Tag: عالمی اردو کانفرنس

  • مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے…

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے…

    جاپان ایک ایسا ایشیائی ملک ہے، جہاں ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے اردو کی تدریس جاری و ساری ہے۔ جاپان کے دو بڑے شہر اردو زبان کے فروغ کا مرکز رہے ہیں، جن کے نام ٹوکیو اور اوساکا ہیں اور یہاں کی جامعات سے اب تک سیکڑوں طلبا اردو کے مضمون میں سند یافتہ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے آگے چل کر تدریس، سفارت کاری سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نام کمایا۔ آج جاپان اور پاکستان کے درمیان مضبوط تعلق کی ایک وجہ زبان بھی ہے۔

    جاپان میں اردو کے ابتدائی نقوش

    اردو کا اوّلین مرکز ٹوکیو ہے، جہاں باقاعدہ طور پر 1908 میں تدریس کی غرض سے ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کی بنیاد رکھی گئی، جس میں دنیا بھر کی زبانوں سمیت اردو کی تعلیم کے لیے ’شعبۂ ہندوستانی‘ قائم ہوا، جس میں داخلہ لینے والے جاپانی طلبا کی تعداد پانچ تھی۔ 1911 میں شعبۂ ہندوستانی کو ترقی دی گئی اور اس کے پہلے مہمان استاد مولانا برکت اللہ تھے جو معروف علمی شخصیت محمود الحسن کے کہنے پر جاپان تدریس کی غرض سے گئے تھے۔

    جاپان میں ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کے شعبۂ ہندوستانی کے اوّلین استاد پروفیسر انوئی تھے جو تین برس تک اس شعبے سے وابستہ رہے، پھر ان کے بعد نمایاں استاد پروفیسر ریچی گامو ہیں، جن کا 1925 میں باقاعدہ طور پر جاپانی پروفیسر کی حیثیت سے شعبۂ اردو کے لیے تقرر ہوا۔ وہ اردو کی کلاسیکی داستان ’باغ و بہار‘ کے مترجم بھی تھے۔ جاپان میں پروفیسر گامو کو قبل از تقسیم ‘بابائے اردو’ کہا جاتا تھا۔ ان کے بعد پروفیسر تاکیشی سوزوکی بھی اردو تدریس کا ایک بڑا نام ہیں، جنہوں نے پہلی اردو جاپانی لغت پر کام کیا، اور تقسیمِ ہند کے بعد جاپان میں "بابائے اردو” کہلائے۔ ان دونوں بڑی شخصیات کے بعد غالب، اقبال، فیض کے کلیات کے جاپانی مترجم اور منٹو سمیت کئی بڑے ادیبوں کی کہانیوں کو جاپانی زبان میں ڈھالنے والے اردو اسکالر پروفیسر ہیروجی کتاؤکا ہیں، جن کی اردو سے وابستگی کا عرصہ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔

    1947 میں برِصغیر کی تقسیم کے بعد شعبۂ ہندوستانی کا نام تبدیل ہو کر شعبۂ اردو ہو گیا۔ 1949 میں ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کو یونیورسٹی کا درجہ مل گیا، جس میں شعبۂ ہندوستانی، دو مختلف شعبوں شعبۂ ہندی اور شعبۂ اردو میں تقسیم کر دیا گیا۔ اب یہ تعلیمی ادارہ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کہلاتا ہے، جس کے موجودہ سربراہ شعبۂ اردو جناب کین ساکو مامیا ہیں۔

    جاپان کے قونصل جنرل اور پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن (سندھ) کے اراکین کی کین ساکو مامیا کے ساتھ یادگار تصویر

    ٹوکیو اور اوساکا میں جو دیگر اردو کے جاپانی استاد نمایاں رہے، ان میں پروفیسر ساوا، پروفیسر جین، پروفیسر ہیروشی کان گایا، پروفیسر تسونیو ہماگچی، پروفیسر ہیروشی ہاگیتا، پروفیسر اسادا، پروفیسر میتسومورا، پروفیسر سویامانے اور دیگر شامل ہیں۔

    کراچی میں کین ساکو مامیا سے ملاقات 

    سترہویں عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے کین ساکو مامیا کراچی تشریف لائے، تو راقم نے بطور میزبان کانفرنس میں ان کے ساتھ ایک سیشن میں گفتگو کی جو بعنوان "جاپان، اردو کی زرخیز سرزمین” منعقد کیا گیا تھا۔ اس سیشن میں جاپان میں اردو اور پاکستان میں جاپانیوں کی حسین یادوں کا احاطہ کیا گیا۔ بعد میں کین ساکو مامیا نے اے آر وائی کی ویب سائٹ کے لیے اردو زبان میں خصوصی انٹرویو ریکارڈ کروایا۔ اس خصوصی انٹرویو کو آپ یہاں سن سکتے ہیں۔

    کین ساکو مامیا 1984ء میں اسکول کے طالبِ علم تھے جب انہوں نے پاکستان کی شاہراہ ریشم پر بنی ہوئی ایک دستاویزی فلم جاپانی زبان میں دیکھی اور اس ملک نے ان کی توجہ حاصل کی۔ بعد میں کین ساکو مامیا نے جامعہ کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کے دوران جنوبی ایشیا کو نقشے پر غور سے دیکھا اور پاکستان کے بارے میں مزید جاننے کا فیصلہ کیا۔یہ 1988 کی بات ہے، جب وہ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں ایم اے کے طالبِ علم تھے۔

    ایک موقع پر کین ساکو مامیا پاکستان آئے اور یہاں کے سب سے بڑے شہر کراچی، پھر لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور بھی گئے۔ آخر میں ان کا انتخاب حیدر آباد ٹھہرا، اور انہوں نے سندھ یونیورسٹی، جام شورو سے ایم فل کیا۔ اس سلسلہ میں پاکستان میں اپنے دو سالہ قیام کے دوران وہ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں بھی آتے جاتے رہے اور پاکستانی ثقافت سے بھی واقف ہوئے۔ پاکستان کا شہر اسلام آباد ان کو اب سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کے چار سال وہاں گزارے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں قائم جاپانی سفارت خانے میں کام کرتے تھے۔

    اردو زبان کے عاشق اور جاپان میں اردو کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے کین ساکو مامیا کا خیال ہے کہ جاپانیوں کو اردو زبان بولنے میں کوئی دقت نہیں ہے، البتہ اردو کا رسمُ الخط اور حروفِ تہجّی محنت سے سیکھا جاتا ہے۔ بالکل یہی صورتحال ان پاکستانیوں کو درپیش ہوگی، جو جاپانی زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ لسانیات کے اصولوں کے اعتبار سے دونوں زبانیں ایک دوسرے سے صوتی اعتبار سے کافی قریب ہیں۔ کین ساکو مامیا یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے شعبۂ اردو میں تدریسی اور روایتی تعلیم کے طور طریقوں کے ساتھ تخلیقی اور فنی پہلوؤں سے بھی طالبِ علموں کو اردو سے روشناس کروایا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اردو زبان میں اسٹیج ڈرامے بھی پیش کرتے ہیں، جن میں اردو زبان سیکھنے والے جاپانی طلبا حصہ لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فلموں کی نمائش کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہم جاپان میں اپنے طلبا کو شعیب منصور کی فلم "خدا کے لیے” سمیت کئی پاکستانی اور ہندوستانی فلمیں بھی دکھا چکے ہیں۔ ہندوستانی فلموں میں نندیتا داس کی فلم "منٹو” بھی شامل ہے۔

    کین ساکو مامیا پاکستان میں گزشتہ انتخابات کے موقع پر بطور آبزور تشریف لائے۔وہ پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں اور یہاں‌ کے تمام بڑے شہروں‌ سے بخوبی واقف ہیں۔ سندھ کی ثقافت میں ان کی دل چسپی اس قدر بڑھی کہ سندھی زبان بھی سیکھی۔ اردو زبان کے قواعد اور لسانی اصولوں میں گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اردو ادب اور خاص طور پر شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے طلبا کو بھی پڑھاتے ہیں۔

    اگر کبھی آپ ٹوکیو جائیں اور کین ساکو مامیا سے ملاقات کرنے کے لیے یونیورسٹی پہنچیں تو وہاں ان کا کمرہ آپ کو ایک چھوٹا سا پاکستان محسوس ہوگا۔ اس کمرے میں آپ کو اردو، سندھی اور پاکستان کی دیگر زبانوں کے نقش ملیں گے، کتابیں اور دیگر ثقافتی علامتیں سجی ہوئی دکھائی دیں گی۔ اپنے حالیہ دورۂ کراچی میں مرز اسد اللہ خاں غالب کا یہ شعر کین ساکو مامیا نے اکثر مواقع پر پڑھا اور میں اس ملاقات کا یہ احوال اسی شعر پر ختم کرنا چاہوں گا:

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

    جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

  • بازار جاتے ہوئے سر سے پیر تک مکمل ڈھکی ہوتی ہوں لیکن پھر بھی۔۔۔ماہرہ خان نے کیا کہا؟

    بازار جاتے ہوئے سر سے پیر تک مکمل ڈھکی ہوتی ہوں لیکن پھر بھی۔۔۔ماہرہ خان نے کیا کہا؟

    پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ ماہرہ خان نے انکشاف کیا ہے کہ وہ برقعہ پہن کر بازار جاتی ہیں تو بھی لوگ اُنہیں پہچان لیتے ہیں۔

    حال ہی میں اداکارہ ماہرہ خان نے عالمی اردو کانفرنس 2024 میں شرکت کی، کراچی اور لاہور کے بازاروں میں شاپنگ کرنے کے دلچسپ تجربے کے بارے میں بات کی۔

    اُنہوں نے بتایا کہ میں آج صبح ہی اپنی منیجر سے کہہ رہی تھی کہ تم لوگ مجھے مارکیٹ لے کر نہیں جاتے، میں نے سنا ہے تم لوگ مجھے وہاں برقع پہنا کر لے چلو۔

    ’’ماہرہ خان کے گھر کا ڈرائیور ہی چوری میں ملوث نکلا‘‘

    اداکارہ نے مزید بتایا کہ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک دو بار میں لاہور اور کراچی کے بازاروں میں برقع پہن کر گئی بھی ہوں لیکن لوگ میری آواز سے مجھے برقع پہنے ہوئے بھی پہچان لیتے ہیں۔

    ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ میں بازار جاتے ہوئے سر سے پیر تک مکمل ڈھکی ہوئی ہوتی ہوں لیکن جیسے ہی میں بولنا شروع کرتی ہوں لوگ مجھے پہچان لیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ ماہرہ خان ہیں نا؟ تو میں بے وقوفی کرتے ہوئے کہتی ہوں نہیں، تو میرا اس طرح بازار جانے کا پلان فیل ہوجاتا ہے۔

    اداکارہ نے مزید کہا کہ مجھے کراچی میں زینب مارکیٹ جانا بہت پسند ہے، مجھے میرا بچپن یاد آجاتا ہے،میں بازار جاتے ہوئے سر سے پیر تک مکمل ڈھکی ہوتی ہوں،

    اداکارہ نے مزید کہا کہ شکر ہے کراچی کا موسم کچھ بہتر ہوا ہے، ایسے ایونٹس کرنا بہت بڑی بات ہے، میں کراچی میں پیدا ہوئی، 21 دسمبر کو میری سالگرہ ہے، میرا گھر کراچی میں ہی ہے اور میرا تعلق اسی شہر سے ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ARY News (@arynewstv)

  • میں خود کو ابھی ’نانا‘ نہیں مانتا، شاہد آفریدی

    میں خود کو ابھی ’نانا‘ نہیں مانتا، شاہد آفریدی

    قومی ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کا کہنا ہے کہ میں خود کو ابھی ’نانا‘ تسلیم نہیں کرتا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق عالمی اردو کانفرنس کے سیشن ’میں ہوں کراچی‘ میں سابق کپتان شاہد آفریدی نے شرکت کی اور مختلف موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

    میزبان نے پوچھا کہ آپ کو نانا بن کر کیسا لگ رہا ہے؟

    جواب میں شاہد آفریدی نے کہا کہ میں ابھی خود کو نانا نہیں مان رہا جب تک میری پانچویں بیٹی کے بچے نہیں ہوں گے خود کو نانا تسلیم نہیں کروں گا۔

    شاہد آفریدی نے کہا کہ شاہین آفریدی کی انکوائری کی تھی جو کہ بیٹی کی شادی کے لیے ضروری بھی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شاہین کی فیملی نے ان پر شیروں والی نظر رکھی ہوئی تھی ظاہر سی بات ہے میری بیٹی ہے ایسے ہی کسی کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے۔

    سابق کپتان نے کہا کہ میرے بڑے اور شاہین کے اہلخانہ ایک دوسرے کے بارے میں اچھی طرح جانتے تھے، انڈر 19 اور انڈر 16 جن کوچز کے انڈر شاہین نے کھیلا سب نے اس کی تعریف کی تھی۔

    کرکٹ سے متعلق انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا میں مجھ سے بال چبانے والا معاملہ بس ہوگیا تھا نہیں معلوم کیسے ہوا تھا۔

    شاہد آفریدی نے کہا کہ عزت اور ذلت دونوں اللہ کے ہاتھ میں ہے، سارا معاملہ یقین کا ہوتا ہے، اسپاٹ فکسنگ کا پتا چلا تو مینجمنٹ کو بتا دیا تھا۔

    سابق کپتان نے کہا کہ نہ لڑکے سمجھے اور نہ مینجمنٹ سمجھی، اگر کسی کے ساتھ غلط کرتے ہیں تو پھر آپ کے ساتھ بھی غلط ہی ہوتا ہے۔

    شاہد آفریدی مزید کہا کہ ملک میں ٹیلنٹ ہے لیکن ضائع بھی ویسے ہی ہوتا ہے اس کے لیے اکیڈمیز کا ہونا بہت ضروری ہے۔

  • ’’ماہرہ خان کے گھر کا ڈرائیور ہی چوری میں ملوث نکلا‘‘

    ’’ماہرہ خان کے گھر کا ڈرائیور ہی چوری میں ملوث نکلا‘‘

    کراچی: عالمی شہرت یافتہ پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان نے انکشاف کیا ہے کہ وہ عبایا پہن کر کراچی کے مختلف مقامات پر جاچکی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق 17ویں عالمی اردو کانفرنس ’میں ہوں کراچی‘ سیشن جاری ہے جس میں اداکارہ ماہرہ خان نے بطور مہمان شرکت کی۔

    انہوں نے کہا کہ شکر ہے کراچی کا موسم کچھ بہتر ہوا ہے، ایسے ایونٹس کرنا بہت بڑی بات ہے، میں کراچی میں پیدا ہوئی، 21 دسمبر کو میری سالگرہ ہے، میرا گھر کراچی میں ہی ہے اور میرا تعلق اسی شہر سے ہے۔

    ماہرہ خان نے کہا کہ میرا اور کراچی کا زندگی بھر کا تعلق ہے، مجھے زینب مارکیٹ جانا بے حد پسند تھا، مجھے میرا بچپن یاد آجاتا ہے۔

    انہوں نے انکشاف کیا کہ میں کئی بارعبایا پہن کر کراچی کے مختلف مقامات پر گئی ہوں۔

    اداکارہ نے گھر میں چوری کا حال سناتے ہوئے کہا کہ گھر کا ڈرائیور ہی چوری کی واردات میں ملوث تھا۔

    اس سے قبل ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ مجھے میرے شوہر کی طرف سے ملنے والے تمام تحائف بہت پسند ہیں لیکن میں نے اپنا پسندیدہ آخری تحفہ کھو دیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ کسی نے اسے چوری کر لیا ہے اور جس نے بھی ایسا کیا ہے وہ یقیناً جہنم میں جائے گا کیونکہ میرے شوہر کا خیال ہے کہ میں نے اسے جان بوجھ کر کھو دیا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔

    ماہرہ خان نے کہا تھا کہ میرے شوہر مجھے جتنے بھی تحائف دیتے ہیں، ان میں سے مجھے وہ خوبصورت چوڑیاں سب سے زیادہ پسند ہیں جو وہ مجھے ہر عید پر دیتے ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں ماہرہ خان اور سلیم کریم رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے جس کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھیں۔

  • عالمی اُردو کانفرنس کا تیسرا روز، اردو افسانے پر ادیبوں اور نقادوں کا اظہار خیال

    عالمی اُردو کانفرنس کا تیسرا روز، اردو افسانے پر ادیبوں اور نقادوں کا اظہار خیال

    کراچی: آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں چار روزہ چودھویں عالمی اُردو کانفرنس پورے آب و تاب سے جاری ہے، کانفرنس کے تیسرے روز پہلے سیشن ”اردو افسانے کا منظرنامہ“ کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت زاہدہ حنا اور عامر حسین نے انجام دی۔

    ”اردو افسانہ آزادی کے بعد اور اس کے امکانات“ پر خالد فتح محمد، ”پون صدی کے اردو افسانے میں ہیئت و اسلوب کے تجربات“ پر اسلام آباد سے آن لائن محمد حمید شاہد، ”آزادی کے بعد بدلتا انسانی سماج اور اردو افسانہ“ پر امجد طفیل، ”پچھتر برس میں کہانی کی تلاش“ پر اخلا ق احمد اور ”جدید افسانہ اور نئی معنوی تشکیلات“ کے موضوع پر بھارت کے شہر دہلی سے خالد جاوید نے آن لائن اظہارِ خیال کیا، نظامت کے فرائض اقبال خورشید نے انجام دیے۔

    زاہدہ حنا نے کہا کہ ہم اپنے افسانوں میں مختلف شہروں اور وہاں کے رہنے والوں کا عکس دیکھتے ہیں، کئی بڑے افسانہ نگاروں نے بہت خوب صورت اور اچھے افسانے لکھے ہیں جنھیں پڑھ کر تادیر قارئین یاد رکھتے ہیں، عامر حسین نے کہا کہ افسانہ نگاری میں حقیقت نگاری کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے گزشتہ سالوں میں اردو افسانے کی ترقی کی جو بات کی جا رہی ہے وہ اردو افسانے نے اس سے پہلے ہی کر لی تھی۔

    خالد جاوید نے دہلی سے آن لائن خطاب میں کہا کہ کسی بھی ادبی فن پارے میں زبان ہی وہ شے ہے جو سماج سے مکالمے کو پیش کرتی ہے، ہمارے افسانہ نگاروں نے جس چیز کو نظر انداز کیا ہے وہ افسانے کی زبان ہی ہے کیوں کہ زبان کے برتنے میں یہ نظر آ جاتا ہے کہ وہی بات کی جا رہی ہے جو نظر تو آتی تھی مگر زبان اسے کہہ نہیں پا رہی تھی، انھوں نے کہا کہ زبان کی خاموشی کو اس کا جائز مقام دینے والے افسانہ نگار بہت کم ہیں۔

    اخلاق احمد نے کہا کہ ہمارے افسانہ نگار یا مختصر کہانی نویس کسی بھی دوسرے بڑے کہانی نویس سے کم نہیں ہیں، میں چالیس برس سے یہ سن رہا ہوں کہ اردو افسانہ ختم ہوگیا ہے اور یہ باتیں اب بھی جاری ہیں مگر میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہ کہنے والوں سے سوال ضرور پوچھوں کہ انہوں نے آخری افسانہ یا کہانی کب اور کس کی پڑھی تھی۔

    امجد طفیل نے کہا کہ جو قومیں اپنی ناکامی کو یاد نہیں رکھتیں وہ کبھی بھی اپنا بہتر مستقبل نہیں دیکھ سکتیں، ہجرت کے وقت جو انتقالِ آبادی ہوا اس وقت اگر ان مسائل کو درست انداز میں حل کر لیا جاتا تو وہ بحران کبھی پیدا نہیں ہوتا جس سے ہم آج بھی نبرد آزما ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سماج میں جو بھی تبدیلیاں آرہی تھیں یا جو تبدیلیاں آنے والی تھیں ہمارا افسانہ نگار انہیں پیش کر رہا تھا۔

    محمد حمید شاہد نے اسلام آباد سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پون صدی کے افسانے دیکھیں گے تو بہت کچھ بدلا ہوا نظر آئے گا جس کا ادراک سعادت حسن منٹو اور دیگر افسانہ نگاروں کو بھی تھا، انہوں نے کہاکہ افسانے کو اس کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے جب وجود ہی میں اتنی اُتھل پُتھل ہو تو وہاں ایک افسانہ نگار کس طرح لکھ سکتا ہے کہ جس کا بیانیہ بھی ہموار ہو۔

    خالد فتح محمد نے کہا کہ اردو افسانہ اردو فکشن کا ایک مضبوط ستون رہا ہے، پریم چند کو جدید اردو افسانے کا جدامجد کہا جاسکتا ہے، اردو افسانے کو پریم چند نے زندگی کے ساتھ جوڑا تھا، آزادی کے پہلے دن ہی سے دھوکہ دہی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہوا جو آج تک جاری ہے، تقسیم کے بعد افسانے میں تبدیلیاں آنا شروع ہوگئی تھیں۔

    ”مشتاق احمد یوسفی – سو برس“ کے عنوان سے بھی ایک سیشن کا انعقاد ہوا۔ نشست سے مستنصر حسین تارڑ اور اسلام آباد سے افتخار احمد نے آن لائن اظہارِ خیال کیا جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر فاطمہ حسن نے انجام دیے۔

    مستنصر حسین تارڑ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو جاننے کے لیے اُس کے قریب رہنا ضروری نہیں، ادیب اپنے ادب کی تخلیق میں ہوتا ہے، مشتاق احمد یوسفی سے میں نے بہت کچھ سیکھا، جس طرح قرة العین اور بیدی دوسرے نہیں مشتاق احمد یوسفی بھی ایک ہی ہے۔

    جس زمانے میں وہ لندن میں موجود تھے تو اُس وقت اُنھوں نے مجھے وہاں سے ایک خط ارسال کیا جو آج تک میرے پاس محفوظ ہے، انھوں نے ازراہِ تفنّن کہا کہ ہم میں سے بہت سے سینئر لوگ پڑے پڑے سینئر ہو جاتے ہیں کیوں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آپ کی دانش میں بھی اضافہ ہو، مشتاق احمد یوسفی نے جو لکھا وہ کمال لکھا، وہ بہت بڑے نثر نگار تھے۔

    افتخار عارف نے کہا کہ ہمارے زمانے میں بڑے بڑے مزاح نگار پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے اس شعبے میں بہت عمدہ کام کیا ہے، ان سب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر ان سب مزاح نگاروں میں مشتاق احمد یوسفی اس طرح بڑے نظر آتے ہیں کہ دیگر میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ مشتاق احمد یوسفی کے لکھے ہوئے مضامین اپنے مخصوص رنگ کے باعث مختلف اور منفرد نظر آتے ہیں ، پاکستان کی اردو کی شناخت کے جو بڑے لوگ سامنے آئے ہیں اُن میں مشتاق احمد یوسفی کا نمایاں مقام ہے۔

  • رواں برس عالمی اردو کانفرنس کس طرح منعقد ہوگی؟

    رواں برس عالمی اردو کانفرنس کس طرح منعقد ہوگی؟

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے سب سے بڑے ثقافتی و ادبی اجتماع عالمی اردو کانفرنس کی رونقیں بھی کرونا وائرس کے باعث ماند پڑ گئیں، رواں برس عالمی اردو کانفرنس آن لائن منعقد کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد کے آرٹس کاؤنسل کے صدر احمد شاہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے تصدیق کردی کہ رواں برس تیرہویں عالمی اردو کانفرنس آن لائن منعقد کی جائے گی۔

    احمد شاہ کا کہنا تھا کہ عالمی اردو کانفرنس گزشتہ 12 برس سے ہورہی ہے اور یہ اس کا تیرہواں سال ہے، اس سال بھی کرونا وائرس کی وبا کے باوجود یہ مکمل اہتمام سے منعقد کی جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ ہر سال اردو کانفرنس کے موقع پر آرٹس کاؤنسل میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس بار اس میں عوام کی شرکت کو محدود کیا جارہا ہے۔

    احمد شاہ نے بتایا کہ اس سال بھی نہ صرف پورے ملک بلکہ پوری دنیا سے مہمان و معززین کانفرنس میں شرکت کریں گے تاہم بڑی عمر کے معززین، مصنفین، شاعر اور اہل ادب، جن کی صحت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، اس سال آن لائن شرکت کریں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ بھارت سے معروف شاعر گلزار اور ان کی اہلیہ و اداکارہ شبانہ اعظمی بھی آن لائن اس کانفرنس میں شرکت کریں گی۔

    احمد شاہ کے مطابق کانفرنس میں سیشنز حسب معمول منعقد ہوں گے البتہ عام افراد کا داخلہ ممنوع ہوگا، اس کی کوریج کے لیے صحافیوں کو داخلے کی اجازت دی جائے گی، علاوہ ازیں محدود تعداد میں مصنفین و شاعر حضرات بھی شریک ہوسکیں گے تاہم انہیں پہلے سے رجسٹریشن کروانی ہوگی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ 3 دسمبر کی شام 4 بجے سے شروع ہونے والی کانفرنس کے تمام سیشنز آرٹس کاؤنسل کے یوٹیوب اور فیس بک صفحات سے لائیو نشر کیے جائیں گے۔

    تیرہویں عالمی اردو کانفرنس 3 دسمبر سے 6 دسمبر 2020 تک منعقد کی جائے گی۔

  • بھارت میں منعقدہ اردو کانفرنس میں مدعو پاکستانی مہمانوں کے دعوت نامے منسوخ

    بھارت میں منعقدہ اردو کانفرنس میں مدعو پاکستانی مہمانوں کے دعوت نامے منسوخ

    اسلام آباد: بھارت نے حسب معمول ہٹ دھرمی اور انتہا درجے کے اوچھے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی اردو کانفرنس میں متوقع طور پر شرکت کرنے والے پاکستانی مہمانوں کے دعوت نامے منسوخ کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والی عالمی اردو کانفرنس کے لیے دنیا بھر کے کئی ممالک سمیت پاکستان سے بھی ادیبوں کو دعوت دی گئی تھی تاہم صرف 2 روز قبل بھارت نے پاکستانیوں کو آنے سے روک دیا۔

    بھارت نے نہایت بدتہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدعو کیے گئے مہمانوں کا دعوت نامہ منسوخ کردیا۔

    نئی دہلی میں عالمی اردو کانفرنس 18 سے 20 مارچ تک منعقد ہونی تھی جس کے لیے 9 پاکستانی ادیبوں کو دعوت دی گئی تھی۔

    خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر حملے کے بعد بھارت نے حسب معمول پاکستان پر الزام تراشیوں اور جنگی جنون کو ہوا دینے کا سلسلہ شروع کردیا تھا، بھارتی سیاستدان، اداکار اور میڈیا پاکستان کی مخالفت میں ہر حد سے گزر چکے ہیں۔

    اس سے قبل بھارت نے انٹرنیشل شوٹنگ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والے پاکستانی شوٹرز کو آخری وقت میں ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔ پاکستانی شوٹرز کی عدم شرکت سے ٹورنامنٹ متاثر ہوا جس کے بعد انٹرنیشنل شوٹنگ اسپورٹس فیڈریشن نے بھارت کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔

    فیڈریشن کا کہنا تھا کہ بھارت کی اس اوچھی حرکت سے اس کے کھلاڑیوں پر پابندی لگنے کا امکان ہے جبکہ بھارت کی اس حرکت کے بعد اس بات پر بھی نظر ثانی کی جارہی ہے کہ آئندہ بھارت کو کسی ٹورنامنٹ کا میزبان نہ بنایا جائے۔

  • عالمی اردوکانفرنس میں بچوں کے ادب کا خصوصی سیشن

    عالمی اردوکانفرنس میں بچوں کے ادب کا خصوصی سیشن

    کراچی: آرٹس کونسل میں جاری عالمی اردو کانفرنس میں بچوں کے ادب سے متعلق خصوصی سیشن منعقد ہوا جبکہ اس موقع پر کلینڈر کا اجرا بھی کیا گیا۔

    معروف شاعر ، ادیب اور جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی نے کہا ہے کہ کرپشن ذہنی بیماری ہے اور ذہنی بیمار لوگ کرپشن کے مرتکب ہوتے ہیں ، کرپشن کے خاتمہ ادبی سرگرمیوں کے فروغ اورتربیت سے ممکن ہے،بچوں کا ادب ناپید ہوتا جا رہا ہے، بچوں کے ادب کے ذریعے پہلے شخصیت کی تعمیر ہوتی تھی اور اب بچوں کے ادیب کم ہوتے جا رہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے ، ٹیکنالوجی کے نام پر ہم نے بچوں روبوٹس میں تبدیل کردیا ہے ۔بچوں کو موبائل ، لیپ ٹاپ اور ٹیب لیٹس کے بہ جائے کتاب اور کتاب دوست سرگرمیوں کے فروغ کی ضرورت ہے ۔ہم بچوں کے ادب کو نظر انداز کرتے جا رہے ہیں جو نئی نسل کی تربیت کا ذریعہ ہوتا ہے ۔

    وہ جہان مسیحا ادبی فورم اور ادویہ ساز ادارے کے زیراہتمام نئے سال کے موضوعاتی کیلنڈر کی تقریب رونمائی سے خطاب کر رہے تھے، سال 2019کے کیلنڈر کا موضوع’’ بچوں کا ادب،قومی تعمیر کا سبب ‘‘ رکھا گیا ہے ،35ہزار سے زائد کیلنڈر ڈاکٹروں،ادیبوں اور عام افراد میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ جہان مسیحا ادبی فورم اب تک 20موضوعاتی کیلنڈر کا اجراء کرچکا ہے۔

    تقریب سے ہمدرد فاؤنڈیشن کی صدر سعدیہ راشد، جہان مسیحا ادبی فورم کے سرپرست سید جمشید احمد، قائد اعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر،معروف صنعت کار ہارون قاسم، پروفیسر سلیم مغل،ڈاکٹر نثار احمد راؤ، ڈاکٹر مشہور عالم اور دیگر نے خطاب کیا۔

    ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی کا کہنا تھا کہ بچوں کاا دب تخلیق کرنا آسان کام نہیں ہے ،اس کے باوجود بہت سے شاعر اور ادیب کوشش کرتے ہیں کہ وہ بچوں کے لیے لکھ سکیں لیکن ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا،کیوں کہ یہ ایک بہت مشکل کام ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ لکھا جا رہا ہے جو انتہائی مختصر ہے اور پڑھنے والوں کو وہ پسند بھی نہیں ۔پیرزادہ قاسم کا کہنا تھا کہ ہر ادیب بچوں کے لیے لکھ نہیں سکتا یہ ایک خاص صلاحیت ہے جو خاص عطا کردہ ہے کہ بچوں کا ادب تخلیق کیا جائے۔

    ٹیکنالوجی کے اس دور میں بچوں کے لیے اچھا لٹریچر موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بچوں کی کتابوں سے دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے ، بچوں کی کتاب دوستی میں فرق پڑا ہے اور ان کی دلچسپی دوسری سرگرمیوں میں بڑھ گئی ہے، انہیں موبائل، لیپ ٹاپس اور ٹیبلیٹس کے نام پر دوسری سرگرمیاں میسر آچکی ہیں جو ان کی ذہنی صلاحیتوں کو ماند کر رہی ہیں ،، ان کا کہنا تھا کہ سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ بچوں کا ادب فروغ پانے سے بچوں میں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کا شوق بھی پیدا کرتا ہے ۔بچوں کی شخصیت کو نکھارتا اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے ۔

    ہمدرد فاؤنڈیشن کی صدر سعدیہ راشد کا کہنا تھا کہ میرے والد حکیم محمد سعید بچوں کے ادب کے سرخیل ہیں ، انہوں نے بچوں کے لیے نونہال رسالہ نکالا جو 50برس سے آج بھی شائع کیا جا رہا ہے اور اس رسالے نے ہزاروں بچوں کی زندگیوں کو سدھارا ہے اور ان کی شخصیت کو نکھارا ہے ۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یہ جو بچوں کے ادب پر مبنی کیلنڈر جاری کیا گیا اس میں ان کے والد اور نونہال کا ذکر کہیں نہیں ہے جو بدقسمتی کی بات ہے ۔

    انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جس طرح فوڈ اسٹریٹس بنائی گئی ہیں ایسے ہی بک اسٹریٹس بنائی جائیں تاکہ بچے وہاں جا سکیں کتابیں خرید سکیں اور اپنا وقت موبائل اور دیگر سرگرمیوں میں ضائع کرنے کے بہ جائے اپنا وقت کردار سازی اور اچھے سرگرمیوں میں صرف کر سکیں ۔جہان مسیحا ادبی فورم کے سرپرست سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ یہ ان کے ادارے کی جانب سے بیسواں کیلنڈر ہے جو بچوں کے ادب سے متعلق جاری کیا گیا ہے ، جس کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ پاکستان میں اردو زبان زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے ، اسکولوں میں بچوں پر زور دیاجاتا ہے کہ وہ انگریزی میں بات کریں، وہ والد جو کہ اسکول انتظامہ سے بات کرتے ہیں ان سے بڑا عامیانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے جبکہ انگریزی بولنے والے والدین کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں میں کتابیں پڑھنے کے رجحان کو عام کرنے کی ضرورت ہے ،وہ بھی ان کی اپنی مادری زبان میں ہو تاکہ وہ اپنی تہذیب سے آشنا ہو سکیں ۔قائد اعظم اکیڈمی کے سربراہ خوجہ رضی حیدر نے کہا کہ اس کیلنڈر کے لیے انہوں نے بچوں کی سینکڑوں کتابیں اور رسائل وجرائد کا مطالعہ کیا ۔کیلنڈر کے بارہ صفحات کے لیے 12شخصیات اور بچوں کے لکھاریوں کا انتخاب کوئی آسان کام نہیں تھا ۔

  • اردو ادب نے ہمیشہ ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں کردار ادا کیا، وزیراعلیٰ سندھ

    اردو ادب نے ہمیشہ ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں کردار ادا کیا، وزیراعلیٰ سندھ

    کراچی: وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ اردو ہم سب کے لیے محبت اور آپس میں جوڑنے والا رشتہ ہے، کراچی اردو بولنے والوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے عالمی اردو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اردو کانفرنس میں شرکت میرے لیے اعزاز ہے، اردو ادب نے ہمیشہ ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔

    وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ لسانی سیاست کرنے والوں نے کراچی کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا، کراچی والوں نے منفی قوتوں کو مسترد کردیا ہے، شہری کراچی میں امن کی بحالی کے لیے ساتھ دے رہے ہیں۔

    مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی پاکستان اور سندھ کا سب سے بڑا اہم شہر ہے، یہاں رہنے والے تمام طبقے ہم آہنگی سے رہتے ہیں، ہمارا بڑا ہدف یہ ہے کہ ترقی کی رفتار کو تیز کیا جائے۔

    وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آرٹس کونسل نے امن و ثقافتی سرگرمیوں کی بحالی میں کردار ادا کیا، انہوں نے اردو کی نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض کے انتقال پر گہرے دکھ و افسوس کا اظہار کیا۔

    واضح رہے کہ آرٹس کونسل کراچی میں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز ہوگیا ہے، چار روزہ عالمی اردو کانفرنس میں دنیا بھر سے ادبی شخصیات شریک ہیں۔

    افتتاحی اجلاس میں مجلس صدارت کے اراکین میں بھارت سے آئی ہوئی نورظہیر، جرمنی سے آئے ہوئے عارف نقوی سمیت مستنصر حسین تارڑ، اسد محمد خاں، افتخار عارف، رضا علی عابدی، پیرزادہ قاسم، مسعود اشعر، امینہ سید ودیگر شامل تھے۔

  • کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے

    کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے

    کراچی: صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے کہا ہے کہ کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے آرٹس کونسل کے منظر اکبر ہال میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا، انھوں نے کہا کہ آرٹس کونسل کے زیرِ اہتمام گیارہویں اردو کانفرنس 22 نومبر سے شروع ہو رہی ہے جو کہ 25 نومبر تک جاری رہے گی۔

    [bs-quote quote=”اردو کانفرنس کے آغاز کے بعد کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں مختلف کانفرنسز اور ادبی فیسٹیولز کا اجرا ہوا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_job=”احمد شاہ”][/bs-quote]

    ان کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس میں دنیا بھر سے فلسفی، محقق، ادیب اور شاعر شامل ہوں گے۔ کانفرنس میں شامل ہونے والوں کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہو گا جن میں ہندوستان، امریکا، چین، جرمنی اور برطانیہ سرِ فہرست ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس میں ادب، ثقافت، موسیقی، شاعری، ڈراما، فلم، تعلیم، زبانوں، رقص، مصوری، اور صحافت کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔

    احمد شاہ کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس کے آغاز کے بعد کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں مختلف کانفرنسز اور ادبی فیسٹیولز کا اجرا ہوا، ان سرگرمیوں کی مدد سے ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کر رہے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  جب آنگن میں‌ ستارے اتریں گے، گیارہویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز 22 نومبر کو ہوگا


    احمد شاہ نے میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے اردو کانفرنس کو ترویج دینے میں بہت معاونت کی، میڈیا ہی کی وجہ سے اس وقت عالمی اردو کانفرنس آرٹس کونسل کی ایک بین الاقوامی برانڈ بن چکی ہے۔

    پریس کانفرنس میں سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز فاروقی، معروف ادیبہ حسینہ معین اور تھیٹر کی نامور شخصیت طلعت حسین بھی موجود تھے۔

    اردو کانفرنس میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا دوسرا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوراڈ فلم اور ٹی وی کے شعبے میں ضیا محی الدین کو دیا جائے گا جب کہ کانفرنس کے پہلے روز نام ور شاعر جون ایلیا کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا جائے گا۔