمیز نوٹ۔۔۔۔ یہ سب چیزیں شامل کردی گئی ہیں۔

    اس سطح کا کام کرنے کے لیے جو انہماک، ریاضت اور جاں کاہی درکار ہوتی ہے، اُس کا بوجھ ہر زمانے میں بس اِکّا دُکّا افراد اُٹھا سکتے ہیں، اور ہمارا یہ کم عیار دور تو اس طرح کے کام کا تصور بھی مشکل سے کرسکتا ہے۔ اس لحاظ سے شاہد حمید صاحب کا یہ کارنامہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ شاہد حمید صاحب نے اس کام کا بیڑا ایک ایسے وقت میں اٹھایا جب عام انسان اپنے ماضی پر قانع اور حال کی طرف سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔

    شاہد حمید صاحب نے جنگ اور امن کے تمام انگریزی متون کا موازنہ کرنے کے بعد اور خاصی تحقیق اور چھان بین کے بعد اس مہم کا آغاز کیا تھا۔ جس احساسِ ذمے داری، علمی لگن اور ترجمہ کاری کے فن پر جیسی بے مثل مہارت کے ساتھ انہوں نے اس کام کی تکمیل کی ہے وہ تخلیقی ادب اور ادب کی تحقیق و تدریس سے مناسبت رکھنے والوں کے لیے یکساں طور پر حیران کُن ہے۔

    جہاں تک جنگ اور امن کے ترجمے کا تعلق ہے، شاہد حمید صاحب اس سلسلے میں امکانی حد تک محتاط رہے ہیں۔ اصل متن کی حرمت کا انہوں نے کتنا خیال رکھا ہے اس کا اندازہ کرنے مشکل نہیں۔ مجھے اس ترجمے کی سب سے بڑی خوبی یہ نظر آئی ہے کہ اس پر کہیں بھی طبع زاد ہونے کا گمان نہیں ہوتا۔

    اُن کے اس عظیم الشان کارنامے کی وقعت اور تاریخی، ادبی، علمی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔

  • گلِ داؤدی

    گلِ داؤدی

    مازی چھائی پئی چِنگ کا باشندہ تھا۔ اُس کا خاندان گو کئی نسلوں سے گلِ داؤدی کا پرستار چلا آرہا تھا، مگر اُس نے تو اُن پھولوں کی چاہت میں سب کو مات کر دیا تھا۔ اُس کے کان میں بھنک پڑتی کہ ہزار کوس پر گلِ داؤدی کا کوئی نایاب پودا موجود ہے، تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑکر اُسے خریدنے وہاں پہنچ جاتا۔

    ایک دن نانچنگ سے ایک مہمان آیا اور بتایا کہ اُس کے عم زاد کے پاس گلِ داؤدی کی ایک دو ایسی قسمیں ہیں، جو شمال میں کہیں نہیں پائی جاتیں۔ بس پھر کیا تھا۔ ما زی سامانِ سفر باندھ نانچنگ جا پہنچا اور بڑی منّتوں سماجتوں کے بعد دو قلمیں لے کر ہی ٹلا۔ اُس نے قلمیں بڑی حفاظت سے لپیٹیں اور واپسی کے سفر پر ہولیا۔

    راہ میں اُسے ایک خوب صورت نوجوان ملا جو گدھے پر سوار تھا اور ایک منقّش چھکڑے کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ دونوں میں گفتگو شروع ہوگئی۔ نوجوان نے اپنا نام تھاؤ بتایا۔ اُس کے انداز سے بڑی شائستگی ٹپکتی تھی۔ مازی نے اپنے مشغلے کا ذِکر کیا تو وہ کہنے لگا، ’’گلِ داؤدی بذاتِ خود تو بڑا معمولی پھول ہے۔ اصل چیز تو باغ باں ہے جو اُسے بناتا سنوارتا ہے۔‘‘ یوں گلِ داؤدی اُگانے کے طریقے بھی موضوعِ سخن رہے۔

    مازی اُس کی باتیں بڑی دل چسپی سے سنتا رہا اور باتوں باتوں میں پوچھنے لگا، ’’ آپ لوگ کدھر جارہے ہیں؟‘‘

    ’’میری بہن نانچنگ سے اُکتا گئی تھی۔ اب ہم شمال میں کہیں آباد ہونا چاہتے ہیں۔‘‘ نوجوان نے جواب دیا۔

    ’’میں گو تہی دست آدمی ہوں، پھر بھی، برُا نہ مانیں تو میرا غریب خانہ حاضر ہے۔ میں مکان کا ایک حصّہ آپ لوگوں کے لیے الگ کر دوں گا۔‘‘ مازی نے تجویز پیش کی۔

    نوجوان بہن سے مشورہ لینے چھکڑے کے پاس گیا اور اُس نے پردہ ہٹایا تو مازی نے دیکھا کہ وہ بیس بائیس سال کی من موہنی سی لڑکی تھی۔ وہ بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے بولی، ’’ کمرے بے شک معمولی ہوں، پَر صحن بڑا ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ چنانچہ وہ مازی کے ہمراہ پئی چِنگ آگئے۔

    مازی کے گھر کی جنوبی سمت ایک مکان اور بڑا سا احاطہ تھا۔ تھاؤ کو جگہ بھا گئی اور بہن بھائی نے وہاں ڈیرا ڈال لیا۔ تھاؤ روزانہ مازی کے صحن میں آکر اُس کے پودوں کی دیکھ بھال کرتا۔ وہ سوکھے پودوں کو جڑ سے اُکھاڑ کے دوبارہ لگاتا تو وہ دنوں میں پھر سے ہرے بھرے ہو جاتے۔ بہن بھائی بہت ہاتھ کھینچ کے گزر اوقات کرتے، اپنے گھر میں پکانے کے بجائے مازی کے ہاں ہی دونوں وقت کھانا کھاتے۔

    مازی کی بیوی کو لڑکی بڑی اچھی لگی اور دونوں میں خوب گاڑی چھننے لگی۔ وہ اکثر کھانے پینے کی چیزیں اُن کے ہاں بھجوا دیتی۔ لڑکی کا نام ہوانگ ینگ تھا۔ بڑی ہنس مکھ اور چلبلی۔ وہ اکثر مازی کی بیوی کے ہاں جاتی اور سلائی کے کام میں اُس کی مدد کرتی۔
    ایک دن تھاؤ نے مازی سے کہا، ’’ دوست، آپ کا کنبہ بھی کچھ زیادہ خوش حال نہیں۔ اُدھر ہمارا بوجھ بھی آن پڑا ہے۔ یوں سلسلہ کب تک چلے گا۔ سوچتا ہوں گزر اوقات کے لیے گلِ داؤدی بیچنا شروع کر دوں۔‘‘

    مازی کی خود داری کو سخت ٹھیس پہنچی۔ اُس نے کہا ، ’’میں تو تمہیں غریبی میں خوش رہنے والا آزاد منش عالم سمجھا تھا۔ گلِ داؤدی کو کاروبار کا وسیلہ بنانا میں اِس پھول کی توہین سمجھتا ہوں۔‘‘ مازی نے جواب دیا۔

    ’’روزی کمانے کی خاطر کوئی کام کرنا اور دولت کی حرص رکھنا، دو بالکل مختلف باتیں ہیں۔‘‘ تھاؤ مسکراتے ہوئے بولا، ’’ گل فروشی میں کوئی اہانت کی بات نہیں۔ مانا کہ انسان کو حریص نہیں ہونا چاہیے، مگر مفلسی کو ذریعۂ عزت سمجھنا بھی کوئی دانائی کی بات نہیں۔‘‘

    مازی نے کوئی جواب نہ دیا اور تھاؤ اُٹھ کر چلا گیا۔ مازی نے جو قلمیں اور پودے بیکار سمجھ کر پھینک دیے تھے، تھاؤ بعد میں وہ سب اٹھا لے گیا لیکن بِن بلائے آنے جانے سے احتراز کرنے لگا۔

    گلِ داؤدی کھلنے کا موسم آپہنچا۔ ایک دن مازی تھاؤ کے دروازے پر شور شرابا سُن کر باہر نکلا اور وہاں پھول خریدنے والوں کا ہجوم دیکھ کر حیرت سے دم بخود رہ گیا۔ لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ وہ ایسے ایسے نایاب پھول اور پودے خرید کر لے جارہے تھے جو مازی نے کبھی دیکھے تک نہ تھے۔ تھاؤ کا کاروباری انداز دیکھ کر مازی سخت دل برداشتہ ہوا اور اُس سے قطع تعلق کا سوچنے لگا، مگر ساتھ ہی دل میں یہ خواہش بھی چٹکیاں لے رہی تھی کہ کسی صورت کچھ نایاب پھول اور پودے حاصل کر لے۔ وہ کچھ جلی کٹی سُنانے کے خیال سے تھاؤ کے دروازے پر پہنچا تو تھاؤ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا۔

    عجیب منظر تھا، سارا صحن پھولوں اور گملوں سے اَٹا پڑا تھا، تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ رنگ رنگ کے پھول عجب بہار دکھا رہے تھے۔ مازی نے غور سے دیکھا تو ان میں سے بیشتر وہی قلمیں اور پودے تھے جو اس نے بیکار سمجھ کر اکھاڑ پھینکے تھے۔

    اتنے میں تھاؤ اندر سے شراب اور کھانے پینے کی چیزیں اُٹھا لایا اور پھولوں کے قریب میز بچھاتے ہوئے از راہِ تفنّن بولا، ’’مفلسی نے سارے کَس بل نکال دیے تھے۔ اب دیکھیے آج میں بھی آپ کی تواضع کے قابل ہوگیا۔ پچھلے چند دنوں میں کچھ آمدنی ہوگئی ہے۔‘‘

    تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ بہن نے اُسے پکار لیا۔ وہ اندر گیا اور لپک جھپک چند نفیس اور سلیقے سے پکی ہوئی چیزیں اُٹھا لایا۔

    مازی اُس سے پوچھنے لگا، ’’ تمہاری بہن نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟‘‘

    ’’ابھی وقت نہیں آیا۔‘‘ تھائو نے جواب دیا۔

    ’’وہ وقت کب آئے گا؟‘‘

    ’’آج سے ٹھیک تینتالیس مہینے بعد۔‘‘

    ’’یہ تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ رہے ہو؟‘‘ تھاؤ مسکراکر چپکا ہو رہا اور ہنسی خوشی کچھ وقت بتانے کے بعد مازی گھر لوٹ آیا۔

    اگلے روز مازی پھر آگیا اور یہ دیکھ کر مبہوت رہ گیا کہ تھاؤ نے پچھلے روز جو قلمیں لگائی تھیں، وہ کوئی بالِشت بالشت بھر لمبی ہوچکی ہیں۔ اُس نے سبب جاننا چاہا تو تھاؤ نے جواب دیا:

    ’’یہ ایک راز ہے۔ یوں بھی آپ پھولوں کو وسیلۂ روزگار تو بنائیں گے نہیں۔ پوچھنے یا بتانے سے کیا حاصل؟‘‘

    چند دن بعد تھاؤ نے پھول چٹائیوں میں لپیٹے اور چھکڑے بھر کے سفر پر نکل گیا اور اگلے سال وسطِ بہار میں جنوب سے عجیب و غریب پھول لیے لوٹ آیا۔ اُس نے دارالحکومت میں پھولوں کی دکان کھولی اور دس روز میں سارے پھول بیچ کر پھر سے پھول اُگانے میں مشغول ہوگیا۔ اُس کے دروازے پر پھر خریداروں کا ہجوم رہنے لگا۔ جن لوگوں نے پچھلے سال پودے خریدے تھے، وہ پھر سے پھول خریدنے آئے کیوں کہ موسم بیتتے ہی پودے سوکھ گئے تھے۔ تھاؤ خوب مال کمانے لگا۔

    سال بھر بعد انہوں نے مکان میں کچھ توسیع کرائی اور اُس سے اگلے ہی سال ایک حویلی بنوا لی۔ اب انہیں مازی کے سہارے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ صحن میں پھولوں کے تختوں سے جگہ رکنے لگی تو انہوں نے ایک اور قطعہ خرید کر اردگرد دیوار چنوائی اور اُسے بھی چمن زار بنا دیا۔ پت جھڑ میں تھاؤ نے پھر پودے چھکڑوں پر لادے اور جنوب کو چلا گیا۔

    اوائلِ بہار میں، جب وہ ہنوز جنوب ہی میں تھا، مازی کی بیوی بیمار ہوئی اور انتقال کرگئی۔ مازی تھاؤ کی بہن سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے مشاطہ کو بھیجا تو لڑکی یوں مسکرائی، گویا اُسے انکار نہ تھا، تاہم جواباً کہلوا بھیجا کہ وہ بھائی کی واپسی تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔

    سال بھر سے زیادہ عرصہ بیت گیا لیکن تھاؤ واپس نہ آیا۔ ہوانگ ینگ نوکروں کی مدد سے حسبِ معمول پھول اُگاتی رہی اور ہن برستا رہا۔ اُس نے سات سو ایکڑ زمین بھی خریدی اور حویلی کی ٹیپ ٹاپ کروا کے اُسے اور زیادہ خوب صورت بنا دیا۔ انہی دنوں کی بات ہے، مازی کا ایک دوست مشرقی کوانگ تونگ سے تھاؤ کا خط لے کر آیا۔

    خط میں اُس نے مازی کو تاکید کی تھی کہ ہوانگ ینگ سے شادی کر لے۔ خط پر تاریخ وہی تھی جس روز مازی کی بیوی کا انتقال ہوا تھا۔ ٹھیک تینتالیس مہینے! تھاؤ نے باغ میں کھانا کھاتے ہوئے تینتالیس مہینے ہی بتائے تھے! اُس نے کچھ حیرانی کی کیفیت میں خط ہوانگ ینگ کو دکھایا اور پوچھا، ’’ بری کہاں بھیجوں؟‘‘ ’’بری کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ لڑکی نے انکار کرتے ہوئے کہا اور چونکہ مازی کا مکان بھی یونہی سا تھا، لہٰذا اصرار کرنے لگی کہ وہ اُس کی حویلی میں منتقل ہو جائے۔ یہ بات مازی کو گوارا نہ تھی۔

    شادی کے بعد ہوانگ ینگ نے یہ کیا کہ اپنی حویلی اور مازی کے مکان کی سانجھی دیوار میں ایک دروازہ نکلوا لیا۔ مازی کو بیوی کے ٹکڑوں پر پڑے رہنا بہت کَھلتا تھا، چنانچہ بیوی پر زور دینے لگا کہ وہ دونوں گھروں کا حساب کتاب الگ الگ رکھے۔ لیکن وہ جب چاہتی اور جو چاہتی حویلی سے لے آتی، یوں کوئی چھ مہینے بھی نہ ہوئے تھے کہ مازی کا سارا گھر تھاؤ کی چیزوں سے بھر گیا۔ اُس نے اپنے نوکروں سے کہا کہ ساری چیزیں اُٹھا کر واپس حویلی میں رکھ آئیں اور خیال رکھیں کہ ایک بھی شے دوبارہ اِدھر نہ آنے پائے۔ مگر دس دن کے اندر اندر ہی پھر وہی کیفیت ہو گئی۔ جب کئی بار ایسا ہوچکا تو مازی جھِلّا اٹھا۔

    ہوانگ ینگ کھِلکھِلا کر ہنس دی اور چھیڑتے ہوئے بولی، ’’ تم ابھی تک اپنی غریبی اور ایمان داری سے اُوبے نہیں؟‘‘

    مازی آخر راضی برضا ہوگیا اور سارے معاملات بیوی پر چھوڑ دیے۔ ہوانگ ینگ نے کاری گر بلوائے اور مازی کا مکان ازسرِ نو بنوانا شروع کردیا اور چند ماہ کے اندر اندر حویلی اور مکان ایک ہوگئے۔ گو مازی کے کہنے پر اُس نے گُل فروشی ترک کردی، مگر وہ ہنوز امرا کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ زندگی کا یہ آرام و آسائش دیکھ کر مازی جھلا اٹھتا، ’’میں نے تیس برس فروتنی میں گزاردیے لیکن اب، اب میں تمہارا محتاج ہو کر رہ گیا ہوں۔ یہ زندگی مرد کے شایانِ شان نہیں! لوگ تو دولت مند بننے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں، لیکن میں پھر سے مفلسی کے اُسی عالم میں جانا چاہتا ہوں!‘‘

    ’’تم ایسی باتیں نہ سوچا کرو۔‘‘ ہوانگ ینگ جواب دیتی۔ ’’ میں کچھ پیسہ جمع کرنا چاہتی ہوں، ورنہ لوگ ٹھٹھا اڑاتے رہیں گے کہ تھاؤ یوان مینگ(چوتھی صدی عیسویں کا مشہور چینی شاعر جسے گلِ دائودی سے عشق تھا) کی اولاد، سو پیڑھیوں کے بعد بھی غریب کی غریب ہی رہی۔ میں نہیں چاہتی کہ لوگ ہمارے خاندان کے اس شاعر کا مذاق اُڑائیں۔ غریب کے لیے امیر بننا مشکل ہوتا ہے لیکن امیر کے لیے مفلسی کے گڑھے میں گرنا بے حد آسان ہوتا ہے۔ چاہو تو ہماری ساری دولت اللّے تللّوں میں اڑا دو۔ میں حرفِ شکایت زبان پر نہ لاؤں گی۔‘‘

    ’’اِس سے زیادہ ذِلت کی بات اور کیا ہوگی کہ آدمی دوسرے کے پیسوں پر عیاشی کرے۔‘‘
    ’’ تم دولت نہیں چاہتے اور مجھے مفلسی کی خواہش نہیں۔ تو پھر کیوں نہ ہم الگ ہو جائیں؟ تم اپنے اصولوں کے ساتھ سادہ زندگی گزارو اور یہ گھٹیا عیش و آرام میرے لیے چھوڑ دو…کیا خیال ہے؟‘‘

    اب مازی کے لیے باغ میں ایک جھونپڑا بنایا گیا اور ہوانگ ینگ نے کچھ حسین و جمیل باندیاں اُس کی خدمت پر مامور کر دیں۔ شروع شروع میں تو وہ خاصا خوش رہا، لیکن چند ہی دنوں بعد تنہائی اُسے ڈسنے لگی۔ بیوی کو بلواتا تو وہ اِدھر اُدھر کے بہانے کر دیتی اور مجبوراً اُسے خود بیوی کے پاس جانا پڑتا اور ہوتے ہوتے اُس نے ہر دوسرے دن حویلی میں جانا شروع کردیا۔

    ایک دن بیوی نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’ یہ کہاں کی شرافت ہے کہ آدمی کھائے تو ایک گھر میں اور رہے دوسرے میں۔‘‘مازی کھسیانا سا ہوگیا اور دونوں پھر اکٹھے رہنے لگے۔

    پت جھڑ میں جب گلِ داؤدی کے شگوفے کھِل رہے تھے، مازی کسی کام سے نانچنگ گیا۔ ایک صبح وہ بازار سے گزرا تو پھولوں کی ایک دکان دکھائی دی۔ دکان میں پھول اِس نفاست سے سجے تھے کہ مازی کے خیال کی رو تھاؤ کی طرف بہہ نکلی۔ اگلے ہی لمحے مالک باہر آگیا۔ وہ تھاؤ ہی تھا! دونوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ دونوں بیٹھے دیر تک باتیں کرتے رہے۔

    مازی نے رات اُسی کے ہاں گزاری اور اصرار کرتا رہا کہ وہ پئی چِنگ چلا چلے۔ تھاؤ نے جواب دیا، ’’نانچنگ میرا وطن ہے۔ میں یہیں شادی کرکے گھر بساؤں گا۔ میں نے کچھ رقم پس انداز کر رکھی ہے، وہ آپ لے جائیں اور میری بہن کو دے دیں۔ سال بعد آکر اُس سے ملوں گا۔‘‘

    لیکن مازی نے اُس کی ایک نہ سنی اور یہی کہتا رہا، ’’ ہمارا کنبہ اب کافی خوش حال ہے۔ زندگی کے باقی دن بڑے چین سے گزر جائیں گے ۔ تمہیں یہ دکان داری کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔‘‘ اُس نے نوکروں کو پھولوں کے دام گرانے کا حکم دیا اور دو تین دن میں ہی سارے پھول بک گئے۔ پھر تھاؤ کا اسباب بندھوایا اور وہ کشتی سے شمال کو چل دیے۔ گھر پہنچے تو ہوانگ ینگ نے کمرے، بچھونا، غرض ہر شے تیار کر رکھی تھی، گویا اُسے تھاؤ کی آمد کا پہلے ہی سے علم تھا۔

    تھاؤ نے آتے ہی باغ کو اور زیادہ خوب صورت بنایا اور پھر سارا وقت مازی کے ساتھ شطرنج اور مے نوشی میں بتانے لگا۔ مازی نے شادی پر زور دیا تو اُس نے انکار کر دیا۔ چنانچہ بہن نے دو باندیاں بھجوا دیں اور تین چار سال بعد اُس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔

    تھاؤ شراب کا رسیا تھا، ایک بار مازی کا ایک دوست زنگ جو بلا کا شرابی تھا، ملاقات کو آیا، تو مازی نے دونوں کو مقابلے پر اُکسایا۔ صبح سے رات ڈھلے تک دونوں میں سے کسی نے ہار نہ مانی۔ آخر زنگ پیتے پیتے میز پر ہی سوگیا اور تھاؤ مدہوشی کے عالم میں لڑکھڑاتا ہوا اپنے کمرے کو چل دیا، لیکن باہر نکلتے ہی پائوں رپٹا اور وہ گلِ داؤدی کے ایک تختے پر گر پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے گل داؤدی کے قدِ آدم پیڑ کا روپ دھار گیا، جس پر دس بارہ پھول کھلے ہوئے تھے۔ ہر پھول انسانی مٹھی جتنا بڑا تھا!

    یہ سارا منظر دیکھ کر مازی کے اوسان خطا ہوگئے اور ہوانگ ینگ کو بلا لایا۔ ہوانگ ینگ بھاگم بھاگ آئی اور درخت کو اکھاڑ کر زمین پر لٹاتے ہوئے بولی، ’’ تم اِس قدر نشے میں کیسے آگئے؟‘‘اُس نے درخت کو کپڑے سے ڈھانپا اور مازی کو ساتھ لیے وہاں سے ہٹ گئی۔ صبح مازی نے آکر دیکھا تو تھاؤ پھولوں کے تختے کے پاس ہی زمین پر چت لیٹا تھا۔ اُسے جب یہ علم ہوا کہ بہن بھائی گلِ داؤدی کی روحیں ہیں تو وہ انہیں اور بھی پیار اور احترام کی نظروں سے دیکھنے لگا۔

    تھاؤ کا بھید جو کھلا، تو وہ پہلے سے کہیں زیادہ بے احتیاطی سے شراب پینے لگا۔ وہ اکثر زنگ کو بلوا بھیجتا اور دونوں کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔ ’’ فصلِ گل‘‘ کے تہوار پر زنگ شراب کا بڑا سا مٹکا لیے آپہنچا، جس میں جڑی بوٹیاں بھی کشید کی ہوئی تھیں۔ دونوں میں مقابلہ شروع ہوگیا۔ مٹکا خالی ہونے لگا مگر اُن کی پیاس بڑھتی گئی۔ مازی نے مٹکے میں مزید شراب ڈال دی اور دونوں وہ بھی چڑھا گئے۔ آخر زنگ مدہوش ہو گیا اور اُس کے نوکر اُسے اُٹھا کر لے گئے۔ اُدھر تھاؤ زمین پر گرا اور ایک بار پھر گلِ داؤدی کے پیڑ کا روپ دھار گیا۔ مازی کو اب کے کوئی حیرت نہ ہوئی۔ اُس نے ہوانگ ینگ کی طرح درخت کو جڑ سے اُکھاڑا اور قریب ہی بیٹھ گیا۔ وہ آواگون کا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ پتّے مرجھانے لگے تو وہ گھبرا گیا اور ہوانگ ینگ کو بلانے چلا گیا۔

    ہوانگ ینگ سارا واقعہ سُن کر شدتِ غم سے رو دی،’’تم نے میرے بھائی کو مار ڈالا!‘‘ وہ بھاگم بھاگ باہر آئی تو جڑیں چرُمرانی شروع ہوچکی تھیں۔ اُس نے تنے کو کاٹا اور جڑ گملے میں دبا کر اپنے کمرے میں لے آئی۔ وہ ہر روز اُسے پانی دینے لگی۔ ادھر مازی اپنے کیے پر سخت پچھتا رہا تھا۔ اُسے زنگ پر بھی سخت غصّہ تھا، لیکن چند دن بعد ہی اطلاع مِلی کہ وہ کثرتِ شراب نوشی کے سبب مر گیا تھا۔ تھوڑے دنوں میں گملے سے کونپلیں پھوٹ نکلیں اور نویں مہینے کلیاں کھِل اٹھیں۔ اُس کا تنا چھوٹا سا تھا اور پھولوں میں شراب کی سی مہک تھی۔ لہٰذا انہوں نے پودے کا نام ’’ شرابی تھاؤ‘‘ رکھ دیا۔ اُسے پانی کے بجائے شراب دی جاتی تو خوشبو اور بھی مستانی ہوجاتی۔ وقت بیتتا گیا۔ تھاؤ کی بیٹی بیاہ کر ایک اعلیٰ نسب خاندان میں چلی گئی۔ ہوانگ ینگ نے بڑی لمبی عمر پائی۔ تاہم اُس کے بعد کوئی غیر معمولی واقعہ دیکھنے میں نہ آیا۔

    داستان گو لکھتا ہے: کوئی انسان جس کا اصل مقام شاداب پہاڑوں اور سفید اَبرپاروں میں ہو، شراب نوشی میں جان دے دے تو دنیا اُس کے لیے نوحہ گر ہو جاتی ہے، مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ خود اُس شخص نے ایسی موت میں لذّت پائی ہو؟ کسی کے صحن میں ایسے پھول کا وجود اچھے دوست یا کومل حسینہ کے قرُب سے کم نہیں۔ مجھے ایسے ہی پھول کی جستجو ہے!

    (چین کی ایک خوب صورت لوک کہانی جس کے مصنّف پھُوسونگ لینگ اور اور اس کہانی کا اردو ترجمہ رشید بٹ نے کیا ہے)

  • پلاسٹک کی بالٹی افریقا میں کیسے "انقلاب” کا باعث بنی، جانیے

    پلاسٹک کی بالٹی افریقا میں کیسے "انقلاب” کا باعث بنی، جانیے

    ہم ایتھیوپیا میں دو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر چکے ہیں۔

    سڑکیں ویران پڑی ہیں۔ سال کے اس حصّے میں (یورپ میں یہ جاڑوں کا موسم ہے) پہاڑ، جو بادلوں تک اونچے ہیں، سرسبز ہیں اور دھوپ میں شان دار لگ رہے ہیں۔ سنّاٹا اندر تک اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

    اگر آپ رک کر سڑک کے کنارے بیٹھ جائیں تو آپ کو بہت فاصلے پر اونچی، یک آہنگ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ آوازیں پہاڑیوں میں گاتے ہوئے بچّوں کی ہیں، گلّہ بانوں کے بیٹوں اور بیٹیوں کی جو لکڑیاں اکٹھی کر رہے ہیں اور اپنے مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ رہے ہیں۔ آپ کو ان کے ماں باپ کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پوری دنیا بچّوں کے ہاتھ میں ہو۔

    افریقا کی نصف آبادی پندرہ سال سے کم عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ بچے ہر طرف ہیں: فوجوں اور پناہ گزیں کیمپوں میں، کھیتوں میں کام کرتے اور بازاروں میں خرید و فروخت کرتے ہوئے۔ اور گھر پر بھی بچّے ہی ہیں جو خاندان کے لیے اہم ترین کام سرانجام دیتے ہیں، یعنی پانی بھر کر لاتے ہیں۔ صبح منہ اندھیرے، جب اکثر لوگ نیند میں ہوتے ہیں، کم عمر لڑکے تیز قدموں سے کنوؤں، تالابوں اور دریاؤں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی ان کی اچھی حلیف ثابت ہوئی ہے۔ اس نے ان کو ایک کارآمد شے فراہم کی ہے: پلاسٹک کی بالٹی۔

    پلاسٹک کی بالٹی نے افریقی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ گرم اُستوائی علاقوں میں پانی کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے، پانی کی ہمیشہ شدید قلّت رہتی ہے۔ اس لیے پانی حاصل کرنے کی غرض سے بہت دور، اکثر درجنوں کلومیٹر کے فاصلے تک، جانا پڑتا ہے۔ پلاسٹک کی بالٹی کے ایجاد ہونے سے پہلے پانی مٹی یا پتھر کے بنے ہوے بھاری گھڑوں میں لے جایا جاتا تھا۔ پہیا اور ایسی سواریاں جن میں پہیے استعمال ہوتے ہیں __ افریقی کلچر کا مانوس پہلو نہیں تھا، ہر چیز، پانی سے بھرا گھڑا بھی، سر پر اٹھا کر لے جانا ہی واحد طریقہ تھا۔

    گھر کے کام کی تقسیم کے مطابق پانی لانے کا کام عورتوں کے حصّے میں آتا تھا۔ بچّے اتنے بھاری گھڑے نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اور غربت اس قدر شدید تھی کہ بہت کم خاندان ایک سے زیادہ گھڑے رکھنے کے متحمل ہو سکتے تھے۔

    پلاسٹک کی بالٹی کی آمد ایک معجزہ تھی۔ ایک تو یہ نسبتاً سستی تھی (اگرچہ بہت سے گھرانے ایسے ہیں جن کے پاس اس سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں)، یعنی کوئی دو ڈالر کے برابر۔ پھر یہ چھوٹے بڑے ہر سائز میں دست یاب تھی۔ اور چند لیٹر کی بالٹی چھوٹے بچّے بھی اٹھا سکتے تھے۔
    چناں چہ پانی لانا اب بچّوں کی ذمے داری ہے۔

    دور کسی کنویں کی طرف اپنے سفر کے دوران کھیلتے اور ہنسی مذاق کرتے بچّے عام دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ تبدیلی کام کے بوجھ تلے دبی افریقی عورتوں کے لیے کس قدر تسکین کی بات ہے۔ ان کی زندگیوں میں کیسا خوش گوار تغیر آ گیا ہے! درحقیقت پلاسٹک کی بالٹی کی لائی ہوئی مثبت تبدیلیاں بے شمار ہیں۔

    قطار ہی کو لیجیے۔ جب پانی مٹکوں میں لایا جاتا تھا تو اکثر دن دن بھر قطار میں کھڑے رہنا پڑتا تھا۔ استوائی سورج بڑا بے رحم ہوتا ہے۔ اور اپنا گھڑا قطار میں چھوڑ کر خود سائے میں جا کھڑے ہونے کا خطرہ نہیں لیا جا سکتا تھا۔ یہ بڑی قیمتی چیز تھی۔

    آج ایسا کرنا ممکن ہے۔ بالٹی نے قطار میں کھڑے ہونے والے فرد کی جگہ لے لی ہے، اور آج کل پانی کی قطار بے شمار رنگ برنگی پلاسٹک کی بالٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ ان کے مالک سائے میں کھڑے انتظار کرتے ہیں، بازار سے سودا سلف لانے چلے جاتے ہیں یا کسی دوست سے مل آتے ہیں۔

    (پولستانی مصنّف، شاعر، صحافی اور ماہر فوٹو گرافر ریشارد کاپوشِنسکی
    کی تحریر کا انگریزی سے اردو ترجمہ، اردو مترجم اجمل کمال ہیں)

  • ایثار (ایک دل گداز کہانی)

    ایثار (ایک دل گداز کہانی)

    میں شکار کھیلنے کے بعد گھر کے باغ کی روش پر سے گزر رہا تھا۔ میرا وفادار کتّا مجھ سے چند گز کے فاصلے پر دوڑا چلا جارہا تھا۔ یک لخت اس کی رفتار مدھم پڑ گئی۔ اگلے پنجوں کو اس طرح اٹھانے لگا گویا کسی شکار کو سونگھ رہا ہے۔

    جب میں نے روش پر نظر دوڑائی۔ تو مجھے قریب ہی زمین پر چڑیا کا ایک بچّہ دکھائی دیا جس کی چونچ زرد تھی۔ اور بدن پر نرم نرم روئیں اگ رہے تھے۔ یہ غالباً اپنے گھونسلے سے گر پڑا تھا۔ کیوں کہ آج ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور روش کے آس پاس لگے ہوئے درخت زور زور سے ہل رہے تھے۔

    معصوم بچّہ چپ چاپ زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ اڑنے کے لیے ننھّے ننھّے پر پھیلاتا، مگر اتنی طاقت نہ تھی کہ پرواز کرسکے۔ بے چارہ پھڑپھڑا کر رہ جاتا۔

    میرا کتّا اس کی طرف آہستہ آہستہ جارہا تھا کہ دفعتاً قریب کے درخت سے ایک چڑیا اتری اور کتّے اور بچّے کے درمیان زمین پر اس طرح آپڑی جیسے پتّھر گر پڑا ہو۔

    کتّے کے کھلے ہوئے جبڑوں کی طرف دیکھ کر ایک درد ناک اور رحم طلب آواز میں چلائی اور اس کی طرف جھپٹ پڑی۔ وہ اپنے ننھّے بچّے کو میرے کتّے سے بچانا چاہتی تھی۔ اسی غرض کے لیے اس نے اسے اپنے بدن سے ڈھانپ لیا اور چیخ پکار شروع کردی۔ اس کے چھوٹے گلے میں آواز گھٹنے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد بے جان ہو کر گری اور مر گئی۔ اور اس طرح اپنے آپ کو قربان کر دیا۔

    وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچّے کو کتّے کا لقمہ بنتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس کی نظروں میں میرا کتّا غالباً ایک ہیبت ناک دیو کی مانند تھا۔

    وہ کیا شے تھی۔ جو چڑیا کو شاخِ صنوبر سے کشاں کشاں زمین پر لائی؟

    میرا کتّا حساس تھا۔ چڑیا کو اس طرح قربان ہوتے دیکھ کر ٹھٹھکا اور ایک طرف ہٹ گیا میں نے اسے اپنی طرف اشارہ سے بلا لیا اور آگے بڑھ گئے۔

    یہ واقعہ دیکھ کر مجھے تسکین سی محسوس ہوئی۔ روح سے ایک بوجھ ہلکا ہوتا نظر آیا۔ اس بہادر چڑیا کی غیر معمولی جرأت نے میرے دل میں احترام اور احساسِ فرض کے جذبات موجزن کر دیے۔

    میں نے خیال کیا کہ محبت، موت اور اس کی ہیبت سے کہیں زیادہ ہے اور صرف محبّت ہی ایسی چیز ہے جو زندگی کے نظام کو قائم اور متحرک رکھتی ہے۔

    (عظیم روسی ادیب انتون چیخوف کے قلم سے)

  • یومِ وفات:‌ عظیم روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف کا تذکرہ

    یومِ وفات:‌ عظیم روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف کا تذکرہ

    نام وَر روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف نے 1904ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ اس کی تخلیقات کو نہ صرف روسی ادب کے قارئین نے سراہا بلکہ دنیا بھر میں اس کی کہانیوں کا چرچا ہوا اور چیخوف نے ناقدین سے داد پائی۔

    انتون چیخوف 29 جنوری 1860ء میں پیدا ہوا۔ چیخوف کا باپ سخت گیر آدمی تھا جب کہ ماں ایک اچھی قصّہ گو تھی اور بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سناتی تھی۔ اس ماحول میں بچپن گزارنے والے چیخوف کو بعد میں باپ کے مالی حالات بگڑ جانے پر غربت اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے اپنی تعلیم کے لیے بہت سے کام کرنا پڑے جن میں ٹیوشن پڑھانا، پرندے پکڑ کر بیچنا اور اخبارات کے لیے بامعاوضہ اسکیچ بنانا شامل ہے۔

    کام اور تعلیم کے حصول کے زمانے میں چیخوف نے ادب کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ 1879ء میں اس نے ایک میڈیکل اسکول میں داخلہ لیا اور زیادہ کام کرکے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کا خرچ بھی چلانے لگا۔ چیخوف نے یومیہ بنیاد پر اسکیچ بنانا شروع کردیا تھا جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ روزمرّہ روسی زندگی کی تصویر کشی بھی کرنے لگا جس کے باعث اس کی شہرت بڑھی اور ایک بڑے پبلشر نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کرلیا۔ چیخوف نے جرائد کے لیے بھی لکھنا شروع کردیا اور جب تھیٹر کے لیے ڈرامے تحریر کیے تو گویا اس کی شہرت ساتویں‌ آسمان سے باتیں‌ کرنے لگی۔

    وہ 1884ء میں فزیشن بھی بن گیا، لیکن درد مند اور حسّاس چیخوف نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج کیا اور ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتا رہا۔ تاہم بعد میں‌ اس نے ادب تخلیق کرنے پر زیادہ توجہ دی۔ اس نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں بھی شایع کروایا۔ اس کے مجموعوں کو زبردست پذیرائی ملی اور چیخوف نے مقبول ترین روسی ادیب کا درجہ حاصل کیا۔

    ایک وقت آیا جب انتون چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا اور وہ لاغر ہوتا چلا گیا، اسی بیماری کے سبب ایک روز اس نے زندگی کی بازی ہار دی۔ وفات کے وقت وہ 44 برس کا تھا۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے لوگوں کی حقیقی زندگی کو پیش کیا اور معاشرتی تضاد، منافقت اور سچ جھوٹ کے ساتھ عام زندگی کو قریب سے اور نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا۔

  • یہ صرف کوّا ہے! (ایک مشہور حکایت)

    یہ صرف کوّا ہے! (ایک مشہور حکایت)

    کتنی ہی صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن ایسوپ کی حکایتوں، قصّے اور کہانیوں‌ کا سحر آج بھی برقرار ہے۔ اسے قدیم یونان کا باسی بتایا جاتا ہے جس کے مفصّل اور درست حالاتِ زندگی تو دست یاب نہیں‌، مگر اس قصّہ گو کی حکایتیں آج بھی مقبول ہیں۔ اس کی سبق آموز اور نہایت دل چسپ حکایتوں کا دنیا بھر کی زبانوں میں‌ ترجمہ کیا گیا ہے۔

    مرزا عصمت اللہ بیگ نے ایسوپ کی کئی حکایات کا اردو ترجمہ کیا تھا جو 1943ء میں کتابی شکل میں‌ شایع ہوئی تھیں۔ اسی کتاب سے ایک نصیحت آموز قصّہ پیشِ خدمت ہے۔

    ایک سرسبز میدان میں بہت سی بھیڑیں اور ان کے بچّے چرتے پِھر رہے تھے۔ کسی پہاڑ کی چوٹی سے عقاب اڑتا ہوا آیا اور ایک بچّے پر جھپٹ پڑا۔ وہ اسے پنجوں میں‌ دبا کر تیزی سے اڑ گیا۔

    ایک کوّا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے دل میں‌ خیال کیا کہ میں‌ بھی ایک جانور پر جھپٹ کر اور اسے اپنے پنجوں میں پکڑ کر کیوں نہ اڑ جاؤں۔

    یہ ارادہ کرکے وہ بھی بھیڑ کے ایک بچّے پر جھپٹا اور اس کے بالوں میں‌ اچّھی طرح اپنے پنجے گاڑ کر اڑنا چاہا، مگر وہ تو بھیڑ کے بالوں‌ میں‌ اس طرح الجھے کہ کوّے کو اپنے پنجے نکالنا مشکل ہو گیا۔ آخر کار بے دم ہو کر اپنے پَر مارنے لگا۔

    بھیڑوں کا مالک قریب ہی بیٹھا کوّے کی اس حرکت کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ وہ اٹھا اور کوّے کو پکڑ کر اس کی دُم اور پَر کاٹ ڈالے۔ شام کو اپنے گھر پہنچ کر اسے اپنے بچّوں کے حوالے کر دیا۔

    بچّوں نے پوچھا، "بابا یہ کیا جانور ہے؟”

    باپ نے جواب دیا، "اگر تم اس جانور سے پوچھو گے تو یہ اپنا نام عقاب بتائے گا، مگر میں‌ خوب جانتا ہوں کہ یہ صرف ایک کوّا ہے۔”

  • کار حادثہ جو موت کا فلسفہ بیان کرنے والے البیر کامیو کی موت کا سبب بنا

    کار حادثہ جو موت کا فلسفہ بیان کرنے والے البیر کامیو کی موت کا سبب بنا

    البیر کامیو الجزائر کا ایک مشہور و معروف فلسفی اور ناول نگار تھا جسے وجودیت کا پرچارک اور انفرادی آزادی کا پُرجوش حمایتی کہا جاتا ہے۔ اسے 1957ء میں ادب کا نوبیل انعام بھی دیا گیا تھا۔

    البیر کامیو فرانس میں ایک کار حادثے میں‌ زندگی سے محروم ہو گیا تھا۔ یہ 1960ء کی بات ہے۔

    اس کا وطن فرانس کی نو آبادی تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران اس کے والد مارے گئے تھے جن کے بعد اس کی ماں کو محنت مزدوری اور گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرنا پڑا۔

    کامیو نے اپنے تخلیقی سفر میں‌ ہمیں‌ ’’دی پلیگ‘‘ (The Plague)،’’دی فال‘‘ (The Fall) اور’’دی آئوٹ سائیڈر‘‘ (Outsider) جیسے ناول دیے جو متعدد زبانوں‌ میں ترجمہ ہوئے جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ ان ناولوں‌ میں‌ کامیو نے انفرادی آزادی کی حمایت میں دلائل اور یہ منطق بھی پیش کی کہ اس آزادی کے بغیر انسان جن سماجی اور معاشی مسائل کے گرداب میں پھنس جاتا ہے اس کے نتیجے میں زندگی مطلقاً لایعنیت اور بے معنونیت کا شکار ہو جاتی ہے۔

    البیر کامیو اپنے نظریات اور مخصوص فلسفیانہ طرزِ نگارش کے سبب ہم عصروں‌ میں ممتاز ہوا جس کے ناول دی فال کو معروف افسانہ نگار، مترجم اور اسکالر محمد عمر میمن نے زوال کے نام سے اردو میں‌ منتقل کیا۔ اس ناول سے ایک اقتباس باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    "کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ صرف موت ہمارے احساسات کو بیدار کرتی ہے؟ ہم ان دوستوں سے کتنا پیار کرتے ہیں جو ابھی ابھی ہم سے جدا ہوئے ہوں؟ ہم اپنے اساتذہ کی کتنی مدح سرائی کرتے ہیں جن کی زبانیں گنگ ہوچکی ہیں اور جن کے دہن اب خاک سے پُر ہیں؟

    سب کچھ ہو چکنے کے بعد ہمارا جذبۂ تحسین ابھرتا ہے۔ وہ تحسین جس کے لیے وہ لوگ شاید عمر بھر متوقع اور ترستے رہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ہم مُردوں کے معاملے میں کیوں زیادہ انصاف پسند اور فیاض واقع ہوئے ہیں؟ وجہ بالکل سادہ ہے۔ مُردوں کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔ وہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتے ہیں، اور ہم بااطمینانِ خاطر، جب چاہے، کاک ٹیل پارٹی اور کسی حسین، کم سِن داشتہ کے درمیان، اوقاتِ فرصت میں، انھیں اسناد تقسیم کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔

    اگر وہ ہمیں کسی چیز کے لیے مجبور کرسکتے تو انھیں یاد رکھنے پر مجبور کرتے، اور یہ ممکن نہ ہوتا، کیوں کہ ہمارا حافظہ کم زور ہے۔ نہیں، ہم اپنے دوستوں میں صرف انھیں سے محبت کرتے ہیں جو تازہ تازہ داغِ مفارقت دے گئے ہوں، ہم ان کی درد ناک موت سے، اپنے جذبات سے، اور چوں کہ یہ جذبات ہمارے ہوتے ہیں، اس لیے خود سے محبّت کرتے ہیں!”

  • شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    مشہور ہے کہ ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے خوشی اور مسرت کا اظہار کرنے کے لیے باقاعدہ بگل بجا کر اپنے بیٹے کی آمد کا چرچا کیا تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے والد کی موت طبعی نہ تھی بلکہ انھوں نے خود کُشی کی تھی اور 1961ء میں آج ہی کے دن ان کے بیٹے نے بھی اپنی زندگی کا ختم کرلی۔ خود کشی کے وقت وہ 61 برس کے تھے اور انھیں ایک ناول نگار، ادیب اور صحافی کی حیثیت سے دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا تھا

    ارنسٹ ہیمنگوے شہرۂ آفاق تخلیق کار تھا جو 21 جولائی 1899ء کو پیدا ہوا۔ والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر اور ماں گریس ہال ہیمنگوے گلوکار اور موسیقار تھی۔ ماں باپ دونوں ہی تعلیم یافتہ اور نہایت قابل تھے اور ان کا شمار اپنے علاقے کے معزّزین میں‌ کیا جاتا تھا۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے نواحی علاقے سکونت پذیر تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے باپ کو سیر و سیّاحت کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے جانے لگا۔ اس نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار اور دریا سے مچھلی پکڑنا اپنے باپ ہی سے سیکھا اور اس دوران فطرت کو بہت قریب سے دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا جس کا عکس ان کی تحریروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

    طالبِ علمی کے زمانے میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو اسکول میگزین اور اخبار سنبھالنے کا موقع ملا اور اس کا یہ تجربہ گریجویشن کے بعد ایک اخبار میں رپورٹر کی ملازمت کے دوران بہت کام آیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے یہاں چند ماہ کے دوران اچھی تحریر اور مضمون نگاری کے سنہری اصول سیکھے۔ وہ ایک ایسا صحافی اور لکھاری تھا جو کھیل کود اور مہم جوئی کا بھی دل دادہ تھا اور مطالعے کے ساتھ اسے اپنے مشاغل کے سبب جو تجربات اور مشاہدات ہوئے، ان کا اسے بہت فائدہ ہوا۔ اس نے مختلف اخبارات میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا اور مضامین بھی لکھے۔ 1921ء میں شادی کے بعد وہ پیرس چلا گیا جہاں ادیبوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ بزم آرائیوں نے اسے بھی ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔

    یہ ادیب اور شاعر اپنے وقت کی نادرِ روزگار اور باکمال شخصیات تھیں جن میں‌ ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس شامل ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے اس نے کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور وہ شایع ہونے لگیں۔ 1926ء میں ارنسٹ ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آگیا جو اس کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ بعد میں‌ ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا۔ اس نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر اور وہاں‌ قیام کیا اور اس دوران اپنے وسیع تجربات اور مشاہدات کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریزی ادب کو شاہ کار کہانیاں‌ دیں جن کی بنیاد پر اس نے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ دنیا کا سب سے معتبر نوبیل انعام بھی حاصل کیا۔

    اس کا ایک ناول فیئر ویل ٹو آرمز خود اس کے دو عاشقانہ قصّوں اور ایک جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کے ناولوں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ وہ ناول ہیں جنھیں اردو زبان کے شائقین نے بہت سراہا۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے محبتیں‌ بھی کیں، شادیاں بھی اور متعدد ممالک میں قیام بھی کیا۔ اس دوران اس نے جنگ میں‌ بھی حصّہ لیا، تخلیقی سفر بھی جاری رکھا، سیرو سیاحت کے ساتھ تمام مشاغل بھی پورے کیے۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کا شوق رکھتا تھا اور اسی کھیل سے متعلق اس کا ایک ناول بھی منظرِ عام پر آیا جو بہت مشہور ہوا۔

    فطرت کے دلدادہ اور جہانِ ادب میں نام ور ارنسٹ ہیمنگوے کو اس لحاظ سے بدقسمت کہا جاسکتا ہے کہ والد کی طرح خود اس نے ہی گولی مار کر اپنی زندگی ختم نہیں کی بلکہ اس کی بہنوں نے بھی خود کشی کی تھی۔

  • میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    18 جون 1936ء کو دنیا سے رخصت ہوجانے والے نام ور روسی ادیب اور شاعر میکسم گورکی کو "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی اور یہ ناول شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔

    روسی ادب میں ناول ماں کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے جس نے الیکسی میکسیمووچ پیشکوف المعروف میکسم گورکی کو اپنے ہم عصروں‌ میں ممتاز کیا۔ اس نے 28 مارچ 1868ء کو روس میں جنم لیا، والد کا سایہ کم عمری میں‌ سر سے اٹھ گیا، گورکی نے چھوٹے موٹے کام کیے، اور غربت و افلاس دیکھا، ایک مہربان نے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سکھا دیا اور پھر وہ علم و ادب کی جانب مائل ہوا۔ آج اسے ایک انقلابی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو توانا اور تازہ فکر شاعر، باکمال ناول نگار، ڈراما نویس اور مستند صحافی بھی تھا۔ اس کے ناول اور مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں۔

    میکسم گورکی کا ناول “ماں” 1906ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس ناول کی کہانی ایک مزدور، اس کی ماں، اس کے چند دوستوں اور چند خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ بیٹا انقلابی فکر کا حامل ہے اور گرفتاری کے بعد ماں اپنے بیٹے اور اس کے مقصد یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے، وہ ان پڑھ اور سادہ عورت ہے جو بیٹے کو جیل کے دوران خود بھی ایک انقلابی بن جاتی ہے۔ اس ناول کا دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ جب کہ گورکی کو پانچ مرتبہ ادب کے نوبیل انعام کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    روس کے اس ادیبِ اعظم نے اپنی آپ بیتی بھی رقم کی جس کا مطالعہ گورکی کے نظریات سے اور اس کے دور میں روس کے حالات سے واقف ہونے کا موقع دیتا ہے، اس آپ بیتی میں کئی اہم سیاسی اور سماجی اور دل چسپ نوعیت کے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔