Tag: عالمی ادب

  • یومِ وفات: کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی کہانیاں پڑھی جائیں!

    یومِ وفات: کافکا نہیں‌ چاہتا تھا کہ اس کی کہانیاں پڑھی جائیں!

    فرانز کافکا کو بیسویں صدی کے بہترین ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ تین جون 1924ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    کافکا نے 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے کافکا نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ وہ یہودی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور یہی اس کا مذہب رہا۔ کافکا نے شادی نہیں‌ کی تھی۔

    فرانز کافکا ناول نگار اور کہانی کار تھا۔ اس کی کہانیوں میں تمثیلی انداز متاثر کن ہے۔ مشہور ہے کہ کافکا نے اپنی کچھ تخلیقات کو خود نذرِ آتش کردی تھیں جب کہ اپنے ایک دوست کو یہ وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد اس کے مسوّدے جلا دے، لیکن دوست نے اس کی وصیّت پر عمل نہیں‌ کیا۔ شاید وہ نہ چاہتا ہو کہ اس کی تخلیقات پڑھی جائیں لیکن موت کے بعد جب یہ تخلیقات سامنے آئیں تو ان کی ادبی حیثیت اور کافکا کے مرتبے پر بھی بات ہوئی۔

    فرانز کافکا کے ناولوں ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور یہ ناول کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئے۔

    کافکا نے زندگی کی فقط 40 بہاریں دیکھیں اور پھر دنیا سے منہ موڑ لیا۔ یہاں ہم کافکا کی ایک مشہور تمثیل نقل کررہے ہیں جسے جرمن زبان سے مقبول ملک نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

    "ایک شاہی پیغام”
    بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فردِ واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔

    بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔

    اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

    قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔

    لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مُکے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔

    لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔ اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کام یاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیوں کہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔

    اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کام یاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔

    یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔

    یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔

  • 2020ء ادب کے لیے کیسا رہا؟

    2020ء ادب کے لیے کیسا رہا؟

    تحریر: عارف عزیز

    رواں صدی کی اس دہائی کا یہ آخری سال، اگلی کئی دہائیوں تک مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آتا رہے گا اور کرونا کی وبا فنونِ لطیفہ، بالخصوص اصنافِ ادب کا موضوع ہو گی۔

    قومی اور مقامی زبانوں کے تخلیق کار کووڈ 19 کے خوف میں‌ مبتلا انسان کے رویّوں میں‌ تبدیلی کو حزنیہ اور طربیہ داستانوں میں‌ پیش کریں‌ گے، حقیقی واقعات پر مبنی کہانیاں لکھی جائیں گی، شاعری تخلیق ہوگی اور قارئین وبا کے دنوں میں‌ انسان کے ہر روپ کو پڑھ سکیں‌ گے۔

    اس برس جہاں موضوعات کو تخیّل کی گرفت میں‌ لے کر تخلیق کے سانچے میں ڈھالنے تک ادبی سفر جاری رہا، وہیں یہ ہلاکت خیز سال سماجی حسیّت، تہذیبی شعور اور تمدّنی اسباب و عوامل پر تسلسل کے ساتھ آئندہ بھی لکھنے کا موقع دے کے رخصت ہورہا ہے۔

    اگر ہم 2020ء میں عالمی ادب اور پاکستان میں تخلیقی سفر پر نظر ڈالیں‌ تو کئی اہم اور قابلِ ذکر تقاریب کا انعقاد، میلے اور ادبی سرگرمیاں ہی نہیں طباعت و اشاعت کا سلسلہ بھی بندشِ عامّہ (لاک ڈاؤن) کے سبب متاثر رہا۔ اکثر تقریبات ملتوی کردی گئی تھیں اور بعد میں محدود پیمانے پر منعقد ہوئیں۔ متعدد ادبی میلوں اور تقاریب کی منسوخی کا اعلان کیا گیا اور بعض‌ آن لائن انجام پائیں۔

    آئیے، وبا کے دنوں‌ میں عالمی ادب پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    دنیا کے معتبر انعام، نوبیل کی تقریب
    2020ء میں ادب کا نوبیل انعام لوئس گلک کے نام ہوا۔ سویڈش اکیڈمی آف نوبیل پرائز کا یہ اعزاز دنیا بھر میں مشہور اور نہایت معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ 8 اکتوبر 2020ء کو اکیڈمی نے امریکا کی خاتون شاعر لوئس گلک کو نوبیل انعام دینے کا اعلان کیا۔

    ان کا مکمل نام لوئس ایلزبتھ گلک ہے، اور عمر 77 برس۔ انھوں نے 1943ء میں نیویارک میں آنکھ کھولی تھی۔

    کووڈ 19 کی وجہ سے انعام یافتگان باقاعدہ اور رسمی تقریب میں اپنی پزیرائی سے محروم رہے اور انھیں‌ بھی ویڈیو لنک کے ذریعے تقریب سے جڑنا پڑا۔ لوئس گلک نے اپنی نوبیل شیلڈ اور انعام امریکا میں وصول کیا۔

    لوئس گلک نے انگریزی کے علاوہ جرمن، سویڈش اور ہسپانوی زبانوں میں بھی کتابیں لکھیں۔ ان کا اصل میدان شاعری ہے، لیکن ادب کی دیگر اصناف میں بھی خوب طبع آزمائی کی۔ ان کی تصانیف کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔

    وہ اپنی شاعری اور ادبی مضامین سمیت مختلف تصانیف پر متعدد عالمی ایوارڈز اپنے نام کرچکی ہیں۔ ان میں اعلیٰ امریکی ادبی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    بحیثیت شاعرہ ان کی وجہِ شہرت، اپنی تخلیقات میں بچپن اور خاندانی زندگی کو خوب صورتی سے موضوع بنانا ہے۔ نوبیل اکیڈمی نے ان کی اسی شعری انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گلک انقلابی تبدیلی اور ازسرِنو جنم کی شاعرہ ہیں۔ ان کا شاعرانہ لہجہ واضح اور سادگیِ حُسن سے لبریز ہے، جو انفرادیت کو آفاقیت کی طرف لے جاتا ہے۔

    اب بُکر پرائز کی طرف بڑھتے ہیں
    بُکر پرائز، ڈگلس اسٹورٹ کو دیا گیا ہے اور یہ انعام ان کے ناول ‘شوگی بین’ کی وجہ سے انھیں ملا ہے۔ بُکر کی تقریب نومبر کے مہینے میں ہوئی۔

    کرونا کی وجہ سے بُکر پرائز کے فاتحین بھی دیگر شرکا کی طرح آن لائن ہی تقریب کا حصّہ بن سکے۔

    بُکر پرائز برطانیہ کا وہ اہم ادبی اعزاز ہے جس کی انعامی رقم انگریزی زبان کے ایسے مصنّفین کے لیے ہوتی ہے جن کی تحریر برطانیہ یا آئرلینڈ میں شایع ہوئی ہو۔

    ڈگلس اسٹورٹ اسکاٹش ہیں اور ان کا ناول ’شوگی بَین‘ انہی کے آبائی شہر گلاسگو کی ایک کہانی بيان کرتا ہے۔ جیوری کے مطابق ’شوگی بَین‘ ایک ایسا ناول ہے جو ’ہمّت دلاتا ہے اور زندگی بدل دینے کی طاقت رکھتا ہے۔

    اس ناول کا مرکزی کردار شوگی ہے۔ یہ کہانی 1980ء کی دہائی میں لے جاتی ہے جب ایک غریب گھرانے کے بچے کو اس کی شرابی ماں سے چھوٹی عمر میں محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہ ڈگلس کا پہلا ناول ہے۔

    بُکر پرائز کے لیے جو تحاریر شارٹ لسٹ ہوئی تھیں، ان کا بنیادی موضوع عصرِ حاضر کے چیلنجز تھے جن میں غربت اور طبقاتی نظام بھی شامل تھے۔

    انٹرنیشنل بُکر کا تذکرہ
    انٹرنیشنل بُکر پرائز کے فاتحین کا اعلان بھی وبا کے دنوں میں ہوا۔ یہ انعام کسی تخلیق کے انگریزی ترجمہ پر دیا جاتا ہے، نیدر لینڈز کی ماریکا لوکاس کے ناول کو ایک برطانوی لکھاری اور مترجم نے انگریزی میں ترجمہ کیا تھا جسے انعام کے لیے منتخب کیا گیا۔

    پلٹزر پرائز کی تقریب اور اس کے فاتحین
    2020ء کے مئی میں یہ مشہور امریکی ایوارڈ فکشن نگار کولسن وائٹ ہیڈ کے نام ہوا۔ وہ اس سے پہلے بھی ایک ادبی تخلیق پر یہ انعام جیت چکے ہیں۔

    ‘دا نکل بوائز’، ان کا وہ ناول ہے جو امریکا میں پیش آنے والے ایک حقیقی واقعے پر مبنی ہے۔ یہ کہانی اصلاحی مقصد اور جذبہ خدمت کے ساتھ کھولے جانے والے ایک اسکول کی ہے۔ ریاست فلوریڈا کے ایک قصبے کے اس اسکول میں 111 برس سے تدریس کا سلسلہ جاری تھا اور پھر انکشاف ہوا کہ یہاں کئی طالبِ علم بدترین جسمانی تشدد اور جنسی درندگی کا نشانہ بنے جب کہ قتل کے چند واقعات کا تعلق بھی اسی اسکول سے ہے۔

    فکشن کے میدان میں وومنز پرائز
    ستمبر کی 9 تاریخ کو اس ایوارڈ کی فاتح کا اعلان کیا گیا اور جو نام سامنے آیا، وہ میگی اوفیریل تھا۔ ان کا تعلق شمالی آئرلینڈ سے ہے۔ انھیں یہ انعام ‘ہیمنٹ’ نامی ناول پر دیا گیا۔ اس ادبی انعام کا آغاز 1996ء میں ہوا تھا۔

    اب ادبی نشستوں اور کتب میلوں کی طرف چلتے ہیں
    مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن ختم کیے جانے کے باوجود ادبی تقاریب اور کتب میلوں کا انعقاد آسان اور محفوظ نہیں سمجھا جارہا تھا، یہی وجہ ہے 2020ء میں‌ فرینکفرٹ کا کتب میلہ بھی نہیں سجایا جاسکا۔

    فرینکفرٹ، جرمنی کا مالیاتی مرکز، اور بڑا شہر ہے جو اپنے پانچ روزہ عالمی ادبی اجتماع اور کتب میلے کے لیے بھی پہچانا جاتا ہے۔ اس ادبی میلے کا آغاز 1949ء میں ہوا تھا اور یہ فرینکفرٹ بک فیئر کے نام سے مشہور ہے۔

    اس میلے میں دنیا بھر سے علم و ادب کے شیدا، نام وَر ادبی شخصیات، ناشر اور اشاعتی اداروں کے نمائندے شریک ہوتے ہیں اور اس موقع پر ادبی نشستوں کے ساتھ یہاں بک اسٹالوں پر کتابیں سجائی جاتی ہیں۔ اس سال یہ میلہ اکتوبر کے مہینے میں ڈیجیٹل میڈیا پر سجایا گیا جس میں خاص طور پر ناشر اور مشہور کتب فروش شریک ہوئے۔

    پاکستان کے شہر لاہور میں ادبی تقریب
    فروری کے مہینے میں جب پاکستان میں کرونا کی وبا نے زور نہ پکڑا تھا اور اس کی ہلاکت خیزی ہم پر عیاں نہیں ہوئی تھی، تب لاہور میں ادبی میلہ سجایا گیا تھا۔ اس موقع پر علم و ادب کے رسیا اور کتابوں‌ کے شائق اکٹھے ہوئے تھے۔ نام وَر قلم کاروں اور آرٹسٹوں نے میلے میں شرکت کی تھی۔

    اس میلے کا اہم اور خصوصی سیشن، "موجودہ دور میں نئی نسل کو کتب بینی کی طرف کیسے راغب کیا جائے” تھا جسے سویڈش ایمبیسی اور یونیسکو کا تعاون حاصل تھا۔

    ماہرینِ تعلیم، اساتذہ، معروف علمی اور ادبی شخصیات نے اس سیشن میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کہ بچّوں کو کس طرح مطالعے کا عادی بنایا جاسکتا ہے۔

    ساحلی شہر کراچی کا ادبی میلہ
    کراچی کے ساحل سے قریب ایک سبزہ زار پر فروری کی 28 تاریخ سے یکم مارچ تک ادبی میلہ سجا رہا جس میں درجنوں کتابوں کی تقریبِ رونمائی اور اہم ادبی موضوعات پر مباحث ہوئے۔

    اس ادبی میلے کی افتتاحی تقریب کے مہمانِ خاص وفاقی وزیر شفقت محمود تھے۔ یہ اپنی نوعیت کا گیارہواں ادبی میلہ تھا جو اسکاٹ لینڈ کے مصنف اور تاریخ داں ولیم ڈلرمپل کی ایسٹ انڈیا کمپنی کےعروج و زوال پر لکھی گئی کتاب کے نام رہا۔

    اس میلے میں انفاق فاؤنڈیشن کی جانب سے "اردو ادبی ایوارڈ” بھی دیا گیا، جس کے لیے سید کاشف رضا کی چار درویش اور ایک کچھوا، حسن منظر کی اے فلکِ ناانصاف اور عطیہ داؤد کی سندھ ادب: ایک مختصر تاریخ نام زد ہوئیں۔ جیوری میں نام ور ادیب اصغر ندیم سید، ڈاکٹر ناصر عباس اور حمید شاہد شامل تھے۔ ان کا فیصلہ حسن منظر کے حق میں سامنے آیا اور ایوارڈ ان کے نام ہوا۔

    انگریزی کتب کے ‘کے ایل ایف گیٹز فارما فکشن‘ پرائز کے لیے شہریار شیخ کی ‘کال می ال‘، عظمٰی اسلم خان کی ‘دی مرکیولیس‘ اور محمد حنیف کی ‘ریڈ برڈ‘ میں سے جیوری میں شامل غازی صلاح الدّین، محترمہ حوری نورانی اور ڈاکٹر نادیہ چشتی مجاہد نے ریڈ برڈ کے حق میں فیصلہ دیا۔

    ادبی میلے کے دوسرے روز سیر حاصل مباحث کے علاوہ اہم تقریب ولیم ڈلرمپل کی کتاب ’فارگاٹن ماسٹرز، انڈین پینٹنگ فار دی ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کی رونمائی تھی۔ یہ کتاب ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر آمد اور اس کے پس منظر کو بیان کرتی ہے جو اس میلے میں بیسٹ سیلر قرار پائی۔ تیسرے دن بھی ادبی نشستوں کے علاوہ کتابوں کا تعارفی سلسلہ جاری رہا۔

    وبا کے دنوں میں تیرھویں عالمی اردو کانفرنس
    آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے زیرِ اہتمام 3 دسمبر کو 13 ویں عالمی اردو کانفرنس کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ وبا کے دنوں میں عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد میں کام یاب رہے اور کانفرنس میں‌ ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے حسبِ پروگرام مختلف سیشن انجام پائے جنھیں ڈیجیٹل پروگرام کے تحت براہِ راست بھی نشر کیا گیا۔

    پاکستان کے نام ور قلم کاروں اور آرٹسٹوں نے کانفرنس میں شرکت کی جب کہ ملک اور بیرونِ ملک مقیم لکھاری اور فن کار آن لائن بھی اس عالمی اردو کانفرنس کا حصّہ بنے۔

    مختلف موضوعات پر منعقدہ سیشن کے دوران زاہدہ حنا، پیرزادہ قاسم، سحر انصاری، شاہ محمد مری، افتخار عارف، زہرہ نگاہ، اسد محمد خان، انور مقصود، نور الہدیٰ شاہ، حسینہ معین اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ہندوستان سے نام ور محقّق و ادیب شمیم حنفی، گوپی چند نارنگ نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنی شرکت یقینی بنائی۔

    اس سال بھی علاقائی زبانوں کا ادب زیرِ بحث آیا۔ اس حوالے سے سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو اور پنجابی ادب پر مختلف سیشن منعقد ہوئے۔

    چار روزہ عالمی اردو کانفرنس کے دوران حسبِ پروگرام کتابوں کا تعارف اور ان کی رونمائی ہوئی اور مضامین پڑھے گئے۔ یہ کانفرنس 6 دسمبر تک جاری رہی۔

    پاکستانی ادب کی چند جھلکیاں
    پاکستان میں رواں سال مختلف ادبی تخلیقات طباعت و اشاعت کے بعد قارئین تک پہنچیں، جو نقد و نظر کی محتاج ہیں۔ مختلف اصنافِ ادب میں نوجوان اور غیر معروف لکھاریوں کی کتابوں کی اشاعت کے علاوہ چند اہم اور نام وَر تخلیق کاروں کی کتب بھی منظرِ عام پر آئیں۔ مذکورہ ادبی میلوں میں ان تخلیقات پر مباحث اور تنقیدی مضامین اس حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں۔

    مشہور ناولوں اور مقبول سفر ناموں کے خالق مستنصر حسین تارڑ کی رواں برس دو کتابیں شایع ہوئیں۔ ایک ‘روپ بہروپ’ ہے جس میں انھوں نے اپنے دو ناولٹ قارئین تک پہنچائے ہیں، جب کہ وبا کے دنوں میں ان کی جو دوسری کتاب شایع ہوئی، وہ ایک ناول ہے جو وبا میں گزرے شب و روز پر لکھا گیا ہے۔ مصنّف نے اسے ‘ شہر خالی، کوچہ خالی’ کا نام دیا ہے۔

    جمع و تدوین، اشاعت و طباعت کا سلسلہ
    اگر سال کے آغاز سے اختتام تک اثر پذیر یا مقبول ادب کی بات کریں تو حسن رضا گوندل کی کاوش قابلِ ذکر ہے جو شکیل عادل زادہ کے پرستار اور سب رنگ ڈائجسٹ کے دیوانے رہے ہیں۔

    سب رنگ کراچی سے شایع ہونے والا وہ ماہ نامہ ڈائجسٹ تھا جس نے اردو ڈائجسٹوں میں مقبولیت اور اشاعت کا ریکارڈ قائم کیا۔ نام وَر ناول اور افسانہ نگار شکیل عادل زادہ اس کے بانی مدیر ہیں جنھوں‌ نے یہ ڈائجسٹ 1970ء میں نکالنا شروع کیا تھا۔ اس ڈائجسٹ میں طبع زاد اور عالمی ادب سے منتخب کردہ کہانیوں کا اردو ترجمہ شایع کیا جاتا تھا۔

    حسن رضا گوندل نے کِیا یہ کہ عالمی ادب کی وہ شاہ کار کہانیاں جنھیں اردو زبان میں ترجمہ کے بعد سب رنگ میں شایع کیا گیا تھا، اکٹھا کرکے انھیں دو جلدوں میں قارئین کے سامنے رکھ دیا۔ ان کی مرتّب کردہ کہانیوں کی ایک جلد سال کے آغاز پر اور دوسری کرونا کی وبا کے دوران شایع ہوئی۔

    اسی طرح اگر ہم رفتگاں کی مشہور تصانیف کی تدوین اور ان کی اشاعت کی بات کریں تو 2020ء میں جو "زندہ کتابیں” سامنے آئیں، ان کی تعداد 42 ہے۔ یہ کام راشد اشرف نے انجام دیا ہے۔ انھوں نے ہر خاص و عام میں مقبول اصنافِ ادب سے کتابوں کا انتخاب کرکے انھیں نئی جلد میں باندھ دیا ہے۔

    یہ کتابیں اُن یگانہ روزگار اور صاحبانِ کمال کی تصنیف کردہ ہیں، جن کے طرزِ نگارش، سحر انگیز اسلوب اور فکر و فن سے نئے قلم کاروں کا تعارف ضروری ہے۔ راشد اشرف نے اسی مقصد اور جذبے کے تحت انھیں ازسرِ نو طباعت کے زیور سے آراستہ کیا ہے۔ ان میں پراسرار واقعات اور شکاریات کے موضوع پر بھی کتب شامل ہیں۔

    زندہ کتابیں کے پلیٹ فارم سے بک اسٹالوں تک پہنچنے والی کتب کی فہرست میں سے چند یہ ہیں۔ آپ بیتیاں جن میں ‘ورودِ مسعود’ جو مسعود حسن خان کے قلم سے نکلی ہے، عارف نقوی کی ‘جلتی بجھتی یادیں’، اور سابق سفارت کار سید سبطِ یحییٰ نقوی کی یادداشتوں کا مجموعہ ‘جو ہم پہ گزری’ شامل ہیں۔ ‘کال کوٹھری’ حمید اختر کی کتاب ہے۔

    ڈاکٹر بسم اللہ نیاز احمد کی ایک اہم کتاب ‘اردو گیت: تاریخ، تحقیق اور تنقید کی روشنی میں’ بھی اسی سلسلے کے تحت شایع کی گئی ہے۔

    شخصی خاکے عام دل چسپی کے ساتھ مشہور و معروف شخصیات کی زندگی اور جہانِ فن میں ان کے سفر کے بارے میں‌ بتاتے ہیں۔ ‘آشنائیاں کیا کیا’ حمید اختر کی ایسی ہی تصنیف ہے، آصف جیلانی کی ‘نایاب ہیں ہم’ اور ‘بیدار دل لوگ’ شاہ محی الحق فاروقی کی کتاب ہے۔

    نام ور علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کی کتاب ‘وہ کہاں گئے’ بھی اس اشاعتی لڑی میں شامل ہے۔

    راشد اشرف نے ‘شکاریات کی ناقابلِ فراموش داستانیں’ بھی کتابی شکل میں پیش کی ہیں۔ انھوں‌ نے 60 اور 70 کی دہائی میں ڈائجسٹوں میں شایع ہونے والی کہانیوں کا انتخاب کرکے انھیں‌ چار جلدوں میں جکڑ دیا ہے۔

    مختصر سفر نامے اور رپورتاژ کے لیے راشد اشرف نے تقسیم سے قبل اور بعد کے رسائل کو کھنگالا اور انھیں بھی کتابی شکل دی ہے۔

  • "منافق اور بد دیانت” ادیب جسے نوبیل انعام دیا گیا

    "منافق اور بد دیانت” ادیب جسے نوبیل انعام دیا گیا

    ایک عظیم ادیب کے طور پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لائق، اپنی تخلیقات پر داد اور ستائش کے حق دار تصور کیے جانے والے اور نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب گُنٹر گراس کو 2012 میں‌ اپنی ایک نظم کی وجہ سے تضحیک آمیز رویّے اور اپنی تخلیقات پر کڑی تنقید سہنا پڑی تھی۔ اس نظم کا عنوان تھا ’جو کہا جانا چاہیے۔‘

    جرمنی کے اس عظیم ادیب اور نوبیل انعام یافتہ مصنف نے دراصل اپنی نظم میں‌ اسرائیل کو ہدفِ تنقید بنایا تھا اور جیسے ہی ان کی یہ تخلیق منظرِ عام پر آئی، گراس کی کردار کُشی کے ساتھ ان کی اس نظم کی ادبی ساخت پر بھی کڑی تنقید شروع ہو گئی۔ انھوں‌ نے سامی دشمنی اور تعصب کے پرچارک کا الزامات کا سامنا کیا، لیکن وہ اس سے قبل جرمنی میں‌ بھی اپنے ایک اعتراف کی وجہ سے جہاں مطعون کیے گئے، وہیں‌ ان کی اخلاقی دیانت کو سراہا بھی گیا اور انھیں‌ بہادر سمجھا گیا۔

    یہ 2006 کی بات ہے جس اُن کی آپ بیتی سامنے آئی اور جرمنی میں ان سے متعلق ایک بحث چھڑ گئی۔

    ’پیلنگ دی اونین‘ نامی کتاب میں اس ادیب نے اعتراف کیا کہ وہ ہٹلر کے دور میں‌ ایک نازی یونٹ میں شامل رہے۔ اس پر ایک حلقے نے انھیں بد دیانت اور ناقابلِ بھروسا کہا۔ ناقدین نے انھیں منافق کہہ کر ان کی اخلاقی حالت اور کردار پر سوال اٹھائے، لیکن انہی میں‌ وہ آوازیں‌ بھی تھیں‌ جنھوں‌ نے اس ادیب کی اخلاقی جرات کو سلام پیش کیا۔

    گنٹر گراس کی زندگی اور تخلیقی سفر پر ایک نظر ڈالیں تو کہا جاسکتا ہے کہ انھوں‌ نے بہت لکھا اور خوب لکھا۔ 1961 میں ’کیٹ اینڈ ماؤس‘ اور 1963 میں ’ڈاگز ایئرز‘ کے ساتھ انھوں نے ہٹلر کے زمانے کی وہ روداد تحریر کی جس سے جرمن قوم کا احساسِ جرم جھلکتا ہے۔ ان کی ادبی تخلیقات کو بہت پسند کیا گیا۔

    ان کے نازی سپاہی رہنے اور اسرائیل پر ان کی نظم پر شور اور تنقید سے ہٹ کر انھیں آج بھی باکمال تخلیق کار مانا جاتا ہے۔ وہ ایک صرف ادیب ہی نہیں گیت نگار اور مجسمہ ساز بھی تھے۔ گراس وہ ادیب تھے جو اپنی کتب کے سرورق خود بناتے تھے۔

    گراس کو ایک بھرپور اور توانا لکھاری کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • انصاف (ایتھوپیا کی ایک دل چسپ کہانی)

    انصاف (ایتھوپیا کی ایک دل چسپ کہانی)

    ایک دن ایک عورت بکریوں کی تلاش میں نکلی جو اپنے ریوڑ سے بچھڑ گئی تھیں۔ وہ ان کی کھوج میں کھیتوں میں اِدھر اُدھر پھرتی رہی، لیکن بے سود۔

    آخر کار وہ سڑک کے قریب پہنچی۔ یہاں ایک بہرا آدمی اپنے لیے کافی بنارہا تھا۔ عورت کو معلوم نہیں تھا کہ وہ بہرا ہے۔ اس نے اس سے پوچھ لیا، ”تم نے ادھر میری بکریاں دیکھی ہیں؟“

    بہرا آدمی سمجھا، وہ پانی کا پوچھ رہی ہے۔ اس نے دریا کی طرف اشارہ کردیا۔ عورت نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دریا کی جانب چل پڑی۔

    یہ محض اتفاق تھا کہ اسے وہاں بکریاں مل گئیں۔ بس ایک میمنا چٹان سے گر کر اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھا تھا۔ اس نے اسے اٹھا لیا۔ جب وہ بہرے آدمی کے قریب سے گزری تو اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے رک گئی اور اس کی مدد کے عوض اسے میمنا پیش کردیا۔

    بہرا آدمی اس کی بات نہ سمجھ سکا۔ جب اس نے میمنا اس کی طرف کیا تو وہ سمجھا عورت اسے میمنے کی بدقسمتی کا ذمے دار قرار دے رہی ہے۔ وہ ناراض ہوگیا۔

    ”میں اس کا ذمے دار نہیں۔“ اس نے واویلا کیا۔

    ”لیکن آپ نے مجھے راستہ دکھایا تھا۔“عورت بولی۔

    ”بکریوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔“ آدمی بولا۔

    ”لیکن یہ مجھے ادھر ہی ملیں، جہاں آپ نے بتایا تھا۔“

    آدمی غصے سے بولا ”چلی جاؤ اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ یہ میمنا میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“

    لوگ اکھٹے ہوگئے اور ان کے دلائل سننے لگے۔ عورت نے انھیں بتایا، ”میں بکریوں کی تلاش میں تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ دریا کے قریب ہیں۔ اب میں اسے یہ میمنا دینا چاہتی ہوں۔“

    آدمی غصے سے چیخا۔ ”تم میری توہین نہ کرو۔ میں نے اس کی ٹانگ نہیں توڑی۔“ اور ساتھ عورت کو تھپڑ رسید کردیا۔

    ”آپ دیکھ رہے ہیں، اس نے مجھے مارا ہے۔ عورت مجمع سے مخاطب ہوئی۔ میں اسے منصف کے پاس لے کر جاؤں گی۔“

    اس طرح اپنے بازوؤں میں میمنا اٹھائے عورت، بہرا آدمی اور تماش بین منصف کی طرف چل پڑے۔

    منصف ان کی شکایت سننے گھر سے باہر آگیا۔ پہلے عورت نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ پھر آدمی نے اپنی داستان سنائی۔ آخر میں مجمع نے منصف کو صورت حال بتائی۔ منصف اپنا سَر ہلاتا رہا۔

    بہرے آدمی کی طرح وہ بھی کچھ نہ سمجھ سکا۔ اس کی نظر بھی کم زور تھی۔ آخر اس نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔ لوگ چپ ہوگئے۔

    اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔”اس طرح کے گھریلو جھگڑے بادشاہ اور کلیسا کے لیے بے عزتی کا باعث ہیں۔ پھر اس نے اپنا رخ آدمی کی طرف کیا، ”اپنی بیوی سے برا سلوک چھوڑ دو۔“

    اب وہ عورت سے مخاطب ہوا۔ ”تم سست ہوگئی ہو۔ اپنے میاں کو وقت پر کھانا دیا کرو۔“

    اس نے پیار سے میمنے کی طرف دیکھا۔”خدا اسے لمبی عمر دے اور یہ آپ دونوں کے لیے خوشی کا باعث ہو۔“

    مجمع تربتر ہوگیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے،

    ”واہ کیا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں کتنا فاصلہ طے کرنا پڑا۔“

    ( اس کہانی کے مصنف کا نام حماتوما ہے اور اس کے مترجم حمید رازی ہیں)

  • وکٹر ہیوگو سے ملیے

    وکٹر ہیوگو سے ملیے

    وکٹر ہیوگو دنیائے ادب کے ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہے جن کا نام اور کام صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود آج بھی زندہ ہے۔

    وکٹر ہیوگو کا وطن فرانس ہے۔ اس لکھاری نے ناول نگاری، ڈراما نویسی اور شاعری بھی کی اور ہر صنفِ ادب میں اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔

    وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا اور شاعر و ادیب ہی نہیں صحافی اور سیاست داں بھی تھا۔

    اُنیسویں صدی کے اس نام ور لکھاری کی شہرت کا سفر بہ طور شاعر شروع ہوا تھا، اور بعد میں ناول نگار کے طور پر مقبولیت حاصل کی۔

    اس فرانسیسی ادیب کا ایک ناول لیس مزرایبل عالمی ادب میں عظیم اور بڑا ناول شمار ہوتا ہے جس پر فلم بھی بنائی گئی۔ اس کے علاوہ دیگر ناولوں کی شہرت اور مقبولیت بھی آج تک برقرار ہے۔

    وکٹر ہیوگو نے اس دور میں سماجی حقائق اور رویوں کے ساتھ اور معاشرے کے مخلتف روپ کو اپنی تخلیقات میں‌ پیش کیا اور لوگوں کی توجہ حاصل کی۔

    وکٹر ہیوگو کے مشہورِ زمانہ ناول مزرابیل کا انگریزی کے علاوہ 22 مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جس میں اردو بھی شامل ہے۔ اس ناول کے لیے وکٹر ہیوگو نے 1845 میں قلم تھاما تھا اور کہتے ہیں یہ 1861 میں مکمل ہوا۔

    وکٹر ہیوگو کا سنِ پیدائش 1802 ہے اور اس کی زندگی کا یہ سفر 1885 تک جاری رہا۔

  • خوشی کا ماسک…

    خوشی کا ماسک…

    میں بندرگاہ کے کنارے کھڑا ان سمندری پرندوں کو دیکھ رہا تھا جو بار بار پانی میں غوطہ لگاتے اور بھیگتے ہوئے جسموں سے پانی جھاڑنے کے لیے اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے تھے۔

    ان کے پروں سے پانی پھولوں پر شبنم کی طرح ٹپک رہا تھا۔ میں محویت سے ان کا یہ کھیل دیکھ رہا تھا۔ سمندر کی سطح پر پھیلے ہوئے تیل نے سطح کو مزید چمک دار اور گہرا بنا دیا تھا۔ اردگرد کوئی جہاز نہیں تھا۔

    بندرگاہ پر کھڑی زنگ آلود کرینیں خاموش دکھائی دیتی تھیں۔ ساحلی عمارتوں پر سنسان ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ ویرانی کا یہ عالم کہ چوہے بھی اندر داخل ہوتے ہوئے گھبرائیں، لگتا تھا اس ساحل پر غیر ملکی جہازوں کی آمدورفت پر قد غن ہے۔

    یکایک ایک پرندہ ڈبکی لگا کر پھڑ پھڑاتا ہوا اڑا اور فضا میں بلند ہوکر دوبارہ سمندر میں غوطہ زن ہوا۔ لمحہ بھر بعد اس نے پھر گردن تک غوطہ لگایا اور پَر پھڑپھڑا کر، اپنا بدن ہولے ہولے تولتے ہوئے پرواز کی تیاری کرنے لگا۔

    میں نے محسوس کیا کہ اسے پانی سے چھیڑ چھاڑ میں مزہ آرہا ہے۔ اس وقت اسے خوراک کی طلب ہورہی تھی۔ جب تک سانس اس کا ساتھ دیتا، وہ پانی میں گردن ڈالے رکھتا لیکن اس کی چونچ شکار سے محروم رہتی۔ وہ ہمت نہ ہارتا۔

    میں دل میں سوچنے لگا کہ کاش میرے پاس اس وقت ڈبل روٹی کا ٹکرا ہوتا تو میں اسے یوں تھکنے، بھٹکنے اور تڑپنے نہ دیتا لیکن میں بذات خود بھوک سے بے تاب اور اس پرندے کی طرح بے بس تھا۔

    میں نے اپنے ہاتھ خالی جیبوں میں ڈال لیے اور اپنی خواہش دل میں دبا لی۔ دفعتاً کسی نے میرے کندھے پر زور سے اپنا ہاتھ رکھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، وہ ایک پولیس والا تھا۔

    مجھے اس کی یہ دخل اندازی بری لگی۔ جی چاہا اس کا ہاتھ جھٹک دوں اور دوبارہ معصوم پرندے کا نظارہ کرنے لگوں۔ اس وقت تک، جب تک اس پرندے کی چونچ میں خوراک کا کوئی ٹکڑا نہ آجائے لیکن اب تو میں خود اس سپاہی کے شکنجے میں شکار کی طرح پھنسا ہوا تھا۔

    ”کامریڈ“! اس نے میرے کندھے پر دباؤ ڈال کر کہا۔

    ”جی جناب!“ میں نے عاجزی سے جواب دیا۔

    ”جناب؟ جناب کوئی لفظ نہیں، یہاں سب لوگ کامریڈ ہیں۔“ اس کی آواز میں واضح طنز تھا۔

    ”آپ نے مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے؟ کیا مجھ سے کوئی جرم سرزد ہوگیا ہے؟“

    وہ مسکرایا۔”تم مغموم نظر آتے ہو۔“ اس کی بات سن کر میں کھلکھلا کر ہنسا۔

    ”اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟“ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا۔

    میں سوچ رہا تھا کہ شاید وہ اس وقت بیزاریت کا شکار ہے اس لیے غصہ دکھا رہا ہے۔ آج شاید ساحل پر اسے کوئی شکار نہیں ملا۔ نہ کوئی نشے میں دھت مئے نوش اور نہ کوئی جیب تراش۔ لیکن چند لمحوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ واقعی غصّے میں ہے۔

    اب اس نے دوسرا ہاتھ بھی بڑھایا اور مجھے قابو کرلیا۔ اس وقت میری حالت اس پرندے جیسی تھی جو جال میں پھنس گیا ہو اور نکلنے کے لیے پھڑپھڑا رہا ہو۔ اس کی گرفت میں پھنسے ہوئے سمندر کو اپنی نظروں میں سمویا اور اپنے صیاد کے پہلو میں چلنے لگا۔

    پولیس کی گرفت میں آنے کا مطلب یہی ہے کہ اب لمبے عرصے کے لیے تاریکی میں دھکیل دیا جائے۔ جیل کا خیال آتے ہی میں اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آگیا اور ہکلاتے ہوئے کہا۔

    ”کامریڈ، میر اقصور تو بتائیے؟“

    ”قصور! اس ملک کا قانون یہ ہے کہ ہر شخص ہر وقت خوش نظر آئے۔“

    ”لیکن میں تو بے حد مسرور ہوں۔“ میں نے پورے جوش و جذبے سے جواب دیا۔
    ”بالکل غلط ۔“

    ”لیکن میں تو ملک میں رائج اس قانون سے ناواقف ہوں۔“

    ”کیوں؟ اس قانون کا اعلان چھتیس گھنٹے پہلے ہوا ہے۔ تم نے کیوں نہیں سنا؟ چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد ہر اعلان قانون میں بدل جاتا ہے۔“

    وہ اب بھی مجھے اپنے ساتھ گھسیٹے جارہا تھا۔ شدید سردی کے سبب میں بری طرح کانپ رہا تھا۔ بھوک نے الگ ستا رکھا تھا۔ میرا لباس جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا، شیو بڑھی ہوئی تھی، جب کہ اعلان کے مطابق ہر آدمی پر لازم تھا کہ وہ ہشاش بشاش نظر آئے۔

    تو یہ تھا میرا جرم……!

    تھانے جاتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ہر راہ گیر نے خوشی کا ماسک منہ پر چڑھا رکھا ہے۔ ہمیں دیکھ کر کئی راہ گیر رک جاتے۔ سپاہی ہررک جانے والے کے کان میں کچھ کہتا تو اس کا چہرہ مسرت سے چمکنے لگتا حالاں کہ مجھے لگ رہا تھا کہ ہر کوئی بولایا بولایا پھر رہا ہے۔

    صاف لگ رہا تھا کہ ہر کوئی پولیس والے کی نظروں سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

    ایک چوراہے پر ہماری ایک بوڑھے سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ وہ حلیے سے کوئی اسکول ماسٹر لگ رہا تھا، ہم اس کے اتنا قریب پہنچ چکے تھے کہ وہ بچ نکلنے سے قاصر تھا۔

    قاعدے کے مطابق اس نے بڑے احترام سے سپاہی کو سلام کیا اور میرے منہ پر تین بار تھوک کر کہا۔

    ”غدار کہیں کا۔“ اس کی اس حرکت سے قانون کے تقاضے تو پورے ہو گئے، مگر مجھے صاف محسوس ہوا کہ اس فرض کی ادائیگی سے اس کا گلا خشک ہوگیا ہے۔

    میں نے آستین سے تھوک صاف کرنے کی جسارت کی تو میری کمر پر زور دار مکّا پڑا۔ میں نے اپنی سزا کی طرف قدم بڑھا دیا۔

    اسکول ماسٹر تیز قدموں سے چلتا ہوا کہیں غائب ہوگیا۔ آخر ہم تفتیش گاہ پہنچ گئے۔ یکایک بیل بجنے کی آواز آئی جس کا مفہوم یہ تھا کہ سب مزدور اپنے اپنے کام چھوڑ دیں اور نہا دھوکر، صاف لباس پہن کر خوش و خرم نظر آئیں۔

    قانون کے مطابق فیکٹری سے باہر نکلنے والا ہر مزدور خوش نظر آرہا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ اس خوشی سے یہ تاثر ملے کہ وہ کام سے چھٹکارا پاکر بغلیں بجارہا ہے۔

    میری خوش بختی کہ بگل دس منٹ پہلے بجا دیا گیا۔ شکر ہے یہ دس منٹ مزدوروں نے ہاتھ منہ دھونے میں صرف کیے ورنہ قاعدے کے مطابق میں جس مزدور کے سامنے سے گزرتا، وہ تین مرتبہ میرے منہ پر تھوکتا۔

    مجھے جس عمارت میں لے جایا گیا تھا وہ سرخ پتھروں کی بنی ہوئی تھی۔ دو سپاہی دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ انہوں نے بھی میری پیٹھ پر اپنی بندوقوں کے بٹ رسید کیے۔

    اندر ایک بڑی سی میز تھی جس کے پاس دو کرسیاں پڑی تھیں اور میز پر ٹیلی فون پڑا تھا، مجھے کمرے کے وسط میں کھڑا کردیا گیا۔

    میز کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اور ایک اور شخص خاموشی سے اندر آیا اور اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ وہ سادہ لباس پہنے ہوئے تھا، جب کہ دوسرا فوجی وردی میں ملبوس تھا۔ اب مجھ سے تفتیش شروع ہوئی۔

    ”تم کیا کرتے ہو؟“

    ”ایک عام کامریڈ ہوں۔“

    ”تاریخِ پیدائش۔“

    یکم جنوری، 1901ء“

    ”یہاں کیا کررہے ہو؟“

    ”جی، میں ایک جیل میں قید تھا۔“ میرا جواب سن کر دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔

    ”کس جیل میں؟“

    ”جیل نمبر 12، کوٹھری نمبر 13۔ میں نے کل ہی رہائی پائی ہے۔“

    ”رہائی کا پروانہ کہاں ہے؟“ میں نے رہائی کے کاغذات نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے۔

    ”تمہارا جرم کیا تھا؟“

    ”جی میں ان دنوں خوش خوش دکھائی دے رہا تھا۔“ وہ دونوں پھر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

    ”کھل کر بات کرو۔“

    ”اس روز ایک بہت بڑا سرکاری افسر انتقال کر گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اعلان ہوا کہ سب لوگ سوگ میں شامل ہوں گے۔

    مجھے اس افسر سے کوئی دل چسپی نہ تھی اس لیے الگ تھلگ رہا۔ ایک پولیس والے نے مجھے یہ کہہ کراندر کروا دیا کہ میں سوگ میں ڈوبے عوام سے الگ تھلگ خوشیاں منا رہا تھا۔“

    ”تمہیں کتنی سزا ہوئی؟“

    ”پانچ سال قید…“ جلد ہی میرا فیصلہ سنا دیا گیا۔

    اس بار دس سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

    جی ہاں! خوشی سے کھلا ہوا چہرہ میرے لیے پانچ سال قید کا موجب بنا اور اب میرے مغموم چہرے نے مجھے دس سال کی سزا دلا ئی تھی۔

    میں سوچنے لگا کہ جب مجھے رہائی نصیب ہوگی تو شاید میرا کوئی چہرہ ہی نہ ہو۔

    نہ خوش و خرّم، نہ مغموم اور اداس چہرہ۔

    (یہ کہانی جرمن ادیب ہینرخ بوئل کی تخلیق ہے، اس کا اصل عنوان ” خلافِ ضابطہ” ہے)

  • مفلس لڑکے کی کہانی جسے دنیا بھر میں‌ پہچان ملی!

    مفلس لڑکے کی کہانی جسے دنیا بھر میں‌ پہچان ملی!

    یہ ڈنمارک کے اُس لڑکے کی کہانی ہے جسے کم عمری ہی میں کتابوں سے عشق اور مطالعے کا شوق ہو گیا تھا۔

    وہ ادیب بننا چاہتا تھا۔ گھر کے معاشی حالات نے اُسے مڈل کے بعد تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت نہ دی، لیکن جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، وہ بہت توجہ اور انہماک سے اسے پڑھتا اور اس سے کچھ سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا۔

    اس کے والد جوتیاں گانٹھ کر جو رقم حاصل کر پاتے، اس میں تو کنبے کا پیٹ بھرنا ہی مشکل تھا، دوسرے اخراجات کیسے پورے ہوتے۔ اسی غربت اور تنگ دستی کے دنوں میں ایک روز والد بھی دنیا سے چلے گئے۔ ان کے انتقال کے وقت وہ دس سال کا تھا اور اسے کسبِ معاش کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔

    اس یتیم بچے کی ماں چاہتی تھی کہ وہ لوگوں کے کپڑے سینے کا کام سیکھے تاکہ گزر بسر کی کوئی صورت بنے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

    لڑکے نے کوپن ہیگن جانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور ایک روز اسی ارادے سے گھر سے نکلا۔ اس کی جیب میں سواری کا کرایا نہ تھا اور وہ سڑک پر پیدل آگے بڑھ رہا تھا۔ ذہن طرح طرح کے خیالات کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ راستے میں ایک گھوڑا گاڑی والے نے اس پر ترس کھایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ یوں وہ کوپن ہیگن پہنچنے میں کام یاب ہو گیا۔

    اس لڑکے کا نام ہانز کرسچین اینڈرسن تھا۔ کوپن ہیگن پہنچ کر اُس نے کسی طرح اپنے دور کے ایک مشہور موسیقار سے ملاقات کا بندوبست کیا اور اس کے سامنے اپنے گھریلو حالات کے علاوہ اپنے ادیب بننے کی خواہش کا اظہار کردیا۔

    ہانز کرسچین اینڈرسن نے موسیقار کو بتایا کہ وہ پڑھنے لکھنے کے ساتھ رقص اور موسیقی میں بھی دل چسپی رکھتا ہے اور اب اس سلسلے میں اسے راہ نمائی اور مشاورت چاہیے۔ موسیقار نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کرلیا اور کوپن ہیگن میں اس کا بہت خیال رکھا۔ مقامی شاہی تھیٹر کے ڈائریکٹر سے کہہ کر اس لڑکے کی رہائش کا بندوبست بھی کروایا اور ساتھ ہی کہانیاں لکھنے پر آمادہ کر لیا۔

    ہانز کرسچین اینڈرسن نے اپنے محسن کے کہنے پر نہ صرف کہانیاں لکھنے لگا بلکہ جلد ہی ڈراما نویسی بھی شروع کردی اور کچھ ہی عرصے میں اپنے تخلیقی جوہر کو منوا لیا۔

    ہانز کرسچین اینڈرسن 1805 میں پیدا ہوا اور ایک ادیب کی حیثیت سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ بچوں اور بڑوں کے لیے اس کی تخلیقات کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس لکھاری کی مقبول ترین کہانیوں میں اسنوکوئن، اگلی ڈکلنگ، ماچس فروش اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔

    1835 میں ہانز کرسچین اینڈرسن کا پہلا ناول شایع ہوا جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس ناول کا جرمن زبان اور چند سال بعد انگریزی میں بھی ترجمہ شایع ہوا اور یوں اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔

    اینڈرسن نے پہلا ڈراما لکھا جو شاہی تھیٹر میں پیش کیا گیا تھا اور یوں ہر طرف گویا اس کی دھوم مچ گئی۔ اسی ڈرامے کی وجہ سے اسے شاہِ ڈنمارک کی جانب سے سالانہ وظیفہ ملنے لگا تھا۔

    اس نے بچوں کے لیے پریوں اور اس جیسے دوسرے دل چسپ کرداروں پر مبنی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا جو کتابی صورت میں شایع ہوئیں اور انھیں بے حد پسند کیا گیا۔ یہ کہانیاں اتنی مقبول ہوئیں کہ صرف تین سال کے دوران متعدد زبانوں میں ان کا ترجمہ ہوا۔ ڈنمارک کے نام ور ادیبوں نے ان کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا۔

    1875 میں اس عظیم لکھاری نے دنیا سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیا۔ اوڈنسے میں اینڈرسن کی یاد میں ایک عجائب گھر بنایا گیا ہے جہاں اس کی تحریریں، اس کے زیرِ استعمال مختلف اشیا جیسے رائٹنگ ٹیبل اور کرسی وغیرہ بھی رکھی گئی ہے۔ اسی عجائب گھر کے باہر اینڈرسن کا ایک بڑا مجسمہ بھی نصب ہے۔

    اس ادیب کی عظمت اور مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ چین کے شہر شنگھائی میں صرف اینڈرسن کی زندگی اور تخلیقات کا احاطہ اور نمائش کے لیے ایک تھیم پارک بنایا گیا ہے۔ اینڈرسن کی مشہور کہانیوں پر متعدد فلمیں بن چکی ہیں۔

  • ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    سویڈن: ادب کے شعبے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی جسے سویڈش اکیڈمی کہا جاتا ہے، نے ادب کے ایک پروفیسر کو اپنا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی نوبیل کمیٹی نے جنسی ہراسگی اسکینڈل کے بعد ادب کا نوبیل انعام معطل کر دیا تھا، جس کے بعد آخر کار کمیٹی نے نیا سربراہ کا انتخاب کر لیا ہے۔

    گوٹن برگ یونی ورسٹی میں ادبی نظریات کے پروفیسر ماٹس مالم کو نوبیل انعام برائے ادب کے حقدار کا انتخاب کرنے والی سویڈش اکیڈمی کے سربراہ بنا دیا گیا ہے۔

    54 سالہ پروفیسر مالم نے اپنی نام‍زدگی پر مسرت کا اظہار کیا، انھیں چار ماہ قبل سویڈش اکیڈمی میں شامل کیا گیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  جنسی ہراسگی‘ ادب کا نوبل انعام رواں برس نہیں دیا جائے گا

    اکیڈمی نے کہا ہے کہ اس سال 2019 کے ادب کے نوبیل انعام کے علاوہ 2018 کے لیے اس انعام کے حقدار کا اعلان بھی کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ 2017 میں اس کمیٹی کو در پیش ایک بڑے جنسی اسکینڈل کے بعد سے ہر سال ادب کا نوبیل انعام دیے جانے کا سلسلہ ابھی تک معطل ہے۔

    ادب کے شعبے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی کی خاتون ممبر کے شوہر اور کمیٹی سے وابستہ فوٹو گرافر جین ارنالٹ پر پہلی خاتون سیکریٹری سارا ڈینئس کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام تھا۔

    سارا ڈینئس کے استعفے کے بعد کمیٹی کی 6 مزید خواتین بھی مستعفی ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے کمیٹی کی 18 سیٹوں میں سے 7 سیٹیں خالی ہو گئی تھیں۔